Monday, February 22, 2021

دعا


انسان کسی بات کے لیے اپنی سی کوشش کرتا ہے میں نے بھی کوشش کی  ۔۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ  دل کو چھڑاؤں، ضبط کا دامن تار تار نہ ہو،  میں نے کوشش کی شیشہ دل پر لگی ٹھیس عیاں نہ ہو مگر افسوس ! میں نے کوشش ہستی کا دھواں رواں رواں نہ دے، میں نے کوشش کی وحشت کو پنجرے میں ڈال دوں،  میں نے کوشش کی خود کو خود سے نکال دوں،  میں نے کوشش کی درد کی چادر اوڑھ لوں، میں نے کوشش کی آگاہوں  کو آگاہی دوں، میں نے کوشش کی جسم کے سیال کو ابال دوں،  میری ہر کوشش رائیگاں ہوئی. 

میرے دعا،  مجسم دعا بنا وجود نہ سنا گیا،  نہ دیکھا گیا، نہ محسوس کیا گیا،  میری جبین نے سر ٹیک دیا اور در محبوب کا تھام لیا۔۔۔! اس کو جائے نماز کی طرح سنبھال کے نماز عشق کے سجدے کیے مگر جواب ندارد! کیا کیا  ہے میرے دل میں،  میں برس ہا برس سے پُکار رہی ہوں،  کیوں ایسا ہے دعا کو ٹال دیا جاتا ہے؟  کیوں رستہ بھی جمود کا شکار ہوتا ہے کیوں ایسا ہے بارش نہیں ہوتی، کیوں ایسا گھٹن کا سامنا ہوتا ہے کیوں ایسا آسمان کی جانب  حیرت بھی خاموش ہے!  کیوں ایسا ہے کہ قرب کا جاواداں شربت پلایا نہیں جاتا!  وہ  دل. میں بھی ،سینے  میں بھی، قلب میں  بھی!  زمین سورج.چاند سب ادھر!  مگر سنتا کیوں نہیں!  کون تڑپ دیکھتا ہے؟  جو پیارا ہوتا ہے اس کو اٹھا لیا جاتا ہے... وہ مجھے پاس نہیں بلاتا نہ کہیں سے اذن میرے رنگوں کو نور ذات کو  سرور دیتا ہے! 

 یہ دنیا ہماری ٹھوکر پہ پلی  ہے ہمیں دنیا نہیں.چاہیے ہمیں اپنا پیارا  درکار ہے!  پیارا جو ہمیں نہال ایسا کر دے کہ سالوں سرر نہ بھولے سالوں کیف کی منازل ہوں...ہمیں اس سے غرض ... وہ جانتا ہے وجود سارا مجسم دعا ہے دل میں اس کی  وفا ہے .... یہ یونہی درد سے نوازا نہیں جاتا جب بڑھتا ہے دوا مل جاتی!  اک درد وہ ہوتا ہے جو وصل کا تحفہ ہوتا ہے وجود ہچکی بن جاتا ہے، دل طوفان کا مسکن،  آنکھ ولایت کی شناخت ہوجاتی ہے مگر اک درد وہ ہے جس سے شمع نہ گھلتی ہے نہ جلتی ہے اس کا وجود فضا میں معلق ہوجاتا یے. ..... 

نہ رکوع،  نہ سجود،  نہ شہود ... ذات میں ہوتا وقوف ..اس پہ کیا موقوف کائنات جھولی ہوجائے ہر آنکھ سوالی رہے... اس پر کیا موقوف دل جلتا رہے، خاکستر ہوجائے مگر مزید آگ جلا دی جائے ...

.

جب آگ جلائ جاتی ہے تو وہ سرزمین طور ہوتی ہے تب نہ عصا حرکت کرتا ہے نہ شجر موجود ہوتا ہے!  عصا بھی وہ خود ہے اور شجر بھی وہ خود ہے!  یہ شجر انسان کا پھل و ثمر ہے جسے ہم عنایت کرتے ہیں ...زمین جب کھکھکناتی مٹی کی مانند ہوجاتی ہے تب اس کی سختی نور َالہی برداشت کر سکتی ہے ... یہ ہجرت کا شور مچاتی رہتی ہے مگر علم کا تحفہ پاتی ہے ... اس کا اسلوب نمایاں شان لیے ہوتا ہے... مٹی!  مٹی کے پتے ڈھلتی کتِاب ہیں ..

یہ.پانی کی موجوں کا.ابال ...یہ رحمت کی شیریں مثال ...یہ.بے حال.ہوتا ہوا حال ...کیا.ہو مست کی مثال.

.یہ کملی.شانے پہ ڈال ...اٹھے زمانے کے سوال ..چلے گی رحمت کی برسات ... مٹے گا پانی.در بحر جلال ... طغیانی سے موج کو ملے گا کمال ..یہ ترجمانی،  یہ احساس،  تیرا قفس،  تیرا نفس،  تیری چال،  تیرا حال ... سب میری عنایات ...تو کون؟  تیری ذات کیا؟  تیرا سب کچھ میرا ہے!  یہ حسن و جمال کی.باتیں، وہم.و گمان سے بعید.رہیں ...یہ داستان حیرت ... اے نفس!  تیری مثال اس شمع کی سی ہے جس کے گرد پروانے جلتے ہیں جب ان کے پر جلا دیے جاتے ہیں تب ان کو طاقتِ پرواز دی جاتی!  اٹھو دیوانو!  تاب ہے تو جلوہ کرو!  مرنے کے بعد ہمت والے کون؟  جو ہمت والے سر زمین طوی پہ چلتے ہیں،  وہ من و سلوی کے منتظر نہیں ہوتے ہیں وہ نشانی سے پہلے آیت بن جاتے ہیں ..آیتوں کو آیتوں سے ملانے کی دیر ہوتی ہے ساری ذات کھل جاتی ہے!  سارے بھرم حجاب سے ہیں یہی حجاب اضطراب ہے!  نشان ڈھونڈو!  غور و فکر سے ڈھونڈو!  تاکہ نشانیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچتے تم اک تمثیل بن جاؤ!  " لا " کی عملی.تفسیر جا میں الا الہ کہ تار سے کھینچے جاؤں گا ... یہ تیری دوڑ جتنا مضبوط یوگی اتنی حدبندیاں کھلیں گے،  اتنے ہی مشاہدات ہوں گے،  سر زمین طوی بھی اک ایسے جا ہے جہاں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں... یہ جو سر سبز پہاڑ کے جلوے ہیں ان میں عیان کون ہے؟  جو کھول کھول میری آیتوں کو پڑھیں،  ان.پہ کرم.کی دیر کیسی،  یہ تسلسل کے وقفے ضروری ہیں ...یہ محبت کے سر چمشے پھوڑتے ہیں...جتنی حبس ہوگی اتنا ہی پہاڑ ٹوٹتے ہیں!  زمین سے چشمے نکلتے ہیں ... زمینیں سیراب ہوتی ہیں .. درد کو نعمت جان کر احسان مان کر  پہچان کر نعمتوں کے ذکر میں مشغول دہ .... 

خاک کی قسمت!  کیا ہے؟  دھول.ہونا! یہ پاؤں میں رولی جاتی ہے ... جبھی اس کے اصل عکس نکلتا.ہے!                        

 اس نے جانا نہیں یہ درد کا تحفہ کس کس کو دیا جاتا ہے!  جو نور عزیز ہے،  جو کرم کی چادر سے رحمت کے نور میں چھپایا گیا ہے!  تیرا ساتھ کملی والے کے ساتھ ہے،  کمال ہم نے درِ حسین علیہ سلام پہ لکھا ہے،  حال فاطمہ علیہ سلام کے در پر ....  

ہوا سے کہو سنے!  سنے میرا حال!  اتنی جلدی نہ جائے!  کہیں اس کے جانے سے پہلے سانس نہ تھم جائے!  سنو صبا!  سنو اے جھونکوں ..سنو!  اے پیکر ایزدی کا نورِ مثال ... سنو ... کچا گھڑا تو ٹوٹ جاتا ہے،  کچے گھڑے سے نہ ملایو ہمیں،  ہم نے نہریں کھودیں ہیں،  محبوب کی تلاش میں،  ہمارا وجود ندی ہی رہا تب سے ِاب تک!  نہ وسعت،  نہ رحمت کا  ابر نہ کشادگی کا سامان،  لینے کو بیقرار زمین کو کئ بادل چاہیے .... تشنگی سوا کردے!  تاکہ راکھ کی راکھ ہوا کے ساتھ ضم ہوجائے،  وصالِ صنم حقیقت یے دنیا فسانہ ہے!  ہم تیرے پیچھے پیچھے چلتے خود پیغام دیتے ہیں ... ہمارا سندیسہ پہنچ جائے بس ...  قاصد کے قصد میں عشق،  عاشق کے قلب  میں عشق،  زاہد نے کیا پانا عشق،  میخانے کے مئے میں ہے عشق .... اسرار،  حیرت کی بات میں الجھ کے بات نہ ضائع کر جبکہ اسرار خود اک حقیقت ہے ... ستم نے کیا کہنا تجھے،  ستم تو کرم یے،  بس سوچ،  سوچ،  سوچ کے بتا کہ بن دیکھے جاننے والا کون ہے؟  اسماء الحسنی کو اپنانے والا کون ہے؟ صدائے ھو کو اٹھانے والا کون .. شمع حزن در نبی ہے!  یہ وہاں کہیں پڑی ہے،  دل کی  حالت کڑی یے ..  

حق ھو !  حق ھو!  حق ھو!  یہ حسن کے پھیلاؤ کی ترکیب جان،  راز ہیئت سے جان پہچان کر،  جاننے والے در حقیقت پہچان جاتے ہیں منازل عشق کی منتہی کیا ہے کہ ابتدا کو قرار کن کی صدا دیتی ہے، موت کو قرار اک اور صدائے کن دیتی ہے ..یہ بین بین وقت ہے،  ہماری حکمت ہے!  یہ زمانہ ہے،  یہ وقت ہے جب پہچان کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے،  یہ خسارہ جو زمانے نے اوڑھ رکھا ہے اس کی اوڑھنی پہ قربانی کے ستارے جب چمکتے ہیں تو ماہتاب جنم لیتے ہیں ..انہی ماہِ تاباں میں سے کوئ اک آفتاب ہوتے ہیں!  حق موجود!  تو موجود!  حق موجود!  وہ موجود!  حق اللہ!  حق باقی!  حق،  کافی،  حق،  شافی ...حق ھو حق ھو                      

صدائے ‏امام ‏عالی ‏حسین ‏

آواز کا کردار بُہت اہم ہے ، اس نے کہیں دو دلوں کو ملایا ہے تو کہیں  اسی آواز کی بدولت  ایسی تباہیاں مچائی گئیں ہیں کہ دل  لرزتے لزرتے سہم سے جاتے ہیں جبکہ کہیں پر یہ تھم بھی جاتے ہیں، دل تھم گیا تو بندہ گیا. ... آواز کو اگر صدا سے معتبر کردیا جائے تو صدیاں یک بیک اک زمانہ بن جاتی ہیں اور کہیں  پے زمانہ پلٹ کے پیچھے چلنے لگتا تو کبھی مستقبل کی اڑان بھرنے لگتا ہے. نغمہ ء گُل ہو کہ آہو،  دونوں (صدا اور آواز)  بصورتِ راگ،  بہ آہنگ ساز باہم ہوں تو قیامت دلوں پر نزول  ہوجاتی ہےـ تان سین کے بارے میں سُنا تھا کہ راگ میں جادوئی، سحر کی بدولت پانی آگ ہوتا جاتا!  تو سوچیے دلوں کا کیا حال ہوتا  ہوگا؟ یہ تو گائیک نے گایا سر و تال پر کہ حاضرین تو حاضرین، پتا، پتا، بوٹا، بوٹا جھوم اٹھا ...

آواز اور صدا کا چولی دامن کا ساتھ ہے ـ کچھ احبابِ وقار اک کو سرائیت کرنے والی شے تو دوجی کو سرائیت شدہ سے معتبر کرتے ہیں. صدا نگوڑی سدا کی خاموش , سر نہواڑے اپنے نہ ہونے کا احساس دلانے کی ایسی ناکام کوشش کرتی ہے کہ بسااوقات بات شات تو بھول جائے مگر شور ان صداؤں کا بھول نہ پائے  گا کوئی.  یہ صدا جذبات سے ابھرتے من مندر میں رقص کراتی بھلادیتی ہے کہ مذہب کیا، ذات کیا اور اوقات کیا ـ جب صدا اک نقطے پر مرکوز ہوجائے تو دھیانِ عشق پیدا ہوتا ہے 

"مجھے اسکو پانے کی لگن ہے، جو مرا ہے ہی نہیں مگر دل مضطر سوچتا فقط اسی کو ہے!  " 

"میرا فن لاجواب!  باکمال ایسا کہ جس  جس نے  یہ شاہکار دیکھے، زلیخا کی جیسے انگلیاں دابے عش عش کرنے لگا، بس ہاتھ کٹنے کی کسر ہے کوئی  "حاش للہ" کہے اور  ہو حسن کا رعب طاری ..... "

"لفظوں کی صدا نکلتے ہی دل سے  تال میل ہوجاتے ہی  کہ دل دیوانہ، پگلا تصویر میں لکا چھپی کے مناظر دیکھتا تو کہیں کردار ہنستے بولتے دکھتے ہیں ...!  بس  یہ لفظ! ہائے، ان  کی صدا نے مار ڈالا،  چیر ڈالا!  "

"صدا من موجی اور آواز شعور کی بیساکھی، دونوں کا میل کاہے کا مگر لوگ آواز سنتے اور صدا چھپا لیتے... "

تمہیدِ گفتگو صدائے حسین، امام عالی پر مقام، ذی وقار، سلامتی و درود بھیجا گیا بار دگر ہر روح نے، یہ صدا نومولود بچے کی طرح مرے من میں پلتی بڑھتی رہی ہے اور جیتے جاگتے وجود کی مانند تشنہ بہ لب، جان کنی کے نئے عالم متعارف کراتی ہے گویا کہ شب و روز کی بیتی کا استعارہ صدائے حسین رضی تعالی عنہ ہے کہ یگانہ صدا، ریاکار دل میں گونجتی ہے تو نالہ ء بلبل کا سننے کو جذبات پہاڑ کاٹ کے دودھ کی نہریں جاری کرتے تلخ و آب زمین کو سیراب کیے دیتے ہیں.  پوچھیے!  جی مجھ سے کہ صدائے حسین تواتر سے دلوں میں گونجے تو ہر روز شب عاشورہ ہوجائے،  نوک سناں دل جھکے، ساجد ہر جا تسبیح کرتا ریگزار  کو دریا کرتے رہے.  میں اس زمین پے ہونے والے بے انتہا کرم پر خوش اور اپنی کوتاہی پر نالاں ہوں کہ مری آواز مرے کردار میں دب جاتی ہے تب بھی صدا باقی رہتی ہے کہ کردار عالی مقام اتنا بلند ہے کہ مجھ پست کو افلاک چیر کے دیکھنا امر لامحال ہے. پھر بھی دیکھیے دل ناداں نے ان کو یاد کرنے کے لیے دو تین آنسو بہا دئے ہوں کہ گویا دشت میں سحاب  چھٹ گئے ہوں. اپنی عزلت کو روتا یہ زمانہ دیکھے تو سہی کہ کیسے امام نے کس ہمت سے مصائب زمن کو سینے پر سہا اور آہ بھی نہ کی بلکہ عبدیت کا حق ادا کیا. آج یہ جہاں صف بہ صف امام کی صدائے غائبانہ کے پیچھے نماز عشق ادا کرتا اس اصول کی توضیح کرتا ہے کہ جب اللہ کی صدا سے اپنے من کی صدا کو اجاگر کیا جائے تو یہ زمانوں پر محیط بحر بیکراں کی مانند دلوں میں ہلکورے لیتی عشق کی اذانیں دیتی ہے

احساس ‏،خیال ‏دعا

رات کے لباس کو چاندنی نے تار تار کررکھا تھا . حسن گویا چہار سو بکھر کے اُجالا سے مدغم،  احساس نے پہاڑ تراش دیے تھے، جذبات کے سمندر میں نیلگوں روشنی تھی اور افق پر چاندنی کی کرنیں وجود مطہر کے لباسِ سفید کو نمایاں کررہی تھیں . سفید لباس میں جائے نماز پر بیٹھا وجود، جس کے چار ست اندھیرے روشنی لینے کو ترسے ہوئے تھے،  وہ صورتِِ ضیاء، عکسِ حیا ہچکیاں لیے، آنکھ تر بہ تر،  ہاتھ اٹھائے دعا مانگ رہی تھی.  وجود ہچکیوں کی جنبش سے ہلتا تو زمین کو زلزلے آنے لگتے مگر نازاں کہ رخسارِ اطہر سے معطر اشک خاک پر گرتے فخر ملائک کیے دے رہے تھے!  اشکوں میں زار زار وجود اور شبِ قدر کی رات!  وہ اک کچا سا مکان تھا جس کی زمین بھی مٹی کی تھی مگر کچی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نے گویا ذی نفسِ احساس کے نتھنے معطر کردیے تھے.  کبھی ہاتھ دل کے پاس رکھتے سکون کو محسوس کرتا وہ نفس رشکِ فلک اور کبھی فلک پر نظریں جماتا رشکِ کروبیان!  روح الامین اس نوری وجود کو دیکھ کے مسحور اور بیقرار کہ تشریف لاتے یہ بتاتے:  خدا نے آپ کی دعا قبول فرما لی،  امت محمدی کو گویا اشکوں سے خیرات مل گئی تھی.

جب نومولود بچہ پیدا ہوتا ہے تو فطرت میں اس کو محبت کو وہ تار دے دیا گیا جس کا سرا اس نفس مطہر کے پاس ہے اور جب احساس اشکوں کی صورت وجودِ روح کو جھنجھوڑتا ہے تو درود بصورت نذرانہ ادا ہونے لگتا ہے.  یہ اس دعا کی صورت ہمیں احساس درود سے نواز دیا گیا. ہمیں بتایا گیا کہ وہ قربان ہونے والی ہستی صدیوں سے ہم پر فریقتہ ہے اور ماں جیسی مامتا لیے ہمارے دکھوں کو اپنی رحمت کی کملی میں چھپانے کو بیتاب ہے مگر ایک بار اس احساس کو دل میں نمو ہونے دیں 

یہ احساس شعوری نہیں بلکہ لا شعوری ہے. روح کی بے چینی،  بیقراری اسی وجہ سے ہے کہ تصور کی رعنائی میں اس خیال کو لائیں،  جس خیال میں وہ مطہر وجود رہا؛  تمام امت کے اک اک فرد کو ذہن نشین کرتے بہ دعا مانگتا رہا خدا سے.  ہمارا خیال کو اس خیال تک پہنچنے کی دیر ہے اور دعا تو خالق نے قبول کرلی ہے. یہ امت سند یافتہ ہے!  ذرا نم ہو تو اس مٹی میں گوہر آبدار ہے!

