Monday, February 22, 2021

دل ‏اک ‏صحیفہ ‏ہے

رکیے، ٹھہر جائیے 
بھلا کیوں؟
جلوہ دکھے گا جب نظر اٹھے گی 
نظر اٹھے گی؟
اٹھے نہ اٹھے، روشنی ملے گی 
پھر رکنا محال ٹھہرا 
لا یدرکہ الابصار کا استعارا کھل گیا 
ہم ہے نہیں، سب نگاہوں میں وہ ہے 
لطافتیں عنایت کردے تو اچھا ہے
 ورنہ صم بکم کے تالے ہیں 
یہ آنکھ سرمہِ نجف پائے تو دیکھے 
یہ جہاں اور ہے، وہ جہاں اور ہے 
خامہ متحرک، لب صامت ہیں 
خیالِ درود میں اک شبیہ طاری ہے 
انہیں سے ملو، جن کی سواری ہے 
ہستیاں سب مبارک لوح پر موجود ہیں 
بس قران پڑھ، تنزیل کی باری ہے

صحیفہ ہوتا ہے اور پاک ہوتا ہے. جب صحیفہ پڑھا جاتا ہے تو روح پہ نشان لگ جاتا ہے. جس پہ حق کی مہر لگ جائے تو وذھق الباطل والی بات بن جاتی ہے. نگاہیں پھر سرمگیں اور جذب رسائی تلک چلا جاتا ہے . یہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات ہے جس سے ہماری بگڑیاں بن رہی ہیں. وگرنہ رنگ دل کو لگتا نہیں . رنگ لگاؤ! بھلا کیوں؟  خدا فرماتا ہے صبغتہ اللہ ہی بہتر ہے. بس رنگ لوں خود کو ورنہ دیر نہ ہو جائے؟  
یہ بھی مشکل ہے کہ اظہار میں بیقراری نہ ہو اور رنگے جانے میں تاخیر!  وگرنہ سارے مارے جاتے ہیں 

سارے پڑھو درود 
سرکار آگئے صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
شہید زندہ ہوتے ہیں، انبیاء کا مقام بہت بلند ہے.

جب حرف متکلم ہوں تو دل نماز ہو جاتا ہے. جب کچھ جاننے لگ جاؤ تو خامشی کو در وا نہ ہونے دو. جب نگاہ کے انداز ملیں تو شیریں سخنی سے کام لو، حیرت میں کھونے لگو تو دیکھو 
والیل سے والشمس تک رستہ ہے 
والعصر سے والضححی تک کی بات ہے 
ما رای سے فقد راءنی کی تصدیق بھی 
جب فلک ٹوٹ جاتا ہے تو دل کی کائناتیں میں حشر بپا ہو جاتا ہے. تب دھوپ کا سوال؟  ستارے لپیٹ دیے گئے. اب تو امید ہے تب حشر ہوگا. اب دید نہ کی تو حشر یہیں بپا ہوگا. مرے خواب سے ادراک تک اک سفر ہے جیسا معراج بشری کو روانہ ستارہ ہو. والسماء والطارق!  واللہ اللہ ستارے بناتا ہے کہتا ہے. انما امرہ اذا ارادہ .... کن فیکون. ارادہ اسکا ارادہ تو ہے مگر وہ ارادہ کے ساتھ ہم میں موجود یے. یعنی کہ ہم بے بس و لاچار نہیں، مگر ہیں بھی بے بس و لاچار. یہی عبد و معبود کا فرق ہے


یہ دِل ایک صحیفہ ہے اور دل کو پڑھنا دشوار لگتا ہے. ہمارے لیے اس سے بَڑی خوشخبری کی بات کیا ہوگی کہ وہ سینہ جس کے لیے اللہ فرماتا ہے "الــم نشـــرح لــک صـــدرک " وہ سینہ علوم سے پُر الفاظ کی صورت موجود ہے. قران پاک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کا دل ہے اور ہمارے سامنے ان کا دل موجود ہے. یہ دل اک ظاہری لباس یعنی لفظیات کی صورت ہے. اس تک رسائی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے "قـــــم الیل " یہ ایسا حکم ہے جسکو "کــــن " جیسا کہہ سکتے کہ روح ہر حال میں چاہے ڈر سے چاہے محبت سے قیام لیل پہ مجبور ہو جائے. قیام لیل کا کہا "الا قلیلا " کہ کم از کم تہجد کے وقت ضرور اٹھنا چاہیے اور "او ذد علیہ ... " جس کا جی چاہے تو اضافہ کرلو ... اس قیام میں دو باتوں کا حکم ہے " واذکرسم ... " اللہ کو اسم ذات یعنی اس لفظ اللہ سے پکارا جائے اور ورتل القران کہ قران پاک کو ترتیل سے پڑھو ..  کہا گیا ہے سات طرز کی قراءت ہیں اور سات طریق سے علم کے نقاط دل میں اتر جاتے ییں. بس قران پاک کا باطن یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک رسائی تلاوت سے ہے.میری تلاوت مجھے علم سے آشنا کرے گی. فقط میری