Thursday, February 25, 2021

یقین ‏

خدا سے تعلق یقین کا ہے ـ یقین کا ہتھیار نگاہِ دل کی مشہودیت سے بنتا ہے. دل میں جلوہِ ایزد  ہے ـ درد کے بے شمار چہرے اور ہر چہرہ بے انتہا خوبصورت!  درد نے مجھ سے کہا کہ چلو اس کی محفل ـــ محفل مجاز کی شاہراہ ہے ـ دل آئنہ ہے اور روح تقسیم ہو رہی ہے ـ مجھے ہر جانب اپنا خدا دکھنے لگ گیا ہے ـ کسی پتے کی سرسراہٹ نے یار کی آمد کا پتا دیا. مٹی پر مٹی کے رقص ـ یار کی آمد کی شادیانے ـ یہ شادی کی کیفیت جو سربازار ــ پسِ ہجوم رقص کرواتی ہے ـ تال سے سر مل جاتا ہے اور سر کو آواز مل جاتی ہے ـ ہاشمی آبشار سے نوری پیکر ــ پیکر در پیکر اور میں مسحور ــــ خدا تو ایک ہی ہے ـ دوئی تو دھوکا ہے ـ ہجرت پاگل پن ہے ـ وصل خواب ہے ـ مبدا سے جدا کب تھے؟  اصل کی نقل مگر کہلائے گئے ـ کن سے نفخ کیے گئے ــ کن کی جانب دھکیلے جائیں گے ـ اول حرف کا سفر حرف آخر کی جانب جاری ہے اور خاموشی کی لہر نے وجود کو محو کر رکھا ہےـــ  ساکن ساکن ہے وجود ــ سکوت میں ہے روح اور صبا کے جھونکوں نے فیض جاری کردیا ہے ـ جا بجا نور ـ جابجا نوری پوشاکیں ـــ نہ خوف ـ نہ اندیشہ،  یقین کی وادی اتنی سرسبز ہے کہ جابجا گلاب کی خوشبو پھیلنے لگی ـ وجود مٹی سے گلاب در گلاب ایسے نمود پانے لگے،  جیسے گل پوش وادی ہو اور مہک جھونکوں میں شامل ہو ـ یہ وہ عہد ہے جسکو دہرایا گیا ہے اور اس عہد میں زندہ ہے دل ـ یہ وہ عہد ہے جسکی بشارت دی گئی ہے ـ اس عہد کے لیے زندگی کٹ گئی اور کٹ گئی عمر ساری ـ بچا نہ کچھ فقط اک آس ـ آس کیسی؟ جب یار ساتھ ہو تو آس کیسی؟  یار کلمہ ہے اور پھر کلمہ ہونے کی باری ہے ـ قم سے انذر سے اور خوشخبری ... جس نے یار کو جا بجا دیکھا،  تن کے آئنوں میں دیکھا،  نقش میں روئے یار ـ مل گیا وہی ـ سہاگن باگ لگی ـ راگ الوہی بجنے لگا کہ راگ تو ہوتا ہی الوہی ـ محبت کا وجود تھا اور وجود ہے اور رہے گا مگر جس نے محبت کا میٹھا سرر پالیا ـ اسکو علم کہ سروری کیا ہے ـاس سروری سے گزر کے کچھ بھی نہیں اور اس سے قبل بھی کچھ نہیں ہے ـ من و تو ــ یہ نہیں مگر اک وہی ہے. وہی ظاہر کی آیت،  وہی باطن کی آیت ـ وہی مشہد،  وہ مشہود،  وہی شاہد،  وہ شہید ــ وہی اعلی،  وہی برتر ـــ چلتے پھرتے دیوانے جو دکھتے ہیں اور بہروپ کا بھر کے بھیس پھرتے ہیں وہی تو چارہ گر شوق ہیں. وہی تو اصل کی جانب ہیں

تمھاری ‏صورت

تمھاری صورت اک ظاہر ہے - دوسری درون کی ہے --- صورت گَری میں ہر صورت جُدا ہے مگر جدا صورتیں ہوتے ہوئے رنگ تَمام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکلے --- آپ؟  آپ اللہ کا نورِ خاص ہیں اور صبغـــتہ اللہ کی حَسین مورت ہیں --- اللہ کا رنگ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا رنگ ہے جسطرح اطیعواللہ ہے اطیعو الرسول --- یہ اَطاعت کَہاں سے ملتی ہے؟ تم کو یہ طاعت رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عطا ہوتی ہے جب وہ اپنی کملی میں لیتے --- کملی انکا نور ہے --- یا ایھا المزمل --- یہ پرجلال کملی --- یا ایھا المدثر --- یا صبح جَلال والی ---- طٰٰہ یہ ایسا سایہ جو جلالی قوت میں بخدا یکساں ہے جو صرف نبیوں اور مقربین کو عطا ہوتا ہے --- یہ یسین ایسا پرت ہے جو تہہِ دل میں بے انتہا جمال لیے ہے --- حـــم نفس کی عبدیت سے بے نیازی کا نشان ہے -- یہ سفر کے استعارے ہیں جو نبی ء محتشم خود عطا کرتے ہیں --- صلی اللہ علیہ والہ وسلم -- یہ سفر ہے جس کو وہ خود طے کراتے ہیں -- یہ تمام ان کی زیر پرستی میں ہوتا ہے، وہی ہے جو پرواز قوت سے بلاتے ہیں وہی  ہیں جو پرواز دیتے ہیں کہ بندہ اقرب ہوجائے ...شہ رگ لا کہتی رہے اور بندہ پہ الا اللہ ثابت ہو -- جب الا اللہ ہو تو پھر اعراف میں جانا دور تو نہین ہے ..علیین سے ملنا کہاں نا ممکن ہے -- عالم برزخ پردہ ہے -- لاروحی کا -- اک ہے سب کے عالم -- اک ہیں سب یکتا اور یکتائی وحدت کا سفر ہے -- علیین والے بلندی سے دیکھتے ہیں زمین کو تو مطلع انوارات سے سب حشر خیز مراحل عبور ہو جاتے ہیں یہ ان کی نگاہ ہوتی ہے جو بانگاہ ہوتی -- مگر یکتائی خدائ کو ہے تو خدا ہی ہے جو علیین سے دیکھے یا زمین سے -- بندہ کو جب کچھ ملتا ہے تب وہ آسمان دیکھتا ہے برستا یے زمین بیل بوٹے اگانے لگ جاتی ہے یہ رزق ہے جو نیت پر مل جاتا ہے..رب حبیب رکھتا یے جو زمین کو اخلاص کا پانی دیتا رہتا ہے * 'چاند مثلِ شمس نہیں ہوتا مگر شمع آفتاب بن جاتا ہے جس سے کرنیں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں کرنیں بھی کیا پھیلیں جب پروانہ جل جاتا ہے بس مرکز بن جاتا ہے قطب بن جاتا ہے بندے کا قطبی ستارہ اسکے اندر ہے اور رب اس قطبی ستارے کی قسم کھاتا ہے والسماء والطارق کہ جب آسمان سے نگاہ ہوتی ہے تب قطبی ستارہ چمک اٹھتا ہے ورنہ انسان کی اوقات کیا ہے بین الصلب والترائب -- یہ اللہ ہے جسے جیسے چاہے نواز دے جسے جس رنگ میں نواز دے

محبت ‏کا ‏چہرہ

درد ــــ
لافانی ہو رہا ہے
روحانی ہو ریا ہے
دل دیکھیے، مترجم کی کہانی ہو رہا ہے
شمس کی طولانی ہو رہا ہے
آنکھ کی زبانی ہو رہا یے
جلے دل کی نشانی ہو رہا ہے.
یہ دل مانند پیشانی ہو رہا ہے
اچھا، کلام ربانی ہو رہا ہے
کعبہ میں اترے گا دل کبھی
کعبہ دل سے طواف طولانی ہو رہا یے
کاجل لاگ گئے ـــ لاگی من دیپک کی نشانی ہو رہا ہے
دھواں موم سے اٹھ رہا ہے
لہریے دارہوائیں ـــــ جذب عشق مستانی ہو رہا یے
نعرہ ء دل میں عشق کی گرانی
مرا دل وجود کی دھانی ہو رہا ہے

یہ بیان کیا ہے جب رگ رگ میں نسیان نہ ہو تو سمجھ نہیں آتا ہے کہ اللہ قران پاک کے لفظوں میں چھپا ہے (ھو الشہید) اللہ چھپا ہے جب لفظوں کو پیچھے راز پالیں تو ہمیں سمجھ آئے گا قران کیسے اترا تھا ...یہ کب کب اترا ..ہمیں جنابِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سینے سے اترتا، ان کی زندگی کے تمام واقعات دکھنے لگیں گے ...ہم جب تک ان کو دیکھ دیکھ کے قران نہ پڑھیں گے ہمیں نہیں علم ہونا کہ قران پاک ہے کیا؟ ان(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے عمل دیکھیں گے،  ان کی محبت ان کی شفقت اگر نہ دیکھیں تو فساد کریں گے. مجھے نہیں علم کہ کہاں کہاں سے یہ بات کررہی ہوں  مگر  یہ علم ہے  کہ سر پر ہاتھ رکھا ہے....  یدِ بیضائی ہاتھ کا ہالہ مجھے گھیرے ہوئے ہے ـ میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں گم ہوں کہ یہ دست مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہر ہونے کی مثال کشتی ء نوح جیسی ہے اور نوح علیہ سلام کی مثال  استقلال جیسی ہے! جبکہ انسان کا دل موسی علیہ سلام جیسا نہ ہو تب تک بات بنتی نہیں ہے ـجسکو شہید کا شاہد ہونا نہ آئے تو فائدہ!  یہ بات جناب عیسی علیہ سلام تک جاتے ملتے نہیں ـ کسی کو خبر نہیں کہ  تمام انبیاء نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع میں اور ہم ان تمام کی اتباع میں ہوتے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کی اتباع میں ...یہ رویتیں نبیوں کی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں موجود ہیں اس لیے کسی کا روپ موسی علیہ سلام جیسا ہو جاتا کسی کا حال عیسی علیہ سلام جیسا ـــ کسی کا حال  مثل نوح ، تو کوئی خیال خوانی کرتا کوئی انتقال ِ بہ جگہ جانے کی صلاحیت رکھتاــ  کوئی  تو  مثلِ داؤد نغمہ سنانے والاــــ  سنیں کہ یہ کمالات ہمارے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کو حاصل ــ 

آج کے دِن اللہ تمھارے پاس بیٹھا ہے اور وہ کہہ رہا ہے میں دیوار بن کے سن رہی ہوں --- شاید دل بہت بیتاب تھا. دنیا کچھ نہیں ہے دنیا غیر ہے،  دنیا کو رکھا ہے پاؤں میں - ہاتھ میں محبت کا چراغ لیے روشنی مجھ میں پھیل رہی ہے یہ اسکے جلال کی نمود ہے یہ اسکی بات ہے جو سمجھ نہیں آتی. وہ کیا کبھی کسی کی فہم میں آیا ہے؟  نہیں فہم سے بالا تر ہستی ہے اس لیے تم میں موجود شفاف روح نے مجھے پکارا یے میں نے دل ہارا ہے یہ دل محبت کی تار سے جڑا ہے یہ دل جڑا ہے آسمان سے کہ محبت آسمانی جذبہ ہے کس کو بتائیں کہ جذب وہ خود کرتا ہے سامنے چہرے چہرے میں رونما ہو جاتا ہے بندہ کہتا رہ جاتا ہے کہ اس نے دیدار کرنا ہے،  طور جانا مگر طور دل سمانا یہ بات تم سمجھو ! میں سمجھوں بلکہ سب سمجھیں کہ اک نفی ہے ...اسکا دکھ نہیں دکھتا،  اس نے اپنی ذات زیرو کرکے ہمیں دنیا میں بھیجا اور ہم نے اس کے زیرو کو ایک نہیں کیا ...کیا اسکا دکھ کبھی کسی نے سمجھا یہ میں نے سمجھا ہے مگر مجھے سمجھ نہیں آتا ہے زیرو کو ایک کیسے کرنا ہے ...اسکے دکھ کم ہوں گے جب ہم چھپ جائیں  گے اور چلمنوں سے وہ جھانکے اور یہ لکا چھپی ہوتی رہے ـــ  لا الہ الا اللہ ہوتا رہے اس وقت ساری دنیا چھپی ہے کہیں لکا چھپی ہو رہی ہے کہیں الا اللہ ہو رہی ہے. قران پورا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا بیان.ہے

تضاد ‏و ‏اخلاص

رنگ نے جہانِ نقش و بو میں دھکیل دیا ہے ـ دوئی کا خاتمہ ایسی دنیا میں ہوجاتا ہے اور ست رنگی بہار، یک رنگ کی نَیا میں بہنے لگتی ہے.  یہ احساس کہ جب یار پاس ہو، یار کے رنگ سے جہاں دیکھو، بس ہر جگہ سوہنا مکھڑا دکھے ـ وہ صورت گر، اس نے یار کی صورت ایسی بنائی، اس میں یکجائی رکھ دی تمام عالمین کی اور کہہ دیا کہ الحمد اللہ رب العالمین اور کہا:  تلاش کرو رحمت کو ـ رحمت تو ہم کو خود تلاش کر رہی ہے پھر فرمادیا:  وما ارسلنک الا رحمت للعالمین ـ یہی شاہی ہے جس کو رحمت عالم عالم میں ملنے لگی. در در کا کیا فائدہ،  اک در کی جانب چلیں، جس در سے رحمت کا باڑہ بنٹ رہا ہے اور یہ رستہ ہادی کا ہے ـ محشر سے پہلے جام پی لو ـ کوثر کی آیت کا جاری چشمہ ہے اور اس میں حسینیت کے پانی سے دل کا وضو ہونے لگے تو سمجھو روح دھل کیا گئی،  نکھر گئی کہ گویا بات بن گئی ہے. اک انجیل تمنا:  یار کو دیکھیں،  اک حرفِ تمنا:  سنائیں حال یار کو اس طرز سے کہ حال سناتے حال میں نہ رہیں اور ان کے مکھ کو دیکھی جائیں. اشک با ادب!  اس جہاں اگر اشک بھی بنا اجازت نکل گئے تو گستاخ نین کہلائیں گے. ہم تو چلے نینوں کی بہار میں رلنے،  سہنے تیر سینے پر سہنے،  جگر میں داغ کو سنیچنے اور لفظ ہمارے برہنہ کر رہے. یہ برہنگی جو بے نیازی کا لباس ہے،  آج عیاں ہوئی ہے. 
اک تھا نین والا، جس کے پیچھے چلی باگیا ــ باگیا نے نین کی بازی میں سب ہار دیا ... پی کے سنگ رہنے میں ایسی الوہیت ہے جس میں رنگ بکھرنے کو مایا نہیں کہتے بلکہ کہتے:  جہاں پر اسکا ہے سایہ جس نے پلٹ دی کایا. یہ حدیث داستان سنیے!  جب پی سے ملے،  اک ہوئے!  ایک نے زمانہ دیکھا تو کوئی الگ نہ تھا. اک رانجھن یار کے پیچھے رکھ دی دلوں نے دنیا ـ دنیا گئی مگر مل گئی جہانبانی. یہ عجب رت ہے کہ دن میں رات کا سماں ہوگیا. گویا رات اور دن میں کچھ فرق نہیں مگر پھر بھی صبح و شام تسبیح کرتے. یہ فیکون سے کن کی جانب سفر جب دن و رات کا تضاد ختم ہوا. تضاد ختم ہونے لگے تو سورہ اخلاص سمجھ آنے لگتی ہے. آدمی بہت ہیں مگر انسان اکیلا ہے.  اور اکلاپے میں اس نے یار پایا ہے. یار پانے کے بعد احساس ہوا کہ فرق ہے :  وہ تو اولاد والا ہے اور خدا تو بزرگ و برتر ہے. لا روحی کی بات ہے.  اک دھاگہ،  اک کن،  اک نور کی دھار وجود کے گرد محو ہے اور بلا رہی ہے کہ چلو محبوب کو