تخلیہ

تخلیہ ... 
میرے ہونے کا تخلیہ 
دے رہا ہے جنم مجھے 
میں کون ہوں؟
یہ کون دل کے شیش محل میں ہے؟
یہ کس تیر نے آر پار کیا؟
ہاں!
تخلیہ!
اس سے پہلے کے راز فاش ہو جائے 
اس سے پہلے تو گھات میں آئے نہ خود کے 
مجھے میرے ہونے کا اذن ملا 
اب تخلیہ 
ہاں ...
تخلیہ ..

اک ‏نعت ‏وہ ‏ہے ‏

اک نعت وہ ہے جو وجد ہے 
اک نعت وہ ہے جو مہک ہے 
اک نعت وہ ہے جو وصل ہے 
اک نعت وہ ہے جو رات ہے 
اک نعت وہ ہے جو بات ہے 
اک نعت وہ ہے جو ساتھ ہے 
اک ذات وہ ہے جو ساتھ ہے 
جو وہ ساتھ ہے تو نعت بنی 
جو نعت بنی تو رات بنی ہے 
رات میں بات،  بات سے بات 
یہ ملاقات ہے، یہ بہاراں ہے 
نعت کا وصف، عمل عین.ہے 
نعت کا وصف،  حب عین ہے 
نعت کا وصف،  جذبِ دل یے 
نعت کیا ہے؟  نعت تعریف یے 
نعت سے بات،  بات سے رات 
رات نے پائی ہے رات کی سوغات 
کر مناجات،  مناجات پسِ ذات 
پسِ ذات؟  ہان عین ذات ہے 
یہ لا عین ہے یا عین لا ہے؟  
یہ عین و لا کا کھیل کیا ہے؟  
کھیل نہیں ہے. 
ہاں یہ ضرب عین و لا کیا ہے؟  
الا اللہ کی ضرب سے نعت ہوتی ہے 
ضرب حق!  ید اللہ ہے 
بانگ مرغ ہے کہ وجدِ آفرینی 
ترنگ میں مگن کوئی ذات یے 
یہ نہ اوقات تھی پر کیا بات ہے 
یہ سوغات ملے جسے عین بات یے 
کمال کا تحفہ کہ لا منات سے لاحاجات سے ہوا سلسلہ 
سلسلہ بنا کیا؟  
ہاں بنتا یے 
سلسلہ تو عین شہود ہے 
پس عکس رقص یے 
دیوانہ کوئے یار جاتا یے 
دیوانہ کو علم نہیں رستہ 
دیوانہ محتاج کسی کا ہوگا؟
لا حاجات سے بات بنی 
لا سے عین شروع ہوا 
العشقُ عین 
العشقُ حب من 
الذات بالذات 
الذات رقصِ اظہارات 
پسِ دل طور کی بات ہے 
سر آئنہ میں ہوں؟  پس آئنہ کون یے؟

دیوانے کی لو لگی ہے 
شناسا جانے کہ ہوگا کیا؟  
شناسائی کا لطف پوچھنے سے ملے گیا کیا 
ربط ذات میں مناجات لا 
ربط ذات میں لا حاجات لا 
تو رک جا!  ساکت ہو جا 
ذات کو اظہار میں لا 
تو لا ہو جا ...عین الا اللہ ہو جا 
رقص بسمل پسِ مناجات ہے 
یہ دل کی بات ہے رمز شناس یے 
قبلہ یے قبلے میں سجدے کی بات ہے 
قسم اس کعبہ کی 
العشق ذات من 
الحب ذات من 
الذات بالذات 
تدراک نہ ہوگا 
رنگ نی ہوگا 
رنگ مگر ہوگا 
جدا نہ ہوگا 
مگر وصل نہ ہوگا 
کمال نہ ہوگا مگر اس میں کمال.ہوگا

رجب سے شاد ہے 
یہ ناشاد دل کب سے برباد ہے؟
نہیں!  نہیں!  
یہ ذات ہے 
یہ وہ عین ذات ہے 
جس کی بات سے چلی بات ہے 
نہ تھی اوقات مگر کیا بات ہے 
سلسلہ ءنور ہے کہ روشنی ہے 
روشنی ہے کہ ماہ و سال ہیں 
ماہ سال سے پرے اک نظام یے 
نظام سے پرے اک کائنات یے 
کائنات میں تمام عالمین ہیں 
عالمین کے رب کی بات یے 
الحمد للہ رب العالمین 
الرجب !  ہاں رجب!  
ذکر شاد!  ہاں ذکر افکار سے ہوا 
ہاں یہ عین بات سے ہوا 
یہ منادی یے کہ کسی نے کہا 
العکس بات من 
العشق ذات من 
رقص بسمل میں چھپا کیا ہے 
تماشائے ذات سر بازار رکھا ہے 
اس میں کمال نہیں ہے مگر کمال کی رمز ہے 
وہ جو عالمین سے ہے 
وہ دل میں دلوں کو پکڑلیتا ہے 
وہ قلب سے قلوب میں جھانک لیتا ہے 
وہ نظر میں رکھتا ہے 
نظر منظر،  نظر زاویہ 
نظر حاشیہ،  نظر مستور 
نظر اول نظر آخر 
نظر دائرہ، نظر نقطہ 
نظر اک سفر ہے 
سفر کب سے ہے 
سفر میں اک خبر ہے 
خبر میں کیا بات ہے



نعت ‏

نعت کہنے کے لیے کیا چاہیے؟
نعت کہنے کو حرف دل چاہیے

نعت سرکار کی، کہوں میں 
در یار جا کے کیا کہوں میں؟  
ان کو کہہ دوں دید کب ہوگی؟
ان کو کہہ دوں عید کب ہوگی؟

صورتِ آفتاب، نگہ ماہتاب ہیں  طٰہ 
دل کی کتاب میں گلاب صورتِ طٰہ

کہہ دوں گی مائل کرم ہو مجھ پر 
دم بہ دم نگہ ناز ہو جائے مجھ پر
واہ واہ واہ 
کیا کہا؟ محشر کی بات کی 
دل دیکھیے بپا اک حشر ہے 
ہجر کا غم نینوں نے سہا ہے 
آئنے کی چاہت میں مبتلا یے


جلوہ بہ تیر دل فگن ہے.
دل پر مائل اک گگن ہے 
چار سو دکھے  سجن ہے 
رونق میں یہ دل مگن ہے

شمع افلاک سے، دل قندیل 
کس طرز سے اترے جبرئیل 
قرأت میں افکار کی ہے دلیل 
افکار میں مل جاتا رب جلیل


سینہ مبارک مانند انجیل 
طٰہ ہیں روشنی کے سرخیل


جذبات گم ہیں کائنات میں 
ہاتھ رکھ، ہے دل افلاک میں

رانجھن یار نہ دسدا کوئی 
سوہنے سرکار جیہا نہ کوئی

ھذ ‏العشق ‏؟ ‏ھذا ‏سید ‏من ‏؟

ھذا عشق!  ھذا سیدِ من 
یہ وہ غبار ہے جو تہہِ دل سے اٹھا ہے دل کے جبل میں انواز نے مجھے دیکھ لیا ہے. اجمال سے محو ہوگیا ہے پتھر اور مشہود میری روح ہے. روح پتھر کو سجدہ کرنے لگی. پتھر نے سجدہ کیا ہے اور کہا ہے 
ھذا عشق!  ھذا سید من 
جمال شیدا طلب سے ماوراء ہے 
کمال کا طالب دل میں گم ہوا ہے 
یہ میرے حاصل کا انتساب ہے 
میں گم کس کے ملال میں ہوں؟
یہ کیسا مجھ میں اترا جلال ہے؟
ھذا عشق! ھذا سید من

وفا کی دیوی نے مجھے بُلایا ہے قربانی کو. سر قلم کردیا گیا. میں نے کہا 
شوق آ ... شوق آ ... شوق آ 
مجھے طلب ہے دل میں موت ہوجائے. دل میں قبائے ہاشمی کی صدا نے دل میں اک الوہی سی کشش پیدا کررکھی ہے 
ھذا مرشد من 
العشق مرشد من 
حی علی العشق 
حی علی خیر العمل

یہ خیر عمل ہے جو بخیر ہوا ہے. قرب کی نہیں تمنا. جمال کی تلاش نہیں بس اک کرسی ہے ھو کی. جس نے مجھ میں قرار پکڑا ہے اور کہہ رہی 
ھذ علی العشق!  العشق من! میں نے ہبہ کیا عشق تجھ کو 
میں نے کہا بندگی بندگی بندگی

ملی بندگی. یہ تابندگی. یہ رقص قلم کے شرار جس کی حرارت نے مجھے وحدت میں مبتلا کردیا ہے وفا کا تقاضا ہے نا خون بہتا آنکھوں سے دیکھوں؟
میں بہہ گئی ہوں ... خون کیا ہے 
خون نے کہا 
ھو العشق ھو العشق ھو العشق


مزاج میں بندگی نے مٹا دیا ہے. عدم سے لایا گیا ہے. معدوم وجودیت میں نفس ہے. بقا کس کو ہے؟ اللہ کی ذات کو بقا ہے. سب میں اک ھو ہے جس کو ہم نے دیکھا نہیں ہے


وہ تلاش کرنے والے فارس سے نکلے! کیسی چمک و آب و تاب سے شام سے نکلے وہ مہِ خورشید!  رشک قمر!  اوج ِ ثریا پر مکین!  وہ ستارہ سحری سے طٰہ کا اجالا!  وہ کملی والا ... کملی بھی ہے استعارہ ..وجود کا پارہ پارہ کہہ رہا ہے 
ھو الہادی من!  وہ کون ہے 
العشق ہادی من 
درد جگر میں نہاں تیر میں جلوہ طٰہ کا ہے 
دل میں اسم طٰہ کی تجلی ہے کہ چمک نے مجھ کو محجوب کردیا ہے بس اک ذات ہے کہ وہ ذات ہے آئنہ ... 
کس سے پوچھو کہ اللہ کہاں ہے 
اللہ دل میں ہے. دل خالی ہے دل کو جب اللہ مل جائے تو دامن بھر جاتے ہیں اود اپنی نہیں ہوتی بس اس کی کرنی ہوتی ہے. میں نے ہادی من کو دیکھا ہے کہا ہے 
سچل مرشد قبلہ نما 
قطب من ہادی من 
دل کی وادی میں شہ بطحا کے اجالے 
دل کی راجدھانی کے شاہ ہیں اور شاہ کے آگے سر تسلیم خم
      
خمیدہ زلف کو ذرا دیکھ اود ڈوب جا. گیسوئے مصطفی سے جو ملے خوشبو. اس سے مانگ اک آرزو. کہ بس یہ رہے سدا اور صدا رہے سدا کہ آپ ہیں اور میں نہیں ہوں حضور. 


وہ آرزو کہ رخ سے حجاب اٹھے اود دل سے سحاب اترے. ابررحمت بارسے. ایسی برسے کہ برکھا رت کے قطرے قطرے میں شاہد ہو . لہو زنجیر ہو کہ دل فقیر ہو دیکھے شاہ کے جلوے دم بہ دم. ان کے حضور کس منہ سے جاؤ گے؟  وہ کہتے ہیں ہمیں بندگی!  بندگی!  بندگی!  بندگی میں گزر جائے زندگی. اود چاہیے کیا کہ ان کے رخ مہ تاب سے اک آنکھ سے دوسری آنکھ کی روشنی دیکھی ہے وہ روشنی ہے کہ ہائے دل بیٹھا جائے ان کا مسکرانا ہے دل ڈوب جانا ہے کہ وہ پیار کے تقرب کی محفل ہے. اس میں ہے دستخط مہر رسالت سے ...ہم جان گئے حضور کہ آپ نے کیا ہم کو قبول. دل پر رقت لگے گی ضرود کہ وہ پیارے ہمارے ہیں شہ ہادی شہ ولایت

یار من دل کے سیپ دیکھ 
یار من موجہ دل کو دیکھ 
یار من تیغ فغاں کو دیکھ 
یار من تیغ نہاں کو دیکھ 
موتی لا 
موتی ڈھونڈ 
سیپ کھوج

یار من نے چھپا لیا ہے موتی 
ڈھونڈن چلی میں اس نوں 
لکا چھپی کی رسم ہے پرانی 
یہ کہانی ہے ازلوں کی نمانی 
شبد شبد کی داستان نرالی 
عجب مرا دل 
عجب مرا حال 
عجب دنیا ہے. 
یہ موج طفر ہے 
دل کدھر ہے؟  
دھیان میں گئے 
دھیان نہ رہا 
دھیان میں نہیں میں 
دھیان میں کون یے 
یہ محور رسول ہاشمی نقطہ 
متوف ہے اک عجب سالار 
یہ دل میرا ہوگیا ہے بیمار 
کس سے کہوں مرض لاعلاج 
دل کو ڈھونڈو اب کوئ علاج


اللہ اللہ کہنے سے میرا دل ڈوب گیا 
ڈوب کے جانے والو سنو 
یہ افسانہ رنگین ہے 
ہر رنگ کی داستان عجب یے 
دل میں شاہی نقب ہے 
شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ 
.شاہ ولی شاہ ہادی شاہ ولایت


ابھی رنگ ہے ابھی وہ ساتھ ہے ابھی وہ پاس ہے ابھی اس نے بلایا ہے 

جس نے بلایا ہے اس سے پوچھو دل کے افسانے یہ فسانے مٹا رہے مجھے 
فنا کیا ہے؟
عشق فدا ہے مجھ پر 
میں عشق ہوں.
 میں نہیں تو 
ھو الشاہد ھو الشہید 
درمیان میں کون ہے؟
نفس یے 
اے نفس دھیان سے نکل 
اے روح میان میں رہ
اے موج تو آب بہ آب دُر پاتی جا


موج نے موج سے پوچھا کہ ساحل نے مجھ سے سنا نہیں فسانہ 
ساحل نے کہا 
چل داستان عشق نہ سنا 
میں خرابہ ء عشق سے پر ہوں 
موج بہ موج بحر میں ہوں 
میں تو خود کسی دہر میں ہوں 
دھیمی رفتار پر آنچ ہے.. یہ قرار پکڑ چکی ہے آگ. جانے وہ کونسی آگ ہے جس نے بحر کو آگ میں ڈال دیا. بحر کی آگ دیکھے کون.
پانی آگ 
آگ پانی 
یہ آگ پانی سے نکل جا 
ماٹی کا پنجرہ عجب ہے 
ماٹی کا پنجرہ نفس ہے 
نفس میرا مجھ میں قفس ہے 
روح میری فضائے دوستاں میں یے

جناب عالی نے مجھ کو بلایا پوچھا اور کہا 
یہ ستار ترا ہے؟
یہ صدا تری ہے؟
یہ قبا تری ہے!
کیا ہے ترا 

لٹو بن گئی میری روح میں لٹو. رقص نے دیوانہ کردیا مجھے دیوانہ کیا جانے چال الٹی ہے یا سیدھی

اب میں نہیں خود میں وہ خود مجھ میں 
جو خود ہے تو پڑھا جاتا ہے خود کو 
ذات کو پڑھ!
ذات صحیفہ یے 
ذات کو پڑھ 
ذات سے عشق 
 ھذا عشق؟
العش حب من 
العشاب میں نہیں خود میں وہ خود مجھ میں 
جو خود ہے تو پڑھا جاتا ہے خود کو 
ذات کو پڑھ!
ذات صحیفہ یے 
ذات کو پڑھ 
ذات سے عشق 
 ھذا عشق؟
العشق حب من 
العش دیار من دیار من


سنو عشاق! عشق آسان نہیں ہے. یہ پل صراط ہے جس پر چل کے جانا ہے پنجوں کے بل. یہ چلن زمانے کا کہ دیکھو پل صراط دنیا ہے ہم دوذخ سے اترنا ڈھونڈ رہے جنت کی وادی میں گھوم رہے. دنیا میں رہنا ہے متقی ہے .. یہ دنیا کس کی ہے 
یہ جہاں کس کا ہے 
یہ زمانہ یہ کچراغ کس کا ہے 
جب سب اسکا ہے میرا کیا ہے؟
دل بج رہا ستار وانگ 
بسمل کا تماشا ہے سر عام 
بسمل نے کردیا درد عام 
یہ وہ قیس جو نہیں عام 
یہ لیلی سے ملے گا کسی شام

وعدہ ء عشق ہوا؟  ہاں ہوا اور پھر وعدے میں میں نے دیکھا اک ارادہ

یہ کن کا تھا ارادہ 
کن والے نے مجھے نفخ کرنے سے پہلے 
مجھے مجھ سے مانگ لیا 
کہا یہ ہے میرا ارادہ 
کہا اب پورا کر وعدہ 
میں کون ہوں؟
میں ماٹی کے پنجر میں ایک دیپ 
لو!  لو!  لو دیپ لو!  دل بنا دیپ 
میرے دل کے دیپ میں رنگ ہے


نظامی رنگ ہے. دل پر چنر نظامی ہے. یہ رنگ ہے کہ موہا رنگ ہے پریمی. موہی چال ہے پریمی. مورا سجن دلربا. موری آنکھ میں ہاشمی لگن. یہ دل ان کو دیکھ تیر فگن. جان چلی جانی یے. جان چلی جائے گی کہ جان جانے سے میرا کیا ہوگا. نفخ سے نفخ بعد تک میں اسکی تھی میں اسکی ذات کی وہ تجلی ہوں جس سے وہ زمانے میں کہہ رہا ہے کہ 
لوگو پہچانو مجھے 
میں نے دنیا اپنے لیے بنائ 
تم دنیا اپنے لیے بنانے لگ گئے

میں نے نفخ کا کھیل سمجھ لیا میں نے خود میں خود کو دیکھ لیا میں نے اسکو پایا ہے. وہ ھو کی تجلیات لیے راز دل ہے. یہ وہ سرزمین ہے جس میں کئی راز ہیں اوردل راز کا امین ہے. اس دل سے کئی وعدے ہیِ 
آج دی گل نئیں رانجھن یار 
میں ازلوں تری نال منگاں آں 
میرا لوں لوں مہکائے وے 
مری جان بن بن آئے وے 
من شانت!  تن شانت!  رنگ برنگ اسکا راگ!  الوہی اسکا ساز 
تار میم کی لگی ہے 
تار اللہ والی ہے 
تار مل گئی ہے 
تار ہوگئی ہوں میں 
میں تار ہوگئی 
بھلا کون ہے وہ کون ہے کہ کہاں سے نفس سے پوچھے کہ تو کون ہے نفس شرمندہ محجوب ہے کہ کس سے کہے دل ہے اک صندوق جس میں رکھے سو سیپ. میرا دل اک َخزانہ ہے اس میں ہاشمی نگینے ہیں. یہ سامان تپش سے ہے جو مجھ کو ملا ہے رگ رگ میں سانس سانس میں واج اک ہے اللہ اللہ اللہ 
اللہ کی بات کرو 
اللہ دل میں



ابھی دل سے صدا ابھری 
تو مجھے دیکھ
دیکھا اس نے مجھے اور میں خود کو دیکھی جاؤں 
من میں ڈوب 
خود کو پا 
من میں ڈوب 
جوہر فشاں ذات ہے تری 
مہر رساں بات ہے تری 
من میں ڈوب 
مٹی ہو 
خاک بہ خاک 
ہو ذات بہ ذات 
اک آیت بن جا.
آیت ہو جا 
نوید ہو جا 
تحریر ہو جا 
اللہ کہہ 
اللہ بول 
اللہ ہے یہی کہہ

ناپ ‏تول

 

ابتدا کے طور پر میں ایک آیت شروع کرتی ہوں ... آپ سے التجا ہوگی کہ آپ کو جو دل ان آیات پڑھ پیغام دے وہ ضرور شئیر کرے 

سورة المطفّفين, آیات: ۱

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ

ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے

میں نے جب اسکو پڑھا تو بہت سوچا اسکا خطاب میِ  کیسے ہوں؟
سوال کیا دل سے 
دل نے کہا جھانک کہ دیکھ اور پڑھ دل کو 
 افسوس!  افسوس!  وائے افسوس!
خرابی ہے میرے لیے کیونکہ جب میں نے نیت کے ناپ تول میں کمی بیشی کی  ...
من نے سوال کیا کیسے؟
کہا کہ جب مانگی محبت تو مکمل حق سے مانگی 
جب دینے کی بارے آئی تو میں نے ڈنڈی ماری دی 
مجھے اس کی تخلیق میں عیب دکھنے لگ گئے 
میں نے اسکو مکمل اپنایا ہی نہیں ہے. اسکو مکمل اپناتی تو احساس ہوتا کہ عیب مرے دل میں ہے عیب مری سوچ میں ہے عیب مرے خیال میں ہے. اس نے مجھے پھر بھی تھام رکھا ہے اور میں نے اسکی مخلوق میں عیب نکالے 
اس کا اظہار خالق نے مجھ سے کیا ہے دل میں وہی دکھ در آیا ہے 

درس آیا دل میں کہ افسوس سے نکلنے کا وقت ہے 
جب دل کو لگی جب من میں اسکی آئی تب دل کو لگی لگن کہ وہ ہے معاف کرنے والا من خطاکارم گناہگارم!

