Monday, February 22, 2021

ثنائے ‏محمد

اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد 
ثنائے محمد کیے جاتے ہیں اور پیش حق مسکراتے جاتے ہیں ... پیش حق مسکرانے سے بات نہیں بنتی بلکہ دل کو دل سے ملانے سے بات بنتی ہیں. جب میں نہیں ہوتی تو وہ ہوتا ہے اور جو وہ کہتا ہے کہ چلو رہ توصیف اور کرو بیانِ کے بیان اورعالم نسیان میں وجدان اسرار حقیقی کے نئے دھاگے لاتا ہے اور میں کہتی ہوں. میں نہیں کہتی یہ وہ کہتا ہے. جلنے میں حرج نہیں مگر جل جانے سے کیا ہوگا؟ جل کے مرجانے میں کچھ نہیں مگر جل کے مرجانے سے کیا ہوگا؟  بس آنکھ کا وضو بڑھ جائے گا. بس دل کے ریشہ ہائے منسلک میں رہنے والے تار تار کا بیان ہوگا. حق ھو. وضو کی نہر جاری ہے اور نیت دل میں نماز ہجر کا بیان نہیں تو نماز.شوق کروں کیسے بیان کہ اشک نہاں میں کُھبا ہے اک پیکان اور دل کے میر نے کہہ دیا چل کہ یہ سفر کا موسم ہے اور موسم  کے رنگ بھی عجب ہے. یہ ڈھنگ میں کیسے بھنور ہے کہ بھنور کو ساحل مل گیا یے ... شمس کی غنائیت میں چھپا سرمہ اک عجب رنگ رکھتا یے کہ یہ وہ شمس تھا جس نے ملتان سے گرمی کے سامان کو، ہجر کا نشان کیا تھا ... رکھ دے دل اور مسجود ہو جا جس کے دم سے روح ماہی بے آب کی طرح کانپتی ہے کہ دل مٹ جا کہ بسمل کی تڑپ کے سو نشان بننے والے ہیں .

جل رہا ہے دل کہ روح ہے 
مل رہا ہے دل کہ روح ہے 
ذرے ذے میں کو بہ کو ہے 
جس کی محو ثنا میں تو ہے 
رگ جان سے قرین ہوں میں 
دل کے فسانے کہ دوں میں 
قلم ٹوٹ جائیں گے سارے 
 بیان نہ ہوگی ہجر کی داستان 
ہجر میں عشاق کے قبیلے ہیں 
دل میں جاناں کے میلے ہیں 
خزانے ہاتھ میں رکھے ہیں 
شاہا نے کمال سے دیے ہیں 
وہ جو رنگ یاقوت میں ہے 
وہ جو رنگ لاھوت میں ہے 
فنا کے چکر نہیں سارے 
لازوال ہیں  دوست سارے 
روشنی کا  مزاج  عجب ہے 
لگتا ہے ہر ماہ، ماہ رجب یے 
یہ انسان میں کیسا نسیان ہے 
اترا رمضان  میں یہ قران ہے

رات ہے اور رات میں رات نہیں ہے. یہ تو سویرا ہے اور میں کس کو جا بجا دیکھ رہی ہوں ..جلوے ہیں جابجا میرے اور ان میں کس کو دیکھا جا رہا ہے ...

مہک مہک ہے،  رنگ رنگ ہے 
دل تو دل ہے نا،  روشن ہے 
رنگ میں خمار کی مے ہے 
دل میں غم کے لاوے ہیں 

اے مرشد حق!  ہم جھکاتے ہیں دل کو وہاں جہاں سے یہ جواب مل جاتا ہے. یہ دائرہ کیا ہے؟  یہ نسیان کیا ہے؟  یہ حیات کیا ہے؟ میں نے پوچھا آقا سے کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ..بندگی کیا ہے ...
بندگی خاموشی و ادب ہے 
بندگی  طریقہ دین ہے 
بندگی یاد میں رہنا ہے 
بندگی غلامی ہے 

میں تو غلام رسول ہوں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
میں خاک زہرا بتول ہوں 
عشق حرم کے فسانے ہیں 
چل پھر رہے دیوانے ہیں 
نبوت کے مینارے ہیں 
عجب یہ استعارے ہیں 
کنزالایمان،  بلیغ لسان 
محمد عربی کا ہر بیان 
شمس الدجی کی تجلی 
لگ رہی ہے کوئ وحی 
آنکھ میں ہاتھ رکھا ہے 
رات میں ساتھ رکھا ہے 
روحی چشمے سارے ہیں 
وصل کو پھرتے مارے ہیں 
 اشرف ہوئے سارے ہیں 
مدین سے پھیلے فسانے 
ناپ تول کے تھے پیمانے 
چھوٹ گئے سب یارانے 
جوگی مل گئے سب پرانے

مرکز ‏ہست ‏میں ‏عشق ‏سے ‏اجالا ‏کردے

مرکز ہست میں عشق اجالا کردے 
فنا کا سرمہ راہ طیبہ لیے جائے ہے 
اے درد، آ حسین ترین ہو کے پھر 
شہسوار کے اٹھنے کا نظارہ کرلے

Noor

عصائے ‏موسی ‏نے ‏کلام ‏کیا

عصائے موسی نے کلام کیا ہے 
سحر یونہی ننگ و عام کیا ہے 
یقین کے دل پر بیضائی ہالہ ہے
یہ معجزہ تو  نبوت والا ہے 
دربان عشق ہوا، شاہ عشق ہوا 
سولی پر چڑھا، ماتم دلبری کی
نوک سناں ہوا سجدہ شوق ہوا 
واہ عشق ترے فیض یافتہ بہت 
کیا کوئی یہاں حسین سا ہوا ہے؟
علی سے زیست کو ملے ہے آزادی 
اڑتا ہے طائر یہ سر سبز وادی ہے.
سریلا نغمہ بہ گوش دل ہوگیا ہے 
بولتا لہجہ ہے کہ لحن داؤدی ہے
Noor

مئے ‏دید ‏سے ‏عرفان ‏تک

مئے دید سے عرفان تک 
راز کھلے سب گیان تک 
ذات کھلتی ہے نروان تک
عشق جاتا ہے آسمان تک 
درد بڑھتا ہے پھیل جاتا.ہے
کائنات یوں وجود آتی ہے 
امید سحر، رات ہماری ہے
دل تو ہے، جھولی خالی.ہے
ہمارا دل.عشق کی.پیالی.ہے
سینے میں سنہری جالی ہے 
نور پر سبز گنبد والی  ہے

Noor

الہی ‏! ‏درد ‏دیا ‏تو ‏تاب ‏ہجر ‏بھی ‏دے

السلام علیکم نور !  
آج خود سے بات کرنے کو دل ہے، خود تو خود سے بچھڑ گیا ، ہائے رے میرا دل، مری چُنر رنگ دی گئی  اور بے رنگی دی گئی! اِلہی ضبط دے ورنہ قوت فغاں دے 
نالہ ء بلبل سننے کو، جہاں کو تاب دے 
باغِ گلشن سے اجڑ گئے سب پھول
تاج یمن سے اجڑ گئے سب لعل
قریب مرگ جان نوید جانفزاں آیا 
وقت مرگ مرض نسیاں کے طوفان نے عجب شور مچا رکھا ہے، کاٹ دیا گیا سر،  برہنہ تھی تلوار اور خون بہہ رہا تھا ... 
الہی ماجرا ء دل دیکھ کے اہل عدن رو پڑے 
یہ تری حکمت کی فصیل تھی، جرم تھا کڑا،   

باغ رحمت کے پاس کھڑی ہوں اور وہ کان لگائے ہمہ تن گوش ....
بَتا درد دیا تو قوت درد بھی دے 
یہ درد تو مرگ نسیاں ہے!  
کھاگیا بدن، پی گیا لہو،  کھنچ گئی رگ رگ ...
پھر ترے پاس کھڑی پکارتی رہی 
الہی درد دیا تھا تو تاب ہجر بھی دے 
وحشت دی ہے تو لذت مرگ بھی دے 
ملیں ترے وصل کے اشارے، نہ ہو 
ڈھونڈو ملنے کے بہانے،  نہ ہو!  ....
الہی، محرما نہیں کوئی ...
الہی،  روشن شب فرقت میں دیپ جلے ہیں 
الہی،  دست وصال لیے،  دست کمال ملا ہے 
الہی،  ہجرت کے درد نےاور ہجرت فزوں کردی 
الہی،  آشیاں تباہ ہوا، بنا تھا،  پھر بگڑ گیا   
الہی،  داستان غم لکھی تو نے، سناؤِں میں 
الہی، مزے تو لے اور درد کا گیت گاؤں میں 
الہی،  کچھ تو نگاہ کرم مجھ پہ کردیتا ہے 
الہی، یا تو لمحہ وصال مستقل کر، یا درد سے فرار دے 
الہی،  اشک تھمتے نہیں،  زخم بھرتا نہیں،  رفو گر کا کیا سوال؟  
الہی،  شدت درد نے مریض کردیا ہے،  
اے وقت نسیم،  
سن جا!  محبوب کو بتانا 
ادب سے،  
ملحوظ ادب کو سجدہ کرنا اور مانند رکوع نماز قائم کرنا 
یہ عشق کی نماز ہے 
کہنا،  جب سے میخانہ بنایا ہے،  جام جم یاد نہ رہا،  جب سے دیوانہ بنایا ہے،  آپ کا نقشہ ہی یاد رہا،  
قرار نہیں ہے،  فرار نہیں ہے،  تپتا تھل ہے،  آبلہ پا!  کیا کروں؟ 
زخم رَس رہے، کوئے اماں کیسے جائیں؟
ہجرت کے نِشان ڈھونڈنے کَہاں کَہاں جائیں؟

تھی مَلائک کی زبان پہ حکم الہی، تیغ ِ الہی دی جانے لگی .... یہ سیفی تلوار ہے،  ملتی رہے گی، چلتا رہے گا سلسلہ، سیف اللہ، وجہ اللہ کی تلوار ہے،  یہ امامت کا سلسلہ ہے، روشنی کا سینہ چاک ہونا ہے!  صدر و الصدور سے ملاقات کی باری ہے،  یہ شہِ ہادی کی سواری ہے، صدیق اکبر سب پہ بھاری ہے،  علی کی شیروں سے یاری ہے،  معجز نور کے سامنے قبہ ء نور دیا جانا اور دینے والا رنگی دوشالا پہنے ہو گا،  اس سے ملے گا نور،  کلیر کا صابر،  رنگ کی رنگائ مہنگی ہوتی ہے،  کچے دھاگے کا رنگ اور،  پکے دھاگے کا رنگ محویت!
تجھے شوق سے دیکھتا ہے،  تو کدھر؟ 
میں تجھے پاتی گم ہوں،  نہ جانوں کدھر،  
تو رسولِ معظم کی معین نشانی،  یہ داستان سنانے کو، بتانے کو کون ملے گا مجھ سا؟  ترے دل میں اشک نبوت ہے،  کاشانہ ء رسالت میں رہنے والے مرے نور،  
اللہ نور السماوات کی تحریر ہے تو، 
بتا تو سہی، کیسے تسلی دوں؟  
میرے نور کو مجھ سسے دلاسہ چاہیے،  میرا ہی کاسہ چاہیے اور میں نچھاور نہ کروں محبت!  
یہ اگربتیاں ہیں ....
اک ہم نے شوق میں جلائی
اک جلائی گئی،  مرے شوق نے 
یہ معطر خوشبو ہے!  اس دھواں کی مثال عنبر و عود کی سی ہے!  جلالت کی نمود ہے اور تو مرا وجود ہے! مرے ہوتے کیسی بیقراری! تری تو مجھ سے یاری!  قسم شب تار کی، ناز حریماں پہ سب تارے لٹا دوں،  شمس کیا،  سب آئنہ محویت کے،  ٹوٹ جائیں گے اور کیا چاہیے؟  راضی ہوجا!  راضی رہنا سیکھ!  آجا لگ جا مرے گلے 

اللہ.سوہنا 
ترے کہنے پہ بات کرلی،  اب خود جان تو 
اب آ شوق وصال چاہیے، تو،  ترا کمال چاہیے،  چاہیے نا حرکت دلم،  حرکت زوال کے وقوعے کو تصویر،  چاہیے شب تار کو ناز روشنی،  لیجیے گفتگو کے ہنر  سے، ہم بات کرتے ہیں،  تجھ سے براہ راست کہتے ہیں 

مولا دلگی کی ہے، نبھانی مشکل ہے 
ریشمی رومال سے لاگ کا سوال ہے
 
ریشم دھواں سا ہے،  دل میں رواں سا ہے،  یہاں اک کنواں ہے وہاں اک مجذوب بیٹھا جھاڑو پکڑ کہ صفائی کرے اور مجذوب صفائ نی کرتا دل کی ...
او صاف صفائی دل دے کرئیے تو رب مل جانداں اے 
جنہاں کیتی  نیک کمائی اونہاں نے رب مل جانداں اے

شمس کی طولانی فوج  میں.بیٹھے ماہ رسال نے پوچھا 
اے نور تار شب ریشم سے اوج ابد کی تلاش تک کا.فسانہ کیا.ہے؟  حیدری مئے پیے جاؤ اور شاہ ولا کی سواری پہ بیٹھے روز صبح کو لمحہ. وصال چکھ کے کاشانہ نور میں سیر کرو اور مجھے شب فرقت کے قصے سناؤ ...یہ ماجرا کیا ہے؟  درد بڑھادوں؟  مئے پلادوِ؟ تجھ کو ہلادوں؟  جا تری آزمائش کا وقت ختم ہے گرچہ وقت طویل ہے،  گرچہ رات سجیلی.ہے اگرچہ خواب حقیقت میں ڈھل رہا ہے گرچہ شام غزلاں پہ بیٹھے رفیق تاجدار حرم کے ساتھی ہیں،  گرچہ جہد مسلسل.جوانی میں،  جراءت کے ساتھ.اور تاب سخن!  اس روئے سخن پر قربان جائیے جس نے تجھے روشنی دی یعنی رب نے تجھے اور تو نے ہم کو ..دیکھ کے روئے جاناں کھوگئے 
محبوب کبریاء سے مل گئے،  سو گئے 
خالی نہ جاتا دیدار کے بغیر 
فقیر کو ملتا انعام.تاجور سے 
شیخ ہادی کا وسیلہ مکمل کرتا ہے یہ بخت نشان حیدر یہ  سب کمال کے سلسلے ہیں ...

مٹی ‏کے ‏ذرے

مٹی کے ذرے 

لمحہ موجود میں قفس سے روشنی کی شعاع نے اندھیرے میں چراغ کا سماں بپا کردیا تھا ۔ دور کہیں اس اندھیری وادی میں سُروں کے سنگیت پر ایک شہزادی بھاگ رہی تھی ۔ اس کی آواز کانوں میں حلاوت بخشتی جاتی اور وہ رقص کُناں ایک ہی لے کا نغہ روز سنا کرتی تھی ۔ دوران رقص روشنی قفس کے اندھیرے ختم کر رہی تھی ، ملجگے اندھیرے ، سیلن زدہ دیواریں ، روشن ہوتی  اس میل کچیل کو صاف کر رہی تھی ۔ جوں جوں روشنی کی مقدار بڑھی ، ساز کی آواز تیز تر ہوتی گئی ۔ شہزادی وصل کے لیے بے قرار رقص میں محو وراء سے ماورا کی طرف سفر کر رہی تھی ۔۔ ہر لمحہ سلگتا، جوار بھاٹے کا من میں شور ، روشنی کا سمندر اس کی ذات کو تقسیم کیے جارہا تھا ۔  صحرا کی تپش میں گلشن کی سیر میں محو نغمہِ آہو کا خاتمہ ہوا ۔ نفرت کی دبیز تہ نے محبت کی روشنی چار سُو بکھیر دی ۔ مٹی کے ذرے ہوا میں اپنا حجم کھورہے تھے  ۔ مشرق و مغرب کی سمت سے بے نیاز صبا اپنی دھن میں ان ذروں کی ضوفشانی میں مصروف تھی ۔ رات کے اندھیرے میں سورج اپنی پوری تابناکی سے ان ذروں کے حجم کو واضح کیے دے رہا تھا ۔ جو ذرے ''طوھا کرھا '' اس سمت روانہ ہوئے تھے ۔ تحلیل شدہ ذروں کو نیا خمیر عطا ہوا تھا ۔  بے بسی ، بے قراری ، بے کیفی اور بخارات سے بادل بننے کے بجائے   روشنی کے سفر پر ترجیح دیتے یہ خود پر نازاں تھے کہ مقام ایزدی سے جو مقام ان کو ملا ہے وہ کم کم کسی کو عطا ہوتا ہے ۔ تفریق کی مٹی نے اپنا وجود جب واحد و یکتا کے حوالے کرتے  یہ نغمہ سنایا

ھو احد
ھو صمد 
ھو المالک 
ھو الخالق 
ھو المصور
ھو الباری 
ھو الرحیم 
ھو الرحمان
ھو الکریم 

اس سرمدی نغمے  سے ایک صدا ابھرتی رہی اور وجود فانی اپنی تسخیر پر نازاں یار کے روبرو نظارے میں مصروف تھا ۔

انسانیت ‏کی ‏بقاء

انسانیت کی بقاء 

دنیا میں نظامِ کائنات کی تشکیل کے لیے سکوت اور حرکت کے مختلف وقفوں کو ایام کے نام سے منسوب کرتے ''امر کُن '' لاگو ہوگیا ۔ پیدائشِ انسانی سے پہلے کائنات کی تشکیل کے مراحل مخلوقات کی تخلیقات پر لاگو ہوئے ۔ ''نور '' کی پیدائش نے قدوسیوں کی جماعت پیدا کی ۔ وہ جماعت جو مکمل سجدے کی حالت میں ہے یا مکمل رکوع کی حالت میں ہے یا مکمل قیام کی حالت میں یا  تسبیح میں مصروف ہے ۔ ان کی ضد میں '' نار '' کو تشکیل کیا گیا ۔ ''نور '' اور '' نار '' ایک دوسرے کی ضد میں قدرت کے اٹل حقیت ''صبح و رات ، سحر و شام ، اجالا روشنی '' کے فرق کو واضح کیے ہوئے ہیں ۔ انسان کو جب پیدا کیا گیا تو اس میں '' نار و نور '' دونوں طرح کی قوتوں کو ''وہم و یقین '' کی صورت پیدا کردیا گیا ۔ ''شک و یقین '' کی قوت کو توازن میں لانے کے لیے عقل یا شعور عطا کیا گیا ۔ شعور انسانی کو چلانے کے لیے ''حواس خمسہ ''  کو نگہبان کیا ۔ 

