Wednesday, February 24, 2021

لکھنا ‏موت ‏ہوا ***

محب کے لیے موت سے گزر کے لکھنا،  اصل لکھنا ہے وگرنہ سب بیکار لکھنا ہے ... جب محب کھتا ہے تو وہ محبوب کے روبرو ہوتا ہے 

 اُس نے کہا کہ کدھر سے آئی؟
جہاں پہ گُلاب ہے، وہیں سے ،  وہیں جانا ہے ... 
اس نے کہا کہ بیٹھ جا ابھی انتظار باقی ہے ..
کہا کہ دم نکلتا ہے
 اُس نے کہا کہ سبھی عاشق ایسے کہتے ہیں ..
 کہا کہ یہ معاملہ الگ ہے کہ کہاں عشق کا دعوی اور میں کہاں ..

اس نے کہا کہ ترا معاملہ مجھ سے الگ کہاں؟ 
 کہا کہ حقیقت کب بتائی تھی ..
اس نے کہا حقیقت کی تاب کس کو ہے؟ 
کہا جس کو.عشق کا بوٹا دیا، جن کو خوشبو دی ...ذکر علی کیا کرو ..

کہا کہ نام علی سے روشنی ہے .. رضی تعالی عنہ 
اس نے کہا کہ اس ذکر کو باعمل کرو 
 کہا  کہ ذکر کے سوا کیا رہا باقی ...
اس نے کہا کہ مرے محبوب کا نام ...صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

 کہا کہ محبوب کا جلوہ نہیں ہوتا ...
اس نے کہا گلی گلی ہیں محبوب کا نام لینے والے ..جا ان سے مل ...
 کہا ہجرت نے ہوش گم کردئیے ...
اس نے کہا مرا درد دیکھ پھر،  ....
میں نے کہا تو تو خالق ہے ...
اس نے کہا کہ خالق کے بندے پکڑ، جن کو قلم دیا.گیا ...
 کہا قلم تو تری روح ہے......
اس نے کہا نظام مصطفی صلی اللہ.علیہ والہ.وسلم کا کاروبار ایسا ہے ...
 کہا  کہ پرواز کب ملے گی ..؟
اس نے کہا جب رہائی ملے گی ..
 کہا  کہ قفس کی تیلیاں سرخ ہیں ..
اس نے کہا بسمل کا.حال پسند آیا ...
 کہا کہ نعت کا سلیقہ نہیں ..
اس نے کہا کہ سلیقہ، لکھنے سے نہیں دل سے آتا ..مقام ادب مقام، جلوہ، مقام حضور ...کیوں ہے تو  مہجور ...شراب طور سے پی،  پلا ..

پت، اپنی پت  کیسے کہوں؟  پتا پتا ہلتا ہے،  سورج ابھرتا ہے،  چاند مسکرائے،  سرخی سے گھبرائے تو خیال جاناں مدہوش کیے دے ..کدھر ہے مرا خیال؟ میں ہی خیال ہوئی ..اے نیستی، اے ہستی!  جام جم کدھر ہے؟

موج سکوت نے لہر سے پوچھا، سمندر کدھر؟  ساحل ہنس پڑا اور اشارہ کیا کہ وہ مرکز جس پہ آیت الہی چمک رہی تھی. .. 

پوچھا کہ کہاں ہے رنگ، پرنور پیراہن؟

کہا کہ انجیل تمنا میں، حریم ناز کے حرم، مکین دل کے مکان کونین میں، سکون دل سے جاری دعا میں، شام حنا کی سرخی میں، رات کی رانی کی مہک میں .......

پوچھا تحفہ ء وصال کیا ہے 

کہا دل حزین کے لیے آنسو، رگ جان سے کھینچے جانے والے درد سے اینٹھتی ہڈیوں کے لیے وظیفہ ء محبت،  درود کی شکل،  صورت میں   اور والتین کی کہانی میں...

پوچھا التین کیا ہے ؟

کہا کہ قسم خدا کی، محبت پہ اور حد پر ..حد کہ حد نہ ہوئی، محبت یہ کہ محبت نہ ہوئی 

پوچھا کس سرزمین سے ہوں میں؟ 
کہا جس سرزمین سے سوال اٹھا 
پوچھا دیدار کے جواب میں کیا واجب؟ 
کہا شکر کا کلمہ،  درود کی ہانڈی، تسلیم کا گھڑا،  صبر کا پانی 

پوچھا کہ حقیقت کہاں سے ملے گی؟ 
کہا عشق میں چھپے زہر سے پردہ اٹھنے دے 
کہا کہ پردہ کیسے اٹھے؟
کہا پردہ، پردہ نشینوں کی مرضی ہے ...ان کی نیاز میں جا ... 
پوچھا  نیاز کیسے ملتی ہے؟
کہا نیاز جھکنے سے ملتی ہے ..جھک جا 
کہا کہ دل کی نیاز کیا؟
کہا شوق حضور ...یقین کا قرار 
کہا کہ شوق کامل کیسے ہو؟  
کہا کہ تڑپ کب قرار پائے ..ازل کا نوحہ اب تک چلتا ہے؟
کہا تمثیل تڑپ؟  
کہا کہ مقام حسینیت جان لے ..حسینی ہو جا ..جان جائے گی 
کہا حسینیت کیسے پائی جائے؟  
کہا حسینیت یقین کے پانی سے، روح کے سوتے کھلنے سے ...
کہا درد بہت  ہے..
کہا کہ درد سے مفر کس کو ...
.
کہا کہ درد کی انتہا کیا ہے؟  
کہا کہ جلوہ ... جب منتہی ہو تو دیدار لازم 

کہا کہ کچھ نہیں آتا ...کچھ نہیں ہوتا ..کچھ اپنا نہیں ہے ...

