Monday, February 22, 2021

کینوس ***

وہ'' اپنے کمرے کے اطراف کا جائزہ لے رہی تھی ۔کمرہ رنگوں کی خوشبو سے مہک ہوا تھا۔ کبھی ایک پینٹنگ کو تنقیدی نظر سے دیکھتی اور کبھی دوسری کو دیکھتی اور یونہی ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے ''میں'' سے مخاطب ہوئی

''میں'' تم نے یہ پینٹنگ دیکھی ہے ؟ اس میں سارا رنگ اسکیچ سے باہر نکلا ہوا ہے ۔۔۔ پتا نہیں کب رنگ بھرنا سیکھو گی ؟''

میں نے ''وہ'' کو دیکھا، جس کا انداز مجھے بہت کچھ جتا رہا تھا۔۔۔ میں نے ''وہ'' سے کہا:

'' جب میں نے رنگ بھرنا شروع کیا تھا۔۔۔ مجھے ایک بنا بنایا سکیچ دیا جاتا تھا۔مجھے اس میں رنگ بھرنا آسان لگتا تھا۔اب میں کبھی اسکیچ کو دیکھتی ہوں تو کبھی رنگ کو ۔۔۔۔۔ اس کشمکش میں رنگ باہر نکل آتا ہے''

''وہ '' نے ان پینٹنگس سے توجہ ہٹائی اور مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔ارے یہ کیا ''میں'' تمہارے چہرے پر قوسِ قزح پھیل کر کپڑوں تک کو خراب کر رہی ہے ۔'' یہ کہ کر ''وہ '' ہنس پڑی

''میں'' نے اسے جواب دیا کہ شروع میں سب ہی مصور رنگ بھرے کپڑوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں ، ہنستے ہیں ۔۔۔ تمہیں کیا پتا یہی رنگ تو سرمایہ ہے ۔۔۔ یہ دیکھو سبز رنگ ! میرا چہرہ کس قدر حسین لگ رہا ہے ۔۔۔ یہ نیلا ،پیلا رنگ میرے کپڑوں پر لگا ہے۔ انہی رنگوں کی خوشبو سے تو مجھے مزہ آتا ہے ''

وہ کئی لمحات تک مجھے دیکھ کر مسکراتی رہی اور کہا: اس لیے تم نے ادھورے اسکیچ مکمل نہیں کیے ۔۔۔ جب یہ مکمل کرلوگی تو تم پر رنگ بھی جچیں گے ورنہ سب رنگ تمہاری ذات سے نکل کر بھی مصنوعی تاثر دیں گے ''

''میں '' دل ہی دل میں ''وہ '' سے قائل تو ہوگئی مگر ہتھیار پھینکنے پر دل آمادہ نہ ہوا اور بولی:

'' یہ دیکھو ۔۔۔ادھر آؤ۔۔۔ یہ پینٹنگز دیکھو ۔۔۔۔جن کے اوپر سفید چادریں ہیں ۔۔۔ان کو میں نے ان سے کور کیا ہے تاکہ کوئی ان مکمل اسکیچ دیکھ نہ سکے ۔۔۔بس سب سفید ہی نظر آئے ۔۔۔۔''

''وہ '' نے جب وہ خالی اسکیچ دیکھے تو داد دیے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔اور پھر چونک کر کہا ۔۔۔تم نے اتنے سارے اسکیچ ادھورے چھوڑ کر صرف ایک ہی پینٹنگ میں سرخ ، پیلا اور پھر نیلا رنگ بے ہنگم طریقے سے بھرا ہوا ۔۔۔اچھی بھلے خاکے کا ستیا ناس کر دیا ہے ۔۔۔شاید اس لیے اس کو بھی غلاف سے ڈھکا ہوا۔۔۔''

''میں '' وہ کی چالاکی پر حیران ہونے سے زیادہ پریشان ہورہی تھی ۔۔۔مجھے معلوم نہ ہوسکا وہ اس قدر گھاگ نکلے گی ۔ابھی سوچوں میں گم ہی تھی ۔وہ پھر سے مخاطب ہوئی :

''تم ایک کام کرو، اپنے سارے رنگ خود سے اتار پھینکو ۔۔۔ !! بلکہ ایسا کرو اس رنگین لباس کو سبز، نیلا ،پیلے ، جامنی، سرخ ، اورنج اور نارنجی سے ملا کر سفید کردو ۔۔۔ تاکہ تمہارے رنگ بھی ان غلافوں کے رنگوں سے مل جائے''

وحی

غارِ حِِرا، جبل النور میں واقع ہے. کہساروں سے بھرپور وادی میں وحدت کا نظّارہ کرنا مشکل نہ تھا! اللہ کی دید کی ابتدا سے پہلے علم یعنی نور کی جانب رجوع ضروری ہے. آنکھ متصور اس وقت کے گھڑیال پر ہے، جب چودہ صدیاں قبل اک نفس سجدہ ریز رہا اکثر، یہ قیام حرا کے غار میں اور سجدے آیت دل منور کیے دیتے، لڑیاں آبشار کی مانند آنسوؤں کی بہتی ..وہ پاک صفت نفس، لاجواب تڑپ لیے ..خدا کو دیکھنا کمال دیکھنا  مگر اسکو دیکھنے کی کمال تَڑپ نَہیں ہے    .... وہ الوہی صفات کا جامے پہنے  نفس سفید لباس میں موجود خُدا کی دید کی خاطر سب سے الگ تھلگ ہوگیا ..... 

غار میں مقیّد، سپیدی نے رات کا پردہ چاک نَہیں کیا تھا مگر غار بقعہ نور بنا ہُوا تھا ، نور محل بننے جارہا تھا... فلک پر نوریوں نے یک سکت دیکھا تھا  پھر خالق کو سجدے میں واپس پلٹ گئے، اسی اثناء میں جبرئیل امین غار حرا میں وحی لے کے آئے!  نور سے دل بھرنے جارہا تھا ....

اقراء کا جب آیا تھا  فرماں 
بولے امّی پہ ہوتا نہیں عیاں

جبرئیل امین آگے کو لپکے، سفید روشنیوں نے غار کو ایمن بنا رکھا تھا .... آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اک حال میں فرماتے "امی پر ہوتا نَہیں عیاں " جبرئیل امین آگے بڑھے،  سینے کو سینے، قلب کو قلب سے، روح کو روح سے معطر کردیا .... اب جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اقراء پڑھا

اس کی گونج پتھر پتھر کو پہنچی .... بس پورا غارا جھک کے مسجود ہوگی. ...آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر لوٹے تو گھبرائے ہوئے تھے، خشیت سے آنکھ وضو میں ..... زملونی زملونی .... آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا....

میرے نفس کی ریا کاری دیکھیے، قران کا لفظ لفظ پڑھا مگر لفظ اقراء کے مکارم نہ کھلے .... پڑھتی کیسی؟ قران پاک کے لفظ عام تو نہیں ...دل کو پاک کرنا، نفس سے جان چھڑانا آسان تو نَہیں .... منافقت اس طرّہ پر کہ دل خیال کیے بیٹھا ہے اس کو قران پاک پڑھنا آتا ہے!  دل کی ریاکاری پر تف!  دل کو ملامت صد ہزار!  اس ملامت کے پیچھے ریاکاری چھپی ہے جسکو سمجھنے کے لیے دل میں جھانکنا چاہیے .... یہ اک کیفیت مکمل مل جائے تو دل تقدس میں ڈھل جائے!  وضو ہو جائے دل کا ...نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مکمل زمانہ متصور ہو جائے      ......  کیا چاہیے ...کبھی کبھی جب دل بہت بے چین ہوجاتا ہے تو اک منظر سامنے آجاتا ہے ....طائف کی سرزمین ....پتھر برسنا ...خون کا گرنا ...زمین کا لہو لہو ہونا ..وہ رویت بے مضطرب کن جب دعا کو ہاتھ اٹھنے ..شرم سے دل کا جھک جانا ..پتھر کھا کے دعا دینے والے، میں نفسی نفسی میں ڈھلی مورت.. ڈھل جائے گی میری  سیرت مکمل اشکوِ سے  نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مناظر دیکھتے دیکھتے

لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے قران کا نزول،  وحی وحی کا علم صدر و صدور سے کیسے پھیلتا ہے ....لازم ہے ہم کو ملے گا اشکوں کا تحفہ ...لازم ہے ہم حال سے مغلوب ہوتے سہیں  گے سب ستم، مسکرا کے کہیں گے مرحبا یا سنت!  مرحبا یا سنت!  مرحبا یا سنت!  

تلاوت ہم بھی کرین گے واتبتل ہوکے، تبتیل والی کیفیت پر ہم بھی رہیں گے ...اللہ پاک کا نور غائب کردے گا ہماری ذات اور وہ وہے گا ہر جگہ موجود ...حق موجود!  وہ موجود!

The Desert of Solitude ...***

The desert of solitude is demanding purification and ramification.The lingering cry , the sobbing pain , the inertia of love is like a swirl , whirling in the ocean of ecstasy

CRASH !

The wine of reunion will be poured into the broken glass. The tavern will be populated with the shades of beloved.

DANCE !

Swindles round body were whirled, being unbinded: ... The trickling pain blood from each inch of glass is knocking , Robb off the cloak ....

The Sky Lark

Lark is sitting on tree , waiting for nightingale ,
O ` sweet melodious voice
Sing for lark ,
make love an arch

Flight

Heaven witnessed the flight of bird

محبت ‏خاکی ‏نہیں ‏ہوتی

محبت خاکی نَہیں ہوتی!
نورِ وجود کو خلق کرنے سے پہلے،
درد کےٹکروں میں تقسیم ہونے سے پہلے
شبیہ، صورت حسن کے بننے سے پہلے،
آوازہ ء کُن نے درد و کرب کی لمبی آہ سُنائی.
جتنے آئنے خلق تھے، سب بکھر گئے،
ٹوٹنے سے پہلے، جس نے آواز کی جانب رخ کیا، پتھر کا ہوگیا
جس نے راہ لی، مقام حیرت میں جالیا
جو سن نہ سکا،  وہ سنتا ہی رہا، ڈھونڈتا ہی رہا
جسے کچھ نہ ملا، اسے خدا کیسے ملے؟
جسے خدا ملا، درد اسے کیوں نہ ملے
اے درد! بتا تو سہی! 
ترے کتنے چہرے ہیں! 
اور ہر چہرہ محبوب کا،
ہر چہرے میں عشق،  ہجر کا سوگ ہے
کیسے کہون محبت آسمانی جذبہ نہیں
یہ روگ ہے  یہ سوگ ہے! 
یہ کیسا روگ ہے،  زہر کی مانند اتر رہا ہے قطرہ قطرہ میں
جسم میں اک قطرہ آب نہ رہا
نہ ہو جلوہ ء یار جس میں
محبت کا کمال جانو
ہجر کا انوکھا سوال جانو
محبت آسمانی جذبہ ہے

درون

ربیع الاول کا ماہ مبارک شروع ہوا ہے  .... سب رنگ غم کے ماند پڑجاتے ہیں،  دل میں خوشی بہار کی مانند پھیل جاتی ہے ... درون میں جب سیرت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی پھیل جاتی ہے تو حیرت سے دل متعجب پوچھتا ہے کہ درون کیا ہے؟   درون باطن کو کہتے ہیں. ایسی دنیا جس کی بدولت خیالات متحرک ہوتے ہیں ...خیالات سوچ کے محور کے گرد گھومتے ہیں اور  احساس کو نمو دیتے ہیں ....احساس کی نمو سے  خیال کی تجسیم تلک، خیال کی تجسیم سے  حقیقت تلک .....  جب سوچ سے خیال، خیال سے تجسیم، تجسیم سے حقیقت مل جاتی ہے، تب مقامِ حیرت شروع ہوتا ہے .. ... کبھی کبھی یونہی گھٹنوں کے بل بیٹھے،  دیوار سے ٹیک لگائے خیال اکثر گنبد خضراء میں گھومتا ہے تو کبھی غارِ حرا کو ڈھونڈتا ہے .... گویا ایسے کہ غار حرا کی حقیقت پہلے بھی کھل چکی ہے یا کہ حرا کے مقام کی معرفت مل چکی ہو مگر اس کی حقیقت تلک رسائی میں خیال کی تجسیم دھندلا گئی ہے ... اس ماہ مبارک کی برکت تو یہی ہوتی ہے کہ دل کے آئنے پر غار حرا روشن ہونے لگتا ہے اور صدا یہی بازگشت بن جاتی ہے 

آؤ غارِ حرا چلیں ..،  چلو حرا کو چلیں .....

 درون میں دراصل اصل خوشی ہے اور اصل ذات تک رسائی اصل الاصل خوشی ہے.  بچہ ماں سے جُدا ہوتے ہے مگر احساس کی مادی دنیا میں آتے اسکو نہیں پتا ہوتا اسکی ماں کون ہے مگر بچے کے دل میں ماں کی خوشبو بسی ہوتی ہے .ماں کا لمس اسکی خوشی ہوتی ہے ... اسیطرح جو خالق ہے، اسکا رشتہ بھی شناسائی کا ہے ... پہچان کرنے کا کہ کس دنیا سے آیا تھا اور کس جہاں میں آباد ہے. روح کا اک حصہ اس جہاں آباد ہے، جسکو عالم ملکوت کہتے ہیں ... اس عالم سے روح کو روشنی ملتی رہتی ہے اور روشنی کا ملنا گویا ربط کا سلسلہ ہونا .... ربط کا یہی سلسلہ اصل سے ملنا ہے، یہی وصال ہے اور جس قدر ربط بڑھتا جاتا ہے اسی قدر کمال نصیب ہوجاتا ہے .....

 دل میں اسم حرا کی تکرار سے روشنی پھیل جائے تو ذکر کی تتلیاں،  درود کی پتیاں،  احساس کی اگر بتی سے سلگتا دھواں باطن میں عجب سا کیف طاری کردیتا ہے کہ گویا ذی وقار  کی ہی بات ہو ....  یہ احساس خوشی سے مسرور کردیتا ہے کہ احساس رگ و پے میں دوڑ رہا ہے اور ہر رگ فگار دل لیے ہے .... تار تار فگار دردِ ہجراں سے ہوا ہے اور ربط مل جائے تو درود واجب ہوجاتا ہے. اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ربط رکھنا ہو تو کثرت سے درود پڑھتا ضروری ہے .....

 خارج بھی درون کا عکس ہے. پتا سرسراتا ہے کیونکہ میں نے اسے دیکھا ...میں نے آواز سنی اور میری روح نے وہ روشنی دی جس سے میں نے سننا شروع کیا تو احساس ہوا کچھ صدائیں معبد وجود کے درون اور کچھ خارج سے ہوتی ہیں .... درون کی آواز شناسائی ہے ....میں نے سرخ پھول دیکھا گویا میرے باطن نے سرخ رنگ جذب کرلیا اور باقی روشنی کے رنگوں کو منعکس کردیا ...... میرا رنگ سرخ ہوگیا .... مجھے پانی نیلا نظر آرہا ہے کیونکہ میری  آنکھ نیلا رنگ جذب کر رہی ہے اور باقی رنگ منعکس .... میرا رنگ بھی انہی سے نسبتوں سے معتبر ہوگا کہ اللہ کا رنگ سب رنگوں پر حاوی ہے ..... 

درون میں کمال کا، جلال کا،  جمال کا،  خشیت کا،  جبروت کا اور اسی اقسام کے رنگ ہوتے ہیں ... المصور،  عبد المصور کا ربط انہی رنگوں کو یاد دہانی ہے .... یہی ذات کا جوہر ہے .... یہی کندن ہونے کا عمل ہے

انہماک

انہماک کا کوئی قاعدہ ہوتا ہے؟ انہماک گہرائی پیدا کرنے سے وجود میں آتا ہے. جب بچہ نَیا نَیا اسکول جاتا ہے تو اسکو حروفِ تہجی کی ابجد کا علم نَہیں ہوتا ہے . اک اچھا استاد حروف تہجی کے تصور کی گہرائی ذہن میں پیدا کرتا ہے. وہ "گانے " کی، tracing کی،  mimes اور حروف تہجی کی کردار نگاری کرتے گہرائی پیدا کرتا ہے. بچہ کے اندر جیسے گہرائی پیدا ہوجاتی ہے، اسکا انہماک پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں. اسکو ہم "دھیان "کی قوت بھی کہتے ہیں. جدید تعلیمی نظام میں پڑھانے کے انداز میں جدت جس قدر پیدا ہوئی ہے، اسی قدر ماضی میں دھیان کی قوت (cram)رٹے سے لگواتے پیدا کی جاتی ہے. رٹے سے انہماک تو پیدا ہوجاتا ہے مگر گہرائی پیدا نَہیں ہوتی اور انسانی سوچ سطح پر رہتی ہے. اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری بچے جب کسی فیلڈ میں جاب کرنے جاتے ہیں، وہ کچھ عمدہ کر نہیں پاتے. تعلیمی نظام کا اصل مقصد گہرائی اور انہماک پیدا کرنا ہے تاکہ سوچنے کی قوت سے بچہ تعلیمی مدارج طے کرسکے.

قران پاک کو بھی ہم گہرائی اور  انہماک کی قوت سے سمجھتے ہیں. اکثر میں ٹی وی پروگرامز میں دیکھتی ہوں کہ انہماک "اللہ ھو " کی ضرب لگوا کے پیدا کیا گیا ... اک مخصوص تعداد میں اوراد اذکار کرنے سے اللہ تک پہنچنے کی سعی کا نقطہ سمجھایا گیا ... میرے نزدیک یہ رٹا ہے، ایسا رٹا جو  ہمیں اللہ کے قریب تو لے جاتا ہے مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو صلب کرلیتا ہے.