تخلیق آدم کے بوقت '' نور '' کی تجلی کو پہلے پیدا کیا گیا ۔ آئنہ کی تشکیل کے بعد سجدے کا حکم ہوا ۔ سجدہ گویا خالق کو سجدہ اور انکار گویا خالق کی کبریائی سے انکار تھا ۔ جس نے انکار کردیا ، گویا اس نے خالق کو پہچان کر کبریائی کا دعوی کردیا۔ ایسی مخلوق جس نے معرفت حاصل کرلینے کے بعد '' نورِ ازل '' کی واحدانیت کو ماننے سے انکار کردیا گویا وہ '' اندھا ، بہرہ اور گونگا '' ہوگیا ۔ وہ تمام لوگ جو ابلیس کے پیروکار ہوئے ، وہ تمام کے تمام حواس کو بروئے کار لانے کے باوجود '' اندھے ، گونگے ، بہرے ہوگئے ، گویا وہ اللہ کے حکم کو پہچان لینے کے بعد پہچان نہیں پائے یا آئنہ میں '' نورِ حقیقت '' کا چراغ بجھ جائے ۔ اس کے بعد انسان کی حیثیت '' نار '' کی سی ہوجاتی ہے ۔  

''نار '' کے برعکس ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا ۔ آزمائش کی مثال ''پل صراط '' کی سی ہے ۔ جو اس آزمائش کو پار کرگئے تو گویا وہ اپنے رب اور اس کی حقیقت کو پہچان گئے ۔ دوست ، دوست میں فرق کہاں رکھتا ہے جب ایک ہستی اپنی ''ناری '' حیثیت سے دستبردار ہوتے '' سراپا نور '' بن جاتی ہے جس کو خالق نے قران پاک میں ''نفس مطمئنہ '' کے نام سے ہمیں آگاہ کیا ہے ۔ ''نفس ملحمہ '' پر استوار روحیں جب منزل شناس ہوجاتی ہیں ، ان پر جبروت و لاہوت کے نشانیاں بتائیں جاتی ہیں ۔ ایسے راستے ہیں جس  کی آگاہی ہر روح کے لیے جاننا ضروری ہے ۔ اس کی پہچان ہی دراصل ' محشر ' اور انصاف والے '' دن پر یقین کامل پیدا کرتی ہے ۔ گویا جو لفظ ''زبان '' نے ادا کیے اس کا ''عملی '' نظارہ روح کرلے ، اس کا شُمار کاملین میں ہوتا ہے ۔ انبیاء کرام کی روحیں پر جو عطا تھی وہ نبی آخر الزمان صلی علیہ والہ وسلم پر ختم ہوگئی ۔ اب ارواح کے مدارج ہیں جن کو ''صدیقین ،  شہید ، صالحین میں شمار کیا جاتا ہے

نور سے نار کا سفر کرتے رہے
کینہ حسد  جو خود میں بھرتے رہے
نور نے حقیقت کو قریب سے دیکھا
مشاہدہ ، شاہد ہوکے وہ کرتے رہے

رنگ

آج رنگ کی محفل میں راگھا نے دیپک کے گیت چرا لیے،  دیپک نے جگنو پکڑ لیے اور شام گزار دی،  رات میں فراق نے پکڑا تھا کہ راگھا کے رقص نے زندگی دے دی  .... زندگی کے پل ❤ مگر تیر پیوست ہوگیا دل میں 💘 راگھا کون تھی؟  دیپک؟  بگھوان؟  کیا؟

The Flute

Thy flute is immersing sad songs ... He is aware of the sad tunes as the script is already written.

O 'Allah why you have made love?
The love enthralls limits, 
Muses for beloved,
Chants unrhymed lamenting songs,
to captivate itself into the beauty of universe ...

Universe is a vast canvas of His paintings,
He strokes dark shades so light will be shed down inside the case 
The bird would escape leaving the uncaged case 
His script is already written 
The flight is ready 
noor

لٹو

نور کی برسات میں سونے ، ہیرے ، چاندی گرتے دکھ رہے تھے جبکہ لینے والے نے دینے والے سے سوال کیا 
تقسیم میں فرق کیسا ؟
اختلاف میں حسن کیسا؟
اظہار میں دیر کیسی ؟
یہ معاملہ ، اسمیں معاملہ کیسا ؟

وہ جو ہروقت سب میں تقسیم کے اختلاف کو مدنظر رکھتا ہے ، اسنے مسکرا کے لینے والے کو دیکھا اور کہنے لگا ،
دل میں نور کی صورت کیسی ؟
صنم خانہ کی ضرورت کیسی ؟
جلوے کی بیتابی کیسی ؟
اظہار میں بے باکی کیسی ؟

ابھی دیالو کے چہرے کی مسکراہٹ ختم نہ ہوئی تھی کہ زمین نے گردش میں گردش کو رد کرتے نئے زاویے بنا دیے ! 
ایسے زاویوں پہ حرکت کرتے دیالو کو احساس ہوا کہ سیم و زر کی بارش اس اضطراب کو کافی نہ ہوگی ، اسنے ہیروں کو بغور دیکھا جسمیں کوئی سرخ رنگ ، کوئی گہرے نیلے رنگ اور کوئی کالے رنگ کا تھا ۔۔۔ 

یہ نیلے رنگ کا تمھارا تھا ۔کالا تم نے اتار پھینکا ہے۔سرخ سے تمھیں نوازا جانا ہے۔تمھارا ہاتھ خالی ہے ۔تمھارا چاند ، ماہتاب بنا نہیں ہے اسلیے تمھاری گردش بھی نئی ہے ، احساس بھی مختلف ہے ۔۔۔ابھی تک جتنے بھی نوازے گئے ، سب کے احساس میں اختلاف ، اضطراب میں خاصیت ، رنگ میں ماہیت ہے ! تمھاری گردش بھی نئی ہے 

لٹو ---------------------زمین اسطرح گھوم رہی تھی جیسے لٹو ! لٹو کی گردش سے اسکی ہیئت بدل رہی تھی ، ظاہر باطن میں جھلکنے لگا اور باطن ظاہر میں ۔۔۔ جب گردش تھمی لٹو ٹوٹ چکا تھا ، زمین کا رشتہ فلک سے جڑ چکا تھا

نشان

اللہ سے سوال کرتے ہیں 
اللہ بتا تو سَہی نشان اپنے

نشان کہ بے نشان ہوں میں؟
اپنے ہونے کا امتحان ہوں میں؟ 

عیاں نہیں تو، نہاں کیسے دکھے 
جو جان نہ سکے،  وہ کرے کیا؟  

رکھ دل کے آگے  صورتِ یار اور 
محویت کی دیوار چاک کرتا جا 
میرے نشان دیکھ ہے کہاں کہاں 
یہ تو ہیں عیاں، یہی.تو نہاں

سلسلہ ِ امامت علی سے ہے 
سلسلہ  شہادت حسین سے ہے
سلسلہ زہد   زین علی سے ہے 
سلسلہ ِ حکمت  حنفیہ سے ہے
سلسلہ ہجرت شافعی سے ہے
سلسلہ  ِ عشق بصرہ سے ہے 
سلسلہ سوز وگداز  قرنی سے ہے
سلسلہ جستجو  فارس سے ہے

 وہ عشق کیا ہے ، وہ سوز کیا ہے  ،وہ محبت کی نرم میٹھی پھوار ہے ، اک خنجر دل کے آر پار ہے ، یہ خنجر سے خونِ جگر نکلا بار بار ہے ، یہ خنجرِ حسینی ہے ، جس کی عبارت ہے ''لا الہ الا اللہ '' ۔۔۔۔۔۔۔ شہادت نوکِ سناں  دی جارہی ہے ، خون کا کلمہ ہے ''لا الہ الا اللہ ''

طبیبا ‏تخلیہ ‏!

کیا علم تھا کہ پھر سے مرض عشق ہوجانا ہے. جتنا اس مرض سے بھاگا جاتا ہے اتنا یہ جان کو لگ جاتا ہے. پھر گریہ بھی کیا،  لہو بھی آنکھ کے پار ہوجاتا ہے .. بدلے میں جفا رہ جاتی ہے. کہنے کو سوداگری نہیں محبت کہ بدلہ مانگا جائے مگر جس دل میں محبت کے بے تحاشا سوراخ ہو، اسکے پیالے سے سب باہر آتا جاتا ہے .ہر آنسو آیت بن جاتا ہے اور ہر نشان میں خودی جلوہ گر ہوجاتی ہے. یہ وہ مقام ہے جس میں ہر شے آئنہ ہوجاتا ہے. درد سے پُر ہے دل، جان بلب ہے، شکستگی پر غشی سی طاری ہے، گماں ہوتا ہے نزع کی ہے باری،

طبیبا!  تخلیہ!  درد ہمارا مداوا
طبیبا! تخلیہ!  درد میرا تماشائی
طبیبا! تخلیہ!  درد محرم راز ہوا
طبیبا!  تخلیہ!  درد سے پُر میرا کاسہ
طبیبا! تخلیہ! دم دم میں ہمہ ہمی
طبیبا تخلیہ!  شور کی ہے کمی
طبیبا! تخلیہ!  زندگی ہے بچی
طبیبا!  تخلیہ!  رقص جگر مانند بسمل
طبیبا تخلیہ!  شوریدگان عشق کی ذاتیں
طبیبا تخلیہ!  دل میں پری چہرہ کا نقش

نقش پری چہرہ کے جمال سے جلال میں محو کمال نے فنا کے رہ میں حائل ملال سے زوال کا.پوچھا. زوال نے رستہ روک کے ملال کے سیلاب بہا دیے. افسوس مکان شہر سے نیچے تھا. پانی پانی دل اور غم بہتا ہے نہ کوئ ہے جالی ... اس پری چہرہ کے خیال میں درد کی تجسیم نے کیا حال کردیا ہے. دل میں وہی ہے، میرا دل مجھ سے شمیشر بکف ہے کہ
من تو شدی ...

تحریر درد کی دیوار پر لکھی گئی ...کچھ حرف منقش ہوئے

آؤ سوختہ جگر!  آؤ مرض عشق کے اسیرو!  آؤ چراغاں کریں درد سے. آؤ شام غم میں درد سے روشنی کریں کہ ایندھن یہی بچا ہے ... لہو نکل رہا ہے اور لفظ بسمل کا رقص دیکھ رہے.

بسمل کے رقص کا تماشا سب نے دیکھا
کسی نے تھام کے ہاتھ آسرا نہ دیا

مثال دوں بھی تو کیا دوں جب ارسطو نے
کسی بھی طور فلاطوں سا حوصلہ نہ دیا

رنگ میں ڈھلی ہے اک صورت ہے وہ صورت رسول معظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شبیہ ہے. جب وہ دکھے تو سارے درد ماند پڑنے لگنے لگتے ہیں. جیسے درد کی چاندنی کا شمس کی بینائی کے آگے کیا سوال!  دکھ تو شمس کی روشنی کا ادھورا حصہ ہے. آفتاب ہے مثال روشنی کمال ذات پر دیکھا جانے والا وہ لب بام پر گلاب ...گلاب پنکھڑی سے ہونٹ پر کھلتی مسکراہٹ اوع دندان مبارک سے نکلنے والی چاندنی ..دل کو دکھے تو سہا نہ جائے. دل دیکھی جائے عالیجناب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ریشم ریشم زلف ..وہ زلف جس کے تار تار کو ہوا چھو کے نازاں ہوں ..ہوا کی ٹھنڈک وجود اس لیے آئ کہ بال مبارک سے چھو کے گزری تھی اور عالم کو تحفہ دیتی رہی. اے باد صبا تجھ کو لاکھ سلام کہ تو محبوب کے در سے گزری ہے. ... آقا کی روشن آنکھ صبیح چہرے پر ایسے ہیں جیسے خواب کے بعد صبح ہو جائے ..جب آنکھ نیم وا ہو تو شام سے رات کا گمان ہو اور جب کھلے تو کائنات کا گمان ہو ...جب بولیں تو پھول گرتے محسوس ہوں. جب مسکرائیں تو کائنات مسکرانے لگے ...جب ہاتھ اٹھائیں تو روشن تجلیات کا ہالہ دکھنے لگے. جب کہ پیشانی کے خط پر کسی شمسی کا گمان ہو گویا شمس کی ذات میں ہزار شمس رکھے ہوں ... گویا لاکھ نظام و عالمین کا مجموعہ ہو ...اے شمس تو اک نظام کا مرکز. آقا کئی شمسین کے مرکز ...جو چہرہ تکے تو ساکت ہو جائے، جب ہوش آئے تو اصحاب کہف والوں کا سحر ٹوٹ جائے. رات کو بیٹھنے والے دیکھتے ہیں کہ چاند بھی آقا کی روشنی سے روشن ہے

نور

رنگ ‏رنگ ‏میں ‏ترے ‏جلوے

رنگ رنگ میں ترے جلوے ہیں اور ان جلوے میں چاشنی ہے اور کوئل اک ہے کو بہ کو یے جیسے کہے کہ 

رنگ اللہ کا!  اللہ کا رنگ!  سب اسی کا ہے، نہیں باقی چار سو!  نہیں ہے ماسوا اسکے!  چل رہی اسکی ھو!  رکھ لے دل میں سجدے اور پڑھ لے دکھاوے کو نماز ... یہ ہے ظاہر و باطن کی بات 

باطن میں ولا اس کی ہے 
حال میں چاہ اسکی ہے 
ریت پہ پانی لگ گیا یے 
پانی ریت ریت ہوگیا ہے 
فرق نہیں ہے، بس اللہ ہے 
اللہ ہے،  خدائی اس کی ہے
اللہ ہے،  رہنمائی اسکی ہے 
اللہ ہے، کبریائی اسکی یے 
اشھدان لا الہ الا اللہ کہا 
محمد رسول اللہ کی بات ہو 
راج پاٹ چھوڑ بیٹھے تھے 
ادھم اللہ اللہ کرتے رہے تھے 
ہائے!  لال قلندر کی نگہ میں تھے 
مولا چار سو ہے!  آقا کا جلوہ چار سو یے 
آبشار کی موسیقی سن یے تو اللہ اللہ کا گمان ہو اور جب تو پہاڑ کے اندر جا اسکے سونے میں ھو کو سن لے ...

روشنی جس نے وجود کو گھیر رکھا ہے رگ رگ سے نچوڑے ہے جیسے کپڑے سے داغ سب نکل جاتے ہیں ...

چہرہ آئنے میں دیکھا تو آئنہ میں وہ دکھا 
آئنے بکھر گئے تو سوچا یہ تو میں ہوں 
تو کیا فرق ہے؟ بتا اے ہوا؟  
اب اس دل کے عالم اور باہر کے عالم کا فرق؟
ہاں گہرا پانی اندر ہے 
ہاں باہر بوند یے

تخلیق ‏ہورہی ‏ہے

تخلیق ہو رَہی ہے ...
کیسے؟  
کون کر رہا ہے؟
کس کی ہو رہی ہے؟  
وہ جو مالک ہے کُن صاحبِ اسرار ہے،  
دیکھ رَہا یے،
سُن رَہا ہے،
سَمجھ رہا ہے،
یا ھو!  تمہید باندھی ہم نے 
ہائے ھو میں پکارا تمھی کو 
لا بھی ھو بھی،  انوکھا راز ہے 
سمجھ رہی ہوں کہ میں نے کس دن سے،  کب سے،  تمھارا نام دل کی دیوار پہ لکھا تھا 
دل کی دیوار پر سنہرا تھا رنگ تمھارا 
لگتا تھا کہ لال شفق پر کوئی بیٹھا ہے مانند شمس 
تو شمس کو دیکھا، کھوگیا قمر 
تو کھونے سے زمین میں لاگی گردش 
نہ ہستی رہی،  نیستی میں اسکی ہستی 
مستی رہی،  پستی میں وہی ہے 
کیف نہیں یے، کیفیتات ہیں 
دل ہائے اسرار کا مرقع ہے 
دل کے قران پاک پہ سطر سطر میں اللہ اللہ لکھا ہے 
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 
جگہ ترے لیے ہے 
دل فقط ترے لیے ہے
اور اسکی کرسی کو دل میں قرار ہے 
وسعت جس کی سماوات تک ہے 
دل عرش سے صبح فرش تک بس اک صدا 

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 

ہستی شہود را سے مستی ہنوز را تلک فقط مالک کی صدائے ھو سنی ہے 

سن لیا ہم نے نار میں کیا ہے، ھو کی صدا ہے 
سن لیا ہم نے فلک زمین کو بلاتا ہے،  ھو 
سن لیا ہم نے چاند و زمین کا نغمہ، ھو 
سن لی چرچرانے کی صدا میں،  پتے پتے کی ھو 
سن لی عشق ازل سے ابد کی صدا ھو 
نیستی میں نہیں کچھ بس وہ ہے 
ہستی میں وہ ہے، نہیں کچھ اور 
دل از لامکان تلک رفتار میں ہے 
خلائق جانب خلق گفتار میں ہے 
حالت سے حال کوئے یار میں ہے 
خانہ کعبہ دل کے اسرار میں ہے 
رنگ رنگ جو ہے،  وہ یار میں ہے 
 زنگ اترے، کیا بات پیار میں ہے 
جا،  دے آ دل،  دل وار میں ہے 
لے، نکال نیام جو تلوار میں ہے 
رویت میں ہے،    گفتار میں ہے
مست، خراماں سے وقار میں ہے
جالی کے سامنے اظہار میں ہے 
اشک اشک، حال زار زار میں ہے
چلا وہ نغمہ جو ستار میں ہے 
رہ وضو میں، کیوں قرار میں ہے 
جنون ہے، جنون کوئے یار میں ہے 
پھیلی خوشبو، وہ جو ہار میں ہے 
دیکھی رنگ، جو چنر لعل میں ہے 
کیا ہے شوق نے راہ کو  معشوق 
عشق و معشوق ساتھ ساتھ ہیں 
یہ عشق دوئی مٹانا کا بہانا ہے 
یہ عشق ملنے کا اک سیاپا ہے 
ملن کے واسطے،  فسانہ ء جہاں 
ملن کے واسطے،  سجا یہ آستاں 
دل،  نمانا سمجھا نہ اسکے نشان 
محمدی نور میں عیاں ہے جہاں 
میم کے رنگ میں الف لازوال ہے 
الف میں الف کی مثالیں نہیں ہیں 
میم سے نکلیں ہیں سو ذاتیں
میم سے پھیلی ہیں کائناتیں 
میم نے کی سج دھج رگ جان میں 
میم سے پہچانا اللہ کا بیان 
میم سے جانا اللہ کا  ہےقران 
میم تو خود چلتا پھرتا قران  
میم کے واسطے یہ ہے جہان 
میم سے ملی شمس کو بینائی 
میم سے ملی قمر کو رعنائی 
میم سے ملی بحر کو روانی
میم سے ملی موجوں کو طغیانی 
میم سے ملی عشق کی کہانی 
میم سے ملی حسین کی قربانی 
 میم سے ملی فاطمہ کی نشانی 
میم سے ملی اللہ کی مستانی 
میم سے کار جہاں دراز ہے میاں 
خودی کو سرفراز کیا ہے میاں

گہرائی

میں ابھی کلام سُن رہی تھی ... 

یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہسوار ہے 
یہ بالیقین حسین ہے نبی کا نور عین ہے
لباس پھٹا ہوا غبار میں اٹا ہوا 
تمام جسم نازنیں چھدا ہوا کٹا ہوا 

اسکو سنتے ہوئے "گہرائی " کا اندازہ ہوا .. ہم جب گہرائی میں جاتے کوئی کام نہیں کرتے وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوتا.  زندگی میں گہرائی اتنی اہم ہے مگر پھر بھی لوگ گہرائی میں جانے سے کیوں ڈرتے ہیں ....... شاید گہرائی میں اترنے کا فن ہر کسی کو نہیں آتا ... شاید اس راستہ جنون سے گزرتا ہے اس جنون میں ہوش قائم رکھنا اصل حق ہے. باقی سبھی دیوانے ہوتے کہیں نہ کہیں کھو جاتے ہیں.

اک ٹیچر ہوں میں،  میں جانتی ہوں تدریس کا حق ادا نہیں کرسکتی ہوں مگر اک چیز کو محسوس کرتی ہوں ......   گہرائی اک ایسا احساس ہے جو بچوں کو پڑھانے میں مددگار ہوتا ہے. میں جو چیز پڑھاؤں گی،  اسکو پڑھانے کے واحد کا طریقہ ہے کہ بچوں میں اس کانسیپٹ کی گہرائی پیدا کروں  جب اس مضمون کی گہرائی ان میں پیدا ہوگئی تو پھر وہ سوال کریں گے. انہی کے سوالات انہی کا دھیان بنائیں گے.  اس کے لیے میں ان کو کتنا ایکٹولی انگیج کرتی ہوں، یہ سوچنا ہے

گہرائی کیا صرف ٹیچنگ میں کام آتی ہے؟  نہیں؟  میں نے سُنا بھی،  پڑھا بھی تان سین کے راگ میں اتنا دم تھا کہ اس سے پانی میں آگ لگ جاتی تھی.  پانی تو بیچارہ بے جان تھا،  جانداروں کا کیا حال تھا. ہمیں بعض اوقات کلام سنتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ یہ گانے والے یا قاری کس قدر سے دل گا رہا ہے یا پڑھ رہا ہے ... وہی تاثر جو آواز دینے والے سینے میں پیدا ہوتا ہے، وہی ہم میں ابھرنے لگتا ہے .. 

گہرائی والی بات کسی غیر زبان کو سمجھنے میں کام آتی ہے بشرطیکہ کہ دل پسند ادب سنیں یا پڑھیں.  جب ہم کسی کلام کو دل سے پڑھتے ہیں یا کہ سنتے ہیں تو اس غیر زبان کے لفظ ہماری فہم میں آنے لگتے اور ہمارے لیے وہ زبان بھی اجنبی نہیں رہتی ہے .... اسی کا حوالہ قران پاک کے لیے بھی ہے جسکو قران پاک سے محبت ہے وہ اسکو روز خشوع خضوع سے پڑھے تو اسکو بھی اسکی سمجھ آنے لگتی ہے ...

بات صرف گہرائی کی ہے.  ذرا گہرائی میں جاکے امام عالی حُسین کی قربانی کو محسوس کیجیے!  آپ کا دل میدان کربلا بن جائے گا.  آپ کے دل کی زمین سرخ ہوجائے گی اور آپ کا دل بھی پکارے گا 

یہ بالیقین حسین ہے،  نبی کا نور عین ہے

۲۰۱۸، المحرم الحرام ۹

رات ‏ہے ‏اور ‏رات ‏میں ‏رات ‏نہیں ‏ہے

رات ہے اور رات میں رات نہیں ہے. یہ تو سویرا ہے اور میں کس کو جا بجا دیکھ رہی ہوں ..جلوے ہیں جابجا میرے اور ان میں کس کو دیکھا جا رہا ہے ...

مہک مہک ہے،  رنگ رنگ ہے 
دل تو دل ہے نا،  روشن ہے 
رنگ میں خمار کی مے ہے 
دل میں غم کے لاوے ہیں 

اے مرشد حق!  ہم جھکاتے ہیں دل کو وہاں جہاں سے یہ جواب مل جاتا ہے. یہ دائرہ کیا ہے؟  یہ نسیان کیا ہے؟  یہ حیات کیا ہے؟ میں نے پوچھا آقا سے کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ..بندگی کیا ہے ...
بندگی خاموشی و ادب ہے 
بندگی  طریقہ دین ہے 
بندگی یاد میں رہنا ہے 
بندگی غلامی ہے 

میں تو غلام رسول ہوں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
میں خاک زہرا بتول ہوں 
عشق حرم کے فسانے ہیں 
چل پھر رہے دیوانے ہیں 
نبوت کے مینارے ہیں 
عجب یہ استعارے ہیں 
کنزالایمان،  بلیغ لسان 
محمد عربی کا ہر بیان 
شمس الدجی کی تجلی 
لگ رہی ہے کوئ وحی 
آنکھ میں ہاتھ رکھا ہے 
رات میں ساتھ رکھا ہے 
روحی چشمے سارے ہیں 
وصل کو پھرتے مارے ہیں 
 اشرف ہوئے سارے ہیں 
مدین سے پھیلے فسانے 
ناپ تول کے تھے پیمانے 
چھوٹ گئے سب یارانے 
جوگی مل گئے سب پرانے

جنوں ‏کی ‏مار

جُنوں کی مار" مُلت تان" لے گئی  
کَہاں کَہاں یہ داستان لے گئی 

.... .... ..... ....... ...... ...... ......
 گُلاب کی مَہک، یہ شمع کی چمک 
 قرار کے سبھی مکان لے گئی 
ـــــــ ــــــــ ـــــــ ـــــــ ــــــ ـــــ

یہ جو گرفتگی سی  ہم پہ  طاری ہے
وہ دل تو دل، سبھی جہان لے گئی
ـــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ ـــــ ـــــ

ستم ہوا، کَرم سے دور تھے کیا؟
جو ہجر کا دیپ  لا مکان لے گئی 
ـــــ ــــــ ـــــ  ـــــ ــــــ ــــ ــــــ

وہ کیا چراغ کی فقط لُو تھی؟
حضوری کے نئےجہان لے گئی 
ــــ ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ ــــ ــــ ـــ
دَھڑک رَہاہے حرف حرف، یہ گھَڑی 
بھی رازوں کے  کاروان لے گئی 

ـــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ ـــــ ـــــ
گِریہ چُپ ہے، پینے کو جو مے 
یہ کربلا کے  میدان لے گئی
ـــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــ

عروج ‏ذات ‏

عروجِ ذات پے کَمال جس کا ہو نَصیب
وُہ زیست کو نَہ جانے خود سے قَریب 

رکا تھا سِلسلہ،  چھوٹ جانا تھا قافلہ 
وہ گِریہ تھا کہ چیخ ملا ہے مِرا حَبیب 

غُلام رَسول، خاکِ زہرا بَتول ہُوں، تَڑپ 
جو دیکھی تو مسکرایا تھا مرا حَسیب 

حَشر میں ریگزار پر چلنا کتنا محال تھا 
چلے تو گُزر کے جاں سے مل گیا شکیب 

یہ اہلِ نظر جانتے ہیں کِسے وہ دل مانتے 
ملا حَسیں چمنِ زَہرا کا، کھل اٹھا نصیب 

مِلا عکس زہرا بَتول کا، چمن میں صَبا نے 
کھلائے گُل اور سنا سبھی نے نغمہ عندلیب

نور ایمان

نفس

انسان نفس الہام کے ساتھ پیدا ہوتا ہے. جو اس الہامیت میں ترقی کرتے ہیں وہ نبوت کے حامل ہوئے ہیں یا ولی بنتے رہے جبکہ جو  نفس ملحمہ سے امارہ کی طرف چلے. ان کے دل قفل کھا گئے ..موت سے پہلے ہمیں مستقیم صراط نصیب ہو جائے. ہماری زبان کا کلمہ ہو لا الہ الا اللہ :

انسان دنیا میں آتے ہوئے شہادت دے لاالہ الا اللہ 
انسان دنیا سے جائے کہتے ہوئے لا الہ الا اللہ 
موت پہ اجل کی آمد   . قبر میں منکر و نکیر کی آمد اس بات پہ دیتی ہے دلالت کہ  کوئ معبود نہیں سوائے اللہ کے



He asks

He asks always what is in you 
I say:  don 't know 
He says don 't recognize ur beloved 
I say:  forgotten self is mine 
Restrained in insanity

خاموش ‏دل ‏تھا ‏، ‏طوفان ‏چاہیے

خاموش دل تھا، طوفان چاہیے؟  طوفان کو کیسا میلان چاہیے؟ کیا.رب سے کوئ امکان چاہیے؟ شرم کہ کیسا سامان چاہیے؟ اے دل مٹنے کی طلب یے کہ مٹ جا اوربے رنگ ہو جا کہ بے رنگ میں کئی ملال چھپ جاتے اور جواب ظاہر ہو جاتے ہیں. اے دل فنا ہونے میں کیا مضمر یے کہ راز جان کے جان لینے سے پہلے یقین کرنے میں کیا ہے. وہ جو رگ لاھوت سے سوئے یاھو کا نغمہ ہے وہ بج رہا ہے وہ جو محو پیکان میں تھا وہ بھول گیا یاد کو کہ یاد تھی کیا وہ تو یاد نہیں تھی. وہ سندیسہ تھا جسے رب نے بھیجا تھا اور جب بھیجا تھا کہا تو کہ اسے رکھ دل میں اور عیان نہ کر ورنہ گلاب کی مہک بکھر جاتے ہیں اور جب بکھر جائے تو سو سوال ...خوشبو پر سوسوال ..جواب اک ہو تو بات ہے کہ ھو میں رہتا ہے کوئ یک ٹک سو ہے. محویت طاری ہے کہ رنگ و نور کی بارش ہے کہ جنبش مژگان سے شبنمی.قطروں سے وصال کی قیمت پوچھ ...وصال میں ملال ہے کہ چھن جانا سب اور ہجر کا سوگ دائمی کہ آ لگا لیں گلے اسکو کہ نہیں صبر کا یارا ..ہم زخم کو سینے سے لگاتے ہیً اوروہ پاس بلاتا ہے کہ کہتا ہے 
یادش بخیر!  سب بجلیاں طور کی ہیں؟ کچھ معراج میں چھپا ہے جب دل کو الہام کیا گیا تھا کچھ غلط نہ دیکھا ... بس روبرو تھا کوئ ...کون تھا؟ کون اس آئنے میں چھپا تھا؟ کس نور سے نور ملا کس کو کس کو یہ کون جانے. یہ تو رب جانے اوردل جانے ..دل دی گلاں کون جانڑے. دل دے ارماناں دی اوس نو کون مانے؟ رخ سے جو نقاب ہٹ گیا تو رک جائے گا ہاتھ اوررفتار  بڑھ جائے گی. روح کے چکروں میں وہی ہونا ہے ..کیا؟ جلوہ؟  ہاں جلوہ بھی اک ہےآنکھ بھی اک ہے ..دیکھنے والے مظہر بھی ..بس لکا چھپی کا نظام ہے اور آنکھ جانتی ہے کس کو وہ اپنا دل مانتی ہے ...اے دل چل اس سرزمین جدھر سے یہ خوشبو آتی ہے ورنہ تھم جائے گی گردش اوررک جائے گا دل اور کہے گا کہ جینے کا سلیقہ کیسے ہوگا؟  پینے کا طریقہ کیسے ہو؟

لوگ ‏بھاگ ‏رہے ‏ہیں

لوگ بھاگ رہے ہیں،  
بلکہ مانگ رہے ہیں،
کیا مانگ رہے ہیں،  
دید کی بھیک،  
ممکن نہ تھی دید آسان،
جب  حاجرہ کے چکروں کا لگنا
اسماعیل کے پا سے زم زم کا نکلنا،  
موسی کا خود شجر سے سراپا آگ بن جانا 
اللہ نور سماوات کی تمثیل تھے 
یقینا ہم نے سبھی سرداروں کو اسی برق سے نمو دی،  یہ شہ رگ سے قلبی رشتہ تھا ... .
جس پہ مقرر اک فرشتہ تھا.   
جس نے جان کنی کا عالم دو عالم میں سمو دیا،  
یہ عالم موت تھا،  یا عالم ھُو تھا 
دونوں عالمین کے رب کی کرسی نے الحی القیوم کے زینے دکھائے،  
باقی وہی ہے،  فانی تھا کیا؟
یقینا فانی کچھ نہیں،  
مٹی تو اک کھیل ہے،  
روح کے ٹکروں کا کٹھ پتلی بننا تھا 
قالو بلی کا آواز کن کے آوازے سے پہلے،  
تخلیق آدم اور اسماء کا القا ء 
ذات کی تجلی،  صفات کی تجلیات 
دونوں آدم کو مل گئیں اور  شیطین کو کہا،  
ساجد ہو جا،  سجدہ میرا تھا،  قضا کرکے،  منصف بنا؟  
نہیں،  خطا تو آدم نے کی تھی،  آدم کی توبہ اور شیطین کا تکبر،  در سے در ملنا،  بند ہونا،  قفل لگنا،  
یہی لوگ شرالدواب ہیں،  
صم بکم عمی کے تالے ہیں ان کے دل میں،  
ہم نے بدترین کو کیسے کھڑا کیا،  اپنے سامنے کہ للکارے ہمیں اور ہم نے کیسے اسکو اُس تماشے کے پیچھے رسوا کردیا، جس کا آخر زیاں تھا، جس کی ابتدا بھی زیاں ..... افسوس شیطین نے زیانی کا سودا کیا اور آدم کو ہم نے نور نبوت کے فیض سے نوازا،  
پہلے عارف کی معرفت محمد صلی اللہ  علیہ والہ وسلم پہ مکمل ہوئ،
یہی توبہ کی مقبولیت کا وقت تھا،  
حوا کی زمین سے کیسے کیسے عارف نکالے،  
آدم کی پشت میں،  کتنے پیامبر تھے،  جن کو حوا نے دیکھا،  .
آدم کو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جد ہونے پہ فخر ہوا،  یہی ہمارے حکمت ہے کہ کسی کو کم،  کسی کو زیادہ سے نوازتے ہیں!  
اے وہ ذات،  آگ لگی ہے!
اے وہ ذات، جس نے مجھے چراغوں سے تبسم دیا،  
اے وہ ذات،  جس نے روشنی سے تیرگی کا فرق دیا 
اے وہ ذات،  مقصد کیا تھا میرا؟  
سلسلہ ء ہدایت کے واسطے، میں تو خود ہدایت کی متمنی،  میں تو خود اوج معرفت کی خواہش مند ...
اے دل،  دل کے واسطے کائنات ہے،
دل، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  اس دل کے  کتنے حصے پھیلے؟  
جتنے حجاز مقدس کے گگن سے رشتے تھے،  
جتنے کربل کے  شاہ نجف سے رشتے تھے،  
جتنے لاھوتی کے ملکوتی سے سلسلے،  
جتنے عجائبات کا،  عالم سے سلسلے،  
رابطے ہوتے ہیں،  نور کے نور نبوت صلی اللہ.علیہ والہ وسلم ہے،  جس کو ملے ہدایت،  اسکو ملتی ہے اس نور تک رسائ 

اے وہ ذات، کہیں میں گستاخ تو نَہیں؟  
اے وہ ذات ....، یہ سب جو سن رہی ہوں،  یہ نیا نیا ہے،  گویا کہ احساس ء حمد پہلے سے تھا،  القابض ...یقینا تو مری جان کو ابھی قبض کرنے پر قادر ہے تو قلم کردے سر میرا،  اٹھے تو کٹے،  جھکے تو جھکا رہے کہ یہ بارگاہ نبوت کا کاشانہ ہے،  ان گنت درود عالی مرتبت سرکار دو عالم پر،  

تری دید مقرر ہے،  
تو سعید ہے!  
ہم تری سعادت پر خوش ہیں!  
یقینا ہم جسے چنتے ہیں،  وہ اسی کے قابل ہوتا ہے ..

