تاروں کا سِتم، تارِ ہست ہزار رنگوں میں بٹتا رہا. ہر رنگ منبعِ نور بنا ... رنگوں نے عنابی شراب میں مدغم ہوتے ہستی کھو دی .. تار کا ٹکرا کھوگیا ... تار کا ستم ...
شمع کا نصیب ... جلی مگر بجھنے کے بعد ... بجھنے سے روشنی ایسی بکھری پھر روشن نہ ہو پائی. شمع کا دُکھ، شمع کو روشنی ملی، روشنی سفر میں مسافر، چراغ سے جھولتی سمت دیتی رہی ... شمع کھوگئی ... روشنی باقی رہی
ہلکے ہلکے کاسنی لہریے دار دھوئیں کے مرغولے نکلے جب فلک نے سگریٹ کا کش لیا ... یہ ردھم جو بخشش دیا گیا، یہ رقص جو لکھ دیا گیا، یہ اشک جو دریا بن گیا، یہ دل جو دشت ہوگیا، یہ خلا جو پر نور ہوگیا مگر چراغ بجھ گیا، مگر شمع کھوگیا، مگر تار ٹکرے، ٹکرے ... مگر کیا؟ مگر اگر کیا؟ یہ سوال اے حیرت ابھرے دل سے کہ دل کھوگیا، دل نے حیرت کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے کہ کیوں لُکا چھپی کھلیتی ہو .. سامنے پربت ہے، سامبے صحرا ہے، سامنی وادی ہے، سامنے ندی ہے، سامنے دریا .... آؤ! حیرت نے جھنجھلا کے کہا "غار میں رنگریزہ رہتا ہے " رنگ کی رنگائی کی کیا قیمت ہوگی؟ رنگے وے کو فکر کیا ہوگی؟ می رقصم شمع ہستم! می رقصم شمع ہستم! دل گرفتم! آنکھ نمیدم! گفتم از فلک! یہ یار کا غار کدھر ہے؟ یہ غار جو اندھیروں میں ہے مگر روشنی کے فانوس اسکے آگے سجدہ ریز ہے! می رقصم! شمع ہستم! دل گرفتم! آنکھ نمیدم