رنگ رنگ میں ترے جلوے ہیں اور ان جلوے میں چاشنی ہے اور کوئل اک ہے کو بہ کو یے جیسے کہے کہ
رنگ اللہ کا! اللہ کا رنگ! سب اسی کا ہے، نہیں باقی چار سو! نہیں ہے ماسوا اسکے! چل رہی اسکی ھو! رکھ لے دل میں سجدے اور پڑھ لے دکھاوے کو نماز ... یہ ہے ظاہر و باطن کی بات
باطن میں ولا اس کی ہے
حال میں چاہ اسکی ہے
ریت پہ پانی لگ گیا یے
پانی ریت ریت ہوگیا ہے
فرق نہیں ہے، بس اللہ ہے
اللہ ہے، خدائی اس کی ہے
اللہ ہے، رہنمائی اسکی ہے
اللہ ہے، کبریائی اسکی یے
اشھدان لا الہ الا اللہ کہا
محمد رسول اللہ کی بات ہو
راج پاٹ چھوڑ بیٹھے تھے
ادھم اللہ اللہ کرتے رہے تھے
ہائے! لال قلندر کی نگہ میں تھے
مولا چار سو ہے! آقا کا جلوہ چار سو یے
آبشار کی موسیقی سن یے تو اللہ اللہ کا گمان ہو اور جب تو پہاڑ کے اندر جا اسکے سونے میں ھو کو سن لے ...
روشنی جس نے وجود کو گھیر رکھا ہے رگ رگ سے نچوڑے ہے جیسے کپڑے سے داغ سب نکل جاتے ہیں ...
چہرہ آئنے میں دیکھا تو آئنہ میں وہ دکھا
آئنے بکھر گئے تو سوچا یہ تو میں ہوں
تو کیا فرق ہے؟ بتا اے ہوا؟
اب اس دل کے عالم اور باہر کے عالم کا فرق؟
ہاں گہرا پانی اندر ہے
ہاں باہر بوند یے