دعا


انسان کسی بات کے لیے اپنی سی کوشش کرتا ہے میں نے بھی کوشش کی  ۔۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ  دل کو چھڑاؤں، ضبط کا دامن تار تار نہ ہو،  میں نے کوشش کی شیشہ دل پر لگی ٹھیس عیاں نہ ہو مگر افسوس ! میں نے کوشش ہستی کا دھواں رواں رواں نہ دے، میں نے کوشش کی وحشت کو پنجرے میں ڈال دوں،  میں نے کوشش کی خود کو خود سے نکال دوں،  میں نے کوشش کی درد کی چادر اوڑھ لوں، میں نے کوشش کی آگاہوں  کو آگاہی دوں، میں نے کوشش کی جسم کے سیال کو ابال دوں،  میری ہر کوشش رائیگاں ہوئی. 

میرے دعا،  مجسم دعا بنا وجود نہ سنا گیا،  نہ دیکھا گیا، نہ محسوس کیا گیا،  میری جبین نے سر ٹیک دیا اور در محبوب کا تھام لیا۔۔۔! اس کو جائے نماز کی طرح سنبھال کے نماز عشق کے سجدے کیے مگر جواب ندارد! کیا کیا  ہے میرے دل میں،  میں برس ہا برس سے پُکار رہی ہوں،  کیوں ایسا ہے دعا کو ٹال دیا جاتا ہے؟  کیوں رستہ بھی جمود کا شکار ہوتا ہے کیوں ایسا ہے بارش نہیں ہوتی، کیوں ایسا گھٹن کا سامنا ہوتا ہے کیوں ایسا آسمان کی جانب  حیرت بھی خاموش ہے!  کیوں ایسا ہے کہ قرب کا جاواداں شربت پلایا نہیں جاتا!  وہ  دل. میں بھی ،سینے  میں بھی، قلب میں  بھی!  زمین سورج.چاند سب ادھر!  مگر سنتا کیوں نہیں!  کون تڑپ دیکھتا ہے؟  جو پیارا ہوتا ہے اس کو اٹھا لیا جاتا ہے... وہ مجھے پاس نہیں بلاتا نہ کہیں سے اذن میرے رنگوں کو نور ذات کو  سرور دیتا ہے! 

 یہ دنیا ہماری ٹھوکر پہ پلی  ہے ہمیں دنیا نہیں.چاہیے ہمیں اپنا پیارا  درکار ہے!  پیارا جو ہمیں نہال ایسا کر دے کہ سالوں سرر نہ بھولے سالوں کیف کی منازل ہوں...ہمیں اس سے غرض ... وہ جانتا ہے وجود سارا مجسم دعا ہے دل میں اس کی  وفا ہے .... یہ یونہی درد سے نوازا نہیں جاتا جب بڑھتا ہے دوا مل جاتی!  اک درد وہ ہوتا ہے جو وصل کا تحفہ ہوتا ہے وجود ہچکی بن جاتا ہے، دل طوفان کا مسکن،  آنکھ ولایت کی شناخت ہوجاتی ہے مگر اک درد وہ ہے جس سے شمع نہ گھلتی ہے نہ جلتی ہے اس کا وجود فضا میں معلق ہوجاتا یے. ..... 

نہ رکوع،  نہ سجود،  نہ شہود ... ذات میں ہوتا وقوف ..اس پہ کیا موقوف کائنات جھولی ہوجائے ہر آنکھ سوالی رہے... اس پر کیا موقوف دل جلتا رہے، خاکستر ہوجائے مگر مزید آگ جلا دی جائے ...

.

جب آگ جلائ جاتی ہے تو وہ سرزمین طور ہوتی ہے تب نہ عصا حرکت کرتا ہے نہ شجر موجود ہوتا ہے!  عصا بھی وہ خود ہے اور شجر بھی وہ خود ہے!  یہ شجر انسان کا پھل و ثمر ہے جسے ہم عنایت کرتے ہیں ...زمین جب کھکھکناتی مٹی کی مانند ہوجاتی ہے تب اس کی سختی نور َالہی برداشت کر سکتی ہے ... یہ ہجرت کا شور مچاتی رہتی ہے مگر علم کا تحفہ پاتی ہے ... اس کا اسلوب نمایاں شان لیے ہوتا ہے... مٹی!  مٹی کے پتے ڈھلتی کتِاب ہیں ..

یہ.پانی کی موجوں کا.ابال ...یہ رحمت کی شیریں مثال ...یہ.بے حال.ہوتا ہوا حال ...کیا.ہو مست کی مثال.

.یہ کملی.شانے پہ ڈال ...اٹھے زمانے کے سوال ..چلے گی رحمت کی برسات ... مٹے گا پانی.در بحر جلال ... طغیانی سے موج کو ملے گا کمال ..یہ ترجمانی،  یہ احساس،  تیرا قفس،  تیرا نفس،  تیری چال،  تیرا حال ... سب میری عنایات ...تو کون؟  تیری ذات کیا؟  تیرا سب کچھ میرا ہے!  یہ حسن و جمال کی.باتیں، وہم.و گمان سے بعید.رہیں ...یہ داستان حیرت ... اے نفس!  تیری مثال اس شمع کی سی ہے جس کے گرد پروانے جلتے ہیں جب ان کے پر جلا دیے جاتے ہیں تب ان کو طاقتِ پرواز دی جاتی!  اٹھو دیوانو!  تاب ہے تو جلوہ کرو!  مرنے کے بعد ہمت والے کون؟  جو ہمت والے سر زمین طوی پہ چلتے ہیں،  وہ من و سلوی کے منتظر نہیں ہوتے ہیں وہ نشانی سے پہلے آیت بن جاتے ہیں ..آیتوں کو آیتوں سے ملانے کی دیر ہوتی ہے ساری ذات کھل جاتی ہے!  سارے بھرم حجاب سے ہیں یہی حجاب اضطراب ہے!  نشان ڈھونڈو!  غور و فکر سے ڈھونڈو!  تاکہ نشانیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچتے تم اک تمثیل بن جاؤ!  " لا " کی عملی.تفسیر جا میں الا الہ کہ تار سے کھینچے جاؤں گا ... یہ تیری دوڑ جتنا مضبوط یوگی اتنی حدبندیاں کھلیں گے،  اتنے ہی مشاہدات ہوں گے،  سر زمین طوی بھی اک ایسے جا ہے جہاں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں... یہ جو سر سبز پہاڑ کے جلوے ہیں ان میں عیان کون ہے؟  جو کھول کھول میری آیتوں کو پڑھیں،  ان.پہ کرم.کی دیر کیسی،  یہ تسلسل کے وقفے ضروری ہیں ...یہ محبت کے سر چمشے پھوڑتے ہیں...جتنی حبس ہوگی اتنا ہی پہاڑ ٹوٹتے ہیں!  زمین سے چشمے نکلتے ہیں ... زمینیں سیراب ہوتی ہیں .. درد کو نعمت جان کر احسان مان کر  پہچان کر نعمتوں کے ذکر میں مشغول دہ .... 

خاک کی قسمت!  کیا ہے؟  دھول.ہونا! یہ پاؤں میں رولی جاتی ہے ... جبھی اس کے اصل عکس نکلتا.ہے!                        

 اس نے جانا نہیں یہ درد کا تحفہ کس کس کو دیا جاتا ہے!  جو نور عزیز ہے،  جو کرم کی چادر سے رحمت کے نور میں چھپایا گیا ہے!  تیرا ساتھ کملی والے کے ساتھ ہے،  کمال ہم نے درِ حسین علیہ سلام پہ لکھا ہے،  حال فاطمہ علیہ سلام کے در پر ....  

ہوا سے کہو سنے!  سنے میرا حال!  اتنی جلدی نہ جائے!  کہیں اس کے جانے سے پہلے سانس نہ تھم جائے!  سنو صبا!  سنو اے جھونکوں ..سنو!  اے پیکر ایزدی کا نورِ مثال ... سنو ... کچا گھڑا تو ٹوٹ جاتا ہے،  کچے گھڑے سے نہ ملایو ہمیں،  ہم نے نہریں کھودیں ہیں،  محبوب کی تلاش میں،  ہمارا وجود ندی ہی رہا تب سے ِاب تک!  نہ وسعت،  نہ رحمت کا  ابر نہ کشادگی کا سامان،  لینے کو بیقرار زمین کو کئ بادل چاہیے .... تشنگی سوا کردے!  تاکہ راکھ کی راکھ ہوا کے ساتھ ضم ہوجائے،  وصالِ صنم حقیقت یے دنیا فسانہ ہے!  ہم تیرے پیچھے پیچھے چلتے خود پیغام دیتے ہیں ... ہمارا سندیسہ پہنچ جائے بس ...  قاصد کے قصد میں عشق،  عاشق کے قلب  میں عشق،  زاہد نے کیا پانا عشق،  میخانے کے مئے میں ہے عشق .... اسرار،  حیرت کی بات میں الجھ کے بات نہ ضائع کر جبکہ اسرار خود اک حقیقت ہے ... ستم نے کیا کہنا تجھے،  ستم تو کرم یے،  بس سوچ،  سوچ،  سوچ کے بتا کہ بن دیکھے جاننے والا کون ہے؟  اسماء الحسنی کو اپنانے والا کون ہے؟ صدائے ھو کو اٹھانے والا کون .. شمع حزن در نبی ہے!  یہ وہاں کہیں پڑی ہے،  دل کی  حالت کڑی یے ..  

حق ھو !  حق ھو!  حق ھو!  یہ حسن کے پھیلاؤ کی ترکیب جان،  راز ہیئت سے جان پہچان کر،  جاننے والے در حقیقت پہچان جاتے ہیں منازل عشق کی منتہی کیا ہے کہ ابتدا کو قرار کن کی صدا دیتی ہے، موت کو قرار اک اور صدائے کن دیتی ہے ..یہ بین بین وقت ہے،  ہماری حکمت ہے!  یہ زمانہ ہے،  یہ وقت ہے جب پہچان کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے،  یہ خسارہ جو زمانے نے اوڑھ رکھا ہے اس کی اوڑھنی پہ قربانی کے ستارے جب چمکتے ہیں تو ماہتاب جنم لیتے ہیں ..انہی ماہِ تاباں میں سے کوئ اک آفتاب ہوتے ہیں!  حق موجود!  تو موجود!  حق موجود!  وہ موجود!  حق اللہ!  حق باقی!  حق،  کافی،  حق،  شافی ...حق ھو حق ھو                      

صدائے ‏امام ‏عالی ‏حسین ‏

آواز کا کردار بُہت اہم ہے ، اس نے کہیں دو دلوں کو ملایا ہے تو کہیں  اسی آواز کی بدولت  ایسی تباہیاں مچائی گئیں ہیں کہ دل  لرزتے لزرتے سہم سے جاتے ہیں جبکہ کہیں پر یہ تھم بھی جاتے ہیں، دل تھم گیا تو بندہ گیا. ... آواز کو اگر صدا سے معتبر کردیا جائے تو صدیاں یک بیک اک زمانہ بن جاتی ہیں اور کہیں  پے زمانہ پلٹ کے پیچھے چلنے لگتا تو کبھی مستقبل کی اڑان بھرنے لگتا ہے. نغمہ ء گُل ہو کہ آہو،  دونوں (صدا اور آواز)  بصورتِ راگ،  بہ آہنگ ساز باہم ہوں تو قیامت دلوں پر نزول  ہوجاتی ہےـ تان سین کے بارے میں سُنا تھا کہ راگ میں جادوئی، سحر کی بدولت پانی آگ ہوتا جاتا!  تو سوچیے دلوں کا کیا حال ہوتا  ہوگا؟ یہ تو گائیک نے گایا سر و تال پر کہ حاضرین تو حاضرین، پتا، پتا، بوٹا، بوٹا جھوم اٹھا ...

آواز اور صدا کا چولی دامن کا ساتھ ہے ـ کچھ احبابِ وقار اک کو سرائیت کرنے والی شے تو دوجی کو سرائیت شدہ سے معتبر کرتے ہیں. صدا نگوڑی سدا کی خاموش , سر نہواڑے اپنے نہ ہونے کا احساس دلانے کی ایسی ناکام کوشش کرتی ہے کہ بسااوقات بات شات تو بھول جائے مگر شور ان صداؤں کا بھول نہ پائے  گا کوئی.  یہ صدا جذبات سے ابھرتے من مندر میں رقص کراتی بھلادیتی ہے کہ مذہب کیا، ذات کیا اور اوقات کیا ـ جب صدا اک نقطے پر مرکوز ہوجائے تو دھیانِ عشق پیدا ہوتا ہے 

"مجھے اسکو پانے کی لگن ہے، جو مرا ہے ہی نہیں مگر دل مضطر سوچتا فقط اسی کو ہے!  " 

"میرا فن لاجواب!  باکمال ایسا کہ جس  جس نے  یہ شاہکار دیکھے، زلیخا کی جیسے انگلیاں دابے عش عش کرنے لگا، بس ہاتھ کٹنے کی کسر ہے کوئی  "حاش للہ" کہے اور  ہو حسن کا رعب طاری ..... "

"لفظوں کی صدا نکلتے ہی دل سے  تال میل ہوجاتے ہی  کہ دل دیوانہ، پگلا تصویر میں لکا چھپی کے مناظر دیکھتا تو کہیں کردار ہنستے بولتے دکھتے ہیں ...!  بس  یہ لفظ! ہائے، ان  کی صدا نے مار ڈالا،  چیر ڈالا!  "

"صدا من موجی اور آواز شعور کی بیساکھی، دونوں کا میل کاہے کا مگر لوگ آواز سنتے اور صدا چھپا لیتے... "

تمہیدِ گفتگو صدائے حسین، امام عالی پر مقام، ذی وقار، سلامتی و درود بھیجا گیا بار دگر ہر روح نے، یہ صدا نومولود بچے کی طرح مرے من میں پلتی بڑھتی رہی ہے اور جیتے جاگتے وجود کی مانند تشنہ بہ لب، جان کنی کے نئے عالم متعارف کراتی ہے گویا کہ شب و روز کی بیتی کا استعارہ صدائے حسین رضی تعالی عنہ ہے کہ یگانہ صدا، ریاکار دل میں گونجتی ہے تو نالہ ء بلبل کا سننے کو جذبات پہاڑ کاٹ کے دودھ کی نہریں جاری کرتے تلخ و آب زمین کو سیراب کیے دیتے ہیں.  پوچھیے!  جی مجھ سے کہ صدائے حسین تواتر سے دلوں میں گونجے تو ہر روز شب عاشورہ ہوجائے،  نوک سناں دل جھکے، ساجد ہر جا تسبیح کرتا ریگزار  کو دریا کرتے رہے.  میں اس زمین پے ہونے والے بے انتہا کرم پر خوش اور اپنی کوتاہی پر نالاں ہوں کہ مری آواز مرے کردار میں دب جاتی ہے تب بھی صدا باقی رہتی ہے کہ کردار عالی مقام اتنا بلند ہے کہ مجھ پست کو افلاک چیر کے دیکھنا امر لامحال ہے. پھر بھی دیکھیے دل ناداں نے ان کو یاد کرنے کے لیے دو تین آنسو بہا دئے ہوں کہ گویا دشت میں سحاب  چھٹ گئے ہوں. اپنی عزلت کو روتا یہ زمانہ دیکھے تو سہی کہ کیسے امام نے کس ہمت سے مصائب زمن کو سینے پر سہا اور آہ بھی نہ کی بلکہ عبدیت کا حق ادا کیا. آج یہ جہاں صف بہ صف امام کی صدائے غائبانہ کے پیچھے نماز عشق ادا کرتا اس اصول کی توضیح کرتا ہے کہ جب اللہ کی صدا سے اپنے من کی صدا کو اجاگر کیا جائے تو یہ زمانوں پر محیط بحر بیکراں کی مانند دلوں میں ہلکورے لیتی عشق کی اذانیں دیتی ہے

احساس ‏،خیال ‏دعا

رات کے لباس کو چاندنی نے تار تار کررکھا تھا . حسن گویا چہار سو بکھر کے اُجالا سے مدغم،  احساس نے پہاڑ تراش دیے تھے، جذبات کے سمندر میں نیلگوں روشنی تھی اور افق پر چاندنی کی کرنیں وجود مطہر کے لباسِ سفید کو نمایاں کررہی تھیں . سفید لباس میں جائے نماز پر بیٹھا وجود، جس کے چار ست اندھیرے روشنی لینے کو ترسے ہوئے تھے،  وہ صورتِِ ضیاء، عکسِ حیا ہچکیاں لیے، آنکھ تر بہ تر،  ہاتھ اٹھائے دعا مانگ رہی تھی.  وجود ہچکیوں کی جنبش سے ہلتا تو زمین کو زلزلے آنے لگتے مگر نازاں کہ رخسارِ اطہر سے معطر اشک خاک پر گرتے فخر ملائک کیے دے رہے تھے!  اشکوں میں زار زار وجود اور شبِ قدر کی رات!  وہ اک کچا سا مکان تھا جس کی زمین بھی مٹی کی تھی مگر کچی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نے گویا ذی نفسِ احساس کے نتھنے معطر کردیے تھے.  کبھی ہاتھ دل کے پاس رکھتے سکون کو محسوس کرتا وہ نفس رشکِ فلک اور کبھی فلک پر نظریں جماتا رشکِ کروبیان!  روح الامین اس نوری وجود کو دیکھ کے مسحور اور بیقرار کہ تشریف لاتے یہ بتاتے:  خدا نے آپ کی دعا قبول فرما لی،  امت محمدی کو گویا اشکوں سے خیرات مل گئی تھی.