اس بات کی وضاحت میں اسطرح سے کرسکتی ہوں. اللہ اک خیال واحد ہے اور اس خیال واحد سے ننانوے ذیلی خیالات نکلتے ہیں. ان ننانوے خیالات نے کائنات کی تنظیم و تعمیر، کاروبار کائنات کو چلائے رکھنے میں کردار ادا کیا ہوا ہے. اللہ نے جب سوچا کہ کائنات تخلیق کی جائے تو اس کے ارادے کی قوت نے خیال کی تجسیم کردی. یہ ارادے کی قوت ان ننانوے ناموں کی خصوصیات لیے ہوئے ہے. چنانچہ ہر تخلیق میں اس کے چند ناموں کی اک مخصوص صلاحیت جمع ہے. ہمیں خود وہ صلاحیتیں پہنچاننی ہیں تاکہ ہم اپنے منبع خیال سے اس تک پہنچ سکیں ..اللہ تک پہنچنے کے لیے، خود پہ غور و فکر کرنا لازم ہے. میں کس لیے پیدا کیا گیا؟ میرے اندر کونسی صلاحیتیں ہیں ...یہ صلاحیتیں ہماری گہرائی میں چھپی ہیں .. اس کے لیے ہم میں گہرائی کا پیدا ہونا ضروری ہے ...اللہ کا تصور یا تصوارت ہمیں درون میں ابھارنے ہیں تاکہ ان احساسات سے اللہ کو ھو الشاھد سے ھو الشہید تلک کے مراحل تک جان سکیں.

اللہ پاک نور ہے..سورہ النور میں اس نے یہی فرمایا ہے کہ 
اللہ نور السماوات والارض 
اللہ آسمانوں زمین کا نور ہے 

نور کیا ہے؟ نور مثبت سوچ ہے ..مثبت سوچ احساس تشکر سے ابھرتی ہیں، یہ اسکے امر میں راضی رہنے سے ابھرتی ہے، یہ قربانی،  ایثار،  رواداری جیسے جذبات سے پنپتی ہیں  ...اس نور کو ہم خود میں خود پیدا کرسکتے ہیں اگر اسکے دیے گئے غموں پر راضی ہوجائیں اور اسکی دی گئ نعمتوں کے بارے میں سوچنے میں زیادہ وقت صرف کردیں  .. 

دلوں میں نور کا پیدا ہونا اس بات پر شاہد ہوتا ہے کہ ہم نے اللہ کی سوچ /تخییل سے خود کو ملالیا ہے. یہ گہرائی کا پیدا ہوجانا خود انہماک پیدا کرتا ہے. قران پاک میں جگہ جگہ ہمیں غور و فکر کی ہدایت کی گئی ہے.    ہمیں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ ماسوا ایمانیات کو نکال کے غور و فکر چھوڑ دو. بلکہ یہ کہا گیا کہ ہر بات میں آیت ہے، ہر چیز اسکی نشانی ہے. ہمیں اسکی کائنات کی ہر شے سے اپنے ساتھ ربط پیدا کرنا ہے ... 

ربط پیدا  کس طرح کیا جاتا ہے؟ ہم کبھی درختوں کے پاس بیٹھ کے سکون محسوس کرنے لگتے ہیں تو کبھی ہمیں غاروں میں سکون ملنے لگتا ہے، غرض اس کی جتنی آیات ہیں ان سے سکون کا رشتہ تلاشنا ہے. انسانوں سے انسانوں کا ربط بھی اس سکون کے رشتے تلاشنے کی غرض سے ہونا چاہیے 

جب ہم مظاہر سے ہوتے،  اسکی آیات سے ربط پیدا کرتے قران پاک پڑھتے ہیں تو اسکے کلام سے ہمارے اعمال سیدھے ہونے لگتے ہیں،  احکامات کو عمل کرنے میں آسانی پیدا ہونے لگ جاتی ... ہمارا مقصد حیات یہی ربط ہے، یہی آسانی ء عمل ہے، یہی سوچ کا سوچ سے ربط ہے ..یہی قران پاک پڑھنے کا طرز ہے جو مومن کے درجے پر فائز کردیتا ہے

نور سعدیہ

Zafar Iqbal

آپ کے سوال کا جواب

آیات ‏کوثر ‏۶

انجیل مقدس میں لکھا ہے ہاروت ماروت جادو گر تھے،  یہی بات قران پاک میں موجود ہے،  مگر ان دونوں باتوں کے پہنچانے کے حوالے بہت مختلف ہیں .. صدیوں کے بعد اگر دیکھا جائے تو بس دائرے مختلف ہوگئے ہیں مگر بات وہی چلی.آ رہی ہے .... پیغام پہنچانے والے پیامبر مختلف ہوگئے جبکہ پیغام وہی اک ہے ....

جب سیدہ بی بی  زہرا(سلام ان پر، درود ان پر)  نے اس دنیا میں تشریف قدم کیا تو ان کا نور   بہت مقدس تھا، بہت مقدس ہے اور تا ابد مقدس رہے گا ...   آسمان سے انجیل مقدس کی سے قران پاک تک جتنی پاک روحیں سیدہ بی بی مریم کی پرتو،  عکس تھیں ...

ان سب نیک ارواح نے  سیدہ بی بی فاطمہ امِ ابیھا(سلام ان پر، درود ان پر) کے سینہ مبارک سے  اتصال کردیا تھا، یہ خالق کی حکمت کہ آیت کوثر بحوالہ سیدہ فاطمہ ازل سے ابد تک جاری و ساری ہیں.   چاہے وہ مصحف داؤدی تھا،  چاہے وہ مصحف ابراہیم کی آیات ہوِ  چاہے وہ یوحنا کی مقدس بابرکت روشنی ہو  یا وہ جوزف کی خوبصورتی تھی ...ان سب کو حُسن، نور، روشنی،  علم،  معرفت اس پاک مقدس نور سے ملی 

 قران پاک میں اس کا ذکر خیر کیا گیا ہے،  نفس مطمئنہ پر قرار پانے والی روح سیدہ پاک بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ ...  اس وقت  تمام رواح اس نوری ہالے میں جو  داخل ہوئیں تو  سب کو  سیدہ فاطمہ  الزہرا علیہ سلام کا سایہ مل.گیا

وہ جو عفو کی مثال ہیں، وہ فاطمہ کمال ہیں 
انہی سے ملا اوج نور کو مقام ھو تلک 

  حضرت موسی  علیہ سلام کا جلال اور  حضرت عیسی  علیہ سلام کا جمال ہو ...اسکی نمود ہوئیی حسنین کریمین مین  ان روشنیوں نے ان ہستیوں میں کمال پالیا

حسن و حسین علی کے چمن کے لالہ زار 
انہی سے نکلے موسی و عیسی جیسے بار بار 

جلال حضرت  حسین علیہ سلام کے لیے تھا جبکہ جمال  حضرت حسن علیہ سلام کے لیے لکھ دیا.گیا

وہ ‏تو ‏آتے ‏دن ‏کی ‏جھلک ‏ہے ‏

وہ تو آتے دن کی جھلک ہے 
یہ جو میرے دل میں چمک ہے 
وہ تو شہ کا ساتھ کمال ہے 
گزشتہ شب سے جو یہ حال ہے 
ان کی نسبت تو خود وحی ہے 
گویا ذات حق ان میں جلی ہے 
لبِ دل کو چوم کے نام لیا ہے 
اچھا اک میں نے یہ کام کیا ہے


علی ہستی، علی مستی، علی قبلہ
علی مندر، علی مسجد، علی کعبہ  
صحیفہ بھی،  وظیفہ بھی، طریقہ بھی  
وہ آیت.بھی، روایت بھی، شہادت بھی 
سخاوت بھی، شجاعت بھی، ولایت بھی 
علی.قاری، ، علی واجد، علی ساجد 
علی طاہر، ، علی صامت، علی واحد 
علی بیدم،  علی    سعدی ،  علی جامی

علی امانتوں کے امیں بنے تھے اسری کی شب 
علی رسول کے بنے خلیفہ تھے اسری کی شب



بہروپیا

اک بہروپیا گاؤں کے پاس رہتا تھا. اسکا کوئی مستقل گاؤں نہیں تھا ..وہ جنگل جنگل ہوتا اک  گاؤں سے دوسرے تک چلتا رہتا ... ہر گاؤں میں اس کا بہروپ مختلف ہوتا تھا.  پہلے پہل اس نے حکیم کا روپ دھارا اور حکمت کے بلحاظ سارا لٹریچر جنگل میں جڑی بوٹیاں دیکھتے سمجھتے گزارا کیا ... بہروپیے کی آنکھوں میں ہمیشہ سرمہ ہوتا تھا. اور لوگ جب اس کے گرد اکٹھے ہونے لگے سوالات بڑھنے لگے تو اس نے دوسرے گاؤں کا قصد کیا ... گاؤں والے جدید دنیا سے بہت پیچھے تھے. اس لیے یہاں اپر اس نے اک درویش کا روپ اختیار کیا ... اس کو اتنا کچھ ملنے لگا کہ بنا ہاتھ پار مارے کام.بننے لگا .... مگر وہ یہاں سے بھاگنے کے چکر بنا رہا تھا تو ولی صاحب کے نرعے میں پھنس گیا 

اک دن دوپہر کا وقت میں چائے کی چسکیاں لیتے اور کھانے سے ہاتھ صاف کرکے لمبا سا ڈکار مار کے وہ بیٹھا ہی تھا کہ ولی صاحب نے آکے اسے گھورنا شروع کردیا ..

بہروپیا چونکہ جانتا تھا کہ ولی صاحب کی آنکھوں میں خاص چمک ہے تو اس نے اس سے بچنے کے لیے نعرہ لگایا 

حق اللہ حق ھو 

ولی صاحب نے کہا وہی ستارہ شعری کا رب ہے ... تو مان جا اب 

بہروپیے کو جوش چڑھا اک زور دار نعرہ لگایا 

حق علی حق علی 

ولی صاحب نے اس کو بغور دیکھا اور ساتھ اک نعرہ لگادیا 

اللہ اکبر سچ جھوٹ کو نکل لیتا ہے 

ولی صاحب نے کہا یاد کر جب عصائے موسی نے ان سانپوں کو نگل کیا تھا 

بہروپیا بدل گیا. اسکا دل بدل گیا اور اس نے نعرہ لگایا 

حق!  وہ ستارہ شعری کا رب ہے 

ولی صاحب مسکرانے لگا اور کہا کہ اب اگلے گاؤں بہروپ بدل کے جانا.    

بہروپ بھر کے پھرتے ہیں دیوانے 
چلتے ہیں شانے ملانے

دوست ‏نے ‏چھیڑا ‏راگ ‏

دوست نے چھیڑا ہے راگ،  کردی ہم سے ساز باز، نم آنکھ سے کُھلا راز، ہم نہیں تھے، وہ تھا پاس پاس. رُلا ڈالا یار نے ہمیں جان لیا کہ راز میں راز رہا تھا.  شمع سے نروان لینے چلو، چلو نروان مہنگا ہوجانا!  اٹھو!  اٹھو!  اٹھو کہ مندر سونا نہیں ہے!  اٹھو کہ وہ ہم اسکا کھلونا نہیں!  وہ ہماری رگ رگ میں پکار رہا ہے کہ شام الوہی الوہی ہے

رات کا سونا پن کس نے دیکھا تھا رات چلی محبوب کے پاس، محبوب نے جان لے لی کہ جان تو باقی تھی. جب قطرہ قطرہ نیچے گرا تو کہا

اشھد ان لا الہ الا اللہ

حق کی شہادت تھی، وہی لگا ادھر ادھر ...حق نے آواز لگائ ..سن!  من نے کہا کہ  کس نے کہا، سن!  یہ زمین ہلتے ہلتے بولی کہ سن!  یہ جو مٹی ہے بکھر کہ کہہ رہی سن!  یہ جو کاسنی بیلیں ہیں، لہر لہر کہ لہکتے کہہ رہی ہیں سن!  سن!  سن !

ارے ہم کیا سنیں ریں!  بتا تو سہی!  کیا سنائی دیا نہٰیں کہ حق جلال میں ہے!  حق نے کہا تھا ساز الوہی یے! حق نے کہا تھا چشمہ الوہی ہے حق نے کہا تھا عشق کی لا ضروری ہے
تب سے ہم نے دیکھا کب تھا مڑا کے پیچھے!  جا کے بیٹھ گئے اس کے در پر!  درد در اقدس پہ بَہا نا کیونکہ حق تو ہی تھا درد،  درد نے ہم کو حق کی گواہی سے ملا دیا. خون کا قطرہ قطرہ شہادت سے شاہد ہوا ..حق میں صامت ہوا

یہ کیا کیا ہے!  یہ ہم کس نگر چل دیے ہیں!  یہ سازش کس ستار کی ہے!  یہ آگ آگ سی ہے جو ہم نے ہاتھ میں اٹھا رکھی یے!  یہ کشتی کیا ہے جو چل رہی اور اسکا سفینہ فلک تک چلا گیا گویا فلک خود زمین پہ آگیا ہے

عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت کا حال ہے 
عشق سرمہ ء وصال ہے 
عشق کے بازی کھیلو یم.سے

ہم.تو عشق کی لاگت میں مورے نین سے نیناں ملائے کھڑی رے!  عشق کی لاگی نے بجھائ نہ آگ،  جلا ڈالا جنگل سارا ..ہائے!  یہ ہوا حال کا حال! کمال چھاگیا ہے!  حال آگیا

ہم تو مجنون تو تھے نا رے!  ہم تو لیلی کی مانند حسن میں شامل تھے!  اب ہم کہ فنائے حال میں کمال کو ہے! جوگی کو دیکھے کون؟ جوگن دیکھو سارے!  لوگ لوگ گئے شہر شہر بھاگن!  دیکھن کہ سبز سبز مور سے کیا ہے لاگن!  ہائے لگن کی چنز نے مار ڈالا ...مار ڈالا

ہم تو مرگئے!  ہم تو فنا ہوئے رہے!  چاہے لگن میں سایہ افگن وہ بالِ میم سے آشنائی کس فلک کی جانب گامزن کردے. ہم کو چاہت کے الوہی راگوں میں مگن کرنے والے پیا!  آجا!  دل میں سما جا!  آجا ہم سے نین ملا نا!  نین کی بازی کھیل نا!  ہم تجھ کو تو ہم کو دیکھ  کے جی لیں نا!  آ ہم سے کھیل!  یہ ہماری شوخ نگاہ ہے کہیں کھیل میں آگ پھیل نہ جائے!  جل جائے رے تو!  ہمارا من ہے تو!  ہماری آس میں جانے کس کس نے دیے توڑ دیے اور ہم نے تجھ کو اپنا دیا بنا دجا

فنائیت کا سوال لے گیا، کوئ ہم سے شرارت کرتا ہے مولا! بتا اس شرارت کیا کریں؟  آگ لگا دے!  آگ لگا دے!  آگ لگا دے!  جا ہم نے تجھ کو آگ دی!  جا کچھ ہم رکھیں گے، کچھ تری!  آگ لگنے لگی ہے چنز جلنے لگی ہے!  اووووو خوشبو پھیل رہی ہے

مدھم مدھم سی خوشبو نے سرمیٰ حال کردیا یے!  کاشانہ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وحی سے کمال کی جانب اترنے والے الہام سے پوچھو کہ کس جانب جانا ہے اب تو طیبہ والے بھی منتظر ہے کہ سوار کو سواری مل چکی ہے!  یقین کی کونسی منزل ہے جس کے سب گمان حق میں بدل رہے 

جھکاؤ نظریں سب!  ادب!  ادب!  ادب!  درود!  درود!  درود!  حد ادب!  سرکار کا جلوہ ہے!  درود حال دل میں مقیم عالی پناہ ہستی پر  ...حق درود کی واج سنو ..نئی منزل کا آغاز سنو!  شام سے رات کی مثال سنو!  اختلاف لیل نہار سے وصل و ہجر کے بار سنو!  خاموش!  حد ادب!  ذی پناہ موجود دل میں!
کیسی گواہی چاہیے تھی!
الوہی ذات سے منسلک چشمے ہیں سارے ...
کوثر سے منسلک ہیں پیارے ..
یہ جو کعبہ دل میں ہے اب یہ منبر بنے گا 
یہ جو حرا کی شام ہے، رات میں ڈھلے گی 
یہ جو نوح کا قصہ، اک نئے آغاز میں ملے گا 
یہ جو ماتھے پہ نور کا نشان ہے، یہی حق کی گواہی ہے 
حق کی گواہی ہماری گواہی ہے
کاتب دل  کو اور کیا چاہیے؟
یہ فیض نور سے جاری چشمے ہیں ..
نور ہم سے منسلک اک ایسا چشمہ ہے، جو ہمارے نگاہ میں شامل رہتے کاملیت پہ گامزن ہے ..
اور کیا چاہیے ...
حد ادب!  بندگی میں سرجھکا رہا!  بندی غلام! شکرانے کے نفل ادا کرے گی!  حبیب نے کیسے یاد کیا ہمیں!  زہے نصیب!  زہے نصیب!  زہے نصیب!
نیلم کی کان ہی تمھاری ہے، کان کنی تم نے خود کرنی ہے!  ہم نے تم کو ایسے جبل کے لیے منتخب کیا ہے!  یہ تمھارا دل ہے جو نیلا ہے! اس کو سرخ ہم کریں گے!  حسینی لعلوں سے ...
رکوع!  رکوع!  رکوع ...
آقا جاتے ہیں .. آقا جاتے ہیں!  آقا جاتے ہیں ...
سر نہ اٹھے، مقام ادب ہے!  سر نہ اٹھے!  نہ نہ ...خاموش ...درود!  حد ادب!  خاموش!  درود!  د: دل کا جلا ہے،  یہ رات کا ڈھلا ہے، یہ شامی لباس ہے، یہ خونین پوشاک ہے!  یہ حسن کی یلغار ہے،  یہ روشنی کے لیل و نہاز ہے! یہ مصر کا نیل ہے،  یہ احرام دل میں آیت مقدس کی تلاوت ہے، دل صامت ہے، روح کو چاہیے لباس برہنگی، رکھ لے آس کی تلوار ننگی، شام سلونی ہے، رات نورانی ہے اور جھک کہ کہہ رہے 
.

