یہ تلاش کا سفر ہے جو دل کے صحرا اور جنگلوں میں ہوتا ہے. اعجازِ سفر ہے کہ سیدی مولا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات کی روشنی ہو. اس ذات کی روشنی مولائے علی سے ملتی ہے ..یہ اصحاب جو روشنی دیتے ہیں. یہ جو نسبتیں دیتے ہیں. جب آپ کے دل میں شیرِ خدا کی ہیبت پیدا ہو تو سمجھنا ہے کہ روشنی ہے کہ اس میں اپنا کمال نہیں ہے
دل تصدیق کی سند دیتا ہے کہ حرفِ متاع دل ہیں اور دل دل سے جڑا ہے. یہ تو آبرو کی بات ہے کہ سفر میں زادہراہ مل جائے. یہ نصیب کی بات ہے یہ کمال کے فیصلے ہیں. یہ شرف کی بات ہے.قلم کی عنایت ان کی جانب سے ہوتی ہے ورنہ قرطاس خالی، بنجر زمین کیا آبیاری سے شجر دے
یہ پیغام سے بھرپور قلم دل کی لوح پہ رقم شدہ ہے. یہی کتاب الہی ہے. اپنے دل کی کتاب کو جناب سرور کائنات عالی مقام مصطفی کے دل کی کتاب(قران پاک) سے ملا کے ان کے اعمال کو اپنے اعمال سے ملانا ہے. یہ محبت بھی زہے نصیب ہے یہ اعجاز سفر ہے جس کے راوی بیشمار ہیں. یہ پیغامات بس پہنچتے رہتے ہیں. یہ سرر کا شعبہ نہیں. یہ تو ابتلائے دل ہے، یہ مبتلائے غم کی.داستان.ہے
طبیب نے کام دیا ہے اور طبیب کے کام پے جان قربان کہ مرض کا علاج طبیب کرتا ہے. مریض کو شفایابی چاہیے.اب جانب جنگل سمت تھی .....جنگل کے رستے خواب مل گیا. خواب سے پوچھا، ملاقات کب ہوگی ..خواب نے کہا جب نظام سرکار نے دعا دینی ہے
دل ایسے موم ہوا کہ پگھلنے لگا ...جو سیسہ تھا وہ موم ہو... جھکائی زمین، جو زمین پے نیاز میں، تو محفل مولائے حیدرم سے مالک کون و مکان، واصف دو جہاں سے، امیر خیر الانام سے ہوئی .
سیدی مولا کی.شان میں مدح خوانی کی سعادت پائی ہے ...
اشک بامنزل.رسائ پائی ہے ..سیدی مولا... یا مصطفی، عربی.ڈھولا....یا مصطفی، کمال.مرشد، کمال نبوت ،کمال.بندگی یا مصطفی ،سید البشر کا.شیریں لقب ،حیات و ممات کا.سبق
کیا لمحات ہیں یہ عجب ، ملتا اسے جو کرتا ادب ،ادب سے روشنی پائی ..،روشنی نے زندگی دے ،زندگی نے درد کا رشتہ،شکستگی سے خوشی،.............جمال نبی کی نظر سے بدلی ہوئی، برسات میں نور برستا دیکھا یے ،محمد محمد کا نوری کلمہ.دیکھا ،دل ملا، دل جلتا ہوا .تب دیکھا ،شاہ ولا سے ملا سخاوت کا تحفہ، شاہ ولا نے زمین پہ نام محمد لکھا ،شاہ ولا کا بارِ علم سماوی نور ہے ،شاہ ولا کا شعار یقین رہبری کا سرور ہے ،شاہ ولا نے حسن کی چادر اوڑھے ہوئے ،دل صدقے دل پہ ہزار جان نچھاور
من کی بتیاں نچھاور، مرے یاور ،کمال کی یہ اگر بتیاں، مرے یاور ،مل رہے ہیں نوری ہالے، جل رہے ہیں سارے ،سرر نے عجب حال کر رکھا ہے شاہا نے سایہ ڈال یوں رکھا ہے ،
شاہا کی نظر سے مست و مجذوب ،شاہا کے الطاف کی حد نہیں ہے ،ان کے قد کی. کوئ حد نہیں.ہے ،شام حنا نے رنگ سے اجالا کردیا ،آقا کے نور نے یوں بول.بولا کردیا ،کعبے نے شوق حضور میں کہا ہے ،نور کے دل میں مرا حبیب رہا.ہے
سماوات پہ میم کی عجب ہے مثال
سنگیوں پہ روشنی سے عجب حال
آپ کی نعمت سے دل پر ہے نوری ہالہ
دل کہے جائے ہے شاہ والا.شاہ والا ...