جب نومولود بچہ پیدا ہوتا ہے تو فطرت میں اس کو محبت کو وہ تار دے دیا گیا جس کا سرا اس نفس مطہر کے پاس ہے اور جب احساس اشکوں کی صورت وجودِ روح کو جھنجھوڑتا ہے تو درود بصورت نذرانہ ادا ہونے لگتا ہے.  یہ اس دعا کی صورت ہمیں احساس درود سے نواز دیا گیا. ہمیں بتایا گیا کہ وہ قربان ہونے والی ہستی صدیوں سے ہم پر فریقتہ ہے اور ماں جیسی مامتا لیے ہمارے دکھوں کو اپنی رحمت کی کملی میں چھپانے کو بیتاب ہے مگر ایک بار اس احساس کو دل میں نمو ہونے دیں 

یہ احساس شعوری نہیں بلکہ لا شعوری ہے. روح کی بے چینی،  بیقراری اسی وجہ سے ہے کہ تصور کی رعنائی میں اس خیال کو لائیں،  جس خیال میں وہ مطہر وجود رہا؛  تمام امت کے اک اک فرد کو ذہن نشین کرتے بہ دعا مانگتا رہا خدا سے.  ہمارا خیال کو اس خیال تک پہنچنے کی دیر ہے اور دعا تو خالق نے قبول کرلی ہے. یہ امت سند یافتہ ہے!  ذرا نم ہو تو اس مٹی میں گوہر آبدار ہے!

تخلیہ

تخلیہ ... 
میرے ہونے کا تخلیہ 
دے رہا ہے جنم مجھے 
میں کون ہوں؟
یہ کون دل کے شیش محل میں ہے؟
یہ کس تیر نے آر پار کیا؟
ہاں!
تخلیہ!
اس سے پہلے کے راز فاش ہو جائے 
اس سے پہلے تو گھات میں آئے نہ خود کے 
مجھے میرے ہونے کا اذن ملا 
اب تخلیہ 
ہاں ...
تخلیہ ..

اک ‏نعت ‏وہ ‏ہے ‏

اک نعت وہ ہے جو وجد ہے 
اک نعت وہ ہے جو مہک ہے 
اک نعت وہ ہے جو وصل ہے 
اک نعت وہ ہے جو رات ہے 
اک نعت وہ ہے جو بات ہے 
اک نعت وہ ہے جو ساتھ ہے 
اک ذات وہ ہے جو ساتھ ہے 
جو وہ ساتھ ہے تو نعت بنی 
جو نعت بنی تو رات بنی ہے 
رات میں بات،  بات سے بات 
یہ ملاقات ہے، یہ بہاراں ہے 
نعت کا وصف، عمل عین.ہے 
نعت کا وصف،  حب عین ہے 
نعت کا وصف،  جذبِ دل یے 
نعت کیا ہے؟  نعت تعریف یے 
نعت سے بات،  بات سے رات 
رات نے پائی ہے رات کی سوغات 
کر مناجات،  مناجات پسِ ذات 
پسِ ذات؟  ہان عین ذات ہے 
یہ لا عین ہے یا عین لا ہے؟  
یہ عین و لا کا کھیل کیا ہے؟  
کھیل نہیں ہے. 
ہاں یہ ضرب عین و لا کیا ہے؟  
الا اللہ کی ضرب سے نعت ہوتی ہے 
ضرب حق!  ید اللہ ہے 
بانگ مرغ ہے کہ وجدِ آفرینی 
ترنگ میں مگن کوئی ذات یے 
یہ نہ اوقات تھی پر کیا بات ہے 
یہ سوغات ملے جسے عین بات یے 
کمال کا تحفہ کہ لا منات سے لاحاجات سے ہوا سلسلہ 
سلسلہ بنا کیا؟  
ہاں بنتا یے 
سلسلہ تو عین شہود ہے 
پس عکس رقص یے 
دیوانہ کوئے یار جاتا یے 
دیوانہ کو علم نہیں رستہ 
دیوانہ محتاج کسی کا ہوگا؟
لا حاجات سے بات بنی 
لا سے عین شروع ہوا 
العشقُ عین 
العشقُ حب من 
الذات بالذات 
الذات رقصِ اظہارات 
پسِ دل طور کی بات ہے 
سر آئنہ میں ہوں؟  پس آئنہ کون یے؟

دیوانے کی لو لگی ہے 
شناسا جانے کہ ہوگا کیا؟  
شناسائی کا لطف پوچھنے سے ملے گیا کیا 
ربط ذات میں مناجات لا 
ربط ذات میں لا حاجات لا 
تو رک جا!  ساکت ہو جا 
ذات کو اظہار میں لا 
تو لا ہو جا ...عین الا اللہ ہو جا 
رقص بسمل پسِ مناجات ہے 
یہ دل کی بات ہے رمز شناس یے 
قبلہ یے قبلے میں سجدے کی بات ہے 
قسم اس کعبہ کی 
العشق ذات من 
الحب ذات من 
الذات بالذات 
تدراک نہ ہوگا 
رنگ نی ہوگا 
رنگ مگر ہوگا 
جدا نہ ہوگا 
مگر وصل نہ ہوگا 
کمال نہ ہوگا مگر اس میں کمال.ہوگا

رجب سے شاد ہے 
یہ ناشاد دل کب سے برباد ہے؟
نہیں!  نہیں!  
یہ ذات ہے 
یہ وہ عین ذات ہے 
جس کی بات سے چلی بات ہے 
نہ تھی اوقات مگر کیا بات ہے 
سلسلہ ءنور ہے کہ روشنی ہے 
روشنی ہے کہ ماہ و سال ہیں 
ماہ سال سے پرے اک نظام یے 
نظام سے پرے اک کائنات یے 
کائنات میں تمام عالمین ہیں 
عالمین کے رب کی بات یے 
الحمد للہ رب العالمین 
الرجب !  ہاں رجب!  
ذکر شاد!  ہاں ذکر افکار سے ہوا 
ہاں یہ عین بات سے ہوا 
یہ منادی یے کہ کسی نے کہا 
العکس بات من 
العشق ذات من 
رقص بسمل میں چھپا کیا ہے 
تماشائے ذات سر بازار رکھا ہے 
اس میں کمال نہیں ہے مگر کمال کی رمز ہے 
وہ جو عالمین سے ہے 
وہ دل میں دلوں کو پکڑلیتا ہے 
وہ قلب سے قلوب میں جھانک لیتا ہے 
وہ نظر میں رکھتا ہے 
نظر منظر،  نظر زاویہ 
نظر حاشیہ،  نظر مستور 
نظر اول نظر آخر 
نظر دائرہ، نظر نقطہ 
نظر اک سفر ہے 
سفر کب سے ہے 
سفر میں اک خبر ہے 
خبر میں کیا بات ہے



نعت ‏

نعت کہنے کے لیے کیا چاہیے؟
نعت کہنے کو حرف دل چاہیے

نعت سرکار کی، کہوں میں 
در یار جا کے کیا کہوں میں؟  
ان کو کہہ دوں دید کب ہوگی؟
ان کو کہہ دوں عید کب ہوگی؟

صورتِ آفتاب، نگہ ماہتاب ہیں  طٰہ 
دل کی کتاب میں گلاب صورتِ طٰہ

کہہ دوں گی مائل کرم ہو مجھ پر 
دم بہ دم نگہ ناز ہو جائے مجھ پر
واہ واہ واہ 
کیا کہا؟ محشر کی بات کی 
دل دیکھیے بپا اک حشر ہے 
ہجر کا غم نینوں نے سہا ہے 
آئنے کی چاہت میں مبتلا یے


جلوہ بہ تیر دل فگن ہے.
دل پر مائل اک گگن ہے 
چار سو دکھے  سجن ہے 
رونق میں یہ دل مگن ہے

شمع افلاک سے، دل قندیل 
کس طرز سے اترے جبرئیل 
قرأت میں افکار کی ہے دلیل 
افکار میں مل جاتا رب جلیل


سینہ مبارک مانند انجیل 
طٰہ ہیں روشنی کے سرخیل


جذبات گم ہیں کائنات میں 
ہاتھ رکھ، ہے دل افلاک میں

رانجھن یار نہ دسدا کوئی 
سوہنے سرکار جیہا نہ کوئی

ھذ ‏العشق ‏؟ ‏ھذا ‏سید ‏من ‏؟

ھذا عشق!  ھذا سیدِ من 
یہ وہ غبار ہے جو تہہِ دل سے اٹھا ہے دل کے جبل میں انواز نے مجھے دیکھ لیا ہے. اجمال سے محو ہوگیا ہے پتھر اور مشہود میری روح ہے. روح پتھر کو سجدہ کرنے لگی. پتھر نے سجدہ کیا ہے اور کہا ہے 
ھذا عشق!  ھذا سید من 
جمال شیدا طلب سے ماوراء ہے 
کمال کا طالب دل میں گم ہوا ہے 
یہ میرے حاصل کا انتساب ہے 
میں گم کس کے ملال میں ہوں؟
یہ کیسا مجھ میں اترا جلال ہے؟
ھذا عشق! ھذا سید من

وفا کی دیوی نے مجھے بُلایا ہے قربانی کو. سر قلم کردیا گیا. میں نے کہا 
شوق آ ... شوق آ ... شوق آ 
مجھے طلب ہے دل میں موت ہوجائے. دل میں قبائے ہاشمی کی صدا نے دل میں اک الوہی سی کشش پیدا کررکھی ہے 
ھذا مرشد من 
العشق مرشد من 
حی علی العشق 
حی علی خیر العمل

یہ خیر عمل ہے جو بخیر ہوا ہے. قرب کی نہیں تمنا. جمال کی تلاش نہیں بس اک کرسی ہے ھو کی. جس نے مجھ میں قرار پکڑا ہے اور کہہ رہی 
ھذ علی العشق!  العشق من! میں نے ہبہ کیا عشق تجھ کو 
میں نے کہا بندگی بندگی بندگی

ملی بندگی. یہ تابندگی. یہ رقص قلم کے شرار جس کی حرارت نے مجھے وحدت میں مبتلا کردیا ہے وفا کا تقاضا ہے نا خون بہتا آنکھوں سے دیکھوں؟
میں بہہ گئی ہوں ... خون کیا ہے 
خون نے کہا 
ھو العشق ھو العشق ھو العشق


مزاج میں بندگی نے مٹا دیا ہے. عدم سے لایا گیا ہے. معدوم وجودیت میں نفس ہے. بقا کس کو ہے؟ اللہ کی ذات کو بقا ہے. سب میں اک ھو ہے جس کو ہم نے دیکھا نہیں ہے


وہ تلاش کرنے والے فارس سے نکلے! کیسی چمک و آب و تاب سے شام سے نکلے وہ مہِ خورشید!  رشک قمر!  اوج ِ ثریا پر مکین!  وہ ستارہ سحری سے طٰہ کا اجالا!  وہ کملی والا ... کملی بھی ہے استعارہ ..وجود کا پارہ پارہ کہہ رہا ہے 
ھو الہادی من!  وہ کون ہے 
العشق ہادی من 
درد جگر میں نہاں تیر میں جلوہ طٰہ کا ہے 
دل میں اسم طٰہ کی تجلی ہے کہ چمک نے مجھ کو محجوب کردیا ہے بس اک ذات ہے کہ وہ ذات ہے آئنہ ... 
کس سے پوچھو کہ اللہ کہاں ہے 
اللہ دل میں ہے. دل خالی ہے دل کو جب اللہ مل جائے تو دامن بھر جاتے ہیں اود اپنی نہیں ہوتی بس اس کی کرنی ہوتی ہے. میں نے ہادی من کو دیکھا ہے کہا ہے 
سچل مرشد قبلہ نما 
قطب من ہادی من 
دل کی وادی میں شہ بطحا کے اجالے 
دل کی راجدھانی کے شاہ ہیں اور شاہ کے آگے سر تسلیم خم
      
خمیدہ زلف کو ذرا دیکھ اود ڈوب جا. گیسوئے مصطفی سے جو ملے خوشبو. اس سے مانگ اک آرزو. کہ بس یہ رہے سدا اور صدا رہے سدا کہ آپ ہیں اور میں نہیں ہوں حضور. 


وہ آرزو کہ رخ سے حجاب اٹھے اود دل سے سحاب اترے. ابررحمت بارسے. ایسی برسے کہ برکھا رت کے قطرے قطرے میں شاہد ہو . لہو زنجیر ہو کہ دل فقیر ہو دیکھے شاہ کے جلوے دم بہ دم. ان کے حضور کس منہ سے جاؤ گے؟  وہ کہتے ہیں ہمیں بندگی!  بندگی!  بندگی!  بندگی میں گزر جائے زندگی. اود چاہیے کیا کہ ان کے رخ مہ تاب سے اک آنکھ سے دوسری آنکھ کی روشنی دیکھی ہے وہ روشنی ہے کہ ہائے دل بیٹھا جائے ان کا مسکرانا ہے دل ڈوب جانا ہے کہ وہ پیار کے تقرب کی محفل ہے. اس میں ہے دستخط مہر رسالت سے ...ہم جان گئے حضور کہ آپ نے کیا ہم کو قبول. دل پر رقت لگے گی ضرود کہ وہ پیارے ہمارے ہیں شہ ہادی شہ ولایت

یار من دل کے سیپ دیکھ 
یار من موجہ دل کو دیکھ 
یار من تیغ فغاں کو دیکھ 
یار من تیغ نہاں کو دیکھ 
موتی لا 
موتی ڈھونڈ 
سیپ کھوج

یار من نے چھپا لیا ہے موتی 
ڈھونڈن چلی میں اس نوں 
لکا چھپی کی رسم ہے پرانی 
یہ کہانی ہے ازلوں کی نمانی 
شبد شبد کی داستان نرالی 
عجب مرا دل 
عجب مرا حال 
عجب دنیا ہے. 
یہ موج طفر ہے 
دل کدھر ہے؟  
دھیان میں گئے 
دھیان نہ رہا 
دھیان میں نہیں میں 
دھیان میں کون یے 
یہ محور رسول ہاشمی نقطہ 
متوف ہے اک عجب سالار 
یہ دل میرا ہوگیا ہے بیمار 
کس سے کہوں مرض لاعلاج 
دل کو ڈھونڈو اب کوئ علاج


اللہ اللہ کہنے سے میرا دل ڈوب گیا 
ڈوب کے جانے والو سنو 
یہ افسانہ رنگین ہے 
ہر رنگ کی داستان عجب یے 
دل میں شاہی نقب ہے 
شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ 
.شاہ ولی شاہ ہادی شاہ ولایت


ابھی رنگ ہے ابھی وہ ساتھ ہے ابھی وہ پاس ہے ابھی اس نے بلایا ہے 

جس نے بلایا ہے اس سے پوچھو دل کے افسانے یہ فسانے مٹا رہے مجھے 
فنا کیا ہے؟
عشق فدا ہے مجھ پر 
میں عشق ہوں.
 میں نہیں تو 
ھو الشاہد ھو الشہید 
درمیان میں کون ہے؟
نفس یے 
اے نفس دھیان سے نکل 
اے روح میان میں رہ
اے موج تو آب بہ آب دُر پاتی جا


موج نے موج سے پوچھا کہ ساحل نے مجھ سے سنا نہیں فسانہ 
ساحل نے کہا 
چل داستان عشق نہ سنا 
میں خرابہ ء عشق سے پر ہوں 
موج بہ موج بحر میں ہوں 
میں تو خود کسی دہر میں ہوں 
دھیمی رفتار پر آنچ ہے.. یہ قرار پکڑ چکی ہے آگ. جانے وہ کونسی آگ ہے جس نے بحر کو آگ میں ڈال دیا. بحر کی آگ دیکھے کون.
پانی آگ 
آگ پانی 
یہ آگ پانی سے نکل جا 
ماٹی کا پنجرہ عجب ہے 
ماٹی کا پنجرہ نفس ہے 
نفس میرا مجھ میں قفس ہے 
روح میری فضائے دوستاں میں یے

جناب عالی نے مجھ کو بلایا پوچھا اور کہا 
یہ ستار ترا ہے؟
یہ صدا تری ہے؟
یہ قبا تری ہے!
کیا ہے ترا 

لٹو بن گئی میری روح میں لٹو. رقص نے دیوانہ کردیا مجھے دیوانہ کیا جانے چال الٹی ہے یا سیدھی

اب میں نہیں خود میں وہ خود مجھ میں 
جو خود ہے تو پڑھا جاتا ہے خود کو 
ذات کو پڑھ!
ذات صحیفہ یے 
ذات کو پڑھ 
ذات سے عشق 
 ھذا عشق؟
العش حب من 
العشاب میں نہیں خود میں وہ خود مجھ میں 
جو خود ہے تو پڑھا جاتا ہے خود کو 
ذات کو پڑھ!
ذات صحیفہ یے 
ذات کو پڑھ 
ذات سے عشق 
 ھذا عشق؟
العشق حب من 
العش دیار من دیار من


سنو عشاق! عشق آسان نہیں ہے. یہ پل صراط ہے جس پر چل کے جانا ہے پنجوں کے بل. یہ چلن زمانے کا کہ دیکھو پل صراط دنیا ہے ہم دوذخ سے اترنا ڈھونڈ رہے جنت کی وادی میں گھوم رہے. دنیا میں رہنا ہے متقی ہے .. یہ دنیا کس کی ہے 
یہ جہاں کس کا ہے 
یہ زمانہ یہ کچراغ کس کا ہے 
جب سب اسکا ہے میرا کیا ہے؟
دل بج رہا ستار وانگ 
بسمل کا تماشا ہے سر عام 
بسمل نے کردیا درد عام 
یہ وہ قیس جو نہیں عام 
یہ لیلی سے ملے گا کسی شام

وعدہ ء عشق ہوا؟  ہاں ہوا اور پھر وعدے میں میں نے دیکھا اک ارادہ

یہ کن کا تھا ارادہ 
کن والے نے مجھے نفخ کرنے سے پہلے 
مجھے مجھ سے مانگ لیا 
کہا یہ ہے میرا ارادہ 
کہا اب پورا کر وعدہ 
میں کون ہوں؟
میں ماٹی کے پنجر میں ایک دیپ 
لو!  لو!  لو دیپ لو!  دل بنا دیپ 
میرے دل کے دیپ میں رنگ ہے


نظامی رنگ ہے. دل پر چنر نظامی ہے. یہ رنگ ہے کہ موہا رنگ ہے پریمی. موہی چال ہے پریمی. مورا سجن دلربا. موری آنکھ میں ہاشمی لگن. یہ دل ان کو دیکھ تیر فگن. جان چلی جانی یے. جان چلی جائے گی کہ جان جانے سے میرا کیا ہوگا. نفخ سے نفخ بعد تک میں اسکی تھی میں اسکی ذات کی وہ تجلی ہوں جس سے وہ زمانے میں کہہ رہا ہے کہ 
لوگو پہچانو مجھے 
میں نے دنیا اپنے لیے بنائ 
تم دنیا اپنے لیے بنانے لگ گئے