رنگ لگا دے اور 
چنر بڑھا دے اور
دل کا وضو کرایا 
جلوہ کرادے اور.
چنر کی لاگن ہے 
سہاگن یار دی 
دل دیاں صداواں 
آجا ماہی، بے کول 
دل مرا وڈا انمول 
ساڈا دل رولیا گیا
آہاں وچ تولیا گیا 
فر تو ایڈ اچ آیا 
ھو دا ساز وجایا 
وجی تری ھو دی تار
الف دی گل کریندے آں
شام سلونی ویندے آں
ساڈا پیر مصطفی سائیں 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
وزیر جس دا علی سائیں 
مورا رنگ اچ تُواِں ویکھن

ماہی نے تماشا لایا اے
کنگنا پایا سی 
لہو گرمایا سی
شام سلونی سی
اکھ من موہنی.سی
اکھ ہن رکھ میڈے تے
ویکھدا رے میڈا رقص
ہر حرف اچ علی دا عکس
ہر صدا وچ ھو دا سج دھج
ہر رنگ میڈا محمد کریندا اے
جوگن کیتا مینوں تیڈے عشق نے

کنگنا پایا سی،
شہنائ وجی.سی
رات لگی سی 
شام کتھی گئ 
الف اللہ دی آئ 
ایہہ ساڈی کمائ
لائ وی گئی اے
نبھائ وی گئ اے

جمادی الاول اے 
جمادی الثانی اے
شام دی کہانی اے
لام صدا آنی ہے 
مک جانیاں آساں نے
دور ہونے انیرے نے
ساڈے کول اجیارا اے
ساکوں مار بھگایا سی 
لوکی کہون کملی اے 
یار دی کملی پائی سی 
کملی یار دی! کملی یار دی

قدسی اترن ویلا اے 
نوریاں دا لگیا.میلا اے
لحمی وار دی بانگاں! ھو!
اقصیٰ دا نمازی کہوے! ھو
شام سلونی اے!  ھو 
رات من موہنی اے!  ھو

کاجل لگیا سی 
آنکھ وگی سی 
رات رسی سی 
او ویکھدا سی
فلک.اترا سی 
دل اچ میلا سی
دل نور و نور سی 
دل ہویا طور سی
کون مخمور سی

راگ چھڑیا سی 
لہو دی صدا سی
الا اللہ الا اللہ 
ھو ھو ھو ھو ھو
ہتھ دی کچ دا سوال
نہ پچھ میڈا حال 
ذات میڈے اچ اے 
ذات دی ذات دا حال 
ہن تے ملیا مینوں کمال

دہست دے سائے سن!  روٹی کھاون آئے سن!  گولیاں چلیاں سن!  شاہد بنیا کون؟ شہید ہوئے سن!  وضو کیتا سی!  اکھ روئ سی!  دل جلیا سی!  اگ وی لگی سی!  طور تے نور دا ڈیرا سی!  طور چلیا سی اڈدا اڈدا طیبہ جانب!  طور نے دسیا سی! جلال ساکوں ڈسیا سی! حال دا حال گیا سی!  موتی سیپ توں نکلے سن!  آہاں دا بالن کڑاہڈا پیا!  ایہہ کیہٍڑا منڈا پجدا اے!  ایڈ دے پچھے لکھیا اللہ ھو!  پکڑو اینوں

کچ دی لاج دا سوال ہے ہائے میرا دل میرا دل!  میرا دل

دل کا حال تجھ کو بتاتے ہیں ،راز سر تا دل تجھ کو بتاتے ہیں، سِر نہاں!  تہہِ جامہِ دل پنہاں!  تو .... تو ... تو ...گُم ہوتی ذات میں موج کی صدا میں تو،  دریا تو! بحر تو! نمی نمی!  بوند بوند دل پہ گرے! بوند کی صدا میں تم! شبنم نے ہرا گھاس تازہ کردیا!  تازہ تازہ شبنم میں تو! میرا عشق! 

نعرہ سبحانی 
میرا عشق!  نعرہ کمالیہ 
میرا عشق! نعرہ جلہ جلالہ
میرا عشق!  تارِ وجدانی ھو
میرا عشق! عکس روحی ھو
میرا عشق! بُوئے گل ھو

میرا عشق! گلِ قدسی ھو!
مشک و کافور .. ھو!  
گلِ صندل ھو!  جامن جامن میں کاسنی رنگ ھو!
میرا عشق! ھو کا ساز
میرا عشق!  الوہی راگ 
میرا عشق!  عکس آئنہ جات
میرا عشق!  اویسی ھو 
میرا عشق! بلالی ھو!
میرا عشق!  صدق صادق صدیقی  ھو!
میرا عشق!  خیبری تلوار کی دھار!  ھو 
میرا عشق!  جلالِ عمر کی شان سے نکلی بوند!
میرا عشق!  رنگِ لوح قرانی!  ھو
میرا عشق!  صبح کی کہانی!  ھو 

میرا یار!  اللہ ھو!
میرا ستار!  اللہ ھو!
میرا قہار!  اللہ ھو 
میرا قدسی!  اللہ ھو!
میرا سامع!  اللہ ھو 
میرا قاری!  اللہ ھو!
میرا ہادی!  اللہ ھو!
میرا مسجود!  اللہ ھو!
میرا قبلہ!  اللہ ھو!
میرا نور!  اللہ ھو!

میرے یار دی یاری نے کمال کردتا!  سبحان تے سبحانی حال کردتا!  میں موج سا، مینوں کمالی کردتا!  مینوں حال اچ جلالی کردتا!  مصور میکو کمالی.کر دتا

 دوست نے چھیڑا ہے راگ،  کردی ہم سے ساز باز، نم آنکھ سے کُھلا راز، ہم نہیں تھے، وہ تھا پاس پاس. رُلا ڈالا یار نے ہمیں جان لیا کہ راز میں راز رہا تھا.  شمع سے نروان لینے چلو، چلو نروان مہنگا ہوجانا!  اٹھو!  اٹھو!  اٹھو کہ مندر سونا نہیں ہے!  اٹھو کہ وہ ہم اسکا کھلونا نہیں!  وہ ہماری رگ رگ میں پکار رہا ہے کہ شام الوہی الوہی ہے

حق کی شہادت تھی، وہی لگا ادھر ادھر ...حق نے آواز لگائ ..سن!  من سے کس نے کہا، سن!  یہ زمین ہلتے ہلتے بولی کہ سن!  یہ جو مٹی ہے بکھر کہ کہہ رہی سن!  یہ جو کاسنی بیلیں ہیں، لہر لہر کہ لہکتے کہہ رہی ہیں سن!  سن!  سن !

عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت کا

زمین ***

جب زمین کو افلاک کی گردش میں رکھا گیا تھا،  زمین کے دس ٹکرے ہوگئے.  کچھ آنسو تھے تو کچھ خون تھا، مل کے بحر کی شکل اختیار کرلی ... ہر ٹکرا مکمل کائنات تھا مگر ایک ٹکرا ارض حجاز کا نکلا ...مقدس، پاک،  الوہی چمک سے بھرپور .... شمس نے جب اس پر اپنی آب و تاب دکھائی تو صفا کے سارے جبل مثل طور ہوگئے مگر نہ تو کوئی پہاڑ زمین  بوس ہوا،  نہ کوئی زاہد مدہوش ہوا بلکہ یہ شعور کی زمین تھی!  جس میں دیوانگی کا کام نہ تھا!  اس خمیر سے عرق نیساں سے نمو پاتا گوہر نکلا جس پر جب فلک کی نگاہ پڑی تو  وہ کھو گیا!  یہی وجہ تھا زمین کا فلک سے رشتہ جڑ گیا!  

وہ ارض.حجاز کی.سرزمین جس کے سر پر سرمئی گگن!  
بارش کا موسم نہ تھا مگر خوب جل تھی!  
بہار کی بات نہیں ہوئی تھی مگر لالہ و گل اپنی.چمک دکھا رہے تھے!  
قران پاک اس ارض مقدس میں ماہ رمضان کو اترا تھا!
یہیں پر مبارک،  پرنور ہستی مانند نسیم جو محمد صلی اللہ علیہ والہ.وسلم ہیں .... باطن سے ظاہر میں  موجود آئی ...... وہ عملی قران ....دین تھا گویا مکمل ہوگیا ...... 

اس زمین میں.بہت سے راز تھے، جس کا ایک ٹکرا مقامِ کوفہ تھا!  کربل کا میدان سجا تھا!  سرخی زمین دیکھ کے فلک اشکبار تھا!  زمین اتنی نرم، گداز تھی کہ جیسے  کہ سرخی ء محشر کا پتا دے رہی ہو!  

راز کی باتیں!  
داستانِ کربل 
دل پکارے یا حُسین 

پوچھیے خود سے قربانی کی اصطلاح؟  امام عالی نے حج کیا، مگر اے دل کہاں کیا؟  کربل کے زمین پر سجدہ ء تسلیم اداکرتے، جب  زبان پر آیت سجدہ جاری تھی!  تکبیر پڑھی!  اللہ اکبر!  آپ کی قربانی معتبر ہوگئی!  یہ حشر کی زمین ... جس پر گگن کا سایہ تھا! جس کے دیکھ ابر مسکرایا تھا!  یہ حجازی سفر کی داستان ... زمینیں مقدس ہوگئیں!  قربانی مقدس کرگئی!  

اے دل کبھی حج کیا؟
میں نے کہا کہ نہیں 
اے دل کبھی قربانی دی
میں نے کہا کہ جان نہ دی بس 
اے دل داستان کوفہ ہے!  
داستان حجاز ہے!  داستان کربل ہے!  
قربانی کی ابتدا سے منتہی!  
زمین ِِ شام سے زمین کوفہ تک!
حرف اول کو بقا مل گئی تھی 
حرف آخر کا راز کھل گیا تھا!  
جبین نیاز میں رہی تھی!  
قصر دل پر اک نور کا ہالہ تھا.
یہ اشک .. اشک ... یہ دھواں 
یہ سب نیا ہے ...یہ سب نیا ہے 
بقائے ہست فنائے ہست سے ملی 
نور کی نشانی وجود میں رہی 
زندگی سبب میں مگر رہی 
قرار نہیں!  ہجر ہے!  ضرب!  
اے دل کتنی ضربیں باقی ہیں؟  
جب تک پگھل نہیں جاتی شمع 
اے دل کچھ تحفہ زمین کا بتلا 
جھک جا!  آئنہ زندگی میں ملے

اے دل رک جا!  یہ میرے محبوب کی زمین ہے! دل کہاں رکا اور چل دیا اور مسجود ہوگیا صحن حرم میں!  ساجد کو طواف کا ہوش نہ رہا!  مسجود زمین پر،  ساجد کا کلمہ ء حق نکلا!  خون تھا کہ جاری ہوگیا!  پوچھیے خون کہاں سے تھا!  داستان کربل کا!  یہ خون،  یہ شمع!  یہ رفعت!  یہ کہانی!  یہ تو معراج ہے!  روشنی تیرا مقدر!  روشن تری تقدیر!  فکر ہست کر!  فکر دین کر! فکر کر جو فرش پر رہتے تکبر نہیں کرتے!  فکر تو کر ان کو جن کو عرش پر بھی تکبر نہیں!

کلام ‏کرلیا ‏مگر ‏تشنگی ‏باقی ‏رہی

کلام کرلیا مگر تشنگی باقی رہی 
پاس ہو کے بھی پاس نہیں 
دل میں ناامیدی و یاس نَہیں 
اچھا اگر پاس ہو میرے تو بتاؤ میں کون ہوں 
میں جانوں یا نہ جانوں، تم تو جانتے ہو 
اچھا جب ہوا بجھا دے چراغ تو کیا ہوگا 
بتاؤ تو جب رات میں گلاب بکھر جائیں تو کیا ہوگا 
یہی نا کہ طوفان کشتی کو سفینے نہ لگا سکے گا؟
یہی نا کشتی کا سفینہ تم تو ہو نا 
پھر تم کتنے دور ہو 
نہیں تم قریب ہو 

میں ہر لمحہ قرب کے احساس سے جلا دوں 
بجلی شوخ ہو تو آگ بڑھا دوں
ستم نوک سناں دیے ہیں تو یاد کے نام بڑھا دوں 
دوری نہیں. احساس یے 
پیار تو ہے مگر فراق ہے 
وصل شیریں کا احساس تو ہے

دم ‏دم ‏میں ‏کون ‏؟ ‏پارٹ ‏۱

دم دم میں کون؟ پارٹ ۱
صبح کی نمود میں، صبا کی کھلیں قیود، دیکھ برگد میں سجود،  ہر شے میں شہود، آیت دل پر صعود، نور تارِ حریر ریشم میں جمود،  رشک دیکھ، دیکھ مرا وجود ..پتی سے شبنم کی نمود،  آیت آیت سورہ ھود .... 

زتاب ہجراِں کو، 
ز شوق وصلت کو
، سنائیں گے ہم اپنی بتیاں ... چوں دل گدازی،  
چوں روایت سازی،
  چوں قوت پروازی
چوں شوق دستاری 
داستان سناتے ہیں 
بود نبود میں تو موجود 

خُدا نے جوڑا بَنایا 
وصلت، ہجرت کا
آب وصل میں بود اسکی 
دشت ہجرت میں غیبت اسکی 
دشت ہجرت میں آدم کو لا پھینکا 
خود سے آدم،  آدم سے حوّا کو نکالا 
درد جُدائی والا، مار ڈالا 
روگ کے تیر دل میں 
برچھیاں بھالے دل میں 
دل بھی کیا شے،  اس نے بنائی 
درد کی کائنات خوب ہے بنائی 
ہجرت خدا کی،  روئے بشر 
ماں کی شدت،  روئے پسر 
لحظہ لحظہ مامتا کے دکھ بڑھائے گئے 
جن و انس تخیلات میں بہلائے گئے 
کُن سے نفخ،  ہجر نہیں مانگا تھا 
ماں تیر جدائی والا نہیں مانگا تھا 
ماں تیری دوری نے مار رلایا تھا 
نہرِ  فرات سے وضو کرایا تھا
مصر کے اہراموں میں ڈھونڈا تجھے 
ہیکلِ سلیمانی میں تلاشا تجھے 
دعاؤں میں مانگا تجھے،  
آنکھوں میں سجایا تجھے،
پھریوں ہوا کہ .....
پیاس بڑھانے کو دو بونڈ ٹپکائے گئے 
دشت جدائی میں یوں آزمائے گئے 
نہ سسک سکے،  نہ بہل سکے 
ز امید وصلت،  قطرہ قطرہ میں پائے گئے 
ملنے سے پہلے، ملن فسانہ تھا 
دوری بھی کیا، وہ تو بہانہ تھا 
تو حقیقت ہوئ، میں ترا فسانہ 
بعد وضو، یہ گھر ترا آشیانہ ہوا 
منم گفتم؟  گفتا توئی 
منم روشنی؟ روشنی توئی 
آب وصلت اور ہجرت کے بین بین 
یوں رہی کہ روئے نین نین 
میری کہانی پر فلک بھی رو دیا تھا 
زمین پر اس نے سیلاب دیکھا 
از وقت سیل نا مہربانی، تری مہربانیاں 
در کھلے،  در بند ہو،  
آہٹ آہٹ میں تو ہے،  
رزم حق و باطل میں 
بصورت تیغِ حیدری، تو موجود 
بصورت تیری، خدائی کی نمود 
بہ مثل زہرا تری صدا ہے موجود 
بہ مثل مریم، ترے قدسیوں کا ظہور 
بہ مثل یوسف،  رائی رائی میں دل پذیر
بہ شکل ابراہیم،  بہ شکل صدیق 
،صدق میں،  قربانی میں خیال ترا گردش میں
خلیفہ الارض کی شاہی میں ترا شمول 
بہ تاب ہجر کو درد بڑھا دیا ہے 
حسن احمد کو جوں جوں دکھا دیا ہے 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم

 بار بار سجدہ کرتی ہوں کہ لگتے ہے سامنے تو ...  نگاہ، روح، زبان، تن کے سجدے.... تری اداؤں سے گھائل پیا رے .... سکھ دکھ میں من مورا تری لاگے رے .... سچ مورا کسی کہانی سے نکلا ہے. سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام 

دم دم دم میں تو ...دم دم دم میں تو 
روم روم میں تو ...روم روم روم میں تو 

پانی دھارے سے نکلتا ہے، موج آفتاب سے،  دل نقاب سے اور زیر زمین واصل ہوتا ہے تجھ سے ملتا ہے ... 

