Saturday, January 23, 2021
محمد کی میم
Saturday, January 16, 2021
در نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تسبیح
زمین ،پانی
نگاہ فیض
کوئ سامان تشنگی مہیا کرو
جس کی کرسی عرش پر قرار ہے
اسکی شہنائی گونج رہی ہے
اللہ.اللہ کے نام سے دل بنا ھو
ذکر مصطفی میں دل جھومتا ہی رہتا ہے
مصطفوی چراغ
سرحد پار
نزع دل سے جاری آنسو
دل کی رقت
قریب تھا کہ مر جاتے
Wednesday, January 13, 2021
آسمان
فتح !
عشق روحاں دا سنجوگ اے
Tuesday, January 12, 2021
پرواز
Monday, January 11, 2021
شدم چوں مبتلائے او، نہادم سر بہ پائے او ---------حصہ دوم
Friday, January 8, 2021
نغمہ ء جان رحمت
خدا سے سوال
Thursday, January 7, 2021
مچھیرا
Tuesday, January 5, 2021
شعائر
Saturday, January 2, 2021
تری پہچان، میرا رستہ
نقل ، اصل کا رشتہ
سوچ ، عقل کا تعلق
دل ، دھڑکن کا تعلق
خون ، فشار کا تعلق
سوت ، چرخے کا تعلق
خیال ، قلم کا تعلق
تیرا، میرا کیا تعلق؟
ماہتاب ، کرن کا تعلق
رات، دن کا تعلق
دل ، دروازے کا تعلق
بندے ، خدا کا تعلق
علم ، پہچان کا تعلق
عشق کی سمجھ سے ملے
خیال آگ میں جلے
شام کو دن کب ملے
شمع بدن میں جلے
عاشق کی رمز سن لے
عشق اکیلا اکیلا مرشد
عشق ہے بادشاہ گر
عشق ہے کیمیا گر
وحدت میں الجھاتا
شہادت میں الجھاتا
یہ کیمیا گری کی ابتدا
اس کی ہوگی کیا انتہا
عشق رنگ ، ذات نہیں
انس اس سے آزاد نہیں
عاشق کی کوئی شفا نہیں
عشق لاعلاج مرض ہے
عاشق کو امیری کیا غرض
فقر کی دولت سے کھیلتا ہے
اس حقیقت پر میں خود حیران ہوں . میں کب کیسے اس کے راستے پر چل پڑی .میں اس کرم پر ورطہ حیرت میں ہوں . پستی سے دلدل سے اوج کمال کی بلندی پر پہنچا کے لامتناہی بلندی پر جانے کا قصد کیے ہوئے ہے . رب خواہش سے پاک ہے ،اس کا امر کن کا محتاج ہے ؟ '' کن فیکون '' ...
نور خود میں الگ منفرد ہے ، ا سکی روح منفرد جدا ہے مگر اس کے ٹکرے ہزار ہوئے ، کچھ اس کے ماضی سے جڑے ، کچھ حال اور کچھ مستبقل میں .. یہ تقسیم کی نشانی ہے ، میرا امر ہے ، میرے امر سے نکلنے والی صدا اس کے دل میں ڈال دی گئی ہے ...میرے عشق کی انتہا کب ہوئی ، لا محدودیت کے دروازے ٌپر میری نور کھڑی ہوئی ، میں اس کا منتظر ہوں میں اس کو کہتا ہوں کہ نور دل جھانک میں لے اور دیکھ سب زمانوں کو ، دیکھ اپنے خیال کو ، دیکھ اپنی مامتا کے بچھڑے ٹکروں کو .....یہ تو نہیں ! مگر یہ سب تجھ سے نسبت رکھتے ! ان کو تجھ سے نسبت عہد الست سے تھی کہ تیری روح بڑی طاقتور تھی شکر کا کلمہ پڑھ بندی ، شکر کا کلمہ پڑھتے میرے پاس آجا ! تیرا کام تو مجھے سب یاد کرنا ہے ...