Saturday, January 23, 2021

محمد ‏کی ‏میم ‏

محمد کی میم

جو یاد رہتے ہیں ، ان کو بھولا کہاں جاتا ہے ۔ جو یار بنالیا جائے ، اسے چھوڑا کہاں جاتا ہے ۔ جسے عشق ہوجائے ، وہ خود میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ خود کا ہی یار ، خود کا جوگی، روگی ہوجاتا ہے ۔ اس کا رستہ گمشدگی میں ہے ۔

ڈھونڈنے والو ! مجھے ڈھونڈ کے تو دکھاؤ ! آؤ ! مجھے دیکھو ! میرا جلوہ تو کرو !میں تمھیں یہاں وہاں کہاں ملوں ۔جنگل ، پربت میں یا مسجد منبر میں ۔۔۔۔۔۔۔دل کی سرزمین پر ہریالی کے فصلوں میں محبت کے ابدی نغمے کا سر لگاتا ہوں، میں دل میں رہتا ہوں ۔لوگو ! اس گمشدگی کو ڈھونڈو ۔ اس سے ملو ،یہ میری نشانی ہے ! خالق کی قسم ! خالق اپنے بندوں پر گواہ ہوتا ہے ! خالق نور پر گواہ ہے اور یہ گواہی  عام نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حق ھو ! حق ھو ! حق ھو !
مجھے دیوانہ کردیا ہے
ھو کی ھو نے مست کردیا
اس ھو سے جذب مل گیا
میں مجذوب قلندر ہوں
میں اس کا شاہباز ہوں
پرواز میری آسمانوں پر ہے
کون میرا راستہ جانے
کوئی نہ جانے میرا راستہ

امتحان کی نشست لگی ہوئی ۔ میں اپنے خالق کے پاس محبت کا امتحان دے رہی ہوں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں دیوانی ہوگئی ہوں ۔ امتحان تو سبھی نے دینا ہے مگر یہ کیا کم ہے کہ خالق کے پاس اس کی صحبت میں بیٹھی ہوئی ۔ اس کا نور مجھ میں سماتا جارہا ہے میں خود میں گم ہوتی جارہی ہوں ۔ نور کی شعاع نور سے ٹکراتے نور کی ہوجاتی ہے ۔ نور کے دل کو کعبہ بنا دیا ہے ۔ نور اپنے دل کے گرد شمع کی مانند طواف کیے جاتی ہے ۔ کیا ہوں میں ؟ میں کچھ بھی نہیں میں کچھ بھی نہیں بلکہ جوبھی ہے وہ میرا خالق ہے ۔ نور نے خالق سے کہا کہ مجھے اپنے پاس رکھ لے۔ نور خالق کو کہتی ہے کہ دنیا کیوں بنائی ! یہ جال کیوں پھیلایا!  اس دنیا میں پہچان کا کھیل کیوں رچایا ؟میں سوالات کے جوابات کہاں سے لاؤں میرے علم کا منبع تو وہ خود ہے ۔۔۔۔۔۔ جواب دے نا میرا  محبوب کہ پہچان کا فرق کیوں رچایا

علم معرفت عارف کی پہچان
اس پہچان میں بپا نہ کر ہیجان
ہر کسی کو نہیں ملتی معرفت
عام نہیں ذروں پر اس کی لطافت
ذرہ نے اس سے فریاد کی
کیوں رچایا کھیل معرفت کا
کسی کو شاہ تو کسی کو فقیر بنا کے
کسی کو عالم تو کسی کو جاہل بنا کے
کسی کو عاقل  کسی کو کامل بنا کے
کسی کو غلام کسی کو مالک بنا کے
رسولوں، پیامبروں کو اپنا شاہد بنا کے
رسولوں کو نبیوں کا شاہد بنا کے
نبیوں کو ولیوں کا شاہد بنا کے
کیا ملا؟ کیوں کیا ؟

عارف کو حقیقت معرفت سے ملی
پیامبر کی حقیقت کنجی سے کھلی
پردہِ مجاز میں حقیقت کے رنگ دیکھ
حقیقت کا پتا گمشدگی میں دیکھ
حقیقت میں لطف زندگی ہے معرفت
حقیقت سے ملنے کا رستہ ہے  معرفت
عشق شناس بندوں کو عارف بنایا
حقیقت شناسی سے پائی معرفت
عارف کی پہلی سیڑھی  ہےولایت
سورج  کی جیسے ستاروں میں ہے روایت
باب عشق عیاں ہوا معرفت سے
لگی ہے دل میں لگن معرفت سے
ستم سہنے پڑے، قسمت کے یہ وچھوڑے
اس میدان میں آتے نہیں بھگوڑے
شدت اظہار سے روح، جسم میں ڈال
عشق کو پہچان کی لگام میں ڈال

مسیحائی کا پیشہ طبیب کے دم سے ہے
مریضِ عشق کا غم پتھر میں مدغم  ہے
شرمساری عصیاں کی بڑھتی جائے ہے
ندامت سے گردن جھکی جائے ہے

دل کی کیا حیثیت موم جیسی ہے جو پگھل پگھل کے بھی ختم نہیں ہوتی ہے ۔ اس موم میں اگربتی ، گلاب ، لوبان اور مشک کی خوشبوئیں ملائیں گئیں ۔ جب اس کو چنگاری ملی ۔ ایک تجلی نے جہاں میں جل تھل کردے ۔ برسات کا موسم آگیا ہے ۔ پھول کھلنے لگے ۔ پھول کی تسبیح لا الہ الا اللہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔اپنے مالک کو یاد کر رہے ہیں ۔خوشبو چمن میں پھیل کے اپنا پتا کھو رہی ہے اور بلبل اپنا گیت سنارہی ہے ۔۔۔ بلبل کی صدا ہے حق ھو حق !

تو ہی تو میرا سائیاں ، 
تو ہی تو میرا سائیاں
دل کردا ایہہ میرا دہائیاں

میرے تو لگیا جیہڑا جیہڑا
اونوں ملدا جاندا اے سویرا
میں سیاہ رات اچ اجلا سویرا

کوکاں مار دی میں جگاواں
لوکی سمجھن  کملی دیوانی
درد دیاں گلاں کوئی نہ جانڑے
کتھے لوکی حُسین حُسین کردے نیں
قربان غرض توں ایمان کر چھڑدے نیں
میں حسینی نور آں ! پھیلاں شوخ ہوکے
میرے ہتھ وچ حسینی چراغ اے
آبشاراں نوں رستے نوے ملدے نیں
ندیاں بہندیاں چنگیاں لگدیاں نیں
ایدھی واجاں تو کوئلاں چہکدیاں نیں
ایناں باغاں وچ گلابی پُھل اے محمد
جیہڑا شاخاں اچوں  روشنی اے  پھیلاندا
جیہڑا اوتھے جاوے خوشبو پاوے
میل لاوے ، تن اجیارے
مالی پھلاں دی حفاظت شوق نال کریندا اے
اوتھے بیٹھا  جیہڑا حسن دی شیدائی اے
اونہوں میں آکھیا مالک تو کی کمایا؟
کی کمایا لا کے دنیا دا تماشا؟

او آکھے !

محمد دی واسطے سوانگ رچایا
جا ! اس وانگر لب کے کوئی ہور لیا
اودھے جیا ہور ایتھے کوئی نہیں
محمد دی 'م' اچ چھپی اے کہانی
میم دا قصہ سن لوو مری زبانی
شب و روز گزرتے جاتے ہیں
غم ہجر  بھی ٹلتے جاتے ہیں
مراداں والے میرے کول آندے نیں
محبت دی مانگ دل.وچ بھرجاندے نیں
معراج دا تحفہ پاندے جاندے نیں
منور ، مطہر ، مزمل ، مدثر ، معجل
مجلی ، مصفی ، معطر ،  محمد دا سینہ
جیہڑا لگیاں اس نوں ، ملیا سفینہ
محبت دا امین ، معین ، مھیمن اے
محمد دی ''م '' وچ کیہ کیہ لکیا اے
ایڈھ وچ قران دا ہر اک صفحہ اے
محمد دی' م ' اچ کیا کیا چھپا ہے
محمد دی ''م'' اچ الہام چھپا ہے
وحیِ رسالت کی امین ہے جس طرح
محمد رسولوں میں معین ہیں جس طرح
محمد کی ''م '' میں کیا کیا چھیا ہے
محمد کی ''م'' میں مکہ اور مدینہ چھپا ہے
محمد  کی ''م '' میں کیا چھیا ہے
محمد کی ''م'' میں مامتا چھپی ہے
محمد کی رحمت  کا بڑا اونچا قد ہے
محمد کی ''م'' محبت والی ہے
اس کے دم سے زندہ ہر سوالی ہے
محمد کی ''م '' موجوں کو طغیانی دے
محمد کی ''م'' مظاہر کو نشانی دے
محمد : مرشد ، مہدی برحق ہیں
محمد کی محبت میں کھڑی یہ سگ ہے
محبت کی ''م'' مستی والی ہے
محبت کی '' م'' مرادوں والی ہے
''م '' کے خزانے بے شمار ہیں

علمِ معرفت کی  '' دو میم' سرادر ہیں
حاجی کعبے آون ، شوق دے دیوے لاون
حج نہ ہووے جدتک مدینے نہ جاون
کعبہ وی مدینہ مدینہ کردا اے
دل اچ رنگ مدینہ توں لگدا اے
''میم '' دا رنگ سرخی آلا اے
''میم ''  سرخ جوڑا پوندای اے
''میم '' شوخی تے مستی چڑھاندی اے
'' حق ھو ! ''میم '' دے نال کریے
حق !  میم کی محبت میں نشرح نازل ہوئی
ورفعنا لک ذکرک کی چلیں باتیں
کرم کی  بارشوں سے پائیں سوغاتیں

دردو پڑھو ! پڑھو درود ۔۔۔م کی چاہت سے پالیں سوغاتیں

اللھم صلی علی محمد وعلی الہ محمد وبارک وسلم 

 

محمد کی محبت سے غلامی کی سند حاصل ہوئی
محمد کی غلامی سے یہ شان حاصل ہوئی
رنگی گئی نور اس محبت میں مکمل
اپنے رنگ لٹانے  چلی ہوں مکمل
میں رنگ گئی محمد کی محبت میں
پرواز کی طاقت سے ہوں رفعت میں
اڑتی ہوں فضاؤں میں شہبار کی مانند
اس محبت نے علم کی دولت عطا کی
عقلِ کل تک رسائی ہے  عطا کی

خزانے ''م'' کے مجھ پر لٹا دے حق۔ان کو پانے کو میں مضطرب ہوں ۔ مولا محبت میں مری جارہی ہوں ۔میرا سینہ مکہ مدینہ بنادے ۔ میرا سینہ فلک کی مانند بلند کردے ۔اوج رفعت ملی ہے مجھے یار کے نقش قدم سے ۔میرے ساتھ چلو جہاں جہاں میں چلوں ۔میں مستی میں چلی جارہی ہوں ۔مجھے ڈھونڈو مگر کیسے ڈھونڈو گے کہ میں تو گمشدہ محبت کی بستی ہوں ۔۔ میں نشے میں مست جارہی ہوں ۔۔جنگل کو خوشبو دیتی جارہی ہوں ۔ صحرا سے جنگل کا سفر میرا شروع ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔

حق ھو ! حق ھو ! حق ھو! گمان ہوتا ہے کائنات مجھ میں سما گئیں ۔افلاک میرے اندر ہے اور پاتال بھی میرے اندر ہے ۔ قبرستان بھی اندر ہیں ، مسجد بھی میرے اندر ۔۔ سبھی رشتے میرے اندر ہیں میں کہاں ہوں ، کدھر جارہی ہوں میں تو مستی میں چلتی جارہی ہوں ۔۔ مستی جنگل  اور دریا کے سنگم میں ملی ہے ، یہ اوج مجھے یار  سے ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وہ شہسوار ہوں جسے کوئی مات نہ دے پائے ۔۔میری رفتار کسی بھی گھڑسوار سے تیز تر ہے کہ یک مشت میں بلندیاں میری مقدر ہیں ۔میں ذات کی قلندر ہوں ! میں شہباز ہوں ! کون میرے پیچھے آسکتا ہے کہ میرا بسیرا بلند فضاؤں میں ہوگیا میں نے اڑنا سیکھ لیا ۔۔۔پنچھیوں کو اڑتے دیکھ کے اب آہیں نہیں بھرتی کیونکہ میری اڑان بہت بلند ہے ۔میری اڑان بلند ہے ۔۔میرے پاس ہفت اقلیم کی دولت ہے ۔میرے پاس دولت کے خزانے ہیں ۔علم کا خزانہ مجھے مل گیا ہے مجھے اپنا آپ مل گیا ۔مجھے اس نے مکمل کردیا ۔۔۔۔۔۔۔میرا یار مجھ میں بس گیا ہے ! میرا یار مجھ میں بس گیا ہے ! مجھ میں بیٹھ کے تار ہلاتا ہے ! میں تار پر لہو بہاتی ہوں اور سیاہی بنتے لکھا جاتا ہے ۔ درد دلاں داں کون جانے ! کوئی نہ جانے گا کہ یہ میں ہی جانوں 

درد کا سب سے خوبصورت چہرہ محبت ، عشق ہے ۔عشق کے جام مجھے دیے جارہے ہیں میں مستی میں ابھی ہوش میں ہوں ۔۔مجھے کیا معلوم میں کہاں جارہی ہوں میں بس چلتی جارہی ہوں ۔۔پہاڑ پر تو کبھی ندیوں پر تو کبھی آبشاروں سے تو کبھی ڈھلانوں سے تو کبھی دریاؤں سے کبھی درختوں کو چیرتے ہوئے ۔۔۔! مجھ سے ندیاں باتیں کرتی ہیں ! میں نے اسے پالیا ہے  ۔پہاّڑ میرے آگے جھکتے ہیں ! مجھے  آقائے دو جہاں کی محبت نے سورج کردیا ہے ۔ آسمان پر پڑے سورج کی میرے سامنے کیا حیثیت ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔

Saturday, January 16, 2021

در ‏نبی ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ ‏وآلہ ‏وسلم

مکان مکینوں سے بنتا ہے اور انسان کے دل کا مکین رب ہے. اسے ربی ربی کہنا چاہیے مگر وہ دنیا دنیا کرتا رہتا ہے. جس نے ربی ربی کہا،  اس نے رب کو پالیا. یہ بہت آسان سی بات ہے جب ہم کو اس نے کہا نماز قائم کرو ... تم نے کہہ دیا ربی ربی ... نماز تو ہمہ وقت اس کی تسبیح ہے یعنی اس کا خیال ...اب یہ مشکل بات ہے دنیا میں رہتے اس کا خیال رہے. مجذوب کے لیے بات آسان ہے کہ وہ خیال ایک کرلے مگر دنیا دار کیا کرے کہ دنیا نبھانی ہے. یہ مشکل ہماری خیال و اعمال کے ربط سے آسان کردی گئی ہے . ہمارے خیال میں جب کائنات کی سب سے عظیم ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوگی تو ہمارے اعمال ان کے سانچے میں ڈھل جائیں گے.  ہم نے ان کے جلوے کو ایسے پانا ہے کہ ہمارا خیال اور ظاہر یعنی عمل ان کی سیرت میں ڈھل جائے. ہر جگہ ہمیں ان کا جلوہ دکھنے لگے گا. اس سے عظیم فنائیت انسان کو نہیں دی گئی. انسان نائب ہے اور نائب کے پاس اختیارات بہت. اختیارات کا استعمال نائب دنیا کے لیے کرتا ہے جبکہ کچھ لوگ بانگ سے بانگ سے ملاتے ہیں اور صدا بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں 

میرا رب عظیم ہے 
دل میں وہ مقیم ہے 
اسکی شان کریم ہے 
اسکی بات رحیم ہے


یہ کاسہ ء فقیری پھینک دے اور دُر ہوجا درِ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا.  اے حضرت انسان!  تجھے تو میری شان بیان کرنی تھی اور تو اپنی شان بنانے میں لگ گیا. اے وہ نیک بخت! جس کے لیے میں نے کائنات بنائی، وہ اپنی کائنات بنانے میں لگ گیا.  شمس کی تسبیح دینا ہے اور رات میں روشنی دینی پڑتی ہے. شمس روشنی کا محتاج ہے اور شمس، شمس کی جستجو میں لگ گیا. رب نے فرمایا قم الیل ... قم حکم ہے اوررات میں قیام بڑا مشکل ہے. شمس کو رات میں قیام کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کی تسبیح زمانے کی تسبیح ہوجائے. یہ دولت  اللہ عزوجل اور شاہ رسالت مہرنبوت،  امامِ انبیاء کی جانب سے اور توسط سے پہنچتی ہے اور خیر پہنچ کے رہتا ہے جبکہ شر نے مٹ جانا ہوتا ہے. رات کا قیام ضروری ہے ... قائم ہونا بالذات اس لحظ سے کہ ذات کی جلوہ گری ہے. انسان کو مگر اپنی پڑی ہے تو وہ جان لے کہ سزا بھی کڑی ہے. یہ مہرِ رسالت کی کڑی ہے جس سے ملی کڑی سے کڑی ہے اور رات جس کے سامنے کھڑی ہے،  وہ کوئی توشہ ء محبت کی لڑی ہے. سن کہ تو اللہ کے واسطہ بنایا گیا ہے نائب مگر تو نے اختیار کا ناجائز استعمال کیا ہے تو ہوگیا گھاٹے والوں میں ... رب کی شان بیان کرو 
ربی ربی،  ہر صدی رب کی ہے 
ربی ربی،  رب کی شان بڑی ہے

تسبیح

یہ خزانہ ہے جس نے خیال میں مہرِ رسالت، شمع نبوت سے دنیا سجالی. یہ خزانہ ہے اور بڑی دولت ہے  جس کو مل جائے اسکو خبر ہونی چاہیے کہ وہ خود اخبار ہے اور خدا کے منشور کا وسیلہ ہے. وسیلہ کیا ہوتا ہے؟ فیض سے انتقال کی صلاحیت مل جانا. صحرا کی دھوپ میں خیال کی چھاؤں مل جانا فیض ہے.  رقیب سے درد کا مداوا کرنے بیٹھ جانا فیض ہے. ان کی نگاہ میں آجانا فیض ہے. شب گزیدہ سے اٹھ کے کھڑے ہونا اور شور میں سکوت کا سامنا فیض ہے. فیض ہر اس کا سینہ ہے جس کا سینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسلک ہے. وہ جسم جس کے قلب کی روح کے میناروں میں گنج لامتناہی نور کے سلاسل ہے اس کی پہنچ سدرہ تلک ہوجاتی ہے.