جمعہ ***

مجھ پر جمعہ نازل نَہیں ہوتا ـ احرارِ بریرہ و ریشم سے براءت نہیں ہوتی ـ ذکر میں جاودانی نہیں ہوتی ـ رات رحمانی نہیں ہوتی اور بات سبحانی نہیں ہوتی ـ کسی سے پوچھا جائے کہ جمعہ کیا ہے تو وہ کہے گا کہ دن ہے ـ یہی گڑ بڑ ہے کہ جمعہ دن نہیں ہے ـ تمام جہات کے منبعِ انوارات کی جمع ہے ـ جب جمع واحد میں ہو تو واحد واحد رہتا ہے پر کثرت ھو ھو بولنے لگتی ہے ـ سامنے الواحد بیٹھا جب ھو ھو یعنی " تو،  تو " سنتا ہے تو صبح صادق ہوتی ہے اور سحر سے پہلے جمعہ نازل نہیں ہوتا ہے ـ طلوعِ سحر میں رات کا سماع گویا شادمانی کا سماع ہوتا ہے ـ یہ وسیم کی طرف تحفہ ء ایزد ہے جب طائر پر لگا کے اڑان بھرتا ہے تو جانب یمن سے جانب لعل یمن کہ جانب حسین بروضہ امام رضی تعالی عنہ جاتا ہے تو سلام لب بہ دہن،  دل بہ سخن،  نظر بہ رہن،  قرض بہ لعلی ادا کرتا ہے تو شہِ دلاور،  دلاویز مسکراہٹ سے دلاوری عطا کرتے ہیں. ـ یہ جن کو روضہِ حسینی کے پاس بیٹھنے کی بشارت مل جاتی ہے تو گویا امامت کا تاج پہنا دیا جاتا ہے ان پر نگہ الطافانہ ہوتی ہے اور نظرِ محرمانہ سے محبوب کا جلوہ شروع ہوجاتا ہے ـ یہ کائنات کل وحدت کے دو ٹکروں میں دکھنے لگتی ہے ـ جمال بہ رسول اکرم معظم محتشم  سے بی بی پاکدامن سیدہ مطہرہ عاقلہ عالیہ راضیہ مرضیہ زہرا رضی تعالی کی سے جناب امامِ حسن رضی تعالی عنہ، وہیں جناب علی المرتضی رضی تعالی عنہ سے حسینی لعل یمن رض کی صورت بصورت جلال ـ قران پاک میں یہی دو آیات  ہمیں ازبر کرا دی جاتی ہے جیسا کہ اللہ حاشر ہے،  اللہ الباری ہے اللہ البصیر ہے اللہ العالی ہے اللہ جمال والا ہے اللہ ستار ہے اللہ قہار ہے اللہ جبار ہیں ـ اس کی ذات کی شہادتیں تقسیم ہوجاتی ہیں ان ہستیوں میں اور نورانی مصحف کھل جاتے ہیں. مطہرین لوح محفوظ پر قران پاک دیکھ سکتے اور پڑھ سکتے ہیں مگر لوح محفوظ تو دل میں رقم ہیں اور دل میں جھانکنا ہم نے چھوڑ دیا ہے 

جب دل میں جھانکنا چھوڑ دیا جائے تو جمعہ کیسے نازل ہو ـ کیسے ھو ہو تو کیسے اللہ روبرو ہو،  کیسے بات ہو تو کیسے ہم کلام ہو،  کیسے کلیمی ہو جب کلیمی نہیں تو معراج کی بات کیا ہو، یہ جو عشاق سدرہ المتہی پر رک جاتے ہیں ان کے آگے کا سفر رقم ہے ـ وہ دیکھ رہا ہے جو ہو رہا ہے کیونکہ وہ شاہد ہے اور بندہ مشہد  جلوہ گاہ بنا ہوا تو وہ فرماتا ہے لایدرکہ الابصار تو یہی دید ہے ـ ہم نے اس کا ہونا ہے اور دید ہونی ہے . ہم بھلا کہاں سے وہ خلا لائیں گے جہاں وہ نہیں ہوگا. جہاں وہ ہے جہاں میں ہوں نہیں میں نے وہی ہے تو کہیں اپنا آپ جلوہ گاہ دیکھتے ھو ھو کہے گا تو کہیں جلوہ گاہیں دل کو دیکھتے ھو ھو کہیں گی یعنی تو تو، تو پیار ہوگا. یہ محبت ہے یہ عبادت ہے ـ یہ سیادت ہے ـ اس سیادت کے پیچھے نقشِ نعلین پانے کی سعادت ہے ـ جب سعادتیں سادات سے ملنے لگیں تو جمعہ نازل ہو جاتا ہے

کچا ‏کاغذ ‏نہیں ‏تم ***

کچا کاغذ نہیں تم!  
تم خوشبو کی گلابی چادر ہو!  
تمھاری دودِ ہستی عنابی ہے!  
پرواز تمھاری سرخابی ہے!  
شمس سے تمھاری لالی ہے!  

لعل شہباز قلندر سہون شریف میں مدفن ہیں. حضرت انسان جانتا نہیں کہ وہ لعل کیوں ہے ـ لعل سے لالی مل جائے تو پہچان پر مہر ثبت ہوجاتی ہے ـ شناخت یہی ہے کہ لعلی نصیبہ ہے!  ذات کے نسب خانوں میں قران کی آیت کھلی ہے اور آیتِ رحمان میں یہی لکھا ہے کہ تم سے جو تمھارے حضور کہہ ڈالیں،  تم پر حق ہے ان کے آگے سرخم کردو ـ وہ یقین کی بنیاد ڈالیں تو تو غلامی کی لائن میں صیغہ ء راز دہرا دو ـ وہ یاد دلائیں تو نقش بن جاؤ ـ یہ محمد عربی رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قران ہے جو ہر سینے میں موجود ہے. قران کے ورقے باہر ہیں مگر سینہ بذات خود قران ہے ـ یہ قران سینہ بہ سینہ انتقال ہوتا ہے ـ اضحملال طاری ہوتا ہے کیونکہ ہر دور میں راقم کرنے والے لکھا ہے خدا شاہد ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شمع عالمین. جس دل سے وہ جھلک دکھلائیں جس کو دکھے یہ تو رب جانے رب کا محبوب جانے 

اے باد نسیم 
والمرسلت عرفا 
والملقیت  ذکرا 
بتا کونسا ذکر لائی ہے 
بتا کونسی فکر لائی ہے 
بتا کس خبر نے منشور سے نشر ہونا 
بتا کس کا سینہ گنجینہ الاسرار ہے 
بتا کس نے بھیجا کیسا یہ دشوار ہے 
بتا کس کے پاس ہادی کی تلوار ہے 
بتا کس نے ذوالفقار کو دیکھا، پایا ہے 
بتا کس شہسوار نے شہسواری کی ہے 
بتا کس عنابی رنگت والے کی تصویر؟
بتا کہ یہ یاحسین امام ما جلال ہیں؟
بتا کہ یہ ہم ساجد ہیں پہاڑ جھکے ہیں 
خشیت سے لرزش ہو طاری کب ہوگی باری


کچا کاغذ امام جلال کی جلالی سے جل کے راکھ ہوتا ہے اور گم صم ہوجاتا ہے ـ خوشبو کی چادر برقرار رہتی ہے مگر دھواں چھوڑتی ہے ـ یہ جو دھواں لفظِ منصور کی صورت نکل رہا ہے یہ تو بہت عاجزانہ سی بات ہے کہ انسان کے بس میں نہیں وہ حد امکان سے باہر جائے الا بسلطن!  تب مرج البحرین یلتیقین کی مصداق پارہ روح کا ربط جسم سے مربوط افلاک کی جانب پرواز ہوتی ہے ـ یہ افلاک دل میں سمائے ہوئے ہیں کہ افلاک ہوتے ہی دل میں ہیں دل تو عرش الہی ہے اور اس کے پانی سے روحِ قلندری کو تخلیق کیا جاتا ہے ـ جب اسے زمانے میں بھیجا جاتا ہے تو اس کو تجدید کی لگن لگتی ہے اور عہد نو یاد آتا ہے کہ بوقت نفخ سے پہلے وہ الگ نہیں تھا تو یاد آتا ہے گو وہ الگ نہیں تھا تو اب وہ الگ کیسے ہے ـ جب تم اور وہ الگ نہیں ہیں تو سب رب ہے ـ سب حق ہے ـ سب سچ ہے!  سب کی تسبیح اس کے گرد ہے اس لیے کائنات اس کی مجذوب یے 

چلو رقص کریں 
چلو وجد آیا یے 
چلو وجود غائب ہے 
چلو ہم حاضر ہیں 
چلو ہم موجود ہیں 
وجد تو آنا ہے 
دھمال تو لگے گی 
رنگ ہے!  
یہ میرا رنگ ہے 
میں ترے سنگ 
یہ رنگ ہے!  
رنگ سرمایہ 
رنگ حیات 
رنگ سے ممات 
رنگ کی لاگی 
صبغتہ اللہ

طٰہ

دل

Impulse

When your impulses are turning to impudence ,when your earth is drowning into the water , when your chemistry is changing , when changes are unknown , when your curiosity is on the peak , when you want to fly high and high , when you are confined in your limits , though  you are limitless in your approach , when you have seen inside , waves ruthlessness pushing whole body like a throbbed heart , when your existence is like mercury boiling which boils and splashes after heating , when your heart has numerous hidden questions, not answered yet , when your pain is beyond your limit , when you are yearning for meeting with your beloved , 

then, call Him !

O ` dear come near ~ So near , 
no distance can be mounted between , 
no boundaries can be imagined between , 
no pain  will be hanging inside the case !

Rain ! Rain ! it is falling and lightning the meadows , caves ,flowers and gives lights to fireflies ...The firefly has started rotating around rose ,and jasmine fragrance has started dispersing here and there ,when your flutter the wings to un-cage the cage , when you sing like a nightingale , when music has started tuning you , when you are absorbed in Him , 

He says : O light ! 
Thy flaming light is mine , 
Thy shimmering is mine , 
thy melody is mine , 
thy dance is mine ,
 what is yours ? 

Tick ! Tick ! Tick !
 Tock ! Tock ! Tock ! 
 Tick tock ! Tick tock ! ticktock 

Thy mingled voice , 
Thy ignited flaming fire , 
Thy glistening light , 
Thy musical notes ,
 ! Aaw ! What is mine ! 
All is yours ! Who is in me ? 
You ! Who are you ? 
My lord ? My master ? My beloved ? 
Yes ! you are my beloved !

 Loook !The distances are like rifle shot and bullets are piercing into my heart , waves splashes are like flood , I am in flood ! I am in flood , you are immense , you are deep , you are supreme !...... ..with your soft melodious voice you have cut my heart like  a knife cut an apple .......Your love wine is making me numb ........

When there was no one , I was .......Man has been given powers and I am absorbed in him ,,,My love, he never understands and person who wants to approach me would have to suppress  the ego ...

Dance ! Sing ! smell ! see ! 
whirling fireflies moved around Rose in ecstatic state ! 
Some one has gone lunatic , 
some has lost senses , 
someone is finding her love , 
someone is in cage ,
 someone is not able to resolve mysteries 

Glass is shattered ! Crash! Crash ! Crash ! 
Awww ! pieces ! Who is seeing , to whom I am looking ?
 Who has same shade of mine ! I am Him or He is me ! 
I am Him , or He is me , I am Him , he is me ! Haq ! Haq ! Haq ! HO ! Hoo! Hooo! Hoo! He is in me ! He is me or I am him ! He is my dress , white dress , without any stain ! 

Whirl ! Whril ! Whril! 
O my wind ! O my wind 
whirl ! Whirl and see the world , 
He wants to see the world , 
He wants to make me see the world ...
He is here , Where HE  is ?
 He is in desert ? H e is in sea? 
He is shadow ? My  shadow ?
 No He is not anywhere . I am Him !

Round the world in caves , mountains, valleys , seas, trees , skies , hell , heaven, heart , human , houses , water , clouds .......... what is there ....
He is who makes us weep 
He is who makes us to reap
The crop of love from fields
His love is like a shield 
I am wounded by His Sword
I am clouded by His rain ... 
He makes me toflap in a cage
Then took a notice of that flutter 
In a shock unable to utter 
O my wind whirl ,make world to twirl 
O my wind whirl, make me to drill 
O my wind whirl, make heart to grill 
O my wind whirl ,make my soul to shrill
O my wind whirl, to cease my ecstasy
Ceaseless Ecstasy is giving me pain 
I am in mirth , I am in rain

He says ! O Noor ! Your are mine .
I am saying , you have flamed my heart ,
 my heart is aching with pain , 
flood is spinning the mountains , rain is making me insane ..... 
I am in your rain ...

Dream ! Noor dream ...When the night of dream will come , then prayers will be in stream , showering will gleam , do not scream ! 
Aww ! Whirling wind ! I am His meloday , the melodies which are piped inside , He is piping and I am listening , He is pulling me , I am dancing , I want to scream , when you will meet with me , when night of dream will come , when longings for Him will fulfill  , when snow will fall to become water , when I will walk over the bridge , When wind will blow giving a Rose smell !!!!!!!!!




Salutation

The numerous salutation on You !
 O`my beloved , 
O`the adorning rose , 
O`glistening light ,
 O `wind whirler ,
 O` the blessing fountain !
 I bowed in front of you !
 I have worn the attire of complaisance , 
My neck is like an arrow bow 
And your one sight is like an arrow making wounds in my soul ....
O my beloved , 
O the blessed by Almighty !
Millions salutation on you ! 
Shower your blessing , 
O ` the blessing fountain ! 
O` the rhythmic scent !
 Aye! mighty shower , 
When you were born ,
 Lights had taken light from you ,

 O` the sun of suns , O` the moon of moons ,
 O`the center of gravity ! Numerous salutation on you ! 
Aye lightening candle , Aye illuminating lantern, bless me ! 
Bless me with your one sight ! I am bowed in front of you , my Soul is in complete compliance , shower your blessings ......

O` the tribunal head !
 Now take my rope in your hand , 
Make me stand like your are sitting , 
O` the blessing fountain , 
Settle my queries, make me more ecstatic ,
 I want to see His light in you !
 Make me blessed !
 O `the blessed fountain , make me shine ! 
O`the blessing fountain , 
numerous salutation on you !
I was searching you in me ,
 I found your flame , 
Your light shimmering in blue color 
And the light of all blessed soul ..
.O` dear prophet (P.B.U.H) give me comfort ,
 O my beloved ! make my heart Madina ! 
O` the piper holder of all lovers ,
 O the rhythmic scent , 
O` the showering rain ,
 O ` the Almighty mirror !
 Numerous salutation on you !
O`the grandfather of Hussein!
 O`the father of beloved Fatima(R.A) ...
Numerous salutation on you ! 
Give me a favor , 
O the light of my eyes , give me comfort ,,,,,, 
I am comfort less sea!
The sacrosanct soul of universe replied !
You have light ! I have blessed you ! 
You have my scent , smell ! 
you have roses built inside ! 
When the dream night will come , you `ll be blessed !
 Patience ! O holy soul! You have my favor !

When the dream night will come ? I am already died , I am shot , your eyes have killed me ..... Your smile is like diamond cutting rose petals ! O the blessing fountain ! numerous salutation on you !

I am dead,

I am dead,  who is in me?
The engraved person said, "who is in me? " 
Grave pointed," YOU!  YOU!  YOU 
Air blanket veiled dust! Who is in me?
Blood whispered, "who is in me? "
Tangled waves asked, "who is in me? "
Whirl O' wind!  O'wind whirl!  
Fire is in! Snow is lingering over fire
Glacier is melting! Snow melted!
Lave erupted! Explosion!
The blast grinned, "who is in me? "
Bones chuckled to ask, "who is in me? "
Blue sky overshadow dust!
Dusk is mingling with dawn
Dusk smiled, "who is in me? "
Sky lit, moom shone, earth burnt
Exhilarating fumes growled, "who is in me? "
The thunder bolted in! Died!
Light asked, "who are you? "

The Prayer sizzles out

The prayer sizzles out 
The man 's riddle out 
The belief without doubt
Dancing in fire shout 
Hands raised in hope 
Give me your  rope 
Let  thy negativity crop 
Jewels are not for rob 
Lamentation is without sob 
Blood trickling from rod 
Who has cut  the skin' sod 
O' dear!  Help, not drop

cry not, weap not

Cry not,  weap not 
Let it be to vote 
Line turned into adot 
Book is to be  thought
Think not,  write 
Troubles are to fight 
Sanity asks for cost 
Insanity is without host
Whirl O 'wind, whirl O 'wind 
Soul rotates in tints 
Faint!  Faint O ' despair 
Step on! Don't stare 
Fire burst only glare
Veil! Veil O' sanity 
Hide! Hide O'vanity 
Move! Move on pride 
Show yourself not hide 
The light is to guide 
Stars are born to fight

you dance!

You dance! I am nowhere!
You smile!  I am everywhere!
Your sword demands blood stain!
My existence is a permanent pain!
You lit in! I prostrated!
Holy you! Holy you! Holy you!
My life  was in vain!
The sanity guised in insane!
You holy muse! I am your guitar
Waves streaming Ho ! Ho! Ho!  
Wind is whirling! Twirl wind thumping!
Dust! Mud! Sand! Lushy grass!
All elements say: Ho Ho Ho!
Impatience soul, restless zeal!
Aye Holy light! Where are you?
In me?  On sky?  In dust?  Trees?
Hey! Tree contains leaves of Tuha (P.B.U.H) 
Veins engraved blood of light 
Its wood stuck out shrine of Muhammd (P.B.U.H)
Its bark is in dirt!
He is in me: I want to see Him 
You are in light: I want His sight 
You  are out of cave: I want intimation

let not pass the day

The Muhammad (P.B.U.H)  

Let not pass the day, look up!
Let moon to be the sun! Look up!

Let me to meet in person! Look up!
Light on this barren land! Look up!

