Wednesday, February 24, 2021

کتاب

شاہ ‏بغداد

دل،  اک سرزمین ہے،  یہ زمین بلندی پر ہے. زمن نے گواہ بَنایا ہے اور ساتھ ہوں کہکشاؤں کے. سربسر صبا کے جھونکے لطافت ابدی کا چولا ہو جیسا. ازل کا چراغ قید ہے. یہ قدامت کا نور وہبی وسعت کے لحاط سے جامع منظر پیش کرتا ہے. کرسی حی قیوم نے قیدی کو اپنی جانب کشش کر رکھا ہے  وحدت کے سرخ رنگ نے جذب کیے ہوئے جہانوں کو چھو دیا ہے. شام و فلسطین میں راوی بہت ہیں اور جلال بھی وہیں پنہاں ہے.  دل بغداد کی زمین بنا ہے سفر حجاز میں پرواز پر مائل ہوا چاہے گا تو راقم لکھے گا کہ سفر بغداد کا یہ باب سنہرا ہے جس میں شاہ جیلان نے عمامہ باندھا ہوگا اور لفظِ حیات پکڑا تھمایا ہوگا. وہ لفظ حیات کا عقدہ کوئی جان نہیں پائے گا . بس یہ موسویت چراغ کو عیسویت کی قندیل سے روشنی نور محمدہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل رہی. وہ بابرکت مجلی زیتون کا درخت جس کے ہر پتے کا رنگ جدا ہے مگر درخت نے سب پتوں کو نمو دیے جانے کس نگر کا سفر کرادیا ہے. داستان گو نے کہا ہے کہ انمول خزینے ہوتے ہیں جہاں نورانی مصحف شاہ جیلاں اتارتے ہیں اور کہنے والے کہتے پیرا سچا بغداد ساڈا.  اودھی دستار دے رنگ وی وکھو وکھ. اوہی سچے دا سچا سچ

شاہ بغداد قطبِ اولیاء 
شاہ جیلاں امامِ زمن 
شاہ سے بنٹا نوری باڑا 
اسمِ محمد کا ہے اجالا 
ذات کے گرد نوری ہالا.
دل کہے جائے شہ والا 
دل پہ ہے مکڑی کا جالا 
کاتب نے اسے ہٹا ڈالا 
رنگ بڑا سبز سبز ہے 
سرمئی روشنی پھیلی 
 
تار عنکبوت اتار دو. وقت ہے دعا کا اور نزع کے وقت مقبول دعا حج ہے.  حج شروع.  حج ختم. حج مطاف دل میں،  حج غلاف کعبہ کے اندر،  سوچ کعبے کو طواف کر اور پیش کرے سلام


Monday, February 22, 2021

شبنم

۔ لکھتے ہوئے شبنم نے گھاس پر گرنا شُروع کیا ہے ۔ کاش سبزہ بھی اس شبنم کے گرنے کو نہیں بچا سکتا ہے کہ شبنم کے لیے بہترین جگہ تو گُلاب کو پھول ہے ۔ واصف علی واصف کا کلام ہے ، میں نعرہء مستانہ ۔۔۔۔ بہت سے ایسے کلام ہیں جو انسانی سوچ کی پیداوار نہیں ہے ۔ سوچ تو مظاہر کی تابع ہوتی ہے ، سوچ کو ترقی تب ہی ملتی ہے جب وہ کسی اور جہاں کی سیر کرچکی ہوتی ہے اور یہ وجدانی صلاحیتیں تب ہی بیدار ہوتی ہیں اور انسان یک دم ، یک سکت لکھتا چلا جاتا ہے جیسا کہ اقبال کا قلم لکھا کرتا تھا ۔ ہم سے سب اپنے دائروں میں مقید ایسی ہی جنت کے متلاشی ہیں جس کو آپ حسرت کا نام دیتے ہیں اور میں اس چراغ کا نام دیتی ہوں کہ لاکھ آندھیاں اور طوفان بھی نہیں بجھاسکتے ہیں جو شمع اندر ہوتی ہے وہ باہر نہیں ہوتی ہے ۔ وہی بات کہ جب میں باہر تمھیں دیکھوں تو سب مظاہر میں تم نظر آتے ہو اور جب میں اندر دیکھوں تو مجھے اندر بھی گہرائیوں میں تمھاری دید ہوجاتی ہے میں اس گہرائی میں کھو کر سب کچھ بھلادوں ۔ یہ کچھ بابا بلھے شاہ کے کلام میں بات پائی جاتی ہے ۔ 

کچھ اپنا لکھا ہوا شریک کررہی ہوں ۔۔

میرے خواب کی حقیقت کیا تم جان پاؤ گے . میں کبھی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتی ہوں اور کبھی بند آنکھیں نیند کی وادیوں میں گھسیٹ کر مجھے وہ صورت مجسم کردیتی ہے جس کی جستجو ہوتی ہے . میری زندگی کی حقیقت میں سراب بھی حقیقت ہے اور حقیقت بھی سراب ہے . تم ان کہے گئے لفظوں سے دھوکا مت کھانا . مجھے اپنے مجاز کے سراب میں حقیقت دکھتی ہے اپنی حقیقت جان کر مجھے دنیا سراب لگتی ہے . مجھے یہاں رہنا ہے مگر میرا ٹھکانہ تو کہیں اور ہے . میری روح کسی اور جہاں کی اسیر ہے . اسے سر سبز وادیاں ، آبشاریں اور جھرنے اس لیے عزیز ہیں کہ یہ حقیقت میں جنت کی تمثیل ہے . تم پھر دھوکے میں کھو جاؤ گے کہ مجھ میں جنت کی خواہش حرص بن رہی ہے . میں اس دنیا میں ان نظاروں کو اس کی حقیقت کا آئنہ سمجھتی ہوں . میرے سارے دکھ ان نظاروں میں کھو کر بے مایا ہوجاتے ہیں . مجھے سرسبز کوہساروں میں درخت پر بہتی شبنم صبح نو کی نوید دیتی ہے تو وہیں مجھے صبح کی نوخیزی جگنو بنادیتی ہے میں گلاب کا طواف کرنا چاہتی ہوں جس میں پسینہِ اطہر کی خُوشبو ہے . یہ پاک خوشبو مجھے معطر معجل مطاہر کردیتی ہے . اندر کی دنیا کے باسی کو محبوب کا پسینہ بہت ہے . جب وہ خوش ہوتا ہے تو روح کی سرشاری مجھے مست و بے خود کردیتی ہوں . لوگو ! میں ہی حقیقت ہو کہ میرا وجود مجھ سے بڑی حقیقت لیے ہوئے ہے . اس کو سلام کرنا میرا فرض ہے . اس سوچ میں رہتے ہوئے مجھے بندگلیاں اور رنگ راستے بھی کشادہ راہیں نکال دیتے ہیں . مشکلوں میں آسانیاں مجھے مل جاتی ہیں .

ہر قدم میرا قید ہے مگر میں اس قید میں بہت خوش ہوجاتی پر کبھی کبھی لطافت مجھے لحجاتی ہے . میں کبھی باہر کی دنیا کی سیر کرتی ہوں اور جہاں جہاں جاتی ہوں کھو سی جاتی ہوں اور اندر کی دنیا کیسی ہوگی . یہ دنیا شریانوں میں محسوس ہوتی شہ رگ میں مقید ہوجاتی ہے . اس مقید شے مجھے اپنا عکس نظر آتا ہے . اس عکس میں مجھے کون محسوس ہوتا ہے . وہ جو میری جاں سے قریں ہے ، وہ جو میری جبل الورید سے قریب ہے . اس کا ذکر میرے خون میں چلنے والی سانسیں کرتی ہیں . مگر میں اپنے خرابات میں کھوجاتی ہوں . مجھے سمجھ نہیں آتی کیا درود بھی پھولوں کا دستہ ہے جس کا ہر پھول ایک گل دستہ ہے . میں نے جب اس دردو سے اپنے تن میں خوشبو لگائی تو میرے اندر کی جمالیت نے مجھے حسن عطا کردیا ہے . مجھے خود کو حسین ترین کرنے کی طمع ہونے لگی ہے .

مجھے ‏خدا ‏نہیں ‏ملتا

مجھے خدا نہیں ملتا! اس کو مجسم جلوے کو پانا دور کی بات، مجھے اُسکا عکس نہیں ملتا!  اس کی جانب لُو کی تو وجود دُھواں ہوگیا مگر اسکا احساس تک نہیں ملتا. مجھ میں ملوہیت کو مٹی میں گوندھا گیا ہے.  یہ ملمع کاری کے رشتے مجھ سے نبھیں گے کیسے جب اصل سے تعلق نہیں جڑتا.  قران پاک کے ورق ورق میں آیت آیت نشانی.  اس نشانی کا مجھ پر عکس نہیں پڑھتا کیونکہ اندھا دل سنے گا کیا!  دیکھے گا کیا؟  جہالت میں مجھ سے آگے نکلتا نہیں کوئی مجھے علم دیتا نہیں کہ مرا نفس شیطان سے ساز باز کرلیتا ہے. 

خُدا کیسے ملے گا.  ہم سُنتے ہیں خدا جستجو سے ملتا ہے اور عکس محِبوب بندوں میں ملتا ہے. محبوبیت کے اعلی درجہ پر فائز ہستی سے کون مجھے ملائے گا؟  میرا نفس؟  یہ بُہت کمینہ ہے، بُہت جاہل ہے، اس کو کیا آداب محافل کے ...

مگر وہ تو کہتا ہے وہ جو کرم کرے تو دِل میں سَما جاتا ہے. دل سے دنیا تک اسی کی صدا لگتی ہے. وہی انسان کا بُوجھ اٹھالیتا ہے اس کو صدا دیتے کہ میں ہوں اس بندے کے پاس جو صدائیں لگائے

بندہ یہ صدا سنتا نہیں کیونکہ سماعت سے دور اپنی دُنیا کی اندھیر نگری میں گُم رب سے بے نیاز ہوجاتا ہے. رب سے بڑا بے نیاز کون ہے؟  بندہ کیسے کیسے الزام پر دھر جاتا ہے مگر وہ لازوال مامتا کا حامل بار بار اپنی جناب
لیتا ہے "آجا، تُجھے سنبھال لوں، تو میری امید کے جُگنو سے پروان چڑھا، تجھے شمع کی ضوفشانی دکھادوں، تجھے اصل شمع سے ملا دوں ...

بندہ ڈرتا رہتا ہے کہ وہ تو دل کو منور کردے گا مگر اپنی ملوہیت کو الوہیت سے منسوب کردے گا اور منصور کیطرح نعرہ انالحق کا سزوار ٹھہرے گا. وہ تو ہر ہر شے میں مُجلی ہے. اشجار میں،  پہاڑ میں، پانی میں، ہوا میں، ریت میں، مٹی میں، زمین کی کھیتی میں،  آسمان میں، ستاروں میں، ابحار میں، طیور میں.... اسکی تجلی کی صفت ہر اک شے میں معکوس ہے مگر معکوس کا اصل کہاں ہے؟  وہ کہاں ہے؟  تجلی صفاتی کہاں ذات سے ملتی ہے؟  تلاش کے تمام پارے جب اک قران کی صورت بنیں گے تب وحدہ لاشریک ظاہر ہوگا

ماں

ماں ایسی ہستی ہے جس نے تخلیق کا فرض نبھایا ہوتا ہے ، جس نے تخلیق کی خدمت کی ہوتی ہے مگر بدلے میں سرکشی ، خودسری خلقت کی سرشت ہوتی ہے ، ایسی بے مثال ہستی جس کی اپنی خلقت  بھی اسے برا، بھلا کہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے کہ خلافِ رحمت کام کرنا ماں کے شانِ شایان نہیں ہوتا

ماں! کیا ہوتی ہے ماں؟ آخر درد کو حاصل کرکے کتنا سکون پاتی ہے ماں؟ اس  ملال کو جو رکھے دوریوں پر، کتنا ترساتی ہے ماں، وہ جب جب قریب ہوتی ہے، فلک پر دنیا نصیب ہوتی ہے! ماں کی مامتا بڑی بے لوث ہے! بڑا دکھ سہا مامتا نے! تخلیق کے وقت موت سے گزر جانے والی ماں کی قدر اسکی اولاد نہیں جانتی مگر اسی نافرمان اولاد کے پیچھے بھاگ بھاگ کے جاتی ہے ۔ بچہ پیدا ہوتے ماں کا لفظ پکارتا ہے اور ماں خوشی سے پھولے نہیں سماتی ! بچہ اپنی پہچان کو ''ماں '' بلاتا ہے اور جب بڑا ہوتا ہے تو اسی ماں کو بھول جاتا ہے ، بچہ ماں ماں نہ کہے ، کتنا دکھ کرے ماں ۔پہچان اصل چیز ہے جو بڑے ہونے پر سب بھول جاتے ہیں

ماں کی دوری نے ہلکان کردیا جیسے ذرہ ذرہ پریشان کردیا، کتنا دکھ کرے تخلیق ؟ دکھڑا درد کا کیسے کہے تخلیق؟ جب سنے نہ کوئی تو کون سنے؟ جب دکھےنہ کوئی تو کون دکھے؟ جب چھپے نہ کوئی تو کون چھپے؟ جب اٹھے نہ کوئی تو کون اٹھے، ماں نے پورا وعدہ نبھایا پر سبق ملن کا نہ آیا

سبق ملن، جدائی اور ہجر نے جلادیا دل، جلا دیا دل، اس کی جانب نگاہ ہے، سجدے میں سر بھی جھکا ہے، اس کو پہچانوں ناں، کتنا دکھ کرے ماں؟ وہ جو قریب ہے؟ وہ جو حبیب ہے؟ وہ جو حسیب ہے، وہی نصیب ہے! 

ماں تو دوری بڑا ستاندی اے، 
اکھ ہن نیر وگاندی اے

ماں تجھے پہچان نہ سکوں تو کس کو پہچانوں؟ ماں  تجھے نہ مانوں تو کس کو مانوں، زمانے کے سرد و گرم سے بچایا، مجھے نور میں چھپایا، لہو لہو دل ہے، قلب میں جس کا جلوہ ہے جس کی قندیل ہے، وہی میرا وطن ہے، وہی میرا اصل ہے، وہی مرا مقصدِ حیات ہے جس کو پایا بعدِ ممات ہے! ماں توں دوری نے آزمایا، لوکی کہون مینوں پرایا، میں اس دنیا اچ کی کمایا جے ماں تینوں نہ پایا؟

یہ جذبات، یہ احساسات، یہ رگ رگ سے نکلے لہو کے ان دیکھے قطرے جو گر رہے قلب کے وجود پر، جن کا نشان نہیں ہے مگر ظاہر نے نمی سے منعکس کردیا جس کا جلوہ  عالی ذیشان ﷺ کی آنکھوں میں ہے، وہ مسیحا، وہ جس کو میں کہوں: میرے  عیسی ، قم باذن اللہ سے میرا دل جلایا،  دی زندگی، قلب کو منور کرایا ....  وہ مجسمِ نور ، وہ سراپاِ رحمت ، وہ عین رحمانی ، وہ نور یزدانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ طہٰﷺ ، جن کی تجلیات نے بطحا کی وادیوں کو روشن کردیا ہے ، جن کا احساس دائمی ہے ، دل جن کے آنے مجلی ، مطہر ، مطیب ، منور ، منقی  ہوجاتا ہے ، انہوں نے درد کو سہا ہے ، وہ محبت جو خالق نے اپنے محبوب ِ خاص ﷺ کو دی ، وہی محبت عام کردی آپ نے یعنی کہ بانٹ دی ، خالق کی عنایت تو خاص کر دیتی ہے ، نبی ﷺ کی نظر سب پر یکساں پڑتی ہے ، ذروں کو آفتاب کردیتی ہے ۔

نوید ‏سحر ‏کی ‏ہے

نوید سحر کی ہے، سعید گھڑی ہے 
بسمل کے دم دم میں ذکر جلی ہے

تڑپ دیکھو مری پرواز کرنے والو 
اشک لَہو، فگار دل اور بے کلی ہے

درود پڑھتے پڑھتے نیند آئی تھی 
دل کے کاخ و کو صبا پھر چلی ہے

ہچکی بدن، لرزش پیہم،آمد شہا کو
شہر دل میں سجی ہر اک گلی ہے

کوئی دیکھے نگاہ لطف کے اسرار 
دعا ہے کس کی، جبین جھک چلی ہے

پنجتن ‏سے ‏در ‏دل ‏فیض ‏عام ‏ہوا

پنجتن سے درِ دل فیض عام ہوا
دُروں میں ذکر زہرا سے کام ہُوا

غیر آگے جھکا نَہیں، ابن  زہرا
کا تذکرہ ہر زمن میں عام ہوا

شہرِ دل میں مصطفوی چراغ سے
رگ رگ میں نور کا انتظام ہوا

حیدر کے ہوتے دشمن کہاں جاتا 
قلعہ خیبر یوں حلقہ ء اسلام ہوا

چل رَہی نسبت کوثر سے کائنات 
مداوا غم دل کا یہی جام.ہوا ہے

روشن ‏جمال ‏یار ‏سے ‏گلیاں ‏ہیں

روشن جمال یار سے گلیاں ہیں 
یہ درود کی نئی حد بندیاں ہیں 

 گوشے کھلے مہک خرام خرام ہے 
دودِ ہستی میں گُلاب دَرو بام ہے 

فَلک پہ تھی نِگہ، جَبیں نیاز میں 
تجلی سے جَل اٹھی  ہر شام ہے 

عشق کیے گئے بن آگہی کے ، ملا  
ہمی کو زخم بعد سرر کا جام ہے

کہو ‏نا ‏نعت ‏کوئی ‏،دل ‏اداس ‏ہے

کَہو نا نعت کوئی دل اداس ہے 
پتا چلے گا کون دل کے پاس ہے 


نَہیں خالی دل میرا، مسکن بَنا ایسی ہستی کا،
کہ پہنے وہ پوشاکِ نوری،
وہ خاتونِ جنت!
وہ گفتار میں عالی، ملکہ مرے دل کی 
وہ ہیں سیدہ فاطمہ زہرا،
جو اپنے ہیں بابا کی لاڈلی 
محبت کو حرفوں میں کیسے تراشوں
کہ میں ضبطِ تحریر لاؤں 
مقدر میں وہ حرف بکھرے پڑے ہیں 
درودوں کے گجرے دھرے کے دھرے ہیں 
یہ احساس پھر مجھ کو ہونے لگا ہے.
خموشی اصل گفتگو ہے 
یہی راز ہے جستجو کا
صدا دل سے آئی 
لکھا ہے نا، دل ـ دل کا راقم ہے بنتا 
لکھا ہے نا، سجدہ فنا بعد ملتا
لکھا ہے نا، یہ بھی!  جبیں پر کشش کے بنے دائرے یہ جہاں زیر کردیں 

