کلام کرلیا مگر تشنگی باقی رہی
پاس ہو کے بھی پاس نہیں
دل میں ناامیدی و یاس نَہیں
اچھا اگر پاس ہو میرے تو بتاؤ میں کون ہوں
میں جانوں یا نہ جانوں، تم تو جانتے ہو
اچھا جب ہوا بجھا دے چراغ تو کیا ہوگا
بتاؤ تو جب رات میں گلاب بکھر جائیں تو کیا ہوگا
یہی نا کہ طوفان کشتی کو سفینے نہ لگا سکے گا؟
یہی نا کشتی کا سفینہ تم تو ہو نا
پھر تم کتنے دور ہو
نہیں تم قریب ہو
میں ہر لمحہ قرب کے احساس سے جلا دوں
بجلی شوخ ہو تو آگ بڑھا دوں
ستم نوک سناں دیے ہیں تو یاد کے نام بڑھا دوں
دوری نہیں. احساس یے
پیار تو ہے مگر فراق ہے
وصل شیریں کا احساس تو ہے