شمس کی دلاوری دیکھیے کہ دلاوروں کے پیچھے ہے ... شمس تم ہو جس کو دیکھ دیکھ کے یہ دل جیتا ہے. دل کا پیالہ عشق کی مے سے خمار آلود ہے اس میں رنگ و بو کا انتظام ہے  یہ نظام علی الصبح جاری ہے اور رات کا جاری نظام صبح صبح جانم جانم جلوہ افروز ہے  خیال اچھا ہے. کمال اچھا ہے. حال اچھا ہے


کمال کا انسان ہوا ہے آج میں جس نے قران پاک کو سینہ سے جانا ہے .مومن کو دل پڑھنے کو کس لیے کہا گیا ہے کہ سینہ لوح محفوظ سے متصل ہے.  ساری بات اس میں پوشیدہ ہے.  اس سینے کو یا قلب کو انسان ہاتھ نہیں لگا سکتا یعنی نگاہ نہیں کرسکتا. یہ باطن کی نگاہ ہے جب تک وہ طہارت اختیار نہ کرلے. طہارت لفظ جٍڑا ہے باطمن کی صفائی سے. جتنا باطن صاف ہوتا جاتا ہے فہم حاصل ہوتا ہے ... نور تو موجود ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال ہر لحظہ ہر جہت موجود ہو تو مفہوم انسان پر آشکار ہوتا ہے. اللہ کہتا ہے تو راز رکھ ورنہ راز ہستی کیا ہے؟  یہ جاننے والے بہتر جانتے

الف رکھ اور پاس اللہ کے رہ.  میم محمد سے سجا ذکر کی محفل. ان گنت درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ...ان کے نام کی تسبیح ہوجا. تسبیح عمل کی چکی ہے یا عمل کا لامتناہی دائرہ ہے. چاند کی گردش تسبیح ہے اور سورج کا روشنی دینا تسبیح ہے. شناخت کے بعد وہ کام کرنا جس کے لیے پیدا کیے گئے ہو اس میں محو ہوجانا تسبیح ہے .. کسی کا عمل لا لا لا کی تسبیح والا ہے تو کسی کا عمل الا اللہ کی تسبیح والا ہے تو کوئی سبحان اللہ کی تسبیح کرتا. ہوتا یہ ہے وہ کرتا ہے ایسے اچھے سبحانی کام اور لوگ کہتے ہیں سبحان اللہ. کسی نے قران کی قرات کی تسبیح کرنی ہے اور سننے والوں پر ترتیل سے نزول ہونا لکھا ہے قرات سے. اس سے خشیت کا دل میں اتر آنا قرات کا تسبیح ہے. کسی نے حسبی رب جل اللہ کہتے اس کے جلال کے سائے میں رہنا ہے یہ کسی مجذوب کی تسبیح ہے. کسی نے فلک پر بیٹھ کے نعت کہنا ہے .نعت کہنا بھی تسبیح اور نعت ہوجانا عظیم الشان تسبیح ہیں.  جو چلتی پھرتی نعت ہوجائے تو وہ درد کی چیخ مارتے جامی ہوجاتا ہے تو کہیں سعدی اذن سے نعت ہوتے ہیں تو کہیں مظفر وارثی کا دل حرا کی وادی ہوجانا توصیف کی تسبیح ہے. غرض کہ کرو عمل کی تسبیح.

زمین ‏،پانی ‏

زمین پانی سے بھر جائے تو پیاسے کو آنا چاہیے ورنہ سیلاب آجاتا ہے. سیلاب زندگی بھی ہے. سیلاب گلاب ہستی بھی ہے کہ درد کے مابعد کا تحفہ ہے. خوشبو کا احساس خوشبو کی جانب لیجاتا ہے. خوشبو عرش کے پانی سے وجود میں آئی ہے. یہ خاص خوشبو گلاب کی ہے جس سے بقیہ خوشبو محصور ہو جاتی ہے. شمع رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں آنسو بہانے والو. تم کو کیا ہوا،  تم تڑپ میں اویسی و بلالی ہو جاؤ تاکہ فاصلے معنویت کھو دیں. تم کو قربت کی روشنی فارس سے بحضور کیوں نہیں کرتی؟  تم پروانے کیوں نہیں بنتے؟  تم ستارے بن جاؤ کہ سورج کو تلاش ہوتی اندھیروں کو. مٹادو تم اندھیروں کو. زمینیں بہت سی ہیں جن کو نور علی نور کی مثال ہونا ہے. جن کو ایسی مثال ہونا ہے ان کے پاس سیادت ہے. یہ نسبی و نسبتی سادات جڑے ہوتے آیتِ کوثر سے. اللہ ھو کہتے یہ نسبتوں کے سلاسل میں مودب ہوتے ہیں

اقربیت کی انتہا کیا ہے؟ اس کے لیے قربت کا مقام متعین کرنا پڑے گا. خدا تو لامحدود ہے اور تم عقل کے گھوڑے دوڑانے لگے ہو. وہ بابرکت زیتون کا تیل جو ہر انسان کی رگ نسوید میں موجود ہے اسکو روشن ہونے کے دیر ہے اس کے بعد انسان نور علی النور کی مثال اندھیروں کو چیرتا نور کی مثال ہوگا. یہ ہالہ نور کہیں  بھی منتقل ہو جانا. یہ مصرف میں بے انتہا ہو جانا یہ کرم سے ہے. قران ایک ہے اور سینے بے تحاشا ہے. کوئ بشر چاہےبھی تو مکمل پیروی نہ کر سکے گا ... اکملیت اک بشر پر مکمل ہے باقی سب سائے ان کی تربیت میں ہیں. انسان نے کہانی نہیں لکھنی بلکہ کہانی نے اس کو لکھنا. انسان کے ہاتھ میں قلم ہے ہی نہیں یہ قلم تو چل چکا ہے. انسان تو آگہی پارہا ہے. آپ سب کیا آگہی پارہے ہو؟  آپ کو وجود سے بڑی بات کیا لگتی ہے؟  وجود میں قلب سے بڑی شے کیا ہوگی. یہ ہم نے سوچا نہیں کبھی کہ ہم خدا کے کتنے قریب ہیں اور ہم مانگتے ہیں اقربیت. نحن اقرب کہتے وہ اعلان کر چکا ہے اور ہم مثل عقرب اپنے مرکز سے دور جاتے ہیں من میں زہر انڈیلتے. زہر کیا ہے؟  برا گمان. گمان کرنا ہے کہ اس نے اچھا کیا یا برا کیا ... فعل اللہ کی جانب سے ہے  فعل پر ناقد ہونا نہیں بلکہ فعل کے اثرات بڑے دور پذیر ہوتے ہیں ... اک بچہ بن باپ پیدا ہوتا ہے اور نبی بن جاتا ہے ... ہم ناقد ہوجاتے ہیں جبکہ فعل تو اللہ کی جانب سے ہے. ہم جانتے ہیں زلیخا نے عشق کیا سچی طالب رہی. ہم اس کے فعل پر ناقد ہوگئے جبکہ فعل اللہ کی جانب سے ہے. یوسف علیہ سلام نے انسان سے مدد مانگی ... اک نبی نے اللہ سے نہیں مانگا یہ دکھانا تھا فعل اللہ کی جانب سے ہے. انسان لاکھ چاہے تو مفعولیت کے دائرے سے نکل نہیں سکتا. انسان نے ہدایت پانی ہے

کمال کا انسان ہوا ہے آج میں جس نے قران پاک کو سینہ سے جانا ہے .مومن کو دل پڑھنے کو کس لیے کہا گیا ہے کہ سینہ لوح محفوظ سے متصل ہے.  ساری بات اس میں پوشیدہ ہے.  اس سینے کو یا قلب کو انسان ہاتھ نہیں لگا سکتا یعنی نگاہ نہیں کرسکتا. یہ باطن کی نگاہ ہے جب تک وہ طہارت اختیار نہ کرلے. طہارت لفظ جٍڑا ہے باطمن کی صفائی سے. جتنا باطن صاف ہوتا جاتا ہے فہم حاصل ہوتا ہے ... نور تو موجود ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال ہر لحظہ ہر جہت موجود ہو تو مفہوم انسان پر آشکار ہوتا ہے. اللہ کہتا ہے تو راز رکھ ورنہ راز ہستی کیا ہے؟  یہ جاننے والے بہتر جانتے

نگاہ ‏فیض

وہ نگاہ جس سے فیض ہو جائے وہ کیا ہے؟ وہ عشق جس کو ارشاد حاصل ہوجائے وہ کیا ہے؟ وہ رزق جس میں حلال کی برکات شامل ہو جائیں وہ کیا ہے؟ وہ طلسم جو حقیقت میں قید ہو جائے وہ کیا ہے؟ وہ قدم جس سے نشان ثابت ہوجائے وہ کیا ہے؟  
پہلے قدم ہوتا ہے اور پھر نشانِ قدم ہوتا ہے. اس قدم کی پیروی میں چلنا بھی اک قدم ہے. کارواں چلتا ہے قدموں کے زیر اثر. کہیں آفتاب زیر اثر ہے تو کہیں نشان زیر اثر. ریگزار حیات میں جو بات بے اثر ہے وہ ہے بنجر زمین. زمین خالی ہو جائے تو پانی کی سیرابی بھی کیا اہم ... اہم بات یہی ہے کہ فیض رساں بات ہو. وہ بات جس سے نگاہ دل کا راز آشکار ہو. وہ حقیقت ہے. وہ موتی جس سے دل چیر دے افلاک کو. وہ تو دل میں موجود ہے. اب بھلا بتاؤ کہ موتی کیا ہے؟ یہ احسن مخلوق ہونے کا شرف پانا. اس میں انسانیت کے فرائض نبھانا. جنبش مژگان سے موتی ٹپکانا خدا کی یاد میں تاکہ خدا ہمیں سرفراز کرے. ہم نے اس کی مخلوق ہونے کا فرض نبھانا ہے

نگاہ کہے ربی ربی 
یہ دل اس کی گلی 
دل کہے مرشد مرشد
مری بات ان سے بنی 

ستم یہ ہے کہ جہانیاں میں چراغ محبت ہے اور محبت تقسیم ہورہا ہے. ستم یہ ہے نجف سے ہوا چل رہی ہیں. ستم یہ ہے کہ کربل کے مقام پر دل پڑا ہے اور آہِ نہاں میں نالہ ء دل کہنے کو تابشِ غم بھی چاہیے. ستم یہ ہے اجمیر کے شاہ کا کرم ہے کہ کرم نے سنبھال رکھا ہے. ستم یہ ہے کہ الف اللہ والی بات ہے. ستم یہ ہے قاف سے قبلہ بنتا ہے اور ق سے قربانی ہوتی ہے. وقت کے مذبح خانے میں جوہر لٹانے کے بعد مست خرامی سے چلتے کہتے جاتے ہیں کہ کرم ہے!  کرم ہے!  کرم نے سنبھالا ہے ..

آج تم ایک انسان ہو. تم سوچو تم میں ایک چراغ ہے. تم کو خوش نصیبی پر فخر کرنا چاہیے کہ تم میں چراغ روشن ہے ... چراغ اپنی روشنی کے لیے بیتاب ہوتا ہے.  چراغ میں نور علی نور کی مثال روشنی ہوتی ہے. یہ سب مرشد حق کی بارگہ ناز سے محصول بات ہوتی ہے. جب نور مکمل ہونے لگے تو شہادتیں واجب ہوتی ہیں. انسان کو چاہیے ایک دوسرے کے کام آئے کہ انسان کے دل میں محبت کے چراغ اس لیے جلائے جاتے ہیں کہ محبت سے روشنی دیں  اللہ آسمانوں زمینوں کا نور ہے. چلو اس پر غور کریں کہ اللہ تو آسمان پر ہے اور زمین تو نور کی تلاش میں رہتی ہے. زمین ایک سیارہ ہے اور اس پر سورج ہے. سورج سے جہاں منور ہے. انسان کے اندر چراغ ہے  . اس کو باہر سے اک سورج چاہیے جو اس کے اندھیرے مٹائے. جب اس کے اندھیرے مٹ جائیں تو وہ خود اک سورج ہوجاتا ہے. بے شک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے. وہ اللہ کا کرم ہے جس کو نور علی النور کی مثال کہا گیا ہے. یہی زیتون کا بابرکت تیل ہے نہ شرقی ہے نا غربی ہے. اللہ ہر سمت ہے اللہ مشرق و مغرب سے پاک ہے. جس اللہ کی حد مقرر کرلو وہ اللہ تو لامحدود نہ ہوا. جو لامحدود ہوا وہ ہر ضد سے پاک ہے. اس نے تم میں نور کی تجلی رکھی ہے اور کہا من جھاتا فقیرا، لنگی حیاتی. افسوس کا مقام ہے ان کے لیے جن کے چالیس کے ہندسے گزر گئے اور ان کی پہچان کے زینے قدم کو نقش نہ پا سکے. ایسوں کے لیے اللہ نے کہا والعصر ..گھاٹے میں وہ لوگ ہیں جن کو علم نہ ہو سکا زندگی کی دوپہر گزارنے کے بعد وہ کون ہے چالیس کا ہندسہ مبارک ہے. یہ مبارک ہے کہ اس نے انبیاء کا تعارف دیا. اس نے کئی ولی اس طرز پیدا کیے،  اس ہندسے میں چار بجتا ہے. بس اللہ باقی ہر جگہ

کوئ ‏سامان ‏تشنگی ‏مہیا ‏کرو

کوئی سامان ِتشنگی مہیا کرو
اب ابر کی نہ برسات کی ضرورت
ایک بادل کے کئی ٹکرے ہیں
ہر ٹکرا پھر ایک بادل ہے
اور ہر بادل کے پاس آسمان ہے
سیلاب بہتا رہا یہاں وہاں
لوگ سمجھتے رہے مکاں بہا ہے
میں کہتی سب خاک خاک ہوگیا
جو دنیا درد سمجھ رہی ہے
اس کو میں نے ہنس کے پینا
جو درد مجھے ملا ہے
اس کو کوئی نہیں جانا
میرا اندر خالی ہے
اس میں کون سمانا
اس رمز کو وہ جانا
جس کے پاس سب نے جانا
یہ دنیا بڑی بے مایا
کون یہاں پر چھایا
ہم نے بوریا سنبھالا
سمجھا کہ روگ پالا
ہم ہوتے روگی تو اچھا ہوتا!
بنتے ہم جوگی تو اچھا ہوتا!
یہ دنیا بڑی بے ثمر ہے
میرا پاؤں اس کی نظر ہے
میں کیا کہوں جواب میں،
کچھ نہیں اس کتاب میں،
دل درد کے لکھ نہ پائے گا!
یہ درد کیا کون سمجھ پائے گا!
جو سمجھے وہ چپ رہ جائے گا!
جو نہ سمجھے وہ مجھے تڑپائے گا!
میں نے کہا بڑا برا کردیا!
ڈ رتو میری نظر سے گر گیا ہے
میرا تعصب مجھے کھا گیا!
میری حرص نے دغا دیا!
میری آنکھ میں ریا کاری،
دل !دل شرم سے عاری،
کیسے ہو دور اب گنہ گاری؟
ہم کو اُس دنیا جانا ہے!
جہاں انسان بستے ہوں!
وہاں مکان گر جانے سے،
کوئی فرق نہ پڑتا ہو!
دلوں میں چراغ جلتے ہوں!
ان چراغوں کی لو سے،
خود کو جلا جانا ہے،
ہم کو اس دنیا میں جانا ہے!
جہاں سے روشنی بن کے نور،
ذات کو نور کردے،
میرے من کے اندھیروں کو
دور کردے ۔۔۔!
اندھیرا دور ہوجانے کے بعد
ہمیں سب سمجھ آئے گا!​

اب کہ کوئی سوال نہ ہو،
یاس کو اب جواز نہیں!
درد کا اب حساب نہیں!
یہ مجاز کی رمز کی بات نہیں!
جل کے مرنا اس میں پیاس نہیں!
غلطی سے دل کی بات لکھی!
اس کی سزا میں نے چکھی!
مجھے معاف احباب کردو،
میرے الفاظ میں ندامت ہے
ان کو اب نظر انداز کردو
یہ سمجھ ، وہ سمجھ اور نہ سمجھی!
سمجھ کر بھی جہاں میں نہ سمجھی!
دنیا میں آتے جاتے رہیے
آنے جانا ایک میلا ہے
کون اس دنیا میں اکیلا ہے
وہ ذات جو کمال حق ہے
وہ نصیب کی بات ہے
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے​

دوستو! عشق کا تحفہ بڑی چیز ہے. جس کو اس سے نوازا جاتا ہے اس پہ اک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ محبوب کے رخ کا پردہ بڑی شان سے اٹھاتا ہے ... جس کو اجازت حجاب اٹھانے کی دی جاتی ہے، اس کو حجاب کے اندر داخل ہونے دیا جاتا ہے. کائنات کی دوئی ہجر کی اساس ہے اور وصل کی شراب عاشق کو دے دی جاتا . "لا " کی تسبیح تھما دی جاتی ہے

لفظوں کو اظہار دیجیے
ان سے بے حد پیار کیجیے
خالق کی نشانی ہیں لفظ
حقیقت کی ترجمانی ہیں لفظ

اک در بند ہوتا ہے تو سو در کھل جاتے ہی. وہ جو نیند کی طلب سے بے نیاز ہے یعنی کہ پیغام اجل! و وہی دے سکتا 

ہے. وہ سب سے بڑی طاقت ہے اس لیے نہیں کہ اس نے صرف دنیا بنادی مگر اس لیے کہ اس نے سب .چیزوں میں کشش پیدا کی. اس کشش میں محبت و عشق کا خمیر ڈال دیا .گہرائی کو عشق سے اور سطح کو کشش سے بھر دیا ...زمین پر چلنے والا نفس کشش میں رہتا اصل سمجھ نہیں پاتا، فساد برپا کرتا ہے جبکہ مرکز کے اجسام کے پاس اصل کو پہچاننے کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بس اسی کے ہوجاتے ہیں ... بس ان کے دل مین واحد کا بسیرا ہوجاتا ہے ... اس کی بارش میں بھیگنے والے ہر غرض سے بے نیاز کر دیے جاتے ہیں ...آزاد روح! آزاد روح کبھی قید نہیں ہوتی ..ان کی آزادی خالق کی نشانی ہوتی ہے ...اس نشانی کا احساس ایسا معجزن ہونے لگتا ہے کہ خود کی ذات معتبر ٹھہرنی لگتی ہے .... 

میرا وجود ترے عشق کی ہے خانقاہ
ہوں آئنہ جمال ترے عشق کا کمال ہے

بندہ مومن کے دل میں طلب دیدار پیدا کردی جاتی ہ ے..وہ شادی کی کیفیت! دنیا ہیچ ہے اس کے سامنے !. سب خزانے ہیچ ..

علم.و روشنی کا خزانہ وہی تو ہے
میراعشق و فسانہ وہی تو ہے
قلم! قلم کی قسم! قلم کی عطا
اس عطا کی انتہا مجھ پر ہے
!وہ کون ہے زمانے نہیں جانتا
!وہ وہ ہے جسے میں جانتی ہوں
وہ وہ ہے جس کی شہنائی درد والی ہے
وہ وہ ہے جس کے در کی دنیا سوالی ہے
ہم نے اس کے لیے کیا آنگن خالی ہے
دیکھ! میری گالوں میں سرخی، ہونٹوں پہ لالی 
میں اس کی ہستی کی مست حالی ہوں
میری بستی میں اس کا بسیرا ہے
جس کے دم سے جہاں میں سویرا ہے

مرض مجھے ملا یے اور میں مریض عشق ہوں..جس کو عشق میں جلنا ہو تو خود کو آگ پہ جلتا محسوس کرے. وہ آگ ٹھنڈی ہو جائے گی جبکہ اندر کی آگ تو بھڑک اٹھے گی ..اے دل والو! اندر کی آگ بھڑک رہی اور وہ جو دور ہے وہی قریب ہے. وہی جو قریب ہے وہی نصیب ہے اور جو نصیب ہے وہی حبیب ہے جو حبیب ہے وہ میرا جلیل ہے

وہی جو جلیل ہے وہ خلیل ہے. جو خلیل ہے وہ اسماعیل ہے. جو اسماعیل ہے وہی کلیم ہے جو کلیم ہے وہی روح ہے۔ جو عشق ہے اس کے انداز تو نرالے ہیں ،محمدﷺ کی صورت میں عشق مکمل ہے

محمدﷺ میں تیری حکمت مکمل
بصورتِ بشر  میں وہ  تیرا   تجمل

محمدﷺ کی ذات کے نور سے امت محمدیﷺ کو فیض حاصل ہوا ہے کہ وہ ان کا آئنہ بن سکیں ۔ حق ً! یہ واقعتا ! نصیب کی بات ہے کہ ہم انہی کی امت ہیں ۔ ان کا ہونا ، ان کی محفل میں رہنا بڑی قسمت کی بات ہے ۔۔امت محمدیﷺ میں بھی چنیدہ لوگ اس بات کے لیے انتخاب کیے گئے ۔تشنگی کا صحرا ، پیاس کے ابر میں ان کی پرورش کی گئی ۔ان پر ان کی نسبت سے فقر کو زندگی کا خاص تحفہ دیا گیا ۔ آزمائش کے واسطے پہل ان کے خاندان سے ہوگئی ۔ ان کا خاندان وسعت میں امت محمدی ہے ، اور حد میں عشاق کا قافلہ اس میں شامل ہے ۔سیدنا امام حسین علیہ سلام اس کے امام ہیں  جن کو نسبت سیدنا حضرت علی رض سے بھی ہے اور جن کو نسبت سیدنا محمدﷺ سے بھی ہیں ۔ ان کی امامت میں چلنے والے حق کا نور ، دل کا سرور ہوتے ہیں ۔ وہ خاص لوگ دنیا کے لیے تحفہ ہیں ،ان کی ذات کی تشنگی کا سامان بھی تشنگی ہے ۔

جس ‏کی ‏کرسی ‏عرش ‏پر ‏قرار ‏ہے

جس کی کُرسی عرش پر قرار ہے
وہ میرے ساتھ چلا ندی پار ہے
ندی میں عشق کا رنگ دیکھا
مقتول عشق ندی کنارے بہتا پایا

سُرخی نے لالیاں ندی اچ نیراں
سرخی اُتے نور، نور نال چلی جاندا اے
 سرخی اندر وی ! سرخی باہر وی اے
 ہستی اچ ہستی نے ہستی لبی اے
آئنہ جیوں آئنے دے اچ رلیا اے !
آئنے   تے نور دا ناں لکھیا اے
 سرخی نے پالیا سرخی چولا  اے!
میں لبدی پھراں کتھے گیا چولا!
یار نے رقص آئنہ وچ ویکھیا اے
 جیویں ندی اچ ندی ملدی پئی اے !
میرا رنگ روپ اُڈیا 
لالی نے  کیتا  مست حال
دل اچوں آری ہوگئی آرپار
بسمل وانگوں تڑپدی پیئ آں
اُوس نے ویکھ ٹھردی پئیی آں
یار حدوں حدی قریب ہویا اے 
اودھی خشبو دی سنیاں واجاں ایں
اللہ ھو ! اللہ ھو ! اللہ ھو !