Let my pen to write! Look up!
Give me ceaseless ink! Look up!

light

The light spreaded all around, extremes went beyond....., words are in action,...... , motionless statue of my beloved  has started speaking,......,  the soul is keen to be with  in thy person fluttering, cage is restless, mountains enlighten a new discovery, a new secret of ecstatcy.......,  the timeless state of my idea is   turning into time, envisioned  possibilities are in process to dress morning gown, the beauty is becoming truth, beauty is truth, his pipe is piping in me,  I 'm listening melodies of Him in my own instrument ...His presence bell jingles and leaves me into the world of divinity,  provdence is with me, cackling like a baby, ring O 'bell again: Jingle, jingle, jingle! Dumbfounded, spellbound and mysemrized This state is making me a statue, while myself is  peeping a statue of my own  idea ... Let's celebrate the mirth of union,......!   let 's catch the moon grinning, let's approach the sun and jump to  sky, let 's  jump from sky, let 's wave ourself into the waves of his call ...He is calling like light prevails all around ... Tring! Tring, tring!  Bent!  Bowed!  Prostarted!  The world of forgetfulness is not feigning me,  the river is rejoicing to meet sea ...sea is making noise, his waves are rowdy,  The love tie is ultimate,  Thy bond is everlasting


Presence fumes! Fragrance everywhere!
Earth bent down!  Waterfall everywhere 
Rose petals spread as wind waves, as water ripples, as rain falls, as clouds move,
The madness cloaks, dancing like a wind whirl,  like a sand storm, like the hailing, like the  fire growling, like the  lion roar,  like a tiger's run, 
 Fumes! Fragrance!  Staning near fountain,  
Water is falling in to streams, like a strange melody ,like jingle bell, 

Fountain!  Fumes and fragrance!
Fired madness freezes!
Like a spellbound person, 
Life is in statue! Soul is stunned!
Senses were conjured! Breathless ceasless ecstatsy is calling ...

Fume! Fragrance and fountain!

ya Hussain

Hyderum Qalandrum mastum 
Banda e Murtaza Ali Hastam 
Focal point of my attraction 
 You -Destiny of my passion 
peshaway e Tmam Rindanum 
Q sage koyee sheer e yazdanum 
O ' Hussain! the Lilly among roses
O 'Hussain!  The red wine of lovers 
O 'Hussain!  The leader of pipers 
In sleepless night sleep wakes for an hour 
In motionless ecstatsy passion arouses for a while 
In ceasless seeing the eye stopped blinking,
In a divine rapture, the barren soul is ravishing 
The pain is digging inner tunnel of mountains,
caves  light with the bugle of grilled soil,
Go!  Go!  Don't gv a wake up call 
Come and walk with shawl

دستک ‏

آج یاد کی بے نام گلی میں سڑکیں بڑی صاف ستھری ہیں. موسم  مگر اُداس ہے جیسے سکون میں حزن ہے . اس سنگم کو بہار و خزاں کے اوائل میں محسوس کیا جاتا ہے کہ بھیگتا دسمبر،  بکھرتی چاندنی، مہکتے پھول،  لہلپاتے کھیت،  تان کے کھڑے درخت،  آبشاروں کی موسیقیت سب کچھ کتنا پیارا ہے!  دستک!  اک دستک سنائی دی ... یہ کیسی دستک ہے؟  یہ  تو صدیوں پرانی آواز ہے،  نیلا آکاش میرے آئنوں کے بکھرے ٹوٹے کی شبیہ ہے ..اے سفید رنگت  والے ملیح چہرے کے حامل آبشار،  یہ رنگت تم نے کہاں سے چرائی؟  کیا پہاڑ جو بھورے رنگ کا ہے اس کے پیٹ سے نکلے ہو، اس لیے نور سے چمک رہے ہو ... کیا تم فضا کو جانتے ہو؟  مجھے علم ہے تم نے اس کی گود میں خود کے لیے بہت سا سکون اکٹھا کیا .. یہ ہلچل ... یہ بے نیازی کہ شانِ بے نیازی ....  یہ احساسِ بےخودی کی ضُو،  یہ کہسار جو جھکا شان توصیف کے لفظوں کی تسبیح میں ہے کہ گوجنتے ہیں کو ہسار، بکھرتے ہیں آبشار اور ملتا ہے آوازہ 

ورفعنا لک ذکرک 
یہ تو کن کی صدا ئے کہ الست کا نغمہ جانے کس صدی کی گود میں سورہا ہے تخلیق کا سوتا جاگ اٹھا ہے،  نیند کی وادی سے کہو جاگ جائے ... تو سجدوں میں آذانِ احدیت کی باتیں ....
فاذکرونی اذکرکم

وطن ‏

آج یہ رخ کا فسوں کہ وطن واپسی ہے. تربت ہے پربت ہے کہ شراب ہے نگاہوں میں کہ بیخودی کے خال و خد یوں سرائیت کیے ہوئے جیسے آنگن وابستہ ان سے ہوا ہے قصہ کہ شام کی دہلیز رنگین ہے اور گلابی موسم بھی سنگین ہے. اے میرے ساتھی!  اے ہمراز!  اے چارہ گر!  اے رنگ ریز!  یہ جو دنیا ہے یہ خیال کی چاشنی ہے یہ جو احساس ہے کہ موسم ہے اظہار کا.  میں کتابوں میں گلاب رکھوں اور کتاب گلابی ہوجائے. کتاب پڑھوں کہ خوشبو کو بساؤں ... دونوں کے بیچ منجدھار ہےاس کشمکش میں بیٹھی روشنی چاندنی رات میں ادھر ادھر سرک رہی ہے جیسے چار سو چراغان ہوں ...شبِ چراغاں کہیں شب تیرگی کو نگل نہ لے!  شب تیرگی نے ماتمی لباس چھپا لیے!  ملال پہچھے اور کمال آگے. ان کے بیچ ندی ہے اس ندی کا راستہ غار سے نکلتا ہے غار میں مستی ک دھواں ہے جبکہ دیواروں پر عشق کا سرمہ ہے جس سرمے سے لکھا ہے ... عشق میں جل گئ شمع!  شمع کھوگئی.  رات  شمع کے لبادے میں مرگئی اور صبح ہوگئی. صبح کو رات کا سوگ ... یہ کیسا سنجوگ ہے کہ کوئی وصل نہیں ہے.  فلک مسکراتا ہوئے زمین کے تماشوں سے لطف انداوز ہوتا ہے کہتا ہے کہ 
فاذکرونی اذکرکم 
تذکرہ کب کیسے ہوگا ...یہ اخبار کہیں لوح و قلم کے بیچ سرخ رنگ کے نگینوں سے جڑا ہے. اے ہستم!  اے مستم!  اے مستم!  مست مخمور دل سے پوچھ کہ اس شراب کا آغاز کس سرنگ سے ہوتا ہے کہ کان کنی کے مراحل  ہے  کہیِں ... کوئی اس میں مرجاتا ہے اپنی موت اپنی تو کوئی سورج بن کے چمکتا رہتا ہے.

تاروں ‏کا ‏ستم ‏

تاروں کا سِتم،  تارِ ہست ہزار رنگوں میں بٹتا رہا.  ہر رنگ منبعِ نور بنا ... رنگوں نے  عنابی شراب میں مدغم ہوتے ہستی کھو دی .. تار کا ٹکرا کھوگیا ... تار کا ستم ...  
شمع کا نصیب ... جلی مگر بجھنے کے بعد ... بجھنے سے روشنی ایسی بکھری پھر روشن نہ ہو پائی.    شمع کا دُکھ،  شمع کو روشنی ملی،  روشنی سفر میں مسافر، چراغ سے جھولتی سمت دیتی رہی ... شمع  کھوگئی ... روشنی باقی رہی 
ہلکے ہلکے کاسنی لہریے دار دھوئیں کے مرغولے نکلے جب فلک نے سگریٹ کا کش لیا ...  یہ ردھم جو بخشش دیا گیا،  یہ رقص جو لکھ دیا گیا،  یہ اشک جو دریا بن گیا، یہ دل جو دشت ہوگیا،  یہ خلا جو پر نور ہوگیا مگر چراغ بجھ گیا،  مگر شمع کھوگیا،  مگر تار ٹکرے،  ٹکرے ... مگر کیا؟  مگر اگر کیا؟  یہ سوال اے حیرت ابھرے دل سے کہ دل کھوگیا،  دل نے حیرت کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے کہ کیوں لُکا چھپی کھلیتی ہو .. سامنے پربت ہے،  سامبے صحرا ہے،  سامنی وادی ہے،  سامنے ندی ہے،  سامنے دریا .... آؤ!  حیرت نے جھنجھلا کے کہا "غار میں رنگریزہ رہتا ہے " رنگ کی رنگائی کی کیا قیمت ہوگی؟  رنگے وے کو فکر کیا ہوگی؟  می رقصم شمع ہستم!  می رقصم شمع ہستم!  دل گرفتم!  آنکھ نمیدم!  گفتم از فلک!  یہ یار کا غار کدھر ہے؟  یہ غار جو اندھیروں میں ہے مگر روشنی کے فانوس اسکے آگے سجدہ ریز ہے!  می رقصم!  شمع ہستم!  دل گرفتم!  آنکھ نمیدم

رقص

اک رقص!  اک بسمل کی تڑپ،  اک آنکھ جو محبت میں آنکھ کھو دے، اک مسافر جو تا عمر رہنمائی کرے،  اک وائلن کی دھن جو عکس خوشبو ہے،  اک قبر جس پہ قتبہ ہے 
اللہ نور السموت والارض 
رنگ تو بس اللہ کا ہے ...رنگ ساز کون ہے؟  ڈوب جانے کے بعد احساس کا تار ریشہ ہائے جسم سے ایسا کرچی کرچی ہوا کہ آئنہ چیخ اٹھا،   عکس ٹوٹ گیا،  رم جھم سے صحرا جل تھل!  وہ جو راستہ ہے جو ہادی المرسل نے دیا ہے اے خضر ِ راہ کدھر ہے؟  خضر نے پوچھا کہ موسی کدھر ہے؟  ہوا نے پکڑا طالب اور کہا عکس خوشبو بن کے بکھرجاتا ہےط... اے شمعِ ہائے فلک کہ نصیب تیرا کہ فلک نے بخش دہ رفعت!  ناز کہ انداز بھی احساس بھی دل شناس بھی!  وہ تارا جس کی بوند بوند روشنی سے اماوس کی رات روشن تھی وہ تارا جس کی ٹمٹماہٹ بجھے چراغ سے کم لگتی ہے وہ پورے چاند کی روشنی لیے ہوئے .. اس تارے کے صحن میں روشنیاں بسیرا کیے ہوئے ہو ...  جب ندی اس تارے کے پاس بیٹھی اور بولی کہ پیاس آنے پر صحرا بننے سے بہتر ہے کہ ندی کے ساتھ دریا بن کے بہ جاؤ!  چھناکا!  سناٹا!  چھناکا!  سناٹا!  آوارہ رات ہوگئی چابد کی روشنی سے اور پربت طور ہوگیا .... مسافر نے کہا کہ جلوے کی تابش میں جلنا کیسا؟  بن جلے بوکے کیسوں؟ جلوں تو بولے کیسوں؟  جل گیا طور،  سرمہ طور کا فنا کرگیا ... فانی ذات کہاں ہے؟  فااذکرونی اذکروکم واشکرولی 
آواز گونجا ..  
لن تنالو البر ....
عرض کہ اکھیاں دید سے محروم کہ ہجر کی تنگی،  رات کی ننگی تلوار ہے ...  لن ترانی کرتا رہا مسافر،  لن تنالو البر ملتا رہا مسافر،  تھک گیا مسافر اور مسافت کی آندھی نے کہا  
واعتصمو بحبل اللہ 
اے امید جو وابستہ دلوں سے تھی،  ٹوٹ گئی ... اے امید،  رات کو حزن ہے

یاد ‏کے ‏پیکان ‏

اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد 
ثنائے محمد کیے جاتے ہیں اور پیش حق مسکراتے جاتے ہیں ... پیش حق مسکرانے سے بات نہیں بنتی بلکہ دل کو دل سے ملانے سے بات بنتی ہیں. جب میں نہیں ہوتی تو وہ ہوتا ہے اور جو وہ کہتا ہے کہ چلو رہ توصیف اور کرو بیانِ کے بیان اورعالم نسیان میں وجدان اسرار حقیقی کے نئے دھاگے لاتا ہے اور میں کہتی ہوں. میں نہیں کہتی یہ وہ کہتا ہے. جلنے میں حرج نہیں مگر جل جانے سے کیا ہوگا؟ جل کے مرجانے میں کچھ نہیں مگر جل کے مرجانے سے کیا ہوگا؟  بس آنکھ کا وضو بڑھ جائے گا. بس دل کے ریشہ ہائے منسلج میں رہنے والے تار تار کا بیان ہوگا. حق ھو. وضو کی نہر جاری ہے اور نیت دل میں نماز ہجر کا بیان نہیں تو نماز.شوق کروں کیسے بیان کہ اشک نہاں میں کُھبا ہے اک پیکان اور دل کے میر نے کہہ دیا چل کہ یہ سفر کا موسم ہے اور موسم  کے رنگ بھی عجب ہے. یہ ڈھنگ میں کیسے بھنور ہے کہ بھنور کو ساحل مل گیا یے ... شمس کی غنائیت میں چھپا سرمہ اک عجب رنگ رکھتا یے کہ یہ وہ شمس تھا جس نے ملتان سے گرمی کے سامان کو، ہجر کا نشان کیا تھا ... رکھ دے دل اور مسجود ہو جا جس کے دم سے روح ماہی بے آب کی طرح کانپتی ہے کہ دل مٹ جا کہ بسمل کی تڑپ کے سو نشان بننے والے ہیں .

حجاب

کائنات کی ہر چیز بسیط کی خلا سے مشّکل ہوئی ہے. وہ فکر وہ خیال جو رویت کے بعد پردہ نفس میں محجوب ہے . نفس سے نکل کے کائنات میں دیکھا جائے تو کائنات وہی ہے جو اندر ہے. بس اک پردہ ہے جس نے اندر و باہر کا پردہ رکھ کے بندے کو تجسس میں رکھ دیا. اضطراب کی مٹی سے گوندھا گیا پرندہ جب پرواز کرتا ہے تو دُر نایاب پالیتا ہے. روشنی کی اس حد تک پہنچنا اور جلوہ کرنا عجب نہیں ہے. پھر جب انسان جلوے لیے لوٹتا ہے تو اسکو کائنات کی ہر شے میں محبوب کا عکس دکھتا ہے   فلک پے فرشتے رکوع میں ہیں تو زمین پے شجر قیام میں جن کے پتے اور شاخیں رکوع میں ہیں. یہ نماز کی اک سی حالت ہے. نماز کی مختلف حالتیں ہیں ... سجدہ بھی اک حال ہے پتھر سجدے میں جھکے نیاز مند رہتے ہیں جبکہ پہاڑ سیدھے کھڑے قیام میں ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حرکت نہیں کرتے گویا وہ اسم اللہ کی اک تجلی میں جذب ہے. پہاڑ ہو یا شجر ہو یا ہجر کہ صبا یہ سب نفی میں چل رہے. نفی سے جذب تک جب کچھ نہیں ہوتا تو اسکی ذات غالب آتے وہی بات انجام دیتی ہے جو اسکے ارادہ ء امر میں پہلے اخفاء تھی اب وہ عکس خفی سے جلی ہوگئی ہے ..  مٹی سے جو پودا اوپر کو حرکت کرتا ہے تو یہ وہ حرف کن کے تحت اوپر کی جانب کرتا ہے. وہ حرف کن " ڈی این اے " کیطرح وہی کام سرنجام دے رہا ہے جو اسکے لیے لکھا گیا. بندگی کی اس حالت کو اللہ پاک نے سورہ الرحمان میں فرمایا ہے 

والنجم اولشجر یسجدن 

یہ مکمل بندگی کی حالت ہے جو بندے کو حاصل ہوگی جب وہ نقش رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کرے گا  جن کے لیے اللہ نے سورہ اسری میں ارشاد فرمایا ہے