اک ورد دم دم ہے،  دم دم میں توئی توئی 
دما دم دم کہ دم دم میں ساز ہست تو 
دما دم دم کہ دم  دم میں راگ نگر تو 
دما دم دم کہ دم دم میں خوشبو کا دریا تو 
دما دم دم کہ دم دم میں بارش کا بہتا پہنا تو 
دما دم دم کہ دم دم میں رکوع کا سکوت تو 
دما دم دم کہ دم دم میں آنکھ کا وضو تو 
دما دم دم کہ دم دم میں روشنی میں  اسکندر تو 
دما دم دم کہ دم دم میں محبت میں قلندر تو 
دما دم دم کہ دم دم میں جود و کرم کا اظہار 
دما دم دم کہ دم دم میں شیریں ترا گفتار 
دما دم دم کہ دم دم میں مستی کا خمار تو 
دما دم دم کہ دم دم میں نیستی کا راز تو 
دما دم دم کہ دم دم میں کامل ذات تو 
دما دم دم کہ دم دم کے نور میں شامل تو
دما دم دم کہ دم دم میں اللہ کی برہان 
دما دم دم کہ دم دم میں شاہ ولا کا احساس 
دما دم دم کہ دم دم میں روشنی کا آبشار تو 
دما دم دم کہ دم دم میں روح کا نکھار تو 
دما دم دم کہ دم دم میں رکتے خون کا فشار تو 
دما دم دم کہ دم دم میں لعل و یمن کے جواہر میں تو 
دما دم دم کہ دم دم سے نکلے دود میں تو 
دما دم دم کہ دم دم سے نکلتا ورود تو 
دما دم دم کہ دم دم سے نکلتا نور تو 
دما دم دم کہ دم دم کی صدا تو 
صورت صورت میں تو،

  رنگ رنگ میں  تو 
مے نوش ہوں تری شراب کی ساقی 
بادہ و مے سے اندھیرے سب ڈھلے 
صبح سے شام کریں گے ذکر ترا 
سو جائیں گے،  باقی رہے تصور ترا
میں خراب،  میں خراب، میں خراب 
مستی میں تیغِ عشق دل میں اتری ہے 
نیستی!  نیستی!  نیستی!  نیستی!  
میں نہیں، وہ مجھے ڈھونڈ رہا ہے 
میں نہیں،  ترے گھر میں تو ہے 
میں نہیں،  تو میخانہ، تو پیمانہ،
میں نہیں،  ترے قلم سے لکھوں تجھے
میں نہیں، تری صورت سے تجھے دیکھوں  
میں نہیں،  تری جبین کو تجھ پر جھکتا دیکھوں 
میں نہیں،  ترے کعبے کے گرد تجھے طواف میں دیکھوں 
میں نہیں، تو حجاب،  تو بے حجاب 
میں نہیں،  تری ہستی میں ڈلتی جاتی ہے شراب 
میں نہیں، ترے رستے پر چل رہا ہے تو خود 
میں نہیں،  تو غزل سرا،  تو غزل نوا 
میں نہیں،  تو نغمہ، تو ساز، تو دھن،  تو قوال 
میں نہیں،  تو درد،  تو گریہ 
میں نہیں،  تری آنکھ وضو میں 
میں نہیں،  تری رات جام و  سبو میں 
میں نہیں،  ترا جلوہ جا بجا 
میں نہیں،  تو عیاں، تو نہاں 
میں نہیں،  تو روشن،  تو اندھیرا
میں نہیں،  تو خواب و خیال 
میں نہیں،   تو سوال، تو جواب 
میں نہیں،  تو اظہار، تو ضبط 
میں نہیں،  تو ماہ،  تو آفتاب 
میں نہیں،  تو دل،  تو جان 
میں نہیں،  تو دید کرے خود کی 
میں نہیں،  تو جدا کرے خود سے خود کو 
میں نہیں،  تو ملائے خود کو خود سے 
میں نہیں،  ترا پیالہ ٹوٹا، پھیلا ترے آگے کاسہ 
میں نہیں،  تو گدا گر،  تو شہنشاہ 
میں نہیں،  تو عالمگیر میں،  تو اکبر میں  
میں نہیں،  تو فرعون میں تو ہی موسی میں 
میں نہیں،  تو ید بیضاء دل کا 
میں نہیں،  قران بنا سینہ ترا 
میں نہیں،  کعبہ بنا.سفینہ ترا 
میں نہیں، وادی ء حرا مقام ترا 
میں نہیں،  زمان و مکان کا ساتھ ترا 
میں نہیں،  ترا دل،  ترے کاخ و کو،  تری راجدھانی 
میں نہیں،  ترے گلاب،  تری خوشبو کے بادل 
میں نہیں،  تو کرے اللہ،  تو کرے ھو 
میں نہیں،  تو روح کی رگ رگ میں 
میں نہیں،  درچشمان وصلت کا مظہر تو 
میں نہیں،  دل کی اگنی میں تو 
میں نہیں،  من کی تری بتیاں سنائے رتیاں 
میں نہیں،  ہر جا میں تو تو

سر ‏زمین ‏حشر**

سر زمینِ حشر سے خاک کے پتلے کو ہّوا دے.  ... 
موتی سمجھے کوئی، آبِ نیساں سے جِلا دے.  ... 
شراب جاودانی ملے، درد ہجر کو ایسا مزّا دے 
اَحد کی زَمین سے جبل النور تک منظر نبوت دکھا دے 
حِرا ہی آخری مقام ٹھہرے، مسجد حرم میں جگہ دے 
میں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے معتبر 
اعتبار کی آخری حدّ تک پُہنچا دے ....
شام ہجر کی سحر میں پل پل وصل کا مزّا دے .... 
آہ!  وہ لطفِ چاشنی ....  مرگِ وصل میں، دکھ کا نشہ دے 
مئے عشق ہے! آسانی سے نَہیں ملتی ..... 
مسافت کی اندھیروں کو صبح نُو سے مِلا دے

اے شمشیرِ حق!  اے صدقِ ولایت!  اے آئینِ نو کی شمع!  اے دلِ حزین ملال سے پُر .... 

فضا میں خوشبو ہو، آنکھ میں نَمی ہو، عشق عَلی ہو، نورِ حُسینی کو کس بات کا گلہ ہے؟ شکوے کی آئین ساز ہستی کا کچھ گلہ باقی ہے؟

عَبد ہوں!  غلام علی ہوں! بندگی کا جوہر خاک میں بَسا دے ..... 

تقدیر لکھ اپنی! آیت شمشیر تلاوت کر! حق علی سے روشن کائنات کی ہر آنکھ، ہر جگ زَخموں سے نَڈھال،  ہر آنکھ شَرر بار.  ہر دل مشکبار ....کیا جلوہ  ء حق کا معکوس علی نَہیں؟  کیا تجھ میں امیرِ حیدر، شیر دِلاور کا گھر نَہیں؟
من کہ پُر بعشقِ علی .. من کہ مشتاق محمد ... 
ان گنت درود اِن عالی ہستیوں پر ....
من کہ عصیانم،  من کہ دردانم  ، من کہ بحرِ عشق میں غرق! موج وصل ایسے ہے، جیسے سمندر الوہی چراغ سے روشن ....

شاہا!  سیدی!  مرشدی! .یا نبی ...ان گنت درود عالی مرتبت ہستیوں پر
اپنی ضو سے زمانہ روشن کر .... 
نئی شام کے ماہتاب سے تجلی پا ... 
نئی صبحیں تارِ حریر ریشم کی ، نئے جلوے یقین کے ....
بگڑی بنتی ہے،  آنکھ دیکھتی ہے، مستی ء الست کا نشہ دائم جسکا جلوہ. احساس کا تلاطم برپا...
جام کوثر پلائیے، بادہ خوار بنائیے    ...سر زمینِ کربلا سجائیے، لہو درد لہو سلطانیاں، صلب در صلب سلسلے ....

سیدہ ‏فاطمہ ‏

جب نامِ فاطمہ زبان پہ آئے تو درود پڑھنا لازم امر. سورہ الاعمرن میں اللہ کا ارشاد ہے وہ صالحین پر درود بھیجتا ہے. تو صلحا، صاحب تقوی کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں نامِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ابتدا ہے، یہی نام انتہا ہے . ان کی توجہ کا مرکز خاتون جنت عفیفہ عالیہ زاہدہ پارسا متقیہ ولیہ جودو سخا کا مظہر، واجدہ، رافعہ، مطہرہ،  مومنہ،  صدیقہ رہیں اور رہیں.گی ... درود بھیجو ان پے 

صلی علی یا فاطمہ الزہرا 
صلی علی رحمتوں کا گنجینہ 
صلی علی قران کا خزینہ 
صلی علی  کشتی کا سفینہ 
صلی علی شمس الضحی کی دلاری 
صلی علی واجد الوجود ہستی 
صلی علی اوج بشری کا وظیفہ 
صلی علی ہدایت کی کان 
صلی علی حیا کی روایت 
صلی علی نوری ولا کی چمک 
صلی علی زوجہ شیر خدا 
صلی علی.شہیدوں کی ماں

فاطمہ!  کون ہے فاطمہ؟
حرمت فاطمہ جسم نہ جان سکے!

حیا کو پھر نہ جا سکے 
حیا ، تبسم ، حجاب سے خاص نسبت ہے انہیں 

حرمت فاطمہ کا ٹھکانہ روح ہے
نام فاطمہ لیا!
گویا عید کا سماں ہوا 

دیدار گر ہوجائے تو سبحان اللہ!
وہ عالی مرتبت ہستی 
دینے پہ آئیں تو خالی ہاتھ بھر جائیں. 

روح کے چھید سب بھر جائیں 
نورؔ کو خاص نسبت ہے سیدہ سے 
زاہدہ سے ،طاہرہ سے ، ام ابیھا سے 

نور کے دل میں پنجتن پاک کا نور ہے
جان لو!  پاک ہستی دو شہیدوں کو مادر ہیں 
پدر جن کے علی رضی تعالی عنہ ہیں 

جس کوثر کی بشارت رب نے کوثر کی صورت دی 
وہ فاطمہ رضی تعالی  ہیں 

اے فاطمہ!  نور حزیں 
آپ کی روشنی سے درز درز غار کا روشن ہو رہا ہے 
اے فاطمہ!  روشنی کیجیے!  اپنی تجلی سے منور کیجیے!


حجابِ اَزل کی سحر فاطمہ ہیں 
وہ رحمت کا جاری شہر فاطمہ ہیں 

شَہیدوں کی ماں ہیں محمد کی بیٹی 
وہ کوثر کی جاری نہر فاطمہ ہیں 

حَیا ان کا زیور، وفا ان کا تیور 
محمد کا ایسا فخر فاطمہ ہیں



سیدہ فاطمہ پہ بارہا لاکھوں کڑوڑوں درود،

یہ زات جن سے ہستی کی نمود 
یہ ذات جن سے اٹھی سب قیود 
یہ ذات جن سے مٹ گئیں حدود 
یہ ذات جن کا مجھ میں  ورود 
یہ ذات  ہیں عین کا عین شہود 
یہ ذات جن سے ہستی کی لذات 
یہ ذات جن پہ بھیجا گیا درود 
یہ ذات فلک سے نور کا صعود 
یہ ذات جن سے ملی نعمتِ سجود

رحمت ‏بنا ‏کے ‏بھیجے ‏گئے


رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کمال کے اخلاق والے انسان... مالک نے فرمایا 

وما ارسلنک الا رحمت للعالمین 

عالم کیا ہے؟ آپ کی عالم کے بارے میں رائے کیا ہے؟  عالم جہان کو کہتے ہیں. ہم کہتے ہیں کہ خوشبو کا جہان،  رنگ و بُو کا جہان، علم کا جہان، شوق کا جہان  ...نور کا عالم ..نور کا مقام .. نور کا جہان. آپ دیکھیے کہ جہان کے کتنے وسیع معانی ہیں ... تو یہ جہت بلحاظ دل کے ہیں. دل ان تمام جہانوں کو سموئے ہوئے ہے.  کائنات کا دل ایک ہے جیسا قران پاک کا دل سورہ یسین ہے اسی طرح کائنات کا دل تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں .... اللہ نے بندے سے کہلوایا ہے کہ کہو 

الحمد للہ الرب العالمین 
اور پھر گواہی دی 
وما ارسلنک الا رحمت للعالمین 

ان دو آیات میں عالمین کی بات کی گئی ہے ..تمام کائنات کا دل رحمت ہے وہ رحمت للعالمین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں صاحبو!  غور کرو کہ پہلے رب اپنی پہچان کراتا  ہے تو ساتھ کہتا کہ اب نبی کی پہچان یہ ہے کہ وہ رحمت ہیں. اس قران عظیم میں تمجید کی مانند چمک رہی یہی آیت. اس آیت کو چوم لو اور پکڑ لو ..  یہ آیت گواہی ہے کہ اللہ کے عالم پہ حاکم ہونے کا جس نے شکر ادا کیا تو اس کو رحمت تک رسائی مل گئی. اے زمانہ جو دل ہے، اے زمانہ جو جانِ دل ہے   تو سن لے دل کی بات ہے رحمت کے اوصاف ... رحیم کسے کہتے ہیں.  قران کریم میں رب کا فرمان ہے 

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَا تَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَـكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۗ وَا للّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
"اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے"

اللہ پاک نے عالمین کی رحمت کے لیے فرمان دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کرو ..تم کو وہ جود و کرم کے فیض سے نوازے گا.  نہ معاملہ صرف رحمت کا بلکہ درگزر کا معاملہ ہو جائے گا    تو رب کی اطاعت کے بعد محبت ملتی ہے. اقربیت کا یہ مقام کیسے ملے؟  پہلے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت اور ان سے محبت ضروری ہے. جسکو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اطاعت کی استطاعت نصیب ہو جاؤ انہی پہ فیض کے چشم و کرم کیا جاتا ہے ... تو صاحبو عہد کرلیں کہ ہم محبت پاکے رہیں گے تاکہ دیدار کا وہ مقام جس کے لیے اللہ نے فرمایا کہ نحن اقرب ... ہم جبل الورید سے قریب ہین تو یہ قربت محسوس کیوں نہیں ہوتی ..راستہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اپنایا نہیں جاتا ہے ... جس نے اطاعت کی اس نے محبت پائی ..پھر رب فرماتا ہے کہ 

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَا عْفُ عَنْهُمْ وَا سْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى الْاَ مْرِ ۚ فَاِ ذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْ
نَ
"(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں"

اللہ کی رحمت و کرم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پے یہی ہے کہ آپ کا دل کشادہ ہے ...تنگ دل میں نرمی کی گنجائش! اے مری جان! اے مرے دل تو سن کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دل کی زمین اتنی کشادہ ہے کہ تمام عالمین(ارواح)  آپ میں موجود ہیں.  اسی واسطے ہم کیا آنے والی ہر روح اور گزری ہر روح کا ان سے ربط ہے. ان سے ربط کا احساس مستحکم تب ہوگا جب تک اطاعت نہ کی جائے. آپ کے دل میں تمام عالمیں کی جگہ ہے تو آپ کی رحمت سب پہ برابر ہیں. تو آؤ آج جھولی پھیلاتے اطاعت کی دعا مانگے تب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت خدا تک پہنچا دے کہ خدا تک کامل رسائی فقط محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علاوہ کس کو حاصل ہے ...واعلیکم اسلام 
خوش رہو

میثاق ‏نبوت

السلام علیکم 
بسم اللہ الرحمن الرحیم .... 
میثاق نبوت 

وَاِ ذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَا قَ النَّبِيّٖنَ لَمَاۤ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَـتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَـتَـنْصُرُنَّهٗ ۗ قَا لَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَ خَذْتُمْ عَلٰى ذٰ لِكُمْ اِصْرِيْ ۗ قَا لُوْۤا اَقْرَرْنَا ۗ قَا لَ فَا شْهَدُوْا وَاَ نَاۡ مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ
"یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا، کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ اُنہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ نے فرمایا، اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں"
(S. Ali 'Imran 3: Verse 81)

وعدہ کب لیا جاتا ہے؟ جب کچھ دیا جاتا ہے. انسان کو اختیار ملا اور اختیار پر وعدہ لیا گیا کہ بعد میں آنے والے پہلے سے بہتر ہے. آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ختم مہر رسالت ہے.  آپ کی بعثت سے پہلے اور مابعد وصال کے زمانے روشن ہے مگر زیادہ روشن اکثیر تجلیات والا زمانہ نبی ء مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا زمانہ ہے ... 

سیدنا ابو البشر کی توبہ تب قبول ہوئی جب آپ علیہ سلام نے اللہ کے آگے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حوالہ دیا. گویا معرفت مکمل ہوئی  الم ... الم .. الم .. 

سیدنا عیسی علیہ سلام کو جناب ابوالبشر سے نسبت ہے کیونکہ آپ علیہ سلام بھی بن باپ کے پیدا ہوئے جبکہ سیدبا ابوالبشر تو عدم سے وجود میں لائے گئے ... آپ نے اس بات میں فخر محسوس کیا کہ آپ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کت امتی ہیں ... یہ معرفت کی انتہا ہے ...الم الم الم ..
تجلیات کا سلسلہ چلا گویا عرش سے نور چلا تو سینہ ء آدم سے صدرِ یسوع تک پہنچا ..یہ سلسلہ جس میں بنی اسرائیل کو ال عمران کو ال اسماعیل کو فضیلت بخشی کہ ان کے باپ دادا تو اور تھے مگر سلسلہ ء نور اک ... 

نبی ء مکرم کی بیعت سب نے کی   جب تجلی ء سینہ ہوئی جب نار ابراہیمی گلنار ہوئی، جب فرعون کو خشکی و تری لے ڈوبی، جب حسن یوسف میں حاش للہ کہا گیا جب قم باذن کی صدا میں وعدہ رکھا گیا. جب اسماعیل کی قربانی حسنین کریمین تک چلی .. جب نوح کے ہاتھ اٹھ گئے بددعا کے بعد ہجرت کی کشتی / نجات  معرفت کے زینے ..