کہ جیسے الکڑانز رواں دائروں میں 
کہ جیسے ہوں سورج بھی افلاک کے گرد،اے دل! 
قسم ہے، دلوں کی حرکت جو ہے آپ کے دم سے وہ ہے 
 یہ عالم اجالے بکھیرے ہے جائے 
یہی آپ کے دم سے ہے،
وہ فانوسِ عالی، وہ قندیل روشن 
وہ جاویداں ہستی، 
ہے نسبت مجھے ان سے، جن سے زمانہ منور ہے 
تو اے شہزادی، یہ فانوس رنگو بو کا سیلاب ہو گویا
سلامِ شوق بہ عزت محترم عالی وجود کو 
سلام شوق بہ تہہِ دل کہ دل میں ماسوا کیا ہے؟
سلام شوق بہ مو مو کہ ذکر میں رہا ہے،  مگر حق ادا نہ ہوا 
سلام  شوق مادرِ عالی حسنین کو کہ جن کہ بیٹوں نے قربانی دی ایسی 
کہ سر کٹا کے حق کا اثبات کردیا 
اللہ اللہ اللہ

صبح ‏کا ‏ستارا

صبح کا ستارا 

یہ دولت ہے علمُ البَیاں کی*
قَلم نعمتِ رب ہے،  آیت بہ آیت چلا سلسلہ ہے 
حِرا میں ہُوئی ابتَدا، اور سدرہ پہ معراجِ بشری 
شُروعات "اقرا " کی سوغات سے کی گئی ہے 

خدا کے محبوب، عالم کی رحمت
حرا میں مراقب ہوئے جب 
فَریضہ نبوت کا سونپا گیا تھا
فَرشتہ وَحی لے کے آیا، 
" نَہیں جانَتا میں " کی تکرار کرتے رہے تھے 
 وہ دو قلب یوں پھر ملائے گئے تھے 
کہ نورانی مصحف اُتارے گَئے تھے
خَشیت سے جسمِ مبارک تھا کانپا 
خدیجہ نے کملی سے اپنی تھا ڈھانپا
یہ پہلی وَحی کا اَثر تھا کہ اتنا
نَزولِ وَحی بعد میں رک گیا تھا
سکوں پھر دِلو جاں کا رخصت ہُوا تھا
یَکایک اَبر رحمَتوں کے تھے چھائے
کہ روحُ الاَمیں پھر وحی کو آئے *

کہا رب نے پھر " قُمْ فَأَنذِرْ"
طَریقِ عِبادت بَتایا گیا تھا 
تو قرأت کے اِسرار کھولے گئے تھے 
یہ بارِ نبوت بَڑی شان سے پھر اُٹھایا 
نبوت سے ظلمت جَہاں کی مٹائی 
ہدایت کا رستہ سبھی کو بَتایا
اُُجالے دلوں میں جو ہونے لگے تھے 
صَحابہ محمد پہ مرنے لگے تھے 
کسی کی تھی نسبت اویسی،
تو روحِ بلالی کسی نے تھی پائی 
کہیں جستجو کو جو سلمان فارس سے نکلے 
جو آوازہ  "حیّ علی خیر " کا پھر اُٹھا تھا 
تو "اللہ اکبر" کی گونجیں صَدائیں،
تَیقُّن سے سینے منور ہوئے تھے*
گرفتار اندیشوں میں ان کے دشمن 
مظالم تبھی مسلمانوں پہ ہونے لگے بے تحاشا
تو مکّہ سے ہجرت بھی کرنی پڑی تھی 
خطرناک کفّار کے جب ارادے ہوئے تھے 
گَھروں سے تَہّییہ یہ کرکے وہ نکلے 
  کہ اس شمعِ ایمان کو وہ بجھا دیں
یَقیں کی جو طاقت سے انجان تھے وُہ
رَمّی وہ محمد کی تھی، وہ رَمّی تھی خدا کی 
تو قدرت خدا کی کہ اندھے ہُوئے سب، 
مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تھے 

*چراغِ اَلوہی بجھایا نہ جائے گا، یہ فیصلہ تو ازل سے رقم تھا 
کہ قندیلِ طاہر سے سارے جہانوں،  زمانوں نے روشن ہے ہونا 

یَہودو نَصارٰی مقابل ہوئے جب 
تو کُفّار کو چین پھر کیسے آتا
مُقابل لَشاکر یہ سارے ہوئے تھے
.بَدر میں،  احد میں شجاعت، دلیری دکھائی
فَتوحات کے جھنڈے گاڑے گئے تھے 
   وہ فتحِ مبیں اور کعبے سے بت سب اکھاڑے گئے تھے  
رسالت، نبوت، نیابت کی تکمیل ہوئی تھی
 مقامات درجہ بہ درجہ یہ طے جو ہوئے تھے
تو طٰہ، وہ یٰسین، حم کہہ کے پُکارے گئے تھے *
مقاماتِ بشری کے یہ استَعارے،
یہی راز ہیں معرفت کےتو سارے

وہ شب قدر میں اوجِ بشری 
سرِ لا مکاں سے طَلب جب ہُوئی تھی 
سوئے منتَہی کو چلے سرورِ انبیاء تھے 
ستارے حَیا سے حجاباتِ شب میں 
 منور، مطہر محمد کی سیرت 
تصور میں کیسے سمائے وہ صورت 
فَرشتے تبِ و تاب اس حسن کی لا نہ پائے 
جو جس حال میں تھا، اُسی حال میں مر مٹا تھا
تحیر کی ساعت سے کیسے نکلتا کوئی پھر
حبیبِ خُدا پھر اَکیلے روانہ ہوئے تھے
وہ دن تھا بھی کتنا سُہانا
یہ" ثُمَّّ دَنَا" سے کہیں آگے سفر تھا*
خطِ حد سے کم فاصَلہ تھا
ہیں "ما زاغ" چشمِ کرم ،یہ شَہادت خُدا کی
نِگاہیں مطہر تھیں، دل بھی نَمازی 
وہ معراج،  "صلّ عَلی "کی صدائیں *
وہ اسرٰی کی شب اور اقصٰی کی مسجد 
رَموزِ حَقیقت عَیاں سب ہوئے تھے
محبت میں سب انبیاء ہی کَھڑے تھے 
امامت کو شاہِ رُسل جو کھَڑے تھے
صَبیحو منور یہی وہ ستارہ 
رُخِ زیبا جسطرف اسکا ہو جائے
وُہ پاکیزہ،  طاہر ہو  جائے
مرا دل اسی تارے سے جگمگا دے
سبھی تارے اسمِ محمد سے چمکے


ہے ‏تار ‏دل ‏کی ‏صدا ‏

ہے تارِ دل کی صدا لا الہ الا اللہ 
یہی ہے غم کی دَوا لا الہ الا اللہ

فَنا ہے زیرِ قَدم، حرفِ اوّلیں کی صدا 
جنوں کہے یہ سدا لا الہ الا اللہ

حُسینی لعل نے دریا سخا کے سارے جب
بہادئے، تو کہا لا الہ الا اللہ

یہ کائنات پہ پھیلی حیا کی جو ہے ردا 
کہ فاطمہ نے کہا لا الہ الا اللہ

فقط طلب یہ خدا سے کہ آئے گی  جو قضا 
تو نکلے دل سے صدا لا الہ الا اللہ

چلو ‏آؤ ‏!

چلو آؤ!  
پیامِ سحردیں 
چلو آؤ کہ نویدِ بہاراں سنائیں 
محمد کا دامن پکڑ لو 
وگرنہ خسارہ کہیں کا نہ چھوڑے 
کرو مدح دم دم میں درودِ سرکار سے 
مرادوں سے بھرلو یہ جھولی

سوچ سوچ کے قدم رکھنے والے کہاں تلک چل سکتے ہیں؟ یہ فہم درک کس کام کا جب حساب میں کمال نہ ہو، جب تیر کمان میں نہ ہو، جب زندگی وصال میں نہ ہو، جب شام ملال کو مجال حرف آرزو نہ رہے کہ کسے کہے گی شام، نوید صبح کی بانگیں تو گونج رہیں مگر اندھیر نگری میں بھلا کب بس چلا ہے کرم روشنی ہے..فسانہ کیا کَہیے، درد کا کہیے کیا.  بس اسے دیکھنے کی رو کو بہ رو کہیے. جبین افسردہ کہیے، دل پژمردہ کہیے. پارہ ء دل میں رگِ دل کا قصہ کہیے...

خوشبوؤں کے مسافر سے رستہ پوچھا تو کہا اس نے کہا مہک ساتھ چلی ہے. عشق میں نمی ہے کہ مٹی تو زرخیزہے اور بوئے گل کو لیے چلی ہے باد. یہ جھونکے ہیں جو گواہ ہے شہادت کہ محبوب شہر دل میں رخ کیے موجود. ہم سربسجود گویا کہ نم دل سے مٹی کی اوقات نہ پوچھا کر بس طواف کیے جا. شمع سے کاخ و کو روشن ہیں.


دل ‏اک ‏صحیفہ ‏ہے

رکیے، ٹھہر جائیے 
بھلا کیوں؟
جلوہ دکھے گا جب نظر اٹھے گی 
نظر اٹھے گی؟
اٹھے نہ اٹھے، روشنی ملے گی 
پھر رکنا محال ٹھہرا 
لا یدرکہ الابصار کا استعارا کھل گیا 
ہم ہے نہیں، سب نگاہوں میں وہ ہے 
لطافتیں عنایت کردے تو اچھا ہے
 ورنہ صم بکم کے تالے ہیں 
یہ آنکھ سرمہِ نجف پائے تو دیکھے 
یہ جہاں اور ہے، وہ جہاں اور ہے 
خامہ متحرک، لب صامت ہیں 
خیالِ درود میں اک شبیہ طاری ہے 
انہیں سے ملو، جن کی سواری ہے 
ہستیاں سب مبارک لوح پر موجود ہیں 
بس قران پڑھ، تنزیل کی باری ہے

صحیفہ ہوتا ہے اور پاک ہوتا ہے. جب صحیفہ پڑھا جاتا ہے تو روح پہ نشان لگ جاتا ہے. جس پہ حق کی مہر لگ جائے تو وذھق الباطل والی بات بن جاتی ہے. نگاہیں پھر سرمگیں اور جذب رسائی تلک چلا جاتا ہے . یہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات ہے جس سے ہماری بگڑیاں بن رہی ہیں. وگرنہ رنگ دل کو لگتا نہیں . رنگ لگاؤ! بھلا کیوں؟  خدا فرماتا ہے صبغتہ اللہ ہی بہتر ہے. بس رنگ لوں خود کو ورنہ دیر نہ ہو جائے؟  
یہ بھی مشکل ہے کہ اظہار میں بیقراری نہ ہو اور رنگے جانے میں تاخیر!  وگرنہ سارے مارے جاتے ہیں 

سارے پڑھو درود 
سرکار آگئے صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
شہید زندہ ہوتے ہیں، انبیاء کا مقام بہت بلند ہے.

جب حرف متکلم ہوں تو دل نماز ہو جاتا ہے. جب کچھ جاننے لگ جاؤ تو خامشی کو در وا نہ ہونے دو. جب نگاہ کے انداز ملیں تو شیریں سخنی سے کام لو، حیرت میں کھونے لگو تو دیکھو 
والیل سے والشمس تک رستہ ہے 
والعصر سے والضححی تک کی بات ہے 
ما رای سے فقد راءنی کی تصدیق بھی 
جب فلک ٹوٹ جاتا ہے تو دل کی کائناتیں میں حشر بپا ہو جاتا ہے. تب دھوپ کا سوال؟  ستارے لپیٹ دیے گئے. اب تو امید ہے تب حشر ہوگا. اب دید نہ کی تو حشر یہیں بپا ہوگا. مرے خواب سے ادراک تک اک سفر ہے جیسا معراج بشری کو روانہ ستارہ ہو. والسماء والطارق!  واللہ اللہ ستارے بناتا ہے کہتا ہے. انما امرہ اذا ارادہ .... کن فیکون. ارادہ اسکا ارادہ تو ہے مگر وہ ارادہ کے ساتھ ہم میں موجود یے. یعنی کہ ہم بے بس و لاچار نہیں، مگر ہیں بھی بے بس و لاچار. یہی عبد و معبود کا فرق ہے


یہ دِل ایک صحیفہ ہے اور دل کو پڑھنا دشوار لگتا ہے. ہمارے لیے اس سے بَڑی خوشخبری کی بات کیا ہوگی کہ وہ سینہ جس کے لیے اللہ فرماتا ہے "الــم نشـــرح لــک صـــدرک " وہ سینہ علوم سے پُر الفاظ کی صورت موجود ہے. قران پاک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کا دل ہے اور ہمارے سامنے ان کا دل موجود ہے. یہ دل اک ظاہری لباس یعنی لفظیات کی صورت ہے. اس تک رسائی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے "قـــــم الیل " یہ ایسا حکم ہے جسکو "کــــن " جیسا کہہ سکتے کہ روح ہر حال میں چاہے ڈر سے چاہے محبت سے قیام لیل پہ مجبور ہو جائے. قیام لیل کا کہا "الا قلیلا " کہ کم از کم تہجد کے وقت ضرور اٹھنا چاہیے اور "او ذد علیہ ... " جس کا جی چاہے تو اضافہ کرلو ... اس قیام میں دو باتوں کا حکم ہے " واذکرسم ... " اللہ کو اسم ذات یعنی اس لفظ اللہ سے پکارا جائے اور ورتل القران کہ قران پاک کو ترتیل سے پڑھو ..  کہا گیا ہے سات طرز کی قراءت ہیں اور سات طریق سے علم کے نقاط دل میں اتر جاتے ییں. بس قران پاک کا باطن یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک رسائی تلاوت سے ہے.میری تلاوت مجھے علم سے آشنا کرے گی. فقط میری

چراغ ‏مصطفی ‏ہے ‏دل

چراغِ مصطفی ہے دل، جَلا ہے مثلِ طُور جو  
ہَوا بُجھا نَہ پائے گی،یہ روشنی  کمال ہے 
                  ******
ہے طائرِ حَرم کَھڑا سُنہری جالیوں کے پاس 
نَہ دید گر ہُوئی تو اسکی زندگی  محال ہے 
                *****-**

صَبا ہماری خاک کو حَرم کی گردِ راہ کر
طوافِ روضہ ہو سَدا کہ اب یہی خیال ہے 
                 **********

حضورِ یار حرفِ دل  کہوں تو مسکرا  کے وہ 
یہ کاش کہہ ہی دیں کہ واہ! نعت بے مثال ہے

                     ********
خُدایا ذوق شعر گوئی بے مثال دے مجھے 
لکھوں وہ داستانِ دل بَڑی جو پُر ملال ہے 

                      *******
دعا نہ التجا جو کی ہے ہم نے غیر سے کبھی
حضور جانتے ہیں مارے ہجر کے جو حال ہے
               *********  
بنا مرا یہ دل حرم، چلا انہی کا ہے کرم
ہے گردِِ ش خیال میں نبی کا جو  جمال ہےNòór Iman

نعت

ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے
کہ دفن ہم یہاں پہ ہوں گے ،ایسا بخت پائیں گے

چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دلِ امید!
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے

کہیں کرائیں اور کیوں جگر کے زخم کا علاج 
مسیحا منتظر ہیں ہم، تجھی سے چوٹ کھائیں گے 

بھرم وفا کا رکھ چکے، خموش ہم رہے سدا
ذَرا بَتائیں،  آپ اور کتنا آزمائیں گے

کرم کرے، کرے ستم، یہ سر سدا رہے گا خم
بنا رہے یہ رشتہ، ہم اسے نہ اب اٹھائیں گے 

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
تمام عمر نغمۂ ازل نہ بھول پائیں گے
..

ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں حسن اسکا پائیں گے

لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ گنگنائیں گے

اسی کے جلوے سے ملی ہیں نور، ہم کو خلوتیں
کہ شوقِ وصل سے ملال ہجر کو مٹائیں گے
Nòór Iman

علی ‏علی ‏کہنا ‏بھی ‏کمال ‏ہے

علی علی کہنا بھی کمال ہے، جب جمال کو خدا کی نظر سے دیکھا جائے، تو مجازاً بھی مظہر چاہیے تھا. بس علی علی کہنا کمال ہے!  جس نے زبان سے کہا کہ دل سے واجب الوجود ہوتے دل طاہر نکلا. تبھی تو دیکھا سب نے جلوہ عین  روئے شہ ابرار صلی اللہ علیہ والہ وسلم...  