میں کہتی کائناتی نور کی اقسام ہیں. ہر شے اک نور سے تخلیق کی گئی ہے.  یعنی مادہ کے اندر نور کو مقفل کردیا گیا. چونکہ ان اشیاء کے پاس شعور نہیں ہے جیسا کہ روبوٹ. ان کے خالق نے ان کو حکم دیا اور اپنے وجود جو ان کے ہونے کا مظہر ہے، وہ اس سے اور کوئی کام سر انجام نہیں دیتے مثلا پہاڑ روئی کے گال جیسی ہیئت اختیار کرسکتا ہے یہ قران پاک میں ہے. مگر وہ قائم. پہاڑ ساجد نہیں بلکہ قیام میں کھڑا. سمجھیں کہ وہ تسبیح کر رہا ہے اور تسبیح میں اسکی ذات نہیں. اسکی ذات کا وجود تاہم ہے. تو اسکی ذات کی نفی آٹومیٹک ہے. اس لیے اسکی مجال نہیں ہے کہ آگے پیچھے ... اسی طرح شمس و قمر کے دائرے بھی کہ وہ ان دائروں میں رواں دواں ہے ... یہ عین بندگی ہے. پتھر کہنے کو وجود رکھتا ہے مگر پتھر نے کلمہ بھی پڑھا ہے پتھر نے سجدہ بھی کیا گویا اثبات پتھر نے کردیا کہ اس سے امر کا امکان نہ تھا. یعنی پتھر سے بھی اور کام ممکن تھا مگر پتھر بس ساکن رہتے ... درخت کی حرکت بھی اک اس نقطے پے جس نقطے کو روشنی کی جانب جانا ہے گویا خالق نے یہ درخت کو حکم دیا اور اس نے چوں چراں نہ کی ..خالق نے کائنات کی لوح و قلم کی تمام تجلیات انسان میں رکھی اور اسے ظلوما جہولا کا خطاب بھی دے ڈالا. کہہ دیا کہ انسان جاہل نادان ہے. پھر جب جس نے یہ علم جانا تو سورہ الانفال میں فرمایا واذا تلیت ... وجلت قلوبھم ..دل ڈر جاتے گویا کہ وہ روئی ہیں ایسی ہی اک کیفیت کو اللہ نے سورہ المزمل میں المزمل میں کہہ کہ قلم بند کردیا یے.
تو انسان کو اتنا کچھ دے ڈالا اور اس کو شرف دیا شعور دیا. شعور ویسا شعور ہے جیسا کہ خالق کے ارادے کا شعور ہے. خالق امر کا کہتا ہے اور کہتا ہے ہو جا ...خالق نے بندہ کے ارادہ ء قدرت کو  یہی طاقت یقین کی قوت سے بخشی ہے کہ مومنین اس واسطے اک مومن ہزار پہ یا دس ہزار پہ بھی بھاری رہا ہے .. یقین کی قوت سے وہ خالق کے ارادے جیسا عمل کرسکتا ہے. خالق اس ارادے کو تقدیر کا نام دیتا ہے مگر انسان پھر بھی کہہ دیتا ہے کہ وہ ناکام ہے ..درحقیقت اسکا ارادہ ناکام ہے اسکا شعور رب تک پہنچا نہیں ہے ورنہ وہ کیا کچھ کر نہیں سکتا. یقین کی قوت بھی اک جذب و سکتے کی کیفیت لے آتی ہے اس لیے اس سکتے میں انسان کے اندر ارادہ امر رہ جاتا ہے باقی کیفیات پے نسیان طاری ہوتے وہ امر انجام دینے میں معاون جسکا ارادہ فرمایا گیا ہو. تو یہ انسان کے مجذوب و شعور کے بین بین کے کارنامے ہیں

Wednesday, February 24, 2021

ھذا ‏عشق، ‏ھذا ‏سید ‏من ‏

ھذا عشق!  ھذا سیدِ من 
یہ وہ غبار ہے جو تہہِ دل سے اٹھا ہے دل کے جبل میں انواز نے مجھے دیکھ لیا ہے. اجمال سے محو ہوگیا ہے پتھر اور مشہود میری روح ہے. روح پتھر کو سجدہ کرنے لگی. پتھر نے سجدہ کیا ہے اور کہا ہے 
ھذا عشق!  ھذا سید من 
جمال شیدا طلب سے ماوراء ہے 
کمال کا طالب دل میں گم ہوا ہے 
یہ میرے حاصل کا انتساب ہے 
میں گم کس کے ملال میں ہوں؟
یہ کیسا مجھ میں اترا جلال ہے؟
ھذا عشق! ھذا سید من


وفا کی دیوی نے مجھے بُلایا ہے قربانی کو. سر قلم کردیا گیا. میں نے کہا 
شوق آ ... شوق آ ... شوق آ 
مجھے طلب ہے دل میں موت ہوجائے. دل میں قبائے ہاشمی کی صدا نے دل میں اک الوہی سی کشش پیدا کررکھی ہے 
ھذا مرشد من 
العشق مرشد من 
حی علی العشق 
حی علی خیر العمل


 یہ خیر عمل ہے جو بخیر ہوا ہے. قرب کی نہیں تمنا. جمال کی تلاش نہیں بس اک کرسی ہے ھو کی. جس نے مجھ میں قرار پکڑا ہے اور کہہ رہی 
ھذ علی العشق!  العشق من! میں نے ہبہ کیا عشق تجھ کو 
میں نے کہا بندگی بندگی بندگی


ملی بندگی. یہ تابندگی. یہ رقص قلم کے شرار جس کی حرارت نے مجھے وحدت میں مبتلا کردیا ہے وفا کا تقاضا ہے نا خون بہتا آنکھوں سے دیکھوں؟
میں بہہ گئی ہوں ... خون کیا ہے 
خون نے کہا 
ھو العشق ھو العشق ھو العشق


مزاج میں بندگی نے مٹا دیا ہے. عدم سے لایا گیا ہے. معدوم وجودیت میں نفس ہے. بقا کس کو ہے؟ اللہ کی ذات کو بقا ہے. سب میں اک ھو ہے جس کو ہم نے دیکھا نہیں ہے

 وہ تلاش کرنے والے فارس سے نکلے! کیسی چمک و آب و تاب سے شام سے نکلے وہ مہِ خورشید!  رشک قمر!  اوج ِ ثریا پر مکین!  وہ ستارہ سحری سے طٰہ کا اجالا!  وہ کملی والا ... کملی بھی ہے استعارہ ..وجود کا پارہ پارہ کہہ رہا ہے 
ھو الہادی من!  وہ کون ہے 
العشق ہادی من 
درد جگر میں نہاں تیر میں جلوہ طٰہ کا ہے 
دل میں اسم طٰہ کی تجلی ہے کہ چمک نے مجھ کو محجوب کردیا ہے بس اک ذات ہے کہ وہ ذات ہے آئنہ ... 
کس سے پوچھو کہ اللہ کہاں ہے 
اللہ دل میں ہے. دل خالی ہے دل کو جب اللہ مل جائے تو دامن بھر جاتے ہیں اود اپنی نہیں ہوتی بس اس کی کرنی ہوتی ہے. میں نے ہادی من کو دیکھا ہے کہا ہے 
سچل مرشد قبلہ نما 
قطب من ہادی من 
دل کی وادی میں شہ بطحا کے اجالے 
دل کی راجدھانی کے شاہ ہیں اور شاہ کے آگے سر تسلیم خم


 خمیدہ زلف کو ذرا دیکھ اود ڈوب جا. گیسوئے مصطفی سے جو ملے خوشبو. اس سے مانگ اک آرزو. کہ بس یہ رہے سدا اور صدا رہے سدا کہ آپ ہیں اور میں نہیں ہوں حضور.


 وہ آرزو کہ رخ سے حجاب اٹھے اود دل سے سحاب اترے. ابررحمت بارسے. ایسی برسے کہ برکھا رت کے قطرے قطرے میں شاہد ہو . لہو زنجیر ہو کہ دل فقیر ہو دیکھے شاہ کے جلوے دم بہ دم. ان کے حضور کس منہ سے جاؤ گے؟  وہ کہتے ہیں ہمیں بندگی!  بندگی!  بندگی!  بندگی میں گزر جائے زندگی. اود چاہیے کیا کہ ان کے رخ مہ تاب سے اک آنکھ سے دوسری آنکھ کی روشنی دیکھی ہے وہ روشنی ہے کہ ہائے دل بیٹھا جائے ان کا مسکرانا ہے دل ڈوب جانا ہے کہ وہ پیار کے تقرب کی محفل ہے. اس میں ہے دستخط مہر رسالت سے ...ہم جان گئے حضور کہ آپ نے کیا ہم کو قبول. دل پر رقت لگے گی ضرود کہ وہ پیارے ہمارے ہیں شہ ہادی شہ ولایت


 یار من نے چھپا لیا ہے موتی 
ڈھونڈن چلی میں اس نوں 
لکا چھپی کی رسم ہے پرانی 
یہ کہانی ہے ازلوں کی نمانی 
شبد شبد کی داستان نرالی 
عجب مرا دل 
عجب مرا حال 
عجب دنیا ہے. 
یہ موج طفر ہے 
دل کدھر ہے؟  
دھیان میں گئے 
دھیان نہ رہا 
دھیان میں نہیں میں 
دھیان میں کون یے 
یہ محور رسول ہاشمی نقطہ 
متوف ہے اک عجب سالار 
یہ دل میرا ہوگیا ہے بیمار 
کس سے کہوں مرض لاعلاج 
دل کو ڈھونڈو اب کوئ علاج

 یار من دل کے سیپ دیکھ 
یار من موجہ دل کو دیکھ 
یار من تیغ فغاں کو دیکھ 
یار من تیغ نہاں کو دیکھ 
موتی لا 
موتی ڈھونڈ 
سیپ کھوج


 اللہ اللہ کہنے سے میرا دل ڈوب گیا 
ڈوب کے جانے والو سنو 
یہ افسانہ رنگین ہے 
ہر رنگ کی داستان عجب یے 
دل میں شاہی نقب ہے 
شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ 
.شاہ ولی شاہ ہادی شاہ ولایت

 ابھی رنگ ہے ابھی وہ ساتھ ہے ابھی وہ پاس ہے ابھی اس نے بلایا ہے 

جس نے بلایا ہے اس سے پوچھو دل کے افسانے یہ فسانے مٹا رہے مجھے 
فنا کیا ہے؟
عشق فدا ہے مجھ پر 
میں عشق ہوں.
 میں نہیں تو 
ھو الشاہد ھو الشہید 
درمیان میں کون ہے؟
نفس یے 
اے نفس دھیان سے نکل 
اے روح میان میں رہ
اے موج تو آب بہ آب دُر پاتی جا

 موج نے موج سے پوچھا کہ ساحل نے مجھ سے سنا نہیں فسانہ 
ساحل نے کہا 
چل داستان عشق نہ سنا 
میں خرابہ ء عشق سے پر ہوں 
موج بہ موج بحر میں ہوں 
میں تو خود کسی دہر میں ہوں 
دھیمی رفتار پر آنچ ہے.. یہ قرار پکڑ چکی ہے آگ. جانے وہ کونسی آگ ہے جس نے بحر کو آگ میں ڈال دیا. بحر کی آگ دیکھے کون.
پانی آگ 
آگ پانی 
یہ آگ پانی سے نکل جا 
ماٹی کا پنجرہ عجب ہے 
ماٹی کا پنجرہ نفس ہے 
نفس میرا مجھ میں قفس ہے 
روح میری فضائے دوستاں میں یے

 جناب عالی نے مجھ کو بلایا پوچھا اور کہا 
یہ ستار ترا ہے؟
یہ صدا تری ہے؟
یہ قبا تری ہے!
کیا ہے ترا 

لٹو بن گئی میری روح میں لٹو. رقص نے دیوانہ کردیا مجھے دیوانہ کیا جانے چال الٹی ہے یا سیدھی

 اب میں نہیں خود میں وہ خود مجھ میں 
جو خود ہے تو پڑھا جاتا ہے خود کو 
ذات کو پڑھ!
ذات صحیفہ یے 
ذات کو پڑھ 
ذات سے عشق 
 ھذا عشق؟
العشق حب من 
العشق دیار من

 وعدہ ء عشق ہوا؟  ہاں ہوا اور پھر وعدے میں میں نے دیکھا اک ارادہ

یہ کن کا تھا ارادہ 
کن والے نے مجھے نفخ کرنے سے پہلے 
مجھے مجھ سے مانگ لیا 
کہا یہ ہے میرا ارادہ 
کہا اب پورا کر وعدہ 
میں کون ہوں؟
میں ماٹی کے پنجر میں ایک دیپ 
لو!  لو!  لو دیپ لو!  دل بنا دیپ 
میرے دل کے دیپ میں رنگ ہے


 سنو عشاق! عشق آسان نہیں ہے. یہ پل صراط ہے جس پر چل کے جانا ہے پنجوں کے بل. یہ چلن زمانے کا کہ دیکھو پل صراط دنیا ہے ہم دوذخ سے اترنا ڈھونڈ رہے جنت کی وادی میں گھوم رہے. دنیا میں رہنا ہے متقی ہے .. یہ دنیا کس کی ہے 
یہ جہاں کس کا ہے 
یہ زمانہ یہ چراغ کس کا ہے 
جب سب اسکا ہے میرا کیا ہے؟
دل بج رہا ستار وانگ 
بسمل کا تماشا ہے سر عام 
بسمل نے کردیا درد عام 
یہ وہ قیس جو نہیں عام 
یہ لیلی سے ملے گا کسی شام


نظامی رنگ ہے. دل پر چنر نظامی ہے. یہ رنگ ہے کہ موہا رنگ ہے پریمی. موہی چال ہے پریمی. مورا سجن دلربا. موری آنکھ میں ہاشمی لگن. یہ دل ان کو دیکھ تیر فگن. جان چلی جانی یے. جان چلی جائے گی کہ جان جانے سے میرا کیا ہوگا. نفخ سے نفخ بعد تک میں اسکی تھی میں اسکی ذات کی وہ تجلی ہوں جس سے وہ زمانے میں کہہ رہا ہے کہ 
لوگو پہچانو مجھے 
میں نے دنیا اپنے لیے بنائ 
تم دنیا اپنے لیے بنانے لگ گئے


میں نے نفخ کا کھیل سمجھ لیا میں نے خود میں خود کو دیکھ لیا میں نے اسکو پایا ہے. وہ ھو کی تجلیات لیے راز دل ہے. یہ وہ سرزمین ہے جس میں کئی راز ہیں اوردل راز کا امین ہے. اس دل سے کئی وعدے ہیِ 
آج دی گل نئیں رانجھن یار 
میں ازلوں تری نال منگاں آں 
میرا لوں لوں مہکائے وے 
مری جان بن بن آئے وے 
من شانت!  تن شانت!  رنگ برنگ اسکا راگ!  الوہی اسکا ساز 
تار میم کی لگی ہے 
تار اللہ والی ہے 
تار مل گئی ہے 
تار ہوگئی ہوں میں 
میں تار ہوگئی 
بھلا کون ہے وہ کون ہے کہ کہاں سے نفس سے پوچھے کہ تو کون ہے نفس شرمندہ محجوب ہے کہ کس سے کہے دل ہے اک صندوق جس میں رکھے سو سیپ. میرا دل اک َخزانہ ہے اس میں ہاشمی نگینے ہیں. یہ سامان تپش سے ہے جو مجھ کو ملا ہے رگ رگ میں سانس سانس میں واج اک ہے اللہ اللہ اللہ 
اللہ کی بات کرو 
اللہ دل میں


ابھی دل سے صدا ابھری 
تو مجھے دیکھ
دیکھا اس نے مجھے اور میں خود کو دیکھی جاؤں 
من میں ڈوب 
خود کو پا 
من میں ڈوب 
جوہر فشاں ذات ہے تری 
مہر رساں بات ہے تری 
من میں ڈوب 
مٹی ہو 
خاک بہ خاک 
ہو ذات بہ ذات 
اک آیت بن جا.
آیت ہو جا 
نوید ہو جا 
تحریر ہو جا 
اللہ کہہ 
اللہ بول 
اللہ ہے یہی کہہ


ھذا  العشق ؟
لیس کمثلہ شئی 
دل کی کملی میں سوال ہے 
سوال نے کمال کا جواب رکھا ہے 
العشق من دوات،  العشق لوح  و قلم ز ساز ازل 
جواب اترا تو جناب یہ دل تھا رقص میں شرر چھوڑنے لگا کہ عشق کی چنگاری نے منم بود منم بود کی بات رکھ دی 
میں نے پھر پوچھا 
ھذا  العشق؟
عشق وہ گیت جس میں حال پوچھا جاتا ہے بتا حال کیا ہے 
میں نے کہا 
حالت بحالتک 
میں سکون ہوں مگر مہجور ہوں اور  درد نے تہہ و بالا  کردیا ہے درد نے نالا شروع کردیا کہ جواب منجانب اللہ 

اے عبد اے طائر اے عکس  لاہوتی اے موج من در موتی اے رنگ ناسوتی میں لاہوت کے طائر 

آج بارگہ ناز میں تمثیل ہے 
مثال روشن ہے. مثال وہ نازنین خیال ہے جس کے لیے جہان بنایا گیا اور بنا کے قلم تؤڑ دیا گیا کہ نہیں کوئ اس جیسا اور نہ کوگا  اس قلم سے سب نے دوات پائی 

قلم رنگ حیا
قلم رنگِ حنا 

طالب ‏و ‏مطلوب ‏

قصہ گو چھیڑ رہا ہے قصہ مجھ میں اور میں لکھ رہی ہوں عشق کی کہانی . مقدس صحیفہ ہے جس کو لوح مبین سے مبارک دل میں اتارا گیا تھا اور اس کے جلوہ کو مخلوق آئی تھی. یہ نہ کہو کہ عشق مجذوب ہے بلکہ جس دل میں اترا ہے وہ مندوب رسول ہے. قسم اس رات کی جو سینوں میں قرار پکڑ لیتی ہے وہ عشق کی آگ ہے جس سے دل کے درد چھالے بدن کو دیکھنا محال ہوجاتا ہے. یہ آگ ان دیکھی ہے جس میں روح جل جل کے وہ خوشبو بکھیرتی ہے کہ روم روم سے یار   نکل آتا ہے اور یار اپنے  ذرے میں رونما ہوجاتا ہے .