میں تیری یاد کے تار خود میں سنبھال رکھتا ہے اور جب جی چاہتا ہوں تجھے آواز دیتا ہوں ، تو میری طر ف دوڑی چلی آتی ہے ...میری محبت کا رشتہ تجھ سے اٹوٹ ہے ، تو میری تیری میں تیرا .......ہم دونوں میں کیا فرق ہے میں تو اپنا آپ کب سے تیری نفی میں گم کیے ، تجھ سے نفی کا طالب ہون مگر تو ہی دنیا میں پڑی رہی ، تیری نفی کے ساتھ اثبات کا رشتہ جڑا ہے ۔ میں تیرا اثبات ہوں ، میں تیری بقا ہوں ، تو میری حیا کا دروازہ ہے
حیات دوامی، وجود فانی
اسمِ ذات نور کی لاثانی
ستارہے کہکشاؤں میں گھسے
نور جس طرز نور میں رہے
بسمل کی مانند تڑپنا زندگی بھر
تو عشق کی فقط مضرابِ ہستی
خلق نوائی بنے گی تری گواہی
شاہد کی اس بڑھ کے ہو کیا سچائی
چاند زمین کی گردش میں لگے ہے
مہتاب زمین کے پرورش میں لگے ہے
تسبیح کے بعد ذکر کی محفل.سجالے
اس کی یاد میں بوریا.بستر اب اٹھالے
سنگی کو رنگی بنتے دیر کتنی لگتی ہے
یہ جوگ پالتے دیر کتنی لگتی ہے
اس جوگ ، روگ میں پیار کوسمجھ
اس احساس میں میرے اظہار سمجھ
جسم کی قید سے نکل رہا ہے نور کا نور
نور کے نور کی فلک پر شعلہ بیانی دیکھ
نور کی نوریوں سے حکایت سازی دیکھ
کلی، پھول، پھل کا چکر کیا ہے
زندگی سے زندگی کا حشر کیا ہے
سورشِ زندگی نے لہولہان کردیا ہے
نالہِ درد و فغاں میں محو کردیا ہے
حسن والے عشق کے محتاج ہوئے ہیں
عشق میں پڑنے والے کب برباد ہوئے
تیری تلاش کا سفر مجھ سے جڑا ہے ، وہ پرت در پرت کھلتا جائے گا تجھے علم ملتا جائے ، تیرا دل خزانہ حیات ابدی سے نوازا جا رہا ہے اس لیے بندی شکر کر جتنا تو چاہے ، اتنا کر ، جتنی تری طاقت ہے اتنا کر ،جتنی تیری اوقات ہے اس سے بڑھ کے کر ، جتنا تیری ہوش بچا ہے ، اس ہوش میں مدہوش ہوتے کر ، جتنی زندگی تیری لکھی ہے وہ پل پل میں گزار لے ، وقت قرین زندگی کی بھاری نوازی جانی ہے۔اس کو لینے کے لیے تیار ہوجا ، تیرا کام اس جہاں میں چلنا پھرنا ہے تو یہاں مسافر ہے ، تو یہاں واں پھرتے میرے لوگون کے ساتھ اٹھا بیٹھا کر ، ان کے درد سنا کر ، ان کو میرے قصے سنایا کر ، مٹا دے ہستی کے سب رنگ ، ان کو چھوڑ کے چل اب میرے سنگ ، کر تو نفس سے اب جنگ ، تو میرا رباب شوخ و چنگ ، تیری ذات مجھ سے ملی ہے ، تیری بات مجھ سے جڑی ہے ، تو میرے شوق کا آئنہ ہےتو میرے خیال کی طاقت ہے ، دنیا میں سب کچھ طاقت سے ہے ، اس لیے میری جان سبھی طاقت کو سمجھ بنا اس کی جانب چلتے پھرتے ہیں ..... ملی ہے ، معجزے میرے خیال کی طاقت پر استوار ، بندہ بشرکی ولایت نیابت میری خواہش کا امر ، تو میریدوست ہے ، میری ولایت کی نشانی ہے ، میرا جذب بیانی ہے ، میرا شعلہ رقص ہے ، میرا ذات تیری کہانی ہے ۔یہ راز کی باتیں کھل رہی ہیں ان سے الجھنا بے کار ہے م عشق کی دولت سرفراز لوگو ں کی ملا کرتی ہے ، نور تو میری رفعت ہے ، تو خود میں قلندر ہے ، تو خود میں سمندر ہے ۔