تجلیات کی اقسام میں جہاں جہاں جلال ظاہر ہوا ہے وہیں چراغ حسینی کی بات ہوئی ہے. حق نے جہاں جہاں قران پاک میں قربانی کا ذکر کیا، بخدا ان میں نمودِ حُسینی تھی جو بعد از لباس مجاز نام حُسین سے متاثر ہوئی کہ وہ مثالِ جلال جس نے مثالِ اثبات لہو دل سے تحریر کیا ... 

جمال کی بات قران پاک میں جہاں جہاں ہوئی تو سیدہ طاہرہ صفیہ واجدہ عالیہ نور والی بی بی،  کالی کملی والی کی بیٹی،  ام ابیھا،  بنت خدیجہ،  رافعہ،  تحمل والی،  صبر و عفو کا پیکر "والکاظمین الغیظ "کی مثال  ہیں،  وہی تو ہیں جو مومنات کی سیدہ ہیں ا ہم خدام ان کے.  زوجہ حیدر کو سلام کہ آیت کوثر کی نہر بھی وہی ہیں!  مریم بی بی میں  اخفا نور یہی تھا! یہی تو جس نے امر کن بوقت نفخ سرداری و نیابت و علم کی وہ تلوار لی، جس سے سادات کی سیادت چلی اور آئمہ کی امامت چلی!  وہ رات میں ظاہر ہوں تو پوشیدہ پوشیدہ جیسا کہ بی بی آسیہ کے زمانے،  بی بی مریم کے زمانے رات کے تھے، جب وہ ظاہر ہوئ صبح ہوگئی 

سلام سیدہ بی بی پے کہ صبح کی نمود ہیں 
سلام سیدہ بی بی پے کہ الواجد کا وجود ہیں 
سلام سیدہ بی بی ہے کہ آیت خفی و جلی ہیں 
سلام سیدہ بی بی پے کہ ظاہر و باطن کی ملکہ 
سلام سیدہ بی بی پے کہ ہم نقش زہرا کی خاک 
سلام سیدہ بی بی پے کہ  وہ حسن کا مجسمہ
سلام سیدہ بی بی پے کہ شہ دو جہاں کی دلاری

کرسی ‏جب ‏اترتی ‏ہے

کرسی جب اترتی ہے دل میں تو کہاں  سنا ہے سچ کو 

وسعی کرسیہ ..... 
عالم لامتناہی کی کرسی دل کو کتنا وسیع کرسکتی ہے!  رب پوری کائنات ہے جب کائنات دل میں اترے تو باہر کیا بچتا ہے؟  جب اندر اجالا ہو تو اندھیرے کا کیا کیا جائے؟  کلمے کو دیکھا جائے یا نماز کو تو لازم ہے جب اللہ کا ذکر ہو تو ساتھ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھی کردیا جائے کہ اللہ کی سنت یہی ہے . بس 

کائنات کا ذرہ ذرہ درود پڑھ رہا ہے 
کس کو؟
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ...
فثمہ وجہ اللہ ...
ہر جانب اللہ کا رخ ہے 
ہر رخ میں تسبیح درود کی ہے 
ہر رخ یعنی چہار سو میں ہر شے کی تسبیح درود 
اس لیے پتھر کلمہ پڑھتے ہیں 
پتھر ایمان لے آئے

خوشبوؤں کے مسافر سے رستہ پوچھا تو کہا اس نے کہا مہک ساتھ چلی ہے. عشق میں نمی ہے کہ مٹی تو زرخیزہے اور بوئے گل کو لیے چلی ہے باد. یہ جھونکے ہیں جو گواہ ہے شہادت کہ محبوب شہر دل میں رخ کیے موجود. ہم سربسجود گویا کہ نم دل سے مٹی کی اوقات نہ پوچھا کر بس طواف کیے جا. شمع سے کاخ و کو روشن ہیں.


چلو اشک بیان کرے، جو بیان نہ ہوا کبھی.  یہ بیان شروع ہوا تھا زندگی کے بعد موت کا. جب میں نفخ سے پہلے تھی. سورہ ص میں فرمایا ونفخت ...بس جدائی ہوئی تو موت ہوگئی. میں پہلے سے مردہ ہوں مجھ کو موت کیا  ڈرائے گی. میں پہلے سے مومن ہوں کہ پہلے سے امتی ہوں ....  میں نے پہلے سے کہہ دیا تھا 

جب رب نے کہا کون رب تمھارا ہے 

میں نے کہا الحمد للہ رب العالمین، محمد رحمت للعالمین، اھدنا الصراط المستقیم، ھو الشاہد، ھو احد،  ھو الظاہر، ھو المصور،  

اس نے کہا یہ راہ کیسے ملی 
میں نے کہا جب کہا تھا اھدنا الصراط الذین انعمت علیھم 

اس نے کہا علم الاسماء سکھائے آدم کو، کیا پایا 
میں نے کچھ القابات کچھ مقطعات 
طٰہ، المزمل، یسین، طسم، حم، کھیعص، حمعسق،الم،  المدثر،  ص، ن،  ..... 
اس نے کہا کہ قسم کیوں کھائی میں نے 
میں نے کہا جہاں جہاں تو ظاہر ہوا تھا اک بار، وہ پاک جگہ نشان ہے. تو رب عِظیم نشان کی قسم کھاتا ہے کہ وہ تجھ میں سے ہے 

اس نے کہا کہ احسن الخالقین کون ہیں؟  
میں نے کہا جس نے سارے حجابات کے اندھیرے مٹادیے پھر کہا ما  زاغ .....  
بس یہی پہچان چلی آرہی ہے ...


درد ‏کے ‏چہرے

درد کے بے شمار چہرے!  وہ درد جو رگ دل سے جاری ہو، وہ ثمر رکھتا ہے  . وہ جان جس نے ممنوعہ شجر  کی معارفت کو زمین پے آکے پہچانا،  وہ شارع جن کے لیے جناب خضر علیہ سلام ظاہر ہوئے،  وہی جن کے لیے کہا گیا کہ آپ پاک زمین طوی میں ہیں،  وہی جن کی مادر نے بن باپ کے خلق کیا، وہ بچہ یک لخت معرفت الہیات کی جامع تفسیر!  وہ باپ جس نے بینائی کھودی اور دردِ محبت کو سلامت رکھا،  وہ بیٹا جس نے شیوہ ء تسلیم کو رسمِ پیامبری سے تعبیر کیا اور ذبیح ہونے کا عزم کرلیا،  وہ بھی جن کو مچھلی کے پیٹ میں بھی رزق پہنچا گویا حق جیسا باخبر اور رزق رساں کون ہے،  وہی جن کے لیے کہسارمعیت میں تسبیح کرتے جن کی بادشاہی میں جنات و شیطین تابع کردیے گئے اور وہی جن کے لیے مثالیں تخلیق ہوئے.  جب ساری مثالیں کی جامع تصویر بنی تو وہ محمد عربی رسول کائنات،  خاتم وحی،  نور جلی و خفی،  شہ جمال صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو کس طرح اک نبی کے انکار کے بعد ہم آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں؟  آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سینہ ء مبارک تو تمام انبیاء کے سینہ ء مبارک کو سموئے ہوئے ہے.. صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مہک

درود بھیجنے کو رب نے بھیجا. تعریف کرنے کو رب نے کردی.  اب ہمارے لیے کیا بچا؟  نہ زُبان! نہ دل!  نہ لفظ!  نہ سیرت! نہ عمل! یہ سیہ دل کس نگر جاکے چھپالیں؟  ہماری تو اوقات نہیں ہے کہ نامِ "محمد " صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی میم کو ٹھیک سے بولیں کجا کہ مصطفوی چراغ کا ذکر بُلند کریں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم ..  پھر بھی رحمت نے رحمت کررکھی ہے اور ہم.دھڑلے سے نام لیتے ہیں. کچھ مجھ کو خوف نہیں آتا کہ دل میں ان کی مہک کیساتھ کسی غیر کو رکھتی. دل کے اندر غیر خیالات کے مجسمے بنے ہیں اور مجسمہ ساز بنی میری روح ہے 

وہ.تو رحمت للعالمین ہے. اپنی انگلی سے ہم سب کو تھام رکھا ہے. وہ نہیں دیکھتے کہ رنگ و نسل کی وجہ سے کوئی ممتاز ہے.  کیا آج تک کوئی ایسا لفظ ہے جو ہم نے کہہ دیا.ہو مگر رب نے نہ کہا.ہو .... رب نے محبوب صلی اللہ علیہ والہ.وسلم کی.تعریف اتنی کی ہے جتنا کوئ کر نہیں پایا. ..

مہک ایسی نہیں پاس میرے، جیسی زمانوں سے گلستانِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چمن در چمن سے گل بہ گل چلی آرہی ہے مگر خوشبو مستعار لی ہے ان سے.  کوئی کوچہ پسند آئے تو بسالیا دل میں جاتا ہے. میں نے محبوب کے کوچے کی خوشبو سے رنگ لگا لیے ہیں . رنگ میرا سرمایہ، یہ میرا وجود ہیں.

قلم ‏والی ‏ہستی

اچھا،  قران پاک میں لکھا ہے 
والقلم وما یسطرون 

خدا نے قسم کھائی قلم کی اور اہل قلم کی.  اہل قلم تو انسان ہوگیا اور قلم وہ امر ہوگیا جو منتقل ہوگیا.  یہ لکھوانے والی ذات لکھوادے تو جسکو لکھوائے، وہ نازاں ہو کہ اس سے لکھوایا جارہا ہے.  قران پاک کا اعجاز یہی ہے کہ یہ دل پر وارد ہوتا ہے اور ہر دل بنا تفریقِ مذہب اسکو پڑھے تو دل کے احساسات متلاطم،  زبان حرف چو گویم نمی دانم مگر سب جانتی ہے.  تو جس جس ذات پر یہ احسانات ہوئے وہ صاحب امر کے تعلق کیساتھ صاحب امر بن گئی. جیسا شمس صاحب نے کہا قم باذن ..  یہ قلم کی زبان تھی جس کو اہل قلم نے وارد کیا اور حق یونہی چلتا آتا ہے. دل بہ دل، نگاہ بہ نگاہ،  چہرہ بہ چہرہ!  محبوب کو کبھی اکیلے نہ جاننا گویا محبوب ہونا سعید یے اور جو منظر دکھتا ہے وہ نوید سحر ہوجاتا ہے. وہ صبح کا استعارہ بن جاتا ہے. بابا فرید بھی اہل قلم ... اس لیے چینی یا شکر کی بوریاں نمک میں تبدیل ہوگئیں. سچ بولنے والے کی زبان جھوٹ کو سچ کردیتی ہے کہ ثابت ہوگیا ہے.  

پھر اک سورت ہے قران کریم کی سورہ الفتح!  
انا فتحنا لک فتحا مبینا 

قلم والی ہستی تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں. انہی سے مل رہیں فتوحات سب کو. وہی حاکم وہی شہنشاہ

وہ جہاں میں تشریف لائے تو چراغاں ہوا. زمین کی ہستی پے لا الہ الا اللہ کی تکمیل ہوئی. قلم ہوا "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ " یہ داستان رقم ہوئی کہ شہ ذی وقار رسالت مآب نیکی و خلوص کے پیکر، جمالِ خدا،  دین کی تکمیل کرنے والے خاتم مہرنبوت لیے تمام انبیاء کے امامت کرانے کو آگئے. وہ جمال جو زمین پہ ظاہر ہوا تو اس کی چمک سب زمانوں پے پڑ گئی. ہر زمانے میں نبی کا نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے.  اور وقت جسکو خدا سے تعبیر کیا جاتا ہے اس وقت کا قلم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں.  آپ آج ہمارے سامنے نہیں مگر ہم میں موجود ہیں   ..نگاہ سے اوجھل ہیں،  حجابات اگر ہٹ جائیں تو چہرہ بہ چہرہ دید ہوگی!  منظر میں منظر مل جائیں گے!  وہ ہمارے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ خیال کرو وہ تمہارے پاس ہیں. خیال کی طاقت اتنی ہے کہ وہ پاس لگیں.  خیال کی طاقت نور ہے اور ہر نور کا شہ نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں. وہ خدا کے بعد ہیں مگر خدا سے متصل ہیں. وہ قران پاک کی تجسیم و پیکر وحی ہیں. وہ شمع ہدایت ہیں. وہ جبین رسالت ہیں،  وہ ذی وقار ہستم ہیں ہر دل میں ان کی شمع جلانے کو درود کافی ہے. یہ درود گویا ورود نور ہے. اور ورد جب لب دل سے ہوا تو گویا چاک دل کے زخم رفو ہوگئے  گویا جاناں کا خیال آنا اور قائم ہوجانا!  اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوگی؟

آیت ‏الکرسی

خُدا دل میں اتر سکتا ہے اور ایسے جیسے بات دل میں اتر جائے. کوئی اس سے پوچھے کہ کتنوں کے دِلوں میں قبل اس سے اُترا. جہاں اترا وہ تو تری یاد میں مٹ گئے اور کتنے خواہشوں میں فنا.ہوگئے.
تجھے پانے کی خواہش 
تجھ دیکھنے کی خواہش 
تجھ سنگ زندگی 
تجھ بن موت 

اے آدم ذات!  انسان مٹی کی مورت ہے!  اس کی بصیرت میں ہوں. یہ کھیلتا.رہتا.ہے اور کتنے دل ایسے جن میں ہُو نے نغمہ بجا دیا. یہ ہم ہیں جو راستہ دکھاتے ہیں ..یہ ہم.ہیں جو سلطانی دیتے ہیں. یہ ہم ہیں جو بن کہے پورا کرتے ہیں 

خُدا کی جستجو دنیا سے الگ ہے. وہ دنیا الگ ہے جو اسکی تلاش کی دنیا ہے. وہ دنیا جہاں کوئی نہیں گزر سکتا ماسوا انسان کی اپنی ذات کے. میں اکثر خود سے پوچھتی ہوں ..

میرے ہونے کا مقصد ترا ہونا ہے.
میرے ہونے سے مگر تجھے فرق نہیں ہے 
تو مگر دل میں اترتا نہیں 
تو احساس کے پردوں سے چلمن.اٹھاتا.ہے 
یہ.تڑپ جو تو لگاتا ہے یہ تو آگ سی ہے

میں انسان ہوں!
میں وہ ہوں جو اکثر بے چین رہتا ہے 
اضطراب کا زہر لہو میں مانند عقرب ہے 
زہر کا تریاق بس اک ذات ٹھہرتی ہے 
اس سے کون کیسے پوچھے کہ اس کے ہونے کے نشان جابجا ہے مگر وہ کہاں ہے یہ علم احاطہ میں نہیں 
وہ تو.فرماتا ہے 
وسعی کرسیہ السماوت ولارض 
اسکی کرسی وسیع ہے ....!  
تو کہیں فرماتا ہے اللہ نور سماوات ولارض 
پھر کہتا ہے فثمہ وجہ اللہ 
اتنا کچھ کہہ دیا. ہر جانب اسی کا رخ ہے 
تو پھر کہتا ہے 
رب المشرقین ورب المغربین 

اتنے نشان ہیں اور انسان ذات اسکی ذات کی تلاش میں ہے. وہ سامنے ہے اور وہ اسکے ہیچھے بھاگ رہی ہے. اسکی تلاش میں زندگی کے ماہ سال بیت گئے اور پھر اسکو پتا چلتا ہے وہ اندھا ہے 

ایسا اندھا جس کی آنکھوں پے پٹی بندھی ہوئی ہے...!  وہ پٹی آنکھوں کے آگے بندھی ہے. آنکھیں تو ہیں نا. اگر آنکھیں نہ ہوتی تو صم بکم عمی کا فرمان لاگو ہوجاتا ہے 

آو کہ رخ پھیریں اسکی طرف اور ادا کریں سب نمازیں اک نماز میں!  سب دل یکجا ہوجائیں تو دل اک ہوجائے اور اک دل نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے اور رب کا آئنہ اک ہے. وہ آئنہ جس کے مصفی و مجلی ہونے کی بات خود وہ ذات فرماتی ہے. جس کے اخلاق کی قسم اس نے خود کھائی. وہ عفو کا پیکر اتنا رویا ہمارے لیے کہ اسکو لقب "حریص " کا دے دیا ...



ہاشمی ‏چراغ

دل کے ٹکرے شُروع ہوگئے اور ہاشمی چراغوں سے اُجالا کرنے لگا یہ قَلم ... حَلم سے رکھ لفظ اے قلم! ہاشمی چراغوں سے دل روشن ہونے جارَہا ہے! استاد کہتے ہیں اسے جو ہدایت کا چراغ پہلے روشن کردے! دل میں اسم الہی کی تکرار ہے اور دفینے کی تہہ میں ھو لکھا ہے ......

سینے میں اَحد کا میدان ہے اور حمزہ پِیا کی قبر ہے! بوطالبی چراغ، ہاشمی روشنی .... رضاعی بھائی، حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ... غنیم کی سرحدوں میں گھرے، دلیری سے لڑتے رہنے والے میرے محبوب صحابی نے جان کی قربانی سے دریغ نَہ کیا .... ناک، کان، ہاتھ، ہاتھ، غرض عضو عضو قربان ہُوا! دل والے حاضرین ...یہ وہ قربانی ہے جو اک ہاشمی چراغ کا خاصہ ہے!

دل کی سرزمین پر جبل احد پر حمزہ پیا شَہید ہوئے ... دل کو دُکھ ہے؟ دل کو غم ہے؟ دل نازاں ہے ایسی قربانی پر ... سرخ تیروں سے زخم کھانے والے، دل میں احد احد کہنے والے اللہ کے وجود کا اثبات ہیں ... اللہ قران پاک میں فرماتا ہے...

ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن تشعرون

وجود اثبات حق کا دلیل ہے،
حمزہ شہید ہو کے بھی شاہد ہے
دل نَذر کیا گیا تھا راہ خدا میں
بعد میں جان کا نذرانہ دیا گیا
نعرہ تکبیر اللہ اکبر کہا گیا تھا
اکبریت کو شَہادت سے بتایا گیا
چشم نم عالیجناب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہوئی تھی
ہاشمی چراغ فنا بعد بقا ہوا ہے

بوطالبی دہن، داؤدی لحن لیے شاہِ نجاش کے سامنے کون تھے؟ جعفر طیار بن ابوطالب برادر علی شبیہِ صاحب جمال سید البشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم ...ہاشمی چراغ روشنی کرے، دل میں خشیت نہ اترے؟ ورتل القران سے وجلت قلوبھم کا سفر نَہ ہو؟ کیا ممکن ہے! شاہ نجاش نے عیسوی قندیل کا قصہ سُنا اور دل تیقین سے اسکا حق حق کرنے لگا! دربار میں ھو کی خاموشی چھا گئی ....
حق ھو! حق ھو! حق ھو! حق ھو!

گفتار میں اللہ کی شان جعفر
کردار میں اللہ کا ایقان جعفر
زیست کا قصہ ء صداقت ہے
شہادتِ جعفر حق کی امامت ہے

موتہ کا میدان اور عَلم جعفر رضی تعالی عنہ کے ہاتھ میں ... تیر سے تیغ سے لہو لہو بدن ...سرخی دیکھ گگن کی! ارض پر گرتا رہا لہو اور نازاں ہوئی زمین! شاہِ ہاشم ہیں جعفر طیار! پرواز میں شہباز ہیں جعفر طیار! آنکھ سے نہ پائیے لفظ میرے، دل میں اتر جائیے! دیکھیے گھڑ سوار لہولہو گھوڑے سے لگا عَلم کو سنبھالے! واہ کیا ذیشان ہے! جس کی شان رشک ملائک ہے! جس کو پَر دیے گئے پرواز کو! حق کو بھی تو پیار ہے نا جعفر سے! اس لیے تو بُلالیا سکینت کی نیند میں .... میرے دل میں اردن کی سرزمین روشن ہے اور جنگ و جدل نے حرف و صنعت میں جہاد نہیں سیکھا!
اللہ نے فرمایا اس لیے شہید کو مردہ نَہ کہو! شہید زندہ ہے! جس کی زیست حق کا اثبات ہو! وہی احسن التقویم کی بنیاد ہے

حق کی زَمین میں مقدس ترین مقام ہے کعبہ! علی رضی تعالی عنہ کی ولادت کی جا ہے! مولود کعبہ نے شان سے آنکھ کھولی! حرمت کی مثال فاطمہ بنت اسد تھیں ان کی ماں، جن کی تربیت میں ذیشان مثل خورشید ایمان لانے والوں میں سبقت کرگئے! گویا اللہ کے پیغام پر لبیک کہہ دیا بنا کسی تردد کے!

نے رد کفر، نے جنگ و جدال سے،
کلمہ ء حق پڑھا حق کی مثال سے
آیتِ تمجید لوحِ دل پر اتری ہے
علی بُراق ہاشمی، الواجد کا وجد
الماجد کی تمجید، آیتِ تطہیر
ولایت کی زمین، امامت کے تاج
نور کے آفتاب، تجلیات کا مرقع
ناطق قران ہیں اسم الہی ہیں
العلی کی مثال، قدسی تخت ہیں
جبروتی کرسی، ھاھوت پر فائز
صبر کا اخبار ہیں، لوح قرانی ہیں
مقطعات کا علم، گنجینہ الاسرار

امام علی ایمان لائے! وصال آیت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وقت .... امام علی ساکت! ہر شے میں سکتہ ء درد، دل کی کرسی ہجرت میں لرزے لرزے گرتے گرتے بچی ہے! علی رضی تعالی عنہ کو جب یقین آیا تھا تو وفا کی لاج نبھاتے آیت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تدفین کی ...کیا سعادت پائی! حق والے ہیں! اس پاک مقدس آیت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لحد میں اتارے صامت ہوگئے! عالم ھو میں سب ہوا ...آنکھ اشکبار تھی، دل میں اللہ اللہ کی صدا تھی ..وہاں پر شجر بمثال مرا دل بھی رویا تھا! میں نے جب دیکھا یہ منظر تو لرز اُٹھا دِل ....!

جانتے تھے شہادت ان کی راہ دیکھتی ہے! مرغ جس دن بانگ دینے سے گھبرا گئے! سحر نمودِ صبح سے گھبرائے! سپاہی گھبرائے گھبرائے سب! فضا پر ملول تھی! اشک بندیاں میری دیکھو دل والو ...اک مرغ بسمل کی مانند تڑپ رہی تھی میں، امام علی مسجد میں تھے اور میرا دل لرزاں! جب تلوار چلائی گئی! مسجد خون سے نہلا دی گئی! امام علی نے کہا میں کامیاب ہوگیا ... حی علی الفلاح کی آذان پر شہید

ہاشمی چراغ گیا نہیں، میرے سینے میں فانوسِ نور میں لُو کا نام ہے یہ ..... یہ چل رَہی ہے رِوایت، اشک بہ اشک، دل بہ دل، لعل بہ لعل ...

.اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ .....

روحِ حسینی استقلال آہنی
روح حسینی لوحِ قرانی
روحِ حُسینی باعمل کہانی
الا اللہ سے نسبت چلانی
روح حسینی، زنجیرِ الہی
روحِ حُسینی، پیہم جاودانی
روح حُسینی، جہاد ایمانی
روح حسینی، قربانی پرانی
روح حسینی، یقین کا اثبات
روح حسینی، کوثر کی بات
روحِ حسیی، تار حریر ریشم
روح حسینی، سیف اللہ
روح حسینی رخِ وجہ اللہ
روحِ حُسینی الحی القیوم
روحِ حسینی کربل کی نشانی

خاک کربل نازاں بہ ایں ہاشمی و بو طالبی چراغ! مقتلِ کربل میں کچھ مردان مثلِ علی، کچھ مردان مثل جعفر، کچھ مردان مثلِ حُر تھے! حُر والوں نے جان دے دی، بَہا دیا خون! زمین سرخ کردی! مردان مثل جعفر نے عَلم کی حفاظت میں جان دیدی کہ اسلام زندہ رہا ان کی قربانی سے! مردان مثل علی نے اَبدی چَراغ روشن کیے اسلام کی حرمت خلافت سے مملوکیت میں بدل نہیں سکتی! زمین پر انسان نائب ہے، اللہ حاکم ہے! یہی تو لڑائی تھی ساری کہ حاکمیت اللہ کی اور انسان اسکا نائب! حسینی قربانی یاد رکھنے والو! فخر سے سر بلند کرلو! خلافت آج بھی جارہی ہے جبکہ بادشاہت مٹ چکی ہے! جس جس کو خلیفہ الارض کا ناز حاصل ہے! مل کے اک نعرہ لگاؤ
حسین زندہ باد!
خلافت زندہ باد!
اللہ مالک و مقتدر!
اللہ العلی! اللہ الوالی
اللہ حق! اللہ والے حق

حُسین ‏نام ‏سے ‏جہان ‏حسین ‏ہے ‏

حسین ابن علی کو سلام، عقیدت کے پھول 
حسین نام سے جہاں حسین ہے 
زمین کیا یہ آسماں حسین یے 
حسینی لعل سا نہیں کوئی یہاں 
حسین ایک ہے، حسینی ہزار ہیں 
حسین شاہ، حسین پادشاہ گر 
حسین کی مہک پھیلی نگر نگر 
حسین سے چلے زمانہ زمن زمن 
جو  پھیلا نور ان سے چمن چمن 
حسین کا سینہ آیتوں کا نگینہ 
حسین سے ملا ہے کشتی کو سفینہ



پاکستان ‏نور ‏ہے

پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں!(سرکار واصف علی واصف) 

یہ جملہ نہیں میرا مگر یہ میرا جملہ بن گیا ہے. کوئی چھ سال قبل یا اس سے بھی زیادہ میرا نظریہ پاکستان  بدل گیا تھا. زیادہ کتابیں پڑھنے سے مجھے لگنے لگا تھا قائد اعظم تو بس اک pawn تھے تاکہ  برطانوی سامراج کے لیے اسکو gateway بنایا جاسکے. ..،  دو قومی نظریہ اور بنگال کا معرض وجود ... یہ دو چیزیں اتنی متضاد تھیں اس پےستزاد بلوچستان تحریک،  سندھ کا royalties کا مطالبہ اور سرائکستان کی تحریکوں نے اس نظریے کو مزید تقویت دی اور میں سمجھنے لگ گئی جیسا کہ کچھ دانشور کہا کرتے تھے وہ اک غدار ہیں اور مجھے مولانا آزاد حسین اس وجہ سے اچھے لگنے لگے کہ انہوں پان اسلام ازم کا نظریہ پیش کیا .... غرض کہ پاک افواج کی ہار، ہر جنگ میں جب ان جنگوں کا جرنلز سے مطالعہ کیا تو احساس ہوا کہ کتابوں میں جھوٹ لکھوایا گیا...  پھر اقبال محترم کا خط، خطبہ الہ باد جس میں نظریہ پاکستان دے کے ۱۹۳۶میں اک خط میں اس کی تردید کردی ... وہ خط پڑھ کے احساس ہوا بہت تضاد ہے بہت کچھ چھپایا گیا ہے ہم سے! 

پھر میں نے یہ جملہ سنا "پاکستان نور ہے، نور کو زوال نہیں " یہ جملہ دل میں سرائیت کرگیا کہ پاکستان جس کو روحانی بنیاد پے حاصل کیا گیا، وہ قوت جو ناممکن کو ممکن کرگئی وہ قوت روحانی ہوسکتی ہے. یہ عطا ہوتی ہے. یہ نہ ہوتی . جو فیکٹس اور فگرز میں نے پڑھے وہ بظاہر معلوم ہوتے تھے کہ یہ سب جھوٹ ہے ...ہم نے وہ تقسیم و ہجرت جھیلی کہاں تھی .. ہم جھیلتے تو مانتے!  آج ہندوستان میں جو مظالم ہورہے ہیں تو مزید احساس قوی ہوگیا کہ پاکستان اسلامی اجتہاد  کے نتیجے میں وجود آیا ..nation -state کا تصور وہی ہے جس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت کی اور اسلامی حکومت قائم کی. اس کے بعد ہی احکام شریعت کا نزول شروع ہوا. یہ بھی حقیقت ہے جہاں مسلمان وہیں ریاست ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی نظام کو چلانے کے لیے ریاست کا تصور اہم یے!  

آج بھی اک غیر مرئی قوت اسلامی نظام دلوں میں نافذ کیے جارہی ہے. اسلام اتنا خشک مذہب نہیں کہ یہ جسٹ اصول پے چلے. نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اخلاق حسنہ کی وہ مثال قائم کی کہ ان کے عشاق بھی مثل نور ہوگئے. اس لیے غلام، غلام رہنے پے مصر رہے! جن کو ایسا تاجدار مل جائے ان کو آزادی سے کیا لگاؤ ہوگا ... ہمارے دل جب تک طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نہیں چل سکتے تب تک ہم شریعت کو نافذ نہیں کرسکتے!  دل میں محبت کا پودا جو نبی کی محبت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے ہو، نہ ہو تو شرع محض اک چیز رہ جاتی ہے اور تب تفرقہ پیدا ہوتا ہے. ہم جتنے اسوہ ء حسنہ سے نبی کی محبت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دور ہوئے، ہمارے طریقے یعنی نیتِ دل میں نفاق پیدا ہوتے ابتری میں لیے گئے ..

چار یاروں میں کیسا فرق ..ہم عام انسان و مسلمان اتنے چھوٹے ہیں کسی بھی صحابی پے بات کرسکیں یا نام لے سکیں کجا کہ ہم الزام دیں جو تاریخ لکھیں. ہمیں اتنا علم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں کوئ بھی کسی سے جدا نہ تھا،  کسی صحابی کی رائے اتنی اچھی ہوتی کہ قرانی احکام سے اسکو اثبات مل جاتا تو کسی کو فاتح خیبر بنا دیا جاتا کسی کو ذو النورین بنا دیا جاتا ہے کہ کسی کی حیا سے فرشتے شرمائیں کسی کی محبت کی انتہا اتنی کہ اپنا سب مال و اسباب قربان کردیا ... یہ جلیل القدر ہستیاں ہماری ہیں اور ہم ان کے ہیں ..

جنوں ‏بڑھتا ‏دل ‏گر ‏طور ‏ہو ‏تو

اظہار لفظوں میں  ، یہ لفظ جو انبار ہیں ، یہ چلتے ہیں ساتھ ساتھ ، جب تڑپ سے جگر چاک کر دیا جائے تو دیکھا نہیں جاتا کہ قربان کیا ہوا ، خون کتنا بہا! دیکھا جاتا ہے کہ خون خون لیر لیر  کیساتھ کون اس اہلیت پر ہے کہ فنا ہوجائے اور کرچیوں سے مَزید زخمی ہو ! جب ایسا ہوجائے تو رقص نصیب ہوجاتا ہے ! جلوہ کدھر نہیں ہوتا؟ صبا ملتی ہے تو یار کی خوشبو ملتی ہے ، شجر کی نیاز سے محفلِ نوری کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ، تن زخمی  ، دل جلے کو چار سُو محبوب دکھتا ہے ، پاگل من کہتا ہے 

ادھر تو ، اُدھر تو ، کدھر نہیں تو 
جدھر میں ، ادھر تو ، کدھر نہیں میں

جلن کیسے عطا ہوئی تھی؟  شمع کی مثل ہے جب پروانہ شمع کے طواف شُروع کرتا ہے ۔۔۔ تو طواف بھی کھو ہوجاتا ہے ، گیان بھی کھو جاتا ہے ، یاد کی محو بھی محو ہوجاتی ہے ، بے خبری کی خبر نہیں ہوتی ، دیوانہ کہتا ہے 

نیاز مند ہوں ضروی  ہے طواف 
عشاق کو نہیں ہے آئے حجاب 

دم دم کی صدا ہے ، فلک نے کہا کہ دوا کیسی مانگی تم نے ؟ مریض کا مرض دوا سے بڑھتا ہے ! درد بے زبان تھا ،بول اُٹھا 

غمِ دل سے نہ گھبرا نورؔ تو 
جنون بڑھتا دل ہو گر طور تو

چھارہی دیوانگی ، کیسی دوری ہے ، فاصلے کیسے ؟ ہائے ! دوریاں کیسی ملیں ، روح نماز میں مدہوش ہے ، ہوش کیسے آئے؟  یہ دل تو نہیں ہے جس میں محفل سَجی ہے ، چراغاں ہے چار سُو ، خوشبو پھیل رہی ہے ! خوشبو کی باتیں ، دیوانے کرتے ہیں ! دیوانی کی باتیں دیوانے جانیں گے ۔ یہ بات سَمجھ سے باہر ہے کہ روح کا قبلہ متعین ہوگیا ! میرے نبی پاک ﷺ کے لیے دل پاک ہے ! دل میں چراغاں ہیں ! میرے گھر آئیں گے تو خوشبو سے مہک اٹھے گی روح ، قلب سبز ہوجائے گا !  نہ پہچان رہے کوئی کہ پکار اٹھے زمانہ ، دیوانی ہے یہ آپ کی ﷺ ، آپ کی محبت میں خود کو بھُول بیٹھی ہوں ، آپ ﷺ کی یاد میں بیخودی کو پیچھے چھوڑ آئی ہے ، بڑی بیقراری ہے یارسول اللہ ﷺ ، کچھ دوا کیجیے ! اے میرے خواجہ ، اے میرے پیارے آقا ، یہ دل ، یہ قلب اپنے دست شفقت سے قرار میں کر دیں ، بہت بیقرار ہوں ، نہ سمجھ آئے میں کہاں جاؤں گی ،میں کس سمت جاؤں گی ،میں تو آپ کی محبت میں آپ کی طرح بن جاؤں

والسماء ‏والطارق

والسماء والطارق 

دو لفظ، وسعت ہزار 
جیسے کہکشاں میں راز ہزار 
بجتے ہیں دل کے تار 
عشق ہوتا ہے بار بار 
محویت کے جام لکھ بار 
ستم کے تیر سولہ ہزار 
آشنائی نہیں لفظ سے کہ متکلم کون؟  مستند راوی نہیں؟ کوئی ہادی نہیں؟
قسم کس کی؟
چمکتا ستارا کون؟
محمد ..صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

اللہ کریم نے کیسے کیسے نعت بیان کی کہ بندہ لفظوں کے سحر میں کھوجائے مگر یہ لفظ جادوگری تو ہے نہیں. تحریر دل میں پلتے نکلنے کو بیتاب تھی اور قرطاس مجھے لکھ رہا ہے، قلم چل رہا ہے 

وہ قلم جس کی قسم کھائی گئی "ن " 
پھر اس قلم کو متحرک کیا گیا جبرئیل امین آئے 
اور وہ امّی نہیں تھے کبھی مگر اب کائنات کی وسعتیں سماگئیں 
جب سینہ سینہ سے ملا، صدر سے صدر 
الم نشرح لک صدرک ... تو کمر ٹوٹ گئی 

پھر جب کمر ٹوٹی تو خشیت کی چادر اوڑھے، جسم پہ لرزا طاری،  روح میں اسرار وحی ... نبوت کا آغاز، نشانی سے نشان ہونے کی بات ہے 