دل ‏باردگر ‏برسنا ‏چاہے

دِل بارِدگر بَرسنا چاہے 
بس اک تُجھے دیکھنا چاہے
تو جلوہ بَہ کمال ایں نیستی
تو پیش مظہر مانند حق شد

یہ فلک، یہ ماہ، یہ آفتاب، یہ جَہان، یہ عالم رنگ و بو ...  یہ دُکھی ہیں، انہوں نے میرے دکھ کو محسوس کیا ہے. میں نے چاند کو سرخ سرخ دیکھا ہے،  سورج تو جانے کس اوٹ میں ہے مگر بادل  آکاش کے نیل میں دامن گیر پناہ لیے ہوئے، کچھ بھرے بھرے بادل برسنے کو تیار ہیں، کچھ شجر جن کے پتے چُرمراتے آپ کے(پیاری زہرا) آنے کا پتا دیں مگر آپ نَہیں وہاں بھی ... کچھ مٹی کے ذرے جن کی دھول اڑتی ہے، جب اوپر اٹھ کے آنکھ میں پڑے تو اشکوں کا پھندہ بنتے بتاتے ہیں یہ تو ہے جو دِلاسے کو اشک بندی کرے ہے .... یہ جو چند ندیاں پہاڑوں سے جاری ہوئیں ہیں ..ان کی قیمت فرہاد کی دودھ کی نہر سے زیادہ ہے کیونکہ اس میں خونِ جگر کی آمیزش ہے.  یہ جسم کیا، ہزار جسم بھی ہوں تو نثار ہو جائیں، یہ روح کیا ہزار روحیں بھی ہوں تو وار دوں ... پھر کہوں کہ مالک کیسے اقرار دوں؟ 

یوم الست کو جس نگاہ نے دیکھا، وہ یہی تھی
یوم الست کو جس نے سوال کیا،  وہ یہی تھی
یوم الست کو جس کو جواب دیا،  وہ یہی تھی
یوم الست سے قالو بلی کی تجدید،  وہ یہی تھی
یوم الست میں کچھ قبل عشق کی تمہید،  وہ اور تھی
یوم الست سے کچھ بعد عشق کی تمجید،  وہ یہی تھی
یوم الست میں کچھ طواف، کچھ متوف،  مطاف کیا تھا؟
یوم الست میں کچھ دیوانے، کچھ مجذوب، وہ کون تھے؟
یوم الست میں پیکر جمال میں شامل پری کا کمال کیا تھا؟
یوم الست وعدہ ہوا تھا! یاد ہے مجھے مگر کس صورت میں؟
یوم الست میں چکر پہ چکر تھے اور یہی تو تھا سب
یوم الست کے ان چکروں میں بھولا تو خود کو، باقی تو تھا
یوم الست سے اب تلک نہ بھولا خود کو، باقی تو وہی ہے، تو ہے
یوم الست کی چیخ! ہاں چیخ!  سنی تھی نا میری؟ جب جدا کیا گیا تھا
کیوں جدا کیا گیا تھا؟ 
کیوں نیزے جدائ کے؟
کیوں برچھیاں یادوں کی؟
کیوں اشک عشق والے؟
دل کو کربل،  سے نسبت
دل کو حرم سے نسبت
میرا حرم بھلا کیا ہے؟
میرا عشق بھلا کیا ہے!
فرق نہیں نا کچھ بھی تو فرق نہ رکھیں گے
یہ اضداد تو کھیل تماشا ہے
یہ زوجین کے مابین رشتے
ہر روح کا زوج الگ،
ہر مادے کا زوج الگ،
ہر روح کا دوگ الگ،
ہر روح کا امر تو اک
ہر روح کی صورت الگ
ہر صورت کی شہ رگ تو
ہر صورت کی صدا الگ
صدائے ربی ربی میں نے کہا

پتا ہے خالق ... اندھے تھے ہم، ہاں اندھے ... تری روشنی اتنی تھی کہ دکھا نہ کچھ، پھر تیرگی کا وجود آیا اور ہم زمین پہ لائے گئے کہ نفس کے شہتیر سے چلائے گئے. جرم اذنی ربی سے خلا دل میں ہوا تھا کہ رب ارنی ارنی کی صدا میں تو نے لن ترانی کی بات کی تو پھر ہوا وہی خاکی مصدر کے ہوش اڑ گئے اور کچھ کو لگا زمین زائل ہو رہی ہے، کچھ کو لگا زمین گہری ہو رہی ہے، کچھ کو لگا تو مل رہا ہے، کچھ کو لگا کہ تو ہی تو ہے کچھ نہیں ہے، کچھ کو لگا کہ سید امام حُسین ہیں دل میں بستے ہیں، کچھ مکرم ترے سید حسنین کے لیے ، کچھ غلام تھے ازل سے سوہنے سے مکھڑے کے،  صلی اللہ علیہ والہ وسلم، کچھ کو تو نے روشنی سے جلا بخشی تھی، کچھ تری ذات کے وہ حصے تھے جن کو  شناسائی نہ تھا کہ تو ہی ذات،  تو خود اعلی ہے،  تو ظاہر حق باشی،  تو جانب چار سو ...کوئ ذات مکمل نہیں ماسوا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ... اس لیے ماسوا ان کے ناتمامی کی سوزش چار سو ہے ..وہی نور تو ہے ہر سو ...وہی تری جگہ ہے تو کہیں محمد محمد کی صدا ہے تو کہیں احمد احمد سے لگن ہے ...

سلام بی بی زہرا کے  نور کو، 
انکی پارسائی کے تیر دل میں چلے
سلام اس ماہتاب  چندے آفتاب کو
جس سے زمن در زمن چلتا آیا یے
سلام اس با حیا پاک صورت کو
جنکی غلامی سے جی بھرتا نہیں
سلام اس سیدہ عالی نسب کو.
جن کی نسبت ِ غلامی معتبر ہے
سلام اس چراغ ہست کو جس نے
چراغ کشتہ کو روشن کردیا یے
جنکی جدائ نے فنائیت کا احساس دیا
سلام اس پری چہرہ مثل بدیع الجمال
جن سے دم دم میں  صدا ہے
اب تو بس اک دھن باقی ہے
میری ذات کو وہی ہی کافی ہے
میں جو کہوں وہ کیا بلھے کی کافی ہے؟
میں جو بولوں وہ شاہ حسین کا گیت ہے؟
میں جو کہتی وہ شاہ لطیف کا ڈھنگ ہے؟
میں جو کہتی وہ سچل سر مست کا نغمہ ہے؟
میں جو کہتی وہ امیر خسرو کی غزل ہے؟ 
میں جو کہتی وہ  سراج کی عالم نیستی ہے؟
میں جو کہتی وہ بیدم وارثی کی شوخی ہے؟
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں وہ رب کا عشق ہے
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں اسکے ہجر کا ملال ہے
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں وہ اسکا حسن ہے
میں نہیں کہتی کچھ یہ وہ کہتا ہے سب
تو نہیں چار سو، وہی ہے چار سو ہے

مومنین

"پھر وہ وقت آیا جب مریمؑ سے فرشتوں نے آکر کہا، اے مریمؑ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا"
 Ali 'Imran 3: Verse 42)

اللہ پاک سورہ الاحزاب میں فرماتا ہے 

انما یرید اللہ لیذھب  عنکم الرجس اھل بیت 

اللہ پاک مومنین کے گھروں سے نجاست و گندگی کو پاک کرنا چاہتا ہے ..خوشخبری دینے والی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات سے  منسوب ہوتے متبرک ہوجاتا ہے. جسکو نسبت مل جائے تو خوشبو دار ہو جاتا ہے. خوشبوئے گل و کمالی کی نسبت گویا اہل.بیت.سے منسوب ہوتے ہم.کو یہی حکم.یاد دلاتی ہیں کہ ہم نبی پاک صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم کی.نسبتی اولاد ہیں ..بہنو بھائیو! بیٹے بیٹیو!  سنو جو مرشد ہوتا.ہے وہ روحانی باپ ہوتا.ہے. صلی اللہ علیہ.والہ.وسلم ..گویا اللہ.پاک ہمارے گھر / دل سے گندگی کو دور کرنا چاہتا.ہے ...تو.آؤ!  وعدہ کریں ہم.دل کو پاک کریں گے کیونکہ.نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ.وسلم ہمارے نسبتی باپ ہوئے ہم ان کی روحی اولاد ..تو کرو وعدہ.کہ.دل کو کینے سے، حسد سے دور رکھیں گے ... وعدہ کرو تاکہ  فرشتے آکے کہیں کہ اللہ نے برگزیدہ کردیا کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ.علیہ.والہ وسلم کی.اطاعت اللہ.کی.اطاعت ہے. حق محمد!  حق اللہ!  حق سبحانی!  حق رحمانی!

اک ‏حال ‏سے ‏دوسرا ‏حال

سورہ الانشقاق آیت نمبر ۱۹ 

تم ضرور منزل بہ منزل چڑھو گے 
تم ضرور اک حال سے دوسرے حال کو پہنچو گے 
تم ضرور برائی سے اچھائی تک پہنچو گے 
شیطان ابلیس اچھائی سے برائی کی جانب لیجائے گا 
تم جادو سے گزرتے بے یقینی میں مبتلا ہو جاؤ گے 
تم بے یقینی میں یقین سے آن ملو گے 
تم غیب سے حاضر تم حاضر سے غیب پاؤ گے 
تم انکار سے اقرار تک پہنچو گے 
تم جوانی سے بڑھاپے تک پہنچو گے 
تم بیج سے پھل تک پروان چڑھو گے 
تم جھوٹ سے سچ کی جانب سفر کرو گے 
تم ہجرت سے وصلت میں اللہ کو پاؤ گے 
تم شر سے خیر پہنچانے والے ہو جاؤ گے 

فان یعمل مثقال ذرت خیر یرہ 
تو رائی برابر کا انجام چاہے خیر کا ہو یا چاہے شر کو ہو انجام کو پہنچے گا 
فان مع العسر یسرا 
تم آسانی تنگی سے حال کو پہچانو گے 
تم بتدریج آسانی پاؤ گے 

اے ایمان والو ..  

اپنے دل کی تنگی پہ خدا سے مایوس مت ہو. تم بتدریج تنگی سے آسانی تک پہنچو گے ... تم دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لو ...مولا مستجب کر ...ان تمام مومنین کے دل پہ انوار حدت کر ... تمام دل جو روشنی پاتے ہیں ان کو مزید روشنی دے.

دعا

انسان کسی بات کے لیے اپنی سی کوشش کرتا ہے میں نے بھی کوشش کی  ۔۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ  دل کو چھڑاؤں، ضبط کا دامن تار تار نہ ہو،  میں نے کوشش کی شیشہ دل پر لگی ٹھیس عیاں نہ ہو مگر افسوس ! میں نے کوشش ہستی کا دھواں رواں رواں نہ دے، میں نے کوشش کی وحشت کو پنجرے میں ڈال دوں،  میں نے کوشش کی خود کو خود سے نکال دوں،  میں نے کوشش کی درد کی چادر اوڑھ لوں، میں نے کوشش کی آگاہوں  کو آگاہی دوں، میں نے کوشش کی جسم کے سیال کو ابال دوں،  میری ہر کوشش رائیگاں ہوئی. 

میرے دعا،  مجسم دعا بنا وجود نہ سنا گیا،  نہ دیکھا گیا، نہ محسوس کیا گیا،  میری جبین نے سر ٹیک دیا اور در محبوب کا تھام لیا۔۔۔! اس کو جائے نماز کی طرح سنبھال کے نماز عشق کے سجدے کیے مگر جواب ندارد! کیا کیا  ہے میرے دل میں،  میں برس ہا برس سے پُکار رہی ہوں،  کیوں ایسا ہے دعا کو ٹال دیا جاتا ہے؟  کیوں رستہ بھی جمود کا شکار ہوتا ہے کیوں ایسا ہے بارش نہیں ہوتی، کیوں ایسا گھٹن کا سامنا ہوتا ہے کیوں ایسا آسمان کی جانب  حیرت بھی خاموش ہے!  کیوں ایسا ہے کہ قرب کا جاواداں شربت پلایا نہیں جاتا!  وہ  دل. میں بھی ،سینے  میں بھی، قلب میں  بھی!  زمین سورج.چاند سب ادھر!  مگر سنتا کیوں نہیں!  کون تڑپ دیکھتا ہے؟  جو پیارا ہوتا ہے اس کو اٹھا لیا جاتا ہے... وہ مجھے پاس نہیں بلاتا نہ کہیں سے اذن میرے رنگوں کو نور ذات کو  سرور دیتا ہے! 

 یہ دنیا ہماری ٹھوکر پہ پلی  ہے ہمیں دنیا نہیں.چاہیے ہمیں اپنا پیارا  درکار ہے!  پیارا جو ہمیں نہال ایسا کر دے کہ سالوں سرر نہ بھولے سالوں کیف کی منازل ہوں...ہمیں اس سے غرض ... وہ جانتا ہے وجود سارا مجسم دعا ہے دل میں اس کی  وفا ہے .... یہ یونہی درد سے نوازا نہیں جاتا جب بڑھتا ہے دوا مل جاتی!  اک درد وہ ہوتا ہے جو وصل کا تحفہ ہوتا ہے وجود ہچکی بن جاتا ہے، دل طوفان کا مسکن،  آنکھ ولایت کی شناخت ہوجاتی ہے مگر اک درد وہ ہے جس سے شمع نہ گھلتی ہے نہ جلتی ہے اس کا وجود فضا میں معلق ہوجاتا یے. ..... 

نہ رکوع،  نہ سجود،  نہ شہود ... ذات میں ہوتا وقوف ..اس پہ کیا موقوف کائنات جھولی ہوجائے ہر آنکھ سوالی رہے... اس پر کیا موقوف دل جلتا رہے، خاکستر ہوجائے مگر مزید آگ جلا دی جائے ...

.

جب آگ جلائ جاتی ہے تو وہ سرزمین طور ہوتی ہے تب نہ عصا حرکت کرتا ہے نہ شجر موجود ہوتا ہے!  عصا بھی وہ خود ہے اور شجر بھی وہ خود ہے!  یہ شجر انسان کا پھل و ثمر ہے جسے ہم عنایت کرتے ہیں ...زمین جب کھکھکناتی مٹی کی مانند ہوجاتی ہے تب اس کی سختی نور َالہی برداشت کر سکتی ہے ... یہ ہجرت کا شور مچاتی رہتی ہے مگر علم کا تحفہ پاتی ہے ... اس کا اسلوب نمایاں شان لیے ہوتا ہے... مٹی!  مٹی کے پتے ڈھلتی کتِاب ہیں ..

یہ.پانی کی موجوں کا.ابال ...یہ رحمت کی شیریں مثال ...یہ.بے حال.ہوتا ہوا حال ...کیا.ہو مست کی مثال.

.یہ کملی.شانے پہ ڈال ...اٹھے زمانے کے سوال ..چلے گی رحمت کی برسات ... مٹے گا پانی.در بحر جلال ... طغیانی سے موج کو ملے گا کمال ..یہ ترجمانی،  یہ احساس،  تیرا قفس،  تیرا نفس،  تیری چال،  تیرا حال ... سب میری عنایات ...تو کون؟  تیری ذات کیا؟  تیرا سب کچھ میرا ہے!  یہ حسن و جمال کی.باتیں، وہم.و گمان سے بعید.رہیں ...یہ داستان حیرت ... اے نفس!  تیری مثال اس شمع کی سی ہے جس کے گرد پروانے جلتے ہیں جب ان کے پر جلا دیے جاتے ہیں تب ان کو طاقتِ پرواز دی جاتی!  اٹھو دیوانو!  تاب ہے تو جلوہ کرو!  مرنے کے بعد ہمت والے کون؟  جو ہمت والے سر زمین طوی پہ چلتے ہیں،  وہ من و سلوی کے منتظر نہیں ہوتے ہیں وہ نشانی سے پہلے آیت بن جاتے ہیں ..آیتوں کو آیتوں سے ملانے کی دیر ہوتی ہے ساری ذات کھل جاتی ہے!  سارے بھرم حجاب سے ہیں یہی حجاب اضطراب ہے!  نشان ڈھونڈو!  غور و فکر سے ڈھونڈو!  تاکہ نشانیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچتے تم اک تمثیل بن جاؤ!  " لا " کی عملی.تفسیر جا میں الا الہ کہ تار سے کھینچے جاؤں گا ... یہ تیری دوڑ جتنا مضبوط یوگی اتنی حدبندیاں کھلیں گے،  اتنے ہی مشاہدات ہوں گے،  سر زمین طوی بھی اک ایسے جا ہے جہاں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں... یہ جو سر سبز پہاڑ کے جلوے ہیں ان میں عیان کون ہے؟  جو کھول کھول میری آیتوں کو پڑھیں،  ان.پہ کرم.کی دیر کیسی،  یہ تسلسل کے وقفے ضروری ہیں ...یہ محبت کے سر چمشے پھوڑتے ہیں...جتنی حبس ہوگی اتنا ہی پہاڑ ٹوٹتے ہیں!  زمین سے چشمے نکلتے ہیں ... زمینیں سیراب ہوتی ہیں .. درد کو نعمت جان کر احسان مان کر  پہچان کر نعمتوں کے ذکر میں مشغول دہ .... 

خاک کی قسمت!  کیا ہے؟  دھول.ہونا! یہ پاؤں میں رولی جاتی ہے ... جبھی اس کے اصل عکس نکلتا.ہے!                        

 اس نے جانا نہیں یہ درد کا تحفہ کس کس کو دیا جاتا ہے!  جو نور عزیز ہے،  جو کرم کی چادر سے رحمت کے نور میں چھپایا گیا ہے!  تیرا ساتھ کملی والے کے ساتھ ہے،  کمال ہم نے درِ حسین علیہ سلام پہ لکھا ہے،  حال فاطمہ علیہ سلام کے در پر ....  

