آج یہ رخ کا فسوں کہ وطن واپسی ہے. تربت ہے پربت ہے کہ شراب ہے نگاہوں میں کہ بیخودی کے خال و خد یوں سرائیت کیے ہوئے جیسے آنگن وابستہ ان سے ہوا ہے قصہ کہ شام کی دہلیز رنگین ہے اور گلابی موسم بھی سنگین ہے. اے میرے ساتھی! اے ہمراز! اے چارہ گر! اے رنگ ریز! یہ جو دنیا ہے یہ خیال کی چاشنی ہے یہ جو احساس ہے کہ موسم ہے اظہار کا. میں کتابوں میں گلاب رکھوں اور کتاب گلابی ہوجائے. کتاب پڑھوں کہ خوشبو کو بساؤں ... دونوں کے بیچ منجدھار ہےاس کشمکش میں بیٹھی روشنی چاندنی رات میں ادھر ادھر سرک رہی ہے جیسے چار سو چراغان ہوں ...شبِ چراغاں کہیں شب تیرگی کو نگل نہ لے! شب تیرگی نے ماتمی لباس چھپا لیے! ملال پہچھے اور کمال آگے. ان کے بیچ ندی ہے اس ندی کا راستہ غار سے نکلتا ہے غار میں مستی ک دھواں ہے جبکہ دیواروں پر عشق کا سرمہ ہے جس سرمے سے لکھا ہے ... عشق میں جل گئ شمع! شمع کھوگئی. رات شمع کے لبادے میں مرگئی اور صبح ہوگئی. صبح کو رات کا سوگ ... یہ کیسا سنجوگ ہے کہ کوئی وصل نہیں ہے. فلک مسکراتا ہوئے زمین کے تماشوں سے لطف انداوز ہوتا ہے کہتا ہے کہ
فاذکرونی اذکرکم
تذکرہ کب کیسے ہوگا ...یہ اخبار کہیں لوح و قلم کے بیچ سرخ رنگ کے نگینوں سے جڑا ہے. اے ہستم! اے مستم! اے مستم! مست مخمور دل سے پوچھ کہ اس شراب کا آغاز کس سرنگ سے ہوتا ہے کہ کان کنی کے مراحل ہے کہیِں ... کوئی اس میں مرجاتا ہے اپنی موت اپنی تو کوئی سورج بن کے چمکتا رہتا ہے.