سوار ‏نئی ‏منزلوں ‏کے

سوار ہوتے ہیں نئی منزلوں کے مسافر یقین سے سرفراز کیے جانے کے بعد ...حرم پاک سے فلک تلک ...نجف سے میدان کربل تلک ...مسجد اقصی سے موسوی نور تک موسوم کہاوتیں موجود ہیں ...موسوی نور سے عیسوی نور تا نور مریم تلک ...کیا کیا کہانیاں موجود ہیں ...کیا کیا کہانیاں وقوع پذیر ہوئیں ...

جب یہود نے کہا عزیز اللہ کا بیٹا ....جب مسیحیوں نے کہا عیسی ابن اللہ، نعوذ بااللہ ..!!! عیسی نور اللہ ...مت کہو عیسی اللہ کا بیٹا ..عیسی روح اللہ ،موسی کلیم اللہ ، اسماعیل ذبیح اللہ ، ابراہیم خلیل اللہ ۔۔۔۔ محمدﷺ کے ساتھ لقب نہیں ،ان کا اپنا نام شامل ہے .نام بھی کیا جس کی رب تعریف کرے ،جس پر رب درود بھیجے ۔۔۔ .تمام انبیاجزو...نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کل ...جب کہ ہر نبی جزو اس کل کا ...ان گنت درود جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ....معراج نصیب ہوئی ....جب نور نور سے ملا تو گویا عین وصلت کا حال تھا ...یہ مقام اوج ہے!  یہ مقام ابد ہے ...جب نور کو ابدیت کے سرور سے نوازا جاتا ہے تو کیا مسکراتا چہرہ لے کے افلاک کو لوٹتا ہے ...تب ملائک نادم اپنے خیال پر کہ انسان کی تخلیق فساد کے لیے ...انسان تو خلق کیا گیا پہچان کا ہے رولا سارا۔۔۔پہچان کے لیے آدم خلق مگر انسان کہ گم اس دنیا میں ۔۔۔

....

عارف نوازے جاتے ہیں ...عارف جانتا ہے کہ اللہ کا نور پتے پتے بوٹے بوٹے میں موجود ...خود سے ملاقات کی یا مظاہر سے تو گویا ربط خدا ایزدی سے ہوا ...خدا سے ربط آسان ہے مگر خدا سے ربط کے بعد مخلوق سے بے ربطی نعمت کا کفران ہے ...آدم کو چاہیے ہمہ وقت تسبیح کرتا رہا ...سبحانک لا علم النا الا ما علمتنا انک انت سمیع علیم ....

بے شک علم میرا ہی ہے باقی سب مخلوقات عاجز ہیں .........

شاہ طیبہ کچھ ایسا کہہ دو کہ بات بن جائے 

شاہ طیبہ کچھ ایسا کہلوا لو کہ بات بن جائے 

سفر حجازی تنہا  کیسے کٹے، میری روح مجھ سے ملوادو کہ بات بن جائے 

میرا حال سے با خبر ہو ...دائم جلوہ دکھلادو کہ بات بنے 

قائم ہوں آپ کے نور سے، سراپا نور بنادو کہ بات بنے 

رات کٹ گئی صبح کا شمس موجود ہے 

ملائکہ کے ہیچھے اور ملائکہ جوق در جوق روضہ نبی پر حاضری کے لیے ......

بسم ‏اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
ایاک نعبد وایاک نستعین 
محمد خیر المرسلین 
وصلوت رہنما درکار جذب 
میری چاہت تو ہے 
تو نفس ساتھ کیوں ہے 
میں ترے لیے مٹ گئی 
میری میں ساتھ مگر ہے 
ترے لیے جینے کی منتظر 
میں تو عبدیت کے واسطے آیت اسری کی منتظر 
تڑپ کم ہے مگر ساتھ تو ہے 
دل کا پیمانہ چھوٹا پے رحمت زیادہ ہے 
میں ذلیل تو اعلی 
میں کمیں میں گھٹیا مگر ترا کرم رکھے بھرم 
میں تو چنوں گی اک قطرہ بھی شہد کی مکھی کے جیسے کشید کیے 
تو وحی کردے تو شہد کی مکھی کو 
میں تو تلاش میں تری 
میً جستجو میں تری 
میں انتہا تک جانا چاہتی 
نہیں تو مجھے انتہا تک لانا چاہتا 
میں تو منتظر اس علم کو جو دیا گیا کہ اسکو تو اب مقام دے 
مرے ہجر کو لذت دوام دے 
مرے قلب کو عیش مدام دے 
رہے ترا نشان، وہ نشان دے 
میں کوجی آں تو سوہنا اے 
میں تری راہ دی جوگن آں  ترے سوا ڈسدا نہ کوئ. میرے خیال دی مرکز وی توں ..میرا قلب اچ وسیا توں ..آجا مرے کول ...آجا میں تیڈی منتظر ..نہیں تو مرا منتظر ..مالک مینوں اپنا لے ..مینوں دنیا نی چاہی دی ..تو میری دنیا ..مینوں دے دے اپنا آپ. سن لے فریاد مری ..

بسم اللہ کر لی میں نے. بسم اللہ تو کب سے ہے. توبہ کرلی میں نے توبہ تو کب سے ہے ... مالک تو مجھ مل جائے بس یہی مقصد حیات ہے. تجھے سوچوں ترے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جلوہ دائم دیکھنے کی متمنی روح کو یہی چاہ کہ نظر اٹھے تو جمال لوٹے، نظر جھکے تو وصال میں رہے، نظر میں ان کی نور رہے "جہاں بھی چلے مستور رہے، خیر بھی ان کی برکتیں ہیں ..وہ حبیبِ کبریاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم خلیفہ ختم المرسلین ہیں. انہی کے فیض سے کہتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم، انہی سے کہتے دل کو خیر البریہ کردیجیے دل کو خیر بنا دیجیے دل میں شاہا کا نور ہو اور نور کو کیا چاہیے. نے ارض خلافت مقصد، نے دشت ہجراں سے وصلت مقصد، دائم ان کو جلوہ ہے مقصد، رہے وہ صورت مرے دل پہ ہر قصد، میں تو کہنے کی مجال میں کہہ نہ پاؤں آقا بن آپ کے رہ نہ پاؤں ...  آقا کی کملی خلافت ہے ... آقا کی کملی نیابت ہے ..آقا کی کملی اکسیر جملہ شفاوات ہے آقا کی کملی نے کائنات کو لپیٹ لیا ..آقا سرکار رحمت العالم ہیں  درود پڑھو.  صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
لبیک لبیک لبیک 
حاضر ہیں ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں ہم 
من عبدی من عبدی من عبدی 
من غلام حیدری من غلام حیدری من غلام حیدری 
امیر حیدر شیر دلاور ہیں 
امیر جود و سخا شیر ولایت امام حسین ہیں 
مومنات کی سردار سیدہ بی بی پاک فاطمہ الزہرا بنت الخدیجہ الکبری اقدس عالیہ ہیں 
بنات کی سردار خواتین و امہات کو سلام 
سالار اعظم شیر وقار ذی الجلال حیدر اعظم کو سلام 
شہ ہادی ابرار العلیاء نجیب اولیاء خاتم الانبیاء 
اے مالک مجھے سیدھی رہ دے 
اے مالک تڑپ کو اتنا فزوں کر یہ تڑپ رہے میں نہ رہوں 
اے مالک اپنا درد دے 
اے مالک ہجرت کا احساس فزوں کر 
اے مالک درد سے لیر لیر کر 
اے مالک مجھے ہجرت میں اپنا ولا دے 
اے مالک مجھے اپنی ہمہ ہمی میں تو چاہیے 
اے مالک نماز قائم کرادے 
اے مالک جذب رہبرکردے 
اے مالک مجھے جستجو میں گما دے 
اے مالک تڑپ بڑھا کہ جوگنیا بن کے جاویں گے سرکار کے پاس 
اے الطیف مجھے لطافت کی چادر میں ڈھانپ لے 
الے النور مجھے علم و فضل کے حجابات سے پرے رکھ اے مالک نور علی النور کے سب سلاسل سے پردہ اٹھا 
اے المالک اختیار دے خود پہ حاکم بنا خود اپنی رعایا کا حاکم کر 
اے اللہ مجھے اپنے الف سے وصال دے مجھے ل سے سب لا سکھا مجھے لوح و قلم بتلا مجھے وہ جوڑ دے جس سے نفی کرتے ہ تک آسکوں بس طسم کی آیت دل میں نقش ہو میں یسین کے مقام پہ حیرت میں رہوں اے مالک بلا. تڑپ رہی تجھ بن جینا دشوار. اے مالک مچھلی بن جل کے تڑپ رہے اب تو خضر کر. اے مالک ملا دے مرے خضر سے ..مجھے وہ علم دے جو مجھے سرمہ سرمہ کردے مگرہوش قائم رکھ کہ ہم امتی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں. اے مالک غنا کی چادر دے دے. اے مالک حیا دے دے جناب عثمان غنی کے واسطے اے مالک جلال دے حیدر کرار کے واسطے اے مالک نفس قربان کرنے کی صلاحیت دے دے امام حسین کے واسطے اے مالک اے  خالق  مالک ...سن لے مری رات مرا دن تجھے پکارتا ہے مری یاد میں تو ہے مگر نفس حجاب رکھتا. مالکا کیسے آؤں تجھ تک ..امام حسین کے واسطے مجھے وہ علم دے کہ نفس ذبیح ہوجائے وہ فیضان نظر دے جو جناب اسماعیل علیہ سلام کو دیا اے مالک یقین دے دے کہ کفر کی آگ ٹھنڈی کردوں میں ..مالکا ...سن لے

لبیک لبیک لبیک 
الحج الحج الحج 
الحق الحق الحق.
علم البیان رطب للسان 
میں ان کی ثنا میں مریض ناگہاں 
مرض نسان میں چلی کہاں کہاں 
میں تو چلی اسکی رہ پر 
مجھے دو ..خدا کے واسطے مجھے دو تاکہ میں قطرہ قطرہ سینت کے چلوں اسکی رہ پر 
تاکہ وہ مجھے مار دے مگر نعش کہے اللہ اللہ اللہ ھو ھو ھو وہ ہر جگہ وہ ہر جگہ وہ ہر جگہ وہ کہاں کہاں نہیں. یہ مری کہانی ہے وہ مرے ساتھ یے مگر سکون نہیں کیونکہ نفس کی رزالت ساتھ ہے. کیونکہ قربانی سیکھی نہیں. اے اللہ مجھے قربان ہونے کی صلاحیت دے شہ جود و سخا مالکِ غنا امیر ابن علی کے واسطے ابن زہرا کے بیٹے کو سلام کہ نور کہے شہ خیر الانام سے کہ مجھ کو لے چلو قافلے میں. مجھے نہ چھوڑا جائے مجھ پہ خاص نگاہ ہو. مجھ پہ نظر ہو آقا کی. یہ نور آقا کی نظر کی منتظر. دعا ہو جائے گی واسطے مرے کہ دل نے کہا تو ان کی گلی میں چل. چل نور ان کی گلی. چل ان کی گلی. چل کھلی دل کی کلی. چل چل چل دیر ہو رہی ہے .. بھاگ رہے سب سب بھاگ رہت کہتے چلو چلو ان کی گلی ..ہم چلیں گے گلاپ کی پتیاں بکھریں گی اور ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوگا ..مریضِ شہ کے ہیں ہم. طبیب وصلت میں چاہیے علاج ہوگا تو کام ہوگا ..اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھوھو ھو ھوھو ھوھوھوھوھو ھوھوھو

نفس کا علاج کریں کیسے ..ہم محبت میں نہیں اگر ہوتے تو نفس مرجاتا ...کاش اس نفس کا جنازہ پڑھا جاتا اور یہ کبھی زندہ نہ ہوتا کاش اسکو دائم موت مل جاتی کاش مگر لفظ نہیں یے کہ میں نہیں میں نہیں کہ وہ ہے وہ ہے تو بات ہے مری تشنگی کی بات ہے کہ ہر بات میں برسات ہے کہ دل نہر فرات ہے یہ جو لب ہے گوہر آب ہے دل تیر بہ تیر بہ پدف اک شکار ہے جیسے پرندہ کوئی نار میں یے جیسے بجلی آبشار میں ہے ..مجھ کو بلایا جائے گا مدینے مجھ کو بلایا جائے گا مری تڑپ کا آئنہ دکھلایا جاوے گا. میں پکار پکار کہواں گی یا محمد صلی اللہ علیہ وَالہ وسلم تو جواب دیا جائے گا میں خاک ہو جاواں پے شہ دے در نہ چھڈاں گی. میری خاک نوں اے پیر مبارک دا نقش تے مل جاوے گا.

.

عالم ‏کی ‏رحمت

السلام علیکم
رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کمال کے اخلاق والے انسان... مالک نے فرمایا 

وما ارسلنک الا رحمت للعالمین 

عالم کیا ہے؟ آپ کی عالم کے بارے میں رائے کیا ہے؟  عالم جہان کو کہتے ہیں. ہم کہتے ہیں کہ خوشبو کا جہان،  رنگ و بُو کا جہان، علم کا جہان، شوق کا جہان  ...نور کا عالم ..نور کا مقام .. نور کا جہان. آپ دیکھیے کہ جہان کے کتنے وسیع معانی ہیں ... تو یہ جہت بلحاظ دل کے ہیں. دل ان تمام جہانوں کو سموئے ہوئے ہے.  کائنات کا دل ایک ہے جیسا قران پاک کا دل سورہ یسین ہے اسی طرح کائنات کا دل تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں .... اللہ نے بندے سے کہلوایا ہے کہ کہو 

الحمد للہ الرب العالمین 
اور پھر گواہی دی 
وما ارسلنک الا رحمت للعالمین 

ان دو آیات میں عالمین کی بات کی گئی ہے ..تمام کائنات کا دل رحمت ہے وہ رحمت للعالمین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں صاحبو!  غور کرو کہ پہلے رب اپنی پہچان کراتا  ہے تو ساتھ کہتا کہ اب نبی کی پہچان یہ ہے کہ وہ رحمت ہیں. اس قران عظیم میں تمجید کی مانند چمک رہی یہی آیت. اس آیت کو چوم لو اور پکڑ لو ..  یہ آیت گواہی ہے کہ اللہ کے عالم پہ حاکم ہونے کا جس نے شکر ادا کیا تو اس کو رحمت تک رسائی مل گئی. اے زمانہ جو دل ہے، اے زمانہ جو جانِ دل ہے   تو سن لے دل کی بات ہے رحمت کے اوصاف ... رحیم کسے کہتے ہیں.  قران کریم میں رب کا فرمان ہے 

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَا تَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَـكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۗ وَا للّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
"اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے"

اللہ پاک نے عالمین کی رحمت کے لیے فرمان دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کرو ..تم کو وہ جود و کرم کے فیض سے نوازے گا.  نہ معاملہ صرف رحمت کا بلکہ درگزر کا معاملہ ہو جائے گا    تو رب کی اطاعت کے بعد محبت ملتی ہے. اقربیت کا یہ مقام کیسے ملے؟  پہلے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت اور ان سے محبت ضروری ہے. جسکو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اطاعت کی استطاعت نصیب ہو جاؤ انہی پہ فیض کے چشم و کرم کیا جاتا ہے ... تو صاحبو عہد کرلیں کہ ہم محبت پاکے رہیں گے تاکہ دیدار کا وہ مقام جس کے لیے اللہ نے فرمایا کہ نحن اقرب ... ہم جبل الورید سے قریب ہین تو یہ قربت محسوس کیوں نہیں ہوتی ..راستہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اپنایا نہیں جاتا ہے ... جس نے اطاعت کی اس نے محبت پائی ..پھر رب فرماتا ہے کہ 

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَا عْفُ عَنْهُمْ وَا سْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى الْاَ مْرِ ۚ فَاِ ذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْ
نَ
"(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں"

اللہ کی رحمت و کرم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پے یہی ہے کہ آپ کا دل کشادہ ہے ...تنگ دل میں نرمی کی گنجائش! اے مری جان! اے مرے دل تو سن کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دل کی زمین اتنی کشادہ ہے کہ تمام عالمین(ارواح)  آپ میں موجود ہیں.  اسی واسطے ہم کیا آنے والی ہر روح اور گزری ہر روح کا ان سے ربط ہے. ان سے ربط کا احساس مستحکم تب ہوگا جب تک اطاعت نہ کی جائے. آپ کے دل میں تمام عالمیں کی جگہ ہے تو آپ کی رحمت سب پہ برابر ہیں. تو آؤ آج جھولی پھیلاتے اطاعت کی دعا مانگے تب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت خدا تک پہنچا دے کہ خدا تک کامل رسائی فقط محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علاوہ کس کو حاصل ہے ...واعلیکم اسلام 
خوش رہو

