Wednesday, February 24, 2021

ھذا ‏عشق، ‏ھذا ‏سید ‏من ‏

ھذا عشق!  ھذا سیدِ من 
یہ وہ غبار ہے جو تہہِ دل سے اٹھا ہے دل کے جبل میں انواز نے مجھے دیکھ لیا ہے. اجمال سے محو ہوگیا ہے پتھر اور مشہود میری روح ہے. روح پتھر کو سجدہ کرنے لگی. پتھر نے سجدہ کیا ہے اور کہا ہے 
ھذا عشق!  ھذا سید من 
جمال شیدا طلب سے ماوراء ہے 
کمال کا طالب دل میں گم ہوا ہے 
یہ میرے حاصل کا انتساب ہے 
میں گم کس کے ملال میں ہوں؟
یہ کیسا مجھ میں اترا جلال ہے؟
ھذا عشق! ھذا سید من


وفا کی دیوی نے مجھے بُلایا ہے قربانی کو. سر قلم کردیا گیا. میں نے کہا 
شوق آ ... شوق آ ... شوق آ 
مجھے طلب ہے دل میں موت ہوجائے. دل میں قبائے ہاشمی کی صدا نے دل میں اک الوہی سی کشش پیدا کررکھی ہے 
ھذا مرشد من 
العشق مرشد من 
حی علی العشق 
حی علی خیر العمل


 یہ خیر عمل ہے جو بخیر ہوا ہے. قرب کی نہیں تمنا. جمال کی تلاش نہیں بس اک کرسی ہے ھو کی. جس نے مجھ میں قرار پکڑا ہے اور کہہ رہی 
ھذ علی العشق!  العشق من! میں نے ہبہ کیا عشق تجھ کو 
میں نے کہا بندگی بندگی بندگی


ملی بندگی. یہ تابندگی. یہ رقص قلم کے شرار جس کی حرارت نے مجھے وحدت میں مبتلا کردیا ہے وفا کا تقاضا ہے نا خون بہتا آنکھوں سے دیکھوں؟
میں بہہ گئی ہوں ... خون کیا ہے 
خون نے کہا 
ھو العشق ھو العشق ھو العشق


مزاج میں بندگی نے مٹا دیا ہے. عدم سے لایا گیا ہے. معدوم وجودیت میں نفس ہے. بقا کس کو ہے؟ اللہ کی ذات کو بقا ہے. سب میں اک ھو ہے جس کو ہم نے دیکھا نہیں ہے

 وہ تلاش کرنے والے فارس سے نکلے! کیسی چمک و آب و تاب سے شام سے نکلے وہ مہِ خورشید!  رشک قمر!  اوج ِ ثریا پر مکین!  وہ ستارہ سحری سے طٰہ کا اجالا!  وہ کملی والا ... کملی بھی ہے استعارہ ..وجود کا پارہ پارہ کہہ رہا ہے 
ھو الہادی من!  وہ کون ہے 
العشق ہادی من 
درد جگر میں نہاں تیر میں جلوہ طٰہ کا ہے 
دل میں اسم طٰہ کی تجلی ہے کہ چمک نے مجھ کو محجوب کردیا ہے بس اک ذات ہے کہ وہ ذات ہے آئنہ ... 
کس سے پوچھو کہ اللہ کہاں ہے 
اللہ دل میں ہے. دل خالی ہے دل کو جب اللہ مل جائے تو دامن بھر جاتے ہیں اود اپنی نہیں ہوتی بس اس کی کرنی ہوتی ہے. میں نے ہادی من کو دیکھا ہے کہا ہے 
سچل مرشد قبلہ نما 
قطب من ہادی من 
دل کی وادی میں شہ بطحا کے اجالے 
دل کی راجدھانی کے شاہ ہیں اور شاہ کے آگے سر تسلیم خم


 خمیدہ زلف کو ذرا دیکھ اود ڈوب جا. گیسوئے مصطفی سے جو ملے خوشبو. اس سے مانگ اک آرزو. کہ بس یہ رہے سدا اور صدا رہے سدا کہ آپ ہیں اور میں نہیں ہوں حضور.


