Saturday, February 20, 2021

دل ‏فلک ‏پر

دل،  اک سرزمین ہے،  یہ زمین بلندی پر ہے. زمن نے گواہ بَنایا ہے اور ساتھ ہوں کہکشاؤں کے. سربسر صبا کے جھونکے لطافت ابدی کا چولا ہو جیسا. ازل کا چراغ قید ہے. یہ قدامت کا نور وہبی وسعت کے لحاط سے جامع منظر پیش کرتا ہے. کرسی حی قیوم نے قیدی کو اپنی جانب کشش کر رکھا ہے  وحدت کے سرخ رنگ نے جذب کیے ہوئے جہانوں کو چھو دیا ہے. شام و فلسطین میں راوی بہت ہیں اور جلال بھی وہیں پنہاں ہے.  دل بغداد کی زمین بنا ہے سفر حجاز میں پرواز پر مائل ہوا چاہے گا تو راقم لکھے گا کہ سفر بغداد کا یہ باب سنہرا ہے جس میں شاہ جیلان نے عمامہ باندھا ہوگا اور لفظِ حیات پکڑا تھمایا ہوگا. وہ لفظ حیات کا عقدہ کوئی جان نہیں پائے گا . بس یہ موسویت چراغ کو عیسویت کی قندیل سے روشنی نور محمدہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل رہی. وہ بابرکت مجلی زیتون کا درخت جس کے ہر پتے کا رنگ جدا ہے مگر درخت نے سب پتوں کو نمو دیے جانے کس نگر کا سفر کرادیا ہے. داستان گو نے کہا ہے کہ انمول خزینے ہوتے ہیں جہاں نورانی مصحف شاہ جیلاں اتارتے ہیں اور کہنے والے کہتے پیرا سچا بغداد ساڈا.  اودھی دستار دے رنگ وی وکھو وکھ. اوہی سچے دا سچا سچ

شاہ بغداد قطبِ اولیاء 
شاہ جیلاں امامِ زمن 
شاہ سے بنٹا نوری باڑا 
اسمِ محمد کا ہے اجالا 
ذات کے گرد نوری ہالا.
دل کہے جائے شہ والا 
دل پہ ہے مکڑی کا جالا 
کاتب نے اسے ہٹا ڈالا 
رنگ بڑا سبز سبز ہے 
سرمئی روشنی پھیلی 
 
تار عنکبوت اتار دو. وقت ہے دعا کا اور نزع کے وقت مقبول دعا حج ہے.  حج شروع.  حج ختم. حج مطاف دل میں،  حج غلاف کعبہ کے اندر،  سوچ کعبے کو طواف کر اور پیش کرے سلام


کچا دھاگہ نہیں ہے ہوتا جس پہ بسمل چلتا ہے. نیچے آگ ہوتی ہے اور تار لہو چاٹتی ہے. رنگ اڑ جاتا ہے،  ذات بکھر جاتی ہے مگر ذات بکھر جائے تو غم کیا کہ ذات کا اصلی شعور باقی ہے یہی حاصل شعور ہے مگر بات بین السطور ہے کہ عشق محجور ہے. سرزمین دل طواف میں کہ قبلہ دل پہ لکھا گیا ہے اللہ ھو یا محمد چار یار زندہ باد. سلامت پیر باشد یا حسین خلافت زندہ باد.  یہیں سے تو چل رہا ہے سرمہ ء ہستی کا وصال دل سے قرار. یہیں سے تو ہے رنگ چمن میں نکھار. یہیں سے تو ہے شام حنا میں غزل کا اقرار، یہیں سے تو ہے آہ کا خاموشی سے گزر بسر، یہیں سے تو ہے نالہ دل فگار کو قرار، یہیں سے تو ہے زخم جگر کو دل سے ملال کہ نہ پاس ہے قریب نہیں. وہ کیسا حبیب ہے جس میں ذات بنی رقیب کہ یہ عشق نصیب ہے. یہ جان جلاتا ہے تو کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر نہ کرے یہ کیسا پیار ہے

حسین ابن علی کو سلام پیش کر رہی ہے صبا. باوضو دل کی صدا کہ ڈالی ہے حیا کی ردا. یہ باوضو دل سے نکلا ہے کہ.
نفس نفس میں ہے نورِ زہرا 
جمال یار کی لڑی نور زہرا 
فسانہ دل کہوں کیسے میں 
کہ روبرو ہے یہی نور زہرا 

حسین زندگی کی نشانی ہے 
حیات نو کی اجلی کہانی ہے 
حسین کی سرخی ہے شاہی 
شاہ کا غلام ہے ایک سپاہی 

مکتب!  دل مکتب!  حرف جامع!  لفظ شیریں!  بیان ہند!  یہ اجمیر کا پرند! رکھ دل کے پاس نذرانہ ء حجاز. مجاز؟ مجاز نہیں ہے یہ اک کھائی ہے چلی جس میں لڑائی ہے. کیوں آنکھ بھر آئی ہے؟  شہر دل سے ہو کے آئی.


ختم!  راز ختم!  اب کہ اختتام لفظ ہے!  اب کہ اختتام حرف ہے!  یہی ابتدا ہے جو منتہی ہے!  یہ ازل کا رستہ ابد کے چراغ سے ہے. یہ منزل سحر نوگاہی شمشیرحسینی سے ہے. یہ نور حسینی کمال کے خرانے لیے ہے. نورحسینی سے خلافت درجہ بہ درجہ، کمال بہ کمال،  حال بہ حال،  جلال بہ جلال،  انفعال بہ فعل چلی آرہی ہے.. حسین زندہ باد!  
.یقین کا مرگ یزیدیت! سرمدی استقلات حسینیت!  رہے قدم قدم پہ برا حال کہ شاہ اجمیر خود حسینی ہیں ...رنگ سے چلی حنا!  حنا بن صبا کے نہیں!  شن عروس کو لباس سرخ سے ملال ہجر کے دن کٹن آون!