ھو دی گلاں کریاں ہن  کیہ کیہ  میں
ھو نے کردی انگ انگ اچ سج دھج
نچاں ''الف '' تے ''میم'' دے سنگ
''م'' دی ہستی ویکھاں گی الف دے نال

اس کی آنکھوں سے جہاں دیکھا  میں نے 
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے میرے دل کا حال
وصل کے شیریں شربت کا  جام مل گیا ہے

وصل دی بوٹی مشک و عنبر وانگوں
کیہ دساں کیہ اے ہن میرا حال 
الف دی مستی لکی اے میری ہستی اچ
مٹڈے جاندے  نیں ہن ہستی دے زنگ
بارش چھم چھم کریندی جاندی اے
وصل دی گلاں کریندی جاندی اے

بارش میں بھیگی بارش بنتی گئی 
بارش نال بادل دا بسیرا
چھاندا جاندا اے ہنیرا
اندر سویرا تے بار ہنیرا
مینوں بار کج نظر نہ آوے
ایڈھے اچ میں ڈبدی جاندی آں
جیویں رت ہنیرا لاندی جاندی اے
رشنائی اندر چھاندی جاندی اے 
ایس رشنائی نے مینوں کیتا بے رنگ
رشنائی نوں رشنائی لکھواندی پئی اے
عشق دی رشنائی وڈی نورانی اے
لکھدی پئی میں ایس دی کہانیاں
ھو ! ھو ! ھو! ھو !
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو

اسکی ‏شہنائی ‏گونج ‏رہی ‏ہے

اس کی شہنائی گونج رہی ہے 
روح مستی میں گھوم رہی ہے
جوگ پالتے کردیا اس نے روگی
اس کی بات میں خود کو میں بھولی
ضربِ عشق سے ذائقہِ موت ملا
کلُ نفس ذائقتہ الموت
یہ کون میرے سامنے ہے
میں کس کے سامنے ہوں 
وہ میرے یا میں اس کے۔۔۔؟
ہجرت میں گمشدہ روح پہچانے کیسے؟

وہ جو اس جہاں کا سردار ہے جس کے اشارے سے سب کام چلتے ہیں ۔ جس نے میرے دل میں دھڑکن دی اور اس دھڑکن میں اپنے نام سے رونق دی ۔ اس کو جلوہ دل کی مٹی کو بہت نرم کردیتا ہے مگر اس کے کے ساتھ غم کی ایسی کیفیت لا حق ہوجاتی ہے جس کو میں کوئی بھی نام دینے سے قاصر ہوتی ہوں ۔یوں لگتا ہے کہ دل کو مٹھی میں بند کرکے نچوڑ دیا گیا ہے مگر ہر سانس شہادت دیتی نظر آئے اور زندگی آزار سے آزادی کی تمنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!اس دل کو درد ملتا ہے مگر کون جانے کو کتنا درد ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟ شاید صدیوں کا درد ملا ہے یا ایک پل میں صدی کا درد ۔۔۔۔۔۔! میرے سوا اس درد کو کون جان سکتا ہے کیونکہ اس کو سہنے والی میری اپنی ذات ہے مگر میں اپنی اوقات میں رکھی ہوئی اس سرخ پلیٹ کو دیکھتی ہوں جس میں چھپا وصل کا نقاب مجھے اپنی اوقات سے بڑھ کے دکھتا ہے ۔ بحرِ وجود سے نکلتی درد کے بے کراہ لہریں ساحل پر  شور کرتی ہیں تو لفظوں کی صورت شور کی آواز میں بھی سن لیتی ہوں ۔ لہریں بحر سے علیحدہ ہوتے ہی اپنا وجود دھارتے مٹی میں مدغم ہوتی جاتی اور میں اپنی ذات کے منقسم ٹکروں کے رقص پر حیرت کناں! جونہی حیرت کے دریا میں غوطہ زنی کرتی ہوں تو اپنی حمد اپنے یار سے سن کے خراماں خراماں چلتے اس کے سامنے سر بسجود ہوجاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔

اے یار سجدہ بنتا ہے
سجدہ کے بعد جلوہ  ہے
جلوہ کے بعد حیرت ہے
حیرت کے بعد کچھ نہیں ہے
میں غائب ہوں ! وہ موجود!

مقامِ شُکر کہ موت آن پُہنچی
مقامِ شُکر کہ میں چُن لی گئی
مقامِ شُکر کہ بعد موت زندہ ہوں
مقامِ شُکر کہ آبِ حیات پیا ہے !
مقامِ شُکر اس کو پہچانا ہے !
مقامِ شُکر کہ اس نے بنایا مجھے
مقامِ شُکر کہ میں اسکا جمال
مقام شکر کہ میں اس کا کمال
مقامِ شُکر کہ میں اس کے ساتھ
مقامِ شُکر کہ وہ ہے  میرے پاس 
مقامِ شکر کلمہ توحید میں پڑھا
مقامِ شکر کہ مرشدیت محمد کی ملی 

اپنی ذات جب فنا کے سفر پر روانہ ہوئی ہے تب سے ہستی کے ذرہ ذرہ نڈھال مستی میں اپنا وجود کھوئے جارہا ہے اور بادل بنتے ابر کی شکل میں ڈھلتے برسنے کو تیار ۔۔۔۔۔۔! وہ جو شاہد ہے ، وہ جو مشہود ہے ! نور کو اسی کا طرز عمل ملا ہے جس پر وہ چلتے یار سنگ رقص کرے گی ۔ میرا نام آسمانوں میں نور کے نام سے لکھا ہے کہ لوح قلم پر میری پیدائش اسی نام پر رکھی گئی ۔ہستی تو نور بن کے بکھر جانی ہے اور باقی کچھ بھی نہیں بچنا ! اس کے ساتھ پر کچھ ایسی گمان ہوتا ہے کہ میرا وجود جبل النور کی مانند روشن ہے اور میں اپنی  حمد میں خود مصروف ہوں گویا کہ میں یار کی تسبیح کرتی ہوں ۔دوست جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں اور میں نے بھی اپنے یار کو پہچان لیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تیرا نام نور ہے اور میں کہتی ہوں کہ مالک تو تو سراپا نور ہے ! نور کا کام یقین کی روشنی دینا ہے ۔ حق ! حق ! حق ! میں اس کے رکوع میں گم ہوں اور اس میں فنا ہوں ۔۔! فنا کے سفر میں پہ در پہ انکشافات نے وجود میں بھونچال بپا کردیا ہے اور حرارت بدن نے محشر کی سی گرمی بخش دی ہے ۔میری ہڈی ہڈی اس کی تسبیح میں گُم ہے ۔ اس محشر سے جسم روئی کی مانند بکھرتا جارہا ہے جیسے شمع اپنا بدن گھل گھل کے ختم کردیتی ہے بالکل اسی طرح ہڈی ہڈی سرمہ ہوتی جاتی ہے مگر کیا غم ! اس کی فنا  کے حال میں کیا پروا؟ کیوں ہو پروا ؟ میں تو اس کی تسبیح میں ہوں اور مجھے لا الہ الا للہ کی تسبیح ملی ہوئی ہے ۔

 اس نے نور کو آزادی دی ہے ، آزادی جو بعد موت کے ملتی ہے ! جو بعد فنا کے ملتی ہے ! جب اس سے فریاد کرتی ہوں کہ تجھے دیکھنا ہے ! اپنی دید تو کرادے نا ! تو وہ کہتا ہے کہ جاؤ ! نوریو ! 

تڑپ دلِ مضطر کی بڑھ چکی ہے
ابر رحمت کی برسات ہوچکی ہے 

اس کو تسلی دو کہ اس کی بات سن لی گئی ہے ۔ وہ پاس آتے ہی  حمد شروع کرتے ہیں میں اپنے مالک کی تسبیح میں ان کے ساتھ ہوتی ہوں اور صدائے درود عاشقانہ مجھے مسحور کیے دیتی ہے

اللھم صل علٰی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔

درود کے ساتھ پیرکامل کی نظر ہوجائے تو دل میل کے دھل جاتے ہیں اور کثافتیں سب غائب ہوجاتی ہیں ۔دل توحیدی میخانہ بن جاتا ہے ۔ جام در جام پینے کے بعد میخانہ کو میخانے کی طلب ہوتی ہے کہ اب پیاس اس صحرا کی اسی در سے بجھ سکتی ہے کہ جانے کب اس در پر ملے حاضری اور کب ہو یار کی دید ، کب ہو مرشد کامل کا جلوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔! مرشد کامل کی نظر ، کرم ہے مگر اب دل دید کے سوا کچھ  مانتا نہیں ہے ۔۔۔جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اسی در کی ہوجاؤں اور دل کے بجھے چراغ اسی در کی روشنی سے جلالوں ۔۔۔۔۔۔!

لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں کھال اترنی ہے
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں زبان کھینچی جانی ہے
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں دار پر مستی کرنی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ.اللہ ‏کے ‏نام ‏سے ‏دل ‏بنا ‏ھو

اللہ ! اللہ کے نام سے دل بنا ھو !

ھو کے نام سے دل میں چھایا سکوت!

سکوت نے دل میں جما دی غنود !

اترا دل میں صحیفہِ سورہِ ھود !

لا الہ  الا اللہ انت سبحانک انی کنت من الظلمین !

بیشک ہم جسے چاہیں نوازیں !

وہ جسے  چاہے نعمت دے !  وہ جسے چاہیں صحت دے ! وہ جسے چاہیں شاہی دے ! وہ جسے چاہیں دولت دے ! وہ جسے چاہیں فقر دے! 

تاحدِ گُمان فلک سے کچھ برستا دکھائی دے رہا ہے ، نعمت و رحمت سے  زمین کی جھولی کو بھرا جارہا ہے ۔یہ جو نیلے نیلے دھاگے ہیں ! یہ جو زرد ریشم ہیں ! یہ سیاہ سیاہ پتھر ہیں !یہ نعمتِ خداوندی ، یہ رحمتِ خداوندی ! یہ جو سرمئی سرمئی  نگینے ہیں ، جن کی چمک بالکل اسی طرح جس طرح تازہ انگور شاخ سے توڑا جائے ۔ان کی شبیہ زمرد سے ملتی ہے ، یہ زمرد ---یہ میرے نگینے ۔۔۔۔ شاخِ ہستی سے لٹکے ، زمین کی سطح پہ گرتے انار کی مانند سرخ لعل ۔۔۔یہ میرے لعل ، میرا جواہرات ۔۔۔ یہ نعمتِ خداوندی ، یہ رحمتِ خداوندی ۔۔۔میرے ہادی نے تحفہِ الانجیل مجھے تھما دیا ہے ! میرے دل کو نسخہِ کیمیا دیا ہے ، نسخہِ کیمیا گری نے دل کو طور کردیا ، دل کو نور و نور کردیا ہے

کبھی دل طور کبھی مدینہ !

کشتی کو مل گیا سفینہ !

جینے کا آ گیا ہے قرینہ !

نہیں اب کوئی آرزو دیرینہ!

اے مالک ، یزدان ، حسنِ ازل ---- محبت کی قسم کھائی ہے آپ نے ، وہ محبت مجھے لوٹا دو !

رفعتوں پر بیٹھا ، لامکانی پہ مکین ، مکان میں سمایا ، میرا حبیب ! میرا سہارا ! 

اے رفعتوں پر مکین ! لامکانی میں معین ، مکان میں مکین ! جلوہ کب ہوگا ؟ معراج کب ہوگی ؟ اے ''الباری '' اے مصور'' اے جمیل ! روح کو مستی دی ایسی کہ مستانی ہوگئی ہے ، مستانی ہوئی کہ دیوانی ہوگئی ہے

وہ جو کوہِ طور ہے ، وہ وادی النور ہے ! دل میں اتر گیا صحیفہِ النور ! وہ جو معراج کی باتیں ہے ، جس سے سینہ پُر ہے، اس سے دل ہوتا  مدینہ ہے ! 

اللہ نور السموتِ ولارض 

وہ آسمانوں کا نور ، وہ زمینوں کا نور

وہ آسمانوں کا علم ، وہ زمینوں کا علم 

وہ نورِ کل ، وہ علمِ کل ، وہ عقلِ کل

جسے چاہے علم سے نوازے ----جاننے والے کیسے نہ جاننے والوں کے برابر ہوں ، وہ جانتے ہیں تیری حقیقت ، تیری عظمت ، باعثِ تخلیق کیوں ہے مظہرِ خاک، جب علم کے خزانے نواز دیے جاتے ہیں تب کمالِ روح کسی ایک خزینے پر کامل ہوتا ہے ، کسی کا دل آیت الکرسی سے جڑا ہوتا ہے ۔ علمِ کمال آیتِ سردار سے کامل ہوجاتا ہے ۔ یہ خزانہِ علم ہے جسکو جس پر عام کردیا جائے وہ خاص کیا خاص الخاص ہوجاتا ہے

قلب پہ تجلیات کی ابتدا کسی نہ کسی بہانے ، وسیلے سے ہوجاتی ہے ، کبھی کوئی جملہ ، کوئی لفظ ہادی بن جاتا ہے تو کبھی کتاب یا سورہ گنجینہ الاسرار ثابت ہوتی ہے ۔۔۔ بعینہ جسکا علم دل میں منقش ہوجاتا ہے ۔۔۔ جسکے دل میں سورہ الاھود کا علم اترے تو سمجھ لے وہ جانبِ صحت ایک قدم ہے ، جانبِ روح پہلا زینہ ہے ، یہ کلمہ پلِ صراط پر اترنے کے بعد یقین و ثابت قدمی کی ضمانت ہے ۔ اسی کلمے سے صراط پار کی جاتی ہے ۔یہ اسمِ اعظم روحی ہے۔ یہ اسم اعظم نورانی ہے ! یہ وجدانی ہے ! یہ کیف و جلوے کی علامت ہے ! یہ جلالت ہے ! یہ الوہاب کی باتیں ہیں ! یہ الرزاق کے رزق کی علامت ہے !

 یہ جو روح کا کلمہ ہے ، یہ میرا کلمہ ہے ! یہ ترا کلمہ ہے ! جس پر نگاہِ الطافانہ حضرت  محمد ﷺ کی ہو ، اسے چاہیے اپنی صبح و شام درودِ ابراہیمی میں گزاردے کہ یہ معطر و معجل کردینے والا کلمہ ہے ۔ جب یہ احساس ہو کہ دل کی مٹی میں نمی ہے ، دل میں خشیت سے رعب بیٹھا ہے ، جب کبھی سکوت سے دل گھبرا جائے تب درود کی میٹھی میٹھی ہوا سے دل کو حلاوت پہنچانا مستحسن ہے ۔ 

الباری --------الوالی 

اللہ کے دو عالی نام 

بناتا ہے ، مٹاتا ہے ، مٹا کے بناتا ہے

محبت دیتا ہے ، محبوب رکھتا ہے 

الباری ، الوالی اسکے دو عالی نام

القھار ----------المھیمن 

اللہ کے دو عالی نام 

یہ تاجداری ، یہ  مشکل کشائی 

یہ غلبہ ، یہ جلوہ ، یہ ہبیت و جلال 

سب سے برتر ذات ہے وہ

سب کا مشکل کشا ہے وہ

ذکر کو میرے جو عام کرے

اسکے لیے بڑے انعام ہیں پڑے

یٰس (1) وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ (2) إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (3) عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (4) تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (5)

کلماتِ یسین ---- یہ علامت ہے جبروتی کی ، رحمانیت کی ، قربت کی ، شافیعت کی ، یہ نشانیاں ہیں ۔ یہ نشانیاں جن کو یقین سے پڑھنے پر علم میں اضافہ ہوتا ہے

ذکر ‏مصطفی ‏میں ‏دل ‏جھومتا ‏ہی ‏رہتا ‏ہے

ذکر مصطفی میں دل جھومتا   ہی رہتا ہے

شمع  گرد پروانہ گھومتا ہی رہتا ہے

*****

یہ میری آنکھ کے آنسو جو چشمِ نادیدہ سے جاری ہیں ، وہ اسمِ حق کی تپش ہے ، جو نمی دل میں ہے وہ عکسِ مصطفیﷺ کی رُوشنی ہے جس نے میرے گرد ہالہ کر رکھا ہے ۔ ذات میں خلا سا ہے ،جیسے میں ایک قدم پیچھے ہوں سفر میں ، سفر مُبارک ہے جس نے میرے رگ و پے میں جستجو کے نادیدہ دروازے وا کررکھے ہیں ، ان سے جاری اضطراب کو سرر کی ہوا سے ٹالا جاتا ہے ۔ میری آنکھوں میں چمک ہے وہ جلوہِ یار کی بدولت ہے

ذکرِ مصطفیﷺ میں دل جھومتا رہتا ہے

شمع گرد پروانہ گھومتا ہی رہتا ہے

یار کی حضوری میں روح جھومتی ہے تو

قلب، نامِ احمد ﷺ کو چومتا ہی رہتا ہے

شوق میں مقامِ حیرت کا ذکر ہوتا ہے ، حیرت کے اسرار کیا ہیں کوئی نہ جانے ۔ بس ایسی جگہ ہے جہاں پر اپنی ذات کا جلوہ رہتا ہے ، ہمیں یہی ذات ساجد دکھتی ہے ، یہی رکوع میں ، اسکی فنائیت پل پل میں خبر دیتی ہے ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ رابطے میں روح سرکارِ دو عالم سیدنا ﷺ سے رہتی ہے اور ایک لمحے کا یہ رابطے گوکہ بے پایاں خوشیاں دیتا ہے اسی شدت سے ہجر کی لہروں کو تن بدن میں آتش کی طرح بکھیر دیتا ہے ۔ بدن ایسا کہ جلے تو دکھے بھی نہیں ۔

زندگی میں بیقراری کا مقام قرار کے بعد سے شروع ہوتا ہے ، جتنا انسان بیقرار رہتا ہے ، اتنا سکون ملنا ہوتا ہے ، یہ روح جس نے کبھی غارِ حرا کے گرد گھومتا ہوتا تو کبھی مسجدِ نبوی کے مینارے نگاہ کے سامنے ہوتے تو کبھی جالیوں کے آگے کھڑی روح سلام پیش کیے رہتی ہے ، دل میں خواہش اُبھرتی ہے کہ اتنا درود بھیجوں ، اتنا سلام بھیجوں کہ کائنات کی کسی روح نے نہ بھیجا ہو ، اتنی اطاعت کروں کہ پہاڑ گرپڑے مگر سرمہ بھی دھول بن کے نامِ احمد صلی علی پڑھتے پڑھتے بکھر جائے ، پہچان ختم ہو تو پہچان ملتی ہے ، شناخت نے زندگیوں کو مسمار کررکھا ہے ، انسان کی پہچان تو بس فنا میں چھپی ہے