 وہ آرزو کہ رخ سے حجاب اٹھے اود دل سے سحاب اترے. ابررحمت بارسے. ایسی برسے کہ برکھا رت کے قطرے قطرے میں شاہد ہو . لہو زنجیر ہو کہ دل فقیر ہو دیکھے شاہ کے جلوے دم بہ دم. ان کے حضور کس منہ سے جاؤ گے؟  وہ کہتے ہیں ہمیں بندگی!  بندگی!  بندگی!  بندگی میں گزر جائے زندگی. اود چاہیے کیا کہ ان کے رخ مہ تاب سے اک آنکھ سے دوسری آنکھ کی روشنی دیکھی ہے وہ روشنی ہے کہ ہائے دل بیٹھا جائے ان کا مسکرانا ہے دل ڈوب جانا ہے کہ وہ پیار کے تقرب کی محفل ہے. اس میں ہے دستخط مہر رسالت سے ...ہم جان گئے حضور کہ آپ نے کیا ہم کو قبول. دل پر رقت لگے گی ضرود کہ وہ پیارے ہمارے ہیں شہ ہادی شہ ولایت


 یار من نے چھپا لیا ہے موتی 
ڈھونڈن چلی میں اس نوں 
لکا چھپی کی رسم ہے پرانی 
یہ کہانی ہے ازلوں کی نمانی 
شبد شبد کی داستان نرالی 
عجب مرا دل 
عجب مرا حال 
عجب دنیا ہے. 
یہ موج طفر ہے 
دل کدھر ہے؟  
دھیان میں گئے 
دھیان نہ رہا 
دھیان میں نہیں میں 
دھیان میں کون یے 
یہ محور رسول ہاشمی نقطہ 
متوف ہے اک عجب سالار 
یہ دل میرا ہوگیا ہے بیمار 
کس سے کہوں مرض لاعلاج 
دل کو ڈھونڈو اب کوئ علاج

 یار من دل کے سیپ دیکھ 
یار من موجہ دل کو دیکھ 
یار من تیغ فغاں کو دیکھ 
یار من تیغ نہاں کو دیکھ 
موتی لا 
موتی ڈھونڈ 
سیپ کھوج


 اللہ اللہ کہنے سے میرا دل ڈوب گیا 
ڈوب کے جانے والو سنو 
یہ افسانہ رنگین ہے 
ہر رنگ کی داستان عجب یے 
دل میں شاہی نقب ہے 
شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ 
.شاہ ولی شاہ ہادی شاہ ولایت

 ابھی رنگ ہے ابھی وہ ساتھ ہے ابھی وہ پاس ہے ابھی اس نے بلایا ہے 

جس نے بلایا ہے اس سے پوچھو دل کے افسانے یہ فسانے مٹا رہے مجھے 
فنا کیا ہے؟
عشق فدا ہے مجھ پر 
میں عشق ہوں.
 میں نہیں تو 
ھو الشاہد ھو الشہید 
درمیان میں کون ہے؟
نفس یے 
اے نفس دھیان سے نکل 
اے روح میان میں رہ
اے موج تو آب بہ آب دُر پاتی جا

 موج نے موج سے پوچھا کہ ساحل نے مجھ سے سنا نہیں فسانہ 
ساحل نے کہا 
چل داستان عشق نہ سنا 
میں خرابہ ء عشق سے پر ہوں 
موج بہ موج بحر میں ہوں 
میں تو خود کسی دہر میں ہوں 
دھیمی رفتار پر آنچ ہے.. یہ قرار پکڑ چکی ہے آگ. جانے وہ کونسی آگ ہے جس نے بحر کو آگ میں ڈال دیا. بحر کی آگ دیکھے کون.
پانی آگ 
آگ پانی 
یہ آگ پانی سے نکل جا 
ماٹی کا پنجرہ عجب ہے 
ماٹی کا پنجرہ نفس ہے 
نفس میرا مجھ میں قفس ہے 
روح میری فضائے دوستاں میں یے

 جناب عالی نے مجھ کو بلایا پوچھا اور کہا 
یہ ستار ترا ہے؟
یہ صدا تری ہے؟
یہ قبا تری ہے!
کیا ہے ترا 

لٹو بن گئی میری روح میں لٹو. رقص نے دیوانہ کردیا مجھے دیوانہ کیا جانے چال الٹی ہے یا سیدھی

 اب میں نہیں خود میں وہ خود مجھ میں 
جو خود ہے تو پڑھا جاتا ہے خود کو 
ذات کو پڑھ!
ذات صحیفہ یے 
ذات کو پڑھ 
ذات سے عشق 
 ھذا عشق؟
العشق حب من 
العشق دیار من

 وعدہ ء عشق ہوا؟  ہاں ہوا اور پھر وعدے میں میں نے دیکھا اک ارادہ

یہ کن کا تھا ارادہ 
کن والے نے مجھے نفخ کرنے سے پہلے 
مجھے مجھ سے مانگ لیا 
کہا یہ ہے میرا ارادہ 
کہا اب پورا کر وعدہ 
میں کون ہوں؟
میں ماٹی کے پنجر میں ایک دیپ 
لو!  لو!  لو دیپ لو!  دل بنا دیپ 
میرے دل کے دیپ میں رنگ ہے