پہاڑ تو ریزہ ریزہ ہوگیا جب موسی علیہ سلام سامنے دیکھ کے بیہوش ہوئے 
یہاں تو دل میں عالم سماگئے تو خشیت سے لرزا طاری نہ ہو 
پکارا گیا یا ایھا المزمل 
اے تاریکی سے، اندھیرے سے، قرطاس و قلم کے یکجا ہونے میں،  دو سے اک یعنی وحدت کے سفر میں جو سہا گیا، جو سنا گیا تو پکارا گیا "المزمل،  
محبت کا لقب محبوب نے دیا 
محبت کا لقب تب دیا جب دو نقطے متصل ہوئے، گویا انوارات کا آغاز ہوا، گویا علم ملنا شروع ہوا، گویا نور مکنا شروع ہوا، گویا وحی کے سلاسل میں ربط لامتناہی کا طریق جس کے لیے مقام "ورفعنا لک ذکرک " وضع کیا گیا 

یہ ہمارے محبوب جن کو لفظ اقراء نے دنیا جہان کا نور دے دیا 
یہ ہمارے محبوب جب نور سے نور ملتا رہا اور شجر زیتون کے بابرکت تیل سے سیراب ہوتا رہا،  وہ شجر جس کو تجلی نہ بھی ملے تو شفاف اتنا کہ خود ہی آگ پکڑ لے، جب شعلہ دیا جائے تو حال کیا ہوگا 

نور وحی کا منطقع ہونا 
نور وحی کا رابطہ.
گویا جلال کا سا حال، اک ہو کا عالم اور ویرانہ ء ھو میں ذات باری تعالی ..  
پکارا گیا یا ایھا المدثر 
جیسا کہ سرخ پوش کملی لیے کھڑے محبوب کبریاء، یاقوتی لبوں پہ مسکراہٹ کی تمکنت و جمال
المزمل المدثر ..صبح صادق و کاذب کے حالات ... یہ جیسے رات تہجد سے نمود صبح کا نظارا 
لفظ اقرا سے المزمل المدثر کا سفر اور یہ نور جب مکمل ہوگیا گویا شمس کی مانند طلوع ہوا 
تو فرمایا گیا 
والسماء والطارق 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ چمکتے ستارے ہیں جنہوں نے نور کی یہ منازل طے کی ہیں 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ رشد و ہدایت پے فائز ہیں 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ "النجم ثاقب " سے ایسے لاتعداد ستارے نکلیں گے اور فرمایا گیا 

انا اعطینک الکوثر 

تشکر عظیم کے لیے کہا گیا قربانی و نماز کا ..نماز تو محویت کا حال ہے 
محویت عشق کمال کا عالم 
عشق ہو تو قربانی لازم 
تو دی ہے نا قربانی چار یاروں نے 
مگر قربانی کی منتہی امام حسین علیہ سلام سے 
وہ پاک بابرکت ذات جو ستارے پیدا کرکے،  ان کو منور کرتی رہی 
اس ذات پے لاکھوں سلام اورسلام درود پنجتن.پاک  پے،  اصحاب و ال نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
تری نسل پاک میں بچہ بچہ ہے نور کا

وجے دل والی تار، کلام وی ہووے لکھ بار، جیویں چن دی چانن ایویں محبوب دے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم دی روشنی، جتھے نور محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بس جاوے، اوتھے شمع ہدایت دی بال دتی جاندی اے. اوتھے تو "تو "میں "دا سیاپا ہوندا نئیں. بس ادب نال کھلو جاوو تے مل جاووے یار 

رب نے قسم کھائی والسماء والطارق 
جیویں آسماناں تے اووہی، جیہرا آپ آپ آسمان 
تے صبح سویر جیہڑا تاراچمکدا پئیا اے، اوہدا ناں محمد 
ساہڈا رب سانوں کہندا میں تعریف کرنا محمد دی، صلی اللہ علیہ والہ وسلم، میں ً درود بھیجنا ناں  ...

 ایہو تے درود اے کدھی یسین، کدی حـــــم، کدی طٰہ، کدی مزمل، کدی طســـــم، کدی حـــمعــــسق، تے کدی الــــــــــم، تے کدی المــــدثر 

ایڈا سوہنا درود کوئی پیج سکدا؟ پیج کے وکھاؤ، رب رب اے، اوہدی ذات وکھو وکھ اے ...


مطاف ‏کے ‏سامنے ‏کھڑا ‏انسان ‏

مطاف کے سامنے کھڑا انسان، ہاتھ اُٹھائے گڑگڑا رہا تھا ... 

اسی کا عکس تھا، مکان میں مگر اور خاک کے پنجرے میں.کیا بچا تھا ... وہ سجدہ ریز تھا مگر التجائے حرم کو سوچ محرمانہ تھی. زندگی نزع کے پأل پے چل رہی تھی اور ہر دم موت نے لذت سے سرشار کردیا تھا ..  

وہ پھر سجدے سے اتھا مگر وہ دیکھ رہا تھا اپنے عکس کو، مصطفوی نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہالے میں.  گویا طائر کو وہاں بلایا جاتا ہے ...

اس نے ٹہلنا شروع کردیا اور ٹہلتے ٹہلتے ہڈیاں جواب دینا شروع کردیں.   

وہ مقام کربل پہ بیٹھا تھا اور سلام پیش کرتا رہا 

حسین حق ہے اور حق "لا " کیسے ہو 
حسین باقی ہے اور باقی فنا کیسے ہو 
حسین  بادشاہ ہے اور بادشاہ حکومت کیوں نہ کرے 
حسین صبح کا وہ تارا ہے، خدا قسم کیوں نہ کھائے 

والسماء والطارق  ...النجم الثاقب 

وہ ٹہلتے ٹہلتے بیٹھ گیا، گویا نیند میں ہو مگر وہ سویا تو نہیں تھا وہ تو شاہ نجف کے پاس تھا ... 

یہ چمکتا ستارہ دن میں نمودار ہوتا ہے اور رات کی سیاہی سے ابھرتا ہے ... یہی تارے روشن ہوگئے 

وہ تو نہ رہا اور خودی نہ رہی، جبین سجدے میں فقط طلب یار میں محو رہی. یہ فنا تو نہ تھی تو بقا کا سوال کیسے آتا ... چمکتا تارا طلوع کیسے ہو جبکہ اندھیرے کو روشنی چاہیے.

تخلیق ‏ہو ‏رہی ‏ہے

تخلیق ہو رَہی ہے ...
کیسے؟  
کون کر رہا ہے؟
کس کی ہو رہی ہے؟  
وہ جو مالک ہے کُن صاحبِ اسرار ہے،  
دیکھ رَہا یے،
سُن رَہا ہے،
سَمجھ رہا ہے،
یا ھو!  تمہید باندھی ہم نے 
ہائے ھو میں پکارا تمھی کو 
لا بھی ھو بھی،  انوکھا راز ہے 
سمجھ رہی ہوں کہ میں نے کس دن سے،  کب سے،  تمھارا نام دل کی دیوار پہ لکھا تھا 
دل کی دیوار پر سنہرا تھا رنگ تمھارا 
لگتا تھا کہ لال شفق پر کوئی بیٹھا ہے مانند شمس 
تو شمس کو دیکھا، کھوگیا قمر 
تو کھونے سے زمین میں لاگی گردش 
نہ ہستی رہی،  نیستی میں اسکی ہستی 
مستی رہی،  پستی میں وہی ہے 
کیف نہیں یے، کیفیتات ہیں 
دل ہائے اسرار کا مرقع ہے 
دل کے قران پاک پہ سطر سطر میں اللہ اللہ لکھا ہے 
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 
جگہ ترے لیے ہے 
دل فقط ترے لیے ہے
اور اسکی کرسی کو دل میں قرار ہے 
وسعت جس کی سماوات تک ہے 
دل عرش سے صبح فرش تک بس اک صدا

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ

ہستی شہود را سے مستی ہنوز را تلک فقط مالک کی صدائے ھو سنی ہے

سن لیا ہم نے نار میں کیا ہے، ھو کی صدا ہے 
سن لیا ہم نے فلک زمین کو بلاتا ہے،  ھو 
سن لیا ہم نے چاند و زمین کا نغمہ، ھو 
سن لی چرچرانے کی صدا میں،  پتے پتے کی ھو 
سن لی عشق ازل سے ابد کی صدا ھو 
نیستی میں نہیں کچھ بس وہ ہے 
ہستی میں وہ ہے، نہیں کچھ اور 
دل از لامکان تلک رفتار میں ہے 
خلائق جانب خلق گفتار میں ہے 
حالت سے حال کوئے یار میں ہے 
خانہ کعبہ دل کے اسرار میں ہے 
رنگ رنگ جو ہے،  وہ یار میں ہے 
زنگ اترے، کیا بات پیار میں ہے 
جا،  دے آ دل،  دل وار میں ہے 
لے، نکال نیام جو تلوار میں ہے 
رویت میں ہے،    گفتار میں ہے
مست، خراماں سے وقار میں ہے
جالی کے سامنے اظہار میں ہے 
اشک اشک، حال زار زار میں ہے
چلا وہ نغمہ جو ستار میں ہے 
رہ وضو میں، کیوں قرار میں ہے 
جنون ہے، جنون کوئے یار میں ہے 
پھیلی خوشبو، وہ جو ہار میں ہے 
دیکھی رنگ، جو چنر لعل میں ہے 
کیا ہے شوق نے راہ کو  معشوق 
عشق و معشوق ساتھ ساتھ ہیں 
یہ عشق دوئی مٹانا کا بہانا ہے 
یہ عشق ملنے کا اک سیاپا ہے 
ملن کے واسطے،  فسانہ ء جہاں 
ملن کے واسطے،  سجا یہ آستاں 
دل،  نمانا سمجھا نہ اسکے نشان 
محمدی نور میں عیاں ہے جہاں 
میم کے رنگ میں الف لازوال ہے 
الف میں الف کی مثالیں نہیں ہیں 
میم سے نکلیں ہیں سو ذاتیں
میم سے پھیلی ہیں کائناتیں 
میم نے کی سج دھج رگ جان میں 
میم سے پہچانا اللہ کا بیان 
میم سے جانا اللہ کا  ہےقران 
میم تو خود چلتا پھرتا قران  
میم کے واسطے یہ ہے جہان 
میم سے ملی شمس کو بینائی 
میم سے ملی قمر کو رعنائی 
میم سے ملی بحر کو روانی
میم سے ملی موجوں کو طغیانی 
میم سے ملی عشق کی کہانی 
میم سے ملی حسین کی قربانی 
میم سے ملی فاطمہ کی نشانی 
میم سے ملی اللہ کی مستانی 
میم سے کار جہاں دراز ہے میاں 
خودی کو سرفراز کیا ہے میاں

کینوس ***

وہ'' اپنے کمرے کے اطراف کا جائزہ لے رہی تھی ۔کمرہ رنگوں کی خوشبو سے مہک ہوا تھا۔ کبھی ایک پینٹنگ کو تنقیدی نظر سے دیکھتی اور کبھی دوسری کو دیکھتی اور یونہی ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے ''میں'' سے مخاطب ہوئی

''میں'' تم نے یہ پینٹنگ دیکھی ہے ؟ اس میں سارا رنگ اسکیچ سے باہر نکلا ہوا ہے ۔۔۔ پتا نہیں کب رنگ بھرنا سیکھو گی ؟''

میں نے ''وہ'' کو دیکھا، جس کا انداز مجھے بہت کچھ جتا رہا تھا۔۔۔ میں نے ''وہ'' سے کہا:

'' جب میں نے رنگ بھرنا شروع کیا تھا۔۔۔ مجھے ایک بنا بنایا سکیچ دیا جاتا تھا۔مجھے اس میں رنگ بھرنا آسان لگتا تھا۔اب میں کبھی اسکیچ کو دیکھتی ہوں تو کبھی رنگ کو ۔۔۔۔۔ اس کشمکش میں رنگ باہر نکل آتا ہے''

''وہ '' نے ان پینٹنگس سے توجہ ہٹائی اور مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔ارے یہ کیا ''میں'' تمہارے چہرے پر قوسِ قزح پھیل کر کپڑوں تک کو خراب کر رہی ہے ۔'' یہ کہ کر ''وہ '' ہنس پڑی

''میں'' نے اسے جواب دیا کہ شروع میں سب ہی مصور رنگ بھرے کپڑوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں ، ہنستے ہیں ۔۔۔ تمہیں کیا پتا یہی رنگ تو سرمایہ ہے ۔۔۔ یہ دیکھو سبز رنگ ! میرا چہرہ کس قدر حسین لگ رہا ہے ۔۔۔ یہ نیلا ،پیلا رنگ میرے کپڑوں پر لگا ہے۔ انہی رنگوں کی خوشبو سے تو مجھے مزہ آتا ہے ''

وہ کئی لمحات تک مجھے دیکھ کر مسکراتی رہی اور کہا: اس لیے تم نے ادھورے اسکیچ مکمل نہیں کیے ۔۔۔ جب یہ مکمل کرلوگی تو تم پر رنگ بھی جچیں گے ورنہ سب رنگ تمہاری ذات سے نکل کر بھی مصنوعی تاثر دیں گے ''

''میں '' دل ہی دل میں ''وہ '' سے قائل تو ہوگئی مگر ہتھیار پھینکنے پر دل آمادہ نہ ہوا اور بولی:

'' یہ دیکھو ۔۔۔ادھر آؤ۔۔۔ یہ پینٹنگز دیکھو ۔۔۔۔جن کے اوپر سفید چادریں ہیں ۔۔۔ان کو میں نے ان سے کور کیا ہے تاکہ کوئی ان مکمل اسکیچ دیکھ نہ سکے ۔۔۔بس سب سفید ہی نظر آئے ۔۔۔۔''

''وہ '' نے جب وہ خالی اسکیچ دیکھے تو داد دیے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔اور پھر چونک کر کہا ۔۔۔تم نے اتنے سارے اسکیچ ادھورے چھوڑ کر صرف ایک ہی پینٹنگ میں سرخ ، پیلا اور پھر نیلا رنگ بے ہنگم طریقے سے بھرا ہوا ۔۔۔اچھی بھلے خاکے کا ستیا ناس کر دیا ہے ۔۔۔شاید اس لیے اس کو بھی غلاف سے ڈھکا ہوا۔۔۔''

''میں '' وہ کی چالاکی پر حیران ہونے سے زیادہ پریشان ہورہی تھی ۔۔۔مجھے معلوم نہ ہوسکا وہ اس قدر گھاگ نکلے گی ۔ابھی سوچوں میں گم ہی تھی ۔وہ پھر سے مخاطب ہوئی :

''تم ایک کام کرو، اپنے سارے رنگ خود سے اتار پھینکو ۔۔۔ !! بلکہ ایسا کرو اس رنگین لباس کو سبز، نیلا ،پیلے ، جامنی، سرخ ، اورنج اور نارنجی سے ملا کر سفید کردو ۔۔۔ تاکہ تمہارے رنگ بھی ان غلافوں کے رنگوں سے مل جائے''

وحی

غارِ حِِرا، جبل النور میں واقع ہے. کہساروں سے بھرپور وادی میں وحدت کا نظّارہ کرنا مشکل نہ تھا! اللہ کی دید کی ابتدا سے پہلے علم یعنی نور کی جانب رجوع ضروری ہے. آنکھ متصور اس وقت کے گھڑیال پر ہے، جب چودہ صدیاں قبل اک نفس سجدہ ریز رہا اکثر، یہ قیام حرا کے غار میں اور سجدے آیت دل منور کیے دیتے، لڑیاں آبشار کی مانند آنسوؤں کی بہتی ..وہ پاک صفت نفس، لاجواب تڑپ لیے ..خدا کو دیکھنا کمال دیکھنا  مگر اسکو دیکھنے کی کمال تَڑپ نَہیں ہے    .... وہ الوہی صفات کا جامے پہنے  نفس سفید لباس میں موجود خُدا کی دید کی خاطر سب سے الگ تھلگ ہوگیا ..... 

غار میں مقیّد، سپیدی نے رات کا پردہ چاک نَہیں کیا تھا مگر غار بقعہ نور بنا ہُوا تھا ، نور محل بننے جارہا تھا... فلک پر نوریوں نے یک سکت دیکھا تھا  پھر خالق کو سجدے میں واپس پلٹ گئے، اسی اثناء میں جبرئیل امین غار حرا میں وحی لے کے آئے!  نور سے دل بھرنے جارہا تھا ....

اقراء کا جب آیا تھا  فرماں 
بولے امّی پہ ہوتا نہیں عیاں

جبرئیل امین آگے کو لپکے، سفید روشنیوں نے غار کو ایمن بنا رکھا تھا .... آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اک حال میں فرماتے "امی پر ہوتا نَہیں عیاں " جبرئیل امین آگے بڑھے،  سینے کو سینے، قلب کو قلب سے، روح کو روح سے معطر کردیا .... اب جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اقراء پڑھا

اس کی گونج پتھر پتھر کو پہنچی .... بس پورا غارا جھک کے مسجود ہوگی. ...آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر لوٹے تو گھبرائے ہوئے تھے، خشیت سے آنکھ وضو میں ..... زملونی زملونی .... آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا....