جیسے اک مصحف تم میں ہے ویسے اک مصحف ہر آیت میں ہے. عشق دکھاتا ہے آیت آیت میں آیت ہے. یہ وہ ہاتھ ہے جسکو یدبیضاء کہا گیا ہے جس سے دل پر نوری ہالے وجود پکڑلیتے ہیں گویا دل برقی رو پکڑلیتے ہیں ... سب یک ٹک ہو کے تسبیح ھو کے پڑھنے لگتے ہے. کون کہتا ہے قران پاک میں عشق و معشوق کے قصے نہیں ہے. عشق کا قصہ اتنا مقدس ہے جتنا اک مجذوب کا دل. یہ کہانی تو قرار پکڑی، جب آدم علیہ سلام کو جنت سے نکالا گیا تھا

وہ گریہ ء آدم جس کو دل میں محسوس کیا جاتا ہے وہ کیا ہے؟  عشق گریہ کے بنا نہیں ہوتا ہے. یہ دل روتا ہے دیدار و وصلت کو .....،  وہ جنت جہاں راحت و چین جذب  کی صورت سرائیت کیے دیتی ہے اور کیا تم نے نہیں دیکھا اک باپ،  بیٹے کی جدائی میں بینائی کھو دے ... وہ عشق تھا جس نے خوشبو سے پتا دیا، بیٹے کا وہ دنیا میں خاکی لبادے میں موجود ہے

عشق اک ماں کے سینے میں نمودار ہوتا ہے اور ماں بچے کے لیے روتی ہے جیسا گریہ یعقوب تھا تم نے سنا. کبھی گریہ یعقوب دیکھو اور دیکھو کتنی مائیں اس جہان میں اپنی قربانی سے زمانے کو سنوار رہی ہیں

عشق کو پڑھو تم تو یاد ہوگا جب باپ و بیٹا قربان ہونے مقتل کو پہنچتا ہے اور اک دنبہ نمودار ہوجاتا ہے. دیکھو تو تم اک طالب رہا دوجا مطلوب ہے

عشق طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کو مطلوب بلاتا ہے اور مطلوب کو طالب. پیاسا کنواں کے پاس آجاتا ہے اور کنواں پیاسے کے پاس. قران پاک میں عشق کی داستانیں ہیں یہ داستانیں جب موسی علیہ سلام نے لن ترانی کہا. لن ترانی سے من رآنی کا سفر تھا سارا کہ ہستیاں بدل دی گئیں

عشق طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کو مطلوب بلاتا ہے اور مطلوب کو طالب. پیاسا کنواں کے پاس آجاتا ہے اور کنواں پیاسے کے پاس. قران پاک میں عشق کی داستانیں ہیں .....، یہ داستانیں جب موسی علیہ سلام نے لن ترانی کہا. لن ترانی سے من رآنی کا سفر تھا سارا کہ ہستیاں بدل دی گئیں

یہ عشق کا سارا کھیل ہے کہ جو ازل سے آزاد روحیں میں چلتا  آیا ہے جب ابراہیم علیہ سلام نے خدا کی کھوج کی اور کہا کہ خدا تو کیا چاند ہے؟  کیا تو سورج ہے؟  مظہر مظہر سے ہوتے وہ کہاں پہنچے... اللہ تک . ہر آزاد روح جو تلاش کرتی ہے خدا کو مظہر مظہر میں،  یہ عشق ہے ..

یہ طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کہہ رہا کہ کہاں ہے تو مطلوب. اے مطلوب چل آ ... مطلوب کہ رہا ہے کہ طالب آ،  طالب آ،  طالب آ ... یہ شب بیداری کے قصے جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جاگتے رہے اور حرا میں قائم رہے .. زملونی زملونی کہتے خشیت میں ڈوبتے ڈوبتے رہے یہ کیا تھا ..یہ عشق تھا
جب مومنین کی کھالیں قران کی خشیت سے کانپنے لگ جاتی ہیں اور وہ جذب ہوجاتے ہیں بہت سے ایسے ہیں جو آیت کے نور سے مسلمان ہو جاتے ہیں، یہ جذب ہونا عشق ہے

عشق مجذوب ہونا مانگتا ہے عشق جذاب مانگتا یے ....، عشق حسین مانگتا ہے،  عشق حسن مانگتا ہے ...، عشق کلام الہی ہے ....یہ قلم سے چلتا سلسلہ ہے جس میں ارواح زیر دام ہوتے قربان ہو جاتی ہیں. یہ جان دینے کا نام ہے جب ہم نے پڑھا قرأت صحابہ کی گرم کوئلوں پر ... یہ طالب و مطلوب کی کہانی ہے جس میں جمال کی طالب ارواح اکٹھی ہوگئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاز .. قسم اے دل..... تمام ارواح آج بھی جمع ہیں اسی گھڑی کو ہم دیکھتے ہیں ان کی کملی نے ایسی تمام ارواح کو اپنے کملی میں لے رکھا یے

لفظوں کے ہیر پھیر میں میرے دل کچھ نہیں. بندگی عشق ہے عبدیت عشق ہے  ..عبدیت یعنی خود نیاز کی انتہا میں ہونا اور خدا وہ ہے جو بے نیازی پر ہوتے اپنی مامتا کو لٹاتا ہے وہ ہے. لفظ عشق نہیں ہیں    روح عشق ہے عشق میِ روح جل جاتی ہے کپڑا جب تک نہ جلے عشق نہیِ ہوتا

کپڑا جلنا چاہیے اس لیے سورہ النور میں نور علی نور فرمایا ہے مرشد وہ نور ہے جو روح کے نور پر نور ہوجاتا ہے آئنے کو آئنہ نہ ملے آئنہ روتا ہے آئنہ چاہیے .. آئنے ہوتا ہے عشق ہوتا ہے....


آؤ ہم سب دعا مانگیں کہ ہمیں عشق سے نواز دے خدا...ہماری جھولی میں عشق کی وہ لازوال دولت رکھ کہ ہم تن من لٹا کے خدا کی گود میں سر چھپالیں کہ ہمیں بس خدا کافی ہے اللہ ھو الکافی اللہ ھو الشافی...خدا ماں کی لوری ہے. یہ جو مائیں پھرتی محبت بانٹتی ہیں بن عشق کے یہ قربان ہو سکتی ہیں؟ ان کی روح جل رہی ہوتی ہے ان کا درد مانگتا ہے اور درد اور.....،  درد کی دوا ہے درد....اے خدا ہمیں درد بے انتہا دے اور اتنا دے کہ درد نہ رہے اس درد میں یاد رہے تو اورکوئی نہ رہے کہ تو نے باقی رہنا ہے باقی سب کو فنا. اے خدا ہم کو فنا کردے کہ ہم فانی یے تو باقی. جب دل فنا ہو جاتا ہے تو دل کہتا ہے....، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ...یہ کلمہ ایسے دل میں قرار پکڑ جاتا ہے اور ہم کو خدا کے سوا کیا چاہیے  خدا کافی ہے

من ‏میں ‏ڈوب ‏

دنیا میں بھی تو حشر بپا ہے... دنیا میں کتنی گواہیاں ہیں محبت کی. اے محشر کے داعی. ذرا دل کے لب کھول اور دیکھ کے کتنے نگینے جڑے ہیں ترے دل میں. کتنی حیرتوں نے ترے افلاک چیر رکھے ہیں مگر تو نادان اب بھی نہیں سمجھتا ہے کہ لوح مبین کی کنجیاں تجھ کو عطا کی گئیں اور تو اب بھی نہیں دیکھتا. تو دیکھ اور چل جانب منزل

من میں ڈوب، من میں ڈوب ..دل کو کھوج ہو موج بہ موج آب بہ آب. من میں ڈوب من میں ڈوب


اس عالم میں نہ جا 
اُس عالم میں نہ جا 
تو دِل ہے.
تو دل میں ڈوب جا 
دل کو سن 
دل میں ڈوب.
الوہی ہے راگ اور ستار بجنے لگ گیا. اسے یاد آگیا کہ وہ کہاں تھا. جب وہ وہاں گیا تو وہ یہاں نہیں تھا ...

من میں ڈوب!  من میں ڈوب ..خود کو کھوج!  جذب ہو جا 

کہہ اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو 
نقطے میں ڈوب 
نقطہ ہو جا 
نقطے میں ڈوب 
نقطہ ہو 
تو کہہ الف!  میم تک آ!  
میم کا سرمہ وجدانی ہے 
ترا دل کتنا نورانی ہے.
آنکھ اب بھر آنی ہے 
یہ جذبات ترے ہیں نورانی 

من میں ڈوب!  من میں ڈوب!  
خود کو کھوج!  کھوج کہ تو کہاں ہے؟  کہاں ہے دل ترا؟  دل دل میں ہے. 
ہاں!  دل میں دل یے 

وہ دو قلب یوں ملائے گئے 
کہ نورانی مصحف اتارے گئے 

دل آگیا ہے!  دل ڈوب گیا ہے!  دل ڈوب جانے دے!  مست رہ!  مست ہو!  مست کر!  جذب ہو!  ساجد ہو!  مسجود ہو!  رہ اللہ کا اور کر اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 

اللہ ہے چہار سائیں 
اللہ دل میں یے 
اللہ نبض کی رفتار میں 
اللہ حق کی صدا میں یے 
اللہ سجدے سے مل جاتا ہے 
اللہ ساجد کے دل میں ہے 
اللہ کر 
اللہ کر 
مست ہو 
مست رہ 
مستی میں ڈوب!
من میں ڈوب!  
جذب ہو!  
ساجد رہ

come, come!

Come, come!  Dazzling snow
Come ,come!  An arrow bow 
Come, come! The whispering divine
Come, come!  Aye!  Light shine 
Residing in a  heart, in single voice
Come!  Now you have no other choice 
You are divine love!  Get not caged
Wander my world, its my seige 
Wandering will filter,  will pure
Its the way to get cured 
Hey!  Listen divine muse!
Pipe will make melody then,
O my pipe!  I am singing 
Bow!  Bow!  Bow to me.
My blessing are uncountable 
Let sing the world my muse!
O my lover!   Show your ring now

نیک ‏و ‏سعید ‏ارواح

نیک اور سعید روحیں بوقت پیدایش ہی اصل قطبی مقناطیس سے براہ راست کشش رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جو سب کو سمت دیتا ہے مگر اس کی کوئی سمت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی روشنی چار سو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی روحیں شوق میں دنیا اور آخرت کو بھلا کے ، دوستی کے رتبے پر فائر ہوتی ہے ۔ جناب سیدنا صدیق اکبر رض سے بڑھ کے کوئی صحابی اس روئے زمیں پر سیدنا محمد ﷺ کا ساتھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ ہے جس کو چاہے عزت دے دے اور جس کو چاہے ذلت دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ  جو ، جوپر مٹی کو انسانی صورت دے کر اس میں اپنے نور سے اجال دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔وہی اللہ ہے

توفیق ‏

تم ایک گناہ کی جانب راغب ہونے لگو اور عجب نہیں کہ اس کا ارادہ کرلو مگر تمھیں روکنے والا کون ہے؟  خالق!  
تمھیں نیکی کی طرف مائل کرنے والا کون؟  مالک 
تمھارے گناہوں کی عیب پوشی کرنے والا کون؟  ستار 
تمھارا گناہوں کا بھرم ر کھ کے تمھیں معاف کرنے والا کون؟  غفار 
تمھیں روحانی قالب میں ڈھالنے والا کون؟   کریم 
تمھیں حسین و جمیل کرنے و بنانے والا کون؟  مصور 
تم پر بارشیں کرم کی کرنے والا کون؟  رحمان 
تمھارے بدن کو رزق پہنچانے والا کون؟  رزاق 
تم اس کو یاد کرتے ہو تمھیں یاد کرنے والا کون؟  سبحان 
اس سے زیادہ بندے کے لیے کرم کی بات کیا ہے کہ بندے کو خدا یاد کرے اور وہ اس ادا پر مر نہ جائے؟  کیا وہ اس پر راضی نہ ہو جائے؟  کیا وہ مومن نہ ہو جائے؟  ایمان کے سانچے میں ڈھل جانے والے فولادی انسان ..جن کے یقین پر آگ ٹھنڈی ہوجاتی اور چاند ٹکرے ٹکرے ہوجاتا ہے ... جن کو انسان معبود بناتا ہے وہی انسان کے حکم کی تعمیل کرنے لگیں تو سمجھ لو کہ اللہ نے ایک بندے کو تم میں بھیج دیا ہے جو تم میں ایسے یقین پیدا کرتا رہے گا جس کی خالق کو آرزو ہے.  یہ سب جانتے ہیں وہ بے نیاز ہے مگر وہ  جو اس کو محبوب رکھتے پیں وہ ان کی طرف بھاگتا اور لپکتا ہے کپ میرے بندو!  میرے پیارو! میں نے جس کو تمھارے پاس بھیجا تم اس کی طرح ہو جاؤ!  کبھی میں انبیاء کو بھیجتا رہا مگر جب دین مکمل ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتیوں میں سے منتخب روحیں تم میں بھیجتا رہتا ہوں.  وہ پاک روحیں میری جانب سے اپنے بندوں کے لیے تحفہ ہوتی ہیں.

محبوب

محبوب ایک آئنہ کی مانند نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ تمثال گر ہوتا ہے. جوں جوں عکس واضح  ہونا شروع ہو جاتا ہے ویسے ویسے انسان میں تفریق کا خاتمہ ہوجاتا ہے . جب جب اُس کا ذکر ہوتا ہے تو  گُلاب کی خوشو  کوچہ و دیوار میں بسیرا کرلیتی ہے.  انسان کا سفر  مالک کل کی طرف آسان ہوجاتا ہے.  اسی واسطے انسان کو پیدا کیا ہے.  اس میں عقل کا بیج رکھا تاکہ وہ سمجھ سکے اور دل میں الوہی چراغ پھونک ڈالا.  اب عقل کا.کام سمت متعین کرنا ہے کہ یہ اک راستہ واحد،  احد،  صمد کی طرف جانے کا.  اور انسان اس سے برائی کی طرف راغب ہوجائے تو اس کا قبلہ شیطان بن جاتا ہے یہی بات جو مرکز سے ہٹا دیتی ہے. 
نور

نوائے ‏نو ‏

یارِ من سن تو سہی 
یارِ من دیکھ.تو سہی 
حقیقت نے بخشا آہنگ تجھے 
تو دھیمے سروں پر کھو جا


نَوائے نُو 

ہمسَفر نے سُنی نَہیں فریاد 
پیچھے مڑ کے نَہیں دیکھا 
میں نے لمحہ میں صدیوں کا فاصلہ طے کیا 
انتظار طویل ہے،  یہی پڑھا!  ہاں،  یہی سُنا!  
میں نے پکارا بارِ دگر 
جلوے ٹکروں میں بنٹا نَہیں کرتے، اُس نے کَہا 
طور سینا سے لوٹنے میں مدہوشی اک مقام تھا 
پھر سحر سے نَیا پیغام طلوع ہوا 
وہ پیغام نشان تھا ...
یار من!  سن 
تجھ کو پانے کی تڑپ ہے 
جاں بَلب ہستی ہے 
یارِ من!  نشان دو مجھے 
یارِ من!  کان دو مجھے 
یارِ من!  انتظام عام کرو

نقالی ‏

کُچھ لوگ ساری زندگی نقالی میں گُزار دیتے ہیں.  سوچتے ہیں کہ انہوں نے شخصیت پرستی نہیں کی جبکہ نقال شخصیت پرست ہوتا ہے اور وہ لوگ جو من کی صدائیں سنتے ہوئے ان پر عمل کرتے ہیں ان کی زندگی میں مشاہدات ،  تجربات اندرونی عوامل  کو متحرک  کرتے ہیں.  انسان اس لیے ہیدا نہیں کیا گیا کہ بیرونی دنیا کو کھوجے جبکہ اندر کی دنیا کھوج بنا مر جائے.  ایسے لوگ ماسوا حسرت کے کیا اس جہاں سے لے جاسکتے ہیں. جن کی اپنی.تلاش کے سوت اک بڑے مرکزی دھارے سے مل جاتے ہیں ان پر عیاں ہوجاتا ہے کہ دنیا میں انسان مسافر ہے.  اس کی مثال مٹی کے بت جیسے ہے جس کو روح نے جان دی ہے.  روح کے لباس کئ ہوسکتے ہیں مگر سعید روحیں "نور " ازلی و ابدی کی حقیقت کو پالیتیں ہیں اور جان لیتی ہیں  کہ موت کی ساعت  وصل کی منتہی کا نام ہے.  