چشم نمی وصل کی نشانی
ورد آیات ہوتی رہی بیانی
ستم یار کا مجھ میں رہتا ہے
وہ جو کہتا ہے اسے میرا کردیا ہے
حکمت اس کی کون کب سمجھے
ہر فرد کو خود میں محشر کردیا ہے
ازل کا نغمہ ہوں ابد تک.چلوں.گی
فتویِ عشق ابھی صادر کیا جانا ہے
میں دائم میری شہرت بھی دائمی
سزا کا کچھ نیا طریقہ اپنایا جانا ہے
مجمع دیوانہ جان کے میرے گرد ہے
دیوانہ کون ہے یہ ابھی بتایا جانا ہے
ًچرچہِ حسن گلی گلی مشہور ہونا ہے
زندگی کو سو بار موت میں مرنا ہے
نشاطِ ہستی بدولت درد کے ملتا ہے
ابھی تو اس.فیض کو بہت عام ہونا ہے
سوز و گداز دل ہی دلوں کو دیتے ہیں
اس کام کو ابھی نسل در نسل.چلنا ہے
''ورفعنا لک ذکرک ''کی بات ابھی چلنی ہے
یہ نعمت نور سے بہت آگے چلنی ہے
جلنے کا فیض شمع کو حاصل ہے فقط
مومی کاغذ سے نظروں کو خیرہ ہونا ہے
فصل بہار میں علم دانش کے ہنر سے نوازا
خزاں کا.باغ اب بہت دور پرے لگنا ہے
جزا سزا کے فیصلے ہیں پیادوں کے لیے
قاصد کو اب تپشِ آگ سے زندہ کرنا ہے
روایت حدیث ذات اب زور و شور سے ہوگی
تیری ذات کے منصوب قصے بکھرنے ہیں
خوش قسمتوں کے فہم میں خالق ہوتا ہے
وہ اسی سے ذات کا قلندر ہوتا ہے
آزاد روحیں اپنا آپ لٹانے کو تیار رہتی ہیں ، تیری آزادی بھی نام کے ساتھ منسلک ہے ، تو وہی ہے جو میں چاہوں تو وہی ہے جو میں کروں گا ، تو وہی ہے جس کو تیرے لیے امر کیا جاچکا ہے ۔ تیرا مرنا جینا میں نے لکھ رکھا ہے ۔ تیرا مجھ سے الجھنا بھی لوح و قلم پر لکھا ہے ،.یوں کہ کے میں آزاد ہوں تیرے اندر ۔ میں حیات ہوں تیرے اندر ۔ میں اصل ہوں خیال کے اندر ، میں علم ہوں قفس کے اندر ، میں شمع ہوں قندیل کے اندر ............میں زمینوں آسمانوں کو نور ہوں ..........تو ہنسے ، تو روئے ، تو جلے ، تو کھلے ، یہ سب میری دم قدم سے ہیں کہ تیرے در میرے در ہیں ، تیرے ہاتھ میرے ہاتھ ہیں تیری زبان سے نکلے لفظ ہیرے ہیں ، تیری آنکھ سے نکلے آنسو نرم و زرخیز مٹی کی نشانی ہیں ، تیری ہدایت کا ذمہ میں نے خود لیا ہوا ہے تو میرا خزانہ ہے میں تیرا آئنہ ہوں ، میں تیرا شوق ہوں کہ تو میری ، اس کو جان لے کہ تفریق کے جام تو سب گرادے میری محبت میں آکے تو مزہ لے ، تجھے ہنر کا گفتگو ملتا جارہا ہے ، عشق کا خزانہ لٹتا جارہا ہے ، میں طببیب ہوں تو مریض عشق .....
