السلام علیکم نور !
آج خود سے بات کرنے کو دل ہے، خود تو خود سے بچھڑ گیا ، ہائے رے میرا دل، مری چُنر رنگ دی گئی اور بے رنگی دی گئی! اِلہی ضبط دے ورنہ قوت فغاں دے
نالہ ء بلبل سننے کو، جہاں کو تاب دے
باغِ گلشن سے اجڑ گئے سب پھول
تاج یمن سے اجڑ گئے سب لعل
قریب مرگ جان نوید جانفزاں آیا
وقت مرگ مرض نسیاں کے طوفان نے عجب شور مچا رکھا ہے، کاٹ دیا گیا سر، برہنہ تھی تلوار اور خون بہہ رہا تھا ...
الہی ماجرا ء دل دیکھ کے اہل عدن رو پڑے
یہ تری حکمت کی فصیل تھی، جرم تھا کڑا،
باغ رحمت کے پاس کھڑی ہوں اور وہ کان لگائے ہمہ تن گوش ....
بَتا درد دیا تو قوت درد بھی دے
یہ درد تو مرگ نسیاں ہے!
کھاگیا بدن، پی گیا لہو، کھنچ گئی رگ رگ ...
پھر ترے پاس کھڑی پکارتی رہی
الہی درد دیا تھا تو تاب ہجر بھی دے
وحشت دی ہے تو لذت مرگ بھی دے
ملیں ترے وصل کے اشارے، نہ ہو
ڈھونڈو ملنے کے بہانے، نہ ہو! ....
الہی، محرما نہیں کوئی ...
الہی، روشن شب فرقت میں دیپ جلے ہیں
الہی، دست وصال لیے، دست کمال ملا ہے
الہی، ہجرت کے درد نےاور ہجرت فزوں کردی
الہی، آشیاں تباہ ہوا، بنا تھا، پھر بگڑ گیا
الہی، داستان غم لکھی تو نے، سناؤِں میں
الہی، مزے تو لے اور درد کا گیت گاؤں میں
الہی، کچھ تو نگاہ کرم مجھ پہ کردیتا ہے
الہی، یا تو لمحہ وصال مستقل کر، یا درد سے فرار دے
الہی، اشک تھمتے نہیں، زخم بھرتا نہیں، رفو گر کا کیا سوال؟
الہی، شدت درد نے مریض کردیا ہے،
اے وقت نسیم،
سن جا! محبوب کو بتانا
ادب سے،
ملحوظ ادب کو سجدہ کرنا اور مانند رکوع نماز قائم کرنا
یہ عشق کی نماز ہے
کہنا، جب سے میخانہ بنایا ہے، جام جم یاد نہ رہا، جب سے دیوانہ بنایا ہے، آپ کا نقشہ ہی یاد رہا،
قرار نہیں ہے، فرار نہیں ہے، تپتا تھل ہے، آبلہ پا! کیا کروں؟
زخم رَس رہے، کوئے اماں کیسے جائیں؟
ہجرت کے نِشان ڈھونڈنے کَہاں کَہاں جائیں؟
تھی مَلائک کی زبان پہ حکم الہی، تیغ ِ الہی دی جانے لگی .... یہ سیفی تلوار ہے، ملتی رہے گی، چلتا رہے گا سلسلہ، سیف اللہ، وجہ اللہ کی تلوار ہے، یہ امامت کا سلسلہ ہے، روشنی کا سینہ چاک ہونا ہے! صدر و الصدور سے ملاقات کی باری ہے، یہ شہِ ہادی کی سواری ہے، صدیق اکبر سب پہ بھاری ہے، علی کی شیروں سے یاری ہے، معجز نور کے سامنے قبہ ء نور دیا جانا اور دینے والا رنگی دوشالا پہنے ہو گا، اس سے ملے گا نور، کلیر کا صابر، رنگ کی رنگائ مہنگی ہوتی ہے، کچے دھاگے کا رنگ اور، پکے دھاگے کا رنگ محویت!