وصال کیا ہے؟  موت کیا ہے؟  روح کیا ہے؟  انسان کیا ہے؟  انسان مٹی کا پتلا ہت جس نے  پتھروں کی دنیا میں دل پتھر کردیا.انسانی دل جب ٹوت جاتا ہے تو کبھی چشمہ پھوٹ جاتا ہے تو کبھی پانی مل جاتا ہے تو کبھی پانی کو راستہ مل جاتا ہے. .انسانی دل کی زمین کو پانی تخریب سے مل جاتا ہے. جب چشم پھوٹ جاتا ہے تو خون میں "ھو "  "ھو " کی صدا ٹکراتی رہتی ہے. جب انسان مکمل "ھو " کے سانچے میں ڈھل  جاتا ہے تو وہ ""مطیع الرسول  و اللہ " " ہوتا ہے.  وہ نقال کے بجائے راہ کی سمت دیتا ہے اور اس کو ابدی ہاتھ خود اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں تب  وہ وصل و موت کی حقیقت کا راز شناس ہو جاتا ہے 
نور

ہم ‏کلامی ‏

ہم کلامی 

وہ کہتا ہے کہ مجھ میں چھپ جا، وہ کہے اور دکھائی کچھ نہ دے تو بندہ کیسے چھپے اور کیسے وہ ظاہر ہو؟ ؟ ؟ 

وہ ظاہر میں  ہے ــــــ  تو اللہ ظاہر ہو تو دیکھے اپنے آئنے کو ـــــــ اسکا آئنہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں ..جب تک اپنی نفی نہیں  کی ہوتی ــــــــ خدا  ظاہر میں نہیں ملتاــــــــــ خدا نہ ملے تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کلمے میں پڑھنے سے کیا حاصل ہے؟؟؟  جب وارد نہ.ہوا تو.ماننے سے آگے کا.سفر چہ.معنی؟ ـــــــ  گویا یقین بھی کامل.نہ.ہوا.ــــــــ  پہلے خدا  کو  دیکھو جا بجا پھر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو جا بجا ... 

یہ روح پڑھتی نہیں کلمہ بلکہ یہ چادر بن کے تن جاتی کلمے کی جب کہ زبان کو سمجھ نہیں آتی" لا الہ الا اللہ" کا مطلب کیا ...اللہ کو ہم  نفس کی.حجابات کی.وجہ.سے دیکھ نہیں پاتے ـــــــ کجا وہ ہستی،  اسکا محبوب جن.پر.درود.بھیجا.جاتا ہے، ان  کو تو ہم کہتے اللہ تو نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا. 

اب بھلا بتاؤ اللہ اچھا کیوں نہ کرتا کیونکہ وہ بھی چاہتا اسکے محبوب کو دیکھیں جب اللہ محبوب کو دیکھتا ہے تو ہم بھی دیکھ لیتے ہیں .. یوں دید ہو جاتی ہے 

.یہ دیکھو محبوب کو دیکھو نظر کتنی پاک کرنی پڑتی ہے ... یہ نظر پاک اللہ کے نام سے ہوتی اللہ کہتا اللہ کا ذکر کر مگر میں اسکو کہتی ہوں کہ  درود پڑھوں گی پھر وہ مجھے دل کے کالے گند سیاہ غلاظت دکھا کے کہتا دل صاف نہ ہو درود کا فائدہ سو میں یہ سوچتے کہتی کہ اللہ کا ذکر سے  گھر صاف کر تاکہ وہ آئیں گھر تو دل مجلی ہو مگر کون جانے کون کس حد تک ہے، میں کہاں جاتی ہوں، میری حد کیا ہے، مجھے مری حد مل جائے تو کام بن جائے

مجھے اللہ سے لگاؤ ہے مگر اسکے محبوب سے لگاؤ  بیحد ہے ـــــصلی اللہ علیہ والہ وسلم ـــــــ  شاید اللہ سے لگاؤ کب کا یے مگر محبوب سے آشنائی کا احساس کلمے سے ہوا کہ پہلے لا --* الا اللہ --- پھر محبت پاک دل نہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہیں دکھتے کہنے کو کلمہ پڑھ لو مگر دکھیں گے تو گھر صاف ہوگا پھر چایے دل میںِ کتنا گند ہو وہ جلوے سے صاف ہوگا ان کے جلوے کا دیا اک دفعہ جل جائے تا عمر جل دل جاتا یے 

چراغ مصطفی بنا یے دل جلا ہے مثل طور جو 
ہوا بجھا نہ پائے گی یہ روشنی کمال یے

تب جذب ہوجاتے ہیں ہم بولتے نہیں ہم بولتے ہیں اور ہم بول بھی نہیں رہے ہوتے کوئی اور ہستی کلام کرتی ہےـــــ  ہم کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ کہتے جو کہا جاتاـــــ درحقیقت یہ وہ نظام چلا رہے مرے آقا نظام چلاتے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو جب وہ ہر جگہ ہیں تو میں اندھی ہوں مجھے آنکھ چاہیے ہر ہر جگہ ان کو دیکھنے کو

درود ‏

کتنا بھیجیں اور نہ ہو مکمل درود 
کتنی کریں تکریم نہ ہو مکمل سجود 
کتنا تڑپیں مگر ٹوٹیں نہ قیود 
رقص بسمل ہوگا ٹوٹیں گی حدود 

فرشتے ــ ملائک ـــ روح ـــ کروبیان ــــ بھیج رہے درود ... 
رب بھی ہے محوِ ثناء اور بندے ہیں مانند شہود ـــ اے دِل!  لیے.چل موجہء صبا کی مانند اور چھونے دے رنگِ چمن و نقش!  ہم.جبین جہاں قدم رکھیں گے،  وہاں وہاں بھیجیں گے درود ـــ بندہ جان لے راز تو ہے لامحدود ــ قرب تمنا کی اور تمنا میں قرب ...لذت مرگ کو دیتے ہیں وجود ... لباس فراق کو جامہ.ء موم دے کے شمع کی برق سے جلتے ہیں اور دیتے ہیں زمانے کو اسمِ محمد صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم.کا.دود ..پیشِ حضور ہوں.گے ہمارے نعتیہ ترانے اور.قبول.ہوگا سلام!  غلامی کو.چاہیے ماسوا کہ.لکھوں.ثنائے اسمِ موجود ..قاری.سے پوچھ! .قران.پورا ہے ثنائے محمد صلی اللہ علیہ.والہ وسلم! .کہیں.دلنشین،  کہیں.دلربا،  کہیں مصحف کے حامل کے پاکیزہ ترین انسان 
.. اللہ.سے پوچھو ورنہ.اللہ.پوچھے گا.کہ اللہ نے کیا. نہ.بھیجا.درود

سادات ـــ سیدہ فاطمہ ـــ نوری ہالہ ـــ اسم حال میں کہاں ہے مجال کہ کرے قال قال ـــ رنگ سنہری ہو رنگ جامنی.ہو کہ نیلا..سب کا اک.رنگ ہے ـــ سپیدی کا رنگ ــــ سفید رنگ بیداغ ـــ داغِ دل.سے ہوا یہ دل.پارہ.پارہ!  پارے میں نکلے مے و خم کے..نشان ..نشان.اور بے حجاب!


کتنا بھیجیں اور نہ ہو مکمل درود 
کتنی کریں تکریم نہ ہو مکمل سجود 
کتنا تڑپیں مگر ٹوٹیں نہ قیود 
رقص بسمل ہوگا ٹوٹیں گی حدود 

فرشتے ــ ملائک ـــ روح ـــ کروبیان ــــ بھیج رہے درود ... 
رب بھی ہے محوِ ثناء اور بندے ہیں مانند شہود ـــ اے دِل!  لیے.چل موجہء صبا کی مانند اور چھونے دے رنگِ چمن و نقش!  ہم.جبین جہاں قدم رکھیں گے،  وہاں وہاں بھیجیں گے درود ـــ بندہ جان لے راز تو ہے لامحدود ــ قرب تمنا کی اور تمنا میں قرب ...لذت مرگ کو دیتے ہیں وجود ... لباس فراق کو جامہ.ء موم دے کے شمع کی برق سے جلتے ہیں اور دیتے ہیں زمانے کو اسمِ محمد صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم.کا.دود ..پیشِ حضور ہوں.گے ہمارے نعتیہ ترانے اور.قبول.ہوگا سلام!  غلامی کو.چاہیے ماسوا کہ.لکھوں.ثنائے اسمِ موجود ..قاری.سے پوچھ! .قران.پورا ہے ثنائے محمد صلی اللہ علیہ.والہ وسلم! .کہیں.دلنشین،  کہیں.دلربا،  کہیں مصحف کے حامل کے پاکیزہ ترین انسان 
.. اللہ.سے پوچھو ورنہ.اللہ.پوچھے گا.کہ اللہ نے کیا. نہ.بھیجا.درود

سادات ـــ سیدہ فاطمہ ـــ نوری ہالہ ـــ اسم حال میں کہاں ہے مجال کہ کرے قال قال ـــ رنگ سنہری ہو رنگ جامنی.ہو کہ نیلا..سب کا اک.رنگ ہے ـــ سپیدی کا رنگ ــــ سفید رنگ بیداغ ـــ داغِ دل.سے ہوا یہ دل.پارہ.پارہ!  پارے میں نکلے مے و خم کے..نشان ..نشان.اور بے حجاب!

جمعہ ‏مبارک

السلام علیکم 
جمعہ مبارک 
درود ان کے لیے جو رات جاگ کرتا تھے، رویا کرتے تھے ہمارے لیے ـــ ایسے ہچکیاں لگ جاتی تھیں بدن مبارک کو، دیکھنے والا کا دل لرزشِ پیہم میں چلا جائے!  ہماری سراپا عفو ہستی!  ہماری محبوب ہستی!  ہمارے لیے گنجینہ الاسرار!  کنر مخفی بھی!  سرِ الہی!  جبین دل پر کنندہ نام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  اے ایمان والو!  درود پڑھنے سے صدقہ جاریہ شروع ہو جاتا ہے 
درود ـــ اس ہستی پر جس کا سفید لباس مبارک  ہمارے لیے تر ہو جاتا تھا!  درود ـــ جن کی داڑھی مبارک ایسی تر بتر ہوتی جیسے شبنم کے قطرے بہتے ہوں!  درود ان پر بوقت مرگ ـــ فکر ہماری لیے وصلِ شیریں میں رہے!  درود ان پر ـــ بنات کو بالخصوص سیدہ واجدہ عالیہ رافعہ صدیقہ مطہرہ فاطمہ الزہرا جیسی وفا کی دیوی،  حسن کامل،  خوش خصائل کا مرجع،  سیرت میں آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  جلال میں خدیجہ الکبری رضی تعالی عنہ ـــ ہمیں ملیں ـــ ہماری سردار پر درود ..درود سلام کا ہدیہ امِ ابیھا پر!  صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  جب وہ تلاوت کرتی تو سورج کی قسم!  ایسی شہد آگیں تلاوت تو لحنِ داؤدی میں تھی مگر کم!  ایسی ترتیل ہوتی ان کی آیت ان کے دل مبارک پر کہ صبر سے ایثار کا پیکر خدا کے آگے جھک جاتا یے ـــ جن کی تطہیر کی مثل نہ مثال!  ان کی تطہیر کی مثال کیا لاؤں! نہیں!  وہ پاکیزہ ترین خاتون ہیں کہ نام لوں بھی تو دل کو اشک سے تر کرلوں ـــ بے ادبی نہ ہو ...پیاری زہرا ـــ سلام سلام سلام!  
جمعہ مبارک

یہ سندیسہ مل جاتاہے گفتگو کو ہنر مبارک!  واجد کو تحریر مبارک!  جمعہ کی ساعت شروع ہوتی ہے اندھیرے میں اجالے سے!  اس دن کو نسبت ہم مسلمین دیتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  تو ہم کو نسبت ِ دن مبارک 
درود!  
ان گنت درود!  
کیوں بھیجیں حساب سے درود 
دیا جب جاتا ہے بے حساب 
کیوں شمار کریں ہم گھڑیاں 
گھڑیوں میں ہوجاؤں مشہود 
گہرائیوں میں جھانکے جائیں 
گہرائی میں متحرک اسم غنود 
تجلیات سے بحر کا آیا وجود 
ستم کو جلا دل بنا بے حدود 
رگ دل کٹ کے ہوئی لا محدود 
منزل غنا سے فنا کی تیاری ہے 
یہ زندگی ہماری ہے! ہماری ہے


اللہ اکبر 
جمعہ مبارک 
سیاہی دوات مبارک!  
زندگی کی رات مبارک!  
انسان کو انسانیت مبارک!  
راج میں تاج مبارک 
اشجار کو ھو مبارک 
طائر کہیں "تو "مبارک 
سپاہی کو تلوار ھو مبارک 
چشم نم کو الہیات مبارک 

جمعہ مبارک! جمعہ مبارک!  جمعہ.مبارک!

All chains unchained

All chains unchained
The Cage is uncaged
Fluttering is unuttered
Silence is made gossip
Burns are exhumed
Waves turned into sea
Flowers are in glea
Universe is in rhythm
Heart is toto broken
Desert warmth in full swing
Making one self to cry
Ah! thy love is unfathomable
Thy blessings irrevocable
Thy kindness uncountable
I am divine lamp
I am infinite in limits
I am mankind in cage
Who am I? I do not know!
Whisper of beloved is sweet
His voice is melodious
His attire is adorning world
I am He or He is I am
Who I am? Who is He?

منم ‏فدائم ‏در ‏علی ‏گدایم ‏

منم فدایم درِ علی گدایم --- بَہ نگاہِ عَلی طواف اُو کردم --- 

یا علی یا علی یا علی 

نـــعرہ ء علی لگاکے دیکھو --- دل بہ لبِ زبان ہلا کے دیکھو ..

دل کے دالان میں نقش علی سے بات کر - دل سے دل نے کہا ڈوب جا- دل ڈوب گیا اور ظاہر ذات علی ہُوئی .. خود کلامی میں دو کو پایا تو رازِ خفی-- سرِ نہاں  پایا 

خامشی کا صیغہ ساتھ رکھ --- محو ہو -- تماشائی ہو، زبانِ دل میں نغمہ سن سنا -- طیور کو بخشا جاتا ہے میخانہ 

ووھبت!  ھنالکم ابتلی کے بعد! نواز کے خزانے میں جلِ جلالہ علی کی ذات میں گم - من نفی شد - تو ظاہر شد - خیال کیست؟  خیال نیست!  جب گمشدہ ہو، فنا ہو جاؤ تو کہہ دو 

علی علی علی علی علی علی علی علی علی 

دل چیر دے گا نعرہ- شگاف میں درز درز کی نکلی روشنی کی صدا یاحیدر یاحسین!  امامِ حسین یا علی اکبر سلام شوق کو منظور کرلیجیے 

کما کان اھبت؟  ووحیت لک 

سجا لیے گھنگھرو پیروں میں -- لعل سجا کے دل میں پائے دل کو لعل لال کرکے کہا یاحسین ابن علی سلام -- یا حسین ابن علی سلام 

یا شامِ صبح یا مولودِ حرم  --- دلم فگارم این درد کرارِ ثانی 

جلال.الدین شاہ سرخ بخاری حیدر ثانی کو سلام 
باد صبا کیے جائے ان سے کلام 
مرا ان سے بس یہی ہے اک کام 
کروں اظہار صبح شام بے نیام 
مل جائے گی وصلت ماہِ صیام 

باد کرتی ہے ان سے کلام- سگ کوئے یاراں بہ ہوشِ کلام -- منم محو شیدایم ایں در فدایم --- نظرکرم دلِ شکستہ کردہ است -- مست ولائے حیدرم دم ہما ہم یا علی 

توری پریتم میں نگاہ گم ہوئی - مورا سنگیتم توئی - تو جس جانب فکر لیے چل - اسی جانب دل بہ قدم پا بن کے چلے -- اندر جنگل میں مئے ناب میں صدائے فگارم سنو گے؟  اک کیساتھ اک کا راز سنو گے؟ جذبات کا اظہار سنو گے؟ کمالِ اطراف میں اترا جمال دیکھو گے؟ روشنی کے ہالے میں جمال مصطفائی صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو گے؟  سوچو کہ کہاں ہو؟  سوچو کہ کس مکان میں ہو؟  سوچو کہ تم لامکان میں ہو سوچو کہ زمان سے پرے ہو * سوچو کہ دم دم میں وہی صدا ہے - علی علی - مری زمین کا آسمان علی ہیں --* نگاہ کی بات ہے نگاہ میں نہیں ہے--- جہاں میں ہوں وہ جہاں نہیں ہے - رگ الفت چھڑ گئ - حرکت دل میں اتر گئی ہے -- شام سلونی سج گئی ہے - رات کفن باندھے کھڑے کہ صبح نہ ہونے دے گی --


Ali -Ali Ali 

Thy name is the mountain of virtue sustained the beauty of the world. He is the moon of Noor- e- Nabawat. My heart aches for that name echoing the corridors of my heart. He is the honey giving sweetness to my meloncholic  pain of separation. The divine vessel is demanding the immense drink to be poured. O 'the lion of Allah - O 'the sword of Allah give me power to uncage the cage.. Restraints, boundaries must be broken. O my mirth - lets dance in me - say Ali Ali

دوست ‏نے ‏چھیڑا ‏راگ ***

دوست نے چھیڑا ہے راگ،  کردی ہم سے ساز باز، نم آنکھ سے کُھلا راز، ہم نہیں تھے، وہ تھا پاس پاس. رُلا ڈالا یار نے ہمیں جان لیا کہ راز میں راز رہا تھا. --------------

 شمع سے نروان لینے چلو، چلو نروان مہنگا ہوجانا!  اٹھو!  اٹھو!  اٹھو کہ مندر سونا نہیں ہے!  اٹھو --------  وہ ہماری رگ رگ میں پکار رہا ہے کہ شام الوہی الوہی ہے

رات کا سونا پن کس نے دیکھا تھا رات چلی محبوب کے پاس، ---------محبوب نے جان لے لی کہ جان تو باقی تھی. جب قطرہ قطرہ نیچے گرا تو کہا تھا

اشھد ان لا الہ الا اللہ

حق کی شہادت تھی، وہی لگا ادھر ادھر ...حق نے آواز لگائی------------ ..سن!  من نے کہا کہ  کس نے کہا،------- سن!  یہ زمین ہلتے ہلتے بولی کہ سن!  یہ جو مٹی ہے بکھر کہ کہہ رہی سن!  یہ جو کاسنی بیلیں ہیں، لہر لہر کہ لہکتے کہہ رہی ہیں سن!  سن!  سن !

