آج یاد کی بے نام گلی میں سڑکیں بڑی صاف ستھری ہیں. موسم مگر اُداس ہے جیسے سکون میں حزن ہے . اس سنگم کو بہار و خزاں کے اوائل میں محسوس کیا جاتا ہے کہ بھیگتا دسمبر، بکھرتی چاندنی، مہکتے پھول، لہلپاتے کھیت، تان کے کھڑے درخت، آبشاروں کی موسیقیت سب کچھ کتنا پیارا ہے! دستک! اک دستک سنائی دی ... یہ کیسی دستک ہے؟ یہ تو صدیوں پرانی آواز ہے، نیلا آکاش میرے آئنوں کے بکھرے ٹوٹے کی شبیہ ہے ..اے سفید رنگت والے ملیح چہرے کے حامل آبشار، یہ رنگت تم نے کہاں سے چرائی؟ کیا پہاڑ جو بھورے رنگ کا ہے اس کے پیٹ سے نکلے ہو، اس لیے نور سے چمک رہے ہو ... کیا تم فضا کو جانتے ہو؟ مجھے علم ہے تم نے اس کی گود میں خود کے لیے بہت سا سکون اکٹھا کیا .. یہ ہلچل ... یہ بے نیازی کہ شانِ بے نیازی .... یہ احساسِ بےخودی کی ضُو، یہ کہسار جو جھکا شان توصیف کے لفظوں کی تسبیح میں ہے کہ گوجنتے ہیں کو ہسار، بکھرتے ہیں آبشار اور ملتا ہے آوازہ
ورفعنا لک ذکرک
یہ تو کن کی صدا ئے کہ الست کا نغمہ جانے کس صدی کی گود میں سورہا ہے تخلیق کا سوتا جاگ اٹھا ہے، نیند کی وادی سے کہو جاگ جائے ... تو سجدوں میں آذانِ احدیت کی باتیں ....
فاذکرونی اذکرکم