مرقد پر روشنی، روشنی ہادی ہے
یہ قبر نہیں، غار حرا کی وادی ہے
محفل پہ ادب یوں ہے طاری ،خاموشی کا یوں ہے سرر طاری
آمنہ کا لعل، عبد اللہ کا.چاند ،اللہ کی کمال تصویر ہیں.شاہا
میرے دل میں رہتے مرے بابا ،سرکار کی آمد مرحبا ،دلدار کی آمد مرحبا ،فقیر ہوں، فقیر پہ اہل کرم کا کرم ،خالی جھولی کا رکھا ہے یونہی.بھرم ،جھکا رہا سر مرا کہ عاری ہے شرم ،مرے سر پہ شاہا کا ہاتھ، ان کا ہے کرم ،نوازئیے نور ابدی کے کامل آئنے ،مطلق حقیقت کے سب کامل.آئنے ،درود سے چلتا ہے نظام مصطفوی ،مصطفوی نور میں.چمکے حجابات ،مصطفوی نور سے ہوتی رہی ہے بات ،آج تو پانی.ہو رہے سماوات،چہرہ محبوب دیکھنا ہے؟ دیکھنا حق ہے ،چہرہ محبوب دیکھنا عبادت، حق ہے ،چہرہ نور سے بقعہ نور ولا میں روشن ،جانب.طور سلسلہ.ء جبل کمال روشن
ملائک سے "سماوات " مخاطب
مولائے کائنات سے "آپ " مخاطب
یوں سلسلہ ہائے نور در نو.چلا
عرش سے نور فرش تلک چلا
زیست کے سفر میں کفر اضافی
اللہ والے پہ رہتا الوالی کا سایہ
جو ملے سایہ تو بدلتیہے کایہ
نام محمد تو جہاں پہ چھایا ہے
کلمہ حق کی استمراری زبان ہے
نام محمد تو اللہ کی گردان ہے
حق نے سج دھج کی میم مثال لیے.
مثل کائنات سے ہوئے خیال زیر بار
یہ وار، محبت کے تلوار سے کاری ہیں
نعت لکھنے کو کیفیت سی طاری ہے
کیا ملا؟ کیا نہ ملا؟ کانچ کے دھاگے سے لکھا میں نے یہی بار بار، عشق خالص کہاں ملےبار.بار ... اٹھاتا ہے جو بار اس کا، وہ ہوتا ساحل پار ...
خوشبوئے زلف محمد سے نکلی عنبر کی مہک ،خوشبوئے لالہ، موتیا اس پہ نثار ،آپ کے دلاور لہجے میں چھپا جلال
شاہ ولا نے آپ.سے لیا جلال با.جمال.،شاہا نے سرخ کملی اوڑھ رکھی ہے ،کالی زلف والی محمد کی.صورت ابھرتی یے
،تاجور نے تاجوری کا تحفہ دیا،،،،،،، سج گئیں راہیں اور رفعت ملی اور رفعتوں پہ.مکانت، سیادت سے ملی اجابت،
.
ہار میں غنیم کا بار کیسا.ہے
ستم میں معین کا کار کیسا ہے
کچل دے، نفس وہ وار کیسا ہے
جسم مقید روح افلاک پر ہے
مری زندگی کسی شاخ پر ہے
حجاب سے ازل کے رشتے بڑے
شاید ترے دل میں بات اترے
صلی علی کی صدا پڑھتے.ہیں
آپ کی محفل جو بیٹھتے ہیں
سجا کے سج سج کے آشنا ہوئے
نور حزین پاک زمین کی نشانی
یہ عشق فقط اس کی کہانی
کچک کچک، کچ کچ نکلا دھاگہ
خاک پڑی رہی، خیال بنا.ارادہ
حجاب سے ازل کے رشتے بڑے
شاید ترے دل میں بات اترے
صلی علی کی صدا پڑھتے.ہیں
آپ کی محفل جو بیٹھتے ہیں
نورِ حزین سے وہ آشنا ہوئے
بلالیجیے شاہا بس اپنے در پر
آؤں ارض مقدس سر کے بل پر
عشق سپر، تیغ نیام میں ہے
مخلوق کے ذمہ بھاری کام ہے
چشم دل سے من شاد ہوا ہتے
اسی سے میخانہ آباد ہوا ہے.
یہ زمین علی کی ولا میں ہے
دل وادی ء شاہ بطحا میں ہے
چاک جگر، حسرت کا دھواں
ملن کو تڑپتا مرا لمحہ لمحہ
مجھ کو اپنی ولا میں گما
مرے دل میں سما کے نہ جا
شاہا، شام غریباں کیا ہے؟
شاہا آپ کا جانا، غربت ہے
شاہا، شام حنا کیا ہے.
شاہا آپ کا آنا امداد ہے