میں نے نفخ کا کھیل سمجھ لیا میں نے خود میں خود کو دیکھ لیا میں نے اسکو پایا ہے. وہ ھو کی تجلیات لیے راز دل ہے. یہ وہ سرزمین ہے جس میں کئی راز ہیں اوردل راز کا امین ہے. اس دل سے کئی وعدے ہیِ 
آج دی گل نئیں رانجھن یار 
میں ازلوں تری نال منگاں آں 
میرا لوں لوں مہکائے وے 
مری جان بن بن آئے وے 
من شانت!  تن شانت!  رنگ برنگ اسکا راگ!  الوہی اسکا ساز 
تار میم کی لگی ہے 
تار اللہ والی ہے 
تار مل گئی ہے 
تار ہوگئی ہوں میں 
میں تار ہوگئی 
بھلا کون ہے وہ کون ہے کہ کہاں سے نفس سے پوچھے کہ تو کون ہے نفس شرمندہ محجوب ہے کہ کس سے کہے دل ہے اک صندوق جس میں رکھے سو سیپ. میرا دل اک َخزانہ ہے اس میں ہاشمی نگینے ہیں. یہ سامان تپش سے ہے جو مجھ کو ملا ہے رگ رگ میں سانس سانس میں واج اک ہے اللہ اللہ اللہ 
اللہ کی بات کرو 
اللہ دل میں



ابھی دل سے صدا ابھری 
تو مجھے دیکھ
دیکھا اس نے مجھے اور میں خود کو دیکھی جاؤں 
من میں ڈوب 
خود کو پا 
من میں ڈوب 
جوہر فشاں ذات ہے تری 
مہر رساں بات ہے تری 
من میں ڈوب 
مٹی ہو 
خاک بہ خاک 
ہو ذات بہ ذات 
اک آیت بن جا.
آیت ہو جا 
نوید ہو جا 
تحریر ہو جا 
اللہ کہہ 
اللہ بول 
اللہ ہے یہی کہہ

ناپ ‏تول

 

ابتدا کے طور پر میں ایک آیت شروع کرتی ہوں ... آپ سے التجا ہوگی کہ آپ کو جو دل ان آیات پڑھ پیغام دے وہ ضرور شئیر کرے 

سورة المطفّفين, آیات: ۱

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ

ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے

میں نے جب اسکو پڑھا تو بہت سوچا اسکا خطاب میِ  کیسے ہوں؟
سوال کیا دل سے 
دل نے کہا جھانک کہ دیکھ اور پڑھ دل کو 
 افسوس!  افسوس!  وائے افسوس!
خرابی ہے میرے لیے کیونکہ جب میں نے نیت کے ناپ تول میں کمی بیشی کی  ...
من نے سوال کیا کیسے؟
کہا کہ جب مانگی محبت تو مکمل حق سے مانگی 
جب دینے کی بارے آئی تو میں نے ڈنڈی ماری دی 
مجھے اس کی تخلیق میں عیب دکھنے لگ گئے 
میں نے اسکو مکمل اپنایا ہی نہیں ہے. اسکو مکمل اپناتی تو احساس ہوتا کہ عیب مرے دل میں ہے عیب مری سوچ میں ہے عیب مرے خیال میں ہے. اس نے مجھے پھر بھی تھام رکھا ہے اور میں نے اسکی مخلوق میں عیب نکالے 
اس کا اظہار خالق نے مجھ سے کیا ہے دل میں وہی دکھ در آیا ہے 

درس آیا دل میں کہ افسوس سے نکلنے کا وقت ہے 
جب دل کو لگی جب من میں اسکی آئی تب دل کو لگی لگن کہ وہ ہے معاف کرنے والا من خطاکارم گناہگارم!

سوار ‏نئی ‏منزلوں ‏کے

سوار ہوتے ہیں نئی منزلوں کے مسافر یقین سے سرفراز کیے جانے کے بعد ...حرم پاک سے فلک تلک ...نجف سے میدان کربل تلک ...مسجد اقصی سے موسوی نور تک موسوم کہاوتیں موجود ہیں ...موسوی نور سے عیسوی نور تا نور مریم تلک ...کیا کیا کہانیاں موجود ہیں ...کیا کیا کہانیاں وقوع پذیر ہوئیں ...

جب یہود نے کہا عزیز اللہ کا بیٹا ....جب مسیحیوں نے کہا عیسی ابن اللہ، نعوذ بااللہ ..!!! عیسی نور اللہ ...مت کہو عیسی اللہ کا بیٹا ..عیسی روح اللہ ،موسی کلیم اللہ ، اسماعیل ذبیح اللہ ، ابراہیم خلیل اللہ ۔۔۔۔ محمدﷺ کے ساتھ لقب نہیں ،ان کا اپنا نام شامل ہے .نام بھی کیا جس کی رب تعریف کرے ،جس پر رب درود بھیجے ۔۔۔ .تمام انبیاجزو...نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کل ...جب کہ ہر نبی جزو اس کل کا ...ان گنت درود جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ....معراج نصیب ہوئی ....جب نور نور سے ملا تو گویا عین وصلت کا حال تھا ...یہ مقام اوج ہے!  یہ مقام ابد ہے ...جب نور کو ابدیت کے سرور سے نوازا جاتا ہے تو کیا مسکراتا چہرہ لے کے افلاک کو لوٹتا ہے ...تب ملائک نادم اپنے خیال پر کہ انسان کی تخلیق فساد کے لیے ...انسان تو خلق کیا گیا پہچان کا ہے رولا سارا۔۔۔پہچان کے لیے آدم خلق مگر انسان کہ گم اس دنیا میں ۔۔۔

....

عارف نوازے جاتے ہیں ...عارف جانتا ہے کہ اللہ کا نور پتے پتے بوٹے بوٹے میں موجود ...خود سے ملاقات کی یا مظاہر سے تو گویا ربط خدا ایزدی سے ہوا ...خدا سے ربط آسان ہے مگر خدا سے ربط کے بعد مخلوق سے بے ربطی نعمت کا کفران ہے ...آدم کو چاہیے ہمہ وقت تسبیح کرتا رہا ...سبحانک لا علم النا الا ما علمتنا انک انت سمیع علیم ....

بے شک علم میرا ہی ہے باقی سب مخلوقات عاجز ہیں .........

شاہ طیبہ کچھ ایسا کہہ دو کہ بات بن جائے 

شاہ طیبہ کچھ ایسا کہلوا لو کہ بات بن جائے 

سفر حجازی تنہا  کیسے کٹے، میری روح مجھ سے ملوادو کہ بات بن جائے 

میرا حال سے با خبر ہو ...دائم جلوہ دکھلادو کہ بات بنے 

قائم ہوں آپ کے نور سے، سراپا نور بنادو کہ بات بنے 

رات کٹ گئی صبح کا شمس موجود ہے 

ملائکہ کے ہیچھے اور ملائکہ جوق در جوق روضہ نبی پر حاضری کے لیے ......

بسم ‏اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
ایاک نعبد وایاک نستعین 
محمد خیر المرسلین 
وصلوت رہنما درکار جذب 
میری چاہت تو ہے 
تو نفس ساتھ کیوں ہے 
میں ترے لیے مٹ گئی 
میری میں ساتھ مگر ہے 
ترے لیے جینے کی منتظر 
میں تو عبدیت کے واسطے آیت اسری کی منتظر 
تڑپ کم ہے مگر ساتھ تو ہے 
دل کا پیمانہ چھوٹا پے رحمت زیادہ ہے 
میں ذلیل تو اعلی 
میں کمیں میں گھٹیا مگر ترا کرم رکھے بھرم 
میں تو چنوں گی اک قطرہ بھی شہد کی مکھی کے جیسے کشید کیے 
تو وحی کردے تو شہد کی مکھی کو 
میں تو تلاش میں تری 
میً جستجو میں تری 
میں انتہا تک جانا چاہتی 
نہیں تو مجھے انتہا تک لانا چاہتا 
میں تو منتظر اس علم کو جو دیا گیا کہ اسکو تو اب مقام دے 
مرے ہجر کو لذت دوام دے 
مرے قلب کو عیش مدام دے 
رہے ترا نشان، وہ نشان دے 
میں کوجی آں تو سوہنا اے 
میں تری راہ دی جوگن آں  ترے سوا ڈسدا نہ کوئ. میرے خیال دی مرکز وی توں ..میرا قلب اچ وسیا توں ..آجا مرے کول ...آجا میں تیڈی منتظر ..نہیں تو مرا منتظر ..مالک مینوں اپنا لے ..مینوں دنیا نی چاہی دی ..تو میری دنیا ..مینوں دے دے اپنا آپ. سن لے فریاد مری ..

بسم اللہ کر لی میں نے. بسم اللہ تو کب سے ہے. توبہ کرلی میں نے توبہ تو کب سے ہے ... مالک تو مجھ مل جائے بس یہی مقصد حیات ہے. تجھے سوچوں ترے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جلوہ دائم دیکھنے کی متمنی روح کو یہی چاہ کہ نظر اٹھے تو جمال لوٹے، نظر جھکے تو وصال میں رہے، نظر میں ان کی نور رہے "جہاں بھی چلے مستور رہے، خیر بھی ان کی برکتیں ہیں ..وہ حبیبِ کبریاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم خلیفہ ختم المرسلین ہیں. انہی کے فیض سے کہتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم، انہی سے کہتے دل کو خیر البریہ کردیجیے دل کو خیر بنا دیجیے دل میں شاہا کا نور ہو اور نور کو کیا چاہیے. نے ارض خلافت مقصد، نے دشت ہجراں سے وصلت مقصد، دائم ان کو جلوہ ہے مقصد، رہے وہ صورت مرے دل پہ ہر قصد، میں تو کہنے کی مجال میں کہہ نہ پاؤں آقا بن آپ کے رہ نہ پاؤں ...  آقا کی کملی خلافت ہے ... آقا کی کملی نیابت ہے ..آقا کی کملی اکسیر جملہ شفاوات ہے آقا کی کملی نے کائنات کو لپیٹ لیا ..آقا سرکار رحمت العالم ہیں  درود پڑھو.  صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
لبیک لبیک لبیک 
حاضر ہیں ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں ہم 
من عبدی من عبدی من عبدی 
من غلام حیدری من غلام حیدری من غلام حیدری 
امیر حیدر شیر دلاور ہیں 
امیر جود و سخا شیر ولایت امام حسین ہیں 
مومنات کی سردار سیدہ بی بی پاک فاطمہ الزہرا بنت الخدیجہ الکبری اقدس عالیہ ہیں 
بنات کی سردار خواتین و امہات کو سلام 
سالار اعظم شیر وقار ذی الجلال حیدر اعظم کو سلام 
شہ ہادی ابرار العلیاء نجیب اولیاء خاتم الانبیاء 
اے مالک مجھے سیدھی رہ دے 
اے مالک تڑپ کو اتنا فزوں کر یہ تڑپ رہے میں نہ رہوں 
اے مالک اپنا درد دے 
اے مالک ہجرت کا احساس فزوں کر 
اے مالک درد سے لیر لیر کر 
اے مالک مجھے ہجرت میں اپنا ولا دے 
اے مالک مجھے اپنی ہمہ ہمی میں تو چاہیے 
اے مالک نماز قائم کرادے 
اے مالک جذب رہبرکردے 
اے مالک مجھے جستجو میں گما دے 
اے مالک تڑپ بڑھا کہ جوگنیا بن کے جاویں گے سرکار کے پاس 
اے الطیف مجھے لطافت کی چادر میں ڈھانپ لے 
الے النور مجھے علم و فضل کے حجابات سے پرے رکھ اے مالک نور علی النور کے سب سلاسل سے پردہ اٹھا 
اے المالک اختیار دے خود پہ حاکم بنا خود اپنی رعایا کا حاکم کر 
اے اللہ مجھے اپنے الف سے وصال دے مجھے ل سے سب لا سکھا مجھے لوح و قلم بتلا مجھے وہ جوڑ دے جس سے نفی کرتے ہ تک آسکوں بس طسم کی آیت دل میں نقش ہو میں یسین کے مقام پہ حیرت میں رہوں اے مالک بلا. تڑپ رہی تجھ بن جینا دشوار. اے مالک مچھلی بن جل کے تڑپ رہے اب تو خضر کر. اے مالک ملا دے مرے خضر سے ..مجھے وہ علم دے جو مجھے سرمہ سرمہ کردے مگرہوش قائم رکھ کہ ہم امتی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں. اے مالک غنا کی چادر دے دے. اے مالک حیا دے دے جناب عثمان غنی کے واسطے اے مالک جلال دے حیدر کرار کے واسطے اے مالک نفس قربان کرنے کی صلاحیت دے دے امام حسین کے واسطے اے مالک اے  خالق  مالک ...سن لے مری رات مرا دن تجھے پکارتا ہے مری یاد میں تو ہے مگر نفس حجاب رکھتا. مالکا کیسے آؤں تجھ تک ..امام حسین کے واسطے مجھے وہ علم دے کہ نفس ذبیح ہوجائے وہ فیضان نظر دے جو جناب اسماعیل علیہ سلام کو دیا اے مالک یقین دے دے کہ کفر کی آگ ٹھنڈی کردوں میں ..مالکا ...سن لے

لبیک لبیک لبیک 
الحج الحج الحج 
الحق الحق الحق.
علم البیان رطب للسان 
میں ان کی ثنا میں مریض ناگہاں 
مرض نسان میں چلی کہاں کہاں 
میں تو چلی اسکی رہ پر 
مجھے دو ..خدا کے واسطے مجھے دو تاکہ میں قطرہ قطرہ سینت کے چلوں اسکی رہ پر 
تاکہ وہ مجھے مار دے مگر نعش کہے اللہ اللہ اللہ ھو ھو ھو وہ ہر جگہ وہ ہر جگہ وہ ہر جگہ وہ کہاں کہاں نہیں. یہ مری کہانی ہے وہ مرے ساتھ یے مگر سکون نہیں کیونکہ نفس کی رزالت ساتھ ہے. کیونکہ قربانی سیکھی نہیں. اے اللہ مجھے قربان ہونے کی صلاحیت دے شہ جود و سخا مالکِ غنا امیر ابن علی کے واسطے ابن زہرا کے بیٹے کو سلام کہ نور کہے شہ خیر الانام سے کہ مجھ کو لے چلو قافلے میں. مجھے نہ چھوڑا جائے مجھ پہ خاص نگاہ ہو. مجھ پہ نظر ہو آقا کی. یہ نور آقا کی نظر کی منتظر. دعا ہو جائے گی واسطے مرے کہ دل نے کہا تو ان کی گلی میں چل. چل نور ان کی گلی. چل ان کی گلی. چل کھلی دل کی کلی. چل چل چل دیر ہو رہی ہے .. بھاگ رہے سب سب بھاگ رہت کہتے چلو چلو ان کی گلی ..ہم چلیں گے گلاپ کی پتیاں بکھریں گی اور ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوگا ..مریضِ شہ کے ہیں ہم. طبیب وصلت میں چاہیے علاج ہوگا تو کام ہوگا ..اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھوھو ھو ھوھو ھوھوھوھوھو ھوھوھو

نفس کا علاج کریں کیسے ..ہم محبت میں نہیں اگر ہوتے تو نفس مرجاتا ...کاش اس نفس کا جنازہ پڑھا جاتا اور یہ کبھی زندہ نہ ہوتا کاش اسکو دائم موت مل جاتی کاش مگر لفظ نہیں یے کہ میں نہیں میں نہیں کہ وہ ہے وہ ہے تو بات ہے مری تشنگی کی بات ہے کہ ہر بات میں برسات ہے کہ دل نہر فرات ہے یہ جو لب ہے گوہر آب ہے دل تیر بہ تیر بہ پدف اک شکار ہے جیسے پرندہ کوئی نار میں یے جیسے بجلی آبشار میں ہے ..مجھ کو بلایا جائے گا مدینے مجھ کو بلایا جائے گا مری تڑپ کا آئنہ دکھلایا جاوے گا. میں پکار پکار کہواں گی یا محمد صلی اللہ علیہ وَالہ وسلم تو جواب دیا جائے گا میں خاک ہو جاواں پے شہ دے در نہ چھڈاں گی. میری خاک نوں اے پیر مبارک دا نقش تے مل جاوے گا.

.