گفتگو کا سلیقہ آجاتا ہے
بندہ عشق میں جو آجاتا ہے
سمجھداری کے تقاضے بھولے
مجذوبیت کے سب راستے کھولے
سادگی کا حسن نور سے جانیے
متانت میں عزت کی دولت جانیے
شہِ ابرار محمد کی نبوت کے رنگ
پھیلنے چلے ہیں چمنِ پھول کے چنگ
عادت انکساری کی سب سے اچھی ہے
عبد کی بندگی اس کو بھلی لگی ہے
جبل نور کا سرمہ نور کو ملا ہے
جو یار کی یاری کے صدقے بٹا ہے
احمد کی باتیں محمد کی جانب سے
احد کی باتیں واحد کی جانب سے
ساجد و مسجود کے فرق کیا، دیکھ!
کن فیکون کی تکوین میں خود کو دیکھ
جہاں میں لٹتا رہتا ہے عشاق کا قافلہ دیکھ
ابھی ٹھہر کہ جلوے کے انداز باقی ہیں
ابھی ٹھہر کہ جلوے کے انداز باقی ہیں
میں خاموش ہوں ، طلب بڑھتی جائے ہے ، ہواؤں کی سنگت دھوپ میں ہستی جلتی جائے ، اتنی آہ و زاری کی ہے ، اتنی کہ زمین بھی حیرت سے گرنے والے قطروں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ فلک سے گر رہے ہیں یا دل سے ، جی ! دل کیوں ہوں نالاں ، عاجز ، پاگل ، دیوانہ ، روتا ہے اتنا کہ صبر نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ جلوہ ِ ہست ------ نمود کب ہوگی ، جلوہ جمال سے صورت کامل کب ہوگی ، جلوہ پرستی کی انتہا ہے ، جلوہ سے بڑھ کے کیا ہوگا ! دید سے بڑھ کے کیا ہوگا ! یہی ہوگا کہ قریب اتنا کرلے کہ نہ رہے کہ کوئی فاصلہ ، نہ رہے کوئی سلسلہ ، بس تو رہے !
عشق میں بندگی نے خاموشی اختیار کی مگر تیری اجازت نے لہروں کو شور دیا ہے ! مجھے پلا پلا کے مدہوش کیا! اے بادشاہ اے ذو الجلال! الجمیل ، اے عالی حشمت ، اے صاحب الرحیم ، اے میرے پیا ! میرے دل کے دربار پہ ایک دیے نے سو نئے دیے جلا لیے ، دل چاند کی مانند روشن ہے اور رات ناچ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
''وہ جو تشریف لائے ہیں شہباز کو پرواز ملے
پارہ آئنے سے نکلے تو کام بنے ، بات بنے ''
روشنی ہماری ہے ، جلال ہمارا ہے ،کمال کیا ہے
عشق پروانہ ، موم کے اڑے رنگ ، اک میں ہی بچا
قربتیں ---فرقتیں --وقت کی قید سے عشق نکلا
''نور کو شہِ ابرار کے در سے نوری نگینہ ملا
یہ سرمئی ، نیلا ، شفاف سا نگینہ کیا تھا
یہ صاحب ِ جمال کے دل کے آئنہ کے آئنہ
جس پہ لکھا: کالا رنگ اترنے میں کتنی دیر باقی
دل کے ساتھ نگینہِ سرمئی، شفاف لگایا جب
نور کی شعاعوں میں خود کو گھرا پایا تب
سب پردے ازل کے اٹھنے لگے ہیں
کالے حجاب کا کلمہ لا ہے ، لا لا لا لا لا لا
دل پر مکین نے دیا ہے اسم اعظم الا اللہ
شاہِ حجاز، شاہِ نجف ، شاہِ ہند سب کھڑے ہیں
دل جھکا ،مقام ادب ہے ، روح میں نوری شعلے ہیں
ادب نے کہا دل سے: سرخی کہاں سے آئی ہے
فلک سے اتری یا زمین نے گلابوں کی چادر تانی
کمال کی شرافت سے حسن کی بات مانی
دِل نے قلب کے گردش کی پھر ٹھانی
سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو!