ساقی

کسی ظالم کا حسن بھی ظالم ہوتا  وہ حسن کی وجہ سے ظالم ہے. خطاب اپنے آپ مخاطب کی جانب لیجائے تو کشش بے جا نہ ہوگی. پھر کہو گے 
ظالم، محفل لوٹ لی 
بولو کیسے ؟
ارے حسن خوابناک ہے زکوہ نکلے نا حسن کی تو تسبیح کیسے ہو؟ 
چل پھیرے لگا 
چل کوچہ جاناں 
چل طواف کر 
مطاف میں بیٹھو 
سلام پڑھو.
تسبیح ہے 
مسجد ہے 
واج بھی یے 
ساز بھی ہے 
کافر کو بولو. ظالم تو نے پی نہیں 
ہم پی لیں گے میخانہ. ہم کو نہ کہیو ساقی ، 
ساقی تری محفل کی شان نرالی 
ساقی تو نے جبین کس جا جھکالی 
ساقی تو نے کہا ساقی تو ہوگیا 
ساقی ہوش خراباتی میں ، رند خراباتی 
ساقی تقسیم نہیں یے ساقی تجسیم نہیِ یے 
ساقی خواب نہیِ ہے ساقی سہاگ نہیں یے 
ساقی شام نہیں ہے ساقی چراغاں نہیِ یے 
رند چل اٹھ طواف کر. چل بیٹھ اللہ بے بلایا 
چل اللہ بلائے سلام پیش کیے جا 
چل رونق لگا چل واپس نہ جا.
چل شوق امام رکھ چل پیار سے رہ 
چل محبوب رہ چل محبت کر .
چل جا جانب طیبہ خاک لے لے .
چل جا جانب بطحا آنکھ لے لے 
آنکھ کا سودا ، اللہ لو اللہ لو اللہ لو 
لو اللہ اللہ 
حق اللہ
 

تری پرواں کرن گیا واواں 
تو چھپر اتے کنڈی لاچھڑ 
کتھے چانن نہ ترا لک جاوے 
آساں امیداں دے دیوے بلن 
درد ملے، درمان ملے، ماں ملے 
تینوں سب تو یاری نہ پلے ہوگی 
یار نے یاری واسطے بلایا اے 
مرا دل انہے میتھوں لکایا وے 
میں کیہ جانڑاں درداں دی 
جانڑے گا اے زمانہ



آپ آوے،  آپ مستور 
آپ کعبہ،  آپ دستور 
آپ مانگ،  آپے سندور 
رب تو ملیا ملسی ضرور 
رگ جاوے رگ آوے سرور 
ایسی مانگ دا سودا بھر 
 پا کے ڈبدی جاوے تو تر
سر دا سودا منگدے نہ زر 
بچ جاوے کہ آس ہے نرا شر

Saturday, February 20, 2021

بندگی

بندگی کیا ہے ؟ کیا کوئی عمل ہے ؟ کیا نیت ہے ؟ کیا کسی نیت سے ملا اجر ہے؟ بندگی کی تشریح کیا ممکن ہے؟

جذبات کے یہ سمندر ہیں ، میرے افکار کے سمندر میں  ذات غوطہ زن ہوئی اور اس غوطہ نما ذات نے سیپ نکالے ۔ ان سیپوں کو جب جانچا  تو پایا رازِ نہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تُو ۔۔۔۔۔۔۔ تُو ۔۔۔ تو  "ہر جگہ " ۔۔۔۔"جہاں تُو" ، وُہی اک جہاں ۔۔۔تُو رب العالمین ۔۔۔ الحمد اللہ ۔۔ قران پاک کی پہلی سورہ میں سب کہتے ہیں الحمد للہِ الرب العالمین  ۔۔۔ اسکی تعریف انسان سے ممکن نہیں مگر ہاتھ دعا کو اٹھتے کہتے ہیں کہ مالک تو رب العالمین ہے

ہستی کا دُھواں خوشبو بنتا بکھرتا ہے ، خوشبو سندیسہ بنتی ہے ، عکس مکمل ہوتا جاتا ہے ۔۔ ارتقائی عمل ایسا ہے جیسا کہ اک گول شیشیہ ہے فلک سے جلوہ نما ہوا ، فلک سے اوپر جہاں کی  تمثیل اک کمپیوٹر کی سی جہاں پر روشنیوں و تجلیات کا نظام ہے اور دل کی مثال بھی گول آئنے کی سی ہے یوں سمجھے اک شعاع وہاں سے پہنچتی ہے جیسے پہلی تاریخ کا چاند آہستہ آہستہ چودھویں کا چاند بنتا جاتا ہے ،یہ عمل ہر روح کے لیے جاری رہتا ہے  ، وہاں سے روشنی دی ، جتنی روشنی ملی ، اتنی ہی  مثبیت ملی

جوں جوں پیالہ بھرتا گیا ، توں توں عکس مکمل ہوگیا ، عبدیت مل گئی ، عبدیت مل گئی تو معراج حاصل ہوگئی

جب درد لا دوا ہوجائے ، تو ہم کیا کریں۔۔۔!

جب عشق عین و لا ہوجائے تو ہم کیا کریں۔۔۔!

عشق ،کسی بھی مظہر کی  علامت میں ڈھلتا ہے  وہ علامت "مٹی کا پتلا" انسان بھی ہوتا ہے ۔  جیسے جیسے سورج روشن ہوتا ہے تو اس سورج کی روشنی میں چودھویں کا چاند دکھتا ہے ، منظر نکھرجاتا ہے ، ہوا کا سندیہ ہوا کہ چلو پرواز کریں۔۔۔۔،

 ہوا سے پوچھا گیا کہ پرواز کس جہان کی ؟  بڑی آس سے پوچھا کیا مسجد اقصی کی؟

 ہوا نے جواب دیا کہ ہمیں کیا پتا ؟ ہوا نے آندھی تشکیل دے دی ۔۔ اپنا ٹھکانہ نہ رہا ۔۔ بے منزل خزاں کے پَتے کی مانند ہوا کے لَے  پر اڑتے جائیں  ، ذرے کی کیا اوقات سائیں ۔ ذرے کو جو اجال دیتا ہے ، وہی ہستی کو کمال دیتا ہے۔۔۔ معراج ہمیں ہمارے ہادی مرسل ، سچے سائیں نبی پاکﷺ کی بدولت ملی ، کہ ہماری روح کے لیے ویسے ہی نشانیاں بکھری ہیں ۔۔۔ بندگی کے بعد عکس کامل ہوتا ہے اور شبیہ مکمل ہوجائے تو فرق نہیں رہتا ۔۔

فرق بس پیالے کے سائز کا رہتا ہے ۔۔۔ یہ عطا ہوتی ہے ، جتنا پیمانہ بڑا ہوتا ہے اتنی کثرت سے جام ملتا ہے ، اتنی کثرت سے دل ویران ہوتا ہے ، ویرانے میں نقطہِ حرف کے نمو پانے سے مرکزیت ملتی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 تشنگی ہر اک ذات میں ہے ، پیاس علم کی بڑی ہے ، ذات کے صحرا میں کنواں نہیں ملتا ۔۔۔! پانی کون پلائے گاَ ؟ کس کے پاس عظمت کے ایسے نشان جو ہمیں دے دے عبدیت کا احساس ، معراج کا وہ احساس جو ہم برسوں سے تلاس کیے جارہے ہیں ؟

یہ کیسی تلاش ہے؟ یہ کیسا سفر ہے جس میں ذات ایسا محسوس ہو کہ  کوئل کی مانند گھومتی جارہی ہے ۔۔۔ کوئی نقطہ پانا چاہتی ہے !نقطہ حرف کو پانے کی کوشش میں کہاں سے یہ کوئل شروع ہوا ۔۔۔۔۔۔۔اسکا احساس ہی نہ ہوا۔۔۔۔ نقطہ آغاز ہی میرا نقطہ اختتام ہے ۔۔شاید  یہی عبدیت ہے ، یہی سمندر ہے تلاطم کا ، یہی عکس ہے نہی کا  کہ امر اس کا ہوتا ہے ، موت واقع ہوتی ہے ، وہ موت جس کو قران پاک میں لیل سے تعبیر کیا گیا ، جب لیل چھاجاتی ہے ۔۔۔ تو وہ خشیت کی چادر باری تعالیٰ نے  پہلی وحی کے وقت نازل کی اور وہ سانچہ جس میں ہر عبد کو ڈھلنا ہوتا ہے ، اک ارتقائی عمل ہے جسکو ہم کہیں تو ایسے  ۔۔۔۔ تب مزمل سے مدثر کا فرق ختم ہوجاتا ہے ، تب یسین کے مقام پر ایک حیرت کا سماں ہوتا ہے

 علم کی لگن جو تجسس کے مقام پر جو ذات میں  سوئی کو ہلاتی رہتی ہے ، بے تاب کیے دیتی ہے ، وہ ذات کی  تکمیل تک بے چین رکھتی ہے ، یہ بے چینی ، آتش صفتی ، سیمابی کیفیت ،  لامحدودیت ۔۔محدودیت میں سب اس نقطہ حرف کی پیش خیمہ ہے ، وہ جو  ذات کی سرنگوں میں تہ در تہ مٹی کے تودوں تلے دبا ہے۔۔۔ جیسے برسوں کسی کوئلے کو بھی دفن کرو تو وہ ہیرہ ہو جائے ، وہی ہیرہ ہر ذات کی تلاش ہے وہ ہی ہر اک کی  کامل ذات ہے ، انسان سارے بے چین رہتے ہیں جبتک کہ وہ کامل ذات کی تشکیل نہ پالیں ۔۔۔۔۔ جس کو عشق ہوگیا وہ ضم ہوگیا ، مکمل نفی اک سعی ہے ۔ لیس الانسان الا ما سعی ۔۔۔۔ ہماری سعی کا نقطہ سائنسی ہو ، تخیلاتی ہو ، وجدانی ہو ۔۔یہ سعی ، اس کی سمت ۔۔ہمارے افکار کے مطابق ذات کے کمپس پر  سمت کا تعین کیے دیتی ہے ۔۔۔ یہی آیت رہ رہ کے میرے ذہن پر ہتھوڑے کی مانند برستی ہے

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1)

 ۔۔۔ سبحان الذی ۔۔۔ پاک ہے وہ ذات ، پاک ہے وہ ہر شرک سے کہ سب سے اولی وہی ہے ، بعد از خدا بزرگ توئیﷺ قصہ مختصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعبدہ ۔۔۔ بندگی کی کامل مثال محمد ﷺ ہیں ، وہ تمثال گر کی مکمل تمثیل ہیں ، وہ مثال جس کو تراش کے آئنہ خود مسکرا ٹھا ، آئنے کو فخر ہوا ظاہر پر بھی ،باطن پر بھی ،  وہ مثال اک جلوے کی مثال ، جلوے پر جب جلوہ ہوا تو آئنہ اس قدر نازاں تھا کہ حرف نہیں ،  بس اس ناز میں بھی اک حجاب تھا ، اس ناز و حجاب کی قسم وہ ذات پاک ہے ہر کس شرک سے ، کہ اس کی پھر بھی کوئی مثال نہیں ۔ لیس کمثل شئی ۔۔۔۔۔ جس نے بے مثال خیال ک و نمو دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ لے گئی مسجد احرام سے مسجد اقصی کی جانب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات میں ۔۔۔ رات بھی کیا ، خواب مکمل موت کی سی کیفیت کہ جب موت ہوگئی عارضی طور گویا وقت روح کے لیے ماوراء ہوگیا ، وہ وقت جب وقت  جمع ہوگئے، جہاں تمام مثالیں اکٹھی ہوئیں ، کوئی  روح اللہ تو کوئی کلیم اللہ  تو کوئی ابتدائے حرف کا جمال ، تو کوئی کمال کی مثال، تو کوئی روح میں چھپے اسرار کی وحی ، سب کی ہوئی   امام الانبیاء سے ہوئی ملاقات ، سب نے دیکھا کہ وہ ذات جو ان کے پاس آئی  وہ کتنی کامل ہے ، انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ذات کے کس حصے میں  کتنے مکمل اور کس  کس حصے میں مکمل جناب سید مصطفی ﷺ ۔۔۔،تو سب نے نماز قائم کی ، مان لیا آپ کو امام کہ سب کی  اپنی اپنی شبیہ کا عکس جناب سید عالی مجتبی ﷺ میں چھپا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب نے مان لیا آپ کو مکمل تو جب گئے معراج کو تو دیدار  رب ہوگیا ، دیدار کے بعد جب واپس آئے تو ملاقات ہوئی   انبیاء سے تو سب نے اپنی اپنی تجلی کو جناب سید کائنات ﷺ میں پہچانا اور دیدار رب کرلیا ، گویا رب کا دیدار بھی سید کائنات ﷺ کی دید میں ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ ، پاک ہے وہ ذات جس نے مسجد حرام سے لے کے مسجد اقصی تک اپنے انبیاء کو مختلف تجلیات سے تشکیل دیتے بھیجا اور اور ان نشانیوں میں کامل سید عالی شہ ابرار امام عالی سرور کائنات امام عالی میرے آقا ، رحمت دو جہاں تاجدار انبیاء رفعت زماں ، ہادی ، نور حق کی سچی نشانی ہیں ۔۔۔ ان کو سلام واجب ۔۔۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

بیشک اس نے دیکھنے والوں کے لیے نشانیاں رکھی ہوئی ہیں ، وہ نشانیاں جو ہمارے پیامبر ﷺ نے دیکھیں ، وہ دیکھنے والے دید نے بھی دیکھنے کی سعی کی تو وہ بھی دیکھے گی ، اس لیے ہمارے نبی پاک ﷺ پر ایمان ہر عیسائی ، یہودی فرض ہے کہ وہ کمال کی تجلیات تو آپ ﷺ کے امتی ہونے کے باعث ہم دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔بندگی کیا ہے ؟ کیا کوئی عمل ہے ؟ کیا نیت ہے ؟ کیا کسی نیت سے ملا اجر ہے؟ بندگی کی تشریح کیا ممکن ہے؟

جذبات کے یہ سمندر ہیں ، میرے افکار کے سمندر میں  ذات غوطہ زن ہوئی اور اس غوطہ نما ذات نے سیپ نکالے ۔ ان سیپوں کو جب جانچا  تو پایا رازِ نہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تُو ۔۔۔۔۔۔۔ تُو ۔۔۔ تو  "ہر جگہ " ۔۔۔۔"جہاں تُو" ، وُہی اک جہاں ۔۔۔تُو رب العالمین ۔۔۔ الحمد اللہ ۔۔ قران پاک کی پہلی سورہ میں سب کہتے ہیں الحمد للہِ الرب العالمین  ۔۔۔ اسکی تعریف انسان سے ممکن نہیں مگر ہاتھ دعا کو اٹھتے کہتے ہیں کہ مالک تو رب العالمین ہے

ہستی کا دُھواں خوشبو بنتا بکھرتا ہے ، خوشبو سندیسہ بنتی ہے ، عکس مکمل ہوتا جاتا ہے ۔۔ ارتقائی عمل ایسا ہے جیسا کہ اک گول شیشیہ ہے فلک سے جلوہ نما ہوا ، فلک سے اوپر جہاں کی  تمثیل اک کمپیوٹر کی سی جہاں پر روشنیوں و تجلیات کا نظام ہے اور دل کی مثال بھی گول آئنے کی سی ہے یوں سمجھے اک شعاع وہاں سے پہنچتی ہے جیسے پہلی تاریخ کا چاند آہستہ آہستہ چودھویں کا چاند بنتا جاتا ہے ،یہ عمل ہر روح کے لیے جاری رہتا ہے  ، وہاں سے روشنی دی ، جتنی روشنی ملی ، اتنی ہی  مثبیت ملی

جوں جوں پیالہ بھرتا گیا ، توں توں عکس مکمل ہوگیا ، عبدیت مل گئی ، عبدیت مل گئی تو معراج حاصل ہوگئی

جب درد لا دوا ہوجائے ، تو ہم کیا کریں۔۔۔!

جب عشق عین و لا ہوجائے تو ہم کیا کریں۔۔۔!

عشق ،کسی بھی مظہر کی  علامت میں ڈھلتا ہے  وہ علامت "مٹی کا پتلا" انسان بھی ہوتا ہے ۔  جیسے جیسے سورج روشن ہوتا ہے تو اس سورج کی روشنی میں چودھویں کا چاند دکھتا ہے ، منظر نکھرجاتا ہے ، ہوا کا سندیہ ہوا کہ چلو پرواز کریں۔۔۔۔،

 ہوا سے پوچھا گیا کہ پرواز کس جہان کی ؟  بڑی آس سے پوچھا کیا مسجد اقصی کی؟

 ہوا نے جواب دیا کہ ہمیں کیا پتا ؟ ہوا نے آندھی تشکیل دے دی ۔۔ اپنا ٹھکانہ نہ رہا ۔۔ بے منزل خزاں کے پَتے کی مانند ہوا کے لَے  پر اڑتے جائیں  ، ذرے کی کیا اوقات سائیں ۔ ذرے کو جو اجال دیتا ہے ، وہی ہستی کو کمال دیتا ہے۔۔۔ معراج ہمیں ہمارے ہادی مرسل ، سچے سائیں نبی پاکﷺ کی بدولت ملی ، کہ ہماری روح کے لیے ویسے ہی نشانیاں بکھری ہیں ۔۔۔ بندگی کے بعد عکس کامل ہوتا ہے اور شبیہ مکمل ہوجائے تو فرق نہیں رہتا ۔۔

فرق بس پیالے کے سائز کا رہتا ہے ۔۔۔ یہ عطا ہوتی ہے ، جتنا پیمانہ بڑا ہوتا ہے اتنی کثرت سے جام ملتا ہے ، اتنی کثرت سے دل ویران ہوتا ہے ، ویرانے میں نقطہِ حرف کے نمو پانے سے مرکزیت ملتی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 تشنگی ہر اک ذات میں ہے ، پیاس علم کی بڑی ہے ، ذات کے صحرا میں کنواں نہیں ملتا ۔۔۔! پانی کون پلائے گاَ ؟ کس کے پاس عظمت کے ایسے نشان جو ہمیں دے دے عبدیت کا احساس ، معراج کا وہ احساس جو ہم برسوں سے تلاس کیے جارہے ہیں ؟

