Monday, February 22, 2021

دل ‏باردگر ‏برسنا ‏چاہے

دِل بارِدگر بَرسنا چاہے 
بس اک تُجھے دیکھنا چاہے
تو جلوہ بَہ کمال ایں نیستی
تو پیش مظہر مانند حق شد

یہ فلک، یہ ماہ، یہ آفتاب، یہ جَہان، یہ عالم رنگ و بو ...  یہ دُکھی ہیں، انہوں نے میرے دکھ کو محسوس کیا ہے. میں نے چاند کو سرخ سرخ دیکھا ہے،  سورج تو جانے کس اوٹ میں ہے مگر بادل  آکاش کے نیل میں دامن گیر پناہ لیے ہوئے، کچھ بھرے بھرے بادل برسنے کو تیار ہیں، کچھ شجر جن کے پتے چُرمراتے آپ کے(پیاری زہرا) آنے کا پتا دیں مگر آپ نَہیں وہاں بھی ... کچھ مٹی کے ذرے جن کی دھول اڑتی ہے، جب اوپر اٹھ کے آنکھ میں پڑے تو اشکوں کا پھندہ بنتے بتاتے ہیں یہ تو ہے جو دِلاسے کو اشک بندی کرے ہے .... یہ جو چند ندیاں پہاڑوں سے جاری ہوئیں ہیں ..ان کی قیمت فرہاد کی دودھ کی نہر سے زیادہ ہے کیونکہ اس میں خونِ جگر کی آمیزش ہے.  یہ جسم کیا، ہزار جسم بھی ہوں تو نثار ہو جائیں، یہ روح کیا ہزار روحیں بھی ہوں تو وار دوں ... پھر کہوں کہ مالک کیسے اقرار دوں؟ 

یوم الست کو جس نگاہ نے دیکھا، وہ یہی تھی
یوم الست کو جس نے سوال کیا،  وہ یہی تھی
یوم الست کو جس کو جواب دیا،  وہ یہی تھی
یوم الست سے قالو بلی کی تجدید،  وہ یہی تھی
یوم الست میں کچھ قبل عشق کی تمہید،  وہ اور تھی
یوم الست سے کچھ بعد عشق کی تمجید،  وہ یہی تھی
یوم الست میں کچھ طواف، کچھ متوف،  مطاف کیا تھا؟
یوم الست میں کچھ دیوانے، کچھ مجذوب، وہ کون تھے؟
یوم الست میں پیکر جمال میں شامل پری کا کمال کیا تھا؟
یوم الست وعدہ ہوا تھا! یاد ہے مجھے مگر کس صورت میں؟
یوم الست میں چکر پہ چکر تھے اور یہی تو تھا سب
یوم الست کے ان چکروں میں بھولا تو خود کو، باقی تو تھا
یوم الست سے اب تلک نہ بھولا خود کو، باقی تو وہی ہے، تو ہے
یوم الست کی چیخ! ہاں چیخ!  سنی تھی نا میری؟ جب جدا کیا گیا تھا
کیوں جدا کیا گیا تھا؟ 
کیوں نیزے جدائ کے؟
کیوں برچھیاں یادوں کی؟
کیوں اشک عشق والے؟
دل کو کربل،  سے نسبت
دل کو حرم سے نسبت
میرا حرم بھلا کیا ہے؟
میرا عشق بھلا کیا ہے!
فرق نہیں نا کچھ بھی تو فرق نہ رکھیں گے
یہ اضداد تو کھیل تماشا ہے
یہ زوجین کے مابین رشتے
ہر روح کا زوج الگ،
ہر مادے کا زوج الگ،
ہر روح کا دوگ الگ،
ہر روح کا امر تو اک
ہر روح کی صورت الگ
ہر صورت کی شہ رگ تو
ہر صورت کی صدا الگ
صدائے ربی ربی میں نے کہا

پتا ہے خالق ... اندھے تھے ہم، ہاں اندھے ... تری روشنی اتنی تھی کہ دکھا نہ کچھ، پھر تیرگی کا وجود آیا اور ہم زمین پہ لائے گئے کہ نفس کے شہتیر سے چلائے گئے. جرم اذنی ربی سے خلا دل میں ہوا تھا کہ رب ارنی ارنی کی صدا میں تو نے لن ترانی کی بات کی تو پھر ہوا وہی خاکی مصدر کے ہوش اڑ گئے اور کچھ کو لگا زمین زائل ہو رہی ہے، کچھ کو لگا زمین گہری ہو رہی ہے، کچھ کو لگا تو مل رہا ہے، کچھ کو لگا کہ تو ہی تو ہے کچھ نہیں ہے، کچھ کو لگا کہ سید امام حُسین ہیں دل میں بستے ہیں، کچھ مکرم ترے سید حسنین کے لیے ، کچھ غلام تھے ازل سے سوہنے سے مکھڑے کے،  صلی اللہ علیہ والہ وسلم، کچھ کو تو نے روشنی سے جلا بخشی تھی، کچھ تری ذات کے وہ حصے تھے جن کو  شناسائی نہ تھا کہ تو ہی ذات،  تو خود اعلی ہے،  تو ظاہر حق باشی،  تو جانب چار سو ...کوئ ذات مکمل نہیں ماسوا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ... اس لیے ماسوا ان کے ناتمامی کی سوزش چار سو ہے ..وہی نور تو ہے ہر سو ...وہی تری جگہ ہے تو کہیں محمد محمد کی صدا ہے تو کہیں احمد احمد سے لگن ہے ...

سلام بی بی زہرا کے  نور کو، 
انکی پارسائی کے تیر دل میں چلے
سلام اس ماہتاب  چندے آفتاب کو
جس سے زمن در زمن چلتا آیا یے
سلام اس با حیا پاک صورت کو
جنکی غلامی سے جی بھرتا نہیں
سلام اس سیدہ عالی نسب کو.
جن کی نسبت ِ غلامی معتبر ہے
سلام اس چراغ ہست کو جس نے
چراغ کشتہ کو روشن کردیا یے
جنکی جدائ نے فنائیت کا احساس دیا
سلام اس پری چہرہ مثل بدیع الجمال
جن سے دم دم میں  صدا ہے
اب تو بس اک دھن باقی ہے
میری ذات کو وہی ہی کافی ہے
میں جو کہوں وہ کیا بلھے کی کافی ہے؟
میں جو بولوں وہ شاہ حسین کا گیت ہے؟
میں جو کہتی وہ شاہ لطیف کا ڈھنگ ہے؟
میں جو کہتی وہ سچل سر مست کا نغمہ ہے؟
میں جو کہتی وہ امیر خسرو کی غزل ہے؟ 
میں جو کہتی وہ  سراج کی عالم نیستی ہے؟
میں جو کہتی وہ بیدم وارثی کی شوخی ہے؟
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں وہ رب کا عشق ہے
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں اسکے ہجر کا ملال ہے
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں وہ اسکا حسن ہے
میں نہیں کہتی کچھ یہ وہ کہتا ہے سب
تو نہیں چار سو، وہی ہے چار سو ہے