دو آنکھیں ---- وہ سرمئی مائل پرکشش آنکھیں، جب بھی کوئی کام کرتا وہ آنکھیں اسکا تعاقب کرتیں. بچپن سے لے کے جوانی تک وہ ہرکام انہی آنکھوں کے اشارے سے کرتا آیا .... کبھی کبھی اسکا دل چاہتا ان آنکھوں کو اپنی مرضی کے رنگ دے اور کینوس پے اتار دے یہ سب .... ایسا کرنے کو سوچتا مگر کاموں کے چکر میں بھول جاتا
اک دن برش اُٹھایا اور بناتا چلا گیا ہر نقش و اشارہ، یہ استعارات جن کی وجہ سے وہ رستہ بھٹک نہیں پاتا تھا. وہ چاہتا تھا درون سے خارج میں اس سب کو نقش کرلے .....درون سے نکلنا آسان نہ تھا مگر دلجمعی سے یہ کام کرتا گیا ....
جب اس نے آنکھیں کینوس پے منتقل کیں ..وہ کینوس پے دھڑک رہی تھیں مگر وہ آنکھیں دکھنا بند ہوگئیں ... دنیا اندھیر ہوگئی اسکی ... وہ پریشان رہنے لگا اور پھر ان آنکھوں سے جس دلجمعی سے بنایا تھا، اسی شدت سے کینوس سے اکھاڑ پھینکا
خدا پتا دے گا، پتا ہے جس کا لا پتا
فنا سے قبل، فنا کا کہنا جرم ہے کڑا
اندھا ہوگیا وہ ---- اسکی آنکھیں چھن گئیں، مثلِ یعقوب وہ اپنے یوسف کو رویا بُہت .... سجدے ٹکر بنتے گئے، رکوع میں نیاز مندی مگر رہی .. ---- تہجد کو اٹھنے لگا، گڑگڑانے لگا، مگر اشک تو جیسے بہنے کا صلہ نہ دیں اور آنکھیں بھی اندھی نہ ہوں
نہ وہ دکھے، جو دکھتا پہلے چار سو تھا
وہ رنگ و بو کا نظارا پہلے کو بہ کو تھا
نگر نگر بکھر گئے یہ خاک دل کا ذرہ ذرہ
خودی کے جام پی کے نظارہ طور ہوا تھا
دعا سے سراپا دعا بن گیا، التجا والا دل مجسم تھا، اسکا وجود اشک ریز ..توانائی جاتی رہی جیسی رمق زندگی کا نہ رہے مگر کام عشق کار مستقل ہے ....! وہ سجدے والا سر، بسجدہ رہنے لگا ... میکدہ مگر خالی ... اک دن روشنی ہوئی مگر عجب طرز لیے، عجب بو لیے. دیواریں شفاف ہوگئیں راستے سمٹ گئے ..دیوار کے پار آنکھ والا دکھنے لگ گیا ... وہ وہیں پے مرگیا ---- مرنے سے پہلے مرگیا تھا وہ