نوید سحر کی ہے، سعید گھڑی ہے
بسمل کے دم دم میں ذکر جلی ہے
تڑپ دیکھو مری پرواز کرنے والو
اشک لَہو، فگار دل اور بے کلی ہے
درود پڑھتے پڑھتے نیند آئی تھی
دل کے کاخ و کو صبا پھر چلی ہے
ہچکی بدن، لرزش پیہم،آمد شہا کو
شہر دل میں سجی ہر اک گلی ہے
کوئی دیکھے نگاہ لطف کے اسرار
دعا ہے کس کی، جبین جھک چلی ہے