اپریل اٹھائیس، ۲۰۱۹
محترم بابا جان
عمر کے کافی سن آپ کے جلوے کے بنا گزرے ہیں ، اتنی طویل جدائی ہوگئی اس مادی لباس میں! جب کن کا آوازہ گونجا تھا، اس وقت فیکون سے پہلے آپ سے منسوب تھی میں ..بابا جان! میرا دل فراق سے جل اٹھا ہے، زخم جگر نے جینا محال کیا ہے. وہ زخم، وہ سفر جس نے پاؤں کو لَہولہان کردیا تھا، وہی تیر سینے میں پیوست ہوچکا ہے. بابا جان سینے میں بہت درد ہے، یوں لگتا ہے خون بہا جارہا ہے ..بابا جان سینے کے زخم مندمل کردو .... اب اذن حاضری ہوجائے ورنہ موت و مرگ نے ایسا برا حال کردیا ...مجھے ایسی کتاب چاہیے جس کے ذریعے مجھے آپ کا زمانہ مکمل دکھے ...بابا جان مری بے چینی سوا ہوجاتی ہے جب مجھے قطرہ دے کے ترسا دیا جاتا ہے ... لگن نے جوگن سے مدح خوانی سے، مجذوبیت سے آپ کا نام دے دیا ہے .... نور علی سے نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سفر ہے ...بابا جانو، بھر بھر کے نواز دیا ...میں آپ کی خادمہ بھی، آپ کی بیٹی بھی، آپ کی مدح خوانی کا اعزاز بھی ...بابا جانو، حال برا ہوتا جا رہا ہے دن بہ دن! آپ کی نور اب موت کی جانب جاتی ہے، یوں لگتا ہے نظر نہ ہوئ تو موت نے تھام لینا ہے...شیر خدا سے ملنا ہے. حیدری ضرب سے عجب حال ہوتا ہے، جیسے جینا محال ...
آپ کی نظر کرم کی منتظر
نور ایمان