میرے نفس کی ریا کاری دیکھیے، قران کا لفظ لفظ پڑھا مگر لفظ اقراء کے مکارم نہ کھلے .... پڑھتی کیسی؟ قران پاک کے لفظ عام تو نہیں ...دل کو پاک کرنا، نفس سے جان چھڑانا آسان تو نَہیں .... منافقت اس طرّہ پر کہ دل خیال کیے بیٹھا ہے اس کو قران پاک پڑھنا آتا ہے!  دل کی ریاکاری پر تف!  دل کو ملامت صد ہزار!  اس ملامت کے پیچھے ریاکاری چھپی ہے جسکو سمجھنے کے لیے دل میں جھانکنا چاہیے .... یہ اک کیفیت مکمل مل جائے تو دل تقدس میں ڈھل جائے!  وضو ہو جائے دل کا ...نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مکمل زمانہ متصور ہو جائے      ......  کیا چاہیے ...کبھی کبھی جب دل بہت بے چین ہوجاتا ہے تو اک منظر سامنے آجاتا ہے ....طائف کی سرزمین ....پتھر برسنا ...خون کا گرنا ...زمین کا لہو لہو ہونا ..وہ رویت بے مضطرب کن جب دعا کو ہاتھ اٹھنے ..شرم سے دل کا جھک جانا ..پتھر کھا کے دعا دینے والے، میں نفسی نفسی میں ڈھلی مورت.. ڈھل جائے گی میری  سیرت مکمل اشکوِ سے  نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مناظر دیکھتے دیکھتے

لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے قران کا نزول،  وحی وحی کا علم صدر و صدور سے کیسے پھیلتا ہے ....لازم ہے ہم کو ملے گا اشکوں کا تحفہ ...لازم ہے ہم حال سے مغلوب ہوتے سہیں  گے سب ستم، مسکرا کے کہیں گے مرحبا یا سنت!  مرحبا یا سنت!  مرحبا یا سنت!  

تلاوت ہم بھی کرین گے واتبتل ہوکے، تبتیل والی کیفیت پر ہم بھی رہیں گے ...اللہ پاک کا نور غائب کردے گا ہماری ذات اور وہ وہے گا ہر جگہ موجود ...حق موجود!  وہ موجود!

The Desert of Solitude ...***

The desert of solitude is demanding purification and ramification.The lingering cry , the sobbing pain , the inertia of love is like a swirl , whirling in the ocean of ecstasy

CRASH !

The wine of reunion will be poured into the broken glass. The tavern will be populated with the shades of beloved.

DANCE !

Swindles round body were whirled, being unbinded: ... The trickling pain blood from each inch of glass is knocking , Robb off the cloak ....

The Sky Lark

Lark is sitting on tree , waiting for nightingale ,
O ` sweet melodious voice
Sing for lark ,
make love an arch

Flight

Heaven witnessed the flight of bird

محبت ‏خاکی ‏نہیں ‏ہوتی

محبت خاکی نَہیں ہوتی!
نورِ وجود کو خلق کرنے سے پہلے،
درد کےٹکروں میں تقسیم ہونے سے پہلے
شبیہ، صورت حسن کے بننے سے پہلے،
آوازہ ء کُن نے درد و کرب کی لمبی آہ سُنائی.
جتنے آئنے خلق تھے، سب بکھر گئے،
ٹوٹنے سے پہلے، جس نے آواز کی جانب رخ کیا، پتھر کا ہوگیا
جس نے راہ لی، مقام حیرت میں جالیا
جو سن نہ سکا،  وہ سنتا ہی رہا، ڈھونڈتا ہی رہا
جسے کچھ نہ ملا، اسے خدا کیسے ملے؟
جسے خدا ملا، درد اسے کیوں نہ ملے
اے درد! بتا تو سہی! 
ترے کتنے چہرے ہیں! 
اور ہر چہرہ محبوب کا،
ہر چہرے میں عشق،  ہجر کا سوگ ہے
کیسے کہون محبت آسمانی جذبہ نہیں
یہ روگ ہے  یہ سوگ ہے! 
یہ کیسا روگ ہے،  زہر کی مانند اتر رہا ہے قطرہ قطرہ میں
جسم میں اک قطرہ آب نہ رہا
نہ ہو جلوہ ء یار جس میں
محبت کا کمال جانو
ہجر کا انوکھا سوال جانو
محبت آسمانی جذبہ ہے

درون

ربیع الاول کا ماہ مبارک شروع ہوا ہے  .... سب رنگ غم کے ماند پڑجاتے ہیں،  دل میں خوشی بہار کی مانند پھیل جاتی ہے ... درون میں جب سیرت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی پھیل جاتی ہے تو حیرت سے دل متعجب پوچھتا ہے کہ درون کیا ہے؟   درون باطن کو کہتے ہیں. ایسی دنیا جس کی بدولت خیالات متحرک ہوتے ہیں ...خیالات سوچ کے محور کے گرد گھومتے ہیں اور  احساس کو نمو دیتے ہیں ....احساس کی نمو سے  خیال کی تجسیم تلک، خیال کی تجسیم سے  حقیقت تلک .....  جب سوچ سے خیال، خیال سے تجسیم، تجسیم سے حقیقت مل جاتی ہے، تب مقامِ حیرت شروع ہوتا ہے .. ... کبھی کبھی یونہی گھٹنوں کے بل بیٹھے،  دیوار سے ٹیک لگائے خیال اکثر گنبد خضراء میں گھومتا ہے تو کبھی غارِ حرا کو ڈھونڈتا ہے .... گویا ایسے کہ غار حرا کی حقیقت پہلے بھی کھل چکی ہے یا کہ حرا کے مقام کی معرفت مل چکی ہو مگر اس کی حقیقت تلک رسائی میں خیال کی تجسیم دھندلا گئی ہے ... اس ماہ مبارک کی برکت تو یہی ہوتی ہے کہ دل کے آئنے پر غار حرا روشن ہونے لگتا ہے اور صدا یہی بازگشت بن جاتی ہے 

آؤ غارِ حرا چلیں ..،  چلو حرا کو چلیں .....

 درون میں دراصل اصل خوشی ہے اور اصل ذات تک رسائی اصل الاصل خوشی ہے.  بچہ ماں سے جُدا ہوتے ہے مگر احساس کی مادی دنیا میں آتے اسکو نہیں پتا ہوتا اسکی ماں کون ہے مگر بچے کے دل میں ماں کی خوشبو بسی ہوتی ہے .ماں کا لمس اسکی خوشی ہوتی ہے ... اسیطرح جو خالق ہے، اسکا رشتہ بھی شناسائی کا ہے ... پہچان کرنے کا کہ کس دنیا سے آیا تھا اور کس جہاں میں آباد ہے. روح کا اک حصہ اس جہاں آباد ہے، جسکو عالم ملکوت کہتے ہیں ... اس عالم سے روح کو روشنی ملتی رہتی ہے اور روشنی کا ملنا گویا ربط کا سلسلہ ہونا .... ربط کا یہی سلسلہ اصل سے ملنا ہے، یہی وصال ہے اور جس قدر ربط بڑھتا جاتا ہے اسی قدر کمال نصیب ہوجاتا ہے .....

 دل میں اسم حرا کی تکرار سے روشنی پھیل جائے تو ذکر کی تتلیاں،  درود کی پتیاں،  احساس کی اگر بتی سے سلگتا دھواں باطن میں عجب سا کیف طاری کردیتا ہے کہ گویا ذی وقار  کی ہی بات ہو ....  یہ احساس خوشی سے مسرور کردیتا ہے کہ احساس رگ و پے میں دوڑ رہا ہے اور ہر رگ فگار دل لیے ہے .... تار تار فگار دردِ ہجراں سے ہوا ہے اور ربط مل جائے تو درود واجب ہوجاتا ہے. اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ربط رکھنا ہو تو کثرت سے درود پڑھتا ضروری ہے .....

 خارج بھی درون کا عکس ہے. پتا سرسراتا ہے کیونکہ میں نے اسے دیکھا ...میں نے آواز سنی اور میری روح نے وہ روشنی دی جس سے میں نے سننا شروع کیا تو احساس ہوا کچھ صدائیں معبد وجود کے درون اور کچھ خارج سے ہوتی ہیں .... درون کی آواز شناسائی ہے ....میں نے سرخ پھول دیکھا گویا میرے باطن نے سرخ رنگ جذب کرلیا اور باقی روشنی کے رنگوں کو منعکس کردیا ...... میرا رنگ سرخ ہوگیا .... مجھے پانی نیلا نظر آرہا ہے کیونکہ میری  آنکھ نیلا رنگ جذب کر رہی ہے اور باقی رنگ منعکس .... میرا رنگ بھی انہی سے نسبتوں سے معتبر ہوگا کہ اللہ کا رنگ سب رنگوں پر حاوی ہے ..... 

درون میں کمال کا، جلال کا،  جمال کا،  خشیت کا،  جبروت کا اور اسی اقسام کے رنگ ہوتے ہیں ... المصور،  عبد المصور کا ربط انہی رنگوں کو یاد دہانی ہے .... یہی ذات کا جوہر ہے .... یہی کندن ہونے کا عمل ہے

انہماک

انہماک کا کوئی قاعدہ ہوتا ہے؟ انہماک گہرائی پیدا کرنے سے وجود میں آتا ہے. جب بچہ نَیا نَیا اسکول جاتا ہے تو اسکو حروفِ تہجی کی ابجد کا علم نَہیں ہوتا ہے . اک اچھا استاد حروف تہجی کے تصور کی گہرائی ذہن میں پیدا کرتا ہے. وہ "گانے " کی، tracing کی،  mimes اور حروف تہجی کی کردار نگاری کرتے گہرائی پیدا کرتا ہے. بچہ کے اندر جیسے گہرائی پیدا ہوجاتی ہے، اسکا انہماک پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں. اسکو ہم "دھیان "کی قوت بھی کہتے ہیں. جدید تعلیمی نظام میں پڑھانے کے انداز میں جدت جس قدر پیدا ہوئی ہے، اسی قدر ماضی میں دھیان کی قوت (cram)رٹے سے لگواتے پیدا کی جاتی ہے. رٹے سے انہماک تو پیدا ہوجاتا ہے مگر گہرائی پیدا نَہیں ہوتی اور انسانی سوچ سطح پر رہتی ہے. اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری بچے جب کسی فیلڈ میں جاب کرنے جاتے ہیں، وہ کچھ عمدہ کر نہیں پاتے. تعلیمی نظام کا اصل مقصد گہرائی اور انہماک پیدا کرنا ہے تاکہ سوچنے کی قوت سے بچہ تعلیمی مدارج طے کرسکے.

قران پاک کو بھی ہم گہرائی اور  انہماک کی قوت سے سمجھتے ہیں. اکثر میں ٹی وی پروگرامز میں دیکھتی ہوں کہ انہماک "اللہ ھو " کی ضرب لگوا کے پیدا کیا گیا ... اک مخصوص تعداد میں اوراد اذکار کرنے سے اللہ تک پہنچنے کی سعی کا نقطہ سمجھایا گیا ... میرے نزدیک یہ رٹا ہے، ایسا رٹا جو  ہمیں اللہ کے قریب تو لے جاتا ہے مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو صلب کرلیتا ہے.

اس بات کی وضاحت میں اسطرح سے کرسکتی ہوں. اللہ اک خیال واحد ہے اور اس خیال واحد سے ننانوے ذیلی خیالات نکلتے ہیں. ان ننانوے خیالات نے کائنات کی تنظیم و تعمیر، کاروبار کائنات کو چلائے رکھنے میں کردار ادا کیا ہوا ہے. اللہ نے جب سوچا کہ کائنات تخلیق کی جائے تو اس کے ارادے کی قوت نے خیال کی تجسیم کردی. یہ ارادے کی قوت ان ننانوے ناموں کی خصوصیات لیے ہوئے ہے. چنانچہ ہر تخلیق میں اس کے چند ناموں کی اک مخصوص صلاحیت جمع ہے. ہمیں خود وہ صلاحیتیں پہنچاننی ہیں تاکہ ہم اپنے منبع خیال سے اس تک پہنچ سکیں ..اللہ تک پہنچنے کے لیے، خود پہ غور و فکر کرنا لازم ہے. میں کس لیے پیدا کیا گیا؟ میرے اندر کونسی صلاحیتیں ہیں ...یہ صلاحیتیں ہماری گہرائی میں چھپی ہیں .. اس کے لیے ہم میں گہرائی کا پیدا ہونا ضروری ہے ...اللہ کا تصور یا تصوارت ہمیں درون میں ابھارنے ہیں تاکہ ان احساسات سے اللہ کو ھو الشاھد سے ھو الشہید تلک کے مراحل تک جان سکیں.

اللہ پاک نور ہے..سورہ النور میں اس نے یہی فرمایا ہے کہ 
اللہ نور السماوات والارض 
اللہ آسمانوں زمین کا نور ہے 

نور کیا ہے؟ نور مثبت سوچ ہے ..مثبت سوچ احساس تشکر سے ابھرتی ہیں، یہ اسکے امر میں راضی رہنے سے ابھرتی ہے، یہ قربانی،  ایثار،  رواداری جیسے جذبات سے پنپتی ہیں  ...اس نور کو ہم خود میں خود پیدا کرسکتے ہیں اگر اسکے دیے گئے غموں پر راضی ہوجائیں اور اسکی دی گئ نعمتوں کے بارے میں سوچنے میں زیادہ وقت صرف کردیں  .. 

دلوں میں نور کا پیدا ہونا اس بات پر شاہد ہوتا ہے کہ ہم نے اللہ کی سوچ /تخییل سے خود کو ملالیا ہے. یہ گہرائی کا پیدا ہوجانا خود انہماک پیدا کرتا ہے. قران پاک میں جگہ جگہ ہمیں غور و فکر کی ہدایت کی گئی ہے.    ہمیں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ ماسوا ایمانیات کو نکال کے غور و فکر چھوڑ دو. بلکہ یہ کہا گیا کہ ہر بات میں آیت ہے، ہر چیز اسکی نشانی ہے. ہمیں اسکی کائنات کی ہر شے سے اپنے ساتھ ربط پیدا کرنا ہے ... 

ربط پیدا  کس طرح کیا جاتا ہے؟ ہم کبھی درختوں کے پاس بیٹھ کے سکون محسوس کرنے لگتے ہیں تو کبھی ہمیں غاروں میں سکون ملنے لگتا ہے، غرض اس کی جتنی آیات ہیں ان سے سکون کا رشتہ تلاشنا ہے. انسانوں سے انسانوں کا ربط بھی اس سکون کے رشتے تلاشنے کی غرض سے ہونا چاہیے 

جب ہم مظاہر سے ہوتے،  اسکی آیات سے ربط پیدا کرتے قران پاک پڑھتے ہیں تو اسکے کلام سے ہمارے اعمال سیدھے ہونے لگتے ہیں،  احکامات کو عمل کرنے میں آسانی پیدا ہونے لگ جاتی ... ہمارا مقصد حیات یہی ربط ہے، یہی آسانی ء عمل ہے، یہی سوچ کا سوچ سے ربط ہے ..یہی قران پاک پڑھنے کا طرز ہے جو مومن کے درجے پر فائز کردیتا ہے

نور سعدیہ

Zafar Iqbal

آپ کے سوال کا جواب

آیات ‏کوثر ‏۶

انجیل مقدس میں لکھا ہے ہاروت ماروت جادو گر تھے،  یہی بات قران پاک میں موجود ہے،  مگر ان دونوں باتوں کے پہنچانے کے حوالے بہت مختلف ہیں .. صدیوں کے بعد اگر دیکھا جائے تو بس دائرے مختلف ہوگئے ہیں مگر بات وہی چلی.آ رہی ہے .... پیغام پہنچانے والے پیامبر مختلف ہوگئے جبکہ پیغام وہی اک ہے ....

جب سیدہ بی بی  زہرا(سلام ان پر، درود ان پر)  نے اس دنیا میں تشریف قدم کیا تو ان کا نور   بہت مقدس تھا، بہت مقدس ہے اور تا ابد مقدس رہے گا ...   آسمان سے انجیل مقدس کی سے قران پاک تک جتنی پاک روحیں سیدہ بی بی مریم کی پرتو،  عکس تھیں ...

