کائنات کی ہر چیز بسیط کی خلا سے مشّکل ہوئی ہے. وہ فکر وہ خیال جو رویت کے بعد پردہ نفس میں محجوب ہے . نفس سے نکل کے کائنات میں دیکھا جائے تو کائنات وہی ہے جو اندر ہے. بس اک پردہ ہے جس نے اندر و باہر کا پردہ رکھ کے بندے کو تجسس میں رکھ دیا. اضطراب کی مٹی سے گوندھا گیا پرندہ جب پرواز کرتا ہے تو دُر نایاب پالیتا ہے. روشنی کی اس حد تک پہنچنا اور جلوہ کرنا عجب نہیں ہے. پھر جب انسان جلوے لیے لوٹتا ہے تو اسکو کائنات کی ہر شے میں محبوب کا عکس دکھتا ہے فلک پے فرشتے رکوع میں ہیں تو زمین پے شجر قیام میں جن کے پتے اور شاخیں رکوع میں ہیں. یہ نماز کی اک سی حالت ہے. نماز کی مختلف حالتیں ہیں ... سجدہ بھی اک حال ہے پتھر سجدے میں جھکے نیاز مند رہتے ہیں جبکہ پہاڑ سیدھے کھڑے قیام میں ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حرکت نہیں کرتے گویا وہ اسم اللہ کی اک تجلی میں جذب ہے. پہاڑ ہو یا شجر ہو یا ہجر کہ صبا یہ سب نفی میں چل رہے. نفی سے جذب تک جب کچھ نہیں ہوتا تو اسکی ذات غالب آتے وہی بات انجام دیتی ہے جو اسکے ارادہ ء امر میں پہلے اخفاء تھی اب وہ عکس خفی سے جلی ہوگئی ہے .. مٹی سے جو پودا اوپر کو حرکت کرتا ہے تو یہ وہ حرف کن کے تحت اوپر کی جانب کرتا ہے. وہ حرف کن " ڈی این اے " کیطرح وہی کام سرنجام دے رہا ہے جو اسکے لیے لکھا گیا. بندگی کی اس حالت کو اللہ پاک نے سورہ الرحمان میں فرمایا ہے
والنجم اولشجر یسجدن
یہ مکمل بندگی کی حالت ہے جو بندے کو حاصل ہوگی جب وہ نقش رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کرے گا جن کے لیے اللہ نے سورہ اسری میں ارشاد فرمایا ہے
میں کہتی کائناتی نور کی اقسام ہیں. ہر شے اک نور سے تخلیق کی گئی ہے. یعنی مادہ کے اندر نور کو مقفل کردیا گیا. چونکہ ان اشیاء کے پاس شعور نہیں ہے جیسا کہ روبوٹ. ان کے خالق نے ان کو حکم دیا اور اپنے وجود جو ان کے ہونے کا مظہر ہے، وہ اس سے اور کوئی کام سر انجام نہیں دیتے مثلا پہاڑ روئی کے گال جیسی ہیئت اختیار کرسکتا ہے یہ قران پاک میں ہے. مگر وہ قائم. پہاڑ ساجد نہیں بلکہ قیام میں کھڑا. سمجھیں کہ وہ تسبیح کر رہا ہے اور تسبیح میں اسکی ذات نہیں. اسکی ذات کا وجود تاہم ہے. تو اسکی ذات کی نفی آٹومیٹک ہے. اس لیے اسکی مجال نہیں ہے کہ آگے پیچھے ... اسی طرح شمس و قمر کے دائرے بھی کہ وہ ان دائروں میں رواں دواں ہے ... یہ عین بندگی ہے. پتھر کہنے کو وجود رکھتا ہے مگر پتھر نے کلمہ بھی پڑھا ہے پتھر نے سجدہ بھی کیا گویا اثبات پتھر نے کردیا کہ اس سے امر کا امکان نہ تھا. یعنی پتھر سے بھی اور کام ممکن تھا مگر پتھر بس ساکن رہتے ... درخت کی حرکت بھی اک اس نقطے پے جس نقطے کو روشنی کی جانب جانا ہے گویا خالق نے یہ درخت کو حکم دیا اور اس نے چوں چراں نہ کی ..خالق نے کائنات کی لوح و قلم کی تمام تجلیات انسان میں رکھی اور اسے ظلوما جہولا کا خطاب بھی دے ڈالا. کہہ دیا کہ انسان جاہل نادان ہے. پھر جب جس نے یہ علم جانا تو سورہ الانفال میں فرمایا واذا تلیت ... وجلت قلوبھم ..دل ڈر جاتے گویا کہ وہ روئی ہیں ایسی ہی اک کیفیت کو اللہ نے سورہ المزمل میں المزمل میں کہہ کہ قلم بند کردیا یے.
تو انسان کو اتنا کچھ دے ڈالا اور اس کو شرف دیا شعور دیا. شعور ویسا شعور ہے جیسا کہ خالق کے ارادے کا شعور ہے. خالق امر کا کہتا ہے اور کہتا ہے ہو جا ...خالق نے بندہ کے ارادہ ء قدرت کو یہی طاقت یقین کی قوت سے بخشی ہے کہ مومنین اس واسطے اک مومن ہزار پہ یا دس ہزار پہ بھی بھاری رہا ہے .. یقین کی قوت سے وہ خالق کے ارادے جیسا عمل کرسکتا ہے. خالق اس ارادے کو تقدیر کا نام دیتا ہے مگر انسان پھر بھی کہہ دیتا ہے کہ وہ ناکام ہے ..درحقیقت اسکا ارادہ ناکام ہے اسکا شعور رب تک پہنچا نہیں ہے ورنہ وہ کیا کچھ کر نہیں سکتا. یقین کی قوت بھی اک جذب و سکتے کی کیفیت لے آتی ہے اس لیے اس سکتے میں انسان کے اندر ارادہ امر رہ جاتا ہے باقی کیفیات پے نسیان طاری ہوتے وہ امر انجام دینے میں معاون جسکا ارادہ فرمایا گیا ہو. تو یہ انسان کے مجذوب و شعور کے بین بین کے کارنامے ہیں