بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ بچے مستقبل ہوتے ہیں .... بچے آج کل کے دور میں زیادہ علم کے حامل ہیں اسکی وجہ ہمارا میڈیا اور اسکی اثر انگیزی ہے ...اسی اثر انگیزی نے نوجوانوں، جوانوں اور سن رسیدہ افراد کو مسحور تو کردیا ہے مگر یہ اک کڑوا سچ ہے کہ کسی حد تک برانگیختہ بھی کردیا ہے ....
اک بچی جس نے بڑے ہوکے ماں بنتے قومی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے ... وہ بچی اوائل عمر میں seduction سے abduction کا سامنا کرتی ہے .. اک حادثے /سانحے کے بعد اس کی نفسیات اس حد تک متاثر ہوجاتی ہے کہ بچی کا روحانی قتل ہوجاتا ہے ...جسمانی حالات و زخم تو انمٹ نشان ہوتے ہیں .. بچی کے علاوہ بچے بھی ایسے حالات کا شکار ہوجاتے ہیں اور قوم اپنے مستقبل کے معمار کھوتی جارہی ہے
Rape and abduction کے بعد قتل! قتل سے ماحول پر دہشت کے اثرات. سوچنے کی بات ہے کہ والدین بچے کس لیے پیدا کرتے ہیں؟ کیا ظلم یا ناانصافی کی بقاء کے لیے! دور جہالت میں بیٹی ناموسِ خاندانی کی وجہ سے شرمناک دھبہ تھی تو آج کل کیا کیا جارہا ہے؟ کاروکاری؟ ہمارے بزرگوں نے تو غیرمذہب میں ستی کی رسم ختم کی اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ آج کل جگہ جگہ تیزاب پھینکنا، خاندانی اثر رسوخ استعمال کرتے شادی نہ ہونے پہ
کstoning کی رسم جاری ہے اس رسم کا فائدہ قبائلی نظام اٹھاتے ہیں ... بچی کو پتھر مار کے شہید کردیا جاتا ہے. اجتماعی ظلم و بربریت کے مظالم سہتے بچی اس جہان فانی سے کوچ کرجاتی ہے مگر معاشرے کی بے حسی ختم نہیں ہوتی
یہ سب معاشرتی بے حسی کی جانب اشارہ کرتے ہیں .. معاشرہ کس social change کی جانب گامزن ہے اور یہ تبدیلی مثبت ہے یا منفی ... اگر یہ معاملات ملکی عدلیہ تلک پہنچتے قانون کو بدل دینے یا نیا قانون بنانے کے مجاز ہیں تو اس تبدیلی جو کہ مثبت ہے ظاہر کرتی ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں .... جبکہ تبدیلی قتل، social chargeاور الزامات تک رہ جاتی ہے تو اسکا مطلب ہے ہم اک منفی قوم ہیں
یہ اجتماعی زیادتیاں، ریپ، قتل، پتھراؤ سے اموات، ونی یا دیگر چیزیں کیوں ہورہی ہیں؟ اسکا پہلا سبب ہے کہ والدین بچوں کے لیے پرائمری یا بنیادی گروپ ہیں ... والدین کے بعد دیگر سارے گروپس سینکڈری یا ثانوی ہیں. اک بچہ والدین کے پاس کتنا وقت گزارتا ہے بہ نسبت سیکنڈری گروپس کے؟ زیادتی اور اموات کے زیادہ کیسز تب ہوتے ہیں جب خاندانی ادارہ مضبوط نہ ہو. جب ماں یا باپ میں ذاتی خلش اس قدر بڑھ جائے کہ بچہ عدم تحفظ عدم احساس کو گھر کی فضا میں محسوس کرتا ہے. وہ باہر کسی ثانوی گروپ کی طرف جاتے کرے. سیکنڈری گروپس پہ بچے کا زیادہ انحصار خاندانی نظام کی موت ہے ...!
والدین کے بعد peer group ہیں ..یہ وہ گروپ ہے جو بچے کے بہن بھائی اسکے ہم جماعت اور اسکے کزنز یا ہمسائے اسکے عمر کے قریب قریب ہوتے ہیں. یہ گروپ اسکا حلقہ احباب بناتے ہیں. عدم تحفظ میں مبتلا بچہ اکثر peer group میں اپنی عمر سے بڑے لوگ کو چوز کرتا ہے .. اکثر استاد، اکثر سینرز کلاس فیلوز، اکثر ماموں چچا یا ہمسائے کے نزدیک یہ بچے منڈلاتے پائے جاتے ہیں ..اور ان کی کمزوری ان کو شکار بنادیتی ہے
بچوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے یہ تو سوچنا پڑے گا کہ بڑے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ بڑے ہیں؟ جذبات اتنے منہ زور ہوگئے؟ جذبات کو لگام نہ ملی؟ Instinct اس قدر بڑھ گئی کہ دل شر البریہ ہوگئے ... جذبات اللہ کی جانب لے جاتے ہیں اگر ان کا رخ روح کی جانب ہو مگر ان کا رخ نفس کی جانب ہو تو تباہی ہے .. صم بکم عم فھم لا یرجعون کی مثال جن کے دل کا نور بجھا چاہتا ہے وہ انسانیت کا قتل کردیتے ہیں. ایسے تمام لوگوں کی ذہنی کیفیت جانچ کو اک بات زیادہ جان لیوا ہے کہ یہ بھی اک قسم کے بیچارے ہیں. جی ہاں! ان پہ کی گئی ریسرچ بتاتی ہے کہ ان کا بچپن ایسے ظلم سہتے تباہ ہوا اور جوان ہوتے انہوں نے مظالم کا بدلہ لیتے گزار دی! سوچیے کہ اک بچہ جو اس ظلم کا سروائیور ہے وہ آگے جاکے منفیت کے رحجان کا زیادہ حامل ہوتا ہے
اے مولائے پاک ....
ہمارے خاندانی ادارے کو مضبوط کر ....
تاکہ بچہ راہ فرار اختیار نہ کرے
تاکہ بچہ کل کو کسی کا مستقبل نہ خراب کرے
اے مولائے پاک
ہم سب پر رحمت کی نظر رکھ ...
ہم مسلمانوں پہ کرم سے فیصلے فرماتے ہمیں معاف فرما ....
گناہ گاروں کو ہدایت نصیب فرما
بچے کو والدین پہ اعتماد کرنے کی صلاحیت دے
بڑوں کی آنکھ میں حیا رکھ تاکہ شرم سے آنکھ نہ اٹھے
یا الہی العالمین
معاف فرما