ہوا سے کہو سنے!  سنے میرا حال!  اتنی جلدی نہ جائے!  کہیں اس کے جانے سے پہلے سانس نہ تھم جائے!  سنو صبا!  سنو اے جھونکوں ..سنو!  اے پیکر ایزدی کا نورِ مثال ... سنو ... کچا گھڑا تو ٹوٹ جاتا ہے،  کچے گھڑے سے نہ ملایو ہمیں،  ہم نے نہریں کھودیں ہیں،  محبوب کی تلاش میں،  ہمارا وجود ندی ہی رہا تب سے ِاب تک!  نہ وسعت،  نہ رحمت کا  ابر نہ کشادگی کا سامان،  لینے کو بیقرار زمین کو کئ بادل چاہیے .... تشنگی سوا کردے!  تاکہ راکھ کی راکھ ہوا کے ساتھ ضم ہوجائے،  وصالِ صنم حقیقت یے دنیا فسانہ ہے!  ہم تیرے پیچھے پیچھے چلتے خود پیغام دیتے ہیں ... ہمارا سندیسہ پہنچ جائے بس ...  قاصد کے قصد میں عشق،  عاشق کے قلب  میں عشق،  زاہد نے کیا پانا عشق،  میخانے کے مئے میں ہے عشق .... اسرار،  حیرت کی بات میں الجھ کے بات نہ ضائع کر جبکہ اسرار خود اک حقیقت ہے ... ستم نے کیا کہنا تجھے،  ستم تو کرم یے،  بس سوچ،  سوچ،  سوچ کے بتا کہ بن دیکھے جاننے والا کون ہے؟  اسماء الحسنی کو اپنانے والا کون ہے؟ صدائے ھو کو اٹھانے والا کون .. شمع حزن در نبی ہے!  یہ وہاں کہیں پڑی ہے،  دل کی  حالت کڑی یے ..  

حق ھو !  حق ھو!  حق ھو!  یہ حسن کے پھیلاؤ کی ترکیب جان،  راز ہیئت سے جان پہچان کر،  جاننے والے در حقیقت پہچان جاتے ہیں منازل عشق کی منتہی کیا ہے کہ ابتدا کو قرار کن کی صدا دیتی ہے، موت کو قرار اک اور صدائے کن دیتی ہے ..یہ بین بین وقت ہے،  ہماری حکمت ہے!  یہ زمانہ ہے،  یہ وقت ہے جب پہچان کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے،  یہ خسارہ جو زمانے نے اوڑھ رکھا ہے اس کی اوڑھنی پہ قربانی کے ستارے جب چمکتے ہیں تو ماہتاب جنم لیتے ہیں ..انہی ماہِ تاباں میں سے کوئ اک آفتاب ہوتے ہیں!  حق موجود!  تو موجود!  حق موجود!  وہ موجود!  حق اللہ!  حق باقی!  حق،  کافی،  حق،  شافی ...حق ھو حق ھو

سفر ‏بغداد

سفر بغداد شُروع .... نداء کی جانب چلو ....کوہِ صفا کدھر ہے؟   نشانی لیے چلو!  آیتِ حق نے بُلایا ہے.  سبحانی نور کے پاس چلو .. نفس پاک کرکے چلو ...وہ حق کا جلال بہ جمال مانند آیتہ الکرسی .....الشیخ عبد القادر جیلانی سکونتِ من بہ دل بہ روحی بقربانِ جانی!  یا شیخ عبد القادر جیلان ...او جیلانی اننی سکونت ِ ..این بغداد؟  این من دلم؟  من دلم نورم سکونتی، بقلبی حرکتی بن نورم ... دلم گوید او عبد القادر یستیبی نورک .... کچھ عطائے کریمی کیجیے حال درد سے پُر ...حال خراب ...دل میں جاناں کا خیال محو نہیں ہوتا ...دل کے لیے کیا ہے؟  دل کی تار کس طرح ہلے؟  یہ کیسے ہلے کہ ہلائی گئی بری طرح ....
من سکونتی بقلبک! 
من وصلتی بقلبک! 
شبیہ نور ایں در خاک!!
لا سکونتک مکانی!
لا موجک مکانی!
تو شہباز لامکانی! 
تو جانباز طائر فضائے لاہوتی
عکس ہاہوت سے مرقع ریشہ ہائے تار تار ترا بمانند گل تر! 

میں جبین نیاز میں جھکا کے!  وضو سے چلی شیخ کے پاس!  این اھلک؟  کیف حالک؟  ھل عطاک چشم عیسی، جذب موسی،  نور شمع؟  ھل عطاک شبیہ نور محمدی؟  ان گنت درد نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر .....

تو بہ نور، روزن دل موجود ایں در لامکانی!  اتررہی ہیں آیات الہی!  غور و فکر، تدبر کی کمی کیوں ہے؟  افلا یتفکرون؟  افلا یتدبرون؟  این صم بکم عمی؟  الاعمی ان عند اللہ الشرالدواب ....

یہ ہیبت، یہ جلال! کدھر گیا مرا کمال!  دل خشیت سے کانپا!  کدھر ہے حبیب؟ کدھر ہے قرین؟  نہ ہوش رہا   ...نہ ذوق رہا ...کیا رہا ...عکس و معکوس کے سلاسل میں نور محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلی آیتوں کے انوارات .... خدایا رحم کن بہ احوال نور کن ... خدایا رحم کن ...دل مارے ہیبت کے بیٹھ جائے گا ....

بے ‏خبری

یہ بے خبری جو کچھ ظہور سے پہلے ہوتی ہے خود میں درد کی خوبرو ساعتیں دیتی ہے . مسافر اس کے پیچھے اسطرح جاتا ہے جیسے کُتا ہڈی کے پیچھے . لوگوں کے پیاس بجھانے کے طرائق مادے سے جُڑے ہیں جبکہ مسافر پیاس اسی کتے کی طرح بُجھاتا ہے جس کا درد شدتِ درد میں نزع کی سی کیفیت لیے نسیان طاری کیے دیتا ہے اور بعدِ نزع بکری ذبیح کی جائے ، اس کی کھال اُتاری جائے کیا فرق پڑتا ہے .فرق کرنے والے اور جزیرے کی مخلوق ہیں اور ہم تو ان جزائر سے دور وحدت کے جزیرے میں سکون سے رہتے ہیں . وحدت کے جزیرے میں سمندری لہریں جب ہل ہلا پیدا کرتی ہیں تب طوفانی سُونامی کی صورت اختیار کیے دیتا ہے اور ہم چاہتے ہیں اس سونامی میں بار بار ڈبویا جائے تاکہ بار بار ڈوبنے سے عدم کا گمان ہوں .یہ کیف وجدان کی بیداری کا ہوتا ہے جب شوقِ منزل کی جانب لے جا جایا جاتا ہے

رحم ‏

مسکین کے حال پہ رحم کردیجیے شہِ ابرار، امت کے پالنہار، بردارِ ذوالفقار، رحمت العالمین مسکینوں کے والی، فقیروں کے مالک، شہنشاہِ خیر الانام، شمس الضححی ... آیت کوثر کی بشارت پانے والے خاتم الانبیاء، مہر ختم نبوت 

صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

درود کی شب میں درود کی رت میں،  درود کے گلشن میں اک کلی دل میں کھلی ہے. سرکار واجب الاحترام ہے. سرکار کا ادب ہم بجا لائیں گے ..سرکار کمال کے خزانے پائے ہوئے ہیں ..سرکار سے دل کی لگی ہے ...آنکھ میں موتی چمکے تو نام شہِ  ابرار کا آیا ...لب پہ مہر رسالت کا نام پایا،  دل نے پڑھا درود صلی اللہ علیہ والہ وسلم ...

وہ صورت جس کی مسکراہٹ دیکھ کے کائنات مسکراتی ہے ... اس کی مسکراہٹ پہ تصدق، کائنات مسرت بانٹ رہی ہیں ...ہمیں جو مل رہا ہے وہ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگہ سے. ہم.تو خود سے نکل نہ سکیں تو بارگہ میں پہنچیں کیسے ... ہمارے آنکھ میں وضو کی جاری نہر دل سے وصول کی جاتی ہے. دل کے اشک نہیں گرتے ہیں اور زمین پہ گیلی مٹی سے مہک ہاتے زیادہ ہیں ..



بچے

بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ بچے مستقبل ہوتے ہیں .... بچے آج کل کے دور میں زیادہ علم کے حامل ہیں اسکی وجہ ہمارا میڈیا اور اسکی اثر انگیزی ہے ...اسی اثر انگیزی نے نوجوانوں، جوانوں اور سن رسیدہ افراد کو مسحور تو کردیا ہے مگر یہ اک کڑوا سچ ہے کہ کسی حد تک برانگیختہ بھی کردیا ہے .... 

اک بچی جس نے بڑے ہوکے ماں بنتے قومی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے ... وہ بچی اوائل عمر میں seduction سے abduction کا سامنا کرتی ہے .. اک حادثے /سانحے کے بعد اس کی نفسیات اس حد تک متاثر ہوجاتی ہے کہ بچی کا روحانی قتل ہوجاتا ہے ...جسمانی حالات و زخم تو انمٹ نشان ہوتے ہیں .. بچی کے علاوہ بچے بھی ایسے حالات کا شکار ہوجاتے ہیں اور قوم اپنے مستقبل کے معمار کھوتی جارہی ہے 

 Rape and abduction کے بعد قتل! قتل سے ماحول پر دہشت کے اثرات. سوچنے کی بات ہے کہ والدین بچے کس لیے پیدا کرتے ہیں؟ کیا ظلم یا ناانصافی کی بقاء کے لیے! دور جہالت میں بیٹی ناموسِ خاندانی کی وجہ سے شرمناک دھبہ تھی تو آج کل کیا کیا جارہا ہے؟  کاروکاری؟  ہمارے بزرگوں نے تو غیرمذہب میں ستی کی رسم ختم کی اور ہم کیا کر رہے ہیں؟  آج کل جگہ جگہ تیزاب پھینکنا،  خاندانی اثر رسوخ استعمال کرتے شادی نہ ہونے پہ
 کstoning  کی رسم جاری ہے اس رسم کا فائدہ قبائلی نظام اٹھاتے ہیں ... بچی کو پتھر مار کے شہید کردیا جاتا ہے. اجتماعی ظلم و بربریت کے مظالم سہتے بچی اس جہان فانی سے کوچ کرجاتی ہے مگر  معاشرے کی بے حسی ختم نہیں ہوتی 

یہ سب معاشرتی بے حسی کی جانب اشارہ کرتے ہیں .. معاشرہ کس social change کی جانب گامزن ہے اور یہ تبدیلی مثبت ہے یا منفی ... اگر یہ معاملات ملکی عدلیہ تلک پہنچتے قانون کو بدل دینے یا نیا قانون بنانے کے مجاز ہیں تو اس تبدیلی جو کہ مثبت ہے ظاہر کرتی ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں .... جبکہ تبدیلی قتل، social chargeاور  الزامات تک رہ جاتی ہے تو اسکا مطلب ہے ہم اک منفی قوم ہیں 

یہ اجتماعی زیادتیاں،  ریپ،  قتل،  پتھراؤ سے اموات، ونی یا دیگر چیزیں کیوں ہورہی ہیں؟ اسکا پہلا سبب ہے کہ والدین بچوں کے لیے پرائمری یا بنیادی گروپ ہیں ... والدین کے بعد دیگر سارے گروپس سینکڈری یا ثانوی ہیں. اک بچہ والدین کے پاس کتنا وقت گزارتا ہے بہ نسبت سیکنڈری گروپس کے؟  زیادتی اور اموات کے زیادہ کیسز تب ہوتے ہیں جب خاندانی ادارہ مضبوط نہ ہو. جب ماں یا باپ میں  ذاتی خلش اس قدر بڑھ جائے کہ بچہ عدم تحفظ عدم احساس کو گھر کی فضا میں محسوس کرتا ہے. وہ باہر کسی ثانوی گروپ کی طرف جاتے کرے.  سیکنڈری گروپس پہ بچے کا زیادہ انحصار خاندانی نظام کی موت ہے ...!  

والدین کے بعد peer group  ہیں ..یہ وہ گروپ ہے جو بچے کے بہن بھائی اسکے ہم جماعت اور اسکے کزنز یا ہمسائے اسکے عمر کے قریب قریب ہوتے ہیں. یہ گروپ اسکا حلقہ احباب بناتے ہیں. عدم تحفظ میں مبتلا بچہ اکثر peer group میں اپنی عمر سے بڑے لوگ کو چوز کرتا ہے .. اکثر استاد،  اکثر سینرز کلاس فیلوز، اکثر ماموں چچا یا ہمسائے کے نزدیک یہ بچے منڈلاتے پائے جاتے ہیں ..اور ان کی کمزوری ان کو شکار بنادیتی ہے 

بچوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے یہ تو سوچنا پڑے گا کہ بڑے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ بڑے ہیں؟  جذبات اتنے منہ زور ہوگئے؟ جذبات کو لگام نہ ملی؟  Instinct اس قدر بڑھ گئی کہ دل شر البریہ ہوگئے ... جذبات اللہ کی جانب لے جاتے ہیں اگر ان کا رخ روح کی جانب ہو مگر ان کا رخ نفس کی جانب ہو تو تباہی ہے ..  صم بکم عم فھم لا یرجعون کی مثال جن کے دل کا نور بجھا چاہتا ہے وہ انسانیت کا قتل کردیتے ہیں.   ایسے تمام لوگوں کی ذہنی کیفیت جانچ کو اک بات زیادہ جان لیوا ہے کہ یہ بھی اک قسم کے بیچارے ہیں. جی ہاں!  ان پہ کی گئی ریسرچ بتاتی ہے کہ ان کا بچپن ایسے ظلم سہتے تباہ ہوا اور جوان ہوتے انہوں نے مظالم کا بدلہ لیتے گزار دی!  سوچیے کہ اک بچہ جو اس ظلم کا سروائیور ہے وہ آگے جاکے منفیت کے رحجان کا زیادہ حامل ہوتا ہے

اے مولائے پاک ....
ہمارے خاندانی ادارے کو مضبوط کر .... 
تاکہ بچہ راہ فرار اختیار نہ کرے 
تاکہ بچہ کل کو کسی کا مستقبل نہ خراب کرے 
اے مولائے پاک 
ہم سب پر رحمت کی نظر رکھ ...
ہم مسلمانوں پہ کرم سے فیصلے فرماتے ہمیں معاف فرما .... 
گناہ گاروں کو ہدایت نصیب فرما 
بچے کو والدین پہ اعتماد کرنے کی صلاحیت دے 
بڑوں کی آنکھ میں حیا رکھ تاکہ شرم سے آنکھ نہ اٹھے 
یا الہی العالمین 
معاف فرما

غزل ‏اور ‏شکیب

غزل اور شکیب

بادِ صبا کی نرم نرم بوندیں پھُوار بن کے دونوں کے اوپر برس رہی تھیں اور وہ  دونوں جھیل کے کنارے ایک بڑے پتھر پر بیٹھے تھے۔یہ پتھر دوسرے بڑے پتھروں سے متصل ایک پہاڑی سے جُڑا ہوا تھا۔ پہاڑیوں نے جھیل کو گھیرے میں لے کر اس کی نیلاہٹ میں اِضافہ کر دیا تھا۔ گُلاب کی خوشبو چاروں طرف مہک رہی تھی تو دوسری طرف موتیا کے پھول کائنات کے  حُسن میں اضافہ کر رہے تھے ۔پتھر پر بیٹھے غزل نے نیلے پانی کے اندر جھانکا ، ایک دم واپس اوپر کو ہوگئی ۔۔ ڈری گھبرائی--- غزل سے شکیب نے پوچھا : کیا ہوا؟

غزل :میں پانی میں اپنا عکس نہیں دیکھ پائی  مگر --- ایک پل کو توقف کیا۔۔۔!
'' پانی میں ارتعاش پیدا ہوگیا  اور میرا عکس ان لہروں میں کھو گیا ہے ''
اٗس نے غزل کی بات سُن کے ایک قہقہ لگایا اور بولا:
شکیب:''گویا تم پتھر ہو! پانی میں پھینکا اور لہروں نے شور مچا کے رقص شروع کردیا ! کمال کرتی ہو تُم۔۔۔!!!اچھا ایک کام کرتے ہیں۔۔آج مجھے شامِ غزل میں جانا ہے، تمہیں بھی ساتھ لے چلتا ہوں۔۔! چلو گی ؟

غزل نے حامی بھرلی اور جھیل کے پاس بیٹھ کر پانی کی گہرائی ماپنے لگی ۔۔۔۔!!! جب اپنا چہرہ پانی کے قریب کرتی ، پانی کی لہریں رقص شروع کردیتیں۔۔ ۔ اس کو نا جانے کیا سوجھی کہ اس نے اپنی انگلی پانی میں ڈال دی اور پانی کی تمام ساکن موجوں میں سکوت کا انجماد یک لخت ٹوٹا اور تحریک کے طوفان نے بگولوں کی صورت سمندر کو گھیرلیا۔۔۔۔ پانی کے شور نے ،طوفانی لہروں نے عین مرکز پر اکٹھے ہوتے آبشار کی سی صورت اختیار کرلی اور آبشار کی مانند گھومتے تمام لہروں کے لیے رہنما بن گئ ۔۔۔ غزل یہ تمام منظر یک ٹک دیکھے جارہی تھی کہ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا : '' یا حیرت''  اسی حیرت میں پلٹ کے شکیب کو دیکھا مگر وہ انجان تماشائی بنا بیٹھا تھا جیسے اس کے لیے یہ سب نیا نہ ہو !