سلام اے میرے شہر میں مقیم اے عالی مقام ، سلام اے سدا بہار مسکراہٹ کی حامل ہستی ، اے میرے عالی مقام! عید بھی تب ہوتا ہے جب شمع کا جلوہ تیز ہوجاتا ہے اس جلوے سے آئنہ صیقل ہوتا رہتا ہے ، عکس اتنا پڑتا ہے کہ نقل و اصل کا فرق مٹ جاتا ہے یہ مقام جس کی چاہت ہے کہ میں نہ رہوں بس میرا حبیب رہے ، میں ایک اڑتی ہوئی خاک کے ذروں کی مانند بکھری رہی ہوں ، ہر ذرہ میں جلوہ رہے ، جلوے میں ہزار وں تجلیات کے اسرار رہیں ، ہر اسرار ہزاروں راز کلامِ الہی کے منکشف کرے ، میری ذات میرے لیے مشعلِ ہدایت ہوجائے ، میرے دل میں بس تو رہے میں نہ رہوں

میں خاک ، جلوہ بس تو

میں ذرہ ، باقی بس تو

میں فانی ،لافانی بس تو

میں عکس ، آئنہ ہے تو

میں آئنہ ، جلوہ بس تو

جلوہ تو ، میں تقسیم

ہزار ہوگئے آئنے

جن میں دکھتا بس تو

اے میرے موسی ، جلوے کی تابش میں جلنا ، جل جل کے مرنا ، مر مر کے زندہ رہنا ، عشق نے مجھے مجبور کردیا ، طواف کب شروع ہوتا ہے کب ختم وہ تو ہوش نہیں بس ایک ہی ہوش رہتا ہے کہ بس تو ہی ہے ، اے لافانی یہ دنیا جو تخلیق کے مادے سے معرض وجود میں آئی ،، اس کے اندر سے جو روشنی نکل رہی ہے وہ بس تو ، میری آنکھ میں سرمہِ دید ہے ، میری زبان میں ذکر محمدﷺ کی چاشنی ہے ، اتنی مٹھاس روح میں کہ خوشی کا سا مقام ہے ۔۔۔ کب ہوگا آپ کا جلوہ، اے میرے یحیی ، کب ہوگا ، یہ دل تو سب ایک آس میں جی رہا ہے کہ کب میں آپ کی محافل میں شرکت کروں گی اور کب یہ شرکت ہوگی ، اے میرے ہادی بس دل نہیں سمجھ سکتا کہ کونسا تحفہ دوں جب آپ شہر میں تشریف لاتے ہیں میرے شہر شہر میں روشنی سے احساس کی پلکیں بھی روشن ہوجاتی ہیں

مصطفوی ‏چراغ

مصطفوی چراغ لیے کملی نے جنگل میں روشنی کرنا چاہی ...کملی عین وسط میں پہنچی اور تو شیر خدا دیکھ کے ہیبت سے ڈر گئی .... شیر خدا کے ہاتھ میں حیدری شمشیر ... اس پہ لکھا ہوا تھا
 
ورقہ بن نوفل نے تصدیق کردی تھی. اس لیے  پیغام پہنچانا الہامی عمل ہے ...نور الہامی سیڑھیاں کیا چڑھ سکے جو خود ملحم نور ہے ...

یہ پیغام سے بھرپور شمشیر کملی سے کہا جاؤ، میں دیکھ رہا.ہوں سب ...
 
کملی نے یہ شمشیر کمر پہ باندھ دی اور سرور میں مبتلا ہونے کو تھی کہ حیدری آواز کے جلال سے ڈر گئی ... 

سرر کے میخانے سے چلتا نظام ہے، یہاں کاروبار عشق بدنام ہے،  طبیب سے کیسا کام ہے؟  کیا تو ابھی خام ہے؟  ترا تو انعام ہے؟  تجھے ملا کام.ہے؟  شمس ہدایت نے نگاہ ڈال رکھی ہے .

تلوار، کملی نے نیام سے نکال لی ..شیر خدا کو سلام کہتے روانہ ہوگئی ...شیریں سخنی پہ کمال تھا،  لبی لبی دود ہستی سے پھیلا دھواں جس کی خوشبو گلابی،  عنابی .... 

جنگل کے رستے خواب مل گیا.  خواب سے پوچھا،  ملاقات کب ہوگی ..خواب نے کہا جب نظام سرکار نے دعا دینی ہے ..ملاقات ضروری ہوئی .... تلوار اٹھا کے کملی نے اسکی حرارت دل میں ڈالی ..جس سے دل ایسے موم ہوا کہ پگھلنے لگا ...جو سیسہ.تھا وہ موم ہوا ...ہائے خدا یہ موہوم ہوا .... جھکائی زمین جو زمین پہ نیاز میں تو محفل مولائے حیدرم سے مالک کون و مکان.،  واصف دو جہاں سے،  امیر الاخیر الانام سے ہوئی ..پوچھا کہ کیا دیکھا کہ حیرت  ہوئی ...

سیدی مولا کی شان میں مدح خوانی کی سعادت پائ ہے ..اشک بامنزل.رسائ پائ ہے ..

سیدی مولا... یا مصطفی 
عربی.ڈھولا....یا مصطفی 
کمال.مرشد،  کمال نبوت 
کمال.بندگی یا مصطفی 
سید البشر کا.شیریں لقب 
حیات و ممات کا.سبق 
کیا لمحات ہیں یہ عجب 
ملتا اسے جو کرتا ادب 
ادب سے روشنی پائی  ..
روشنی نے زندگی دی 
زندگی نے درد کا رشتہ
شکستگی سے ہے خوشی 

جمال نبی کی نظر سے "بدلی "ہوئی
برسات میں نور برستا دیکھا یے 
محمد محمد کا نوری کلمہ.دیکھا 
دل ملا،  دل جلتا ہوا .تب دیکھا 
شاہ ولی سے ملا ولایت کا تحفہ 
شاہ ولی نے زمین پہ نام محمد لکھا 
شاہ ولی کا بارِ علم سماوی نور ہے 
شاہ ولی کا  شعار یقین رہبری کا.سرور ہے 
شاہ ولی نے حسن کی چادر اوڑھے ہوئے 
دل صدقے دل پہ ہزار جان نچھاور

من کی بتیاں نچھاور، مرے یاور 
کمال کی  یہ اگر بتیاں، مرے یاور 
مل رہےنوری ہالے،  جل  رہے سارے 
سرر نے عجب حال کر رکھا ہے 
شاہا نے سایہ ڈال یوں رکھا.ہے 
کمال کی چادر گلابی گلابی.ہے 
حیا کی.چادر سرخ عنابی ہے 
کفن پہ نام محمد کی تجلی ہے 
شاہا کے نام کی یہ "کملی "ہے 
کملی جانے کیا، .ادب سے جھکی 
شاہا کی نظر سے مست و مجذوب 
شاہا کے الطاف کی حد نہیں ہے 
ان کے قد  کی. کوئی حد نہیں.ہے 
شام حنا نے رنگ سے اجالا کردیا 
آقا کے نور نے یوں بول.بولا کردیا 
کعبے نے شوق حضور میں کہا ہے 
نور کے دل میں مرا حبیب رہا.ہے 
کعبہ کا کعبہ دل مجذوب ہوا ہے 
قصہ یوں عشق کا.مشہور ہوا ہے

 
سماوات پہ میم کی عجب مثال 
سنگیوں پرروشنی،  عجب کمال 
آپ کی نعمت ، دل پہ نوری ہالہ 
دل کہے جائے شاہ والا.شاہ والا ... 
قبر پہ روشنی.،  روشنی.ہادی ہے 
یہ قبر نہیں، غار حرا کی.وادی.ہے
غار حرا  میں  اصحاب کی باری 
محفل میں ادب یوں  ہے  طاری 
خاموشی کا یوں ہے سرر طاری 
آمنہ کا لعل،  عبد اللہ کا چاند 
اللہ کی کمال تصویر ہیں شاہا 
میرے دل میں رہتے مرے بابا 

سرکار کی آمد مرحبا 
دلدار کی آمد مرحبا 

فقیر ہوں،  فقیر پہ اہل کرم کا کرم 
خالی جھولی کا رکھا ہے یونہی.بھرم 
جھکا رہا سر مرا کہ عاری ہے شرم 
مرے سر پہ شاہا کا ہاتھ،  ان کا ہے کرم 
نوازئیے نور ابدی کے کامل آئنے 
مطلق حقیقت کے سب کامل.آئنے 
درود سے چلتا ہے نظام  مصطفوی 
مصطفوی نور میں.چمکے حجابات 
مصطفوی نور سے ہوتی رہی ہے بات 
آج تو پانی پانی ہو رہے ہیں سماوات،
چہرہ محبوب دیکھنا ؟ دیکھنا حق  
چہرہ محبوب دیکھنا عبادت،  حق  
چہرہ نور سے بقعہ نور بنا دل،  حق
جانب طور سلسلہ.ء جبل کمال روشن 
تقریب حسن کی، رعنائی تو دیکھ 
دل سے بجتی ہے شہنائی تو دیکھ 

ملائک سے سماوات مخاطب 
مولائے کائنات سے آپ مخاطب 
یوں سلسلہ ہائے نور در نو.چلا 
عرش سے نور فرش تک چلا 
زیست کے سفر میں کفر اضافی 
شمس کی زندگی ولا میں کافی 
اللہ والے  پہ رہتا الوالی کا سایہ 
جو ملے سایہ تو بدلتی.ہے کایہ 
نام محمد تو جہاں  پہ چھایا ہے

کلمہ حق کی استمراری زبان ہے 
نام محمد تو اللہ کی گردان ہے 
حق نے سج دھج کی میم مثال لیے.
مثل کائنات سے  ہوئے خیال زیر بار 
ہار،  سے جاتے ہیں جب ملتے ہیں یار 
یار سے ملیں تو تیر چلتے ہیں آر پار 
یہ وار، محبت کے تلوار سے کاری ہیں 
نعت لکھنے کو ہجوم سے بھاری ہے 
کاف سے کچلی جاتی ہے، حم سے حامل 
ع سے قربانی ء بسمل ..تحفہ مقبول 
کرم کا سلسلہ چلا، مرے دل تک 
گمان سے نکلا یقین بنا تصویر تک

کیا ملا؟  کیا نہ ملا؟  کانچ کے دھاگے سے لکھا میں نے یہی بار بار،  عشق  خالص کہاں ملےبار، بار،بار ... اٹھاتا ہے جو بار اس کا،  وہ ہوتا ساحل پار ...

چاند سے نکلا نور، نور حزین کو ملا، چاند نے تحفہ ء معراج کو بخشا لطیف احساس .... خوشبوئے محمد سے دل ضیا بار ...کمال نے کردیا حالی حال ... خوشبوئے زلف محمد سے نکلی عنبر کی مہک خوشبوئے لالہ،  موتیا اس پہ نثار، آپ کے دلاور لہجے میں چھپا جلال، شاہ ولی نے آپ.سے لیا جلال، شاہا نے سرخ کملی اوڑھ رکھی ہے، کالی زلف والی محمد کی.صورت  ابھرتی یے

تاجور نے تاجوری کا تحفہ دیا 
کاجل لگا،  پہننے کو.ڈوبٹہ دیا 
یہ ہےاندھیرے و روشنی کا سنگم 
کملی والے اک کالی پہ ہوئے مکرم 

سج گئیں راہیں اور رفعت ملی اور رفعتوں پہ.مکانت،  سیادت سے ملی اجابت، عجیب رشتے پہ رشتہ ملا اک سیدی مولا ..

ہار میں  غنیم کا بار کیسا.ہے 
ستم میں معین کا کار کیسا ہے 
کچل دے،  نفس وہ وار کیسا ہے 
جسم مقید روح افلاک پر ہے 
مری زندگی کسی شاخ پر ہے

حجاب سے ازل کے رشتے بڑے 
شاید ترے دل میں بات اترے 
صلی علی کی صدا پڑھتے.ہیں 
آپ کی محفل جو بیٹھتے ہیں 
سجا کے سج سج کے آشنا ہوئے 
نور حزین پاک زمین کی نشانی 
یہ عشق فقط اس کی کہانی 
کچک کچک، کچ کچ نکلا دھاگہ
خاک پڑی رہی،  خیال کا.ارادہ 
پانچ برابر،  برابری کا رشتہ نہیں 
پیار سے بڑھ کا پیاروں کا رشتہ نہیں 
کمال حال ہے،  زوال و اوج کا وصال  
صبح کچھ کمال،  نہ رات کچھ کمال

بلالیجیے شاہا اپنے  مجھ کو در پر 
آؤں ارض مقدس پاؤں کے بل پر
عشق سپر، تیغ نیام  میں ہے 
مخلوق کی ذمہ بھاری کام ہے 
چشم دل سے من شاد ہوا ہے 
اسی سے میخانہ آباد ہوا ہے. 
یہ زمین علی کی ولا میں ہے 
دل وادی ء شاہ بطحا میں ہے 
چاک جگر، حسرت کا دھواں 
ملن کو تڑپتا مرا لمحہ لمحہ
مجھ کو اپنی ولا میں گما 
مرے دل میں سما کے نہ جا 
شاہا،  شام غریباں کیا ہے؟  
شاہا آپ کا جانا،  غربت ہے 
شاہا،  شام حنا  کیا ہے. 
شاہا  آپ کا آنا امداد ہے

سرحد ‏پار

کیا سرحد کے پار پریم رنگوں میں ڈھلی مورت دیکھی؟
کیا سرحد کے پار یار کی یار میں  صورت دیکھی؟
لکھتے ہوئے جس قدر خوش ہوں، اسی قدر کرب سے دوچار ہوں ... 
آتش شوق کے مرغولے بکھر کے دائرے بناتے ہیں 
ان دائروں میں ان کہی کہانی کی تحریر دیکھتی ہوں.  
یہ دائرے سرحد پار سے میرے ہست نگر کے گرد چکر کھا رہے ہیں 
صدائے عشق مجھے نہ دو 
غمِ عشق میں حال سے گئے
کسے فرصت سنے شب دیجور میں سرحد پار کے فسانے 
سرحد پار مٹی کے پتلوں سے ہوتے ہوائیں پیٍغام دیتی ہیں 
آہستہ آہستہ چلیے 
یہ زینہ عشق  قرینہ ادب سے ملتا ہے.
الفت کے نشے میں سرشار ہوں، کسے خبر شرر بار ہوں 
میری حدت سے گھبرا کے آنکھیں موند لیں جس نے 
ہواؤں جاؤ،  بتاؤ اسکو!  بتادو کہ جاودانی ملی ہے!  یہ شراب عشق سے نصیب ہے.  
حبیب کون ہے؟  رقیب کون ہے؟  
کس کو خبر وحید کون ہے؟
کس کو عطا رنگِ پیرہن ہے 
کس کو ملی دستار شوق کہ وہ مدہوش ہے.  
سرمہ ء وصال میں رنگت کا سوال ہے بابا 
رنگت سرمئی ہے!  وجدانی لہر نے نعرہ لگایا.  صبغتہ اللہ!  
ملتا ہے یہ رنگ جس کو 
اسی کو شام و سحر میں انعام ملتا ہے 
وجدان!
وجدان کیا ہے 
میں اکثر سوچتی ہوں وجدان کیا ہے ؟  میں حیران رہ جاتی ہوں کہ وجدان بس ایک راستہ ہے. ایک سفر کی گزرگاہ جو وقت کے ساتھ طویل ہوجاتی ہے اور بحر کی مانند وسیع ہوجاتی ہے.  وجدان الوہیت کے چراغوں کو پانے کا راستہ ہے!  یہ شام حنا ہے جو رات کی ہتھیلی پر سجتی ہے. یہ رات کی قبا ہے جس کو پہن پہن کے رات بہروپ بدل کے جلوہ گر ہوتی ہے. رات کا حجاب کب اترے گا!  افسوس رات کا حجاب تار ازل سے تار ابد تک کالا ہی رہے گا اور اس بے معنویت سے گزر کے صبحیں ملتی رہیں گی مگر اے چارہ گر 
رات کے چراغ سے،  شام کے لباس میں چلتے ہوئے شمس کے سامنے نہ آجانا کہ چاند ہی کافی ہے!  اصل کا پردہ فاش ہوتا ہے تو شمس شمس نہیں رہتا اور چاند چاند نہیں. چاند پر شمس کا گمان اور شمس پر چاند کا. رات اپنے بے معنوی حسن کے پیچھے چاند و سورج کی گفتگو کھولتی ہے تو حجاب فاش ہوتا ہے کہ رات آنکھ کا دھوکا ہے ہر طرف اسی کا سرمدی دھواں ہے بس اسی سرمدی دھواں کے چھپ جانا، چبری اوڑھ لینا حجاب ہے.  حجاب کو ملال کیا ہوسکتا ہے؟  سوچیے؟  سوچ تو یہی ہے کہ حجاب خود اٹھنا چاہتا ہے تاکہ حسن کی سرسامانیوں سے اسے سکون ملے، سامنے والا اس جلوے کو سہے بار بار اور کہے 
حق محمد!  حق علی! حق اللہ 
حق حسین!  حق علی!  حق فاطمہ 
حق اللہ حق محمد

نزع ‏دل ‏سے ‏جاری ‏آنسو

اللہ پاک قبول کرے نزع دل سے جاری  یہ آنسو، ان سے پیدا ہونے والی خنکی اور خنکی سے قوس قزح کی بجلیاں جن سے قلب سرمہ ہوجائے یا شرماجائے. آنکھ نے کہا، دل نے مانا اور دونوں ہوئے گیانی ... لقد جاءکم رسول  من انفسکم عزیز  علیہ عنتم ما حریص ....... روؤف بھی رحیم ... صاحب الجمال نے اپنی کریمی کی چادر میں جسے چھپایا،  وہی پاگیا گوہر مقصد ...ان گنت درود سیدنا عالی شہ ابرار محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر

حق حق آقا آقا ... کس نام سے پکاروں آپ کو؟  کتنے نام آپ کے؟ سارے چہرے آپ کے سیدی ..سارے جلوے آپ کے ...یہ جلال منکشف کی داہنے باہنے راستے ہیں، یہ جمال حیا کی سیڑھیاں ہیں جو فلک تک بلند ہے، یہ آنکھ آنسو سے تر مگر خشک ہے، یہ دل نرم مگر خواہش دید سے حقیقت تک کی بات ہے ...لاکھ چاہوں لاکھ بار آؤں، لاکھ سونے سے پہلے پر تولوں اور پرواز کرنا چاہوں نہ کر پاؤں پائے اجازت سخنی در سخنی 

.قلب سے لازوال  موج کے دھاگے ہیں،  شیریں لبی سے نکلنے والے الفاظ کے میعارات ہیں ..اشکبار دل ..ساون ہے جھڑی لگی ہے ...منتوں مراد کی گھڑی ہے اور شاہا گھڑی ہے مانگنے کی ہے دیجیے ہم.غریبوں کو.تاکہ.دامن خشک، تر ہوجائے گویا لب و بام سے رستا خون تسبیح خوان ہو.....کچھ رحم.رحیمی سے کچھ کرم کریمی سے کچھ.احسان رحمانیت کے صدقے ...کردو کرم

باایں غلام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  سرور تاجدار محمد، تو شمع گزید من شب گزید، تو رفتہ، من پائند،  تو جائے یاد کعبہ، من جان کعبہ،  توئی ستم جانِ بیا پیش دلم،  قرار دلم توئ 
آ شب فرقت کی گھڑی ہے، مانگ محبوب سے تحفہ ء رسالت مانگ،  دلم شاہد مانگ،  جانم فدای مانگ ..او مانگ ارے مانگ
درد جگر چاک کر دیکھا 
پایا جسے، نہ اسکو دیکھا
قریب تھا کہ مرجاتے ہم 
مرتےسمے روئے جاناں دیکھا
قبیلہ ء عشق میں جزو نہیں 
ہم نے تو کل میں سب دیکھا 
ذات کھوئی ضربِ روح میں 
چشم نم میں فنا، بقا دیکھا 
گرتے پڑتے ہیں شاہا، روتے ہیں 
سکندر نے کہاں تجھ کو دیکھا 
قلندر نے کب تجھ کو نہ دیکھا 
آئنہ دل تھا، نور العلی تھا،
نور محمد جگمگاتا، منور دیکھا 
محفلِ بود بہ ایں حضور سرور 
محو رقصم بسمل ایں چور چور

رب کائنات درد دل کو دیکھ 
آئنہ ء رحمت کا سلسلہ تو دیکھ 
رحمانی فضائیں شور نہ دیں 
ٹھنڈی ہوا کا مزہ تو دیکھ لے 
موجوں نے پوچھا نور ہے کہاں؟
شاہ ہادی اشارہ بجانب فلک کیا 
جام در جام اس میخانے سے پیا 
ہم نے محبت میں کیا، نہ کیا کیا؟
یار کو تو ہم نے تجھ سے جدا کیا!
جدائی لمبی،  ہجرت شور والی،
ازل سے یہی تری مری ہے کہانی 
داستان نرانی،  کبریا کی محبت 
یہ کبیر و کبریاء کا سنجوگ عجب 
روگ لگتا ہے،  وہ ذوق ہے الگ

کبیر و کبریاء کی کہانی ہے 
داستان دلم بہ زبانی ہے 
موج شان نے شان سے پوچھا 
رحمن نے انسان سے پوچھا.
کب آئے؟  کب گئے؟ 

یہ آنا جانا؟  سکوت پذیر تری محفل میں ہوں!  ساجد، سجدنی سجدنی سجدنی 

رحمانی جھونکے ہیں،  آسمانی سندیسے ہیں،
یہ میرے نور ازل کے فرمان ہے. یہ میرے کاشانِ دل کے دہر سے رشتے،  یہ تیرگی میں اجالا کس کے دم سے؟  .

