Monday, February 22, 2021

چلو ‏آؤ ‏!

چلو آؤ!  
پیامِ سحردیں 
چلو آؤ کہ نویدِ بہاراں سنائیں 
محمد کا دامن پکڑ لو 
وگرنہ خسارہ کہیں کا نہ چھوڑے 
کرو مدح دم دم میں درودِ سرکار سے 
مرادوں سے بھرلو یہ جھولی

سوچ سوچ کے قدم رکھنے والے کہاں تلک چل سکتے ہیں؟ یہ فہم درک کس کام کا جب حساب میں کمال نہ ہو، جب تیر کمان میں نہ ہو، جب زندگی وصال میں نہ ہو، جب شام ملال کو مجال حرف آرزو نہ رہے کہ کسے کہے گی شام، نوید صبح کی بانگیں تو گونج رہیں مگر اندھیر نگری میں بھلا کب بس چلا ہے کرم روشنی ہے..فسانہ کیا کَہیے، درد کا کہیے کیا.  بس اسے دیکھنے کی رو کو بہ رو کہیے. جبین افسردہ کہیے، دل پژمردہ کہیے. پارہ ء دل میں رگِ دل کا قصہ کہیے...

خوشبوؤں کے مسافر سے رستہ پوچھا تو کہا اس نے کہا مہک ساتھ چلی ہے. عشق میں نمی ہے کہ مٹی تو زرخیزہے اور بوئے گل کو لیے چلی ہے باد. یہ جھونکے ہیں جو گواہ ہے شہادت کہ محبوب شہر دل میں رخ کیے موجود. ہم سربسجود گویا کہ نم دل سے مٹی کی اوقات نہ پوچھا کر بس طواف کیے جا. شمع سے کاخ و کو روشن ہیں.