Monday, February 22, 2021

تلاش ‏کہاں ‏تک ‏لے ‏گئی

تلاش انسان کو کہاں سے کہاں تک لے گئی؟  تلاش نے آسمان سے زمین پہ پٹخا اور زمین نے پہچان کے بعد فلک تلک رسائی کی.  بجا اس لیے خالق نے فرمایا 

اللہ نور السماوات والارض ... 

متلاشی روح بمثل، خضر راہ کی طالب اور ہر موسی کا خضر علم ہے ...علم روشنی ہے،  علم نور ہے ..  

تونور سماوی، تو نور زمانی 
نبی سارے تیری ہیں نوری نشانی 

وقت کی گرد میں،  قفل کھلتے ہیں،  راہ چلتی جاتی ہے ... مرشد نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں اوربندے پہ کیفیات و حالت مکی و مدنی ایسے گزرتے، جیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر گزرے .... 

قران کریم کائنات میں موجود ہے،  عمل کو خدا دیکھ رہا ہے کہ کس نے طاق میں سجایا، کس نے پڑھا اور کس نے عمل کیا ...


منظم چلو شاہراہوں،
یہ رنگ عام نَہیں 
کچھ خاص نَہیں 
انسان ہے؟ وہم ہے؟
میں ہوں، کیا یہ خیال نہیں ہے؟
وہ ہے، اسکا نُور ہے 
ربی ربی کی صدا میں حدبندیاں ہیں 
گو کہ نوریوں کی حلقہ بندیاں ہیں 
انہی میں بزرگی کی چادر اوڑھے جانے کتنی ہستیاں ہیں 
انہی میں پیچیدہ پیچیدہ راہیں ہیں ... ... ... 
یہ.متواتر سی نگاہ مجھ پر ہے 
گویا حق علی حق علی کی صدا ہے 
گویا محمد محمد کی ملی رِدا ہے 
جھکاؤ نظریں کہ ادب کا قرینہ ہے 
پتے گویا جنگل میں قید ہیں
سر سر کی قامت بھی پست ہے 
محبت گویا عالی قدم ہے 
چلو منظم ہو جائیں 
چلو چلیں کہتے علی علی 
چلو چلیں، ذکر علی میں



نور محمد پیکر ایزدی کا آئنہ 
اس سے روشنی خراماں خراماں 
برق سے روزن روزن میں نور 
گویا ہادی کی،  آیت تطہیر ہے

الف میں میم، میم میں الف 
الحاقہ سے تکمیل،  تدریج 
لیل و نہار میں شَہد کی تطہیر 
صبا نے سندیسے دیے کہ تحریر 
نور محمد کی نہیں کوئی تمثیل 
سخن دلنواز فقط ہے اک تمہید 
قلم چلتا ہے کہ خالق کی ہے تحریر 
دل میں کھنچتی ہے کوئی زنجیر


رات، بھی رات ہے، دائم نہیں 
دن، بھی دن ہے،  قائم نہیں 
ہتھیلی پہ چاند کے نقش ہیں 
رات کی رانی کی مہک ہے