عالم ‏کی ‏رحمت

السلام علیکم
رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کمال کے اخلاق والے انسان... مالک نے فرمایا 

وما ارسلنک الا رحمت للعالمین 

عالم کیا ہے؟ آپ کی عالم کے بارے میں رائے کیا ہے؟  عالم جہان کو کہتے ہیں. ہم کہتے ہیں کہ خوشبو کا جہان،  رنگ و بُو کا جہان، علم کا جہان، شوق کا جہان  ...نور کا عالم ..نور کا مقام .. نور کا جہان. آپ دیکھیے کہ جہان کے کتنے وسیع معانی ہیں ... تو یہ جہت بلحاظ دل کے ہیں. دل ان تمام جہانوں کو سموئے ہوئے ہے.  کائنات کا دل ایک ہے جیسا قران پاک کا دل سورہ یسین ہے اسی طرح کائنات کا دل تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں .... اللہ نے بندے سے کہلوایا ہے کہ کہو 

الحمد للہ الرب العالمین 
اور پھر گواہی دی 
وما ارسلنک الا رحمت للعالمین 

ان دو آیات میں عالمین کی بات کی گئی ہے ..تمام کائنات کا دل رحمت ہے وہ رحمت للعالمین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں صاحبو!  غور کرو کہ پہلے رب اپنی پہچان کراتا  ہے تو ساتھ کہتا کہ اب نبی کی پہچان یہ ہے کہ وہ رحمت ہیں. اس قران عظیم میں تمجید کی مانند چمک رہی یہی آیت. اس آیت کو چوم لو اور پکڑ لو ..  یہ آیت گواہی ہے کہ اللہ کے عالم پہ حاکم ہونے کا جس نے شکر ادا کیا تو اس کو رحمت تک رسائی مل گئی. اے زمانہ جو دل ہے، اے زمانہ جو جانِ دل ہے   تو سن لے دل کی بات ہے رحمت کے اوصاف ... رحیم کسے کہتے ہیں.  قران کریم میں رب کا فرمان ہے 

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَا تَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَـكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۗ وَا للّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
"اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے"

اللہ پاک نے عالمین کی رحمت کے لیے فرمان دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کرو ..تم کو وہ جود و کرم کے فیض سے نوازے گا.  نہ معاملہ صرف رحمت کا بلکہ درگزر کا معاملہ ہو جائے گا    تو رب کی اطاعت کے بعد محبت ملتی ہے. اقربیت کا یہ مقام کیسے ملے؟  پہلے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت اور ان سے محبت ضروری ہے. جسکو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اطاعت کی استطاعت نصیب ہو جاؤ انہی پہ فیض کے چشم و کرم کیا جاتا ہے ... تو صاحبو عہد کرلیں کہ ہم محبت پاکے رہیں گے تاکہ دیدار کا وہ مقام جس کے لیے اللہ نے فرمایا کہ نحن اقرب ... ہم جبل الورید سے قریب ہین تو یہ قربت محسوس کیوں نہیں ہوتی ..راستہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اپنایا نہیں جاتا ہے ... جس نے اطاعت کی اس نے محبت پائی ..پھر رب فرماتا ہے کہ 

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَا عْفُ عَنْهُمْ وَا سْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى الْاَ مْرِ ۚ فَاِ ذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْ
نَ
"(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں"

اللہ کی رحمت و کرم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پے یہی ہے کہ آپ کا دل کشادہ ہے ...تنگ دل میں نرمی کی گنجائش! اے مری جان! اے مرے دل تو سن کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دل کی زمین اتنی کشادہ ہے کہ تمام عالمین(ارواح)  آپ میں موجود ہیں.  اسی واسطے ہم کیا آنے والی ہر روح اور گزری ہر روح کا ان سے ربط ہے. ان سے ربط کا احساس مستحکم تب ہوگا جب تک اطاعت نہ کی جائے. آپ کے دل میں تمام عالمیں کی جگہ ہے تو آپ کی رحمت سب پہ برابر ہیں. تو آؤ آج جھولی پھیلاتے اطاعت کی دعا مانگے تب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت خدا تک پہنچا دے کہ خدا تک کامل رسائی فقط محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علاوہ کس کو حاصل ہے ...واعلیکم اسلام 
خوش رہو

ساقی

کسی ظالم کا حسن بھی ظالم ہوتا  وہ حسن کی وجہ سے ظالم ہے. خطاب اپنے آپ مخاطب کی جانب لیجائے تو کشش بے جا نہ ہوگی. پھر کہو گے 
ظالم، محفل لوٹ لی 
بولو کیسے ؟
ارے حسن خوابناک ہے زکوہ نکلے نا حسن کی تو تسبیح کیسے ہو؟ 
چل پھیرے لگا 
چل کوچہ جاناں 
چل طواف کر 
مطاف میں بیٹھو 
سلام پڑھو.
تسبیح ہے 
مسجد ہے 
واج بھی یے 
ساز بھی ہے 
کافر کو بولو. ظالم تو نے پی نہیں 
ہم پی لیں گے میخانہ. ہم کو نہ کہیو ساقی ، 
ساقی تری محفل کی شان نرالی 
ساقی تو نے جبین کس جا جھکالی 
ساقی تو نے کہا ساقی تو ہوگیا 
ساقی ہوش خراباتی میں ، رند خراباتی 
ساقی تقسیم نہیں یے ساقی تجسیم نہیِ یے 
ساقی خواب نہیِ ہے ساقی سہاگ نہیں یے 
ساقی شام نہیں ہے ساقی چراغاں نہیِ یے 
رند چل اٹھ طواف کر. چل بیٹھ اللہ بے بلایا 
چل اللہ بلائے سلام پیش کیے جا 
چل رونق لگا چل واپس نہ جا.
چل شوق امام رکھ چل پیار سے رہ 
چل محبوب رہ چل محبت کر .
چل جا جانب طیبہ خاک لے لے .
چل جا جانب بطحا آنکھ لے لے 
آنکھ کا سودا ، اللہ لو اللہ لو اللہ لو 
لو اللہ اللہ 
حق اللہ
 

تری پرواں کرن گیا واواں 
تو چھپر اتے کنڈی لاچھڑ 
کتھے چانن نہ ترا لک جاوے 
آساں امیداں دے دیوے بلن 
درد ملے، درمان ملے، ماں ملے 
تینوں سب تو یاری نہ پلے ہوگی 
یار نے یاری واسطے بلایا اے 
مرا دل انہے میتھوں لکایا وے 
میں کیہ جانڑاں درداں دی 
جانڑے گا اے زمانہ



آپ آوے،  آپ مستور 
آپ کعبہ،  آپ دستور 
آپ مانگ،  آپے سندور 
رب تو ملیا ملسی ضرور 
رگ جاوے رگ آوے سرور 
ایسی مانگ دا سودا بھر 
 پا کے ڈبدی جاوے تو تر
سر دا سودا منگدے نہ زر 
بچ جاوے کہ آس ہے نرا شر

Saturday, February 20, 2021

بندگی

بندگی کیا ہے ؟ کیا کوئی عمل ہے ؟ کیا نیت ہے ؟ کیا کسی نیت سے ملا اجر ہے؟ بندگی کی تشریح کیا ممکن ہے؟

جذبات کے یہ سمندر ہیں ، میرے افکار کے سمندر میں  ذات غوطہ زن ہوئی اور اس غوطہ نما ذات نے سیپ نکالے ۔ ان سیپوں کو جب جانچا  تو پایا رازِ نہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تُو ۔۔۔۔۔۔۔ تُو ۔۔۔ تو  "ہر جگہ " ۔۔۔۔"جہاں تُو" ، وُہی اک جہاں ۔۔۔تُو رب العالمین ۔۔۔ الحمد اللہ ۔۔ قران پاک کی پہلی سورہ میں سب کہتے ہیں الحمد للہِ الرب العالمین  ۔۔۔ اسکی تعریف انسان سے ممکن نہیں مگر ہاتھ دعا کو اٹھتے کہتے ہیں کہ مالک تو رب العالمین ہے

ہستی کا دُھواں خوشبو بنتا بکھرتا ہے ، خوشبو سندیسہ بنتی ہے ، عکس مکمل ہوتا جاتا ہے ۔۔ ارتقائی عمل ایسا ہے جیسا کہ اک گول شیشیہ ہے فلک سے جلوہ نما ہوا ، فلک سے اوپر جہاں کی  تمثیل اک کمپیوٹر کی سی جہاں پر روشنیوں و تجلیات کا نظام ہے اور دل کی مثال بھی گول آئنے کی سی ہے یوں سمجھے اک شعاع وہاں سے پہنچتی ہے جیسے پہلی تاریخ کا چاند آہستہ آہستہ چودھویں کا چاند بنتا جاتا ہے ،یہ عمل ہر روح کے لیے جاری رہتا ہے  ، وہاں سے روشنی دی ، جتنی روشنی ملی ، اتنی ہی  مثبیت ملی

جوں جوں پیالہ بھرتا گیا ، توں توں عکس مکمل ہوگیا ، عبدیت مل گئی ، عبدیت مل گئی تو معراج حاصل ہوگئی

جب درد لا دوا ہوجائے ، تو ہم کیا کریں۔۔۔!

جب عشق عین و لا ہوجائے تو ہم کیا کریں۔۔۔!

عشق ،کسی بھی مظہر کی  علامت میں ڈھلتا ہے  وہ علامت "مٹی کا پتلا" انسان بھی ہوتا ہے ۔  جیسے جیسے سورج روشن ہوتا ہے تو اس سورج کی روشنی میں چودھویں کا چاند دکھتا ہے ، منظر نکھرجاتا ہے ، ہوا کا سندیہ ہوا کہ چلو پرواز کریں۔۔۔۔،

 ہوا سے پوچھا گیا کہ پرواز کس جہان کی ؟  بڑی آس سے پوچھا کیا مسجد اقصی کی؟

 ہوا نے جواب دیا کہ ہمیں کیا پتا ؟ ہوا نے آندھی تشکیل دے دی ۔۔ اپنا ٹھکانہ نہ رہا ۔۔ بے منزل خزاں کے پَتے کی مانند ہوا کے لَے  پر اڑتے جائیں  ، ذرے کی کیا اوقات سائیں ۔ ذرے کو جو اجال دیتا ہے ، وہی ہستی کو کمال دیتا ہے۔۔۔ معراج ہمیں ہمارے ہادی مرسل ، سچے سائیں نبی پاکﷺ کی بدولت ملی ، کہ ہماری روح کے لیے ویسے ہی نشانیاں بکھری ہیں ۔۔۔ بندگی کے بعد عکس کامل ہوتا ہے اور شبیہ مکمل ہوجائے تو فرق نہیں رہتا ۔۔

فرق بس پیالے کے سائز کا رہتا ہے ۔۔۔ یہ عطا ہوتی ہے ، جتنا پیمانہ بڑا ہوتا ہے اتنی کثرت سے جام ملتا ہے ، اتنی کثرت سے دل ویران ہوتا ہے ، ویرانے میں نقطہِ حرف کے نمو پانے سے مرکزیت ملتی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 تشنگی ہر اک ذات میں ہے ، پیاس علم کی بڑی ہے ، ذات کے صحرا میں کنواں نہیں ملتا ۔۔۔! پانی کون پلائے گاَ ؟ کس کے پاس عظمت کے ایسے نشان جو ہمیں دے دے عبدیت کا احساس ، معراج کا وہ احساس جو ہم برسوں سے تلاس کیے جارہے ہیں ؟

یہ کیسی تلاش ہے؟ یہ کیسا سفر ہے جس میں ذات ایسا محسوس ہو کہ  کوئل کی مانند گھومتی جارہی ہے ۔۔۔ کوئی نقطہ پانا چاہتی ہے !نقطہ حرف کو پانے کی کوشش میں کہاں سے یہ کوئل شروع ہوا ۔۔۔۔۔۔۔اسکا احساس ہی نہ ہوا۔۔۔۔ نقطہ آغاز ہی میرا نقطہ اختتام ہے ۔۔شاید  یہی عبدیت ہے ، یہی سمندر ہے تلاطم کا ، یہی عکس ہے نہی کا  کہ امر اس کا ہوتا ہے ، موت واقع ہوتی ہے ، وہ موت جس کو قران پاک میں لیل سے تعبیر کیا گیا ، جب لیل چھاجاتی ہے ۔۔۔ تو وہ خشیت کی چادر باری تعالیٰ نے  پہلی وحی کے وقت نازل کی اور وہ سانچہ جس میں ہر عبد کو ڈھلنا ہوتا ہے ، اک ارتقائی عمل ہے جسکو ہم کہیں تو ایسے  ۔۔۔۔ تب مزمل سے مدثر کا فرق ختم ہوجاتا ہے ، تب یسین کے مقام پر ایک حیرت کا سماں ہوتا ہے

 علم کی لگن جو تجسس کے مقام پر جو ذات میں  سوئی کو ہلاتی رہتی ہے ، بے تاب کیے دیتی ہے ، وہ ذات کی  تکمیل تک بے چین رکھتی ہے ، یہ بے چینی ، آتش صفتی ، سیمابی کیفیت ،  لامحدودیت ۔۔محدودیت میں سب اس نقطہ حرف کی پیش خیمہ ہے ، وہ جو  ذات کی سرنگوں میں تہ در تہ مٹی کے تودوں تلے دبا ہے۔۔۔ جیسے برسوں کسی کوئلے کو بھی دفن کرو تو وہ ہیرہ ہو جائے ، وہی ہیرہ ہر ذات کی تلاش ہے وہ ہی ہر اک کی  کامل ذات ہے ، انسان سارے بے چین رہتے ہیں جبتک کہ وہ کامل ذات کی تشکیل نہ پالیں ۔۔۔۔۔ جس کو عشق ہوگیا وہ ضم ہوگیا ، مکمل نفی اک سعی ہے ۔ لیس الانسان الا ما سعی ۔۔۔۔ ہماری سعی کا نقطہ سائنسی ہو ، تخیلاتی ہو ، وجدانی ہو ۔۔یہ سعی ، اس کی سمت ۔۔ہمارے افکار کے مطابق ذات کے کمپس پر  سمت کا تعین کیے دیتی ہے ۔۔۔ یہی آیت رہ رہ کے میرے ذہن پر ہتھوڑے کی مانند برستی ہے

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1)

 ۔۔۔ سبحان الذی ۔۔۔ پاک ہے وہ ذات ، پاک ہے وہ ہر شرک سے کہ سب سے اولی وہی ہے ، بعد از خدا بزرگ توئیﷺ قصہ مختصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعبدہ ۔۔۔ بندگی کی کامل مثال محمد ﷺ ہیں ، وہ تمثال گر کی مکمل تمثیل ہیں ، وہ مثال جس کو تراش کے آئنہ خود مسکرا ٹھا ، آئنے کو فخر ہوا ظاہر پر بھی ،باطن پر بھی ،  وہ مثال اک جلوے کی مثال ، جلوے پر جب جلوہ ہوا تو آئنہ اس قدر نازاں تھا کہ حرف نہیں ،  بس اس ناز میں بھی اک حجاب تھا ، اس ناز و حجاب کی قسم وہ ذات پاک ہے ہر کس شرک سے ، کہ اس کی پھر بھی کوئی مثال نہیں ۔ لیس کمثل شئی ۔۔۔۔۔ جس نے بے مثال خیال ک و نمو دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ لے گئی مسجد احرام سے مسجد اقصی کی جانب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات میں ۔۔۔ رات بھی کیا ، خواب مکمل موت کی سی کیفیت کہ جب موت ہوگئی عارضی طور گویا وقت روح کے لیے ماوراء ہوگیا ، وہ وقت جب وقت  جمع ہوگئے، جہاں تمام مثالیں اکٹھی ہوئیں ، کوئی  روح اللہ تو کوئی کلیم اللہ  تو کوئی ابتدائے حرف کا جمال ، تو کوئی کمال کی مثال، تو کوئی روح میں چھپے اسرار کی وحی ، سب کی ہوئی   امام الانبیاء سے ہوئی ملاقات ، سب نے دیکھا کہ وہ ذات جو ان کے پاس آئی  وہ کتنی کامل ہے ، انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ذات کے کس حصے میں  کتنے مکمل اور کس  کس حصے میں مکمل جناب سید مصطفی ﷺ ۔۔۔،تو سب نے نماز قائم کی ، مان لیا آپ کو امام کہ سب کی  اپنی اپنی شبیہ کا عکس جناب سید عالی مجتبی ﷺ میں چھپا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب نے مان لیا آپ کو مکمل تو جب گئے معراج کو تو دیدار  رب ہوگیا ، دیدار کے بعد جب واپس آئے تو ملاقات ہوئی   انبیاء سے تو سب نے اپنی اپنی تجلی کو جناب سید کائنات ﷺ میں پہچانا اور دیدار رب کرلیا ، گویا رب کا دیدار بھی سید کائنات ﷺ کی دید میں ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ ، پاک ہے وہ ذات جس نے مسجد حرام سے لے کے مسجد اقصی تک اپنے انبیاء کو مختلف تجلیات سے تشکیل دیتے بھیجا اور اور ان نشانیوں میں کامل سید عالی شہ ابرار امام عالی سرور کائنات امام عالی میرے آقا ، رحمت دو جہاں تاجدار انبیاء رفعت زماں ، ہادی ، نور حق کی سچی نشانی ہیں ۔۔۔ ان کو سلام واجب ۔۔۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

بیشک اس نے دیکھنے والوں کے لیے نشانیاں رکھی ہوئی ہیں ، وہ نشانیاں جو ہمارے پیامبر ﷺ نے دیکھیں ، وہ دیکھنے والے دید نے بھی دیکھنے کی سعی کی تو وہ بھی دیکھے گی ، اس لیے ہمارے نبی پاک ﷺ پر ایمان ہر عیسائی ، یہودی فرض ہے کہ وہ کمال کی تجلیات تو آپ ﷺ کے امتی ہونے کے باعث ہم دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔بندگی کیا ہے ؟ کیا کوئی عمل ہے ؟ کیا نیت ہے ؟ کیا کسی نیت سے ملا اجر ہے؟ بندگی کی تشریح کیا ممکن ہے؟

جذبات کے یہ سمندر ہیں ، میرے افکار کے سمندر میں  ذات غوطہ زن ہوئی اور اس غوطہ نما ذات نے سیپ نکالے ۔ ان سیپوں کو جب جانچا  تو پایا رازِ نہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تُو ۔۔۔۔۔۔۔ تُو ۔۔۔ تو  "ہر جگہ " ۔۔۔۔"جہاں تُو" ، وُہی اک جہاں ۔۔۔تُو رب العالمین ۔۔۔ الحمد اللہ ۔۔ قران پاک کی پہلی سورہ میں سب کہتے ہیں الحمد للہِ الرب العالمین  ۔۔۔ اسکی تعریف انسان سے ممکن نہیں مگر ہاتھ دعا کو اٹھتے کہتے ہیں کہ مالک تو رب العالمین ہے

ہستی کا دُھواں خوشبو بنتا بکھرتا ہے ، خوشبو سندیسہ بنتی ہے ، عکس مکمل ہوتا جاتا ہے ۔۔ ارتقائی عمل ایسا ہے جیسا کہ اک گول شیشیہ ہے فلک سے جلوہ نما ہوا ، فلک سے اوپر جہاں کی  تمثیل اک کمپیوٹر کی سی جہاں پر روشنیوں و تجلیات کا نظام ہے اور دل کی مثال بھی گول آئنے کی سی ہے یوں سمجھے اک شعاع وہاں سے پہنچتی ہے جیسے پہلی تاریخ کا چاند آہستہ آہستہ چودھویں کا چاند بنتا جاتا ہے ،یہ عمل ہر روح کے لیے جاری رہتا ہے  ، وہاں سے روشنی دی ، جتنی روشنی ملی ، اتنی ہی  مثبیت ملی

جوں جوں پیالہ بھرتا گیا ، توں توں عکس مکمل ہوگیا ، عبدیت مل گئی ، عبدیت مل گئی تو معراج حاصل ہوگئی

جب درد لا دوا ہوجائے ، تو ہم کیا کریں۔۔۔!