ہائے!  ہائے!  ہائے!  یہ غم کے اندھیرے پردہ چاک کرگئے!  ترا مرا رشتہ بے حجاب کرگئے!  میں محو رقص دوش بدوش جانب منزل ...آہا کہ منزل قریب ہے!  رقص بودم می شرر،  غم دل پذیر

دل ‏کی ‏رقت

دل کی رقت پر سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ سوال کیا ہے؟ سوال کا جواب کیا ہے؟  سوال کا اسباب کیا ہے؟ رات میں ملال اور ملال کا لباس کیا ہے؟ جبین سجدہ ریز ہے، رمز شناس ہے کیا؟  جب جاگتے ہیں دل، روتی ہے آنکھ،  سوتا ہے شعور اور بہتا لہو دل میں ھو ھو کی صدا سے مخمور ہو کے رواں رواں میں محبوس ہو کے بھی نعرہ ء حق لگا دے تو بندہ کَہے کہ کہاں جاؤں میں؟ میں کتھے جاواں؟ کتھے اونہوں نا پاواں؟  اودھے جلوے چارچفیرے .. بانگ دیندے ریندے نے مرغ سویرے سویرے ...لنگ گئی حیاتی، غماں نے مار مکایا ..جنگ جاری ہے ... حیات  پیہم مشقت میں،  رہن رکھی چاندنی نے پوچھا کہ کیا ملا؟  ملا جو سوال کو جواب ملا ...جواب میں یاد کا سندیسہ تھا ..سندیسے آتے ہیں اور ستاتے رہتے ہیں .. رات میں نور علی النور چمکا چاند،  رات میں سحر در سحر اشجار ہیں جن کی رگ رگ میں جاودانی کا دھواں ہے اور مکھڑا جس کا نورانی ہے.. وہ پھرتا چلتا ہے عکس وجدانی ہے،  لہر لہر میں رنگ ہے اور رنگ میں کلی کلی کی مہک سے جل رہا ہے چمن،  دود ہستی میں راگ چھڑا ہوا ہے ..سرمدی راگ میں بات بھی ذات کی ہے اور بات ذات میں واحد ہی رہی اور واحد میں خاموشی صامت رہی. حق وحدہ لاشریک کے سامنے رگ جان سے قریب کون تھا؟  میں نہیں تھا ..وہ بھی وہی تھا ..بس آئنے تھے دو ..دوئ تھی کیا؟  دوئ نہیں تھی مگر یہ آنکھ روئ تھی کیا؟  جی جی!  جذب تھی جس آنکھ میں وہ رہتی ہے یاد میں ..زہرا کے بابا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بے حساب درود کہ کمان سے نکل گئے تیر اب زخم.سے جل.رہا دجلہ ... فرات کی نہر میں انالحق کی صدا ہے ...گراں تھا نعرہ کیا؟  راز عیاں تھا کیا؟  برسر منبر بہک گیا کوئ ... بہک جانے کی سزا بھی نرالی تھی مگر جس کے پاس سایہ کالی کملی والا کا ہے اسکی شان نرالی ہے. کوئ آقا والی ہے ..صلی اللہ علیہ والہ وسلم. مری غلامی بھی نرالی ہے کہ رنگ و نور کی محفل سجنے والی ہے. شام میں صدا یے اور صدا میں کرن کرن کا جلوہ اور جلوے میں رنگ ساز نے رنگ دکھائے تو ست رنگی بہار میں عیاں راز کے سارے پردے فاش!  راج ہوا کبریائی کا.  جو.صبغتہ اللہ والی ہے،  اسکی کملی کالی یے، جس کے پاس رات کی جاودانی ہے،  راج جس کا انوکھا یے سورج کی کرن کرن میں مگن کون یے؟ گگن کی لالی کہاں سے آئ ہے؟  راج کرے گی دنیا جب  دیکھے گی جب جھلک دیکھے گی ..کچھ جو صلی علی کی دھوم میں مر جائیں گے ..کچھ اس بازگشت میں رہ جائیں گے. کچھ اس جھلک کے سکتے میں رہ جائیں گے کچھ کے سر جھکے رہ جائیں گے کچھ قائم قیام میں رہ جائیں  گے. کچھ کو عندلیب کا نغمے سنائیں جائیں گے، کچھ رقص شرر میں جل جائیں گے، کچھ کو نغمہ جانفزاں سے بہلایا جائے گا کچھ کو دید کا سامان دیا جائے گا کچھ کو رات کے پہرے فاروقی نقارے دیے جائیں گے، کچھ کو صدیقیت کی مسند پر گرانقدر تحاٰئف دیے جائیں گے، کچھ علی علی کی صدا میں نبی نبی کی گونج میں مگن رہیں گے تو یہ ہوں گے وہ حال جن پر رشک فلک ہوگا، نوریوں کو ملال کہ وہ بشر ہوتے تو یہی احسن تقویم ہے. یہ زمانہ ہے شرفیت کہ اشرف المخلوقات سے وابستگی کا ہے کہ آؤ نعرہ ھو لگائیں دل میں رہ جائیں گے ارمان نہ ملیں گی وہ گلیاں

قریب ‏تھا ‏کہ ‏مر ‏جاتے

قریب ہے کہ مرجاتے ہیں،  قرین جان سے، جان کو جو پا جاتے،  ردھم نہیں ہے ... رات کی رانی ہے، گلاب بھی ہے،  اور پتے پتے ہل ہل کے سلام کہے جارہے ہیں ...شامستان کی گھڑی میں داستان عشق کا لہو کون دیکھے گا؟  یہ جو ہم جیسے قبیل کے چند ہیں،  کس میں ہمت ہے کہ لہو لہو کی بوند ٹپکاتے ہوئے یاد کے پیکان سے دل کو بہلاتے رہیں ..اے دل مسکرا کہ یہ عالم ہجر نہیں یہ عالم موت ہے اوررنگریز کی  جاودانی لہریں بھی ہے ..اے دل مسکرا کہ موت نے سجدہ کیا ہے کہ موت سامنے کھڑی مسکرا یے اور موت کے سامنے ہی میں موجود ہوں ...کیا میں موجود ہوں؟  میں نہی  موجود ہوں وہ موجود ہوں. میری نس نس میں جس کا ذکر ہے مری حرف حرف کی شدت اسکی گواہ ہے کہ سراہ راہ ہو یا سرطور بات اک ہی ہے ..ہمیں تو جلوے سے مطلب ہے کہ چار چفیرے ہیں مالک کے سب رنگ ...سورج کی تمازت بھی کیا خوب ہے کہ چمک رہا ہے تو صلی علی کی صدا ہے اور ہم کہتے ہیں سلیقہ بندگی میں طریقہ ء درود کیا ہے؟  طریقہ درود میں کیسی وارادت ہے کہ ورود کون یے؟  شاہد کون یے؟ شہود کون ہے؟  اے عکس  اٹھ جا!  اے رات ٹھہر جا!  اے حنا!  رک سوال باقی ہیں کہ کچھ نقاب باقی ہیں. کچھ زوایے ہیں الگ، کچھ ماہتاب الگ ہیں کچھ راج الگ ہیں. کچھ دیوانے مضطرب ہیں، کچھ انجان راہیں ہیں، کچھ نئے شاہرائیں ہیں، کچھ ہجر کی لمبی رتوں میں آہون کی داستان میں اک صدا ہے. حق وہی باقی یے. حق وہی موجود ہے. میں نہی  موجود یے وہی موجود یے. اے جلوہ جاناں. اللہ کہاں ہے. اب کون کیسے بتائے کہ اللہ کہاں ہے بس پیش حق کہتے ہیں کہ اللہ تو رگ جان سے قریب یے ..شہ رگ کا کلمہ ھو ہے میں کہتی ہوں تو تو تو تو ہے. عالم میں کیا ہے می تو خود اک عالم ہوں میں نہیں ہوں وہی عالم ہے. رات چھاگئی ہے اور گلاب مانند کتاب سینے پر دھرا ہے اب بتائیے کہ گلاب کا کیا کیا جائے؟ گلاب کو سونگھا جائے یا تکا جائے یا سونگھ سونگھ کے سرائیت پذیر سرمدی دھواں دیکھا جائے. کہنے کو تو عشق میں عشق رہ جاتا ہے طور جل جاتا ہے مگر طورمیں مجلی اسم کس کو ملا ؟ جی جو بیہوش ہو گئے ان کو ..سو اے خمار آلود آنکھ چپ رہ ورنہ خماری مہنگی پڑ جائے گی. اے دل گرفت رکھ ورنہ رات کٹ جائے اورصبح نہ ہوگی اورصبح کے بین کا رنگ کتنا پھیکا یے جب تک کرنیں روشن روشن ہو کے ہر جا کو جلوہ نہ بنادیں فائدہ ا اے دل خاموش!  ورنہ کیا رہ جائے باقی؟ کچھ طلب کے سکے؟  پھینک دے کاسہ کہ کاسے تو کہتا تو ہے پیاسہ. کیا تو پیاسا ہے. نہیں تو مضطرب نہی‍ یہ پیہم مرا طوفان ہے. یہ گریہ نہیں ہے یہ مری یاد ہے یہ تو نہیں ہے یہ میں ہوں میں تو ہر جا موجود ہوں میں شہ رگ کا کلمہ ہوں ..

Wednesday, January 13, 2021

آسمان

اللہ اسم ذات ہے ذات کیسے ملتی ہے؟ جب تک ذات نہ ملے تب تلک شریعت پر عمل کرنے سے انسان کو نیکی کا زعم کھا جاتا تو کہین تکبر! اسم ذات پانے کے لیے اندر پڑھنا پڑتا ہے ... اندر پڑھنے کے لیے آپ کو رات میں داخل ہونا چاہیے. رات میں داخل ہونا گویا شہادتیں پانا ہے. کسی نے کہا اس کو گویائی ملی؟  خود سے باتیں کرنا ... خود سے باتیں کرنے والے دو طرح کے ہوتے اک حالات کے ستائے دوسرا حالات میں سمائے. حال وہی ہے جو ابھی ہے جو صبح ہے وہ حال ہے باقی سب قیل و قال ہے. قران قیل و قال سے سمجھ نہیں آتا. الہامی مصحف کسی آیت کی ترتیل سے شروع ہوتا .. ایسی خشیت ایسا لرزہ جس سے ہیبت نازل ہو. یہ کلام ایسے خشیت کیسے نازل کرتا ہے؟  جب ہم اس میں جذب ہو جاتے ہین. قران پاک آسمان سے ہے ہم زمین سے ہے آسمان و زمین کا جب تک ربط نہ ہوگا تضاد رہے. تضاد کا خاتمہ ہونے کے لیے آسمان سے رابطہ چاہیے ....یہی آسمان و زمین کے نور کا ربط ہے ربط جب تک نہ ہو بندہ جانور رہے گا  جانور کو شرالدواب کہا گیا. احساس کی دولت آسمان پر لیجاتی ہے

فتح ‏! ‏

شمس بینائی سے محروم ہوا کبھی؟  شمس کو رات کا حجاب چھپا سکا؟  اندھے وہ ہیں جن کو رات میں کچھ نہ ملا، بہرے ہیں وہ جو رسول محتشم، پیمبر مختتم،  خاتم النبیین، شمس العلی بدرالدجی،  سید السادات ان گنت درود،  کی صدا نہ پا سکا. گونگے ہیں وہ جن کو کچھ سنائی نہ دے،  وہ جواب دیں بھی کیا  جھک جاؤ  سب جھک جاؤ    .... سب کو جھکنا ہے 

صدائے ربی ہے محمد کی ہر صدی ہے 
صدائے ربی ہے شانِ محتشم بڑی ہے 
صدائے ربی ہے  حیدر سید الولی ہیں 
صدائے ربی ہے علی زمن کی کلی ہیں 
صدائے ربی ہے شانِ زہرا درودِ اصلی 
صدائے ربی ہے فاطمہ  ستارہ سحری 
صدائے ربی ہے  آیت کوثر کی ہے لڑی 
صدائے ربی ہے ہر لڑی میں ملی ہے کڑی 
صدائے ربی یے  کڑی میں جڑی نئی لڑی 

ستارہ سحری ڈوب کے ابھر آیا  ہے ..

کسی نے کہا فتح نصیبہ ہے. کسی سے پوچھا فتح کیا ہے؟ یہ الفاتح کی تسبیح ہے جو فکر کے بعد محصول ہے ..

 کن!  کُن!  کُن!  
کِنوں ہویا اے؟
صور پھونکا؟ 
زندگی ہے کیا؟
موت کا صور.
نفخ ہوا سوتا 
دھاگا مرا وعدہ 
اشارہ ہے سادہ 
رب کا ہے ارادہ 
جنبش مژگان ہے؟
اشکبار تو دل ہے! 

کتنے دل تجھے سجدہ کرتے ہیں؟  کتنے دلوں میں تو فاتح ہے؟  کتنے دلوں میں فتح رقم ہوئی!  ..
انا فتحنا لک فتحا مبینا ..

صریح فتح!  جشن آزادی.
صریح فتح!  جشن ولادت 
صریح فتح!  ذکر کی تلاوت 
صریح فتح!  تسبیحِ مناجات 
صریح فتح! ہست ہے نابود.
صریح فتح!  وہ،  وہ ہے موجود.
صریح فتح!  کس کے ہم محجوب.
صریح فتح!  رت ہے شام کی.
صریح فتح!  لیل میں شمس ہے.
صریح فتح!  حنا تابِ شمس میں 
صریح فتح!  مہندی،  شہنائی ہے 
صریح فتح!  صدا ملن والی ہے

سادہ سی بات ہے، سب میں سادگی ہے. سادگی کیا ہے؟  سچ سادگی ہے  سچ میں قباحت کیا ہے؟  سچ کی حکمت یہ ہے کہ حکیم سے ملتا ہے  حکیم  طبیعت کا سلیم ہوتا ہے. سلیم وہ ہے جس نے رب سے وعدہ یاد رکھا ہوتا ہے  وعدہ کونسا؟  وعدہ کہ حق میں فقط نائب ہو مگر اصل تو ہی ہے  جس نے انالحق کہا،  اس نے فرق مٹا دیا .. اللہ مثال نہیں ہوسکتا ہے مگر مثل ٹھہرانا ہمارے لیے کیا ضروری ہے؟  اللہ اکبر. اللہ سب سے بڑا ہے  .مثال در مثال سب میں سچ ہے اور سچ بڑا ہے  ساری مثالیں مصوری ہیں. وہ المصور ہے. نقاش گر نے بنایا مجھے. میں نے نقش کو پہچان لیا اور پہچان کے سب کو  آپریٹو کردیا. اس آپریٹو کے پیچھے بڑی طاقت ہے. میں منبع کل کا معلوم نہیں ہوں. میں اپنی ذات کا معلوم ہوں  ... سب سے بڑا معلوم جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں. اس لیے:  بعد از خدا بزرگ توئ قصہ مختصر

عشق ‏روحاں ‏دا ‏سنجوگ ‏اے ‏

راگ سناوے آس دلاوے 
ساز وجاوے یاس مکاوے 
عشق روحاں دا سنجوگ 
عشق سے جاتا ہے سوگ 
عشق خوشبو عین وصل 
کدی ہجرت کدی وصلت 
کدی واج تے کدی خاموش 
کدی راگ اے کدی شور اے 
کدی بحر اے تو کدی موج 
کدی بادل اے کدی ساون 
کدی بجلی تے کدی رحمت 
دیدار دی اگ لگا دیوے 
آرزو نو صد آرزو بنا وے 
پیراں پڑیے، اکھیاں روون 
ساواں اوکھیاں راتاں لمیاں 
اتھرو وگن،  سرخی منگن 
جندڑی نو روگ لگا دیوے 
عشق روحاں دا سنجوگ ہے 
عشق توں جاندا سوگ اے 
عشق مست مست کریندا 
عشق جذب تے آپے مجذوب 
عشق دی ہستی مستی ویکھو 
عشق رلاوے عشق ہنساوے 
عشق دا مرض لاعلاج اے
من دے روگ تن دے سوگ 
عشق اے روحاں دا سنجوگ 
من دی ہستی ہوجاوے مٹی 
مٹی دی اوقات ہوجاوے مٹی 
عشق مٹی دا بالن  چنگا اے 
بھٹیارن بن جا جے سچا اے 
سمجھ سمجھ نہ آوے گا اے 
دلوں وحی بن کے اتر جاوے 
سجن مٹھن پیار دی مستی 
ساڈی ہستی کیہ اودی ہستی

Tuesday, January 12, 2021

پرواز



کبھی کبھی ہمارا درد ، اضطراب ایک مجسم صورت ڈھال لیتا ہے . ہمیں ایسی وادی کی سیر کراتا ہے جہاں پر ہم اپنے وجود کے لاتعداد
حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں . تب جاکے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کائنات کی دوئی کبھی ختم نہیں ہوسکتی . یہ سفر اس کائنات کے زوال پر ختم ہوگا . اسی لیے دل کے اندر کائنا ت سما جاتی ہے . میرے اندر سے کئی آدمی ، عورتیں ، بچے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں . یہ سب اپنی اپنی صفات رکھتے ہیں . کوئی خوشیاں مناتی مستی میں رہتی ہے تو کوئی ہجر کے غم میں لیر لیر ہوجاتا ہے . وہیں میرے جیسی درد کی متلاشی ہمزاد روحیں مزید بکھروں ، حصوں میں منقسم ہوجاتی ہیں .میں دور بیٹھے ان سب پرنظر  رکھتی ہوں . یہ سب میری نگاہ سے اوجھل ہوتے ہوئے اوجھل نہیں ہے . یہ روحیں براہ راست اپنا حال بیان بنا بھی بیان کرتی ہیں .