یہ کیسی تلاش ہے؟ یہ کیسا سفر ہے جس میں ذات ایسا محسوس ہو کہ  کوئل کی مانند گھومتی جارہی ہے ۔۔۔ کوئی نقطہ پانا چاہتی ہے !نقطہ حرف کو پانے کی کوشش میں کہاں سے یہ کوئل شروع ہوا ۔۔۔۔۔۔۔اسکا احساس ہی نہ ہوا۔۔۔۔ نقطہ آغاز ہی میرا نقطہ اختتام ہے ۔۔شاید  یہی عبدیت ہے ، یہی سمندر ہے تلاطم کا ، یہی عکس ہے نہی کا  کہ امر اس کا ہوتا ہے ، موت واقع ہوتی ہے ، وہ موت جس کو قران پاک میں لیل سے تعبیر کیا گیا ، جب لیل چھاجاتی ہے ۔۔۔ تو وہ خشیت کی چادر باری تعالیٰ نے  پہلی وحی کے وقت نازل کی اور وہ سانچہ جس میں ہر عبد کو ڈھلنا ہوتا ہے ، اک ارتقائی عمل ہے جسکو ہم کہیں تو ایسے  ۔۔۔۔ تب مزمل سے مدثر کا فرق ختم ہوجاتا ہے ، تب یسین کے مقام پر ایک حیرت کا سماں ہوتا ہے

 علم کی لگن جو تجسس کے مقام پر جو ذات میں  سوئی کو ہلاتی رہتی ہے ، بے تاب کیے دیتی ہے ، وہ ذات کی  تکمیل تک بے چین رکھتی ہے ، یہ بے چینی ، آتش صفتی ، سیمابی کیفیت ،  لامحدودیت ۔۔محدودیت میں سب اس نقطہ حرف کی پیش خیمہ ہے ، وہ جو  ذات کی سرنگوں میں تہ در تہ مٹی کے تودوں تلے دبا ہے۔۔۔ جیسے برسوں کسی کوئلے کو بھی دفن کرو تو وہ ہیرہ ہو جائے ، وہی ہیرہ ہر ذات کی تلاش ہے وہ ہی ہر اک کی  کامل ذات ہے ، انسان سارے بے چین رہتے ہیں جبتک کہ وہ کامل ذات کی تشکیل نہ پالیں ۔۔۔۔۔ جس کو عشق ہوگیا وہ ضم ہوگیا ، مکمل نفی اک سعی ہے ۔ لیس الانسان الا ما سعی ۔۔۔۔ ہماری سعی کا نقطہ سائنسی ہو ، تخیلاتی ہو ، وجدانی ہو ۔۔یہ سعی ، اس کی سمت ۔۔ہمارے افکار کے مطابق ذات کے کمپس پر  سمت کا تعین کیے دیتی ہے ۔۔۔ یہی آیت رہ رہ کے میرے ذہن پر ہتھوڑے کی مانند برستی ہے

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1)

 ۔۔۔ سبحان الذی ۔۔۔ پاک ہے وہ ذات ، پاک ہے وہ ہر شرک سے کہ سب سے اولی وہی ہے ، بعد از خدا بزرگ توئیﷺ قصہ مختصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعبدہ ۔۔۔ بندگی کی کامل مثال محمد ﷺ ہیں ، وہ تمثال گر کی مکمل تمثیل ہیں ، وہ مثال جس کو تراش کے آئنہ خود مسکرا ٹھا ، آئنے کو فخر ہوا ظاہر پر بھی ،باطن پر بھی ،  وہ مثال اک جلوے کی مثال ، جلوے پر جب جلوہ ہوا تو آئنہ اس قدر نازاں تھا کہ حرف نہیں ،  بس اس ناز میں بھی اک حجاب تھا ، اس ناز و حجاب کی قسم وہ ذات پاک ہے ہر کس شرک سے ، کہ اس کی پھر بھی کوئی مثال نہیں ۔ لیس کمثل شئی ۔۔۔۔۔ جس نے بے مثال خیال ک و نمو دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ لے گئی مسجد احرام سے مسجد اقصی کی جانب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات میں ۔۔۔ رات بھی کیا ، خواب مکمل موت کی سی کیفیت کہ جب موت ہوگئی عارضی طور گویا وقت روح کے لیے ماوراء ہوگیا ، وہ وقت جب وقت  جمع ہوگئے، جہاں تمام مثالیں اکٹھی ہوئیں ، کوئی  روح اللہ تو کوئی کلیم اللہ  تو کوئی ابتدائے حرف کا جمال ، تو کوئی کمال کی مثال، تو کوئی روح میں چھپے اسرار کی وحی ، سب کی ہوئی   امام الانبیاء سے ہوئی ملاقات ، سب نے دیکھا کہ وہ ذات جو ان کے پاس آئی  وہ کتنی کامل ہے ، انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ذات کے کس حصے میں  کتنے مکمل اور کس  کس حصے میں مکمل جناب سید مصطفی ﷺ ۔۔۔،تو سب نے نماز قائم کی ، مان لیا آپ کو امام کہ سب کی  اپنی اپنی شبیہ کا عکس جناب سید عالی مجتبی ﷺ میں چھپا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب نے مان لیا آپ کو مکمل تو جب گئے معراج کو تو دیدار  رب ہوگیا ، دیدار کے بعد جب واپس آئے تو ملاقات ہوئی   انبیاء سے تو سب نے اپنی اپنی تجلی کو جناب سید کائنات ﷺ میں پہچانا اور دیدار رب کرلیا ، گویا رب کا دیدار بھی سید کائنات ﷺ کی دید میں ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ ، پاک ہے وہ ذات جس نے مسجد حرام سے لے کے مسجد اقصی تک اپنے انبیاء کو مختلف تجلیات سے تشکیل دیتے بھیجا اور اور ان نشانیوں میں کامل سید عالی شہ ابرار امام عالی سرور کائنات امام عالی میرے آقا ، رحمت دو جہاں تاجدار انبیاء رفعت زماں ، ہادی ، نور حق کی سچی نشانی ہیں ۔۔۔ ان کو سلام واجب ۔۔۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

بیشک اس نے دیکھنے والوں کے لیے نشانیاں رکھی ہوئی ہیں ، وہ نشانیاں جو ہمارے پیامبر ﷺ نے دیکھیں ، وہ دیکھنے والے دید نے بھی دیکھنے کی سعی کی تو وہ بھی دیکھے گی ، اس لیے ہمارے نبی پاک ﷺ پر ایمان ہر عیسائی ، یہودی فرض ہے کہ وہ کمال کی تجلیات تو آپ ﷺ کے امتی ہونے کے باعث ہم دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔

اخلاص

سورہ اخلاص میں دوئی کے خاتمے کی بات ہوئ 
سارے جَہان میں ترے جلوے دیکھنے کی متمنی 
تن میں جا بَجا آئنوِں میں نقش اللہ کو دیکھے جارہا ہے.
خالص ہوگئی ہے روح؟
نَہیں، نَہیں، نَہیں ... گِریہ باقی ہے. 
چالیس سال کا گِریہ میں نے ان چار دنوِں میں کیا،  
افسوس!  نہ کوئی نشانی ہے، نہ بصیرت ہے 
حُسن یوسف میں پنہاں جلوے کو یعقوب کے سوا کون جان سکا؟ جو روح کے کُل اسرار سے واقف ہو، وُہی قَلندر ہے 

شَہید ہورہا ہے جلوہ جاناں مجھ میں 
شاہد میرے لفظ ہورہے ہیں اور قسمت! تم دیکھ نہ سکے ان میں درد نِہاں کو جس نے غمِ فراق میں چالیس نہروں سے پورے تن میں سیلاب لادیا ہے 

تو کہاں سے مخلق؟
عرش کے پانی سے؟
یہ پانی کَہیں وہ تو نَہیں ہے؟
یہ یاد،  یہ سوگ اس جُدائی کا تو نَہیں جب میں اسی لباس سے بنتے تم کو تخلیق کا دکھ دے رہی تھی؟

سُنو!  روح بھی سہے گی وہی صدائے کُن کا درد 
سُنو!  روح یاد کرے گی اس میں موجود راز 
سن کہ تو راز الہی ہے، جس کو فاش کیا گیا ہے 
سن کہ تو اسم الہی ہے، جس کو شامل کیا گیا ہے 
سن کہ جو رگ حق میں کتاب ہے، وہی بس اک یے 
حق ھو!  ھو!  اللہ!  اللہ ھو!  ھو!  حق ھو 

کھنکھناتی مٹی سے سوکھے پیڑ میں اک دفعہ صور پھونکا گیا ہے 
یہ اسم الہی کا صور تھا، نفخ سے تار جیسے ملا ہو، گویا حق وصال چاہتا ہے، گویا ہجرت وصال کی مانند ہے 

اے حق! تو پری چہرہ میں ظاہر ہُوا ہے اور مجھ سے سب جلوے لے گیا!  میرے دل کو تباہ کرگیا ہے! تو رویت زمین کی دیکھ اور یاد کر میرے چاند سے شمس نہ ملا تو زمین ساری پانی سے بھرجائے گی، مدوجزر چاند لائے گا اور باقی کچھ کیا رہے گا؟  طوفان کیا ہے؟ مجھ سے پوچھ لے نا .. 

قران میں لکھا ہے الم ترکیف فعل ربک .... 
کیا نہ دیکھا میرا فعل کیسے ابرہہ کے ہاتھی مار بھگائے؟  
قران میں لکھا یے الم نشرح صدرک،
کیا نہ دیکھا میرا فعل کیسے صدر سے صدر مل جاتا ہے؟
بس جب چاہیں گے تو "ووضعنا وزرک "کی نقارہ بجادیں گے 
تب تری بقا نہیں ہوگی بلکہ یہ میری صدا ہوگی "ورفعنا لک ذکرک " 
درود صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

قران میں لکھا: اللہ نور سماوات ولارض 
تری زمین میں نور کے چالیس روشن دیے رکھ دیے گئے،  
قران میں لکھا ہے دل خیر البریہ ہوجاتے ہیں،  ارجعو نفس المطمعنہ!  تو اضطراب میں جلوہ کر میرا تاکہ اطمینان ہو 

قران میں لکھا ہے موسی غش کھا کے گر پڑے،  تو نے جلوہ ناز کیا ہے،  اور سلامت ہے،  یہ جان رحمت ایزدی کے دھاروں سے یہی بات ہو 

والکاظمین عین الغیض کی مثال اضطراب نہ دبا تو رحمان کے بندے،  رحمانیت کیسے پائیں گے؟  
تلاوت کرتے وجلت قلوبھم کی مثال نہ ہوں گے تو ظلوم جھولا کا خطاب پاتے جائیں گے

ہم ہی جو زمینوں کو ہلاتے ہیں والزلزلو زلزال کی مثال اور آزماتے ہیں "ھنالک ابتلی " تاکہ آزمائش ہو

جیسے حُنین والوں کی ہوئ زاغ البصر سے الحناجر تک جب تک جب دل آگئے  تو "وتظنون الظن "کی مثال یقین دیکھا جاتا ہے،  

تو قسم ہے " والتین والزیتون،  الطور سنین کی،  آدم سے لے محمدی چراغ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تلک،  سب میں  شہید اک ذات ہے، لوگ پھر بھی ہدایت کو فرشتہ مانگتے ہیں،  درحقیقت ان کو ہدایت نہیں ملتی

دین ‏کی ‏تکمیل ‏

السلام علیکم

دین کی تکمیل کن اجزا سے ہوتی ہے؟ کیا عوامل ہیں جو ہمارے لیے ایسے راستے کے ماخذ لائیں جو ہمیں ہماری تخلیق کا مقصد یاد دلائیں .... لعنت ہے افسوس ہے ان لوگوں پے جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں بحوالہ سورہ المطففین ... ناپ تول میں کمی مدین والے بُہت کرتے تھے .. حضرت شعیب علیہ سلام کی بعثت اسی تناظر میں ہوئی جبکہ حضرت داؤد کو بادشاہی و خلافت دی گئی اور ایسا علم جس سے آپ ہر شے کی خوابیدہ و بیدار حال کے کلام سے ماہیت کو جان لیا کرتے تھے. حضرت موسی علیہ سلام کے ذریعے وساوس کا کھیل، جادو اور دل کی صورت خضر بات بتلائی گئی تو حضرت عیسی کو معجزات میں کمال عطا کیا گیا جبکہ حضرت یوسف علیہ سلام کے اعلی اخلاق اور الرویاء کی تعبیر کا علم دیا گیا. حضرت ابراہیم علیہ سلام کو برگزیدگی کیساتھ یقین محکم دیا گیا. حضرت نوح علیہ سلام کا صبر و استقلال دکھایا گیا جبکہ حضرت یونس علیہ کی صورت دعا کے ثمرات و بدعا کے نتائج بتلائے گئے. غرض یہ کہ 
Allah SWT said:

اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِسٰلٰتِهٖ ۗ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِ نَّ لَهٗ نَا رَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا ۗ 
"میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے رسالتیں پہنچا دوں اب جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے"
(QS. Al-Jinn 72: Verse 23)

رسالت تو اک پیغام ہے جو اک قوم کی جانب ہے جبکہ رسالتیں وہ تمام پیغامات ہیں جو آخری الہامی کتب کی صورت اترا اور یہ پیغام جن و انس دونوں کو پہنچایا گیا جو پیغام پہنچایا گیا صرف حضرت داؤد علیہ سلام یا حضرت سلیمان علیہ سلام کی صورت جنات و انس کو.  دو نوع تخلیق کو وہ رسالتیں وہ پیغامات ان برگزیدہ پیامبرو سے آپ تک پہنچے گویا جنات و انس دونوں کے لیے مبعوث ہوگئے ..پھر مالک فرماتا ہے کہ

Allah SWT said:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَا لدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَا لْمُنْخَنِقَةُ وَا لْمَوْقُوْذَةُ وَا لْمُتَرَدِّيَةُ وَا لنَّطِيْحَةُ وَمَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۗ وَمَا ذُ بِحَ عَلَى النُّصُبِ وَاَ نْ تَسْتَقْسِمُوْا بِا لْاَ زْلَا مِ ۗ ذٰ لِكُمْ فِسْقٌ ۗ اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْـنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَا خْشَوْنِ ۗ اَ لْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَـكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَ تْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَـكُمُ الْاِ سْلَا مَ دِيْنًا ۗ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَا نِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ فَاِ نَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ‏
"تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستا نے پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ سب افعال فسق ہیں آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے"
(QS. Al-Ma'idah 5: Verse 3

کہ دین مکمل ہوگیا ..بندگی کی تمام تعلیمات جو پہنچائی گئیں دھیرے دھیرے ... ان سب کا اجتماع کرلیا جائے تو  حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وہ تمام علوم بھی دیے گئے جس سے نیابت کی تکمیل ہوسکے مزید اسکے ساتھ تعلیمات و احکامات مکمل ہوگئے. اس لیے دیگر انبیاء نے قران پاک سے ماخوذ چند کی تعلیمات دی جبکہ سب انبیاء کی تعلیمات کا اجتماع قران پاک میں موجود ہے. اس لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سردار انبیاء بھی ہیں

جان ‏دل ‏..... ‏سیدہ ‏بی ‏بی ‏پاک ‏فاطمہ ‏الزہرا

جانِ فاطمہ، مہرِ رسالت پہ عائل،  یومِ القضاء پہ واجب الوجود بننے والی خاتون،  اے نیک صفت سیدہ 

آپ کی تطہیر دل پر نازل ہوتی ہے تو افلاک سے سماوی فوج ہمرقاب ہوتے سلام کو آجاتی ہے، میں نہیں جھکتی بلکہ وہ بھی جھک جاتی ہے ... میں ادب میں خاموش ہوجاتی ہُوں 

اے چشتیہ خانہ ء افلاک کی مروجہ وسائل میں طمطراق سے چلتے جریدی نشان، اے برق صمیم!  اے نشانِ حیدر، اے بخت دلاور،  

جانے کون کون سے القابات آتے، قرطاس اور لفظ کم، کم شانِ سیدہ کو لکھتے ... میرا رشتہ ازل سے سادات کا مکرم جانے غلامی کا رہا، آج خدا سے بہت سوال کیا کہ اتنی عزت ڈالی تو خود سادات میں سے نہ کیا ..یہ جو قدم پائے معظم کو پڑتے ہیں دراصل یہ تونقش محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم .. 

مری عقیدتیں ...سب اک نقطے میں، نقطہ محور ذات کے اندر ہے ...

سوچتی ہوں کہ ہاتھ جو لکھتے ہیں پاک بھی ہیں،  ہونٹ جو چھوئیں لفظ پاک بھی ہیں، دل میں بٹھاؤں دل پاک بھی ہے؟ کشمکش میں رہتی ہوں کہ کہاں سے لاؤں وہ پاکی کہ جہاں سے یہ دل قابل ہو 

خیر دامن دل میں آیت تطہیر ہے 
اشک گرتے ہیں، لہو لہو زنجیر ہے 
کاٹ دیا جدائ نے کیسی شمشیر ہے 
حرفِ حیا ہو،  کعبے کی تحریر ہے 

الفاظ نکلتے نہیں، جدائ سے زخمی روح کا بیان بھی نہیں،  مگر پھر اشک بندیاں شاید کوئ نہر وجود آئے .... لفظوں میں یہ حُسن ڈھالا نہ جائے گا، نقش نقش دل میں اتارا نہ جائے گی،  دیکھیں گے تو آنکھ نہ ہٹے گی،  سنیں گے تو بہرے ہوجائیں گی، ہم مجذوب وفا ہیں مگر اے دل! ترا دردسنبھالا نہ جائے گا!  

نہ دل پار لگے، نہ اشک تھمتے ہیں.. حقایتِ دل کے سو افسانے کسے سنائیں ہم،.. 

اک موم کا دھاگہ ہے دل میں،  اور تم ہو،  آگ جلتی ہے لگن کی،  یہ کون ہے؟  

آزردگان دل کو حاجت رفوگری کی ہے،  بھاگ جائیں اور بس آپ کے در کو تھام لیں، نہ جائیں کَہیں، بس رَہیں اِسی آستانے پَر،  

بس اللہ کی چاہت اہم ٹھہری.... آج کلی طور پر اپنی خواہش کو مانند اسماعیل، قربان کرتے ہیں اللہ کے خلیل کی طرح دست حق پہ بیعت کرتے کہتے ہیں ... 

سب حق آپ کے، اک حق میرا .. یہ غلام اس در سے دور نہ رہ سکے گی، .... حوصلہ نَڈھال ہے کہ ڈھال تو آپ ہیں، تلوار تو آپ ہیں .. عشق کی دھمال سے روح وجد میں آتی ہے، میرے دل میں صورتِ دلاور جب آتی ہے ..

