Saturday, February 20, 2021

نغمہِ ‏جانِ ‏رحمت


نغمہِ جانِ رحمت کیا ہے ؟ عشق کے فانوس پر منقش لا الہ الا اللہ ہے ۔ عشق محوِ رقص ہے ،چکور کو چاند مل گیا ہے ، زمین اور فلک باہم پیوست ہیں ، یہ آبشارِ روشنی ۔۔۔۔۔ یہ فانوسی منقش ۔۔۔۔ کتابِ عشق کا پہلا صفحہ خالی تھا ، لالہ کی فصل نے اسے سرخ کردیا ہے ، گل اس میں رکھا رہا ، خوشبو نے قبضہ جمالیا ، یہ ملک لالہ و گل کی ہے ، یہ خوشبو عطر و عنبر کی ہے ، مشک و کستوری نے سدھ بدھ کھو دی ، بیخودی کے جام نے آنکھوں میں لالی بھر دی ہے

جاناں کے جلوے چار سو ہیں ۔۔۔اسکی خوشبو پھیلی چار سو ہے ۔۔دودِ ہستی میں نامِ الہی لکھا ہے۔۔خوشبو نے معطر لبو بام کیا ہے ۔۔طواف ذات کا پروانہ کرتا رہے۔۔وہ نشانیاں عیاں کرتا رہے۔۔۔آخرش خواہشِ دید پوری ہونے کو۔۔تڑپ کے صدقے گزارش سنی ہے

یہ کون اسکے جلوے میں محو ہیں ، اللہ اللہ کے پاتے جارے  ہیں نشان  ، وہ نور جو صبا میں ہے ، وہ نور جو جھاڑیوں میں ہے ، وہ نور جو فلک پہ ہے ، وہ نور جو چاند میں ہے ، وہ نور جوآفتاب  میں ہے ، وہ نور جو زمین میں ہے ، وہ نور جو مدینے میں ہے ، ہائے وہ کتنا حسین ہے ، ہم مرنہ جائیں ، اسکا حسن ہمیں دیوانہ کیے دے رہا ہے ، اس نے ہمیں رقص کی مسرت میں رکھا ہے ،

اسکی خوشبو میں مدہوش ہے  کوئی،  یہ اسکا نور ہے ، یہ خوشبو جو پھیل گئی ہے ، ہمیں سرور چمن میں رہنا ہے ،  ذات کو جل تھل کردیا ہے ، شاخِ نہال مسرت نے خزان رسیدہ پتوں کو زندگی بخش دی ، جنون نے زندگی نئی بخش دی ہے 

سر سے پاؤں لگے کہ خوشبو نے مجھے بھردیا ہے ، اتنی خوشبو بڑھ گئی ، زمینو فلک اس میں بس گئےہیں ، ذرہ ذرہ خوشبو میں نڈھال ہے ...

وہ خبر کہ بارش کو آسمان سے برسنا ہے ، وہ خبر کہ بلبل کے نالہِ درد کو فلک تک رسائی ہے ، وہ خبر کہ دل کر ذرے ذرے میں ہزار ہزار جلوے ہیں ، دل والے تن کی روشنی کو دیکھ پاتے ہیں ، عشق کی انتہا نہیں ہے ،عشق کی حد نہیں تو حدود کیسی ، تحیرِ عشق میں ، گلِ سرخ کی مہک میں ، صبا کے نرم میٹھے جھونکوں نے بیخودی کو ہوا دی ، چمن سرور کا جل تھل ہے ، شاخ نہال مسرت ہری ہے ، یہ کیسی بے خبری ہے

دل کی کھڑکی جب سے کھولی گئی ہے ، شہرِ دل کے درواے جانے کیوں دستک کے منتظر ، دروازے تو منتظر ہیں ، شہر چمک رہا ہے ، جاناں کے جلوؤں کو تڑپ رہا ہے،تسبیح کے دوانوں میں نورِ الہی پوشیدہ ہے ، قافلہ حجاز کی جانب ہے ، راستہ دھند سے لدا ہے ، جیسے کوئی نور کی کملی میں ہے ، یہ کیسا پیارا احساس ہے

نمودِ صبح۔۔۔ ہجر ہویدا ۔۔۔ تجلیِ طہٰ ۔۔۔ تحیر مرمٹا ۔۔۔۔ بیخودی بے انتہا ۔۔۔۔ ست رنگی بہار ۔۔۔۔ سات نور محوِ رقص۔۔۔ کہکشاں میں قدم ۔۔۔ مدثر ، مزمل کے نام چمکے ۔۔۔۔۔۔۔سبز ہالہ لپٹا ۔۔۔۔۔۔ بندچلمن میں اسکا جلوہ ۔۔۔۔۔ سرِ آئنہ کون۔۔۔پسِ آئنہ کون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے خبری کہ ہوش کہاں