پرانے برگد کے پیڑ تلے قبر پر ماتم کناں فاتحہ پڑھنے میں مصروف تھی . میرے دکھ کی تحریر کالے سیاہ دھواں کی شکل لیے مجھ سے نکلی اور پاس اک قبر پر جا کے آہ و فُغاں شروع کردی . لامتناہی درد کی بوچھاڑ پے در پے وجود کو منقسم کرنے پر تلے تھی . اس تقسیم کا مقابلہ ازل سے ہر ہستی کرتی آئی ہے . ہر روح جلتی آئی ہے . اس جلن کا دھواں آنسو بن کے نکلتا ہے تو کبھی ذات کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے .میں اپنے گرد ذاتوں کی تقسیم پر حیران ہونے کو تھی کہ میری ہم شکل صورتیں کہیں قبروں میں تو کہیں تحلیل ہوتے دھواں میں رقص کرتی دکھ رہی تھی .میری آنکھیں آنسوؤں کی خاموش تسبیح میں مصروف تھیں . میرا وجود آگ سے جل رہا تھا . جب کپڑا مکمل جل جائے تو راکھ بکھر جاتی ہے .مجھے پانی میں بگھو بگھو کے جلایا گیا ہے . دکھ کا ، یاس کا پانی جس نے میری آنکھوں سے بینائی چھین لی ہے . میں آرام سے گرم گرم آگ کی تپش کو برداشت کرتے خود سے وقفے وقفے سے خود سے بچھڑتے دیکھ رہی تھی . ہر دھواں اپنی اپنی قبر پر جاکے ماتم شروع کرتا ہے . لوگ کہتے ہیں کہ اجل کا سامنا ایک دفعہ ہوتا ہے جبکہ ہر گھڑی موت کا پیالہ زہر سمجھ کے پیا ہے کہ شاید مکمل موت مجھے تھام لے

میں برگد کے درخت سے ٹیک لگائے ان سب کو دیکھے جاتی ہوں کہ اچانک سیاہ لباس میں وجود حاضر ہوتا ہے . میری توجہ پاتے ہی جنازے کی اطلاع دی جاتی ہے .میرے مٹھی بند ہاتھ سے ریت پھسل کے پاس پڑی قبر سے ملنا شروع ہوتی ہے
[COLOR=#b30000]
اندر کتنے غم سائیں
اندر تیرے غم سائیں
غم کی برسات کر سائیں
اب تو  نڈھال کر سائیں
اندر کتنے غم  ہوں سائیں
دے دے اپنا آپ سائیں
لے لے میری ذات سائیں[/COLOR]

[COLOR=#660000]اگربتی ساتھ لیتے جاؤ [/COLOR].. میں اس مخاطب ہوتی ہوں
[COLOR=#660000]آج محبوب نے آنا ہے.گلاب کے پھول بھی لے آنا.سجا دینا مٹی کو .. اس کو پسند ہیں ..![/COLOR]
وہ سرجھکائے کھڑا  اثبات میں سر ہلا دیتا ہے

ہم فضا میں پرواز کرنے لگتے ہیں ...ایک فضا سے دوسری فضا، ایک آسمان سے دوسرے آسمان . ہم زمیں پر رہتے ہیں ، زمین پر بیٹھے ہیں مگر ہماری نظر ہرجگہ پر ہے ، اپنے اندر کے آسمان سے اپنے  اندر کی زمین تک ....ہماری نظر ایسی وادی پر لگا دی جاتی ہے جہاں پر سیاہ لباس میں  ارواح رقص میں مصروف ہے ان کے مرکز میں میرے یار کا جنازہ ہے .

ایک سیاہ نقاب پوش مجھے دیکھ کے بھاگنے لگا . اس کا تعاقب کیے بنا اسے جالیا اور ساتھ ہی اس  مجلس میں شامل ہوگئی . جوں جوں روح جلتی ہے ، راکھ سلامت رہتی ہے اور آگ بھی سلامت رہتی ہے . مجھے ابھی مزید جلنا تھا کیونکہ میرے وجود میں ''میں '' کے سپید ٹکرے کہیں کہیں دکھ رہے تھے ان کی سیاہی میں بدلنے کی دیر تھی .جوں ہی جوش مسرت میں رقص شروع کیا ،مزید وجود نکلنا شروع ہوگئے . اتنے زیادہ وجود کہ تا حد نگاہ سب سیاہ لباس میں وجود بکھر گئے .........کالا سب اڑ گیا ، باقی سفید رہ گیا ....... وہ بھی سلامت نہ رہا ، روح یک دم اوپر کی جانب اٹھی اور آسمانوں میں غائب ہوگئی[/CENTER]

Monday, January 11, 2021

شدم چوں مبتلائے او، نہادم سر بہ پائے او ---------حصہ دوم



''تمام ارواح جن کی نسبت نور محمد صلی علیہ والہ وسلم سے ہے ان سب کے ذکر کو رب باری تعالیٰ نے بلند کیا ہے ... مہر رسالت نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم شمع اولیاء ہیں ... تمام پروانے ان سے ضو پاتے ہیں اور نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی بدولت ان کا ذکر بھی بلند کر دیا جاتا ہے ......''

یہ باتیں برگد کے درخت کے گرد بیٹھا برگد نشیں اسے بتا رہا تھا اور سالارِ قافلہ اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا ....اچانک فضا میں اک صدا ابھری ....

''نعرہ مستانہ ......''

اس کے بعد برگد نشین نے تیسرا دائرہ کھینچا اور سالار سے کہا کہ اب اس دائرے میں قدم رکھو .. اور دونوں آلتی پالتی مارے بیٹھے گئے ....

" میں تو کافی عرصے سے راہ تک رہا تھا ، تم نے واپسی کو دیر لگا دی ...... سناؤ کیا ماجرا ہوا؟ برگد نشیں نے سالار سے پوچھا

" جب میں آپ کے ساتھ توحیدی میخانے میں داخل ہوا تب پہچان نہیں سکا کہ سردار ولایت کون ہیں مگر جب میں ساز کے لے پر رقص کرتا، لہولہان پاؤں لیے ان کے پاس پہنچا تو تب انہوں نے میری طرف توجہ کی اور میں نے جانا وہ سیدنا حضرت علی رضی تعالی ہیں ... ان سے بہت دور ایک اور شبیہ دیکھی ... یوں لگا وہاں کوئی اور محفل ہے، اس محفل کی سرکردگی جناب سیدنا رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔''

برگد نشیں اس کی بات بخوبی سن رہا تھا. ... بولا ...

''اب تمھارا سفر پھر سے شروع ہو رہا ہے. .. تم اب دربار رسالت میں پہنچے تو میرا سلام کہنا .... . .! میرا کام تمھیں ان تک پہنچانا تھا ..... باب العلم حیدر کرار سے ہوتے تمھیں جناب رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ سے جس کے حوالے کیا جائے کہ عین قرین کہ تیری تربیت سیدنا امام حسین رض کریں. .......''

سالار بہت غور سے باتیں سن رہا تھا کہ برگد نشین نے اسے کہا کہ آنکھیں بند کرو. ....!

جب سالار نے آنکھیں بند کیں تو اسے خلقت کا ہجوم دکھا ..جو خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہی تھی. .سالار وہاں پہ موجود لوگوں کو غلاف چومتے دیکھتا ہے تو اس کی نظر نور کی شعاعوں پر پڑتی. .ایسا مست نظارہ اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا. . اس منطر کو تحت الثریا تک اس کی بصارت نے اور اس برق رفتار روشنی کا سفر عرش بریں تک بصارت نے دیکھا. .....اس کے بعد اس نے آنکھیں کھول دیں ،تو برگد نشیں کے پوچھنے پر سارا احوال بتا دیا. ..

" اب آنکھیں بند کر و. .بتاؤ کیا دیکھا "

اب کی بار بہت سی کالے لباس میں خواتین جاتی نظر آئیں جن کے سر نظر آرہے تھے. . جنگل میں کہیں کہیں روشنی میں ملیح ہو جاتی ہے اور اس ملیح روشنی میں جذب ہونے کو دل چاہتا. .. جا بجا مقامات پر نوری روشنی نظر آنے لگی اور سالار کا دل اس ملیح روشنی میں جذب ہونے کو.مچلنے لگا. .....اس کے بعد منظر بدل گیا. ..اس کو اک مسجد نظر آئی جو کہ لگتا تھا کہ پہاڑوں کے بلندو و بالا سلسلے میں موجود ہے ...اس جگہ خاموشی بھی باتیں کر رہی تھی اور ہر ذی نفس کو مجذوب بنارہی تھی. .. اس میٹھی میٹھی خاموشی میں اسے بہت سے ستون نظر آئے جن کو ایک بلندو بالا چھت نے تھام رکھا تھا ۔۔۔ یہیں سے وہ ہال نما کمرے میں داخل ہو گیا.تو کیا دیکھتا ہے کہ سیدنا مجتبی حضور پرنور صلی علیہ والہ وسلم کی محفل ہے اور ان کے سینے سے نور نکل کے دور دور تک پھیل رہا ہے. تمام محفلین اسی روشنی میں جذب و سرر میں مدہوش سے دکھے ۔۔۔ سالار نے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہے کہ برگد نشیں کے سینے سے بھی نور نکل رہا ہے. ....

برگد نشین اس کو دیکھ کو مسکرایا ۔۔۔ اس کی مسکراہٹ میں پرسراریت تھی اور لہجہ بھی اس کیفیت کو لیے ہوئے تھا ۔ وہ بول رہا تھا مگر یوں لگ رہا تھا کہ مظاہر بول رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔


نیک اور سعید روحیں بوقت پیدایش ہی اصل قطبی مقناطیس سے براہ راست کشش رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جو سب کو سمت دیتا ہے مگر اس کی کوئی سمت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی روشنی چار سو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی روحیں شوق میں دنیا اور آخرت کو بھلا کے ، دوستی کے رتبے پر فائر ہوتی ہیں آپ صلی علیہ والہ وسلم.کے اصحاب روشن مثال.ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ ہے جس کو چاہے عزت دے دے اور جس کو چاہے ذلت دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ جو ، جو مٹی کو انسانی صورت دے کر اس کو اپنے نور سے اجال دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔وہی اللہ ہے۔۔ایسی تمام ارواح جو مرکز سے براہ راست کشش کے نظام پر استوار ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ واحد کی واحدانیت پر اپنے یقین و مشاہدات سے ایمان لاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کبھی چاند ، ستارے تو کبھی سورج کو اپنا خدا خیال کیا اور پھر مظاہر سے پہچان کرتے خالق سے جاملے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے عشق کو قربانی ء اسماعیل علیہ سلام سے اور آتش نمرود سے پرکھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا حضرت خدیجہ رض ، سیدنا حضرت علی رض اور سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رض ایسی ہستیاں ہیں جو اللہ پر ایسے ایمان لائے ، جیسے رسول خدا صلی علیہ والہ وسلم لائے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔''

'' میرا ساتھ تم سے زندگی بھر رہے گا مگر تمھارا سفر یقین پر استوار رہے گا ''

یہ کہتے ہی برگد نشین کا وجود برگد کے درخت میں سمانے لگا اور سالار کو اپنے قافلے کی گھنٹی سنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے جانے کا وقت ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔وہ اٹھا اور اپنے قافلے کی سالاری سنبھال لی

Friday, January 8, 2021

نغمہ ‏ء ‏جان ‏رحمت

نغمہِ جانِ رحمت کیا ہے ؟ عشق کے فانوس پر منقش لا الہ الا اللہ ہے ۔ عشق محوِ رقص ہے ،چکور کو چاند مل گیا ہے ، زمین اور فلک باہم پیوست ہیں ، یہ آبشارِ روشنی ۔۔۔۔۔ یہ فانوسی منقش ۔۔۔۔ کتابِ عشق کا پہلا صفحہ خالی تھا ، لالہ کی فصل نے اسے سرخ کردیا ہے ، گل اس میں رکھا رہا ، خوشبو نے قبضہ جمالیا ، یہ ملک لالہ و گل کی ہے ، یہ خوشبو عطر و عنبر کی ہے ، مشک و کستوری نے سدھ بدھ کھو دی ، بیخودی کے جام نے آنکھوں میں لالی بھر دی ہے

جاناں کے جلوے چار سو ہیں ۔۔۔اسکی خوشبو پھیلی چار سو ہے ۔۔دودِ ہستی میں نامِ الہی لکھا ہے۔۔خوشبو نے معطر لبو بام کیا ہے ۔۔طواف ذات کا پروانہ کرتا رہے۔۔وہ نشانیاں عیاں کرتا رہے۔۔۔آخرش خواہشِ دید پوری ہونے کو۔۔تڑپ کے صدقے گزارش سنی ہے

یہ کون اسکے جلوے میں محو ہیں ، اللہ اللہ کے پاتے جارے  ہیں نشان  ، وہ نور جو صبا میں ہے ، وہ نور جو جھاڑیوں میں ہے ، وہ نور جو فلک پہ ہے ، وہ نور جو چاند میں ہے ، وہ نور جوآفتاب  میں ہے ، وہ نور جو زمین میں ہے ، وہ نور جو مدینے میں ہے ، ہائے وہ کتنا حسین ہے ، ہم مرنہ جائیں ، اسکا حسن ہمیں دیوانہ کیے دے رہا ہے ، اس نے ہمیں رقص کی مسرت میں رکھا ہے ،

اسکی خوشبو میں مدہوش ہے  کوئی،  یہ اسکا نور ہے ، یہ خوشبو جو پھیل گئی ہے ، ہمیں سرور چمن میں رہنا ہے ،  ذات کو جل تھل کردیا ہے ، شاخِ نہال مسرت نے خزان رسیدہ پتوں کو زندگی بخش دی ، جنون نے زندگی نئی بخش دی ہے 

سر سے پاؤں لگے کہ خوشبو نے مجھے بھردیا ہے ، اتنی خوشبو بڑھ گئی ، زمینو فلک اس میں بس گئےہیں ، ذرہ ذرہ خوشبو میں نڈھال ہے ...

وہ خبر کہ بارش کو آسمان سے برسنا ہے ، وہ خبر کہ بلبل کے نالہِ درد کو فلک تک رسائی ہے ، وہ خبر کہ دل کر ذرے ذرے میں ہزار ہزار جلوے ہیں ، دل والے تن کی روشنی کو دیکھ پاتے ہیں ، عشق کی انتہا نہیں ہے ،عشق کی حد نہیں تو حدود کیسی ، تحیرِ عشق میں ، گلِ سرخ کی مہک میں ، صبا کے نرم میٹھے جھونکوں نے بیخودی کو ہوا دی ، چمن سرور کا جل تھل ہے ، شاخ نہال مسرت ہری ہے ، یہ کیسی بے خبری ہے

دل کی کھڑکی جب سے کھولی گئی ہے ، شہرِ دل کے درواے جانے کیوں دستک کے منتظر ، دروازے تو منتظر ہیں ، شہر چمک رہا ہے ، جاناں کے جلوؤں کو تڑپ رہا ہے،تسبیح کے دوانوں میں نورِ الہی پوشیدہ ہے ، قافلہ حجاز کی جانب ہے ، راستہ دھند سے لدا ہے ، جیسے کوئی نور کی کملی میں ہے ، یہ کیسا پیارا احساس ہے

نمودِ صبح۔۔۔ ہجر ہویدا ۔۔۔ تجلیِ طہٰ ۔۔۔ تحیر مرمٹا ۔۔۔۔ بیخودی بے انتہا ۔۔۔۔ ست رنگی بہار ۔۔۔۔ سات نور محوِ رقص۔۔۔ کہکشاں میں قدم ۔۔۔ مدثر ، مزمل کے نام چمکے ۔۔۔۔۔۔۔سبز ہالہ لپٹا ۔۔۔۔۔۔ بندچلمن میں اسکا جلوہ ۔۔۔۔۔ سرِ آئنہ کون۔۔۔پسِ آئنہ کون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے خبری کہ ہوش کہاں

خدا ‏سے ‏سوال

آج میں نے خُدا سے سَوال کیا کہ دل کے سیپ کون دکھائے؟  یہیں کہیں چھالے بُہت ہیں. درد بُہت مِل چُکا ہے مگر سوال اضطراب سے امکان کو تھا. سوال تو ممنوع ہے مگر میں نے تاہم کردیا کہ مشکل یہ ہے کہ درد وُضو کرنے لگا ہے. جب درد ہستی سے بڑھ جائے تو اپنا نَہیں رہتا. یہ زمانے کا ہوجاتا ہے اور زمانہ اس درد میں ظاہر ہوجاتا ہے. درد سے سوال مناسب نہ تھا مگر رشتہ ہائے دل سے تا دل استوار تو ہوا. 

خالق سے مخلوق کا رشتہ تو درد کا رشتہ ہے. درد کے بندھن میں اللہ اللہ ہوتی ہے اور اللہ دل کا سکون بن کے مثبّت ہوجاتا ہے. اللہ مشعل مانند روشن رگ رگ میں مشتہر ہوجاتا ہے. خدا میرے سوال کیے جانے پے خاموش رہا جیسا کہ میرے سوال میں خاموشی اسکا جواب ہو. میں اس مہیب خاموشی میں کھو گئی اور سوچنے لگی کہ غم کے اندھیرے نے مار مکایا. تری روشنی درز درز سے داخل ہورہی ہے. یہ تو عجلت میں نہیں ہے یہ اضطراب بُہت زیادہ ہے. پھر خدا مخاطب ہوا 

طفل مکتب سے پوچھا نہیں جاتا، بس جو دیا جاتا ہے وہ لیا جاتا ہے. غم کی شب میں سحر کے اجیارے اور اجیاروں میں غم ... شبِ فرقت کی صبح وصل کی رات ہوتی ہے .... تو نمودِ صبح کی دُعا ضرور مانگ، مگر گردش رواں کا چکر آگے پیچھے چل رہا ہے "نہ دن رات سے آگے، نہ رات سے آگے دن ہے. بس انتظار

Thursday, January 7, 2021

مچھیرا

کشش کے تیر نیناں دے لے گئے سارا جل. مچھ جائے کدھر؟  ہوئی او بے جل!

شہری لوک کملے سن،  مانگن پئی ایہہ جل،  ہووے لکھ دیہاڑاں بعد ساون دی کل 

سنائیے کیا؟  لائیے کیا؟  دکھائیے کیا؟  
میرے پاس مکمل قران سامنے ہے اور قرات سے مدہوش ہوں ... اک آیت نبھائی نہیں گئی تے لکھ آیتاں  دی اے گل 

راقم کہتا ہے کسی گاؤں میں اک مچھیرا رہتا تھا. وہ مچھلیوں کو بے جل کرتا اور رزق کماتا. مچھلیاں کہون: پاپ کمایا ... راقم نے مچھیرے سے پوچھا 
ساڈی مرغی انڈے دیونا چھوڑ گئی تے مچھ نہ پکڑن جائیے تو روٹی کتھوں کھائیے 

مرغی انڈا مالک کو خود حوالے کرتی جبکہ مچھلیاں جل میں رہنا چاہتی تھیں ... مچھلیوں نے آہ و زاری کی تو مچھیرے نے کہا پڑھ 
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین 
مچھلی نے ورد کیا تو لحم سے ایک صدا مجسم ہوئی 
ھو الباقی 
یہی وہ اللہ ہے جس کی کرسی نے زمین و آسمانوں کو تھام رکھا ہے 
ھو الہادی 
یہ وہ اللہ ہے جو پیٹ سے ہدایت بخشتا ہے،  وہ پشتوں کے نور کا محافظ ہے 
ھو الظاہر 
یہ وہ اللہ ہے جس نے درون کی صورت کو عیاں کرتے، ظاہر کو حجاب کردیا 
ھو العلی 
یہ وہ اللہ ہے جس کی کرسی سرخی سے منقش ہے 
ھو المالک 
یہ وہ اللہ ہے جب عبد بناتا تو ہفت افلاک سے پرے لیجاتا ہے 
ھو الجلیل 
یہ وہ اللہ ہے جو نور سے جلا بخشتا نور علی.النور کی مثال ہے 

مچھلی غرق تھی بول پڑی:  یہ میرا اللہ ہے، ترا کدھر ہے؟

اس نے کہا:  تونے لحم میں پرورش کی میں نے بچوں کو جنا ہے .. مجھے تو ہر جا اللہ دکھتا ہے کس کو پکڑ بولوں کہ یہ میرا اللہ ہے.