اے صورتِ دلاور 
میرا سلام قبول کرلیں، ......، 

میرے سب سے اچھے دوست ہیں ..میرے حبیب صلی اللہ علیہ.والہ وسلم ..وہ آج بہت مسکرا رہے ہیں نا ..آج سے لگتا ہے وہ دل میں موجود ہیں ..نانا جان کے پاس شیر دلاور ہوتے ہیں ..امیر حیدر کے پاس سلطان الہند بیٹھے ہیں اور یہ امیر حیدر کے دائیں جانب  سلطان شہید شہنشاہِ کربل بیٹھے ...اک دستاویز یہ سفید رنگ کی ہے اور لباس مکمل.سفید ہے ... آئنہء فاطمہ،  رویت ءخدیجہ ...  ر عمرعزیزم پادشاہ غازی کے جلال نمود سے برق روزن دل پہ اٹھے تو سوال آتا ہے ..بس اس جگہ تو چار سو وادی نہریں سب سنگم پرندے اور بولیاں ..کتنی پیاری ابتدا ہے.... اللہ  ہماری رگ رگ کی تسبیح ہیں اور ہم یہی کہتے اللہ اللہ اللہ کی تسبیح ہے اور ہماری سانس میں اللہ ہے

بابا ‏جان ‏محترم ‏سرکار ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ ‏وآلہ ‏وسلم ‏کے ‏نام ‏خط ‏

اپریل اٹھائیس،  ۲۰۱۹ 
محترم بابا جان 
عمر کے کافی سن آپ کے جلوے کے بنا گزرے ہیں ،  اتنی طویل جدائی ہوگئی اس مادی لباس میں!  جب کن کا آوازہ گونجا تھا،  اس وقت فیکون سے پہلے آپ سے منسوب تھی میں ..بابا جان!  میرا دل فراق سے جل اٹھا ہے،  زخم جگر نے جینا محال کیا ہے. وہ زخم،  وہ سفر جس نے پاؤں کو لَہولہان کردیا تھا، وہی تیر سینے میں پیوست ہوچکا ہے. بابا جان سینے میں بہت درد ہے،  یوں لگتا ہے خون بہا جارہا ہے ..بابا جان سینے کے زخم مندمل کردو .... اب اذن حاضری ہوجائے ورنہ موت و مرگ نے ایسا برا حال کردیا ...مجھے ایسی کتاب چاہیے جس کے ذریعے مجھے آپ کا زمانہ مکمل دکھے ...بابا جان مری بے چینی سوا ہوجاتی ہے جب مجھے قطرہ دے کے ترسا دیا جاتا ہے ... لگن نے جوگن سے مدح خوانی سے، مجذوبیت سے آپ کا نام دے دیا ہے .... نور علی سے نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سفر ہے ...بابا جانو،  بھر بھر کے نواز دیا ...میں آپ کی خادمہ بھی،  آپ کی بیٹی بھی،  آپ کی مدح خوانی کا اعزاز بھی ...بابا جانو،  حال برا ہوتا جا رہا ہے دن بہ دن!  آپ کی نور اب موت کی جانب جاتی ہے، یوں لگتا ہے نظر نہ ہوئ تو موت نے تھام لینا ہے...شیر خدا سے ملنا ہے.   حیدری ضرب سے عجب حال ہوتا ہے، جیسے جینا محال ...
آپ کی نظر کرم کی منتظر 
نور ایمان

بَنامِ ‏حُسین ‏

خط نمبر ۸
بسلسلہ ء قلندری 
سید الامام،  سردارِ قلندر،  جانِ عشاق، مسجودِ کربل، قائم مقام علی علیہ سلام، بردار حسن، جان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  شاہِ سخا،  والی الفقراء 
السلام علیکم.    ... 

دل جل رہا ہے، بلکہ روح جل رہی ہے   ... یہ آپ کا فیض ہے روح جل رہی ہے اور رنگ در رنگ کا نقش "یا حسین، سید الشہدا "  آپ کو نور بہت یاد کرتی ہے شاید وہ گھڑیاں نہ بابرکت ہوں جب آپ کو روح نے یاد کیا ہے.   کاش روضے کے سامنے ہوتی اور قصیدہ شان قلندر لکھتی اور آپ ساتھ ساتھ جواب دیتے اور ساتھ اصلاح کرتے ہیں ... !  نور کو اتنی تڑپ ہے کہ کوشش کی فون کروں مگر دوسروں پل سوچا کیسے فون؟  پھر جب یہ سمجھ آیا فون تو آپ کو نہیں ہوسکتا....  تو کیسے پاک ہستیوں کو کروں ..پھر یہ خطوط کا سلسلہ ہوا .... میں آپ سے استقامت چاہتی،  چاہے مرجاؤں غم سے مگر استقلال،  ارادہ،  جراءت اتنی آہنی ہو کہ گر نہ پاؤِں .. آپ کا حیدری لہو علیہ سلام،  مصطفوی نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم، خمیر بی بی پاک علیہ سلام  کا ہے ..آپ تو گنجینہ الابرکات ہو ..متبرک ہستی ہو...مجھے سینے سے لگا کہ حوصلہ دو،  آپ کی نور ہوں ....میری روح حسینی ہے، دل میں چراغ کو فزوں کردیجیے .... مرے حبیب ، میرے دوست ہو نا سردار روح؟  مجھے وصال حق کرادو تاکہ قرار پاسکے بے چینی ...اے سید روح!  مجھ پہ روشنی کرو

بنامِ ‏حیدر

خط نمبر ۵ 
شیرِ خُدا،  ولی اللہ،  سید الامام،  مہر ولایت،  باب العلم،  ذوالفقار،  فاتح خیبر 

السلام علیکم 
.آپ کو خط سب سے پہلے لکھتی ہے! یوں لگتا ہے آپ میرے بالکل نزدیک ہوں. ایسا لگتا ہے مرے قدموں کی چاپ، نہیں یہ آپ کی آہٹ ہے. .. دل میں محفلِ بزمِ حیدر کوئے یاراں سے چلتی ہے اور علی علی علی کا نعرہ دل کے دالانوں سے تا عرش گونجتا ہے اور زلزلے زد میں لے لیتے اور یوں لگتا ہے کہ آپ کی کرسی دل میں قرار پکڑ چکی ہے. آپ کی اس قدر شدید کشش ہے، جی چاہتا ہے دنیا چھوڑ کے آپ کے عشق میں مجذوب ہو جاؤں ..نہ جاؤں کہیں ..آپ کی خوشبو ایسی ہے جیسے پوری کائنات مسکرا رہی ہے،  دھوپ بھی سردیوں کی ہے،  شام نہ دھوپ مگر چھاؤں کی ٹھنڈی ہوا جیسا احساس ہے .. دل کی صدا ... شیرِ خدا سے ملنا ہے .. دل کو کیسے بتاؤں؟  شیر خدا سے کیسے ملتے ہیں؟  میں خوش بختی پہ نازاں ہوں مولائے کائنات ... میرے مولا،  میرے آقا ... کشش کا تیر،  سینہ خون خون ہے اور اس خون کو کربل کی خاک سے نسبت ہے اور جانے مری خاک کس کس در در سے ہے ...سیدی، مجھے استاد سے ملا دیجیے ... .... ملامت کا ہنر مجھ کو بھی عطا کر دیجیے ...
سیدی مولا شیر خدا .... میرے خط کا جواب ضرور دیجیے گا ..منتظر رہوں گی ...
رحم و کرم کی منتظر 
آپ کی نور 
تاریخ   ۲۸ اپریل ۲۰۱۹ 
بوقت ۱۰:۴۵

طبیب ‏نے ‏کہا ‏کہ ‏ابھی ‏تصویر ‏باقی ‏

طبیب نے کہا کہ ابھی کیا تصویر باقی،؟  دکھ کی تحریر باقی؟  ملے پھر کوئ شافی؟  نہیں کوئ بات اضافی، بس تو مجھے، میں تجھ کو کافی.....

تقسیم شرع سے کر، طریقہ ء حال کے چشمے سے وصل جاناں سے لے .. وضو نین سے نین ملا کے کر، ادب کی زمین میں شوق کی فصل کتنی عجیب!  نین سے نین نہ ملے تو بات بنتی نہیں ..  
 
وہ ملا اور اشارے سے بتلایا 
جلاتا ہے جس نے تجھے جلایا 
نہیں کوئ در سے خالی آیا 
تجھے جام کوثر بھی  پلایا

جلن میں سوز ہجر ڈال رکھا ہے 
مرض عشق یونہی پال رکھا ہے 
بیمار جسکے ہوئے،  وہ چلا گیا 
کس آزمائش میں یہ ڈال رکھا ہے

طبیب نے کہا کہ کیا پانا ہے؟ 

کہا میں نے  فرق جاننا ہے! نقطہ ء اتصال کیا ہے؟  متصل باہم کیا ہے؟ عمل پیہم کیا ہے؟  شراب عشق، شدید رویا کیا ہے؟  تبسم کی جاودانی ہے؟  سر پہ بے سروسامانی کیا ہے؟  آفت یہ ناگہانی کیا ہے؟  دل پہ لن ترانی کیا ہے؟  مکن مکن کی ہیجانی کیا ہے؟

سوال کیا؟ جواب کیا؟  تو مری کتاب کیا ہے؟  لکھے جو میں بے خط کیا، ترا جواب کیا!  جواب پہ سوال بھی کیا ..نقطہ ء حیرت سے موج وصال پہ آہٹ انگیز فرحت بخش لہروں کی سرخی سے مہروز کی نیم شبی کا حال پوچھ، پوچھ رات کا نیلا چاند سرخ کیسے ہو؟ آفتاب پہ سرخی کیا ہے؟ شراب جاودانی کیا ہے؟  عشق سبحانی کیا ہے؟  تو میری داستان ہے،  کہانی کیا ہے. رستہ ء مجاز سے گزر جائے تو لطف کمالی کیا ہے؟  تجسیم حیرت کر،  تبسم شاہا کو تصویر کر،  سیرت کی تطہیر کر. آیتہ نورانی سے بقعہ ء نور ہے ہر آنگن

تقریب تھی خوش فہمی کی .. روشنی رکی رکی سی، قافلہ ویرانے میں، چاند لبی لبی دہنی باہنی چرخ بہ چرخ روشن منور. ....  کھلی کمال کی کتاب، محبت کی تقسیم کی روایت میں نور کو مہر کمال کی سند عطا کی گئی ... مہر کمال کی اوج تحفہ ء سید البشر کا چراغ مصطفوی ہے حرم بہ حرم جلتا ہوا،  لحن، دہن،  گگن سے نکلے نیلے پیلے سرخ دھاگے ... پوچھا جاتا ہے وصال جاناں نے حیرت میں ڈال رکھا ہے؟  کمال میں کیا ملال رکھا ہے

اخلاق ‏حسنہ



رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کمال کے اخلاق والے انسان... مالک نے فرمایا 

وما ارسلنک الا رحمت للعالمین 

عالم کیا ہے؟ آپ کی عالم کے بارے میں رائے کیا ہے؟  عالم جہان کو کہتے ہیں. ہم کہتے ہیں کہ خوشبو کا جہان،  رنگ و بُو کا جہان، علم کا جہان، شوق کا جہان  ...نور کا عالم ..نور کا مقام .. نور کا جہان. آپ دیکھیے کہ جہان کے کتنے وسیع معانی ہیں ... تو یہ جہت بلحاظ دل کے ہیں. دل ان تمام جہانوں کو سموئے ہوئے ہے.  کائنات کا دل ایک ہے جیسا قران پاک کا دل سورہ یسین ہے اسی طرح کائنات کا دل تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں .... اللہ نے بندے سے کہلوایا ہے کہ کہو 

الحمد للہ الرب العالمین 
اور پھر گواہی دی 
وما ارسلنک الا رحمت للعالمین 

ان دو آیات میں عالمین کی بات کی گئی ہے ..تمام کائنات کا دل رحمت ہے وہ رحمت للعالمین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں صاحبو!  غور کرو کہ پہلے رب اپنی پہچان کراتا  ہے تو ساتھ کہتا کہ اب نبی کی پہچان یہ ہے کہ وہ رحمت ہیں. اس قران عظیم میں تمجید کی مانند چمک رہی یہی آیت. اس آیت کو چوم لو اور پکڑ لو ..  یہ آیت گواہی ہے کہ اللہ کے عالم پہ حاکم ہونے کا جس نے شکر ادا کیا تو اس کو رحمت تک رسائی مل گئی. اے زمانہ جو دل ہے، اے زمانہ جو جانِ دل ہے   تو سن لے دل کی بات ہے رحمت کے اوصاف ... رحیم کسے کہتے ہیں.  قران کریم میں رب کا فرمان ہے 

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَا تَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَـكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۗ وَا للّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
"اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے"

اللہ پاک نے عالمین کی رحمت کے لیے فرمان دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کرو ..تم کو وہ جود و کرم کے فیض سے نوازے گا.  نہ معاملہ صرف رحمت کا بلکہ درگزر کا معاملہ ہو جائے گا    تو رب کی اطاعت کے بعد محبت ملتی ہے. اقربیت کا یہ مقام کیسے ملے؟  پہلے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت اور ان سے محبت ضروری ہے. جسکو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اطاعت کی استطاعت نصیب ہو جاؤ انہی پہ فیض کے چشم و کرم کیا جاتا ہے ... تو صاحبو عہد کرلیں کہ ہم محبت پاکے رہیں گے تاکہ دیدار کا وہ مقام جس کے لیے اللہ نے فرمایا کہ نحن اقرب ... ہم جبل الورید سے قریب ہین تو یہ قربت محسوس کیوں نہیں ہوتی ..راستہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اپنایا نہیں جاتا ہے ... جس نے اطاعت کی اس نے محبت پائی ..پھر رب فرماتا ہے کہ 

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَا عْفُ عَنْهُمْ وَا سْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى الْاَ مْرِ ۚ فَاِ ذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْ
نَ
"(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں"

اللہ کی رحمت و کرم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پے یہی ہے کہ آپ کا دل کشادہ ہے ...تنگ دل میں نرمی کی گنجائش! اے مری جان! اے مرے دل تو سن کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دل کی زمین اتنی کشادہ ہے کہ تمام عالمین(ارواح)  آپ میں موجود ہیں.  اسی واسطے ہم کیا آنے والی ہر روح اور گزری ہر روح کا ان سے ربط ہے. ان سے ربط کا احساس مستحکم تب ہوگا جب تک اطاعت نہ کی جائے. آپ کے دل میں تمام عالمیں کی جگہ ہے تو آپ کی رحمت سب پہ برابر ہیں. تو آؤ آج جھولی پھیلاتے اطاعت کی دعا مانگے تب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت خدا تک پہنچا دے کہ خدا تک کامل رسائی فقط محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علاوہ کس کو حاصل ہے ...واعلیکم اسلام 
خوش رہو

جنگل ‏اور ‏خواب

یہ تلاش کا سفر ہے جو دل کے صحرا  اور جنگلوں میں ہوتا ہے. اعجازِ سفر ہے کہ سیدی مولا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات کی روشنی ہو. اس ذات کی روشنی مولائے علی سے ملتی ہے ..یہ اصحاب جو روشنی دیتے ہیں. یہ جو نسبتیں دیتے ہیں. جب آپ کے دل میں شیرِ خدا کی ہیبت پیدا ہو تو سمجھنا ہے کہ روشنی ہے کہ اس میں اپنا کمال نہیں ہے

دل تصدیق کی سند دیتا ہے کہ حرفِ متاع دل ہیں اور دل دل سے جڑا ہے. یہ تو آبرو کی بات ہے کہ سفر میں زادہراہ مل جائے. یہ نصیب کی بات ہے یہ کمال کے فیصلے ہیں. یہ شرف کی بات ہے.قلم کی عنایت ان کی جانب سے ہوتی ہے ورنہ قرطاس خالی، بنجر زمین کیا آبیاری سے شجر دے 

یہ پیغام سے بھرپور قلم دل کی لوح پہ رقم شدہ ہے. یہی کتاب الہی ہے. اپنے دل کی کتاب کو جناب سرور کائنات عالی مقام مصطفی کے دل کی کتاب(قران پاک)  سے ملا کے ان کے اعمال کو اپنے اعمال سے ملانا ہے. یہ محبت بھی زہے نصیب ہے یہ اعجاز سفر ہے جس کے راوی بیشمار ہیں. یہ پیغامات بس پہنچتے رہتے ہیں. یہ سرر کا شعبہ نہیں. یہ تو ابتلائے دل ہے، یہ مبتلائے غم کی.داستان.ہے 

طبیب نے کام دیا ہے اور طبیب کے کام پے جان قربان کہ مرض کا علاج طبیب کرتا ہے. مریض کو شفایابی چاہیے.اب جانب جنگل سمت تھی .....جنگل کے رستے خواب مل گیا.  خواب سے پوچھا،  ملاقات کب ہوگی ..خواب نے کہا جب نظام سرکار نے دعا دینی ہے

  دل ایسے موم ہوا کہ پگھلنے لگا ...جو سیسہ تھا وہ موم ہو... جھکائی زمین، جو زمین پے نیاز میں، تو محفل مولائے حیدرم سے مالک کون و مکان،  واصف دو جہاں سے،  امیر خیر الانام سے ہوئی .

 
سیدی مولا کی.شان میں مدح خوانی کی سعادت پائی ہے ...
اشک بامنزل.رسائ پائی ہے ..سیدی مولا... یا مصطفی، عربی.ڈھولا....یا مصطفی، کمال.مرشد،  کمال نبوت ،کمال.بندگی یا مصطفی ،سید البشر کا.شیریں لقب ،حیات و ممات کا.سبق 
کیا لمحات ہیں یہ عجب ، ملتا اسے جو کرتا ادب ،ادب سے روشنی پائی ..،روشنی نے زندگی دے ،زندگی نے درد کا رشتہ،شکستگی سے خوشی،.............جمال نبی کی نظر سے بدلی ہوئی، برسات میں نور برستا دیکھا یے ،محمد محمد کا نوری کلمہ.دیکھا ،دل ملا،  دل جلتا ہوا .تب دیکھا ،شاہ ولا سے ملا سخاوت  کا تحفہ، شاہ ولا نے زمین پہ نام محمد لکھا ،شاہ ولا کا بارِ علم سماوی نور ہے ،شاہ ولا کا  شعار یقین رہبری کا سرور ہے ،شاہ ولا نے حسن کی چادر اوڑھے ہوئے ،دل صدقے دل پہ ہزار جان نچھاور

من کی بتیاں نچھاور، مرے یاور ،کمال کی  یہ اگر بتیاں، مرے یاور ،مل رہے ہیں نوری ہالے،  جل رہے ہیں سارے ،سرر نے عجب حال کر رکھا ہے  شاہا نے سایہ ڈال یوں رکھا ہے ،
شاہا کی نظر سے مست و مجذوب ،شاہا کے الطاف کی حد نہیں ہے ،ان کے قد  کی. کوئ حد نہیں.ہے ،شام حنا نے رنگ سے اجالا کردیا ،آقا کے نور نے یوں بول.بولا کردیا ،کعبے نے شوق حضور میں کہا ہے ،نور کے دل میں مرا حبیب رہا.ہے 

سماوات پہ میم کی عجب ہے مثال 
سنگیوں  پہ روشنی سے عجب حال  
آپ کی نعمت سے دل پر ہے نوری ہالہ 
دل کہے جائے ہے  شاہ والا.شاہ والا ... 
مرقد پر روشنی، روشنی ہادی ہے
یہ قبر نہیں، غار حرا کی وادی ہے

محفل پہ ادب یوں ہے طاری ،خاموشی کا یوں ہے سرر طاری 
آمنہ کا لعل،  عبد اللہ کا.چاند ،اللہ کی کمال تصویر ہیں.شاہا 
میرے دل میں رہتے مرے بابا ،سرکار کی آمد مرحبا ،دلدار کی آمد مرحبا ،فقیر ہوں،  فقیر پہ اہل کرم کا کرم ،خالی جھولی کا رکھا ہے یونہی.بھرم ،جھکا رہا سر مرا کہ عاری ہے شرم ،مرے سر پہ شاہا کا ہاتھ،  ان کا ہے کرم ،نوازئیے نور ابدی کے کامل آئنے ،مطلق حقیقت کے سب کامل.آئنے ،درود سے چلتا ہے نظام  مصطفوی ،مصطفوی نور میں.چمکے حجابات ،مصطفوی نور سے ہوتی رہی ہے بات ،آج تو پانی.ہو رہے سماوات،چہرہ محبوب دیکھنا ہے؟  دیکھنا حق ہے ،چہرہ محبوب دیکھنا عبادت،  حق ہے ،چہرہ نور سے بقعہ نور ولا میں روشن ،جانب.طور سلسلہ.ء جبل کمال روشن 

ملائک سے "سماوات " مخاطب 
مولائے کائنات سے "آپ " مخاطب
یوں سلسلہ ہائے نور در نو.چلا 
عرش سے نور فرش تلک  چلا 
زیست کے سفر میں کفر اضافی 
اللہ والے  پہ رہتا الوالی کا سایہ 
جو ملے سایہ تو بدلتیہے کایہ 
نام محمد تو جہاں  پہ چھایا ہے
کلمہ حق کی استمراری زبان ہے 
نام محمد تو اللہ کی گردان ہے 
حق نے سج دھج کی میم مثال لیے.
مثل کائنات سے  ہوئے خیال زیر بار 
یہ وار، محبت کے تلوار سے کاری ہیں 
نعت لکھنے کو کیفیت سی طاری ہے

کیا ملا؟  کیا نہ ملا؟  کانچ کے دھاگے سے لکھا میں نے یہی بار بار،  عشق  خالص کہاں ملےبار.بار ... اٹھاتا ہے جو بار اس کا،  وہ ہوتا ساحل پار ...

