درود بھیجنے کو رب نے بھیجا. تعریف کرنے کو رب نے کردی. اب ہمارے لیے کیا بچا؟ نہ زُبان! نہ دل! نہ لفظ! نہ سیرت! نہ عمل! یہ سیہ دل کس نگر جاکے چھپالیں؟ ہماری تو اوقات نہیں ہے کہ نامِ "محمد " صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی میم کو ٹھیک سے بولیں کجا کہ مصطفوی چراغ کا ذکر بُلند کریں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم .. پھر بھی رحمت نے رحمت کررکھی ہے اور ہم.دھڑلے سے نام لیتے ہیں. کچھ مجھ کو خوف نہیں آتا کہ دل میں ان کی مہک کیساتھ کسی غیر کو رکھتی. دل کے اندر غیر خیالات کے مجسمے بنے ہیں اور مجسمہ ساز بنی میری روح ہے
وہ.تو رحمت للعالمین ہے. اپنی انگلی سے ہم سب کو تھام رکھا ہے. وہ نہیں دیکھتے کہ رنگ و نسل کی وجہ سے کوئی ممتاز ہے. کیا آج تک کوئی ایسا لفظ ہے جو ہم نے کہہ دیا.ہو مگر رب نے نہ کہا.ہو .... رب نے محبوب صلی اللہ علیہ والہ.وسلم کی.تعریف اتنی کی ہے جتنا کوئ کر نہیں پایا. ..
مہک ایسی نہیں پاس میرے، جیسی زمانوں سے گلستانِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چمن در چمن سے گل بہ گل چلی آرہی ہے مگر خوشبو مستعار لی ہے ان سے. کوئی کوچہ پسند آئے تو بسالیا دل میں جاتا ہے. میں نے محبوب کے کوچے کی خوشبو سے رنگ لگا لیے ہیں . رنگ میرا سرمایہ، یہ میرا وجود ہیں.