 غزل :تُم نے پانی کی لہروں کو رقص کرتے ہوئے دیکھا ؟ 
 شکیب :نہیں! غزل کیا ہوگیا ہے ؟ 
غزل : جو میں محسوس کر رہی ہوں اسے تم کیوں نہیں پاسکے ؟ جو میں دیکھ رہی ہوں وہ تم سے اوجھل کیسے ہوسکتا ہے ؟
شکیب: ہر انسان اپنے احساسات کا مالک ہوتا ہے ! یہ غزلیں ! یہ غزال جو وجود میں بیٹھا ہے ہمیشہ نئے انوکھے تجربات سے نوازتا ہے !
 غزل :مجھے آج احساس ہو رہا ہے کہ غزل کیا ہوتی ہے ! سمندر کے سکوت میں لہروں کی موسیقی اور ان کا آہنگ ! اس آہنگ کے بننے میں پل سے کم وقت لگتا ہے مگر درد کو سموچنے کے لیے صدی جتنا طویل وقت ۔۔۔شکیب اس کی باتیں خامشی سے سنتا کبھی سمندر میں جھانکتا تو کبھی غزل کے چہرے پر سمندر کے بنتے بگڑتے نقوش دیکھتا ! پھر ایک پل کے توقف کے بعد سمندر میں جھانکا تو اپنا عکس دیکھ کے مطمئن سا ہوگیا 

شکیب : مجھے تو اپنا عکس نظر آرہا ہے ! میں وہ تصویر ہوں جس کا مصور شاہکار بناتا ہے ۔۔۔۔۔۔! چلو ۔۔! شام چھارہی ہے اور محفلِ غزل شُروع ہونے کو ہے !  

شکیب نے غزل کا ہاتھ تھاما اور طویل راہداریوں ، میدانوں ، وسیع سمندروں سے ہوتے زمان و مکان کی قید سے دور محفلِ غزل میں پُہنچ گئے ۔ محفلِ غزل میں سازندے ایک طرف ہوکے بیٹھے ساز سے مختلف دھنیں ترتیب دے رہے تھے ، جبکہ اکا دکا لوگ رُباب سے کھیلنے میں مصروف میں تھے ۔۔۔ غزل کے لیے یہ بہت انوکھی دُنیا تھی جہاں پر سکوت نے قبضہ جما رکھا تھا مگر ہر شے بولتی دکھائی دے رہی تھی ! ایسے جیسے تصاویر بولتی ہوں ! گائک بھی خاموش اور سامعین بھی مگر سبھی ازل کے گیت کو بہت دھیان سے سن رہے تھے ۔ جس طرح بن پیے بندہ پیاسا نہیں ہوسکتا ہے بالکل اسی طرح بن سُنے بندہ اس گیت کو پہچان نہیں سکتا !سب پر  ایک سحر سا  طاری تھا ! جانے کس کی فسوں کاری کا کرشمہ تھا کہ تمام تصاویر میں تحریک شروع ہوگئی ۔ غزل سحرزدہ سی مدہوشی کے عالم میں فرشی نشت پر بیٹھی تھی ، سراسیمگی میں شکیب کا ہاتھ دبوچ لیا کہ کہیں وہ بھاگ نہ جائے اور خود غزل نے ازل کے گیت پر رقص شروع کردیا 

نظر نے نظر سے ملاقات کرلی
رہے دونوں خاموش اور بات کرلی
زمانے میں اس نے بڑی بات کر لی
خود اپنے سے جس نے ملاقات کرلی

انسان کی خود سے مُلاقات ہوگئی گویا کہ غزل کی تکمیل ہوگئی ہو ۔۔۔۔! ذات کی ملاقات بڑا تڑپاتی ہے ، روح جسم سے باہر نکل جاتی ہے ، جسم کی قیود میں زمانہ قید رہ بھی کیسے سکتا ہے ۔ اب کہ غزل نے ہاتھ چھڑانا چاہا کہ بڑی بے چین ہو کر اٹھی ۔ یوں لگا کہ شکیب اس کی ہاتھ سے دوڑی کی طرح بندھا ہے ، جیسے ہی اس کا رقص شروع ہوا، شکیب ایک کٹھ پتلی کی طرح ساتھ رقص کرتا رہا، دونوں بہت خوبصورت لگ رہے کہ دونوں ایک دوسرے کی لیے لازم و ملزوم تھے ۔مگر غزل کی بات اور تھی ! شاید اس نے فنا ہونا تھا اور دوسرے نے باقی رہنا ہے ۔ ایک نے  زہر کا پیالہ پی کے عالمِ فانی کی طرف جانا ہے اور دوسرے نے آبِ حیات پی رکھا ہے ۔دونوں رقص میں تھے اور جام دونوں پی چکے تھے مگر پیمانہ مختلف تھا مگر ساقی ایک  اور خزانہ بھی ایک اور  عطا کا حساب مختلف ! عطا کے بعد دونوں مست و رنجور تھے ۔۔۔!  اس عطا پر دھمال ڈالنے والوں میں انہوں نے بھی حصہ لیا مگر ہوش نے مدہوشی لے لی ! اس عالم میں غزل نے اُس کا ہاتھ چُھڑانا چاہا تو اس کو ایک صدا سنائی دی !

''سنو ! تم مجھ سے چاہ کر بھی ہاتھ نہیں چھڑا سکتی ! میں تب بھی تھا ،  جب تم نہیں تھی اور جب تم نہیں ہوگی ، تب بھی میں رہوں گا ۔۔!میں ازل سے ابد تک کا ساتھ ہوں ۔۔ میں مکان کی قید سے آزاد ہوں ۔۔۔۔ !!! تمھارا نام مجھ سے جڑا رہے گا اور اس نام کی وجہ سے تمھارا نام امر ہوگا !!!

غزل نے  اس کا مضبوطی سے تھام لیا جیسے سکندر کو خضر کے کھونے کا غم ہو ! اسی اضطرار میں اس کی گرفت اس کے ہاتھوں پر مضبوط ہوگئی اور بے ساختگی میں کہے دیا 

 غزل :'' کون ہو تم ؟ تم شکیب نہیں ہو!! تم خضر ہو ۔۔۔!! زہر کے پیالے کا تریاق نہیں ہوتا ہے ، میں اس جہاں فانی سے چلی جاؤں گی اور تم رہ جاؤ گے ۔ افسوس! محبت کچھ نہیں ہوتی ، یہ صرف ایک قید ہوتی ہے ، جس طرح تم میرے اندر قید ہوتے  امرت کا پیالہ پی چکے ہو اور میں تم سے باہر رہتے ہوئے بھی زہر کا اثر زائل نہیں کر سکتی ۔۔آہ ! اس سے برا کیا ہوگا میرے لیے۔۔۔!

رات کی سیاہی سحر کے طلوع ہونے کا اشارہ رے رہی تھی ۔ارواح کے رقص دائروی سے ہوتے ہوئے زائروی ہوگئے ،اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے انہوں نے شاید  اپنا اصل پالیا جاتا ہے ، یہی کچھ اس رقصِ بسمل میں ہوا۔۔ دونوں تب تک رقص کرتے رہے جب تک کہ دونوں کا آہنگ ، رقص کی تال ، ایک سی نہ ہوگئی اور جب دونوں ایک ہوئے تو ہوش ختم ہوگیا ، کائنات تھم گئی ۔

زندگی نے دوبارہ آنکھ کھولی تو وہ دونوں اسی وادی میں پتھر پر بیٹھے تھے ، جہاں سے وہ کوچ کیے تھے ۔سورج نے چاند کو اپنی اوٹ میں چھُپا کے زمین کو تنہا کردیا۔۔۔ پتھر پر بیٹھے بیٹھے غزل نے آنکھیں بند کیں اور  آنکھ بند کرتے ہی'' عکس اور منظر ''پسِ عکس بدل گیا۔۔۔۔ ! جھیل ایک صحرا میں بدل چکی تھے ۔ دائروی بگولے چار سو گھومتے ہوئے غزل کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے ۔ اچانک آندھی آئی اور وہ غائب ہوگئی ۔۔۔! شکیب غزل کے پیچھے بھاگتا ہوا پتھرا پر بیٹھا اور خود کو آنکھیں بند کرنے پر مجبور پایا۔ جیسے ہی اس نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا ۔۔! اسے لگا جہاں وہ کھڑا ہوا تھا ، وہاں پر غزل کھڑی ہے اور وہ غزل کی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے ۔۔۔ جھکڑوں کی گرج دار آواز میں وُہ غائب ہوچکا تھا۔۔جبکہ غزل کھڑی مسکرا رہی تھی ۔

آیات ‏کوثر۳

خیال کو اظہار چاہیے اور اظہار کو نمود کا لباس جبکہ لباس کو سلیقہ چاہیے ۔ اس خیال کی حدت سے دل گرمادیے جاتے ہیں کہ تو نے ھو کی بات کی مگر ذات نفی میں نفی نہیں کی جبکہ نفی میں ذات رکھ دی  ۔۔ تو نے اس کو روبرو کرلیا اور اس شدت سے مناجات کیں کہ تیری نفی میں ذات سامنے تیری رہنمائی کو آئی اور تجھے نفی سے نکال کے اثبات کی جانب گامزن کرنے لگی ۔ جلوہ کیا ہے؟  جلوہ انسان کے اندر ہے جیسا کعبہ انسان کے اندر ہے یعنی کعبے کا نور اندر ہے اور اس کعبے کا کعبہ یعنی تجلی مرشد برحق بھی اندر موجود ہے ۔۔۔ ھو ! ھو ! ھو ! ھو ! سب سے بڑا دکھ روح کی قید ہے جو مٹی کے قبر میں محیط ہے ۔ یہاں موت کے بعد پرواز مل جائے تو دوام ذات حصول فنا ہے ۔دل کی  دیواروں میں اللھم صلی علی کی  صدا گونجتی ہے تو روشنی کی کرنیں آفتاب کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں


سیدہ طاہرہ واجدہ، سیدہ سادات موجود مِظہر مِظہر میں دلیل سیدہ مِظہر جودو کرم و سخا 

بنام فاطمہ زہرا بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم زوجہ امیر حیدر شیر دلاور، مادر حسین بن علی شیر شہید، حسن بن علی.شبیہِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

بنام سیدہ سردار النساء منجانب کنیزِ عالیہ سیدہ 

نگاہ کرم لطف کے منتظر، 
حجاب ازل کو الٹ دیجیے 
مطہر تہِ دل میں وہ ہوں 
محمد کی سیرت تصویر 
مصور محمد تصور محمد 
شبیہ محمد مشبہ محمد 
عکس محمد آئنہ محمد 
روح روح میں ...محمد 
رب کرے محمد،  محمد 
صدیق اکبر کا بیاں، محمد 
دل کرتا رہے محمد محمد 
جہاں ساجدِ محمد،

زہرا بی بی کو کڑوڑ ہا سلام 
کنیز کا سلام 
بس اوقات میں ذات رکھی ہے 
دل میں آپ کی بات رکھی ہے 

مومنو، سوچو
سوچو 
کیا؟
کتنی پیاری ہستی 
کون؟
فاطمہ زہرا ... سیدہ عالیہ 
مومنات کی سردار 
مومنین کی پہچان سیدہ فاطمہ کے بنا ناممکن ہے ... 
یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیاری لاڈلء بیٹی ہیں ..
یہ نور بوقت کن بھی تھا 
یہ نور جاری و ساری ہے 
یہ نور جانب ابد یے 
ہم خوش قسمت کہ ان سے ملے گی پہچان 
 خوش قسمت کے ان کے  وسیلے سے پہچانے جائیں گے 
زہے نصیب ..... ہم سب وقت ازل سے وقت ابد کی جانب ہیں .... ہم سب تکمیل کے مراحل میں ہے .... فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ سے خدا کو پہچانا اور ہم نے آپ کے دامن میں پناہ لے لی ...


اپنی نگاہ جھکا لیجیے 
دل کو پاک کر لیجیے 
سرکار تشریف فرما ہیں 
خاموش گفتگو کیجیے 
درود سنت خدا ہے 
محمد کو متصور کیجیے 
کچھ دل کو منور کیجیے 
یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم



زندگی ‏حقیقت ‏میں ‏بھاگ ‏رہی ‏ہے

زندگی حقیقت میں بھاگ رہی ہے اور ہم حقیقت سے دور بھاگ رہے .... زندگی دو مدار پر گردش رواں رکھتی ہے ....فنا اور بقا ...بچہ پیدا ہوا ...زندگی ملی اور پھر فنا ہوگیا بوڑھا ہوتے ...قبر تک جاتے ....  اب جو فنائیت مادی جسم کی موت سے ملے، وہ تو کچھ معانی نہ رکھتی ہے ...اس لیے جو انسان اس کی محبت میں موت سے پہلے فنا ہوجاتا ہے ...اسکو  اس دنیا سے جانے کے ابدیت مل جاتی ..اسکا ذکر بلند ہوجاتا ...اللہ فرماتا ہے 

ورفعنا لک ذکرک .... 

اب جس کا ذکر اللہ بلند کرے تو وہ شخص کیا ہوگا ...درحقیقت یہ کرم ہے جب صدر چاک ہوتا ہے ...اللہ فرماتا ہے 

الم نشرح لک صدرک .... ووضعنا عنک وزرک ... 

تو اس پر رحمتوں کا نزول ہوجاتا ہے .... علم مل جاتا ہے ..یہ علم کیسے ملتا ہے ...؟  
قران پاک میں رب فرماتا ہے 

یا یھا المزمل .... 

وہ نور جو چھپا ہے،  وہ نور جس نے اک تجلی سہی اور گم ہوگیا ...جسے ہوش نہ رہا ... جس پر ڈر غالب آگیا یعنی رب سچے کا رعب بیٹھ گیا ..... 

اس نور سے رب مخاطب کرتے کہتا ہے ...

اے میرے مزمل .... 

پوچھا رب سے، مالک کیا احکامات؟

قم الیل الا قلیلا ...

قیام کر رات کو مگر قلیل ....
 
مالک قیام کیوں کروں؟  
ورتل القران ترتیلا ..
.
قران پاک پڑھنے کے لیے،مگر اسطرح کے ترتیل سے ...
مالک سے پوچھا قران سمجھ سے مشکل ...امی ہوں ... مگر طلبگار ہوں ...

مالک نے کہا .... 

مطلب ہم سمجھائیں گے، نیت دل پہ قائم رہ .... اسطرح کہ تو ذمہ داری کے قابل ہوجائے ..
..

انا سنلقی علیک قولا ثقیلا
یعنی عنقریب تم پر اسکے معانی مفاہیم سب کھلتے جائیں گے ... مگر انسان کہ نادان ....

لو انزلنا ھذا القران علی جبل لرایتہ  خاشعا متصدعا  من خشیتہ اللہ

اگر یہ قران کسی پہاڑ پہ نازل فرماتے تؤ خوف سے دبا جاتا ... پھٹا جاتا ...

 مارتے ہم لوگ اور لفظ کھوجتے ہم لوگ ...یہ قران نازل ہوتا ہے اور اگر قران پہاڑ پہ نازل ہوتا تو پہاڑ  روئی روئ ہوجاتا مگر انسان کے دل پہ قران نازل ہوتا اور انسان غور نہیں کرتا
انسان دیکھتا نہیں کہ اسکو کیسے پیدا کیا گیا؟  اسکی قدر متعین کی گئی ...اسکو احسن التقویم و اسفل سافلین کا اختیار دیا گیا اور خالق نے قسم کھائی "تین "کی اور زیتون کی ...یہ انسان جو اپنے اصل کی جانب آتا نہیں

انسان کا اصل تو وہ دور ہے یاد کرنا ...جس کو یاد کرنے کے لیے قران پاک نازل ہوا ...او غافل!  او نادان ...ذرا دیکھ ...دیکھ لفظ کے ہیر پھیر کچھ نہیں ...اسکی تلاوت ٹھہر ٹھہر کے کرنا لازم

جب انسان بھاری ذمہ داری سے عہدہ بھرا ہوجاتا تو خالق فرماتا ہے ....

وہ ذات بندے کو عرفان کی جانب لیجاتی ہے ... 

 

Allah SWT said:

سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَـرَا مِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَ قْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۗ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ
"پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا"
(QS. Al-Isra' 17: Verse 1)

یہی معراج حقیقت ہے ...
اے غافل ..اٹھ ..کپڑے جھاڑ ... اور نیت دل سے وضو کر ...نیت حضور کی طلب رکھ ....تیرا رب تجھے پکارتا ہے اور تو اٹھتا ہی نہیں رات کے پہر ..جس پہر خالق اور بندے کے رازو نیاز ہوتے

آیتِ ‏کوثر ‏۲

آواز سب لگاتے جاؤ 
خوشبوئیں پاتے جاؤ 

سیدہ فاطمہ کی شان بیان کرنے کے لیے لفظ خاموش...  سورہ کوثر اتری جن کے واسطے، جن کی مدحت میں الفرقان ہے، جن سے پاتے جاتے ہیں رنگ سارے اور کہتے ہیں ... 