 سنو عشاق! عشق آسان نہیں ہے. یہ پل صراط ہے جس پر چل کے جانا ہے پنجوں کے بل. یہ چلن زمانے کا کہ دیکھو پل صراط دنیا ہے ہم دوذخ سے اترنا ڈھونڈ رہے جنت کی وادی میں گھوم رہے. دنیا میں رہنا ہے متقی ہے .. یہ دنیا کس کی ہے 
یہ جہاں کس کا ہے 
یہ زمانہ یہ چراغ کس کا ہے 
جب سب اسکا ہے میرا کیا ہے؟
دل بج رہا ستار وانگ 
بسمل کا تماشا ہے سر عام 
بسمل نے کردیا درد عام 
یہ وہ قیس جو نہیں عام 
یہ لیلی سے ملے گا کسی شام


نظامی رنگ ہے. دل پر چنر نظامی ہے. یہ رنگ ہے کہ موہا رنگ ہے پریمی. موہی چال ہے پریمی. مورا سجن دلربا. موری آنکھ میں ہاشمی لگن. یہ دل ان کو دیکھ تیر فگن. جان چلی جانی یے. جان چلی جائے گی کہ جان جانے سے میرا کیا ہوگا. نفخ سے نفخ بعد تک میں اسکی تھی میں اسکی ذات کی وہ تجلی ہوں جس سے وہ زمانے میں کہہ رہا ہے کہ 
لوگو پہچانو مجھے 
میں نے دنیا اپنے لیے بنائ 
تم دنیا اپنے لیے بنانے لگ گئے


میں نے نفخ کا کھیل سمجھ لیا میں نے خود میں خود کو دیکھ لیا میں نے اسکو پایا ہے. وہ ھو کی تجلیات لیے راز دل ہے. یہ وہ سرزمین ہے جس میں کئی راز ہیں اوردل راز کا امین ہے. اس دل سے کئی وعدے ہیِ 
آج دی گل نئیں رانجھن یار 
میں ازلوں تری نال منگاں آں 
میرا لوں لوں مہکائے وے 
مری جان بن بن آئے وے 
من شانت!  تن شانت!  رنگ برنگ اسکا راگ!  الوہی اسکا ساز 
تار میم کی لگی ہے 
تار اللہ والی ہے 
تار مل گئی ہے 
تار ہوگئی ہوں میں 
میں تار ہوگئی 
بھلا کون ہے وہ کون ہے کہ کہاں سے نفس سے پوچھے کہ تو کون ہے نفس شرمندہ محجوب ہے کہ کس سے کہے دل ہے اک صندوق جس میں رکھے سو سیپ. میرا دل اک َخزانہ ہے اس میں ہاشمی نگینے ہیں. یہ سامان تپش سے ہے جو مجھ کو ملا ہے رگ رگ میں سانس سانس میں واج اک ہے اللہ اللہ اللہ 
اللہ کی بات کرو 
اللہ دل میں


ابھی دل سے صدا ابھری 
تو مجھے دیکھ
دیکھا اس نے مجھے اور میں خود کو دیکھی جاؤں 
من میں ڈوب 
خود کو پا 
من میں ڈوب 
جوہر فشاں ذات ہے تری 
مہر رساں بات ہے تری 
من میں ڈوب 
مٹی ہو 
خاک بہ خاک 
ہو ذات بہ ذات 
اک آیت بن جا.
آیت ہو جا 
نوید ہو جا 
تحریر ہو جا 
اللہ کہہ 
اللہ بول 
اللہ ہے یہی کہہ


ھذا  العشق ؟
لیس کمثلہ شئی 
دل کی کملی میں سوال ہے 
سوال نے کمال کا جواب رکھا ہے 
العشق من دوات،  العشق لوح  و قلم ز ساز ازل 
جواب اترا تو جناب یہ دل تھا رقص میں شرر چھوڑنے لگا کہ عشق کی چنگاری نے منم بود منم بود کی بات رکھ دی 
میں نے پھر پوچھا 
ھذا  العشق؟
عشق وہ گیت جس میں حال پوچھا جاتا ہے بتا حال کیا ہے 
میں نے کہا 
حالت بحالتک 
میں سکون ہوں مگر مہجور ہوں اور  درد نے تہہ و بالا  کردیا ہے درد نے نالا شروع کردیا کہ جواب منجانب اللہ 

اے عبد اے طائر اے عکس  لاہوتی اے موج من در موتی اے رنگ ناسوتی میں لاہوت کے طائر 

آج بارگہ ناز میں تمثیل ہے 
مثال روشن ہے. مثال وہ نازنین خیال ہے جس کے لیے جہان بنایا گیا اور بنا کے قلم تؤڑ دیا گیا کہ نہیں کوئ اس جیسا اور نہ کوگا  اس قلم سے سب نے دوات پائی 

قلم رنگ حیا
قلم رنگِ حنا