نم ڈالتے ہیں ہم ، وصل کرتے ہیں ہم
نور دیتے ہیں ہم ، جلوہ کرتے ہیں ہم
''آئنے کو آئنے میں سجانے والے النور
آئنے کو قلب سے نکالنے والے النور
آئنے کو چمکانے ، ضو دینے والے النور
دل طور تھا ، کعبہ بنانے والے النور
قلندر کو دنیا میں بٹھانے والے النور
مطلب دنیا سے نَے خاکی جسد سے
یہ مٹی کیا ہے ، اسکو ہٹانے والے النور
لا الہ الا اللہ ھو الرحمن الرحیم
زمانے کو خاکی لباس دینے والے النور
کب ہوگا جلوہ تیرا ، سرمہِ ہستی ہے
سوال کرنے والی نبی ﷺ کی امتی ہے
فانوس جس پہ الباری کا نام لکھا ہے
وہ روشنی جس پر النور کا چشمہ ہے
قلب معطر ہے اس پر محمدﷺ لکھا ہے
قلب کے قلب پہ علی ؑ کا نام ہے
نامِ علی سے پرے بی بی فاطمہ کا نام
جن کے در سے ملنے ہیں بڑے کام
سیارہِ حسینی اس ہالے کے گرد گردش میں
یا حسین ! یا حسین ! یا حسین ! یاحسین!
حسینی چراغ ہوں ! ان کے در کی ادنی غلام
جامِ لبالب ہیں ، پیمانہ منتظر ہے
دِل نے قلب کے گرد کی گردش
شعرِ رجزیہ ان کی خدمت میں کہے
ابھی کہ ٹھہر کہ وقت اس محفل کا نہیں
ابھی کہ ٹھہر وقت ابھی حمد کا بھی نہیں
ابھی کہ ٹھہر ، خلعت سے نوازا جانا ہے
ابھی کہ ٹھہر بیعت کا حلف اٹھانا ہے
ابھی کہ ٹھہر تیرا ذکر اٹھایا جانا ہے
ابھی کہ ٹھہر تیری فکر سے پردہ اٹھے
ابھی کہ ٹھہر حجاب ازل کے سب اٹھیں
ابھی کہ ٹھہر کچھ نقاب ڈالنا سیکھ لے
ابھی کہ ٹھہر زبان پر تالے ڈالنا سیکھ
ابھی کہ ٹھہر طوفِ والہانہ سیکھ
ابھی کہ ٹھہر سرخ چولا پہنا سیکھ
ابھی کہ ٹھہر جوش ، ہوش کا یارانہ سیکھ
ابھی کہ ٹھہر ، تیرے ذمے بڑے ہیں کام
ابھی کہ ٹھہر ، ذکر میں گزرے صبح و شام
ابھی کہ ٹھہر ، حسینی نگینہ پہننا سیکھ
سر جھکا اٹھا تھا اک پل کو مگر پھر جھک گیا ، ان کے در سے یاقوت کو اپنی دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت میں پہنا ہوا پایا ، احساس نے سارا خاکی لباس سرخ کردیا ، دِل نے جلال کی کملی میں پناہ لی جس پہ لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
لا الہ الا اللہ ------- یہ ہے حسینی تلوار
دل نے کی گردش ذرا زور سے ، ارض و سماء سہم گئے ،
اے غارِ حرا کے مالک سلام
اے مالک میرے اے آقا میرے
اے میرے محمدؐ ، آپ ہر ہزاوروں سلام
خواب نوری کی جانب سے بشارت ہیں ، جب خوشخبریاں ملیں تب شکر واجب ہوجاتا ہے ۔ شکر کو ذکر سے درود سے بھرپور رکھنا ہوتا ہے ، ذکر کی محافل سجانی ہوتی تب جاکے بات بنتی ہے ، اگر جلوہِ محمدی ﷺ کی تڑپ دِل میں ہو تو سیرت بھی محمدؐ کی سی ہونی چاہیے، جسکو بشارت اک دفعہ مل جائے ، اسکا کام بن جاتا ہے ، جسکو بار بار ہوجائے اسکا نام بن جاتا ہے ، جسکی طلب نہ مٹے ، اسکو دوام مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن ازل سے ابد تک کی کہانی