سیدہ فاطمہ جہاں کی شان ہیں،  
سخاوت ان سے پاتی شان ہے 
ان کی صورت نورانی ہے 
ان کی سیرت لاثانی ہے 
سرداری ان سے ملتی ہے 
شاہی ان سے ملتی ہے 
فاطمہ بے مثال ہیں 
عفو میں لاجواب ہیں

بلا لیں مجھے در پر، .نہیں کوئی شہ رگ سے بر تر،  تقدس کی ملکہ ... تقدیس جن کو سلام کرے، چھو کے چھرن عزت پائے. وہ آیت کوثر دل میں تمجید کی سی اترتی ہے. پنجتن کے غلام ہیں 
رنگ سب پر عام ہیں

سیدہ خدیجہ کی بیٹی، ام ابیھا 
کیا ہے آپ کی شان؟ اے ام ابیھا.
سرکار پکار پکار کہتے، ام ابیھا 
کملی پیار میں بچھاتے، ام ابیھا 
سر پر ہاتھ رکھ کہتے، ام ابیھا 
دشمن آپ سے ڈر جاتے ام ابیھا 
لرز کے بام و در تھامتے ام ابیھا 
حوضِ کوثر کی ملکہ ہیں ام ابیھا 
فقیہ جوابات پاتے ہیں ام ابیھا 
شان میں جھکے رہتے ام ابیھا 
حسین کی ماں باکمال... ام ابیھا 
جلال میں ذیشان ہیں ، ام ابیھا 
علم میں مثل نہ مثال، ام ابیھا 
حَسن کی ماں با کمال، ام ابیھا
تقریبِ شادی... وضو کی نہر  جاری 
تقریب شادی ... آیت کوثر کی وادی 
تقریب شادی ..... مرگ نسیاں طاری 
تقریب شادی ..... وہ ہیں کمال والی 
تقریب شادی ...... وہ سرکار کی لاڈلی 
تقریب شادی ...... قسمت کی یاوری 
تقریبِ شادی ...... اللہ اللہ کی باری 
تقریب شادی .....تطہیر کی چادر والی

وہ جلال و جمال کا ہیں مرقع 
کمال جن کی شان سے مرصع 
وہ عالیہ،  وہ زاہدہ،  وہ واجدہ 
علم کی کائنات کا ہیں منبع 
وہ راضیہ،  وہ  مرضیہ، وہ فاطمہ 
جہاں کو بنٹتا ہے من و سلوی 
شانِ فاطمہ ..... یہ کمیں؟  
شان پنجتن ...... یہ کمیں؟  
لفظ کانپ کے نکل جاتے ہیں 
تیر کمال سے نکل جاتے ہیں 
آنکھ نسیاں میں خاموش ہے 
دل جلوے میں مدہوش ہے

آیت کوثر .... نماز کا قیام 
آیتِ کوثر ...... قربانی کی بات 
آیتِ کوثر ...... حسن، حسین کی کہانی 
آیتِ کوثر ...... حج کی تکمیل 
آیت کوثر ....... خاتونِ جنت 
سارے پڑھے درود 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم

آیتِ ‏کوثر۱

آیات فاطمہ( سلام. ان پر)   مجھ میں ظہور ہیں، مخمور ہوں، خوشی سے  چور ہوں.....  زہے نصیب کہ مری خوش قسمتی کہ  میں نے مکرم ہستی کو پہچانا ہے!  مکرم ہستیوں کا مسکن مرا دل ہے!  عجب روشنی ہے جس کے پیچھے مقام کربل کیجانب قدم بہ قدم ہون!  حیرت نے غرق کردیا سیدہ فاطمہ کے قدم مجھ کو مل رہے ...سجدہ ...سجدہ ...سجدہ ... اے خدا، مری اعلی بختی پہ مری ذات خود نازاں ہے  ....

 کربل کی مٹی میں نے سونگھی نہیں بلکہ اس خاک کو خود پہ ملنا چاہا ..  وہ بی بی پاک جن کے نفس دم بہ دم نے یہاں پہنچایا ...وہ روشنی اس اصل روشنی کا چشمہ،  پردہ ء غیبت میں جاتے مرے دل پہ ہاتھ رکھ گیا ..

 طٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وارث  ہیں، یٰسین کی مانند دید میں گم رہیں ! میرے آقا شاہد ہوئے رب کے پاس، رب نے شہادت دے دی ..شاہد و شہادت کی نفی نے اک ذات کا پتا دیا ... اے یسین سے نکلنے والا نور،  ..  حُسین عالیمقام رضی تعالی عنہ  سے نکلنے والے چشمے میں ڈوب جا .. طٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی  مجلی آیت طور نے جلوہ گاہ حسن میں قربانیاں دیں

 رونے کا مقام نہیں دوستو،  یہ مقام فخر ہے کہ اس فخر نے آدمیت کی تلاش میں دیر نہ کی. اس پاک نورِ حُسین  نے" والعصر" کے گھاٹے کو پہچانا تھا  یہ حُسینی نور جس کو ملے، اسکو آیت معراج سے آیت دل میں پیوست ہر روشنی مل جاتی ہے ...طٰہ کی روشنی، نور علی النور ہے، یہی نور  حسین عالیمقام کی روشنی  ہے
 
مثل طٰہ، مانند برق موسم ہیں

 جب حسین (سلام ان پہ، درود ان پر)  کے نور میں خون شامل ہو رہا تھا،  جب اس نور میں خدا ظاہر ہوا تھا  تو دنیا نے دیکھا کہ یزیدی لشکر پیچھے ہٹنے لگا تھا،  وہ بَہتّر تھے مگر ہزاروں  پہ بھاری تھے،  حسینی لشکر میں کچھ مردان حُر(اللہ کی رحمت ہو ان پر)  تھے،  کچھ مردان علّی(سلام ان پر، درود ان پر)  تھے،  کچھ مردان مثلِ جعفر(سلام ان پر، درود ان پر)  پھیلے تھے حق یہ مری روشنیاں تھیں

جو بھول گئے رستے،  مگر پھر بھٹکے ہوئے لوٹ آئے جب رب نے کہا" ارجعو"  اس صدا کو جس جس نے سنا وہ لوٹ آیا ...مردان حُر کو سلام مرا .. جو پابہ زنجیر بھی رقص کرتے رہے،  کچھ ایسے تھے جو مانند علی اکبر(سلام ان پر، درود ان ہر)  نور سیدہ فاطمہ بی بی جانم (سلام ان پر، درود ان پر)  کے جمال میں گویا ہوئے!  یوں  جسم کٹائے،بریدہ جسموں نے خُدا کا نام غالب کردیا 

قائم رہنے والی روشنی ہماری یے،  وہ  حضرت جعفر رضی تعالی عنہ  کی روشنی جس نے خمیر بو طالبی سے روشنی پائی...نجاشی کے سامنے تلاوت قران الہی کی تھی، وہ جن کی سیرت و صورت دونوں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مشابہہ تھی 
. وہ  علی رضی تعالی عنہ. کی روشنی جس نے کعبہ سے اللہ کا  رستہ پایا،  وہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم جن کی تخلیق خالق کے مصوری کی انتہا تھی 

مثل حضور کوئی نہیں 
اوج ذات پر کوئی نہیں

ہے ‏بنائے ‏خاک ‏کربل ‏آل ‏رسول

ہے بَنائے خاکِ کربل آلِ رسول 
کٹ گئے یاں لاشائے آلِ رسول؛ 
کام نَہ آسکے اس مقام پر جب 
روئے،یہ دیکھ کےصدیقِ رسول 
شاہد نے شہیدانِ کربلا دیکھے 
بقائے دین پہ شاہد اکبرِ رسول 
بسمل ہے ذرہ ذرہ خاکِ کربلاء کا 
کٹ گِرا یاں جگر گوشہ ء بتول 
ہے مَلال،نازم کہ ایں آلِ رسول 
حریت کی، جراءت کی پاسبان ہے 

اس ذی شہسوار کو سلام ہو.
آسمان جس سے ہم کلام ہو 
موت جس کو دیتی پیام ہو 
اللہ کی حرمت کا بس نام ہو 
دین کی خدمت جنکا کام ہو 
 یہ رسول کی ذیشان ہیں سارے
ان کو دیکھ کے، ہر بشر دل ہارے 
گنوادیے جنہوں نے پسر سارے 
منبرِ رسول سے ہے مسجد تلک 
چلا یہ سلسلہ کربلائے معلی تلک
سر کٹانے کی روایت، نہ جھکانے کی
پیام دے گئی ہے ہم کو آل رسول

نور

تلاش ‏کہاں ‏تک ‏لے ‏گئی

تلاش انسان کو کہاں سے کہاں تک لے گئی؟  تلاش نے آسمان سے زمین پہ پٹخا اور زمین نے پہچان کے بعد فلک تلک رسائی کی.  بجا اس لیے خالق نے فرمایا 

اللہ نور السماوات والارض ... 

متلاشی روح بمثل، خضر راہ کی طالب اور ہر موسی کا خضر علم ہے ...علم روشنی ہے،  علم نور ہے ..  

تونور سماوی، تو نور زمانی 
نبی سارے تیری ہیں نوری نشانی 

وقت کی گرد میں،  قفل کھلتے ہیں،  راہ چلتی جاتی ہے ... مرشد نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں اوربندے پہ کیفیات و حالت مکی و مدنی ایسے گزرتے، جیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر گزرے .... 

قران کریم کائنات میں موجود ہے،  عمل کو خدا دیکھ رہا ہے کہ کس نے طاق میں سجایا، کس نے پڑھا اور کس نے عمل کیا ...


منظم چلو شاہراہوں،
یہ رنگ عام نَہیں 
کچھ خاص نَہیں 
انسان ہے؟ وہم ہے؟
میں ہوں، کیا یہ خیال نہیں ہے؟
وہ ہے، اسکا نُور ہے 
ربی ربی کی صدا میں حدبندیاں ہیں 
گو کہ نوریوں کی حلقہ بندیاں ہیں 
انہی میں بزرگی کی چادر اوڑھے جانے کتنی ہستیاں ہیں 
انہی میں پیچیدہ پیچیدہ راہیں ہیں ... ... ... 
یہ.متواتر سی نگاہ مجھ پر ہے 
گویا حق علی حق علی کی صدا ہے 
گویا محمد محمد کی ملی رِدا ہے 
جھکاؤ نظریں کہ ادب کا قرینہ ہے 
پتے گویا جنگل میں قید ہیں
سر سر کی قامت بھی پست ہے 
محبت گویا عالی قدم ہے 
چلو منظم ہو جائیں 
چلو چلیں کہتے علی علی 
چلو چلیں، ذکر علی میں



نور محمد پیکر ایزدی کا آئنہ 
اس سے روشنی خراماں خراماں 
برق سے روزن روزن میں نور 
گویا ہادی کی،  آیت تطہیر ہے

الف میں میم، میم میں الف 
الحاقہ سے تکمیل،  تدریج 
لیل و نہار میں شَہد کی تطہیر 
صبا نے سندیسے دیے کہ تحریر 
نور محمد کی نہیں کوئی تمثیل 
سخن دلنواز فقط ہے اک تمہید 
قلم چلتا ہے کہ خالق کی ہے تحریر 
دل میں کھنچتی ہے کوئی زنجیر


رات، بھی رات ہے، دائم نہیں 
دن، بھی دن ہے،  قائم نہیں 
ہتھیلی پہ چاند کے نقش ہیں 
رات کی رانی کی مہک ہے

دل ‏پر ‏رقت

دل کی رقت پر سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ سوال کیا ہے؟ سوال کا جواب کیا ہے؟  سوال کا اسباب کیا ہے؟ رات میں ملال اور ملال کا لباس کیا ہے؟ جبین سجدہ ریز ہے، رمز شناس ہے کیا؟  جب جاگتے ہیں دل، روتی ہے آنکھ،  سوتا ہے شعور اور بہتا لہو دل میں ھو ھو کی صدا سے مخمور ہو کے رواں رواں میں محبوس ہو کے بھی نعرہ ء حق لگا دے تو بندہ کَہے کہ کہاں جاؤں میں؟ میں کتھے جاواں؟ کتھے اونہوں نا پاواں؟  اودھے جلوے چارچفیرے .. بانگ دیندے ریندے نے مرغ سویرے سویرے ...لنگ گئی حیاتی، غماں نے مار مکایا ..جنگ جاری ہے ... حیات  پیہم مشقت میں،  رہن رکھی چاندنی نے پوچھا کہ کیا ملا؟  ملا جو سوال کو جواب ملا ...جواب میں یاد کا سندیسہ تھا ..سندیسے آتے ہیں اور ستاتے رہتے ہیں .. رات میں نور علی النور چمکا چاند،  رات میں سحر در سحر اشجار ہیں جن کی رگ رگ میں جاودانی کا دھواں ہے اور مکھڑا جس کا نورانی ہے.. وہ پھرتا چلتا ہے عکس وجدانی ہے،  لہر لہر میں رنگ ہے اور رنگ میں کلی کلی کی مہک سے جل رہا ہے چمن،  دود ہستی میں راگ چھڑا ہوا ہے ..سرمدی راگ میں بات بھی ذات کی ہے اور بات ذات میں واحد ہی رہی اور واحد میں خاموشی صامت رہی. حق وحدہ لاشریک کے سامنے رگ جان سے قریب کون تھا؟  میں نہیں تھا ..وہ بھی وہی تھا ..بس آئنے تھے دو ..دوئ تھی کیا؟  دوئ نہیں تھی مگر یہ آنکھ روئ تھی کیا؟  جی جی!  جذب تھی جس آنکھ میں وہ رہتی ہے یاد میں ..زہرا کے بابا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بے حساب درود کہ کمان سے نکل گئے تیر اب زخم.سے جل.رہا دجلہ ... فرات کی نہر میں انالحق کی صدا ہے ...گراں تھا نعرہ کیا؟  راز عیاں تھا کیا؟  برسر منبر بہک گیا کوئ ... بہک جانے کی سزا بھی نرالی تھی مگر جس کے پاس سایہ کالی کملی والا کا ہے اسکی شان نرالی ہے. کوئ آقا والی ہے ..صلی اللہ علیہ والہ وسلم. مری غلامی بھی نرالی ہے کہ رنگ و نور کی محفل سجنے والی ہے. شام میں صدا یے اور صدا میں کرن کرن کا جلوہ اور جلوے میں رنگ ساز نے رنگ دکھائے تو ست رنگی بہار میں عیاں راز کے سارے پردے فاش!  راج ہوا کبریائی کا.  جو.صبغتہ اللہ والی ہے،  اسکی کملی کالی یے، جس کے پاس رات کی جاودانی ہے،  راج جس کا انوکھا یے سورج کی کرن کرن میں مگن کون یے؟ گگن کی لالی کہاں سے آئ ہے؟  راج کرے گی دنیا جب  دیکھے گی جب جھلک دیکھے گی ..کچھ جو صلی علی کی دھوم میں مر جائیں گے ..کچھ اس بازگشت میں رہ جائیں گے. کچھ اس جھلک کے سکتے میں رہ جائیں گے کچھ کے سر جھکے رہ جائیں گے کچھ قائم قیام میں رہ جائیں  گے. کچھ کو عندلیب کا نغمے سنائیں جائیں گے، کچھ رقص شرر میں جل جائیں گے، کچھ کو نغمہ جانفزاں سے بہلایا جائے گا کچھ کو دید کا سامان دیا جائے گا کچھ کو رات کے پہرے فاروقی نقارے دیے جائیں گے، کچھ کو صدیقیت کی مسند پر گرانقدر تحاٰئف دیے جائیں گے، کچھ علی علی کی صدا میں نبی نبی کی گونج میں مگن رہیں گے تو یہ ہوں گے وہ حال جن پر رشک فلک ہوگا، نوریوں کو ملال کہ وہ بشر ہوتے تو یہی احسن تقویم ہے. یہ زمانہ ہے شرفیت کہ اشرف المخلوقات سے وابستگی کا ہے کہ آؤ نعرہ ھو لگائیں دل میں رہ جائیں گے ارمان نہ ملیں گی وہ گلیاں

خاموش ‏دل

خاموش دل تھا، طوفان چاہیے؟  طوفان کو کیسا میلان چاہیے؟ کیا.رب سے کوئ امکان چاہیے؟ شرم کہ کیسا سامان چاہیے؟ اے دل مٹنے کی طلب یے کہ مٹ جا اوربے رنگ ہو جا کہ بے رنگ میں کئی ملال چھپ جاتے اور جواب ظاہر ہو جاتے ہیں. اے دل فنا ہونے میں کیا مضمر یے کہ راز جان کے جان لینے سے پہلے یقین کرنے میں کیا ہے. وہ جو رگ لاھوت سے سوئے یاھو کا نغمہ ہے وہ بج رہا ہے وہ جو محو پیکان میں تھا وہ بھول گیا یاد کو کہ یاد تھی کیا وہ تو یاد نہیں تھی. وہ سندیسہ تھا جسے رب نے بھیجا تھا اور جب بھیجا تھا کہا تو کہ اسے رکھ دل میں اور عیان نہ کر ورنہ گلاب کی مہک بکھر جاتے ہیں اور جب بکھر جائے تو سو سوال ...خوشبو پر سوسوال ..جواب اک ہو تو بات ہے کہ ھو میں رہتا ہے کوئ یک ٹک سو ہے. محویت طاری ہے کہ رنگ و نور کی بارش ہے کہ جنبش مژگان سے شبنمی.قطروں سے وصال کی قیمت پوچھ ...وصال میں ملال ہے کہ چھن جانا سب اور ہجر کا سوگ دائمی کہ آ لگا لیں گلے اسکو کہ نہیں صبر کا یارا ..ہم زخم کو سینے سے لگاتے ہیً اوروہ پاس بلاتا ہے کہ کہتا ہے 
یادش بخیر!  سب بجلیاں طور کی ہیں؟ کچھ معراج میں چھپا ہے جب دل کو الہام کیا گیا تھا کچھ غلط نہ دیکھا ... بس روبرو تھا کوئ ...کون تھا؟ کون اس آئنے میں چھپا تھا؟ کس نور سے نور ملا کس کو کس کو یہ کون جانے. یہ تو رب جانے اوردل جانے ..دل دی گلاں کون جانڑے. دل دے ارماناں دی اوس نو کون مانے؟ رخ سے جو نقاب ہٹ گیا تو رک جائے گا ہاتھ اوررفتار  بڑھ جائے گی. روح کے چکروں میں وہی ہونا ہے ..کیا؟ جلوہ؟  ہاں جلوہ بھی اک ہےآنکھ بھی اک ہے ..دیکھنے والے مظہر بھی ..بس لکا چھپی کا نظام ہے اور آنکھ جانتی ہے کس کو وہ اپنا دل مانتی ہے ...اے دل چل اس سرزمین جدھر سے یہ خوشبو آتی ہے ورنہ تھم جائے گی گردش اوررک جائے گا دل اور کہے گا کہ جینے کا سلیقہ کیسے ہوگا؟  پینے کا طریقہ کیسے ہو؟