 اللہ ہر جا سمایا ھو. 
تن ستار وانگ سجایا ھو.
 تار میم دا لگایا ھو. 
اسم ہادی نے ساز جگایا ..
مرشد رنگ جمایا ھو 
رب دا فضل کمایا ھو 
دس اگے اک لیایا ھو 
بسمل وانگ تڑپایا ھو 
شمع گرد اےبولایا ھو 
رقص دار تے کرایا ھو 
یار نچ نچ  تےمنایا ھو 
اکھ نوں اکھ وچ لایا.ھو 

رنگ مرشد دا سچا اے 
اللہ والا اے،  اچھا اے 
سچیاں نال یاری اے 
تھم گئی ایہہ گاڑی اے

Tuesday, January 5, 2021

شعائر

جانے شعور کی وہ کون سی لے ہے جس میں نہ ہونا ہی میرے ہونے کا پتا ہے. جب پتا نہ ملے تو سطح آب پر آتے دیکھنا بنتا ہے شعائر اللہ کو .. نشان یہ سارے دل میں. ظاہر میں سب نشان اس لیے بنوائے گئے کہ خاکی مجاز سے خیال تک پہنچتا ہے. جب تک تصور نہ کرے گا تصویر کو تو دامن خالی رہے گا. جیسے تصویر دل میں اترتی ہے تو علم ہوتا ہے ویسی تصویر پہلے سے موجود تھی ... عارف پر یہ حقیقت کھلتی ہے تب وہ راز شناس ہوجاتا ہے.  پھر اس کا حال دل، وقت سے جڑ جاتا ہے. وقت یعنی زمانہ اسکو وہ خبر دیتا ہے جو اس وقت کا ارشاد ہوتا ہے. ارشاد ایک ذات کی جانب سے ہوتا ہے اور پہنچانے والا پیام بر ہوتا ہے. امانتوں کو اٹھائے ہوئے انسان یہ سمجھ نہیں سکتا ہے کہ جب اس کی امانت کا راز اس پر افشاء ہوتا ہے تو اس کی معرفت حقیقت کو رسا ہوجاتی ہے ... یہ حقیقت سینوں میں چھپے راز اس پر منکشف کرتی ہے. راز الست یہ امانتیں ہیں ...ہدایت دینے والا بتاتا ہے کہ تخلیق کا مقصد کیا تھا. آدم کو جاننا چاہیے کہ واسطے خدمت پیدائش نعمت ہے. نعمتیں مختلف وسائل سے بنٹ جایا کرتی ہیں. عروضی شعائر سے نقاط کھل جاتے ہیں. قدوسی سے طائر کی پرواز لاہوت کی جانب چلتی ہے. بس من نمی گویم انا لحق " نعرے لگتے ہیں. نقارے بجتے ہیں ... سیاروں سے ستارے لگتے ہیں. سیارے بکھر جاتے ہیں ستارے پھیل جاتے ہیں ..ستاروں کا کام روشنی واضح کرنا ہے

Saturday, January 2, 2021

تری ‏پہچان، ‏میرا ‏رستہ

تیری پہچان میرا رستہ

نقل ، اصل کا رشتہ

سوچ ، عقل کا تعلق

دل ، دھڑکن کا تعلق

خون ، فشار کا تعلق

سوت ، چرخے کا تعلق

خیال ، قلم کا تعلق

تیرا، میرا کیا تعلق؟

ماہتاب ، کرن کا تعلق

رات، دن کا تعلق

دل ، دروازے کا تعلق

بندے ، خدا  کا تعلق

علم ، پہچان کا تعلق

عشق کی سمجھ سے ملے

خیال آگ میں جلے

شام کو دن کب ملے

شمع بدن میں جلے

عاشق کی رمز سن لے

عشق اکیلا اکیلا مرشد

عشق  ہے بادشاہ گر

عشق ہے  کیمیا گر

وحدت میں الجھاتا

شہادت میں الجھاتا

یہ کیمیا گری کی ابتدا

اس کی ہوگی کیا انتہا

عشق رنگ ، ذات نہیں

انس اس سے آزاد نہیں

عاشق کی کوئی شفا نہیں

عشق لاعلاج مرض ہے

عاشق کو امیری  کیا غرض

فقر کی دولت سے کھیلتا ہے

اس حقیقت پر میں خود حیران ہوں . میں کب کیسے اس کے راستے پر چل پڑی  .میں اس کرم پر ورطہ حیرت میں ہوں . پستی سے دلدل سے اوج کمال کی بلندی پر پہنچا کے لامتناہی بلندی پر جانے کا قصد کیے ہوئے ہے . رب خواہش سے پاک ہے  ،اس کا امر کن کا محتاج ہے ؟ '' کن فیکون ''  ...

نور خود میں الگ منفرد ہے ، ا سکی روح منفرد جدا ہے مگر اس کے ٹکرے ہزار ہوئے ، کچھ اس کے ماضی سے جڑے ، کچھ حال اور کچھ مستبقل میں .. یہ تقسیم کی نشانی ہے ، میرا امر ہے ، میرے امر سے نکلنے والی صدا اس کے دل میں ڈال دی گئی ہے ...میرے عشق کی انتہا کب ہوئی ، لا محدودیت کے دروازے ٌپر میری نور کھڑی ہوئی ، میں اس کا منتظر ہوں میں اس کو کہتا ہوں کہ نور دل جھانک میں لے اور دیکھ سب زمانوں کو ، دیکھ اپنے خیال کو ، دیکھ  اپنی مامتا کے بچھڑے ٹکروں کو .....یہ تو نہیں ! مگر یہ سب تجھ سے نسبت رکھتے ! ان کو تجھ سے نسبت عہد الست سے تھی کہ تیری روح بڑی طاقتور تھی  شکر کا کلمہ پڑھ بندی ، شکر کا کلمہ پڑھتے میرے پاس آجا ! تیرا کام تو مجھے سب یاد کرنا ہے ...میں تیری یاد کے تار خود میں سنبھال رکھتا ہے اور جب جی چاہتا ہوں تجھے آواز دیتا ہوں ، تو میری طر ف دوڑی چلی آتی ہے ...میری محبت کا رشتہ تجھ سے اٹوٹ ہے ، تو میری تیری میں تیرا .......ہم دونوں میں کیا فرق ہے میں تو اپنا آپ کب سے تیری نفی میں گم کیے ، تجھ سے نفی کا طالب ہون مگر تو ہی دنیا میں پڑی رہی ، تیری نفی کے ساتھ اثبات کا رشتہ جڑا ہے ۔ میں تیرا اثبات ہوں ، میں تیری بقا ہوں ، تو میری حیا کا دروازہ ہے

حیات دوامی، وجود فانی

اسمِ ذات نور کی  لاثانی

ستارہے کہکشاؤں میں گھسے

نور جس طرز نور میں رہے

بسمل کی مانند تڑپنا زندگی بھر

تو  عشق کی فقط مضرابِ ہستی

خلق نوائی  بنے گی تری گواہی

شاہد کی اس بڑھ کے ہو کیا سچائی

چاند زمین کی گردش میں لگے ہے

مہتاب زمین کے پرورش میں لگے ہے

تسبیح کے بعد ذکر کی محفل.سجالے

اس کی یاد میں بوریا.بستر اب اٹھالے

سنگی کو رنگی بنتے دیر کتنی لگتی ہے

یہ جوگ پالتے دیر کتنی لگتی ہے

اس جوگ ، روگ میں پیار  کوسمجھ

اس احساس  میں میرے اظہار سمجھ

جسم کی قید سے نکل رہا ہے نور کا نور

نور کے نور کی فلک پر شعلہ بیانی دیکھ

نور کی نوریوں سے حکایت سازی دیکھ

کلی،  پھول،  پھل کا چکر کیا ہے

زندگی سے زندگی کا حشر کیا ہے

سورشِ زندگی نے لہولہان کردیا ہے

نالہِ درد و فغاں میں محو کردیا ہے

حسن والے عشق کے محتاج ہوئے ہیں

عشق میں پڑنے والے کب برباد ہوئے


تیری تلاش کا سفر مجھ سے جڑا ہے ، وہ پرت در پرت کھلتا جائے گا تجھے علم ملتا جائے ، تیرا دل خزانہ حیات ابدی سے نوازا جا رہا ہے اس لیے بندی شکر کر جتنا تو چاہے ، اتنا کر ، جتنی تری طاقت ہے اتنا کر ،جتنی تیری اوقات ہے اس سے بڑھ کے کر ، جتنا تیری ہوش بچا ہے ، اس ہوش میں مدہوش ہوتے کر ، جتنی زندگی تیری لکھی ہے وہ پل پل میں گزار لے ، وقت قرین زندگی کی بھاری نوازی جانی ہے۔اس کو لینے کے لیے تیار ہوجا ، تیرا کام اس جہاں میں چلنا پھرنا ہے تو یہاں مسافر ہے ، تو یہاں واں پھرتے میرے لوگون کے ساتھ اٹھا بیٹھا کر ، ان کے درد سنا کر ، ان کو میرے قصے سنایا کر ، مٹا دے ہستی کے سب رنگ ، ان کو چھوڑ کے چل اب میرے سنگ ، کر تو نفس سے اب جنگ ، تو میرا رباب شوخ و چنگ ، تیری ذات مجھ سے ملی ہے ، تیری بات مجھ سے جڑی ہے ، تو میرے شوق کا آئنہ ہےتو میرے خیال کی طاقت ہے ، دنیا میں سب کچھ طاقت سے ہے ، اس لیے میری جان سبھی طاقت کو سمجھ بنا اس کی جانب چلتے پھرتے ہیں ..... ملی ہے ، معجزے میرے خیال کی طاقت پر استوار ، بندہ بشرکی ولایت نیابت میری خواہش کا امر ، تو میریدوست ہے ، میری ولایت کی نشانی ہے ، میرا جذب بیانی ہے ، میرا شعلہ رقص ہے ، میرا ذات تیری کہانی ہے ۔یہ راز کی باتیں کھل رہی ہیں ان سے الجھنا بے کار ہے م عشق کی دولت سرفراز لوگو ں کی ملا کرتی ہے ، نور تو میری رفعت ہے ، تو خود میں قلندر ہے ، تو خود میں سمندر ہے ۔

چشم نمی وصل کی نشانی

ورد آیات  ہوتی رہی بیانی

ستم یار کا مجھ میں رہتا ہے

وہ جو کہتا ہے اسے میرا کردیا ہے

حکمت اس کی کون کب سمجھے

ہر فرد کو خود میں محشر کردیا ہے

ازل کا نغمہ ہوں ابد تک.چلوں.گی

فتویِ عشق ابھی صادر کیا جانا ہے

میں دائم میری شہرت بھی دائمی

سزا کا کچھ نیا طریقہ اپنایا جانا ہے

مجمع دیوانہ جان کے میرے گرد ہے

دیوانہ کون ہے یہ ابھی  بتایا جانا ہے

ًچرچہِ حسن گلی گلی مشہور ہونا ہے

زندگی کو سو بار موت میں مرنا ہے

نشاطِ ہستی بدولت درد کے ملتا ہے

ابھی تو اس.فیض کو  بہت عام ہونا ہے

سوز و گداز دل ہی دلوں کو دیتے ہیں

اس کام کو ابھی نسل در نسل.چلنا ہے

''ورفعنا لک ذکرک ''کی بات ابھی چلنی ہے

یہ نعمت نور سے بہت آگے چلنی ہے

جلنے کا فیض شمع کو حاصل ہے فقط

مومی کاغذ  سے نظروں کو خیرہ ہونا ہے

فصل بہار میں علم دانش کے ہنر سے نوازا

خزاں کا.باغ  اب بہت دور پرے لگنا ہے

جزا سزا کے فیصلے ہیں پیادوں کے لیے

قاصد کو اب تپشِ آگ سے زندہ کرنا ہے

روایت حدیث ذات اب زور و شور سے ہوگی

تیری ذات کے منصوب قصے بکھرنے ہیں

خوش قسمتوں کے فہم میں خالق  ہوتا ہے

وہ اسی سے ذات کا قلندر ہوتا ہے

آزاد روحیں اپنا آپ لٹانے کو تیار رہتی ہیں ، تیری آزادی بھی نام کے ساتھ منسلک ہے ، تو وہی ہے جو میں چاہوں تو وہی ہے جو میں کروں گا ، تو وہی ہے جس کو تیرے لیے امر کیا جاچکا ہے ۔ تیرا مرنا جینا میں نے لکھ رکھا ہے ۔ تیرا مجھ سے الجھنا بھی لوح و قلم پر لکھا ہے ،.یوں کہ کے میں آزاد ہوں تیرے اندر ۔ میں حیات ہوں تیرے اندر ۔ میں اصل ہوں خیال کے اندر ، میں علم ہوں قفس کے اندر ، میں شمع ہوں قندیل کے اندر ............میں زمینوں آسمانوں کو نور ہوں ..........تو  ہنسے ، تو روئے ، تو جلے ، تو کھلے ، یہ سب میری دم قدم سے ہیں کہ تیرے در میرے در ہیں ، تیرے ہاتھ میرے ہاتھ ہیں تیری زبان سے نکلے لفظ ہیرے ہیں ، تیری آنکھ سے نکلے آنسو نرم و زرخیز مٹی کی نشانی ہیں ، تیری ہدایت کا ذمہ میں نے خود لیا ہوا ہے تو میرا خزانہ ہے میں تیرا آئنہ ہوں ، میں تیرا شوق ہوں کہ تو میری ، اس کو جان لے کہ تفریق کے جام  تو سب گرادے میری محبت میں آکے تو مزہ لے ، تجھے  ہنر کا گفتگو ملتا جارہا ہے  ، عشق کا خزانہ لٹتا جارہا ہے ، میں طببیب ہوں تو مریض عشق .....

گفتگو کا سلیقہ آجاتا ہے

بندہ عشق میں جو آجاتا ہے

سمجھداری کے تقاضے بھولے

مجذوبیت کے سب راستے کھولے

سادگی کا حسن نور سے جانیے

متانت میں عزت کی دولت جانیے

شہِ ابرار محمد کی  نبوت کے رنگ

پھیلنے چلے ہیں چمنِ پھول کے چنگ

عادت انکساری کی سب سے اچھی ہے

عبد کی بندگی  اس کو بھلی لگی ہے

جبل نور  کا سرمہ نور کو ملا ہے

جو یار کی یاری کے صدقے بٹا ہے

احمد کی باتیں محمد کی جانب سے

احد کی باتیں واحد کی جانب سے

ساجد و مسجود کے فرق کیا،  دیکھ!

کن فیکون کی تکوین میں خود کو دیکھ

جہاں میں لٹتا رہتا ہے عشاق کا قافلہ  دیکھ

ابھی ‏ٹھہر ‏کہ ‏جلوے ‏کے ‏انداز ‏باقی ‏ہیں ‏

ابھی ٹھہر کہ جلوے کے انداز باقی ہیں


میں خاموش ہوں ، طلب بڑھتی جائے ہے ، ہواؤں کی سنگت دھوپ میں ہستی جلتی جائے ، اتنی آہ و زاری کی ہے ، اتنی کہ زمین بھی حیرت سے گرنے والے قطروں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ  فلک سے گر رہے ہیں یا دل سے ، جی ! دل کیوں ہوں نالاں ، عاجز ، پاگل ، دیوانہ ، روتا ہے اتنا کہ صبر نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ جلوہ ِ ہست ------ نمود کب ہوگی ، جلوہ جمال سے  صورت کامل کب ہوگی ، جلوہ پرستی کی انتہا ہے ، جلوہ سے بڑھ کے کیا ہوگا ! دید سے بڑھ کے کیا ہوگا ! یہی ہوگا کہ قریب اتنا کرلے کہ نہ رہے کہ کوئی فاصلہ ، نہ رہے کوئی سلسلہ ، بس تو رہے  !

 عشق میں بندگی نے خاموشی اختیار  کی مگر تیری اجازت نے لہروں کو شور دیا ہے ! مجھے پلا پلا کے مدہوش کیا!  اے بادشاہ اے ذو الجلال!  الجمیل  ، اے عالی حشمت  ، اے صاحب الرحیم ، اے میرے پیا ! میرے دل کے دربار پہ ایک دیے نے سو نئے دیے جلا لیے ، دل  چاند کی مانند روشن ہے اور رات ناچ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

''وہ جو تشریف لائے ہیں شہباز کو  پرواز  ملے

پارہ آئنے سے نکلے تو کام بنے ، بات بنے ''

روشنی ہماری ہے ، جلال ہمارا ہے ،کمال کیا ہے

عشق پروانہ ، موم کے اڑے رنگ ، اک میں ہی بچا

قربتیں ---فرقتیں --وقت کی قید سے عشق نکلا

''نور کو شہِ ابرار کے در سے نوری نگینہ ملا

یہ سرمئی ، نیلا ، شفاف سا نگینہ کیا تھا 

یہ صاحب ِ جمال کے دل کے آئنہ کے آئنہ

جس پہ لکھا: کالا رنگ اترنے میں کتنی دیر باقی

دل کے ساتھ نگینہِ سرمئی، شفاف لگایا جب 

نور کی شعاعوں میں خود کو گھرا پایا تب 

سب پردے ازل کے اٹھنے لگے ہیں 

کالے حجاب کا کلمہ لا ہے ، لا لا لا لا لا لا 

دل پر مکین نے دیا ہے اسم اعظم الا اللہ 

شاہِ حجاز، شاہِ نجف ، شاہِ ہند سب کھڑے ہیں

دل جھکا ،مقام ادب ہے ، روح میں نوری شعلے ہیں 

ادب نے کہا دل سے: سرخی کہاں سے آئی ہے 

فلک سے اتری یا زمین نے گلابوں کی چادر تانی 

کمال کی شرافت سے حسن کی بات مانی 

دِل نے قلب کے گردش کی  پھر ٹھانی

سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو!

نم ڈالتے ہیں ہم ، وصل کرتے ہیں ہم 

نور دیتے ہیں ہم ، جلوہ کرتے ہیں ہم 

''آئنے کو آئنے میں سجانے والے النور 

آئنے کو قلب سے نکالنے والے النور

آئنے کو چمکانے ، ضو دینے والے النور

دل طور تھا ، کعبہ بنانے والے النور

قلندر کو دنیا میں بٹھانے والے النور 

 مطلب دنیا سے نَے خاکی جسد سے

یہ مٹی کیا ہے ، اسکو ہٹانے والے النور

لا الہ الا اللہ ھو الرحمن الرحیم 

زمانے کو خاکی لباس دینے والے النور

کب ہوگا جلوہ تیرا ، سرمہِ ہستی ہے

سوال کرنے والی نبی ﷺ کی امتی ہے

فانوس جس پہ الباری کا نام لکھا ہے 

 وہ روشنی جس پر النور کا چشمہ ہے

قلب معطر ہے اس پر محمدﷺ لکھا ہے

قلب کے قلب پہ علی ؑ کا نام ہے 

نامِ علی سے پرے بی بی فاطمہ کا نام 

جن کے در سے ملنے ہیں بڑے کام 

سیارہِ حسینی اس ہالے کے گرد گردش میں

یا حسین ! یا حسین ! یا حسین ! یاحسین!