ارے ہم کیا سنیں ریں!  بتا تو سہی!  کیا سنائی دیا نہٰیں کہ حق جلال میں ہے!  حق نے کہا تھا ساز الوہی یے! حق نے کہا تھا چشمہ الوہی ہے حق نے کہا تھا عشق کی لا ضروری ہے
تب سے ہم نے  کب تھا مڑ کے پیچھے دیکھا!  

جا کے بیٹھ گئے اس کے در پر!  درد درِ اقدس پہ بَہائیے....... کیونکہ حق تو ہی تھا درد،  درد نے ہم کو حق کی گواہی سے ملا دیا. خون کا قطرہ قطرہ شہادت سے شاہد ہوا ..حق میں صامت ہوا

یہ کیا کیا ہے!  یہ ہم کس نگر چل دیے ہیں!  یہ سازش کس ستار کی ہے!  یہ آگ آگ سی ہے جو ہم نے ہاتھ میں اٹھا رکھی یے!  یہ کشتی کیا ہے جو چل رہی اور اسکا سفینہ فلک تک چلا گیا گویا فلک خود زمین پہ آگیا ہے

عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت کا حال ہے 
عشق سرمہ ء وصال ہے 
عشق کے بازی کھیلو یم.سے

ہم.تو عشق کی لاگت میں مورے نین سے نیناں ملائے کھڑی رے!  عشق کی لاگی نے بجھائی نہ آگ،  جلا ڈالا جنگل سارا ..ہائے!  یہ ہوا حال کا حال! کمال چھاگیا ہے!  حال آگیا

ہم تو مجنون تو تھے نا رے!  ہم تو لیلی کی مانند حسن میں شامل تھے!  اب ہم کہ فنائے حال میں کمال کو ہے! جوگی کو دیکھے کون؟ جوگن دیکھو سارے!  لوگ لوگ گئے شہر شہر بھاگن!  دیکھن کہ سبز سبز مور سے کیا ہے لاگن!  ہائے لگن کی چنز نے مار ڈالا ...مار ڈالا

ہم تو مرگئے!  ہم تو فنا ہوئے رہے!  چاہے لگن میں سایہ افگن وہ بالِ میم سے آشنائی کس فلک کی جانب گامزن کردے

. ہم کو چاہت کے الوہی راگوں میں مگن کرنے والے پیا!  آجا!  دل میں سما جا!  آجا ہم سے نین ملا نا!  نین کی بازی کھیل نا!  ہم تجھ کو تو ہم کو دیکھ  کے جی لیں نا!  آ ہم سے کھیل!  یہ ہماری شوخ نگاہ ہے کہیں کھیل میں آگ پھیل نہ جائے!  جل جائے رے تو!  ہمارا من ہے تو!  ہماری آس میں جانے کس کس نے دیے توڑ دیے اور ہم نے تجھ کو اپنا دیا بنا دجا
 
خوشبو جلنے لگی ہے!  اووووو خوشبو پھیل رہی ہے

مدھم مدھم سی خوشبو نے سرمیٰ حال کردیا یے!  کاشانہ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیام سے کمال کی جانب اترنے والے الہام سے پوچھو کہ کس جانب جانا ہے اب تو طیبہ والے بھی منتظر ہے کہ سوار کو سواری مل چکی ہے!  یقین کی کونسی منزل ہے جس کے سب گمان حق میں بدل رہے 

جھکاؤ نظریں سب!  ادب!  ادب!  ادب!  درود!  درود!  درود!  حد ادب!  سرکار کا جلوہ ہے!  درود حال دل میں مقیم عالی پناہ ہستی پر  ...حق درود کی واج سنو ..نئی منزل کا آغاز سنو!  شام سے رات کی مثال سنو!  اختلاف لیل نہار سے وصل و ہجر کے بار سنو!  خاموش!  حد ادب!  ذی پناہ موجود دل میں!

کیسی گواہی چاہیے تھی!
الوہی ذات سے منسلک چشمے ہیں سارے ...
کوثر سے منسلک ہیں پیارے ..
یہ جو کعبہ دل میں ہے اب یہ منبر بنے گا 
یہ جو حرا کی شام ہے، رات میں ڈھلے گی 
یہ جو نوح کا قصہ، اک نئے آغاز میں ملے گا 
یہ جو ماتھے پہ نور کا نشان ہے، یہی حق کی گواہی ہے 
حق کی گواہی ہماری گواہی ہے
کاتب دل  کو اور کیا چاہیے؟
یہ فیض نور سے جاری چشمے ہیں ..
نور ہم سے منسلک اک ایسا چشمہ ہے، جو ہمارے نگاہ میں شامل رہتے کاملیت پہ گامزن ہے ..
اور کیا چاہیے ...

حد ادب!  بندگی میں سرجھکا رہا!  بندی غلام! شکرانے کے نفل ادا کرے گی!  حبیب نے کیسے یاد کیا ہمیں!  زہے نصیب!  زہے نصیب!  زہے نصیب!

نیلم کی کان ہی تمھاری ہے، کان کنی تم نے خود کرنی ہے!  ہم نے تم کو ایسے جبل کے لیے منتخب کیا ہے!  یہ تمھارا دل ہے جو نیلا ہے! اس کو سرخ ہم کریں گے!  حسینی لعلوں سے ...
رکوع!  رکوع!  رکوع ...
آقا جاتے ہیں .. آقا جاتے ہیں!  آقا جاتے ہیں ...
سر نہ اٹھے، مقام ادب ہے!  سر نہ اٹھے!  نہ نہ ...خاموش ...درود!  حد ادب!  خاموش!  درود!  دل کا جلا ہے،  یہ رات کا ڈھلا ہے، یہ شامی لباس ہے، یہ خونین پوشاک ہے!  یہ حسن کی یلغار ہے،  یہ روشنی کے لیل و نہاز ہے! یہ مصر کا نیل ہے،  یہ احرام دل میں آیت مقدس کی تلاوت ہے، دل صامت ہے، روح کو چاہیے لباس برہنگی، رکھ لے آس کی تلوار ننگی، شام سلونی ہے، رات نورانی ہے اور جھک کہ کہہ رہے 
.

رنگ لگا دے اور 
چنر پہنا دے اور
دل کا وضو کرایا 
جلوہ کرادے اور.
چنر کی لاگن ہے 
دل دیاں صداواں 
آجا ماہی، بے کول 
دل مرا وڈا انمول 
ساڈا دل رولیا گیا
آہاں وچ تولیا گیا 
فر تو ایڈ اچ آیا 
ھو دا ساز وجایا 
وجی تری ھو دی تار
الف دی گل کریندے آں
شام سلونی ویندے آں
ساڈا پیر مصطفی سائیں 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
وزیر جس دا علی سائیں 
مورا رنگ اچ تُواِں ویکھن

ماہی نے تماشا لایا اے،کنگنا پایا سی، لہو گرمایا سی ---ام سلونی سی، اکھ من موہنی.سی، اکھ ہن رکھ میڈےتے،ویکھدا رے میڈا رقص، ہر حرف اچ علی دا عکس،ہر صدا وچ ھو دی سج دھج
ہر رنگ میڈا محمد کریندا اے،جوگن کیتا مینوں تیڈے عشق نے

کنگنا پایا سی،
شہنائ وجی.سی
رات لگی سی 
شام کتھی گئ 
الف اللہ دی آئ 
ایہہ ساڈی کمائ
لائ وی گئی اے
نبھائ وی گئ اے

دل کا حال تجھ کو بتاتے ہیں ،راز سر تا دل تجھ کو بتاتے ہیں، سِر نہاں!  تہہِ جامہِ دل پنہاں!  تو .... تو ... تو ...گُم ہوتی ذات میں موج کی صدا میں تو،  دریا تو! بحر تو! نمی نمی!  بوند بوند دل پہ گرے! بوند کی صدا میں تم! شبنم نے ہرا گھاس تازہ کردیا!  تازہ تازہ شبنم میں تو! میرا عشق! 

میرا ستار!  اللہ ھو!
میرا قہار!  اللہ ھو 
میرا قدسی!  اللہ ھو!
میرا سامع!  اللہ ھو 
میرا قاری!  اللہ ھو!
میرا ہادی!  اللہ ھو!
میرا مسجود!  اللہ ھو!
میرا قبلہ!  اللہ ھو!
میرا نور!  اللہ ھو!

 
عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت

اجنبی ‏سرزمین ‏

اک اجنبی سرزمین میں ہوں، میں کہاں ہوں یہ کس کو خبر ہے! بس سرِ نہاں میں لا الہ الا اللہ کی تار نے نغمہ ء آہو کو ھو میں بدل دیا ہے، مرے شجر سے بس حیا کی ردا عکس وفا بن کے ظاہر ہے، میں لب کشائی کیسے کروں!  وفا کی عین تصویر وہ قندیل منور ہوگئی طاق دل میں ستارہ ء سحری بن کے جیسے قسم کھائی ہو کسی نے روشن ستارے کی!  دل میں سے صد اٹھے کہ ماھو میں کہوں لا -- ھو کیسا عجب سوال جواب جو خاموشی میں سکوت نے دیا،  لاج نے ساز کو بجایا ہے کہ وہ صدا نکلی کہ عش عش کر اٹھی رگ رگ 
یہ رگ رگ کا پیغام ہے 
یہ ماہ صیام انعام یے 
یہ راز کا فقدان نہیں 
یہ لاج کا امکان  ہے 
یہ سرمہ ء خاک نجف 
مرا دل بَنا حرم ِ نجف 
صبا زلف اطہر کو چوئے 
میں نازم کہ.پایا شرف 
یہ ہجر میں رنگن  لائے 
یہ وصلت میں مگن کون 
یہ دیپ جو ستار کے ہیں 
یہی ساز دل کو بجا رہے 
میں سرراز الفت کا نشان 
میں نہاں آیت ہے عیاں 
شاہد سے شہید کا سفر 
میرے دل نے کیا ردِ کفر 
دل میں اخبار لگے ہیں 
کوچہ اشتہار ہے عشق 
عشق نے مورارنگ دیا 
یہ لفظوں سے دھواں 
مہک میں ہے رواں وراں

شاہ ‏جلال

شاہِ جَلال سُرخ پوش ثانی ء حیدر کَرار سے مل رہے ہیں اشک کے وظائف!  بڑے دل سے ملا ہے اک ذرے کو،  ذرہ ء خاکِ ناسوت کب معرفتِ شاہِ سرخ جلال الدین کی کَر پائے ہے، یہ نامِ حُسین جو چرخِ زمن پہ روشن ہے، اسی لعل کے لال ہے مخدوم جَہانیاں جَہاں گشت!  

شاہِ جَلال سرخ نگینہ ہیں ، شاہ جَلال لعلِ یمنی ہیں،  یہ ضوئے حُسین! یہ بوئے حیدری!  زمین پہ موتیا کی خوشبو سے ہوا اوج چمن کو نکھار، یہ بہاراں ہے! یہ نظارا ہے!  یہ.راز برگ گل و سمن ہے!  یہ راز نہاں یے کہ.عیاں ہے اک راز! بس راز خفتہ کو ظاہر پایا ہے کون جانے کون جانے کون جانے بس رب جانے بس رب جانے

تَڑپ سے آدم کو مِلا قَرار کیسے؟ منتہائے اوج جستجو پے وجہ تخلیق بشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے رشنائی پائی!  نہ ہوتے آدم تو میرا جُرم جَفا، کیسے ٹھکانا پاتا؟  
مجھ کو آسر جد سے ہُوا، خطاوار کو ملتی.رضا ہے
یہ ہاشمی قبا ہے، جو سر پر رِدا ہے، یہ حَیا سے وفا ہے 
کون جانے کس کی لگن میں آس کے سوت کتن جاوے مری روح!  جو جانڑے،  وہ حال دل سے باخبر ہیں مگر مخبر اپنے دل کو راز نہاں سے عیاں سے کہاں تلک کی رسائ سمجھ  لگے، کریم ان کی صدا ہے

لفظ ‏خالی ‏،جام ‏خالی ***

لفظ خالی، جام خالی،  سب ہے خالی، دل بھی خالی، مندر من میں سمائی اک صورت --- ھو 
جیہڑی صورت نال ملے تے تار وجدی دے -- ھو 
میں ناہی، اوہی کہندا رہندا اے --- تو ہے جا بَجا 
کنجر دے دل وچ دیون بلدے ویکھے 
ملاں نوں سیاہی پھڑے مکداویکھے 
کج مینوں پلے نہ پَیا اس دنیا دے چکراں اچ 
چکر پڑن تے بی بی جیواندی سانوں یاد آون 
شاہ جلال دے فقیر نوں ملیا فقیری رنگ 
شاہ جَلال نے دیا سانوں کاسہ ء نور 
جیہڑی خوشو نے کیتا من مخمور 
مکان وچ ---لامکانی دا نوا سویرا -- ھو 
مقامِ دل میں جناب سیدہ زہرا رض کا پہرا 
مہجوری ہے!مجبوری ہے!رمز کیا رکھی ہے!
پی رکھی ہے!، نَہیں پلا دی گئی یے!
راج جنہاں دے ہے راجدھانی خدا وچ 
کون میں؟  بس اوہی چار چفیرے بانگاں مارے --- ھو 

کَریم نے جام سے نوازا 
گدائی کا مل گیا ہے کاسا 
میں شناسا سے ملن چلی 
شناسا من دیپ اچ ہے 
ملن دے گھڑی اچ ملن دی مثال نہ لبھے 
جیوں اس دی خدائ اچ میں نہ لبھاں 
اوہدی رمز انوکھی اے 
دنیا دی مشقت چوکھی ہے 
چلہا پھونک دل نوں جلایا 
من دی بھٹی اچ فرقت نوں پکایا 
فراق نے کیتا سانوں لال و لال 
لعل دی لالی وچ ملیا نگینہ ء یاقوت 
یا حسین کہندے رکھیا دل نوں قنوت 
قبور پہ حاضری ہے اٹھیں گے طیور 
حاضری ہے!  یہ حاضر ہے طائر بہ سوار 
کمال نے رکھی اسکی خوب مثال 
یہ دل مرا ان کی طاق میں جلا ہے 
مجھے شہ کے سوا کون ملا ہے 
شہ عرب کی مہک سے بنا دل مخمور 
دل میں وَجد سے وجدانی لہر کا ظہور 
اللہ اللہ اللہ رے - آنکھیں ہیں پرنور 
یہ جلوہ ء طور ہے،  یہ شمع کافور 
یہ ہادی سے ولایت، یہ ہے  امانت 
یہ نماز وفور ہے،  درد ضرور ہے 
دل مرا مجبور ہے دل مخمور یے
دل کافی ہے جس درد میں شفا ہے 
دل بہ مانند ادعامنظورِ دعا ہے 
دل کو ملا ہے سندیسیہ اک 
چراغِ حُسینی ہے کوئ کہاں 
یہ دل بہ لب موہوم سی دعا 
ان کے در پہ کھڑا ہے کوئی 
دست مقبول دعا کا ساتھ ہے 
میں نے پیش کیا نذرانہ 

یاحسین کہنے سے دل کہاں رکے گا 
یا حسین کہنے سے رات کب گئی ہے 
یا حسین کہنے سے حسن بڑھا ہے 
یا حسین کہنے سے لگن مگن ہوئی 
یا حسین کہنے سے سجن ملن ---- ھو 
یا حسین کہنے سے جلال کا رنگ 
یا حسین کہنے سے حال ہے سنگ 
یا حسین کہنے سے مجال کو زنگ 
یا حسین کہنے سے خیال بہ رنگ 
یا حسین کہنے سے جوت کی اٹھن -- ھو 
یا حسین کہنے سے سوت مرا کتن ----ھو 
یا حسین کہنے سے موت بہ حق --- ھو 
یا حسین کہنے سے پروازِ  گگن ----- ھو 

موجہ  ء صبا نے سلام کیا، کہا یا حسین!  خدا کا عین جلال!  علی حیدر کرار رض کے شہسوار،   رنگ لایا گیا، نور سمایا گیا،  کبریاء جاناں دل میں، میں رنگ نشاط سے شاہی کا سوار ہوں، میں کعبہ ء دل میں حجازی لگن میں مگن اک سگ!

