حسین ابن علی کو سلام پیش کر رہی ہے صبا. باوضو دل کی صدا کہ ڈالی ہے حیا کی ردا. یہ باوضو دل سے نکلا ہے کہ.
نفس نفس میں ہے نورِ زہرا
جمال یار کی لڑی نور زہرا
فسانہ دل کہوں کیسے میں
کہ روبرو ہے یہی نور زہرا
حسین زندگی کی نشانی ہے
حیات نو کی اجلی کہانی ہے
حسین کی سرخی ہے شاہی
شاہ کا غلام ہے ایک سپاہی
مکتب! دل مکتب! حرف جامع! لفظ شیریں! بیان ہند! یہ اجمیر کا پرند! رکھ دل کے پاس نذرانہ ء حجاز. مجاز؟ مجاز نہیں ہے یہ اک کھائی ہے چلی جس میں لڑائی ہے. کیوں آنکھ بھر آئی ہے؟ شہر دل سے ہو کے آئی.
ختم! راز ختم! اب کہ اختتام لفظ ہے! اب کہ اختتام حرف ہے! یہی ابتدا ہے جو منتہی ہے! یہ ازل کا رستہ ابد کے چراغ سے ہے. یہ منزل سحر نوگاہی شمشیرحسینی سے ہے. یہ نور حسینی کمال کے خرانے لیے ہے. نورحسینی سے خلافت درجہ بہ درجہ، کمال بہ کمال، حال بہ حال، جلال بہ جلال، انفعال بہ فعل چلی آرہی ہے.. حسین زندہ باد!
.یقین کا مرگ یزیدیت! سرمدی استقلات حسینیت! رہے قدم قدم پہ برا حال کہ شاہ اجمیر خود حسینی ہیں ...رنگ سے چلی حنا! حنا بن صبا کے نہیں! شن عروس کو لباس سرخ سے ملال ہجر کے دن کٹن آون!