Wednesday, February 24, 2021

عرش ‏کا ‏رازدان

خُدا مجھ سے مرے لیے ہم کلام ہے،  تم نے سمجھا کہ یہ تمھارا کلام ہے! ہاں یہ گفتگو کچھ عام ہے،  ہم میں دھڑکتا ہے مگر عام نَہیں. تم اسکا استعارہ تو ہو مگر تم خدا نَہیں ہو. میں گنہ گار ہوں مگر قرین ذات ہوں. یہ الوہی کیفیت ہے نا اس میں سچ حقیقت بن کے سامنا آجاتا ہے. تم دیکھو اس نے کتنے اداکار بنائے مگر صنعت اک سچ کو ہے وہ خدا ہے. خدا دل میں اتر آئے سچی گواہی بن کر تو اے مرے دل مت جھٹلانا. وہیں بمانند سنگ سجدہ ریز ہوجانا


خسرو  پیا لامکاں میں نشان ہے، صابر پیا  خدا کا وجدان ہے، من آشکارکر، رگِ نہا میں بستے کردار ہیں یہ ... خزانہ ہے!  یہ بَہانہ ہے! یہ یارانہ ہے!  یہ نذرانہ ہے!  یہ ہستیوں کا کیف ہے!  یہ نشاط ہست کے سائے!  وہ دور سے بلائے! کون؟  وہی جو پاس ہے! کتنا پاس؟  اتنا کہ بس سانس کا ردھم آری چلاتا ہے. تو روک دو سانس!  لاشریک لہ

کبھی لا الہ الا اللہ کہا؟
کَہو 
نہیں کہہ سکتی 
کیوں 
جذب نفی نہیں الا اللہ کا اثبات کیسے ہو 
رگِ باطل کاٹ ڈالو 
فنا کتنا دشوار ہے گویا اشکوں کا ہار ہے، یہ گیت سنگھار ہے، یہ ذات سے پیار ہے 

تو نہ کر ذات کی پریتم، تو ہو جا اس ذات کی، کر نفی ہو اثبات کی ..چل درودں کی دستار پرو، چل اشکوں سے ردھم لا،  چل لامکانی چل ..حق لامکانی ھو ...
حق ترا وجدان جو ترا مہمان ، میری رگ رگ میں نسیان 
تو عرق نیساں کا شفاف موتی، تری ذات میں مدوجزر کا استعارا ہے ڈوبتا کنارا گویا چاند ستارا 
افلاک کی گردش تھم گئی ...تھم گئی ..رک گئے ماہ سال ...رک گئے طوفان ....


گرج رہے تھے بادل،  اتر رہی تھی کرسی، بکھر رہے تھے بادل، کڑک رہی تھی بجلی اور پگھل رہے تھے پہاڑ ..حشر ..وضو ..حشر ..وضو ..حشر ..وضو ..یہ کیا ہوا؟ چاند ہے رات ہے!  بڑی سوغات ہے. اسکی کیا بات ہے جس میں جذبات ہے. اللہ کا نعرہ الا اللہ کی تار میں ..حق سبحانی ھو ..حق کی زبان ہے یہ حق کی ترجمان ہے یہ آیت کاشان ہے دل میں مہمان ہے بندے بڑے انجان ہیں.شاید کوئی قربان ہے مگر رہتا انجان ہے ..کون مہربان ہے 
وہ کبریاء جاناں 
وہ شیریں شہد 
وہ میٹھا میوہ 
وہ گفتار حیرت 
وہ روشنی ہے 
ہاں روشنی ہے

پتوں سے پوچھو 
اشجار سے پوچھو 
انوار سے پوچھو 
کیا کیا پوچھو گے؟

کرسی ... لا الہ الا اللہ ھو الحیی القیوم 
یہ جلالِ وحدت ہے، یہی جمالِ شیریں ہے، یہ رسم سخاوت ہے، یہ دل کی عداوت ہے. یہ معاملے ہیں جب کہا گیا 
امروز میں کیا ہے 
کہا ترا جلوہ ہوگا 
فردا سے کیا لو گے 
کہا تو.ہی تو ہے 
من کنت ربی 
ہاں ہاں تو.ہی مرا سائیاں،  دل دیتا ہے دہائیاں 
صورت دیکھی مری؟
من آیتِ وجہ اللہ 
من رویت وجہ اللہ 
ھو رویتی؟  
حق اللہ 
اللہ واحد ہے!  اللہ عالی ہے اللہ عارفوں کی زمین کا آسمان ہے اور ہر عارف کی زمین کے آسمان عارف ہی ہیں. یہ ساری کہانی ہے ...لن ترانی سے من رانی کا.سفر ہے ..جسے دیکھا اسے دیکھا کہ مازاغ چشم سرمگیں محبوب کبریاء صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم کی ہے حق سے پایا وہ نشان ہے جس کے نشان ہیں ارض و سماں.


رازدان ہے وہ ... عرش کا رازدان ہے کہانی کا عنوان ہے، کہانی میں الہام ہے. طائر کو بوقت پرواز کہا گیا تھا کہ ید بیضا تھام لے. اس نے راستے طے کیے وہ جہاں جلوہ فرما تھا. وہ جگہ پانی میں تھی. پانی سے وضو کا طریقہ پوچھا تو جگہ نے کَہا،  راز ہے!  راز ہے!  راز ہے!  بات بات میں راز ہے اور راز میں بات پتے کی ہے، پتا بھی ہلتا ہے گواہی ہے اعمال کی اور شجر نیتوں کے وضو سے پروان چڑھا ہے. اندر بڑا پانی ہے،  یہ خیال میں اک سچ ہے اور سچ حق ہے اور حق رب ہے. رب ہم سب میں ہے مگر ہم سب رب میں نہیں ہاں اس سے ہیں. ہمارا ڈھانچہ خاکی،  ہماری روح نوری، ہماری فکر وجدانی،  کرو ذکر قرانی،  واقعہ ہے ہر اک سبحانی،  جذب آیت آیت ہے اور یہی روایت ہے. جذب اور جاذب بن،  جذب ہو پھر جاذب بن،  جذب ہو پھر جاذب بن 
یہ پتوں اشجار کی بولی ہے 
یہ چلمن سے اسرار کی بات 
یہ واللہ ہے اعتبار کی بات 

ترجمہ تفسیر قران اک ذات ہے،  ذات نقطہ ہے، نقطہ بحر ہے اور بحر سبحانی ہے،  سبحان کی نشانیاں ہیں رحمان کی وساطت جیسی کوئی مل جائے ریاست،  جب آنکھ چلی جائے تو منانا کیسا؟ جب ذکر پھیل جائے تو مرنا کیسا؟  جب جاودانی کا سفر ہو تو رکنا کیسا؟  جب انجیل تمنا پریشان کرے تو مایوس ہونا کیسا 

التباس میں حقیقت ہے اور طریق رہ حق التباس ہے جیسے جیسے ہم.شعور کی گہرائ میں اترتے ہیں ہم جان لیتے ہیں اس کی مملکت میں انسان کا ذکر نہ تھا اب ذکر ہے. انسان آپے آپ اپنا ذکر کر ریا او رب نے ذکر کرن نہ دیوے. کج تے کریا جانا چاہی دا