انسانیت کی بقاء
دنیا میں نظامِ کائنات کی تشکیل کے لیے سکوت اور حرکت کے مختلف وقفوں کو ایام کے نام سے منسوب کرتے ''امر کُن '' لاگو ہوگیا ۔ پیدائشِ انسانی سے پہلے کائنات کی تشکیل کے مراحل مخلوقات کی تخلیقات پر لاگو ہوئے ۔ ''نور '' کی پیدائش نے قدوسیوں کی جماعت پیدا کی ۔ وہ جماعت جو مکمل سجدے کی حالت میں ہے یا مکمل رکوع کی حالت میں ہے یا مکمل قیام کی حالت میں یا تسبیح میں مصروف ہے ۔ ان کی ضد میں '' نار '' کو تشکیل کیا گیا ۔ ''نور '' اور '' نار '' ایک دوسرے کی ضد میں قدرت کے اٹل حقیت ''صبح و رات ، سحر و شام ، اجالا روشنی '' کے فرق کو واضح کیے ہوئے ہیں ۔ انسان کو جب پیدا کیا گیا تو اس میں '' نار و نور '' دونوں طرح کی قوتوں کو ''وہم و یقین '' کی صورت پیدا کردیا گیا ۔ ''شک و یقین '' کی قوت کو توازن میں لانے کے لیے عقل یا شعور عطا کیا گیا ۔ شعور انسانی کو چلانے کے لیے ''حواس خمسہ '' کو نگہبان کیا ۔
تخلیق آدم کے بوقت '' نور '' کی تجلی کو پہلے پیدا کیا گیا ۔ آئنہ کی تشکیل کے بعد سجدے کا حکم ہوا ۔ سجدہ گویا خالق کو سجدہ اور انکار گویا خالق کی کبریائی سے انکار تھا ۔ جس نے انکار کردیا ، گویا اس نے خالق کو پہچان کر کبریائی کا دعوی کردیا۔ ایسی مخلوق جس نے معرفت حاصل کرلینے کے بعد '' نورِ ازل '' کی واحدانیت کو ماننے سے انکار کردیا گویا وہ '' اندھا ، بہرہ اور گونگا '' ہوگیا ۔ وہ تمام لوگ جو ابلیس کے پیروکار ہوئے ، وہ تمام کے تمام حواس کو بروئے کار لانے کے باوجود '' اندھے ، گونگے ، بہرے ہوگئے ، گویا وہ اللہ کے حکم کو پہچان لینے کے بعد پہچان نہیں پائے یا آئنہ میں '' نورِ حقیقت '' کا چراغ بجھ جائے ۔ اس کے بعد انسان کی حیثیت '' نار '' کی سی ہوجاتی ہے ۔
''نار '' کے برعکس ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا ۔ آزمائش کی مثال ''پل صراط '' کی سی ہے ۔ جو اس آزمائش کو پار کرگئے تو گویا وہ اپنے رب اور اس کی حقیقت کو پہچان گئے ۔ دوست ، دوست میں فرق کہاں رکھتا ہے جب ایک ہستی اپنی ''ناری '' حیثیت سے دستبردار ہوتے '' سراپا نور '' بن جاتی ہے جس کو خالق نے قران پاک میں ''نفس مطمئنہ '' کے نام سے ہمیں آگاہ کیا ہے ۔ ''نفس ملحمہ '' پر استوار روحیں جب منزل شناس ہوجاتی ہیں ، ان پر جبروت و لاہوت کے نشانیاں بتائیں جاتی ہیں ۔ ایسے راستے ہیں جس کی آگاہی ہر روح کے لیے جاننا ضروری ہے ۔ اس کی پہچان ہی دراصل ' محشر ' اور انصاف والے '' دن پر یقین کامل پیدا کرتی ہے ۔ گویا جو لفظ ''زبان '' نے ادا کیے اس کا ''عملی '' نظارہ روح کرلے ، اس کا شُمار کاملین میں ہوتا ہے ۔ انبیاء کرام کی روحیں پر جو عطا تھی وہ نبی آخر الزمان صلی علیہ والہ وسلم پر ختم ہوگئی ۔ اب ارواح کے مدارج ہیں جن کو ''صدیقین ، شہید ، صالحین میں شمار کیا جاتا ہے
نور سے نار کا سفر کرتے رہے
کینہ حسد جو خود میں بھرتے رہے
نور نے حقیقت کو قریب سے دیکھا
مشاہدہ ، شاہد ہوکے وہ کرتے رہے