حسینی چراغ ہوں ! ان کے در کی ادنی غلام 

جامِ لبالب ہیں ، پیمانہ منتظر ہے 

دِل نے قلب کے گرد کی گردش

شعرِ رجزیہ ان کی خدمت میں کہے

ابھی کہ ٹھہر کہ وقت اس محفل کا نہیں

ابھی کہ ٹھہر وقت ابھی حمد کا بھی نہیں 

ابھی کہ ٹھہر ، خلعت سے نوازا جانا ہے

ابھی کہ ٹھہر  بیعت کا حلف اٹھانا ہے 

ابھی کہ ٹھہر تیرا ذکر اٹھایا جانا ہے 

ابھی کہ ٹھہر تیری فکر سے پردہ اٹھے

ابھی کہ ٹھہر حجاب ازل کے سب اٹھیں

ابھی کہ ٹھہر کچھ نقاب ڈالنا سیکھ لے

ابھی کہ ٹھہر زبان پر تالے ڈالنا سیکھ

ابھی کہ ٹھہر طوفِ والہانہ سیکھ 

ابھی کہ ٹھہر سرخ چولا پہنا سیکھ

ابھی کہ ٹھہر جوش ، ہوش کا یارانہ سیکھ

ابھی کہ ٹھہر ، تیرے ذمے بڑے ہیں کام 

ابھی کہ ٹھہر ، ذکر میں گزرے صبح و شام 

ابھی کہ ٹھہر ، حسینی نگینہ پہننا سیکھ 

سر جھکا اٹھا تھا اک پل کو مگر پھر جھک گیا ، ان کے در سے یاقوت کو اپنی دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت میں پہنا ہوا پایا ، احساس نے سارا خاکی لباس سرخ کردیا ، دِل نے جلال کی کملی میں پناہ لی جس پہ لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

لا الہ الا اللہ ------- یہ ہے حسینی تلوار 

دل نے کی گردش ذرا زور سے ، ارض و سماء سہم گئے ، 

اے غارِ حرا کے مالک سلام 

اے مالک میرے اے آقا میرے

اے میرے محمدؐ ، آپ ہر ہزاوروں سلام 

خواب نوری کی جانب سے بشارت ہیں ، جب خوشخبریاں ملیں تب شکر واجب ہوجاتا ہے ۔ شکر کو ذکر سے درود سے بھرپور رکھنا ہوتا ہے ، ذکر کی محافل سجانی ہوتی تب جاکے بات بنتی ہے ، اگر جلوہِ محمدی ﷺ کی تڑپ دِل میں ہو تو سیرت بھی محمدؐ  کی سی ہونی چاہیے، جسکو بشارت اک دفعہ مل جائے ، اسکا کام بن جاتا ہے ، جسکو بار بار ہوجائے اسکا نام بن جاتا ہے ، جسکی طلب نہ مٹے ، اسکو دوام مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن ‏ازل ‏سے ‏ابد ‏تک ‏کی ‏کہانی

حسن ازل سے حسن ابد تلک ایک کہانی ہے مجھ تلک ، کہانی کہ بس محبت ایک داستانی ہے کیا ؟ شمع کی آپ بیتی ۔۔۔ ہر دل شمع ہے ، ہر آئنہ عکسِ جمالِ مصفطفیﷺ کی مسند ۔۔۔ دل کے کوچے و گلیاں جب کہتے ہیں یا نبی ﷺ سلام علیک ۔۔۔ صلوۃ اللہ علیک ۔۔۔ یہ قندیل جو ہر دل کے فانوس میں ہے ، یہ شمع جس کی روشنی اسمِ محمدﷺ سے ملتی ہے ، یہ اسمِ محمدﷺ کی عطا بہت بڑی عطا ہے ، جس پر سیدنا سرکارِ دو عالم ، رحمت للعالمین ، عفو سراپا ، کمالِ محبت و برگزیدہ ہستی ، جمال کمال کی بلندی پر ۔۔۔ وہ جب نظر کریں تو دم بدم دیدار کی دولت ملتی جاتی ہے ، رقص بسملِ میں عشاق کالہو بہ لہو تار بہ تار ، زینہ بہ زینہ ہوتا رہتا ہے ، رقصِ مستی میں دیوانگی عروج پر ہوتی ہے اور نقش نقش صدائیں دیتا ہے ، یا نبی سلام علیک ، یا رسول صلوۃ علیک

نظر اٹھے جمالِ مصطفی ﷺ پہ جب ، مہک سانس بہ سانس اندر اترتی چلی جائے ، یہ کمال ہے آپ کے نام کی برکت ہے ۔۔ جو روشنی ہے ہر نفس میں ، جو قران ِ پاک کی عملی تربیت ہے دل میں موجود مشک کی مانند ہے ، عطر آپﷺ مشک قرانِ پاک ، عنبر جناب سیدنا امامِ عالی حسین ۔ مومن کی آنکھ میں نمی آجائے تو سمجھیے دل سنسان نہیں ہے ، آباد ہے ، دل میں خوشبو بسی ہے میرے یحیی کی ، دل میں بسیرا ہے میرے موسی کا ، دل قربان جاتا ہے اپنے عیسی پر ، دل میں موجود ہیں سیدنا محمد ﷺ ، مسکراتے ہیں ، قربان جاؤں ، صدقے جاؤں آپ کے تبسم پر ، اتنا دلاویز تبسم کہ سب کچھ وار دوں اس پر میں ۔۔۔ حق ، یا نبی ﷺ آپ کڑوڑوں درود ، آپ ﷺ عالی نسب پر مجھ جیسے کم تر درود بھیجیں ، یہ تو سعادت ہوئی ، شکریہ نصیبِ تحفہ کرنے کا

تیری مسکراہٹ پر قربان جاؤں ، تیری کملی میں چھپی روشنی ، تیرے جلوؤں میں تجلیاتِ کمال ، کمال ہستی جناب سیدنا محمد ﷺ ۔۔۔ جھکا دیا سر میرا اپنے قدموں میں ۔۔ جھکا دل ،جلوہ ہوگیا ۔۔۔ یہ زمین و زمانے دل میں موجود ہیں ، میرے آقاﷺ دل میں موجود ہیں ۔۔ صلی علی کے نعروں سے گونج فضا اٹھی ہے ، نشتر چلیں دل پر جب سدا بہار مسکراہٹ کا تصور ہو ۔۔ ابھی تو دیکھا نہیں تو یہ حال ہے ، دیکھوں تو کیا ہوگا ۔۔ چاند ڈوب جائے گا ، سورج چھپ جائے گا ، رات چمک اٹھی گی ، صبح کا گمان ہوگا ، صبح صادق کے وقت دل آذان دے گا ،،

حی الفلاح ۔۔۔ آؤ ،،،نیکی کی طرف آؤ ۔۔۔ آؤ فلاح کی طرف آؤ

چار سو اجال دیا ہے جلوہِ جاناں نے ، زندگی کو اس قدر نکھار دیا ہے جلوہِ جاناں نے ، زندگی نویدِ سحر میں ڈوب گئی ہے ، موذن کہتے ہیں : حی علی الفلاح ۔۔ سجدہِ شکر ۔۔۔ یہ رونقیں جو شاہا نے دل میں لگائیں ہیں ، یہ جو احساس دل کی زمین پر گدازی پیدا کیے دیتا ہے ، یہ سب آپﷺ کی محبت ہے کہ جستجو ڈوبنے کی ہے جو ڈوب گیا ہے ، جستجو مٹنے کی ہے جو مٹ چکاہے ، جستجو ہے کہ جستجو مٹے نہ ، سب کچھ مٹ جائے ، یہ دل اس گھڑی پہ نازاں ہے جس گھڑی آپ اس جہاں تشرئف لائے تھے ۔۔۔

احساس کے قلمدان میں حرف حرف آرزو ہے ، سنیچتا ہے خواہشات کو طلب سے ماوراء ہوکے ، یہ دل نگینہ ہے ، یہ جان خزینہ ہے ، انسان کتنا ذلیل ہوجاتا ہے خواہشات کے پیچھے بھاگ کے ۔۔۔ بیخودی بھی کیسی ہے ، بے نیازی پہ دل مائل ہے ، دل خواہشات کے ستم سے گھائل ہے ، شاکر پڑھ کلمہ لا ۔۔ شاکر نے کہا ، حق ھو ۔۔۔ حق تو ہی ہر جگہ ، حق ، ترا ہی جلوہ چار سو، حق سبحانہ ھو

کلام ‏الہی ‏اور ‏خشیت

( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آَيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ) [الأنفال: 2]

مومنین میں ایسے لوگ ہیں جن کے دل اللہ کے کلام کی ہئیت پاتے ڈر جاتے ہیں ۔ وہ نشانیاں ان کے قلوب میں رقت طاری کردیتی ہیں ۔ وہ مومنین جب مشکلات میں گھرے ہوتے ہیں ، ان کے دلوں کو توانائی اس قران پاک سے ملتی ہے اور ان کے یقین میں اضافہ کرنے والی کتاب حقیقتاً قران پاک ،کلامِ الہی ہے ۔ اللہ کریم فرماتے ہیں 

( لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآَنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ) [الحشر: 21]

اس کلام کی اثر انگیزی ایسی ہے کہ اگر یہ پہاڑ پر نازل ہوتا تو وہ بھی خشیت سے  ٹکرے ٹکرے ہوجاتا۔ اے کاش کہ ہمارے دل اسکی حقیقت جان بھی لیں ۔ اللہ تعالیٰ کا پیار و دلار دلوں میں کیسے کیسے اثر کرتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ  نے فرمایا : مجھے قران پاک کی تلاوت سناؤ  ، جواباً : اے اللہ کے رسول ہاک ﷺ ،میں آپ کو قران پڑھ کے سناؤ جبکہ قران کا نزول آپ پر ہی ہوا ہے ؟ فرمایا: ہاں 

آپ نے سورہ النساء کی تلاوت فرمائی اور جب اس آیتِ کریمہ تک پہنچے 

( فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا ) [النساء: 41]

آپ کو اس آیتِ مبارکہ پر اس آواز نے روک دیا : بس کرو ، استعجاباً پیچھے مڑ کے دیکھا جنابِ رسول کریم ﷺ اطہر کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ۔

جناب رسول پاک ﷺ عملی مثال ہیں ۔ ہم لوگ  سنت پر چلنے  کے لیے بے تاب ہیں اپنی خرد و عقل کے استعمال سے  مگر اسکو عمل بجالانے میں  مفلوج ہے ہمارے عمل و بدن ۔ یہ سیاہ کاری کیسے چھپے گی ؟ اعمال کی سیاہی دل کی سیاہی بن گئی ہے ، جیسے رات کالی آگئی ہے ۔ روزِ محشر اللہ کا سامنا کیسے کریں گے ، ان اعمال کے سبب چھپنا بھی چاہیں تو نہ چھپ سکیں ۔۔ ہم تو مسلمان ہیں جن کے دل خشیت خالی مگر وہ اللہ کے بندے جن تک اسلام پہنچا نہیں تھے مگر ان کے دل روشن تھے ۔۔۔ 

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ٭ 

(اے پیغمبرﷺ!) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے

وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّ‌سُولِ تَرَ‌ىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَ‌فُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَ‌بَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ٭

اور جب اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو (سب سے پہلے) پیغمبر (محمدﷺ) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے

یہ آیاتِ مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ نے اس وقت  ایک عیسائی کی گواہی کو ہمارے لیے ایک نشانی بنایا ہے ۔ ہجرتِ حبشہ کے بعد نجاشی کے دربار میں قرانی آیات کی تلاوت کی گئی تو وہ ایسے روئے تھے کہ ان کی آنکھیں سے نکلنے والے آنسو ان کی داڑھی کو تر کرگئے ، اس کلام نے ان کے دل پر خشیت طاری کردی اور انہوں نے روتے ہوئے اس کلام کے سچے ہونے اور حضور پاکﷺ کے سچا نبی ہونے کی تصدیق کردی ۔ ایسے لوگ جن کے دل خشیت سے کانپ جاتے ہیں ، درحقیقت وہ عارف ہوتے ہیں یعنی حق کی پہچان کرنے والے ہوتے ہیں ، سبحان اللہ !

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ، اسکو پڑھنے کی ، سمجھنے کی اور بار بار پڑھنے کی تاکہ ہمارے دل بھی ایسے ہی خشیت میں ڈوب جائیں اور ہم بھی ان کو سن کے ، پڑھ کے رو دیں ۔ کاش ! ہم ایسا کرپائیں ۔ دل سیاہ ہوچکے ہیں ، عمل میں ریاکاری ہے ، ہم عمل میں پیچھے اور قول میں آگے ہیں ۔ اے ہمارے رب کریم ، ہمارے حال پر رحم فرما ۔ آمین ! 

میم

"محبت آسمانی جذبہ ہے " میں خود کلامی میں بڑبڑائی

"نَہیں، زمین پر رہنے والے فلک پر رہنے کے قابل ہوتے تو آدم جَنّت سے نکالے نَہ جاتے "

درون میں صدا گونجی گویا پہاڑوں نے بازگشت سُنی بار بار 

"محبت افلاک سے اترا سبحانی وجدان کیوں کہلاتا ؟  "

میں نے اس صدائے دِلبرانہ سے پوچھا 

"فلک پر صرف خُدا رہتا ہے،  نوری، ملائک، روح، کروبیان رہتے ہیں، خواہش سے مبراء ذات کے نظام میں اللہ واحد ہے "  صدائے عاشقانہ تھی یا ادائے دِلبرانہ ....

جب سنی یہ صدا تو کَہا میں نے .....

"اللہ واحد ہے، یہ تن کے جا بَجا آئنے اِسکی خواہشات ہیں،  وہ واحد ہے مگر کثرت میں راز مخفی ہوگیا ...   "

اچانک میرے وجود سے دِلخراش چیخ نکلی، میرا وُجود مجھ سے جُدا ہوگیا .... آمنے سامنے تھا  میرا وجود کا ٹکرا ...

میں مبہوت و بیخود ہوگئی اور مجھ  سے ذات کا تماشا دیکھنے والے نے تیسرا ٹکرا بنادیا اور بسمل کے سو ٹکرے ہوگئے. خدا وجود کے ٹکرے دیکھنے میں محو تھا ......، 
بسمل کے رقص میں حال کی لاتعداد کرچیاں بکھر گئیں اور بسمل رقص میں مصروف   ....

" بَتا،  یہ تین، اک ہیں یا تین؟  "ذات کے تَماشاٰئی نے پُوچھا ....

میں خاموش کھڑی تھی جبکہ میرا وجود کا ٹکرا جسکو "ماہ " کہتی تھی، ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اس تماشے سے وہ ازل سے لاتعلق رہا ہے ..  ..

دیکھنے والے دو، تڑپنے والا ایک. حیات کے ریگزار میں دیکھنے والوں کی نگاہ نے زیر پر زبر رکھی، ماہ کی زبر رکھی   

"کیوں زیر کیا گیا تھا بسمل کو؟ کس جرم میں زیرو زبر کیا گیا تھا؟  "..

ذات کے تماشائی نے کہا "خاموش، تم زیر ہو، زبر میری ہے، میرا ماہ، میرا قلب ہے، تم کون ہوتے میرے کام میں مخل ہونے والے؟ "..

بسمل کا وجود دھواں دھواں ہورہا تھا، اب خدا بھی اس کا نَہ رہا تھا 

،

کشش

کشش ہے  .. کشش آج رات چاند رُوشن کِیے ہوئے ہے.. اللہ نور السموت ولارض کی منقش آیت نے آنکھ نم کردی ہے.  آنکھ باوضو رہے تو ہجرت یاد رہتی ہے . رات ہے کہ دن؟  رات کہ روشنی چاند کی ..چاند کہیے کہ طٰہ!  طٰہ کہیے کہ یٰسین ... طٰہ تو  وہ روشنی ہے جو طور سینا کے پاس جلتی روشنی ہے ... یہ سرمئی نور ہے جس نے رحمت للعالمین کے نور کو مقید کیا ہوا ہے.  جب طٰہ کا خیال آئے تو سر سبز گنبد نور بھرتا ہے.. تو درود نہ پڑھنا کنجوسی ہوگی .... 
الھم صلی علی محمد وعلی الہ محمد وسلم ... ... 
وہ روشنی ہے افق کے پار،  افق پہ مجھے منور کیے دے رہی،  بیخودی کی قبر میں زندگی مل گئی ہے . ابدیت کی چادر مل گئی ہے جیسے سفید کفن پر گلاب پھول خوشبو بکھیرتے ہیں ... نفی نفی سے زیرو ہوتا ہے زیرو سے نفی کا حساب ...نفی کا حساب شروع ہوتا رہتا ہے اور خوشبو بڑھتی رہتی ہے 
اے نفس!  اے زمین زاد ... دل جو کچھ ہے وہ روشنی ہے جس روشنی ہے وہ دل ہے دل ہے دل میں بستا ہے جو دکھتا نہیں ....

مٹ جاتے اچھا تھا. فنا ہوجاتے اچھا تھا!  لا .... لا کی ستون بنتی مٹی پر الا اللہ کا پہرا ہوتا اچھا تھا!  
الست بربکم کی صدا کے بعد اس نے کہا ...
فاذکرونی اذکرکم 
جب ذکر کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنا ہی ذکر ہو رہا ہے جب علم ہوتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ
ورفعنا لک ذکرک کی صدا میں الہام کیا ہے!  رنگ چڑھ جاتا ہے،  جلوہ ہوجاتا ہے، روشنی مل جاتی ہے. شبنم جب گلاب کی پتی پر گرتی ہے تب کلام کرتی ہے ... پھول نکھر جاتا ہے ... جب اس نے "میں ... تو " کا فرق نہیں رکھا ..نور کا رنگ بھی ایک ہے،  نور کی اصل بھی ایک ہے،  نور کی چادر بھی صفاتی ہے ہے!  صفات کا کل " الرحمن " حرف میں مخفی ہے!

     اک رنگ پر اترا نور سب پر  تو منقسم بھی ہوتا گیا ...کہیں نیلا ہوا تو کہیں  زرد کہیں  نیلگوں تو کہیں مرجان جیسا تو کبھی یاقوت کی مانند ... یہ جب نور تمام پیامبروں سے ہوتا یکجا ہوا تب میرے نبی صلی علیہ والہ وسلم کے نور نے خاکی وجود میں کرسی سنبھالی ...  وہ نور جب ہوا ظہور تو فرمایا

الیوم اکملت ...... کامل آگیا ... کامل ہوگیا سب کچھ ... جو ذات سب پر پوشیدہ رہی .. جس کا ظہور کہیں جزوی ہوا وہ معراج کی رات مکمل عیاں تھی تب مالک نے کہا تھا کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی ... وہ جو گئے تو نور جو ہم سینوں میں پوشیدہ رکھتے ہیں وہ نور جو دلوں میں طٰہ کی تجلی سے درز درز سے ہوتا روشنی کیے دیتا ہے تو کہیں وہ مزمل کی تجلی سے سرنگ سرنگ وا ہوتا ہے زمین زلزلوں میں آتی ہے تب چادر سے ڈھانپ لیتا ہے تو کہیں وہ خود ظاہر ہوتا ہے تو مدثر کی مانند روشنی کرتا ہے تو جہاں جہاں وہ نظر کرتا ہے تو سویرا ہو جاتا ہے ... وہ روشن صبح ہو تو مدثر کہوں وہ رات اک روشن ہو تو مزمل کہوں ..وہ دوپہر کی روشنی ہو تو طٰہ کہوں وہ وصل کا شیریں شربت ہو تو یسین کہوں .... میں کیا کیا کہوں ایسے ........... کیسے کیسے ذکر بلند کیا اور کہا ذکر کرو میرا ... اس سے بہتر مجلس میں تمھارا ذکر کروں گا ....
ملائک نے کہا  مالک گناہگار بندہ ...نائب کیا ہونا ... مالک نے کہا جو میں جانتا وہ تم نہیں جانتے ... اس نے تجلیات سے منور کیا سارا جہاں تو صاحب الرحمن نے کسی کو الروف کی صفت دی تو کسی کو علم العلیم کے خزانے سے ملا ...کسی کو جلال کی روشنی نے مجنون کیے دیا تو کوئی جمال میں پوشیدہ ہوا تو اس کو میرے نبی کا جلوہ مل گیا ... صلی اللہ علیہ والہ وسلم .... روشن جمال یار نے روشنی کی ہے زمین سیاہ تھی .. زمین پر سورج کی روشنی کی ... خالق نے اسی روشنی کی قسم کھائی کہ یہہ روشنی  ہمارے سینوں میں ہے ... سینہ ہے کہ خزانہ ہے ... خزانہ ہے کہ کوئی فسانہ ... ہم کیا جانے بس وہ جانے وہ جانے .... وہ کہتا ہے کہ زندگی گزر جائے گی آنکھ کے پسینے میں ... تو گزر جانے دو ..  وہ کہتا ہے موم پگھل جائے اک بار پھر ..روئ ذرہ کی مانند بکھر جائے گا تو کہیے کہ اچھا ہے!  اچھا ہے!  اچھا ہے کہ بکھر جائیں .. جو رہے وہ تو بکھر جائے یکجائی کیسی .. جہاں جہاں اس کا جلوہ اس سے مل جانا اچھا ..