حسن ازل سے حسن ابد تلک ایک کہانی ہے مجھ تلک ، کہانی کہ بس محبت ایک داستانی ہے کیا ؟ شمع کی آپ بیتی ۔۔۔ ہر دل شمع ہے ، ہر آئنہ عکسِ جمالِ مصفطفیﷺ کی مسند ۔۔۔ دل کے کوچے و گلیاں جب کہتے ہیں یا نبی ﷺ سلام علیک ۔۔۔ صلوۃ اللہ علیک ۔۔۔ یہ قندیل جو ہر دل کے فانوس میں ہے ، یہ شمع جس کی روشنی اسمِ محمدﷺ سے ملتی ہے ، یہ اسمِ محمدﷺ کی عطا بہت بڑی عطا ہے ، جس پر سیدنا سرکارِ دو عالم ، رحمت للعالمین ، عفو سراپا ، کمالِ محبت و برگزیدہ ہستی ، جمال کمال کی بلندی پر ۔۔۔ وہ جب نظر کریں تو دم بدم دیدار کی دولت ملتی جاتی ہے ، رقص بسملِ میں عشاق کالہو بہ لہو تار بہ تار ، زینہ بہ زینہ ہوتا رہتا ہے ، رقصِ مستی میں دیوانگی عروج پر ہوتی ہے اور نقش نقش صدائیں دیتا ہے ، یا نبی سلام علیک ، یا رسول صلوۃ علیک
نظر اٹھے جمالِ مصطفی ﷺ پہ جب ، مہک سانس بہ سانس اندر اترتی چلی جائے ، یہ کمال ہے آپ کے نام کی برکت ہے ۔۔ جو روشنی ہے ہر نفس میں ، جو قران ِ پاک کی عملی تربیت ہے دل میں موجود مشک کی مانند ہے ، عطر آپﷺ مشک قرانِ پاک ، عنبر جناب سیدنا امامِ عالی حسین ۔ مومن کی آنکھ میں نمی آجائے تو سمجھیے دل سنسان نہیں ہے ، آباد ہے ، دل میں خوشبو بسی ہے میرے یحیی کی ، دل میں بسیرا ہے میرے موسی کا ، دل قربان جاتا ہے اپنے عیسی پر ، دل میں موجود ہیں سیدنا محمد ﷺ ، مسکراتے ہیں ، قربان جاؤں ، صدقے جاؤں آپ کے تبسم پر ، اتنا دلاویز تبسم کہ سب کچھ وار دوں اس پر میں ۔۔۔ حق ، یا نبی ﷺ آپ کڑوڑوں درود ، آپ ﷺ عالی نسب پر مجھ جیسے کم تر درود بھیجیں ، یہ تو سعادت ہوئی ، شکریہ نصیبِ تحفہ کرنے کا
تیری مسکراہٹ پر قربان جاؤں ، تیری کملی میں چھپی روشنی ، تیرے جلوؤں میں تجلیاتِ کمال ، کمال ہستی جناب سیدنا محمد ﷺ ۔۔۔ جھکا دیا سر میرا اپنے قدموں میں ۔۔ جھکا دل ،جلوہ ہوگیا ۔۔۔ یہ زمین و زمانے دل میں موجود ہیں ، میرے آقاﷺ دل میں موجود ہیں ۔۔ صلی علی کے نعروں سے گونج فضا اٹھی ہے ، نشتر چلیں دل پر جب سدا بہار مسکراہٹ کا تصور ہو ۔۔ ابھی تو دیکھا نہیں تو یہ حال ہے ، دیکھوں تو کیا ہوگا ۔۔ چاند ڈوب جائے گا ، سورج چھپ جائے گا ، رات چمک اٹھی گی ، صبح کا گمان ہوگا ، صبح صادق کے وقت دل آذان دے گا ،،
حی الفلاح ۔۔۔ آؤ ،،،نیکی کی طرف آؤ ۔۔۔ آؤ فلاح کی طرف آؤ
چار سو اجال دیا ہے جلوہِ جاناں نے ، زندگی کو اس قدر نکھار دیا ہے جلوہِ جاناں نے ، زندگی نویدِ سحر میں ڈوب گئی ہے ، موذن کہتے ہیں : حی علی الفلاح ۔۔ سجدہِ شکر ۔۔۔ یہ رونقیں جو شاہا نے دل میں لگائیں ہیں ، یہ جو احساس دل کی زمین پر گدازی پیدا کیے دیتا ہے ، یہ سب آپﷺ کی محبت ہے کہ جستجو ڈوبنے کی ہے جو ڈوب گیا ہے ، جستجو مٹنے کی ہے جو مٹ چکاہے ، جستجو ہے کہ جستجو مٹے نہ ، سب کچھ مٹ جائے ، یہ دل اس گھڑی پہ نازاں ہے جس گھڑی آپ اس جہاں تشرئف لائے تھے ۔۔۔
احساس کے قلمدان میں حرف حرف آرزو ہے ، سنیچتا ہے خواہشات کو طلب سے ماوراء ہوکے ، یہ دل نگینہ ہے ، یہ جان خزینہ ہے ، انسان کتنا ذلیل ہوجاتا ہے خواہشات کے پیچھے بھاگ کے ۔۔۔ بیخودی بھی کیسی ہے ، بے نیازی پہ دل مائل ہے ، دل خواہشات کے ستم سے گھائل ہے ، شاکر پڑھ کلمہ لا ۔۔ شاکر نے کہا ، حق ھو ۔۔۔ حق تو ہی ہر جگہ ، حق ، ترا ہی جلوہ چار سو، حق سبحانہ ھو
کلام الہی اور خشیت
( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آَيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ) [الأنفال: 2]
مومنین میں ایسے لوگ ہیں جن کے دل اللہ کے کلام کی ہئیت پاتے ڈر جاتے ہیں ۔ وہ نشانیاں ان کے قلوب میں رقت طاری کردیتی ہیں ۔ وہ مومنین جب مشکلات میں گھرے ہوتے ہیں ، ان کے دلوں کو توانائی اس قران پاک سے ملتی ہے اور ان کے یقین میں اضافہ کرنے والی کتاب حقیقتاً قران پاک ،کلامِ الہی ہے ۔ اللہ کریم فرماتے ہیں
( لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآَنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ) [الحشر: 21]
اس کلام کی اثر انگیزی ایسی ہے کہ اگر یہ پہاڑ پر نازل ہوتا تو وہ بھی خشیت سے ٹکرے ٹکرے ہوجاتا۔ اے کاش کہ ہمارے دل اسکی حقیقت جان بھی لیں ۔ اللہ تعالیٰ کا پیار و دلار دلوں میں کیسے کیسے اثر کرتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا : مجھے قران پاک کی تلاوت سناؤ ، جواباً : اے اللہ کے رسول ہاک ﷺ ،میں آپ کو قران پڑھ کے سناؤ جبکہ قران کا نزول آپ پر ہی ہوا ہے ؟ فرمایا: ہاں
آپ نے سورہ النساء کی تلاوت فرمائی اور جب اس آیتِ کریمہ تک پہنچے
( فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا ) [النساء: 41]
آپ کو اس آیتِ مبارکہ پر اس آواز نے روک دیا : بس کرو ، استعجاباً پیچھے مڑ کے دیکھا جنابِ رسول کریم ﷺ اطہر کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ۔
جناب رسول پاک ﷺ عملی مثال ہیں ۔ ہم لوگ سنت پر چلنے کے لیے بے تاب ہیں اپنی خرد و عقل کے استعمال سے مگر اسکو عمل بجالانے میں مفلوج ہے ہمارے عمل و بدن ۔ یہ سیاہ کاری کیسے چھپے گی ؟ اعمال کی سیاہی دل کی سیاہی بن گئی ہے ، جیسے رات کالی آگئی ہے ۔ روزِ محشر اللہ کا سامنا کیسے کریں گے ، ان اعمال کے سبب چھپنا بھی چاہیں تو نہ چھپ سکیں ۔۔ ہم تو مسلمان ہیں جن کے دل خشیت خالی مگر وہ اللہ کے بندے جن تک اسلام پہنچا نہیں تھے مگر ان کے دل روشن تھے ۔۔۔
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ٭
(اے پیغمبرﷺ!) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے
وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ٭
اور جب اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو (سب سے پہلے) پیغمبر (محمدﷺ) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے
یہ آیاتِ مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ نے اس وقت ایک عیسائی کی گواہی کو ہمارے لیے ایک نشانی بنایا ہے ۔ ہجرتِ حبشہ کے بعد نجاشی کے دربار میں قرانی آیات کی تلاوت کی گئی تو وہ ایسے روئے تھے کہ ان کی آنکھیں سے نکلنے والے آنسو ان کی داڑھی کو تر کرگئے ، اس کلام نے ان کے دل پر خشیت طاری کردی اور انہوں نے روتے ہوئے اس کلام کے سچے ہونے اور حضور پاکﷺ کے سچا نبی ہونے کی تصدیق کردی ۔ ایسے لوگ جن کے دل خشیت سے کانپ جاتے ہیں ، درحقیقت وہ عارف ہوتے ہیں یعنی حق کی پہچان کرنے والے ہوتے ہیں ، سبحان اللہ !