تجھے شوق سے دیکھتا ہے، تو کدھر؟
میں تجھے پاتی گم ہوں، نہ جانوں کدھر،
تو رسولِ معظم کی معین نشانی، یہ داستان سنانے کو، بتانے کو کون ملے گا مجھ سا؟ ترے دل میں اشک نبوت ہے، کاشانہ ء رسالت میں رہنے والے مرے نور،
اللہ نور السماوات کی تحریر ہے تو،
بتا تو سہی، کیسے تسلی دوں؟
میرے نور کو مجھ سسے دلاسہ چاہیے، میرا ہی کاسہ چاہیے اور میں نچھاور نہ کروں محبت!
یہ اگربتیاں ہیں ....
اک ہم نے شوق میں جلائی
اک جلائی گئی، مرے شوق نے
یہ معطر خوشبو ہے! اس دھواں کی مثال عنبر و عود کی سی ہے! جلالت کی نمود ہے اور تو مرا وجود ہے! مرے ہوتے کیسی بیقراری! تری تو مجھ سے یاری! قسم شب تار کی، ناز حریماں پہ سب تارے لٹا دوں، شمس کیا، سب آئنہ محویت کے، ٹوٹ جائیں گے اور کیا چاہیے؟ راضی ہوجا! راضی رہنا سیکھ! آجا لگ جا مرے گلے
اللہ.سوہنا
ترے کہنے پہ بات کرلی، اب خود جان تو
اب آ شوق وصال چاہیے، تو، ترا کمال چاہیے، چاہیے نا حرکت دلم، حرکت زوال کے وقوعے کو تصویر، چاہیے شب تار کو ناز روشنی، لیجیے گفتگو کے ہنر سے، ہم بات کرتے ہیں، تجھ سے براہ راست کہتے ہیں
مولا دلگی کی ہے، نبھانی مشکل ہے
ریشمی رومال سے لاگ کا سوال ہے
ریشم دھواں سا ہے، دل میں رواں سا ہے، یہاں اک کنواں ہے وہاں اک مجذوب بیٹھا جھاڑو پکڑ کہ صفائی کرے اور مجذوب صفائ نی کرتا دل کی ...
او صاف صفائی دل دے کرئیے تو رب مل جانداں اے
جنہاں کیتی نیک کمائی اونہاں نے رب مل جانداں اے
شمس کی طولانی فوج میں.بیٹھے ماہ رسال نے پوچھا
اے نور تار شب ریشم سے اوج ابد کی تلاش تک کا.فسانہ کیا.ہے؟ حیدری مئے پیے جاؤ اور شاہ ولا کی سواری پہ بیٹھے روز صبح کو لمحہ. وصال چکھ کے کاشانہ نور میں سیر کرو اور مجھے شب فرقت کے قصے سناؤ ...یہ ماجرا کیا ہے؟ درد بڑھادوں؟ مئے پلادوِ؟ تجھ کو ہلادوں؟ جا تری آزمائش کا وقت ختم ہے گرچہ وقت طویل ہے، گرچہ رات سجیلی.ہے اگرچہ خواب حقیقت میں ڈھل رہا ہے گرچہ شام غزلاں پہ بیٹھے رفیق تاجدار حرم کے ساتھی ہیں، گرچہ جہد مسلسل.جوانی میں، جراءت کے ساتھ.اور تاب سخن! اس روئے سخن پر قربان جائیے جس نے تجھے روشنی دی یعنی رب نے تجھے اور تو نے ہم کو ..دیکھ کے روئے جاناں کھوگئے
محبوب کبریاء سے مل گئے، سو گئے
خالی نہ جاتا دیدار کے بغیر
فقیر کو ملتا انعام.تاجور سے
شیخ ہادی کا وسیلہ مکمل کرتا ہے یہ بخت نشان حیدر یہ سب کمال کے سلسلے ہیں ...