خوشبوئے زلف محمد سے نکلی عنبر کی مہک ،خوشبوئے لالہ،  موتیا اس پہ نثار ،آپ کے دلاور لہجے میں چھپا جلال 
شاہ ولا نے آپ.سے لیا جلال با.جمال.،شاہا نے سرخ کملی اوڑھ رکھی ہے ،کالی زلف والی محمد کی.صورت  ابھرتی یے
،تاجور نے تاجوری کا تحفہ دیا،،،،،،،  سج گئیں راہیں اور رفعت ملی اور رفعتوں پہ.مکانت،  سیادت سے ملی اجابت، 

 .
ہار میں  غنیم کا بار کیسا.ہے 
ستم میں معین کا کار کیسا ہے 
کچل دے،  نفس وہ وار کیسا ہے 
جسم مقید روح افلاک پر ہے 
مری زندگی کسی شاخ پر ہے

حجاب سے ازل کے رشتے بڑے 
شاید ترے دل میں بات اترے 
صلی علی کی صدا پڑھتے.ہیں 
آپ کی محفل جو بیٹھتے ہیں 
سجا کے سج سج کے آشنا ہوئے 
نور حزین پاک زمین کی نشانی 
یہ عشق فقط اس کی کہانی 
کچک کچک، کچ کچ نکلا دھاگہ
خاک پڑی رہی،  خیال بنا.ارادہ  
حجاب سے ازل کے رشتے بڑے 
شاید ترے دل میں بات اترے 
صلی علی کی صدا پڑھتے.ہیں 
آپ کی محفل جو بیٹھتے ہیں 
نورِ حزین سے وہ آشنا ہوئے 

بلالیجیے شاہا بس اپنے در پر 
آؤں ارض مقدس سر کے بل پر
عشق سپر، تیغ نیام  میں ہے 
مخلوق کے ذمہ بھاری کام ہے 
چشم دل سے من شاد ہوا ہتے 
اسی سے میخانہ آباد ہوا ہے. 
یہ زمین علی کی ولا میں ہے 
دل وادی ء شاہ بطحا میں ہے 
چاک جگر، حسرت کا دھواں 
ملن کو تڑپتا مرا لمحہ لمحہ
مجھ کو اپنی ولا میں گما 
مرے دل میں سما کے نہ جا 
شاہا،  شام غریباں کیا ہے؟  
شاہا آپ کا جانا،  غربت ہے 
شاہا،  شام حنا  کیا ہے. 
شاہا  آپ کا آنا امداد ہے

ایمان ‏بالغیب ‏


میں قران پاک پڑھ رہی تھی تو پڑھتے پڑھتے رک سی گئی. دل جہاں رک جائے تو مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ بھاگ جاتا ہے. دل جہاں تھم جاتا ہے وہ رات ہوتی ہے. اک شب غم کی رات ہوتی ہے. تو اک رات لیلتہ القدر کی ہوتی ہے ...یہ راز کی بات ہے کہ قران پاک لیلتہ القدر میں اترا ہے . قران پاک پہلے بھی اترتا تھا کل بھی اترے گا اور آج بھی مگر رات اسکی قدر والی ہو. یہ رات ملتی کیسی ہے یہ نصیب ہے .. نصیب غم سے کھل جاتا ہے اس لیے غم کو کبھی برا مت کہنا ... آیات قران پاک کے دوسری سورہ کی ابتدائی آیات ہیں 

Allah SWT said:

الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِا لْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ۙ 
"جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں"
(QS. Al-Baqarah 2: Verse 3)

Allah SWT said:

وَا لَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِا لْاٰ خِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ ۗ 
"جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں"
(QS. Al-Baqarah 2: Verse 4)
 
کل کو کوئی نہیں جانتا. جانتا ہے؟ آج حاضر ہے. ماضی میں کیا ہوا؟ کون جانتا؟  جب تک قران پاک کے ماضی کے واقعات حال یا دور حاضر سے نہ مل جائیں بات نہیں بنے گی اور قران پاک کی سمجھ نہیں آنی. اس کو پڑھ کے ہم اک لفظ بڑائی کا کہیں گے کہ ہم نے یہ پڑھا. ہم نے سمجھا نہیں ایمان غیب ہے کیا؟ غیب پر ایمان لانا کیا ہے؟ رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے سورہ التکویر میں فرمایا گیا کہ آپ غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں ہیں مگر کاہن بھی نہیں ہیں ... قران پاک سینہ بہ سینہ ایسے ہی فہم و ادراک کی منازل طے کراتا کائناتی شعور بناتا ہے .. نماز قائم کیسے ہوتی ہے؟  جب تک غیب پہ ایمان مکمل نہ ہو  ورنہ سورہ الماعون میں اللہ نے نمازیوں کی نماز کی  حوالے سے لعنت افسوس کا اظہار کیا ہے  ... جس کا غیب پہ ایمان مکمل ہو نماز قائم ہو. اس کو علم کا رزق ملتا ہے. مال بھی رزق ہے اولاد بھی زیور بھی پیسے بھی سب اشیاء رزق ہیں ... ایمان والا رزق اس سے ملتا ہے جس کی نماز قائم ہوتی پے. نماز قائم ہوتی جب اللہ سے ربط قائم ہو ..اللہ سے ربط قائم ہو تو اللہ کو دیکھو اور اللہ تمھیں دیکھے. یہ خود میں اترنے والی بات ہے جو پہچان لیا وہ مان گیا. مان گیا تو مومن ہوگیا کہ یقین قائم ہوگیا 

قران پاک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہ نازل ہوا. کس کے لیے نازل ہوا؟  ہمارے لیے .. انسان کے لیے فرمایا گیا سورہ الحشر میں کہ قران پاک اگر پہاڑ پہ نازل ہوتا تو ہیبت سے دبا جاتا مگر امتی پہ نازل ہوتا ہے مگر سورہ الاحزاب میں فرمایا کہ انسان ہے جاہل و نادان جو چیز علم اس کے پاس اسکو سمجھتا نہیں ورنہ اللہ فرماتا ہے کہ ہم اقربیت میں شہ رگ سے قریب ہیں. یہ قرب محسوس نہ ہو تو پھر نماز قائم نہیں ہوتی. جب یہ ایمان کامل ہوا تو پھر جب کامل سچ کے بعد پچھلی نازل شدہ سچائیوں میں شبہ نہیں رہتا کہ دین بس اک ہے وہ اسلام. سلسلہ بس اک درخت سا جسکی شاخیں وسیع ہوگئیں ...

آخرت کیا ہے؟ غیب ہے ..کون جانتا ہے کل کیا ہونا جب حال کا علم نہیں جب حال میں ربط نہیں تو کل آنے والے حال کو کیسے جانا جائے. یہ سوچنے والی بات ہے

تلاش ‏کا ‏سفر

یہ چمن مہکتا ہے، یہ زمن نام لیوا ہے، یہ حسن زیبا ہے، خرمن دل سے بوئے گل تک ہستی کا نور ایک حرف ہے، حرف محمد.   
حرف محمد خود ایک راز ہے. راز بندگی نے پایا ہے.  عبد سے معبود کا تعلق عدم سے نقطہ تک کا تعلق اور یہ تعلق دوامی ہے. حیات دوامی، وجود دوامی، عقل روحانی،  نور وجدانی، لہریں سبحانی،  جبین کی ارزانی،  ساجد کی زبانی، نام اللہ پر قربانی،  آفرین اے بانی کا نام ہے

 سلام یا سید الشہدا، ام فروا سے قیس تک امہات کی جانی،  خدیجہ کا کون ثانی؟  خدیجہ سے چلی نسلِ انسانی،  فاطمہ بنت رسول کائنات زوجہ اسد ... بی بی جانم سے چلی بات،  بی بی جانم نے کیا ارشاد، اللہ کا ہو گھر آباد، رکتے نہیں شہباز، اڑتے ہیں گرتے نہیں،  اٹھ کہ، صدائے ربانی ہے،  روح کی اپنی کہانی ہے،  نسل در نسل کی قربانی ہے، زندگی کیا ہے؟  لشکر حسینی ہے، سالار قافلہ ہیں، شہِ خیر الانعام ہیں ..،  اس نام سے بجتے ہیں دل کے سبھی ستار، نغمہ گل ہے

قبیلہ قیس سے بنو مضر تک ایک شخص ایسا تھا جس کو رب سے بہت پیار تھا. حق تو یہ ہے کہ وہ رب کا دلارا تھا ...جس کے پاس بھیڑ بکریاں سکون سے پھرتی رہتی ہیں،  جس کی نماز حضورِ یار بنا نامکمل رہتی تھی ...وہ جس کا دل بنا کسی تحقیق کے، بنا کسی جستجو کے براہ راست حقیقت سے استوار ہوگیا ...جسکو شک نہ تھا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ..جسکی محبت پر اصحاب کو رشک آیا تھا .....سیدی اویس قرنی ...کیا کیا عاشق رسول ہیں ...کیا کیا عاشق رسول ہیں.   حبِ رسول سے روح جسکی گندھ جائے، وہ مہک جائے،  مدح و توصیف میں بہہ جائے، وار تیر و خنجر کے سہہ جائے، قاتل تلک  کو عفو کا سندیسہ دئیے جائے،  یہ چمن ہستی کے چمکتے چمکتے سرخ، نیلے پیلے،  ننھے ننھے سے پھول،  ان سے رنگِ گلزار دیکھیے،  سارا عالم بہار دیکھیے،  چہرہ یار دیکھیے، آنکھ ہو تو بار بار دیکھیے،  دل سے دل کے وار دیکھیے،  دیکھیے، شہِ ابرار دیکھیے، آنکھ تو  ہے، اشکوں کے ہار دیکھیے،  جبین جھکے تو اظہار دیکھیے،

وہ سرحدِ شام سے فارس کی سرزمین سے اک جوان روحی روحی قلبی قلبی منور نکلا حق کو ..اک کوچہ ء جاناں سے دوسرے کوچہ ء جاناں تک،  سرحد ہا سرحد کے فاصلے طے کرتا،  جسکے پاؤں کی زنجیر اسکو ہلاتی، تڑپاتی اور وہ چلتا سمتِ یار کی جانب،  وہ گلستان عرب میں رسول مدنی کا ظہور .............تڑپتا، سسکتا اک کوچہ ء جان سے دوسرے تک سفر کرتا، رہبری قافلوں سے مانگتا،  نشانیاں جوڑتا، ملاتا، دل کے تار سے وقت کے ملاتا اور مشیت کے تقاضے سوچتا،  جس کے دل میں نور حزین نے سایہ کررکھا تھا، وہ جسکی روح صدیوں کے حائل فاصلوں کو عبور رکھنے کی اہل تھے، جانب حجاز مگن، تھا سر پہ گگن، کیسی تھی یہ لگن، دکھا اسے جو سجن، سوچا ہاشمی ہے مگر ہے مگن،  ستم نہ کہ کرم مگر شرفاء سا چلن،  فارسی تھا مسکن،  مہر نبوت دیکھ رکھی ہے، سیدی کی کملی پہن رکھی ہے، چمن کی خوشبو بھلی ہے، ،  رخ سے دور اندھیرا،  کسی کی عید ہوگئی،  آقا کی دید ہوگئی،  زلف محبوب کی اسیر ہوگئی،  نغمہ گلو سے مڈبھیر ہوگئی، شمس کی کیا تدبیر ہوگئی،  غلامی کی تطہیر ہوگئی، مدحت نبوی شمشیر ہوگئی، قالب میں قلبی تمجید ہوگئی، گگن سے لالی نے جھانک لیا،  دل تھا جو مانگ لیا،  دیا جوڑا سرخ حنائ حنائی

ہوا سراسرئے، یا محمد
پتا پتا لہرائے، یا محمد 
سماوات پر ہے، یا محمد 
زمین بول پڑی، یا محمد
چمن در چمن، یا محمد 
کلی درثمن ، یا محمد
گل لحن کہے، یا محمد  
رب کی صدا،  یا محمد

القابات سے نوازے گئے 
مزمل سے ہوئی ابتدا 
مدثر سے کلی کھلی 
طٰہ سے حقیقت پائی
یسین سے دید پائی 
احمد سے محمد کا فرق 
الف سے میم کا کھیل ہے 
شمسِ ہداہت کی کملی 
نور نے تحفتاً پائی ہے 
بدلی رحمت کی چھائی 
زندگی کی یہ کمائی ہے 
آنکھ کیوں بھر آئی ہے 
قسمت رشک کرے ہے 
فلک آنکھ بھرے جائے 
میرے باغ میں دو پھول.
نام محمد سے ہوئے ہرے 
بوٹا امید کا کھِلتا جائے 
پیار جیسے ملتا ہے جائے 
شمع کو طلب پروانے کی 
جگنو کو طلب بوئے احمد

حق کی تلاوت، سلمان 
تڑپ کی سعادت، سلمان 
گل قدسی مہک، سلمان 
جمال کی انتہا، سلمان 
محبت کا ایمان، سلمان
آنکھ کا وضو،  سلمان 
قفس میں اڑان، سلمان 
ساجد کا وجدان، سلمان 
ذات با ریحان، سلمان 
محفل کی جان سلمان 
محشر کی روداد، سلمان
حجر کا آستان، سلمان 
عقل با رحمان، سلمان

سلمان کا پوچھتے رہیے، نام سلمان نے طرب بجا رکھا ہے، کمال کا نام سجا رکھا ہے،  سعید با سعد بنا رکھا ہے،  کشف در ححابات بہ ایں حجاب سلمان،  شاعرِ رحمان سلمان،  صلیب سے یکتائی کا سفر ہو،  یا ظاہر سے بباطن کا تماشا،  اک واحد یکتا کی داستان ہیں سلمان ..فخر بوترابی، لحنِ داؤدی ہیں،  تڑپ میں اویسی ہیں،  رفعت میں خضر راہ،  کعبہ شوق دیکھنے آئے، دیکھتے ہی کلمہ پڑھ آئے،  قریش کیا بھلا سوچیں،  غیب کی داستان پہ ایمان لائے گویا عدم سے حقیقت کو وجود میں لائے، حقیقت رسا کلمہ، سلمان،

حیدر سے بوترابی پوچھیے
ستم کو کرم کا راستہ دیجیے شام کا لباس رات کو دیجیے 
چاند کو شمس  بنا دیجیے

شمس سے شمس تک سلاسل 
نور کو پھر سے دکھا دیجیے 
قرار بودم نہار در بود عشق 
عشق نہاں درماں روح ست

ساقی ء کوثر کے پاس 
جام جم کے آس پاس 
صبا چل رہی ہے آر پار 
چھڑ گیا ذکر گل نو بہار 
مئے خمار سے بیٹھے رہے 

اس محفل میں نور سے بھرپور صدا لگتی ہے،  نور حق یزدانی نے بوترابی سے تقسیم شروع کررکھی ہے،  کمال کے سب دریچے وا ہوئے، نور ولا سے نور الھدی تک رسائی ..یہ گھڑی جس کی ساعت میں پیار نچھاور، یہ احساس شکر پہ مائل،  درود سے زبان پہ کلمہ جاری.....

کیسے ‏کیسے ‏جلوہ ‏دکھلاتے ‏ہو ‏

کیسے کیسے جلوہ دکھلاتے ہو؟
ایسے، جیسے کہ پہلے دکھلایا ہو ؟
تو پھر جلوے میں بے تابی کیسی؟

آ کہ باہم رقص کریں ...!

میں مٹ جاؤں گی اورتو باقی رہے
لا الہ الا اللہ کی بات سنے کوئی  

لا ھو کا نغمہ بس یہ کائنات ہے 
لا ھو سے ھا ھو کا جلوہ ہے 

یار سچے کے عشق میں گم ہوجائے جو، تو یار سچا دل میں مقیم "عین حیاتی" میں درد کی باگ سنبھالے سامنے ہوتا ہے .... درد سے چیخ نکل جاتی  اور صدائے عشق! خاموش!

 صدائے عشق نہ دو! لباس یار میں زیبا نہیں ایسی صدا

 لباس یار پہن لے جو،  تو پھر کہ یار جلوے کا تماشا کیا ہے؟  لفت میں تمھاری اپنا آپ  کھو دیا جاتا ہے ......  جلوہ ملے تو سب ملے،  جلوہ نہ ملے تو کچھ نہ ملے مگر  دل بیقرار!  دل کے مذبح خانے کےپاس رقص کناں خون کی گردش پہ حیرت کناں ...حیرتی کہ  یا حسینّ کا نام ہے گردشِ لہو میں ... مولا علیّ کے نام کی آیات ہیں ...  سیدہ  فاطمہّ کے نام سے گردش ہو رہی ہے اور زبان کہہ رہی ہے ّ

انا اعطینک الکوثر 

ماتم کناں کیسے رہا جائے  کہ  دل میں آیات حق اور اسکے نیک.بندوِں کا سایہ ...، 

میری آنکھ میں اشکوں کی لڑی اور میں کہ محو نظارہ ...ہر دل میں قران پاک موجود ہے مگر ترتیل سے پڑھنے کے لیے موجود وہ دل نہیں ہوتا؟  وہ یاد نہیں ہے تو کیسے ملیں گے مجھے وہ  زمانے؟  کیسے دیکھوں گی وہ  نشانیاں؟  کیسے پاؤں گی اس دوڑ کو، جس کی رسی سے میرے دل کو کھینچا جا رہا ہے ..میری روح قدیم ...!مگر جانا اب ہے ...!شناخت کیا ہے ؟ ازل کی روح سے خلق .... پہچان کا سفر ہے کہ کہتا دورِ حیدری ہو!  دور محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم.ہو ..دور صدیق ہو یا دور عمر ہو یا دور حسین ہو ...سبھی دل  موجود تھے انہی زمانوں میں ...وہ تمام  لطیف وجود مگر تمام کہ تمام اب قید مادی بندھنوں میں .... 

