کَہو نا نعت کوئی دل اداس ہے
پتا چلے گا کون دل کے پاس ہے
نَہیں خالی دل میرا، مسکن بَنا ایسی ہستی کا،
کہ پہنے وہ پوشاکِ نوری،
وہ خاتونِ جنت!
وہ گفتار میں عالی، ملکہ مرے دل کی
وہ ہیں سیدہ فاطمہ زہرا،
جو اپنے ہیں بابا کی لاڈلی
محبت کو حرفوں میں کیسے تراشوں
کہ میں ضبطِ تحریر لاؤں
مقدر میں وہ حرف بکھرے پڑے ہیں
درودوں کے گجرے دھرے کے دھرے ہیں
یہ احساس پھر مجھ کو ہونے لگا ہے.
خموشی اصل گفتگو ہے
یہی راز ہے جستجو کا
صدا دل سے آئی
لکھا ہے نا، دل ـ دل کا راقم ہے بنتا
لکھا ہے نا، سجدہ فنا بعد ملتا
لکھا ہے نا، یہ بھی! جبیں پر کشش کے بنے دائرے یہ جہاں زیر کردیں
کہ جیسے الکڑانز رواں دائروں میں
کہ جیسے ہوں سورج بھی افلاک کے گرد،اے دل!
قسم ہے، دلوں کی حرکت جو ہے آپ کے دم سے وہ ہے
یہ عالم اجالے بکھیرے ہے جائے
یہی آپ کے دم سے ہے،
وہ فانوسِ عالی، وہ قندیل روشن
وہ جاویداں ہستی،
ہے نسبت مجھے ان سے، جن سے زمانہ منور ہے
تو اے شہزادی، یہ فانوس رنگو بو کا سیلاب ہو گویا
سلامِ شوق بہ عزت محترم عالی وجود کو
سلام شوق بہ تہہِ دل کہ دل میں ماسوا کیا ہے؟
سلام شوق بہ مو مو کہ ذکر میں رہا ہے، مگر حق ادا نہ ہوا
سلام شوق مادرِ عالی حسنین کو کہ جن کہ بیٹوں نے قربانی دی ایسی
کہ سر کٹا کے حق کا اثبات کردیا
اللہ اللہ اللہ