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ، اسکو پڑھنے کی ، سمجھنے کی اور بار بار پڑھنے کی تاکہ ہمارے دل بھی ایسے ہی خشیت میں ڈوب جائیں اور ہم بھی ان کو سن کے ، پڑھ کے رو دیں ۔ کاش ! ہم ایسا کرپائیں ۔ دل سیاہ ہوچکے ہیں ، عمل میں ریاکاری ہے ، ہم عمل میں پیچھے اور قول میں آگے ہیں ۔ اے ہمارے رب کریم ، ہمارے حال پر رحم فرما ۔ آمین !
میم
"محبت آسمانی جذبہ ہے " میں خود کلامی میں بڑبڑائی
"نَہیں، زمین پر رہنے والے فلک پر رہنے کے قابل ہوتے تو آدم جَنّت سے نکالے نَہ جاتے "
درون میں صدا گونجی گویا پہاڑوں نے بازگشت سُنی بار بار
"محبت افلاک سے اترا سبحانی وجدان کیوں کہلاتا ؟ "
میں نے اس صدائے دِلبرانہ سے پوچھا
"فلک پر صرف خُدا رہتا ہے، نوری، ملائک، روح، کروبیان رہتے ہیں، خواہش سے مبراء ذات کے نظام میں اللہ واحد ہے " صدائے عاشقانہ تھی یا ادائے دِلبرانہ ....
جب سنی یہ صدا تو کَہا میں نے .....
"اللہ واحد ہے، یہ تن کے جا بَجا آئنے اِسکی خواہشات ہیں، وہ واحد ہے مگر کثرت میں راز مخفی ہوگیا ... "
اچانک میرے وجود سے دِلخراش چیخ نکلی، میرا وُجود مجھ سے جُدا ہوگیا .... آمنے سامنے تھا میرا وجود کا ٹکرا ...
میں مبہوت و بیخود ہوگئی اور مجھ سے ذات کا تماشا دیکھنے والے نے تیسرا ٹکرا بنادیا اور بسمل کے سو ٹکرے ہوگئے. خدا وجود کے ٹکرے دیکھنے میں محو تھا ......،
بسمل کے رقص میں حال کی لاتعداد کرچیاں بکھر گئیں اور بسمل رقص میں مصروف ....
" بَتا، یہ تین، اک ہیں یا تین؟ "ذات کے تَماشاٰئی نے پُوچھا ....
میں خاموش کھڑی تھی جبکہ میرا وجود کا ٹکرا جسکو "ماہ " کہتی تھی، ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اس تماشے سے وہ ازل سے لاتعلق رہا ہے .. ..
دیکھنے والے دو، تڑپنے والا ایک. حیات کے ریگزار میں دیکھنے والوں کی نگاہ نے زیر پر زبر رکھی، ماہ کی زبر رکھی
"کیوں زیر کیا گیا تھا بسمل کو؟ کس جرم میں زیرو زبر کیا گیا تھا؟ "..
ذات کے تماشائی نے کہا "خاموش، تم زیر ہو، زبر میری ہے، میرا ماہ، میرا قلب ہے، تم کون ہوتے میرے کام میں مخل ہونے والے؟ "..
بسمل کا وجود دھواں دھواں ہورہا تھا، اب خدا بھی اس کا نَہ رہا تھا
،