ان سب نیک ارواح نے  سیدہ بی بی فاطمہ امِ ابیھا(سلام ان پر، درود ان پر) کے سینہ مبارک سے  اتصال کردیا تھا، یہ خالق کی حکمت کہ آیت کوثر بحوالہ سیدہ فاطمہ ازل سے ابد تک جاری و ساری ہیں.   چاہے وہ مصحف داؤدی تھا،  چاہے وہ مصحف ابراہیم کی آیات ہوِ  چاہے وہ یوحنا کی مقدس بابرکت روشنی ہو  یا وہ جوزف کی خوبصورتی تھی ...ان سب کو حُسن، نور، روشنی،  علم،  معرفت اس پاک مقدس نور سے ملی 

 قران پاک میں اس کا ذکر خیر کیا گیا ہے،  نفس مطمئنہ پر قرار پانے والی روح سیدہ پاک بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ ...  اس وقت  تمام رواح اس نوری ہالے میں جو  داخل ہوئیں تو  سب کو  سیدہ فاطمہ  الزہرا علیہ سلام کا سایہ مل.گیا

وہ جو عفو کی مثال ہیں، وہ فاطمہ کمال ہیں 
انہی سے ملا اوج نور کو مقام ھو تلک 

  حضرت موسی  علیہ سلام کا جلال اور  حضرت عیسی  علیہ سلام کا جمال ہو ...اسکی نمود ہوئیی حسنین کریمین مین  ان روشنیوں نے ان ہستیوں میں کمال پالیا

حسن و حسین علی کے چمن کے لالہ زار 
انہی سے نکلے موسی و عیسی جیسے بار بار 

جلال حضرت  حسین علیہ سلام کے لیے تھا جبکہ جمال  حضرت حسن علیہ سلام کے لیے لکھ دیا.گیا

وہ ‏تو ‏آتے ‏دن ‏کی ‏جھلک ‏ہے ‏

وہ تو آتے دن کی جھلک ہے 
یہ جو میرے دل میں چمک ہے 
وہ تو شہ کا ساتھ کمال ہے 
گزشتہ شب سے جو یہ حال ہے 
ان کی نسبت تو خود وحی ہے 
گویا ذات حق ان میں جلی ہے 
لبِ دل کو چوم کے نام لیا ہے 
اچھا اک میں نے یہ کام کیا ہے


علی ہستی، علی مستی، علی قبلہ
علی مندر، علی مسجد، علی کعبہ  
صحیفہ بھی،  وظیفہ بھی، طریقہ بھی  
وہ آیت.بھی، روایت بھی، شہادت بھی 
سخاوت بھی، شجاعت بھی، ولایت بھی 
علی.قاری، ، علی واجد، علی ساجد 
علی طاہر، ، علی صامت، علی واحد 
علی بیدم،  علی    سعدی ،  علی جامی

علی امانتوں کے امیں بنے تھے اسری کی شب 
علی رسول کے بنے خلیفہ تھے اسری کی شب



بہروپیا

اک بہروپیا گاؤں کے پاس رہتا تھا. اسکا کوئی مستقل گاؤں نہیں تھا ..وہ جنگل جنگل ہوتا اک  گاؤں سے دوسرے تک چلتا رہتا ... ہر گاؤں میں اس کا بہروپ مختلف ہوتا تھا.  پہلے پہل اس نے حکیم کا روپ دھارا اور حکمت کے بلحاظ سارا لٹریچر جنگل میں جڑی بوٹیاں دیکھتے سمجھتے گزارا کیا ... بہروپیے کی آنکھوں میں ہمیشہ سرمہ ہوتا تھا. اور لوگ جب اس کے گرد اکٹھے ہونے لگے سوالات بڑھنے لگے تو اس نے دوسرے گاؤں کا قصد کیا ... گاؤں والے جدید دنیا سے بہت پیچھے تھے. اس لیے یہاں اپر اس نے اک درویش کا روپ اختیار کیا ... اس کو اتنا کچھ ملنے لگا کہ بنا ہاتھ پار مارے کام.بننے لگا .... مگر وہ یہاں سے بھاگنے کے چکر بنا رہا تھا تو ولی صاحب کے نرعے میں پھنس گیا 

اک دن دوپہر کا وقت میں چائے کی چسکیاں لیتے اور کھانے سے ہاتھ صاف کرکے لمبا سا ڈکار مار کے وہ بیٹھا ہی تھا کہ ولی صاحب نے آکے اسے گھورنا شروع کردیا ..

بہروپیا چونکہ جانتا تھا کہ ولی صاحب کی آنکھوں میں خاص چمک ہے تو اس نے اس سے بچنے کے لیے نعرہ لگایا 

حق اللہ حق ھو 

ولی صاحب نے کہا وہی ستارہ شعری کا رب ہے ... تو مان جا اب 

بہروپیے کو جوش چڑھا اک زور دار نعرہ لگایا 

حق علی حق علی 

ولی صاحب نے اس کو بغور دیکھا اور ساتھ اک نعرہ لگادیا 

اللہ اکبر سچ جھوٹ کو نکل لیتا ہے 

ولی صاحب نے کہا یاد کر جب عصائے موسی نے ان سانپوں کو نگل کیا تھا 

بہروپیا بدل گیا. اسکا دل بدل گیا اور اس نے نعرہ لگایا 

حق!  وہ ستارہ شعری کا رب ہے 

ولی صاحب مسکرانے لگا اور کہا کہ اب اگلے گاؤں بہروپ بدل کے جانا.    

بہروپ بھر کے پھرتے ہیں دیوانے 
چلتے ہیں شانے ملانے

دوست ‏نے ‏چھیڑا ‏راگ ‏

دوست نے چھیڑا ہے راگ،  کردی ہم سے ساز باز، نم آنکھ سے کُھلا راز، ہم نہیں تھے، وہ تھا پاس پاس. رُلا ڈالا یار نے ہمیں جان لیا کہ راز میں راز رہا تھا.  شمع سے نروان لینے چلو، چلو نروان مہنگا ہوجانا!  اٹھو!  اٹھو!  اٹھو کہ مندر سونا نہیں ہے!  اٹھو کہ وہ ہم اسکا کھلونا نہیں!  وہ ہماری رگ رگ میں پکار رہا ہے کہ شام الوہی الوہی ہے

رات کا سونا پن کس نے دیکھا تھا رات چلی محبوب کے پاس، محبوب نے جان لے لی کہ جان تو باقی تھی. جب قطرہ قطرہ نیچے گرا تو کہا

اشھد ان لا الہ الا اللہ

حق کی شہادت تھی، وہی لگا ادھر ادھر ...حق نے آواز لگائ ..سن!  من نے کہا کہ  کس نے کہا، سن!  یہ زمین ہلتے ہلتے بولی کہ سن!  یہ جو مٹی ہے بکھر کہ کہہ رہی سن!  یہ جو کاسنی بیلیں ہیں، لہر لہر کہ لہکتے کہہ رہی ہیں سن!  سن!  سن !

ارے ہم کیا سنیں ریں!  بتا تو سہی!  کیا سنائی دیا نہٰیں کہ حق جلال میں ہے!  حق نے کہا تھا ساز الوہی یے! حق نے کہا تھا چشمہ الوہی ہے حق نے کہا تھا عشق کی لا ضروری ہے
تب سے ہم نے دیکھا کب تھا مڑا کے پیچھے!  جا کے بیٹھ گئے اس کے در پر!  درد در اقدس پہ بَہا نا کیونکہ حق تو ہی تھا درد،  درد نے ہم کو حق کی گواہی سے ملا دیا. خون کا قطرہ قطرہ شہادت سے شاہد ہوا ..حق میں صامت ہوا

یہ کیا کیا ہے!  یہ ہم کس نگر چل دیے ہیں!  یہ سازش کس ستار کی ہے!  یہ آگ آگ سی ہے جو ہم نے ہاتھ میں اٹھا رکھی یے!  یہ کشتی کیا ہے جو چل رہی اور اسکا سفینہ فلک تک چلا گیا گویا فلک خود زمین پہ آگیا ہے

عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت کا حال ہے 
عشق سرمہ ء وصال ہے 
عشق کے بازی کھیلو یم.سے

ہم.تو عشق کی لاگت میں مورے نین سے نیناں ملائے کھڑی رے!  عشق کی لاگی نے بجھائ نہ آگ،  جلا ڈالا جنگل سارا ..ہائے!  یہ ہوا حال کا حال! کمال چھاگیا ہے!  حال آگیا

ہم تو مجنون تو تھے نا رے!  ہم تو لیلی کی مانند حسن میں شامل تھے!  اب ہم کہ فنائے حال میں کمال کو ہے! جوگی کو دیکھے کون؟ جوگن دیکھو سارے!  لوگ لوگ گئے شہر شہر بھاگن!  دیکھن کہ سبز سبز مور سے کیا ہے لاگن!  ہائے لگن کی چنز نے مار ڈالا ...مار ڈالا

ہم تو مرگئے!  ہم تو فنا ہوئے رہے!  چاہے لگن میں سایہ افگن وہ بالِ میم سے آشنائی کس فلک کی جانب گامزن کردے. ہم کو چاہت کے الوہی راگوں میں مگن کرنے والے پیا!  آجا!  دل میں سما جا!  آجا ہم سے نین ملا نا!  نین کی بازی کھیل نا!  ہم تجھ کو تو ہم کو دیکھ  کے جی لیں نا!  آ ہم سے کھیل!  یہ ہماری شوخ نگاہ ہے کہیں کھیل میں آگ پھیل نہ جائے!  جل جائے رے تو!  ہمارا من ہے تو!  ہماری آس میں جانے کس کس نے دیے توڑ دیے اور ہم نے تجھ کو اپنا دیا بنا دجا

فنائیت کا سوال لے گیا، کوئ ہم سے شرارت کرتا ہے مولا! بتا اس شرارت کیا کریں؟  آگ لگا دے!  آگ لگا دے!  آگ لگا دے!  جا ہم نے تجھ کو آگ دی!  جا کچھ ہم رکھیں گے، کچھ تری!  آگ لگنے لگی ہے چنز جلنے لگی ہے!  اووووو خوشبو پھیل رہی ہے

مدھم مدھم سی خوشبو نے سرمیٰ حال کردیا یے!  کاشانہ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وحی سے کمال کی جانب اترنے والے الہام سے پوچھو کہ کس جانب جانا ہے اب تو طیبہ والے بھی منتظر ہے کہ سوار کو سواری مل چکی ہے!  یقین کی کونسی منزل ہے جس کے سب گمان حق میں بدل رہے 

جھکاؤ نظریں سب!  ادب!  ادب!  ادب!  درود!  درود!  درود!  حد ادب!  سرکار کا جلوہ ہے!  درود حال دل میں مقیم عالی پناہ ہستی پر  ...حق درود کی واج سنو ..نئی منزل کا آغاز سنو!  شام سے رات کی مثال سنو!  اختلاف لیل نہار سے وصل و ہجر کے بار سنو!  خاموش!  حد ادب!  ذی پناہ موجود دل میں!
کیسی گواہی چاہیے تھی!
الوہی ذات سے منسلک چشمے ہیں سارے ...
کوثر سے منسلک ہیں پیارے ..
یہ جو کعبہ دل میں ہے اب یہ منبر بنے گا 
یہ جو حرا کی شام ہے، رات میں ڈھلے گی 
یہ جو نوح کا قصہ، اک نئے آغاز میں ملے گا 
یہ جو ماتھے پہ نور کا نشان ہے، یہی حق کی گواہی ہے 
حق کی گواہی ہماری گواہی ہے
کاتب دل  کو اور کیا چاہیے؟
یہ فیض نور سے جاری چشمے ہیں ..
نور ہم سے منسلک اک ایسا چشمہ ہے، جو ہمارے نگاہ میں شامل رہتے کاملیت پہ گامزن ہے ..
اور کیا چاہیے ...
حد ادب!  بندگی میں سرجھکا رہا!  بندی غلام! شکرانے کے نفل ادا کرے گی!  حبیب نے کیسے یاد کیا ہمیں!  زہے نصیب!  زہے نصیب!  زہے نصیب!
نیلم کی کان ہی تمھاری ہے، کان کنی تم نے خود کرنی ہے!  ہم نے تم کو ایسے جبل کے لیے منتخب کیا ہے!  یہ تمھارا دل ہے جو نیلا ہے! اس کو سرخ ہم کریں گے!  حسینی لعلوں سے ...
رکوع!  رکوع!  رکوع ...
آقا جاتے ہیں .. آقا جاتے ہیں!  آقا جاتے ہیں ...
سر نہ اٹھے، مقام ادب ہے!  سر نہ اٹھے!  نہ نہ ...خاموش ...درود!  حد ادب!  خاموش!  درود!  د: دل کا جلا ہے،  یہ رات کا ڈھلا ہے، یہ شامی لباس ہے، یہ خونین پوشاک ہے!  یہ حسن کی یلغار ہے،  یہ روشنی کے لیل و نہاز ہے! یہ مصر کا نیل ہے،  یہ احرام دل میں آیت مقدس کی تلاوت ہے، دل صامت ہے، روح کو چاہیے لباس برہنگی، رکھ لے آس کی تلوار ننگی، شام سلونی ہے، رات نورانی ہے اور جھک کہ کہہ رہے 
.

رنگ لگا دے اور 
چنر بڑھا دے اور
دل کا وضو کرایا 
جلوہ کرادے اور.
چنر کی لاگن ہے 
سہاگن یار دی 
دل دیاں صداواں 
آجا ماہی، بے کول 
دل مرا وڈا انمول 
ساڈا دل رولیا گیا
آہاں وچ تولیا گیا 
فر تو ایڈ اچ آیا 
ھو دا ساز وجایا 
وجی تری ھو دی تار
الف دی گل کریندے آں
شام سلونی ویندے آں
ساڈا پیر مصطفی سائیں 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
وزیر جس دا علی سائیں 
مورا رنگ اچ تُواِں ویکھن

ماہی نے تماشا لایا اے
کنگنا پایا سی 
لہو گرمایا سی
شام سلونی سی
اکھ من موہنی.سی
اکھ ہن رکھ میڈے تے
ویکھدا رے میڈا رقص
ہر حرف اچ علی دا عکس
ہر صدا وچ ھو دا سج دھج
ہر رنگ میڈا محمد کریندا اے
جوگن کیتا مینوں تیڈے عشق نے

کنگنا پایا سی،
شہنائ وجی.سی
رات لگی سی 
شام کتھی گئ 
الف اللہ دی آئ 
ایہہ ساڈی کمائ
لائ وی گئی اے
نبھائ وی گئ اے

جمادی الاول اے 
جمادی الثانی اے
شام دی کہانی اے
لام صدا آنی ہے 
مک جانیاں آساں نے
دور ہونے انیرے نے
ساڈے کول اجیارا اے
ساکوں مار بھگایا سی 
لوکی کہون کملی اے 
یار دی کملی پائی سی 
کملی یار دی! کملی یار دی

قدسی اترن ویلا اے 
نوریاں دا لگیا.میلا اے
لحمی وار دی بانگاں! ھو!
اقصیٰ دا نمازی کہوے! ھو
شام سلونی اے!  ھو 
رات من موہنی اے!  ھو

کاجل لگیا سی 
آنکھ وگی سی 
رات رسی سی 
او ویکھدا سی
فلک.اترا سی 
دل اچ میلا سی
دل نور و نور سی 
دل ہویا طور سی
کون مخمور سی

راگ چھڑیا سی 
لہو دی صدا سی
الا اللہ الا اللہ 
ھو ھو ھو ھو ھو
ہتھ دی کچ دا سوال
نہ پچھ میڈا حال 
ذات میڈے اچ اے 
ذات دی ذات دا حال 
ہن تے ملیا مینوں کمال

دہست دے سائے سن!  روٹی کھاون آئے سن!  گولیاں چلیاں سن!  شاہد بنیا کون؟ شہید ہوئے سن!  وضو کیتا سی!  اکھ روئ سی!  دل جلیا سی!  اگ وی لگی سی!  طور تے نور دا ڈیرا سی!  طور چلیا سی اڈدا اڈدا طیبہ جانب!  طور نے دسیا سی! جلال ساکوں ڈسیا سی! حال دا حال گیا سی!  موتی سیپ توں نکلے سن!  آہاں دا بالن کڑاہڈا پیا!  ایہہ کیہٍڑا منڈا پجدا اے!  ایڈ دے پچھے لکھیا اللہ ھو!  پکڑو اینوں

کچ دی لاج دا سوال ہے ہائے میرا دل میرا دل!  میرا دل

دل کا حال تجھ کو بتاتے ہیں ،راز سر تا دل تجھ کو بتاتے ہیں، سِر نہاں!  تہہِ جامہِ دل پنہاں!  تو .... تو ... تو ...گُم ہوتی ذات میں موج کی صدا میں تو،  دریا تو! بحر تو! نمی نمی!  بوند بوند دل پہ گرے! بوند کی صدا میں تم! شبنم نے ہرا گھاس تازہ کردیا!  تازہ تازہ شبنم میں تو! میرا عشق! 

نعرہ سبحانی 
میرا عشق!  نعرہ کمالیہ 
میرا عشق! نعرہ جلہ جلالہ
میرا عشق!  تارِ وجدانی ھو
میرا عشق! عکس روحی ھو
میرا عشق! بُوئے گل ھو

میرا عشق! گلِ قدسی ھو!
مشک و کافور .. ھو!  
گلِ صندل ھو!  جامن جامن میں کاسنی رنگ ھو!
میرا عشق! ھو کا ساز
میرا عشق!  الوہی راگ 
میرا عشق!  عکس آئنہ جات
میرا عشق!  اویسی ھو 
میرا عشق! بلالی ھو!
میرا عشق!  صدق صادق صدیقی  ھو!
میرا عشق!  خیبری تلوار کی دھار!  ھو 
میرا عشق!  جلالِ عمر کی شان سے نکلی بوند!
میرا عشق!  رنگِ لوح قرانی!  ھو
میرا عشق!  صبح کی کہانی!  ھو 

میرا یار!  اللہ ھو!
میرا ستار!  اللہ ھو!
میرا قہار!  اللہ ھو 
میرا قدسی!  اللہ ھو!
میرا سامع!  اللہ ھو 
میرا قاری!  اللہ ھو!
میرا ہادی!  اللہ ھو!
میرا مسجود!  اللہ ھو!
میرا قبلہ!  اللہ ھو!
میرا نور!  اللہ ھو!

میرے یار دی یاری نے کمال کردتا!  سبحان تے سبحانی حال کردتا!  میں موج سا، مینوں کمالی کردتا!  مینوں حال اچ جلالی کردتا!  مصور میکو کمالی.کر دتا

 دوست نے چھیڑا ہے راگ،  کردی ہم سے ساز باز، نم آنکھ سے کُھلا راز، ہم نہیں تھے، وہ تھا پاس پاس. رُلا ڈالا یار نے ہمیں جان لیا کہ راز میں راز رہا تھا.  شمع سے نروان لینے چلو، چلو نروان مہنگا ہوجانا!  اٹھو!  اٹھو!  اٹھو کہ مندر سونا نہیں ہے!  اٹھو کہ وہ ہم اسکا کھلونا نہیں!  وہ ہماری رگ رگ میں پکار رہا ہے کہ شام الوہی الوہی ہے

حق کی شہادت تھی، وہی لگا ادھر ادھر ...حق نے آواز لگائ ..سن!  من سے کس نے کہا، سن!  یہ زمین ہلتے ہلتے بولی کہ سن!  یہ جو مٹی ہے بکھر کہ کہہ رہی سن!  یہ جو کاسنی بیلیں ہیں، لہر لہر کہ لہکتے کہہ رہی ہیں سن!  سن!  سن !

عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت کا

زمین ***

جب زمین کو افلاک کی گردش میں رکھا گیا تھا،  زمین کے دس ٹکرے ہوگئے.  کچھ آنسو تھے تو کچھ خون تھا، مل کے بحر کی شکل اختیار کرلی ... ہر ٹکرا مکمل کائنات تھا مگر ایک ٹکرا ارض حجاز کا نکلا ...مقدس، پاک،  الوہی چمک سے بھرپور .... شمس نے جب اس پر اپنی آب و تاب دکھائی تو صفا کے سارے جبل مثل طور ہوگئے مگر نہ تو کوئی پہاڑ زمین  بوس ہوا،  نہ کوئی زاہد مدہوش ہوا بلکہ یہ شعور کی زمین تھی!  جس میں دیوانگی کا کام نہ تھا!  اس خمیر سے عرق نیساں سے نمو پاتا گوہر نکلا جس پر جب فلک کی نگاہ پڑی تو  وہ کھو گیا!  یہی وجہ تھا زمین کا فلک سے رشتہ جڑ گیا!  

وہ ارض.حجاز کی.سرزمین جس کے سر پر سرمئی گگن!  
بارش کا موسم نہ تھا مگر خوب جل تھی!  
بہار کی بات نہیں ہوئی تھی مگر لالہ و گل اپنی.چمک دکھا رہے تھے!  
قران پاک اس ارض مقدس میں ماہ رمضان کو اترا تھا!
یہیں پر مبارک،  پرنور ہستی مانند نسیم جو محمد صلی اللہ علیہ والہ.وسلم ہیں .... باطن سے ظاہر میں  موجود آئی ...... وہ عملی قران ....دین تھا گویا مکمل ہوگیا ...... 

اس زمین میں.بہت سے راز تھے، جس کا ایک ٹکرا مقامِ کوفہ تھا!  کربل کا میدان سجا تھا!  سرخی زمین دیکھ کے فلک اشکبار تھا!  زمین اتنی نرم، گداز تھی کہ جیسے  کہ سرخی ء محشر کا پتا دے رہی ہو!  

راز کی باتیں!  
داستانِ کربل 
دل پکارے یا حُسین 

پوچھیے خود سے قربانی کی اصطلاح؟  امام عالی نے حج کیا، مگر اے دل کہاں کیا؟  کربل کے زمین پر سجدہ ء تسلیم اداکرتے، جب  زبان پر آیت سجدہ جاری تھی!  تکبیر پڑھی!  اللہ اکبر!  آپ کی قربانی معتبر ہوگئی!  یہ حشر کی زمین ... جس پر گگن کا سایہ تھا! جس کے دیکھ ابر مسکرایا تھا!  یہ حجازی سفر کی داستان ... زمینیں مقدس ہوگئیں!  قربانی مقدس کرگئی!  

اے دل کبھی حج کیا؟
میں نے کہا کہ نہیں 
اے دل کبھی قربانی دی
میں نے کہا کہ جان نہ دی بس 
اے دل داستان کوفہ ہے!  
داستان حجاز ہے!  داستان کربل ہے!  
قربانی کی ابتدا سے منتہی!  
زمین ِِ شام سے زمین کوفہ تک!
حرف اول کو بقا مل گئی تھی 
حرف آخر کا راز کھل گیا تھا!  
جبین نیاز میں رہی تھی!  
قصر دل پر اک نور کا ہالہ تھا.
یہ اشک .. اشک ... یہ دھواں 
یہ سب نیا ہے ...یہ سب نیا ہے 
بقائے ہست فنائے ہست سے ملی 
نور کی نشانی وجود میں رہی 
زندگی سبب میں مگر رہی 
قرار نہیں!  ہجر ہے!  ضرب!  
اے دل کتنی ضربیں باقی ہیں؟  
جب تک پگھل نہیں جاتی شمع 
اے دل کچھ تحفہ زمین کا بتلا 
جھک جا!  آئنہ زندگی میں ملے

اے دل رک جا!  یہ میرے محبوب کی زمین ہے! دل کہاں رکا اور چل دیا اور مسجود ہوگیا صحن حرم میں!  ساجد کو طواف کا ہوش نہ رہا!  مسجود زمین پر،  ساجد کا کلمہ ء حق نکلا!  خون تھا کہ جاری ہوگیا!  پوچھیے خون کہاں سے تھا!  داستان کربل کا!  یہ خون،  یہ شمع!  یہ رفعت!  یہ کہانی!  یہ تو معراج ہے!  روشنی تیرا مقدر!  روشن تری تقدیر!  فکر ہست کر!  فکر دین کر! فکر کر جو فرش پر رہتے تکبر نہیں کرتے!  فکر تو کر ان کو جن کو عرش پر بھی تکبر نہیں!

کلام ‏کرلیا ‏مگر ‏تشنگی ‏باقی ‏رہی

کلام کرلیا مگر تشنگی باقی رہی 
پاس ہو کے بھی پاس نہیں 
دل میں ناامیدی و یاس نَہیں 
اچھا اگر پاس ہو میرے تو بتاؤ میں کون ہوں 
میں جانوں یا نہ جانوں، تم تو جانتے ہو 
اچھا جب ہوا بجھا دے چراغ تو کیا ہوگا 
بتاؤ تو جب رات میں گلاب بکھر جائیں تو کیا ہوگا 
یہی نا کہ طوفان کشتی کو سفینے نہ لگا سکے گا؟
یہی نا کشتی کا سفینہ تم تو ہو نا 
پھر تم کتنے دور ہو 
نہیں تم قریب ہو 

میں ہر لمحہ قرب کے احساس سے جلا دوں 
بجلی شوخ ہو تو آگ بڑھا دوں
ستم نوک سناں دیے ہیں تو یاد کے نام بڑھا دوں 
دوری نہیں. احساس یے 
پیار تو ہے مگر فراق ہے 
وصل شیریں کا احساس تو ہے

دم ‏دم ‏میں ‏کون ‏؟ ‏پارٹ ‏۱

دم دم میں کون؟ پارٹ ۱
صبح کی نمود میں، صبا کی کھلیں قیود، دیکھ برگد میں سجود،  ہر شے میں شہود، آیت دل پر صعود، نور تارِ حریر ریشم میں جمود،  رشک دیکھ، دیکھ مرا وجود ..پتی سے شبنم کی نمود،  آیت آیت سورہ ھود .... 

زتاب ہجراِں کو، 
ز شوق وصلت کو
، سنائیں گے ہم اپنی بتیاں ... چوں دل گدازی،  
چوں روایت سازی،
  چوں قوت پروازی
چوں شوق دستاری 
داستان سناتے ہیں 
بود نبود میں تو موجود 

خُدا نے جوڑا بَنایا 
وصلت، ہجرت کا
آب وصل میں بود اسکی 
دشت ہجرت میں غیبت اسکی 
دشت ہجرت میں آدم کو لا پھینکا 
خود سے آدم،  آدم سے حوّا کو نکالا 
درد جُدائی والا، مار ڈالا 
روگ کے تیر دل میں 
برچھیاں بھالے دل میں 
دل بھی کیا شے،  اس نے بنائی 
درد کی کائنات خوب ہے بنائی 
ہجرت خدا کی،  روئے بشر 
ماں کی شدت،  روئے پسر 
لحظہ لحظہ مامتا کے دکھ بڑھائے گئے 
جن و انس تخیلات میں بہلائے گئے 
کُن سے نفخ،  ہجر نہیں مانگا تھا 
ماں تیر جدائی والا نہیں مانگا تھا 
ماں تیری دوری نے مار رلایا تھا 
نہرِ  فرات سے وضو کرایا تھا
مصر کے اہراموں میں ڈھونڈا تجھے 
ہیکلِ سلیمانی میں تلاشا تجھے 
دعاؤں میں مانگا تجھے،  
آنکھوں میں سجایا تجھے،
پھریوں ہوا کہ .....
پیاس بڑھانے کو دو بونڈ ٹپکائے گئے 
دشت جدائی میں یوں آزمائے گئے 
نہ سسک سکے،  نہ بہل سکے 
ز امید وصلت،  قطرہ قطرہ میں پائے گئے 
ملنے سے پہلے، ملن فسانہ تھا 
دوری بھی کیا، وہ تو بہانہ تھا 
تو حقیقت ہوئ، میں ترا فسانہ 
بعد وضو، یہ گھر ترا آشیانہ ہوا 
منم گفتم؟  گفتا توئی 
منم روشنی؟ روشنی توئی 
آب وصلت اور ہجرت کے بین بین 
یوں رہی کہ روئے نین نین 
میری کہانی پر فلک بھی رو دیا تھا 
زمین پر اس نے سیلاب دیکھا 
از وقت سیل نا مہربانی، تری مہربانیاں 
در کھلے،  در بند ہو،  
آہٹ آہٹ میں تو ہے،  
رزم حق و باطل میں 
بصورت تیغِ حیدری، تو موجود 
بصورت تیری، خدائی کی نمود 
بہ مثل زہرا تری صدا ہے موجود 
بہ مثل مریم، ترے قدسیوں کا ظہور 
بہ مثل یوسف،  رائی رائی میں دل پذیر
بہ شکل ابراہیم،  بہ شکل صدیق 
،صدق میں،  قربانی میں خیال ترا گردش میں
خلیفہ الارض کی شاہی میں ترا شمول 
بہ تاب ہجر کو درد بڑھا دیا ہے 
حسن احمد کو جوں جوں دکھا دیا ہے 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم

 بار بار سجدہ کرتی ہوں کہ لگتے ہے سامنے تو ...  نگاہ، روح، زبان، تن کے سجدے.... تری اداؤں سے گھائل پیا رے .... سکھ دکھ میں من مورا تری لاگے رے .... سچ مورا کسی کہانی سے نکلا ہے. سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام 

دم دم دم میں تو ...دم دم دم میں تو 
روم روم میں تو ...روم روم روم میں تو 

پانی دھارے سے نکلتا ہے، موج آفتاب سے،  دل نقاب سے اور زیر زمین واصل ہوتا ہے تجھ سے ملتا ہے ... 

اک ورد دم دم ہے،  دم دم میں توئی توئی 
دما دم دم کہ دم دم میں ساز ہست تو 
دما دم دم کہ دم  دم میں راگ نگر تو 
دما دم دم کہ دم دم میں خوشبو کا دریا تو 
دما دم دم کہ دم دم میں بارش کا بہتا پہنا تو 
دما دم دم کہ دم دم میں رکوع کا سکوت تو 
دما دم دم کہ دم دم میں آنکھ کا وضو تو 
دما دم دم کہ دم دم میں روشنی میں  اسکندر تو 
دما دم دم کہ دم دم میں محبت میں قلندر تو 
دما دم دم کہ دم دم میں جود و کرم کا اظہار 
دما دم دم کہ دم دم میں شیریں ترا گفتار 
دما دم دم کہ دم دم میں مستی کا خمار تو 
دما دم دم کہ دم دم میں نیستی کا راز تو 
دما دم دم کہ دم دم میں کامل ذات تو 
دما دم دم کہ دم دم کے نور میں شامل تو
دما دم دم کہ دم دم میں اللہ کی برہان 
دما دم دم کہ دم دم میں شاہ ولا کا احساس 
دما دم دم کہ دم دم میں روشنی کا آبشار تو 
دما دم دم کہ دم دم میں روح کا نکھار تو 
دما دم دم کہ دم دم میں رکتے خون کا فشار تو 
دما دم دم کہ دم دم میں لعل و یمن کے جواہر میں تو 
دما دم دم کہ دم دم سے نکلے دود میں تو 
دما دم دم کہ دم دم سے نکلتا ورود تو 
دما دم دم کہ دم دم سے نکلتا نور تو 
دما دم دم کہ دم دم کی صدا تو 
صورت صورت میں تو،

  رنگ رنگ میں  تو 
مے نوش ہوں تری شراب کی ساقی 
بادہ و مے سے اندھیرے سب ڈھلے 
صبح سے شام کریں گے ذکر ترا 
سو جائیں گے،  باقی رہے تصور ترا
میں خراب،  میں خراب، میں خراب 
مستی میں تیغِ عشق دل میں اتری ہے 
نیستی!  نیستی!  نیستی!  نیستی!  
میں نہیں، وہ مجھے ڈھونڈ رہا ہے 
میں نہیں،  ترے گھر میں تو ہے 
میں نہیں،  تو میخانہ، تو پیمانہ،
میں نہیں،  ترے قلم سے لکھوں تجھے
میں نہیں، تری صورت سے تجھے دیکھوں  
میں نہیں،  تری جبین کو تجھ پر جھکتا دیکھوں 
میں نہیں،  ترے کعبے کے گرد تجھے طواف میں دیکھوں 
میں نہیں، تو حجاب،  تو بے حجاب 
میں نہیں،  تری ہستی میں ڈلتی جاتی ہے شراب 
میں نہیں، ترے رستے پر چل رہا ہے تو خود 
میں نہیں،  تو غزل سرا،  تو غزل نوا 
میں نہیں،  تو نغمہ، تو ساز، تو دھن،  تو قوال 
میں نہیں،  تو درد،  تو گریہ 
میں نہیں،  تری آنکھ وضو میں 
میں نہیں،  تری رات جام و  سبو میں 
میں نہیں،  ترا جلوہ جا بجا 
میں نہیں،  تو عیاں، تو نہاں 
میں نہیں،  تو روشن،  تو اندھیرا
میں نہیں،  تو خواب و خیال 
میں نہیں،   تو سوال، تو جواب 
میں نہیں،  تو اظہار، تو ضبط 
میں نہیں،  تو ماہ،  تو آفتاب 
میں نہیں،  تو دل،  تو جان 
میں نہیں،  تو دید کرے خود کی 
میں نہیں،  تو جدا کرے خود سے خود کو 
میں نہیں،  تو ملائے خود کو خود سے 
میں نہیں،  ترا پیالہ ٹوٹا، پھیلا ترے آگے کاسہ 
میں نہیں،  تو گدا گر،  تو شہنشاہ 
میں نہیں،  تو عالمگیر میں،  تو اکبر میں  
میں نہیں،  تو فرعون میں تو ہی موسی میں 
میں نہیں،  تو ید بیضاء دل کا 
میں نہیں،  قران بنا سینہ ترا 
میں نہیں،  کعبہ بنا.سفینہ ترا 
میں نہیں، وادی ء حرا مقام ترا 
میں نہیں،  زمان و مکان کا ساتھ ترا 
میں نہیں،  ترا دل،  ترے کاخ و کو،  تری راجدھانی 
میں نہیں،  ترے گلاب،  تری خوشبو کے بادل 
میں نہیں،  تو کرے اللہ،  تو کرے ھو 
میں نہیں،  تو روح کی رگ رگ میں 
میں نہیں،  درچشمان وصلت کا مظہر تو 
میں نہیں،  دل کی اگنی میں تو 
میں نہیں،  من کی تری بتیاں سنائے رتیاں 
میں نہیں،  ہر جا میں تو تو

سر ‏زمین ‏حشر**

سر زمینِ حشر سے خاک کے پتلے کو ہّوا دے.  ... 
موتی سمجھے کوئی، آبِ نیساں سے جِلا دے.  ... 
شراب جاودانی ملے، درد ہجر کو ایسا مزّا دے 
اَحد کی زَمین سے جبل النور تک منظر نبوت دکھا دے 
حِرا ہی آخری مقام ٹھہرے، مسجد حرم میں جگہ دے 
میں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے معتبر 
اعتبار کی آخری حدّ تک پُہنچا دے ....
شام ہجر کی سحر میں پل پل وصل کا مزّا دے .... 
آہ!  وہ لطفِ چاشنی ....  مرگِ وصل میں، دکھ کا نشہ دے 
مئے عشق ہے! آسانی سے نَہیں ملتی ..... 
مسافت کی اندھیروں کو صبح نُو سے مِلا دے

اے شمشیرِ حق!  اے صدقِ ولایت!  اے آئینِ نو کی شمع!  اے دلِ حزین ملال سے پُر .... 

فضا میں خوشبو ہو، آنکھ میں نَمی ہو، عشق عَلی ہو، نورِ حُسینی کو کس بات کا گلہ ہے؟ شکوے کی آئین ساز ہستی کا کچھ گلہ باقی ہے؟

عَبد ہوں!  غلام علی ہوں! بندگی کا جوہر خاک میں بَسا دے ..... 

تقدیر لکھ اپنی! آیت شمشیر تلاوت کر! حق علی سے روشن کائنات کی ہر آنکھ، ہر جگ زَخموں سے نَڈھال،  ہر آنکھ شَرر بار.  ہر دل مشکبار ....کیا جلوہ  ء حق کا معکوس علی نَہیں؟  کیا تجھ میں امیرِ حیدر، شیر دِلاور کا گھر نَہیں؟
من کہ پُر بعشقِ علی .. من کہ مشتاق محمد ... 
ان گنت درود اِن عالی ہستیوں پر ....
من کہ عصیانم،  من کہ دردانم  ، من کہ بحرِ عشق میں غرق! موج وصل ایسے ہے، جیسے سمندر الوہی چراغ سے روشن ....

شاہا!  سیدی!  مرشدی! .یا نبی ...ان گنت درود عالی مرتبت ہستیوں پر
اپنی ضو سے زمانہ روشن کر .... 
نئی شام کے ماہتاب سے تجلی پا ... 
نئی صبحیں تارِ حریر ریشم کی ، نئے جلوے یقین کے ....
بگڑی بنتی ہے،  آنکھ دیکھتی ہے، مستی ء الست کا نشہ دائم جسکا جلوہ. احساس کا تلاطم برپا...
جام کوثر پلائیے، بادہ خوار بنائیے    ...سر زمینِ کربلا سجائیے، لہو درد لہو سلطانیاں، صلب در صلب سلسلے ....