کُچھ لوگ ساری زندگی نقالی میں گُزار دیتے ہیں. سوچتے ہیں کہ انہوں نے شخصیت پرستی نہیں کی جبکہ نقال شخصیت پرست ہوتا ہے اور وہ لوگ جو من کی صدائیں سنتے ہوئے ان پر عمل کرتے ہیں ان کی زندگی میں مشاہدات ، تجربات اندرونی عوامل کو متحرک کرتے ہیں. انسان اس لیے ہیدا نہیں کیا گیا کہ بیرونی دنیا کو کھوجے جبکہ اندر کی دنیا کھوج بنا مر جائے. ایسے لوگ ماسوا حسرت کے کیا اس جہاں سے لے جاسکتے ہیں. جن کی اپنی.تلاش کے سوت اک بڑے مرکزی دھارے سے مل جاتے ہیں ان پر عیاں ہوجاتا ہے کہ دنیا میں انسان مسافر ہے. اس کی مثال مٹی کے بت جیسے ہے جس کو روح نے جان دی ہے. روح کے لباس کئ ہوسکتے ہیں مگر سعید روحیں "نور " ازلی و ابدی کی حقیقت کو پالیتیں ہیں اور جان لیتی ہیں کہ موت کی ساعت وصل کی منتہی کا نام ہے.
وصال کیا ہے؟ موت کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ انسان کیا ہے؟ انسان مٹی کا پتلا ہت جس نے پتھروں کی دنیا میں دل پتھر کردیا.انسانی دل جب ٹوت جاتا ہے تو کبھی چشمہ پھوٹ جاتا ہے تو کبھی پانی مل جاتا ہے تو کبھی پانی کو راستہ مل جاتا ہے. .انسانی دل کی زمین کو پانی تخریب سے مل جاتا ہے. جب چشم پھوٹ جاتا ہے تو خون میں "ھو " "ھو " کی صدا ٹکراتی رہتی ہے. جب انسان مکمل "ھو " کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے تو وہ ""مطیع الرسول و اللہ " " ہوتا ہے. وہ نقال کے بجائے راہ کی سمت دیتا ہے اور اس کو ابدی ہاتھ خود اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں تب وہ وصل و موت کی حقیقت کا راز شناس ہو جاتا ہے
نور