گویائی

شمس سے پوچھا جائے کہ گویائی کا مقصد کیا تھا تو جواب دے گا کہ خدا کی بات پہنچانی تھی وہ بھی سلیقے سے طریقے سے،  شمس کو علم نہیں تھا کہ خُدا کی بات پہنچ رہی ہے بنا گویائی کے، خدا لمحہ بہ لمحہ ہمکلام ہوتا ہے 
شمس سے سوال کیا غیر ضروری تھا یا جوابا اس کو نادانی کا احســـاس دلانا مقصود تھا .... شمس شاید روشنی پہنچاتا ہے تو بولتا ہے جبکہ جس کے پاس پہنچتی ہے اسکو اسکی خبر تک نَہیں ہوتی ہے ...... روشنی کا کلام خاموشی ہے اور شمس کو علم نہیں وہ خود روشنی ہے ... اب دیکھیے چاند کو وہ کتنا حسین ہے تو کہے گا زلفِ لیلی کا اسیر ہے اسیر  محبت کی قید میں حسین تر ہورہا ہے شایدـمحبت اک دائرہ ہے دائرہ سے باہر مکان اور اندر زمان ..جب زمان و مکان کی قید سے نکل جائیں گے تو مکان و زمانے کی وقعت کیا مگر اس سب کو سمجھنا کیا اتنی آسان ہے

ردائے ‏محبت

اسے ہے خواہش کہ پا لے ردائے محبت کو،
اسے ناز ہے کہ ملے گی مراد مدام شوق کو،

اک بات اہل چمن سنیں گے،  سنیں گے تو محبت پر یقین کرنے لگیں گے،  وہ حَیا کے مارے دل میں جھانکیں گے اور ہائیں گے کہ دل تو مجسمِ حَیا ہے.

ع: میں ہوں زَمین اور مطلَعِ انوار فاطــــــــمـــــہ  رضـــــــ

جب حَیا سے سامنا ہو تو نور کو کہنا چاہیے سلام!  سلام!  سلام!  جب سامنے ہو لفظِ فــــــاطــــــمہ رض، تو رقصِ قلم نو سے نکلیں گے ایسے بوٹے کہ فنا ہوجانا مقدر ٹھہرا 

طریقہ سوچیے کیا ہوگا؟ طریقہ ء وضو کیا ہوگا؟ طریقہ ء چشمِ نم کیا ہوگا؟ طریقہ بہ ہدایت کیا ہے؟ طریقہ تسلیم کیا ہوگا؟ طریقہ اطاعت کیا ہے؟

جوابا دل نے کہا محبت!  محبت!  محبت 

محبت کے داعی سے پوچھا میں نے کہ آسمانی جذبے کو زمین پے اتار دیا؟  
زمین تو بام فلک پہ ہوگی گویا!  
زمین کو اور کیا چاہیے ہوگا؟  

طریقہ وفا تو یہی ہے کہ جو وہ کہے وہ تو ہوجا 
وہ کہے پتھر ہوجا، تو کن سے کنم کا سفر ہوجا 
وہ کہے فلک پہ آجا تو بس فلک پر رسا نالہ ہوجا 
وہ کہے جانِ عندلیب ہو جا تو عندلیب کی جان ہو جا 
طریقہ کہتا ہے رقص کر تو بسمل کا رقص ہو جا 
طریقہ کہتا ہے کہ چراغ ہوجا، تو روشنی ہو جا 
اگر وہ کہے تو کیا ہے؟ کہہ دے نمی دانم کجا رفتم فنا گشتم 
اگر طریقہ کہے کہ فنائیت کیا ہے تو کہا تو ہے، نہیں ماسوا ترے 
طریقہ کہتا ہے شجر سے حجر میں چھپے اخفا راز کو دیکھ 
تو لفظ میم کی تسبیح ہوجا 
طریقہ کہتا ہے دیکھ بادل برستا ہے تو لفظ حـــــــ سے یــــا سے الــــف ہوجا 
طریقہ کہتا ہے حیا ہو جا تو عـین سے مـــــیم ہوجا 
طریقہ کہے کن  ---- کنم کنم در گدائی بہ فدا زہرا  

زہرا ----- زعشق فاطمہ دل فگارم است 
ایں نیستی بہ ہوش را -- دید کو می خواہد 
زہرا ------ جبین دل بہ نیاز مند، بہ چراغ کشتہ روشنی درکار 
زہرا -----  نے خرد سے بنے، کام عشق میں کارجہاں دراز است 

میں طریقہ ہوں میں سلیقہ ہوں 
مجھے جلایا گیا عشق میں 
مجھے رلایا گیا ہے پیار میں 
درد نے مجھے قوت اظہار دی 
حسن منم بہ عروج فلک است 
میں حاصلِ تمنا کا عین ہوں 
میں دید ہوں، رات کا چاند ہوں 
شکار ہوں،  اسکا شہکار ہو کے 

نذرانہ جب دیا جاتا ہے تو فتح مل جاتی ہے. پوچھیے فتح کیا ہے؟ بخدا قسم ذات کی جس کے قبضے میں مری جان ہے کہ کن کی طاقت مل جاتی جب فتح روح پر ہو.  "زیر "ہے انسان اور "زبر "ہوجاتا ہے.  "زیر سے "زبر "کا فرق جاننے والے کہہ دیتے ہیں نفس حجاب ہے بس وہ خود سے ہم کلام ہے وہ خود پکار رہا ہے،  وہ خود حسن کے شہہ کار پہ محو حیرت ہے. یہ میں اپنے پر خود حسن کی شیریں گفتگو نہیں کر رہی بلکہ وہ اپنی گفتگو خود کر رہا ہے. وہی ہے ہر جگہ. اے خدا ہماری روح کی "زیر "کو نفس پر "زبر " کردے آمین

لکھنا ‏موت ‏ہوا ***

محب کے لیے موت سے گزر کے لکھنا،  اصل لکھنا ہے وگرنہ سب بیکار لکھنا ہے ... جب محب کھتا ہے تو وہ محبوب کے روبرو ہوتا ہے 

 اُس نے کہا کہ کدھر سے آئی؟
جہاں پہ گُلاب ہے، وہیں سے ،  وہیں جانا ہے ... 
اس نے کہا کہ بیٹھ جا ابھی انتظار باقی ہے ..
کہا کہ دم نکلتا ہے
 اُس نے کہا کہ سبھی عاشق ایسے کہتے ہیں ..
 کہا کہ یہ معاملہ الگ ہے کہ کہاں عشق کا دعوی اور میں کہاں ..

اس نے کہا کہ ترا معاملہ مجھ سے الگ کہاں؟ 
 کہا کہ حقیقت کب بتائی تھی ..
اس نے کہا حقیقت کی تاب کس کو ہے؟ 
کہا جس کو.عشق کا بوٹا دیا، جن کو خوشبو دی ...ذکر علی کیا کرو ..

کہا کہ نام علی سے روشنی ہے .. رضی تعالی عنہ 
اس نے کہا کہ اس ذکر کو باعمل کرو 
 کہا  کہ ذکر کے سوا کیا رہا باقی ...
اس نے کہا کہ مرے محبوب کا نام ...صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

 کہا کہ محبوب کا جلوہ نہیں ہوتا ...
اس نے کہا گلی گلی ہیں محبوب کا نام لینے والے ..جا ان سے مل ...
 کہا ہجرت نے ہوش گم کردئیے ...
اس نے کہا مرا درد دیکھ پھر،  ....
میں نے کہا تو تو خالق ہے ...
اس نے کہا کہ خالق کے بندے پکڑ، جن کو قلم دیا.گیا ...
 کہا قلم تو تری روح ہے......
اس نے کہا نظام مصطفی صلی اللہ.علیہ والہ.وسلم کا کاروبار ایسا ہے ...
 کہا  کہ پرواز کب ملے گی ..؟
اس نے کہا جب رہائی ملے گی ..
 کہا  کہ قفس کی تیلیاں سرخ ہیں ..
اس نے کہا بسمل کا.حال پسند آیا ...
 کہا کہ نعت کا سلیقہ نہیں ..
اس نے کہا کہ سلیقہ، لکھنے سے نہیں دل سے آتا ..مقام ادب مقام، جلوہ، مقام حضور ...کیوں ہے تو  مہجور ...شراب طور سے پی،  پلا ..

پت، اپنی پت  کیسے کہوں؟  پتا پتا ہلتا ہے،  سورج ابھرتا ہے،  چاند مسکرائے،  سرخی سے گھبرائے تو خیال جاناں مدہوش کیے دے ..کدھر ہے مرا خیال؟ میں ہی خیال ہوئی ..اے نیستی، اے ہستی!  جام جم کدھر ہے؟

موج سکوت نے لہر سے پوچھا، سمندر کدھر؟  ساحل ہنس پڑا اور اشارہ کیا کہ وہ مرکز جس پہ آیت الہی چمک رہی تھی. .. 

پوچھا کہ کہاں ہے رنگ، پرنور پیراہن؟

کہا کہ انجیل تمنا میں، حریم ناز کے حرم، مکین دل کے مکان کونین میں، سکون دل سے جاری دعا میں، شام حنا کی سرخی میں، رات کی رانی کی مہک میں .......

پوچھا تحفہ ء وصال کیا ہے 

کہا دل حزین کے لیے آنسو، رگ جان سے کھینچے جانے والے درد سے اینٹھتی ہڈیوں کے لیے وظیفہ ء محبت،  درود کی شکل،  صورت میں   اور والتین کی کہانی میں...

پوچھا التین کیا ہے ؟

کہا کہ قسم خدا کی، محبت پہ اور حد پر ..حد کہ حد نہ ہوئی، محبت یہ کہ محبت نہ ہوئی 

پوچھا کس سرزمین سے ہوں میں؟ 
کہا جس سرزمین سے سوال اٹھا 
پوچھا دیدار کے جواب میں کیا واجب؟ 
کہا شکر کا کلمہ،  درود کی ہانڈی، تسلیم کا گھڑا،  صبر کا پانی 

پوچھا کہ حقیقت کہاں سے ملے گی؟ 
کہا عشق میں چھپے زہر سے پردہ اٹھنے دے 
کہا کہ پردہ کیسے اٹھے؟
کہا پردہ، پردہ نشینوں کی مرضی ہے ...ان کی نیاز میں جا ... 
پوچھا  نیاز کیسے ملتی ہے؟
کہا نیاز جھکنے سے ملتی ہے ..جھک جا 
کہا کہ دل کی نیاز کیا؟
کہا شوق حضور ...یقین کا قرار 
کہا کہ شوق کامل کیسے ہو؟  
کہا کہ تڑپ کب قرار پائے ..ازل کا نوحہ اب تک چلتا ہے؟
کہا تمثیل تڑپ؟  
کہا کہ مقام حسینیت جان لے ..حسینی ہو جا ..جان جائے گی 
کہا حسینیت کیسے پائی جائے؟  
کہا حسینیت یقین کے پانی سے، روح کے سوتے کھلنے سے ...
کہا درد بہت  ہے..
کہا کہ درد سے مفر کس کو ...
.
کہا کہ درد کی انتہا کیا ہے؟  
کہا کہ جلوہ ... جب منتہی ہو تو دیدار لازم 

کہا کہ کچھ نہیں آتا ...کچھ نہیں ہوتا ..کچھ اپنا نہیں ہے ...

کچھ نہیں تو تمنائے حرف کو کیا کہیں ......؟؟؟ تمنائے انجیل و حرف لوح و قلم کے رشتے سے جڑے ہیں. ارض مقدس کے شجر میں پلتے ہیں روح کے اسرار ہیں ...شاہ کے غمخوار ہیں ..رہتے ہیں میخوار، چلتے پھرتے اسرار ہیں وحشت کے مارے اٹھتے جنازے ہیں ..مجلس ماتم میں کیا پڑا ہے.  ؟  ماتم شاہد و شہید کیا؟ ہائے یہ کیسا نوحہ ہے جدائی کا جو جدائی سے نکلا ہے ..

یہ نوحہ، ملال  ساز میں بج رہا ہے ...
 دوا ہو جائے...یہ دل کٹ رہا ہے ...
روح ہجر کے اندھیرے میں موت کے قریب، جاں بلب .....روشنی چاہیے......!  

غار حرا کی زمین سے اس زمین تلک فاصلے ...حائل سماوات حامل الہیات ..کامل ذات سے رشتہ پیوست ...کامل ذات محمد و احمد  صلی اللہ علیہ والہ وسلم ... انجیل تمنا،  حدیث داستان،  کلیم طور پہ موسی علیہ والہ وسلم  کی کہانی، ادریس علیہ سلام کی پرواز بھی،  یوسف علیہ سلام کی  کی گواہی بھی،  ایوب  علیہ السلام کا صبر بھی، گریہ یعقوب علیہ سلام کا ....

یہ نشان ہیں آیات ہیں کمال ہیں جو نکل رہے ہیں نوری دھاگے ...محبت کے وظائف بہت بھاری ..
او ویکھو روح سولی اتے .. جان دے نیل ... کیہڑے غم دا بالن اے،گھل گھل جاندی اے

آشنائی

تعلق میں آشنائی ہے،  آشنا تجھ میں ہے اس لیے تعلق خود سے بَنانا ہے. سچا مرشد سچل سائیں ہے.  شاہ کے لیے تحفہ درود ہے. اسم محمد خود اک قطب ہے جس میں کشش ساتھ ہے. کشش کے کناروں پے آجاؤ، کنارے لگ جاؤ گے،  قوت ہے اس میں ہے جس قوت سے ہمارے دلوں کو توحید سے پاک کیا ہے وہ مثال سے پاک ہے مگر اپنی مثال خود قران میں دی ہے. اک طرف کہا لیس کمثلہ شئی تو دوسری طرف کہا کہ مثال بمانند طاق جس میں ستارہ اور ستارے میں نور اور جو نور علی النور ہو جائے اسکی کیا بات ہے؟

اللہ فرماتا ہے فلاں چیز میرا نشان ہے اور یہ میرا نشان ہے تو ظاہر کہ وہ کبھی ظاہر ہوا ہوتا ہے وہاں جیسا کوہ طور کی مثال آسانی سے سمجھائی جاسکتی ہے انسان کا دل کا قالب ایسا ہے وہ شہید ہے ہم مگر شاہد بنتے نہیں. سورہ حشر میں اللہ پاک اپنے لیے ھو الشہید کا لفظ فرماتا ہے میں نے یہ لفظ خود سے نہیں سوچا بلکہ غور نے اس درجہ کو فکر دی کہ وہ آپ میں شہید ہے مگر انسان کو وقعت اتنی بڑی دے دی اور انسان نے شہادت نہ دی. امام حسین نے شہادت دی تو کیسے مکمل نفی ہوگئی اور کہہ دیا یا اللہ میں شہید تو شاہد ...بس یہ ھو الشہید سے ھو الشاہد کا سفر ہے جسکو  ہم کلمہ کہتے ہیں لا الہ الا اللہ 
باطن میں نور ہے اس نور کی مثال سمجھیں شجر کی سی ہے قران پاک میں شجر زیتون کا ذکر ہے اور یہ زیتون کا درخت ملحم شدہ شاخوں سے منسلک ہے یہ الہام کی رم جھم ان شاخوں سے بمانند شبنم نمودار ہوتی ہے یہی عرش کا پانی ہے اس سے شجر کا وضو ہوتا ہے مگر اسکے لیے پاکی لازم یے نیت کی پاکی نیت بھی انسان کی خود کیساتھ ہے غرض انسان کی اپنے ساتھ ہے انسان کو خود کیساتھ خالص ہونا ہے خود اچھی سوچ کا عامل ہونا یہ زبان کے رٹے دل کی صفائی نہیں بلکہ عمل کا وظیفہ اصل طریقہ ہے جس سے سارے حجابات ہٹ جاتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے کہ منصور کہہ دیتے ہیں انالحق. وہ مجذوب تھے اس لیے جذب ہوگئے اس مقام میں. اب وہ کہتے رہے لوگ پتھر ماریں یا پھانسی دیں فرق کیا پڑتا سرمد کاشانی نے لا الہ کا ورد کیا الا اللہ ہو نہ سکا کہ اپنی نفی کے مقام کے مجذوب تھے مگر جب مرے تو شان خدا دیکھیے اثبات ہوگیا سر کٹا کے کلمہ پڑھنے والے سرمد کاشانی کیساتھ اللہ ہوا. اللہ نے ہمیں شعور دیا ہے خواہشات دیں اور ساتھ اپنا آپ دیا. تقدیر کے پہیے چلتے ہیں اور وہ ہمیں ارادہ ء کن سے نوازتا جاتا ہے ہم کہتے ہیں گھر بنالیا کیونکہ ارادہ تھا اور جادہ اس نے نہیِ ہم نے ارادہ سے بنایا اور یہ ارادہ یہ نیت یہ طاقت کہاں سے استعمال ہوئ باطن سے. باطن کی قوت سے خارج کے کام ہو جاتے مگر باطن کی قوت سے باطن کے کام مشکل لگتے ہیں دعا ہے کہ اللہ ہم.سب کو جذب حق عطا کرے وہی ہے جو نواز دے گدھے کو تو اسکی شان وہی جو شاہ کو گدھا کردے وہ یے جو چوڑے کو اختیار دے وہ ہی جو سالار کو بھکاری کردے ہم بس یہ کہتے رہیں نمی دانم نمی دانم نمی دانم حق گویم حق گویم حق گویم