جب عشق عین و لا ہوجائے تو ہم کیا کریں۔۔۔!

عشق ،کسی بھی مظہر کی  علامت میں ڈھلتا ہے  وہ علامت "مٹی کا پتلا" انسان بھی ہوتا ہے ۔  جیسے جیسے سورج روشن ہوتا ہے تو اس سورج کی روشنی میں چودھویں کا چاند دکھتا ہے ، منظر نکھرجاتا ہے ، ہوا کا سندیہ ہوا کہ چلو پرواز کریں۔۔۔۔،

 ہوا سے پوچھا گیا کہ پرواز کس جہان کی ؟  بڑی آس سے پوچھا کیا مسجد اقصی کی؟

 ہوا نے جواب دیا کہ ہمیں کیا پتا ؟ ہوا نے آندھی تشکیل دے دی ۔۔ اپنا ٹھکانہ نہ رہا ۔۔ بے منزل خزاں کے پَتے کی مانند ہوا کے لَے  پر اڑتے جائیں  ، ذرے کی کیا اوقات سائیں ۔ ذرے کو جو اجال دیتا ہے ، وہی ہستی کو کمال دیتا ہے۔۔۔ معراج ہمیں ہمارے ہادی مرسل ، سچے سائیں نبی پاکﷺ کی بدولت ملی ، کہ ہماری روح کے لیے ویسے ہی نشانیاں بکھری ہیں ۔۔۔ بندگی کے بعد عکس کامل ہوتا ہے اور شبیہ مکمل ہوجائے تو فرق نہیں رہتا ۔۔

فرق بس پیالے کے سائز کا رہتا ہے ۔۔۔ یہ عطا ہوتی ہے ، جتنا پیمانہ بڑا ہوتا ہے اتنی کثرت سے جام ملتا ہے ، اتنی کثرت سے دل ویران ہوتا ہے ، ویرانے میں نقطہِ حرف کے نمو پانے سے مرکزیت ملتی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 تشنگی ہر اک ذات میں ہے ، پیاس علم کی بڑی ہے ، ذات کے صحرا میں کنواں نہیں ملتا ۔۔۔! پانی کون پلائے گاَ ؟ کس کے پاس عظمت کے ایسے نشان جو ہمیں دے دے عبدیت کا احساس ، معراج کا وہ احساس جو ہم برسوں سے تلاس کیے جارہے ہیں ؟

یہ کیسی تلاش ہے؟ یہ کیسا سفر ہے جس میں ذات ایسا محسوس ہو کہ  کوئل کی مانند گھومتی جارہی ہے ۔۔۔ کوئی نقطہ پانا چاہتی ہے !نقطہ حرف کو پانے کی کوشش میں کہاں سے یہ کوئل شروع ہوا ۔۔۔۔۔۔۔اسکا احساس ہی نہ ہوا۔۔۔۔ نقطہ آغاز ہی میرا نقطہ اختتام ہے ۔۔شاید  یہی عبدیت ہے ، یہی سمندر ہے تلاطم کا ، یہی عکس ہے نہی کا  کہ امر اس کا ہوتا ہے ، موت واقع ہوتی ہے ، وہ موت جس کو قران پاک میں لیل سے تعبیر کیا گیا ، جب لیل چھاجاتی ہے ۔۔۔ تو وہ خشیت کی چادر باری تعالیٰ نے  پہلی وحی کے وقت نازل کی اور وہ سانچہ جس میں ہر عبد کو ڈھلنا ہوتا ہے ، اک ارتقائی عمل ہے جسکو ہم کہیں تو ایسے  ۔۔۔۔ تب مزمل سے مدثر کا فرق ختم ہوجاتا ہے ، تب یسین کے مقام پر ایک حیرت کا سماں ہوتا ہے

 علم کی لگن جو تجسس کے مقام پر جو ذات میں  سوئی کو ہلاتی رہتی ہے ، بے تاب کیے دیتی ہے ، وہ ذات کی  تکمیل تک بے چین رکھتی ہے ، یہ بے چینی ، آتش صفتی ، سیمابی کیفیت ،  لامحدودیت ۔۔محدودیت میں سب اس نقطہ حرف کی پیش خیمہ ہے ، وہ جو  ذات کی سرنگوں میں تہ در تہ مٹی کے تودوں تلے دبا ہے۔۔۔ جیسے برسوں کسی کوئلے کو بھی دفن کرو تو وہ ہیرہ ہو جائے ، وہی ہیرہ ہر ذات کی تلاش ہے وہ ہی ہر اک کی  کامل ذات ہے ، انسان سارے بے چین رہتے ہیں جبتک کہ وہ کامل ذات کی تشکیل نہ پالیں ۔۔۔۔۔ جس کو عشق ہوگیا وہ ضم ہوگیا ، مکمل نفی اک سعی ہے ۔ لیس الانسان الا ما سعی ۔۔۔۔ ہماری سعی کا نقطہ سائنسی ہو ، تخیلاتی ہو ، وجدانی ہو ۔۔یہ سعی ، اس کی سمت ۔۔ہمارے افکار کے مطابق ذات کے کمپس پر  سمت کا تعین کیے دیتی ہے ۔۔۔ یہی آیت رہ رہ کے میرے ذہن پر ہتھوڑے کی مانند برستی ہے

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1)

 ۔۔۔ سبحان الذی ۔۔۔ پاک ہے وہ ذات ، پاک ہے وہ ہر شرک سے کہ سب سے اولی وہی ہے ، بعد از خدا بزرگ توئیﷺ قصہ مختصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعبدہ ۔۔۔ بندگی کی کامل مثال محمد ﷺ ہیں ، وہ تمثال گر کی مکمل تمثیل ہیں ، وہ مثال جس کو تراش کے آئنہ خود مسکرا ٹھا ، آئنے کو فخر ہوا ظاہر پر بھی ،باطن پر بھی ،  وہ مثال اک جلوے کی مثال ، جلوے پر جب جلوہ ہوا تو آئنہ اس قدر نازاں تھا کہ حرف نہیں ،  بس اس ناز میں بھی اک حجاب تھا ، اس ناز و حجاب کی قسم وہ ذات پاک ہے ہر کس شرک سے ، کہ اس کی پھر بھی کوئی مثال نہیں ۔ لیس کمثل شئی ۔۔۔۔۔ جس نے بے مثال خیال ک و نمو دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ لے گئی مسجد احرام سے مسجد اقصی کی جانب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات میں ۔۔۔ رات بھی کیا ، خواب مکمل موت کی سی کیفیت کہ جب موت ہوگئی عارضی طور گویا وقت روح کے لیے ماوراء ہوگیا ، وہ وقت جب وقت  جمع ہوگئے، جہاں تمام مثالیں اکٹھی ہوئیں ، کوئی  روح اللہ تو کوئی کلیم اللہ  تو کوئی ابتدائے حرف کا جمال ، تو کوئی کمال کی مثال، تو کوئی روح میں چھپے اسرار کی وحی ، سب کی ہوئی   امام الانبیاء سے ہوئی ملاقات ، سب نے دیکھا کہ وہ ذات جو ان کے پاس آئی  وہ کتنی کامل ہے ، انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ذات کے کس حصے میں  کتنے مکمل اور کس  کس حصے میں مکمل جناب سید مصطفی ﷺ ۔۔۔،تو سب نے نماز قائم کی ، مان لیا آپ کو امام کہ سب کی  اپنی اپنی شبیہ کا عکس جناب سید عالی مجتبی ﷺ میں چھپا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب نے مان لیا آپ کو مکمل تو جب گئے معراج کو تو دیدار  رب ہوگیا ، دیدار کے بعد جب واپس آئے تو ملاقات ہوئی   انبیاء سے تو سب نے اپنی اپنی تجلی کو جناب سید کائنات ﷺ میں پہچانا اور دیدار رب کرلیا ، گویا رب کا دیدار بھی سید کائنات ﷺ کی دید میں ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ ، پاک ہے وہ ذات جس نے مسجد حرام سے لے کے مسجد اقصی تک اپنے انبیاء کو مختلف تجلیات سے تشکیل دیتے بھیجا اور اور ان نشانیوں میں کامل سید عالی شہ ابرار امام عالی سرور کائنات امام عالی میرے آقا ، رحمت دو جہاں تاجدار انبیاء رفعت زماں ، ہادی ، نور حق کی سچی نشانی ہیں ۔۔۔ ان کو سلام واجب ۔۔۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

بیشک اس نے دیکھنے والوں کے لیے نشانیاں رکھی ہوئی ہیں ، وہ نشانیاں جو ہمارے پیامبر ﷺ نے دیکھیں ، وہ دیکھنے والے دید نے بھی دیکھنے کی سعی کی تو وہ بھی دیکھے گی ، اس لیے ہمارے نبی پاک ﷺ پر ایمان ہر عیسائی ، یہودی فرض ہے کہ وہ کمال کی تجلیات تو آپ ﷺ کے امتی ہونے کے باعث ہم دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔

اخلاص

سورہ اخلاص میں دوئی کے خاتمے کی بات ہوئ 
سارے جَہان میں ترے جلوے دیکھنے کی متمنی 
تن میں جا بَجا آئنوِں میں نقش اللہ کو دیکھے جارہا ہے.
خالص ہوگئی ہے روح؟
نَہیں، نَہیں، نَہیں ... گِریہ باقی ہے. 
چالیس سال کا گِریہ میں نے ان چار دنوِں میں کیا،  
افسوس!  نہ کوئی نشانی ہے، نہ بصیرت ہے 
حُسن یوسف میں پنہاں جلوے کو یعقوب کے سوا کون جان سکا؟ جو روح کے کُل اسرار سے واقف ہو، وُہی قَلندر ہے 

شَہید ہورہا ہے جلوہ جاناں مجھ میں 
شاہد میرے لفظ ہورہے ہیں اور قسمت! تم دیکھ نہ سکے ان میں درد نِہاں کو جس نے غمِ فراق میں چالیس نہروں سے پورے تن میں سیلاب لادیا ہے 

تو کہاں سے مخلق؟
عرش کے پانی سے؟
یہ پانی کَہیں وہ تو نَہیں ہے؟
یہ یاد،  یہ سوگ اس جُدائی کا تو نَہیں جب میں اسی لباس سے بنتے تم کو تخلیق کا دکھ دے رہی تھی؟

سُنو!  روح بھی سہے گی وہی صدائے کُن کا درد 
سُنو!  روح یاد کرے گی اس میں موجود راز 
سن کہ تو راز الہی ہے، جس کو فاش کیا گیا ہے 
سن کہ تو اسم الہی ہے، جس کو شامل کیا گیا ہے 
سن کہ جو رگ حق میں کتاب ہے، وہی بس اک یے 
حق ھو!  ھو!  اللہ!  اللہ ھو!  ھو!  حق ھو 

کھنکھناتی مٹی سے سوکھے پیڑ میں اک دفعہ صور پھونکا گیا ہے 
یہ اسم الہی کا صور تھا، نفخ سے تار جیسے ملا ہو، گویا حق وصال چاہتا ہے، گویا ہجرت وصال کی مانند ہے 

اے حق! تو پری چہرہ میں ظاہر ہُوا ہے اور مجھ سے سب جلوے لے گیا!  میرے دل کو تباہ کرگیا ہے! تو رویت زمین کی دیکھ اور یاد کر میرے چاند سے شمس نہ ملا تو زمین ساری پانی سے بھرجائے گی، مدوجزر چاند لائے گا اور باقی کچھ کیا رہے گا؟  طوفان کیا ہے؟ مجھ سے پوچھ لے نا .. 

قران میں لکھا ہے الم ترکیف فعل ربک .... 
کیا نہ دیکھا میرا فعل کیسے ابرہہ کے ہاتھی مار بھگائے؟  
قران میں لکھا یے الم نشرح صدرک،
کیا نہ دیکھا میرا فعل کیسے صدر سے صدر مل جاتا ہے؟
بس جب چاہیں گے تو "ووضعنا وزرک "کی نقارہ بجادیں گے 
تب تری بقا نہیں ہوگی بلکہ یہ میری صدا ہوگی "ورفعنا لک ذکرک " 
درود صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

قران میں لکھا: اللہ نور سماوات ولارض 
تری زمین میں نور کے چالیس روشن دیے رکھ دیے گئے،  
قران میں لکھا ہے دل خیر البریہ ہوجاتے ہیں،  ارجعو نفس المطمعنہ!  تو اضطراب میں جلوہ کر میرا تاکہ اطمینان ہو 

قران میں لکھا ہے موسی غش کھا کے گر پڑے،  تو نے جلوہ ناز کیا ہے،  اور سلامت ہے،  یہ جان رحمت ایزدی کے دھاروں سے یہی بات ہو 

والکاظمین عین الغیض کی مثال اضطراب نہ دبا تو رحمان کے بندے،  رحمانیت کیسے پائیں گے؟  
تلاوت کرتے وجلت قلوبھم کی مثال نہ ہوں گے تو ظلوم جھولا کا خطاب پاتے جائیں گے

ہم ہی جو زمینوں کو ہلاتے ہیں والزلزلو زلزال کی مثال اور آزماتے ہیں "ھنالک ابتلی " تاکہ آزمائش ہو

جیسے حُنین والوں کی ہوئ زاغ البصر سے الحناجر تک جب تک جب دل آگئے  تو "وتظنون الظن "کی مثال یقین دیکھا جاتا ہے،  

تو قسم ہے " والتین والزیتون،  الطور سنین کی،  آدم سے لے محمدی چراغ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تلک،  سب میں  شہید اک ذات ہے، لوگ پھر بھی ہدایت کو فرشتہ مانگتے ہیں،  درحقیقت ان کو ہدایت نہیں ملتی

دین ‏کی ‏تکمیل ‏

السلام علیکم

دین کی تکمیل کن اجزا سے ہوتی ہے؟ کیا عوامل ہیں جو ہمارے لیے ایسے راستے کے ماخذ لائیں جو ہمیں ہماری تخلیق کا مقصد یاد دلائیں .... لعنت ہے افسوس ہے ان لوگوں پے جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں بحوالہ سورہ المطففین ... ناپ تول میں کمی مدین والے بُہت کرتے تھے .. حضرت شعیب علیہ سلام کی بعثت اسی تناظر میں ہوئی جبکہ حضرت داؤد کو بادشاہی و خلافت دی گئی اور ایسا علم جس سے آپ ہر شے کی خوابیدہ و بیدار حال کے کلام سے ماہیت کو جان لیا کرتے تھے. حضرت موسی علیہ سلام کے ذریعے وساوس کا کھیل، جادو اور دل کی صورت خضر بات بتلائی گئی تو حضرت عیسی کو معجزات میں کمال عطا کیا گیا جبکہ حضرت یوسف علیہ سلام کے اعلی اخلاق اور الرویاء کی تعبیر کا علم دیا گیا. حضرت ابراہیم علیہ سلام کو برگزیدگی کیساتھ یقین محکم دیا گیا. حضرت نوح علیہ سلام کا صبر و استقلال دکھایا گیا جبکہ حضرت یونس علیہ کی صورت دعا کے ثمرات و بدعا کے نتائج بتلائے گئے. غرض یہ کہ 
Allah SWT said:

اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِسٰلٰتِهٖ ۗ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِ نَّ لَهٗ نَا رَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا ۗ 
"میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے رسالتیں پہنچا دوں اب جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے"
(QS. Al-Jinn 72: Verse 23)

رسالت تو اک پیغام ہے جو اک قوم کی جانب ہے جبکہ رسالتیں وہ تمام پیغامات ہیں جو آخری الہامی کتب کی صورت اترا اور یہ پیغام جن و انس دونوں کو پہنچایا گیا جو پیغام پہنچایا گیا صرف حضرت داؤد علیہ سلام یا حضرت سلیمان علیہ سلام کی صورت جنات و انس کو.  دو نوع تخلیق کو وہ رسالتیں وہ پیغامات ان برگزیدہ پیامبرو سے آپ تک پہنچے گویا جنات و انس دونوں کے لیے مبعوث ہوگئے ..پھر مالک فرماتا ہے کہ

Allah SWT said:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَا لدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَا لْمُنْخَنِقَةُ وَا لْمَوْقُوْذَةُ وَا لْمُتَرَدِّيَةُ وَا لنَّطِيْحَةُ وَمَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۗ وَمَا ذُ بِحَ عَلَى النُّصُبِ وَاَ نْ تَسْتَقْسِمُوْا بِا لْاَ زْلَا مِ ۗ ذٰ لِكُمْ فِسْقٌ ۗ اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْـنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَا خْشَوْنِ ۗ اَ لْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَـكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَ تْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَـكُمُ الْاِ سْلَا مَ دِيْنًا ۗ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَا نِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ فَاِ نَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ‏
"تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستا نے پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ سب افعال فسق ہیں آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے"
(QS. Al-Ma'idah 5: Verse 3

کہ دین مکمل ہوگیا ..بندگی کی تمام تعلیمات جو پہنچائی گئیں دھیرے دھیرے ... ان سب کا اجتماع کرلیا جائے تو  حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وہ تمام علوم بھی دیے گئے جس سے نیابت کی تکمیل ہوسکے مزید اسکے ساتھ تعلیمات و احکامات مکمل ہوگئے. اس لیے دیگر انبیاء نے قران پاک سے ماخوذ چند کی تعلیمات دی جبکہ سب انبیاء کی تعلیمات کا اجتماع قران پاک میں موجود ہے. اس لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سردار انبیاء بھی ہیں