حق لا مکانی میں!  حق سبحانی ھو!  مقام حیرت پہ پہنچتے ہیں جو عشق میں ...مقام لاھوت سے ھاھوت تک ان کا استقبال ہوتا ہے  ...مقام جبروت پہ ان کو قرب  سے نوازتا ہوں ...ان پہ اسی کا کا سایہ ہو جاتا ہے ...یہی مرے  صدیق، مرے شہید بندے ....شاہد روحیں،  صدیق روحیں زندہ رہتی ہیں ہر زمانے میں ... یہ کرم خاص ہے جو کہ تا بہ حال جاری رہتا ہے

اے محمدﷺ نور مجسم!  
اے محمد ﷺنور دلم!  
اے محمد ﷺدل پہ نگاہ کیجیے 
اے محمدﷺ ,اے محمدﷺ کہتی ہوں 
کرم سے دنیا.بدل دیجیے 
اپنے معارف سے نواز دیں 
دائم ہو جلوہ!  نعمت عطا کردیں 
ان گنت درود جناب نبی پاک ﷺ

یا محمدﷺ!  بس اب دیر مت کریں ...دے دیں اپنا جلوہ ...کچھ نہیں مانگتی شاہا بس دائم.جلوہ ...لے لیں جتنا باقی ہے ...بس دے دیں دائم جلوہ اپنا ...یا محمدﷺ اپنے نور سے پرنور کر دیجیے ... دائم جلوہ دے دیجیے .... جب بھی نظر اٹھاؤں حرا کی محفل دکھائی دے  دے ..جب نظر جھکاؤں ،تو آپ ﷺکا چہرہ دکھائی دے  دے ....جب سوچوں، تو  آپﷺ کا تبسم نظر آئے ..جب چلوں، تو آپﷺ کا حلیہ، مکارم نظر آئیں ..جب بات و گفتگو ہو، تو سیرتﷺ کا وہی پہلو نظر آئے .... اے نور محمدیﷺ ...ان گنت درود ...بس دیر مت کیجیے ...بہت دیر ہوگئی ہے شاہا ﷺ...نواز دیجیے کہ ایسا کہ نہ ہو دم نکل جائے ...ایسا نہ ہو کہ دم کیساتھ روح ٹھہر جائے .... نواز دیجیے اپنے اکرام کی حد سے ...نور کو بے حساب عطا کیجیے .......... یا نبی ﷺ..... اللہ نےآُپ کو رحمانیت عطا کی ... آپ اپنا کرم مجھے دے دیں ...... یا نبی ﷺ....خواہش  جستجو ہے کہ نعت کی سعادت دے دیں ...نعت خوانوں میں آپ کے میرا نام بھی ہو...عشاق کی فہرست میں سر فہرست میرا نام بھی ہو ...جو نعت ہو مری گریہ سے بھرپور ہو ...مری تڑپ کو زمانہ بھی نام دے ...یا نبیﷺ،  عطا بے حساب کیجیے .....

خدا ‏سے ‏سوال

آج میں نے خُدا سے سَوال کیا کہ دل کے
سیپ کون دکھائے؟ یہیں کہیں چھالے بُہت ہیں. درد بُہت مِل چُکا ہے مگر سوال اضطراب سے امکان کو تھا. سوال تو ممنوع ہے مگر میں نے تاہم کردیا کہ مشکل یہ ہے کہ درد وُضو کرنے لگا ہے. جب درد ہستی سے بڑھ جائے تو اپنا نَہیں رہتا. یہ زمانے کا ہوجاتا ہے اور زمانہ اس درد میں ظاہر ہوجاتا ہے. درد سے سوال مناسب نہ تھا مگر رشتہ ہائے دل سے تا دل استوار تو ہوا. 

خالق سے مخلوق کا رشتہ تو درد کا رشتہ ہے. درد کے بندھن میں اللہ اللہ ہوتی ہے اور اللہ دل کا سکون بن کے مثبّت ہوجاتا ہے. اللہ مشعل مانند روشن رگ رگ میں مشتہر ہوجاتا ہے. خدا میرے سوال کیے جانے پے خاموش رہا جیسا کہ میرے سوال میں خاموشی اسکا جواب ہو. میں اس مہیب خاموشی میں کھو گئی اور سوچنے لگی کہ غم کے اندھیرے نے مار مکایا. تری روشنی درز درز سے داخل ہورہی ہے. یہ تو عجلت میں نہیں ہے یہ اضطراب بُہت زیادہ ہے. پھر خدا مخاطب ہوا

طفل مکتب سے پوچھا نہیں جاتا، بس جو دیا جاتا ہے وہ لیا جاتا ہے. غم کی شب میں سحر کے اجیارے اور اجیاروں میں غم ... شبِ فرقت کی صبح وصل کی رات ہوتی ہے .... تو نمودِ صبح کی دُعا ضرور مانگ، مگر گردش رواں کا چکر آگے پیچھے چل رہا ہے "نہ دن رات سے آگے، نہ رات سے آگے دن ہے. بس انتظار

نشانی

نشانی کا تصور کتنا عجیب ہے. ساحل کنارے نقش پا سے راستے مل جاتے ہیں. کسی کو ڈھونڈنا ہو تو اسکے نقش پا سے ڈھونڈ لیا جاتا ہے. اک نقش پا جسمانی ہیئت کا ہے اور اک روحانی ہے. دل پر نقش یا آیت ہیں. دل میں نشانی ہے اور یہ نشانی اللہ کی ہے. اللہ کا نام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بنا نہیں لیا گیا اور اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام لیتے درود بھیج دیا. اللہ نے نور کو بانٹا اور تقسیم میں کم یا زیادہ کی تفریق رکھی. کسی کو جمال دیا تو کسی کو جلال دیا اور کسی کو حال دے دیا اور کسی کو محروم رکھا. مصور نے مصوری کے شاہکار نمونے تیار کیے. یہ دنیا نمونہ، یہ انس و حیوانات و شجر. جب غور کروں تو ساری کائنات کی روح کو دیکھنا پڑے گا اور روح تو کائنات ہے. روح میں کون ہے؟  روح میں اللہ اللہ ہے اور اللہ کائنات میں ہے. دل میں اللہ کی صدا کو شجر کے پتوں کی ھو ھو سے ملایا. یہ اشجار کے پاس معارف زیادہ ہیں جن کی صدائے ھو یگانہ ہے اور جب غور کرو تو پتوں کے ہلنے میں عجب پیٹرن ہے، یہ شاخیں نہال غم میں بنجر اور اشک مسرت میں ہری ہری ہوتی ہے . جھکی شاخیں تو سجدے میں ہوتی ہیں جبکہ ہلتے پتے ہمارے لبوں کی طرح تسبیح پڑھتے ہیں ...  یہ تسبیح عیاں ہے اور دکھتی ہے. یہ شجر کتنے خوش نصیب ہیں جب ہوا ان سے ٹکراتی ہے تو ان کو عکس مصطفوی ، رویت مصطفوی اور آواز مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم دے کے جاتی ہے. یہ ہوا چودہ سو سال سے اوپر اپنی خوش بختی پہ نازاں ہوتی آئے اور اشجار کی رگوں جب یہ خوشبو ملتی ہے تو یہ پھلنے پھولنے لگتے. یہ بیل بوٹے اتنے نایاب ہیں. ان کو چوم لوں کچھ تو رنگ مصطفوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جھلک میرے افکار و اعمال میں ہو. 

یہ روح کے نشان ڈھونڈنا اتنا آسان ہے؟ ہاں تلاش و جستجو کا دھاگہ  جلنے لگتا ہے. یہ لگن کی آگ ہے جو پورے وجود کو عکس شہود سے عکس موجود کی جانب لیجاتی ہے ان نشانوں کو ڈھونڈ لینا اصل کام ہے

نغمہِ ‏جانِ ‏رحمت


نغمہِ جانِ رحمت کیا ہے ؟ عشق کے فانوس پر منقش لا الہ الا اللہ ہے ۔ عشق محوِ رقص ہے ،چکور کو چاند مل گیا ہے ، زمین اور فلک باہم پیوست ہیں ، یہ آبشارِ روشنی ۔۔۔۔۔ یہ فانوسی منقش ۔۔۔۔ کتابِ عشق کا پہلا صفحہ خالی تھا ، لالہ کی فصل نے اسے سرخ کردیا ہے ، گل اس میں رکھا رہا ، خوشبو نے قبضہ جمالیا ، یہ ملک لالہ و گل کی ہے ، یہ خوشبو عطر و عنبر کی ہے ، مشک و کستوری نے سدھ بدھ کھو دی ، بیخودی کے جام نے آنکھوں میں لالی بھر دی ہے

جاناں کے جلوے چار سو ہیں ۔۔۔اسکی خوشبو پھیلی چار سو ہے ۔۔دودِ ہستی میں نامِ الہی لکھا ہے۔۔خوشبو نے معطر لبو بام کیا ہے ۔۔طواف ذات کا پروانہ کرتا رہے۔۔وہ نشانیاں عیاں کرتا رہے۔۔۔آخرش خواہشِ دید پوری ہونے کو۔۔تڑپ کے صدقے گزارش سنی ہے

یہ کون اسکے جلوے میں محو ہیں ، اللہ اللہ کے پاتے جارے  ہیں نشان  ، وہ نور جو صبا میں ہے ، وہ نور جو جھاڑیوں میں ہے ، وہ نور جو فلک پہ ہے ، وہ نور جو چاند میں ہے ، وہ نور جوآفتاب  میں ہے ، وہ نور جو زمین میں ہے ، وہ نور جو مدینے میں ہے ، ہائے وہ کتنا حسین ہے ، ہم مرنہ جائیں ، اسکا حسن ہمیں دیوانہ کیے دے رہا ہے ، اس نے ہمیں رقص کی مسرت میں رکھا ہے ،

اسکی خوشبو میں مدہوش ہے  کوئی،  یہ اسکا نور ہے ، یہ خوشبو جو پھیل گئی ہے ، ہمیں سرور چمن میں رہنا ہے ،  ذات کو جل تھل کردیا ہے ، شاخِ نہال مسرت نے خزان رسیدہ پتوں کو زندگی بخش دی ، جنون نے زندگی نئی بخش دی ہے 

سر سے پاؤں لگے کہ خوشبو نے مجھے بھردیا ہے ، اتنی خوشبو بڑھ گئی ، زمینو فلک اس میں بس گئےہیں ، ذرہ ذرہ خوشبو میں نڈھال ہے ...

وہ خبر کہ بارش کو آسمان سے برسنا ہے ، وہ خبر کہ بلبل کے نالہِ درد کو فلک تک رسائی ہے ، وہ خبر کہ دل کر ذرے ذرے میں ہزار ہزار جلوے ہیں ، دل والے تن کی روشنی کو دیکھ پاتے ہیں ، عشق کی انتہا نہیں ہے ،عشق کی حد نہیں تو حدود کیسی ، تحیرِ عشق میں ، گلِ سرخ کی مہک میں ، صبا کے نرم میٹھے جھونکوں نے بیخودی کو ہوا دی ، چمن سرور کا جل تھل ہے ، شاخ نہال مسرت ہری ہے ، یہ کیسی بے خبری ہے

دل کی کھڑکی جب سے کھولی گئی ہے ، شہرِ دل کے درواے جانے کیوں دستک کے منتظر ، دروازے تو منتظر ہیں ، شہر چمک رہا ہے ، جاناں کے جلوؤں کو تڑپ رہا ہے،تسبیح کے دوانوں میں نورِ الہی پوشیدہ ہے ، قافلہ حجاز کی جانب ہے ، راستہ دھند سے لدا ہے ، جیسے کوئی نور کی کملی میں ہے ، یہ کیسا پیارا احساس ہے

نمودِ صبح۔۔۔ ہجر ہویدا ۔۔۔ تجلیِ طہٰ ۔۔۔ تحیر مرمٹا ۔۔۔۔ بیخودی بے انتہا ۔۔۔۔ ست رنگی بہار ۔۔۔۔ سات نور محوِ رقص۔۔۔ کہکشاں میں قدم ۔۔۔ مدثر ، مزمل کے نام چمکے ۔۔۔۔۔۔۔سبز ہالہ لپٹا ۔۔۔۔۔۔ بندچلمن میں اسکا جلوہ ۔۔۔۔۔ سرِ آئنہ کون۔۔۔پسِ آئنہ کون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے خبری کہ ہوش کہاں

دل ‏فلک ‏پر

دل،  اک سرزمین ہے،  یہ زمین بلندی پر ہے. زمن نے گواہ بَنایا ہے اور ساتھ ہوں کہکشاؤں کے. سربسر صبا کے جھونکے لطافت ابدی کا چولا ہو جیسا. ازل کا چراغ قید ہے. یہ قدامت کا نور وہبی وسعت کے لحاط سے جامع منظر پیش کرتا ہے. کرسی حی قیوم نے قیدی کو اپنی جانب کشش کر رکھا ہے  وحدت کے سرخ رنگ نے جذب کیے ہوئے جہانوں کو چھو دیا ہے. شام و فلسطین میں راوی بہت ہیں اور جلال بھی وہیں پنہاں ہے.  دل بغداد کی زمین بنا ہے سفر حجاز میں پرواز پر مائل ہوا چاہے گا تو راقم لکھے گا کہ سفر بغداد کا یہ باب سنہرا ہے جس میں شاہ جیلان نے عمامہ باندھا ہوگا اور لفظِ حیات پکڑا تھمایا ہوگا. وہ لفظ حیات کا عقدہ کوئی جان نہیں پائے گا . بس یہ موسویت چراغ کو عیسویت کی قندیل سے روشنی نور محمدہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل رہی. وہ بابرکت مجلی زیتون کا درخت جس کے ہر پتے کا رنگ جدا ہے مگر درخت نے سب پتوں کو نمو دیے جانے کس نگر کا سفر کرادیا ہے. داستان گو نے کہا ہے کہ انمول خزینے ہوتے ہیں جہاں نورانی مصحف شاہ جیلاں اتارتے ہیں اور کہنے والے کہتے پیرا سچا بغداد ساڈا.  اودھی دستار دے رنگ وی وکھو وکھ. اوہی سچے دا سچا سچ

شاہ بغداد قطبِ اولیاء 
شاہ جیلاں امامِ زمن 
شاہ سے بنٹا نوری باڑا 
اسمِ محمد کا ہے اجالا 
ذات کے گرد نوری ہالا.
دل کہے جائے شہ والا 
دل پہ ہے مکڑی کا جالا 
کاتب نے اسے ہٹا ڈالا 
رنگ بڑا سبز سبز ہے 
سرمئی روشنی پھیلی 
 
تار عنکبوت اتار دو. وقت ہے دعا کا اور نزع کے وقت مقبول دعا حج ہے.  حج شروع.  حج ختم. حج مطاف دل میں،  حج غلاف کعبہ کے اندر،  سوچ کعبے کو طواف کر اور پیش کرے سلام


کچا دھاگہ نہیں ہے ہوتا جس پہ بسمل چلتا ہے. نیچے آگ ہوتی ہے اور تار لہو چاٹتی ہے. رنگ اڑ جاتا ہے،  ذات بکھر جاتی ہے مگر ذات بکھر جائے تو غم کیا کہ ذات کا اصلی شعور باقی ہے یہی حاصل شعور ہے مگر بات بین السطور ہے کہ عشق محجور ہے. سرزمین دل طواف میں کہ قبلہ دل پہ لکھا گیا ہے اللہ ھو یا محمد چار یار زندہ باد. سلامت پیر باشد یا حسین خلافت زندہ باد.  یہیں سے تو چل رہا ہے سرمہ ء ہستی کا وصال دل سے قرار. یہیں سے تو ہے رنگ چمن میں نکھار. یہیں سے تو ہے شام حنا میں غزل کا اقرار، یہیں سے تو ہے آہ کا خاموشی سے گزر بسر، یہیں سے تو ہے نالہ دل فگار کو قرار، یہیں سے تو ہے زخم جگر کو دل سے ملال کہ نہ پاس ہے قریب نہیں. وہ کیسا حبیب ہے جس میں ذات بنی رقیب کہ یہ عشق نصیب ہے. یہ جان جلاتا ہے تو کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر نہ کرے یہ کیسا پیار ہے

حسین ابن علی کو سلام پیش کر رہی ہے صبا. باوضو دل کی صدا کہ ڈالی ہے حیا کی ردا. یہ باوضو دل سے نکلا ہے کہ.
نفس نفس میں ہے نورِ زہرا 
جمال یار کی لڑی نور زہرا 
فسانہ دل کہوں کیسے میں 
کہ روبرو ہے یہی نور زہرا 

حسین زندگی کی نشانی ہے 
حیات نو کی اجلی کہانی ہے 
حسین کی سرخی ہے شاہی 
شاہ کا غلام ہے ایک سپاہی 

مکتب!  دل مکتب!  حرف جامع!  لفظ شیریں!  بیان ہند!  یہ اجمیر کا پرند! رکھ دل کے پاس نذرانہ ء حجاز. مجاز؟ مجاز نہیں ہے یہ اک کھائی ہے چلی جس میں لڑائی ہے. کیوں آنکھ بھر آئی ہے؟  شہر دل سے ہو کے آئی.


ختم!  راز ختم!  اب کہ اختتام لفظ ہے!  اب کہ اختتام حرف ہے!  یہی ابتدا ہے جو منتہی ہے!  یہ ازل کا رستہ ابد کے چراغ سے ہے. یہ منزل سحر نوگاہی شمشیرحسینی سے ہے. یہ نور حسینی کمال کے خرانے لیے ہے. نورحسینی سے خلافت درجہ بہ درجہ، کمال بہ کمال،  حال بہ حال،  جلال بہ جلال،  انفعال بہ فعل چلی آرہی ہے.. حسین زندہ باد!  
.یقین کا مرگ یزیدیت! سرمدی استقلات حسینیت!  رہے قدم قدم پہ برا حال کہ شاہ اجمیر خود حسینی ہیں ...رنگ سے چلی حنا!  حنا بن صبا کے نہیں!  شن عروس کو لباس سرخ سے ملال ہجر کے دن کٹن آون!