سر زمینِ حشر سے خاک کے پتلے کو ہّوا دے. ...
موتی سمجھے کوئی، آبِ نیساں سے جِلا دے. ...
شراب جاودانی ملے، درد ہجر کو ایسا مزّا دے
اَحد کی زَمین سے جبل النور تک منظر نبوت دکھا دے
حِرا ہی آخری مقام ٹھہرے، مسجد حرم میں جگہ دے
میں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے معتبر
اعتبار کی آخری حدّ تک پُہنچا دے ....
شام ہجر کی سحر میں پل پل وصل کا مزّا دے ....
آہ! وہ لطفِ چاشنی .... مرگِ وصل میں، دکھ کا نشہ دے
مئے عشق ہے! آسانی سے نَہیں ملتی .....
مسافت کی اندھیروں کو صبح نُو سے مِلا دے
اے شمشیرِ حق! اے صدقِ ولایت! اے آئینِ نو کی شمع! اے دلِ حزین ملال سے پُر ....
فضا میں خوشبو ہو، آنکھ میں نَمی ہو، عشق عَلی ہو، نورِ حُسینی کو کس بات کا گلہ ہے؟ شکوے کی آئین ساز ہستی کا کچھ گلہ باقی ہے؟
عَبد ہوں! غلام علی ہوں! بندگی کا جوہر خاک میں بَسا دے .....
تقدیر لکھ اپنی! آیت شمشیر تلاوت کر! حق علی سے روشن کائنات کی ہر آنکھ، ہر جگ زَخموں سے نَڈھال، ہر آنکھ شَرر بار. ہر دل مشکبار ....کیا جلوہ ء حق کا معکوس علی نَہیں؟ کیا تجھ میں امیرِ حیدر، شیر دِلاور کا گھر نَہیں؟
من کہ پُر بعشقِ علی .. من کہ مشتاق محمد ...
ان گنت درود اِن عالی ہستیوں پر ....
من کہ عصیانم، من کہ دردانم ، من کہ بحرِ عشق میں غرق! موج وصل ایسے ہے، جیسے سمندر الوہی چراغ سے روشن ....
شاہا! سیدی! مرشدی! .یا نبی ...ان گنت درود عالی مرتبت ہستیوں پر
اپنی ضو سے زمانہ روشن کر ....
نئی شام کے ماہتاب سے تجلی پا ...
نئی صبحیں تارِ حریر ریشم کی ، نئے جلوے یقین کے ....
بگڑی بنتی ہے، آنکھ دیکھتی ہے، مستی ء الست کا نشہ دائم جسکا جلوہ. احساس کا تلاطم برپا...
جام کوثر پلائیے، بادہ خوار بنائیے ...سر زمینِ کربلا سجائیے، لہو درد لہو سلطانیاں، صلب در صلب سلسلے ....