کچھ نہیں تو تمنائے حرف کو کیا کہیں ......؟؟؟ تمنائے انجیل و حرف لوح و قلم کے رشتے سے جڑے ہیں. ارض مقدس کے شجر میں پلتے ہیں روح کے اسرار ہیں ...شاہ کے غمخوار ہیں ..رہتے ہیں میخوار، چلتے پھرتے اسرار ہیں وحشت کے مارے اٹھتے جنازے ہیں ..مجلس ماتم میں کیا پڑا ہے.  ؟  ماتم شاہد و شہید کیا؟ ہائے یہ کیسا نوحہ ہے جدائی کا جو جدائی سے نکلا ہے ..

یہ نوحہ، ملال  ساز میں بج رہا ہے ...
 دوا ہو جائے...یہ دل کٹ رہا ہے ...
روح ہجر کے اندھیرے میں موت کے قریب، جاں بلب .....روشنی چاہیے......!  

غار حرا کی زمین سے اس زمین تلک فاصلے ...حائل سماوات حامل الہیات ..کامل ذات سے رشتہ پیوست ...کامل ذات محمد و احمد  صلی اللہ علیہ والہ وسلم ... انجیل تمنا،  حدیث داستان،  کلیم طور پہ موسی علیہ والہ وسلم  کی کہانی، ادریس علیہ سلام کی پرواز بھی،  یوسف علیہ سلام کی  کی گواہی بھی،  ایوب  علیہ السلام کا صبر بھی، گریہ یعقوب علیہ سلام کا ....

یہ نشان ہیں آیات ہیں کمال ہیں جو نکل رہے ہیں نوری دھاگے ...محبت کے وظائف بہت بھاری ..
او ویکھو روح سولی اتے .. جان دے نیل ... کیہڑے غم دا بالن اے،گھل گھل جاندی اے

آشنائی

تعلق میں آشنائی ہے،  آشنا تجھ میں ہے اس لیے تعلق خود سے بَنانا ہے. سچا مرشد سچل سائیں ہے.  شاہ کے لیے تحفہ درود ہے. اسم محمد خود اک قطب ہے جس میں کشش ساتھ ہے. کشش کے کناروں پے آجاؤ، کنارے لگ جاؤ گے،  قوت ہے اس میں ہے جس قوت سے ہمارے دلوں کو توحید سے پاک کیا ہے وہ مثال سے پاک ہے مگر اپنی مثال خود قران میں دی ہے. اک طرف کہا لیس کمثلہ شئی تو دوسری طرف کہا کہ مثال بمانند طاق جس میں ستارہ اور ستارے میں نور اور جو نور علی النور ہو جائے اسکی کیا بات ہے؟

اللہ فرماتا ہے فلاں چیز میرا نشان ہے اور یہ میرا نشان ہے تو ظاہر کہ وہ کبھی ظاہر ہوا ہوتا ہے وہاں جیسا کوہ طور کی مثال آسانی سے سمجھائی جاسکتی ہے انسان کا دل کا قالب ایسا ہے وہ شہید ہے ہم مگر شاہد بنتے نہیں. سورہ حشر میں اللہ پاک اپنے لیے ھو الشہید کا لفظ فرماتا ہے میں نے یہ لفظ خود سے نہیں سوچا بلکہ غور نے اس درجہ کو فکر دی کہ وہ آپ میں شہید ہے مگر انسان کو وقعت اتنی بڑی دے دی اور انسان نے شہادت نہ دی. امام حسین نے شہادت دی تو کیسے مکمل نفی ہوگئی اور کہہ دیا یا اللہ میں شہید تو شاہد ...بس یہ ھو الشہید سے ھو الشاہد کا سفر ہے جسکو  ہم کلمہ کہتے ہیں لا الہ الا اللہ 
باطن میں نور ہے اس نور کی مثال سمجھیں شجر کی سی ہے قران پاک میں شجر زیتون کا ذکر ہے اور یہ زیتون کا درخت ملحم شدہ شاخوں سے منسلک ہے یہ الہام کی رم جھم ان شاخوں سے بمانند شبنم نمودار ہوتی ہے یہی عرش کا پانی ہے اس سے شجر کا وضو ہوتا ہے مگر اسکے لیے پاکی لازم یے نیت کی پاکی نیت بھی انسان کی خود کیساتھ ہے غرض انسان کی اپنے ساتھ ہے انسان کو خود کیساتھ خالص ہونا ہے خود اچھی سوچ کا عامل ہونا یہ زبان کے رٹے دل کی صفائی نہیں بلکہ عمل کا وظیفہ اصل طریقہ ہے جس سے سارے حجابات ہٹ جاتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے کہ منصور کہہ دیتے ہیں انالحق. وہ مجذوب تھے اس لیے جذب ہوگئے اس مقام میں. اب وہ کہتے رہے لوگ پتھر ماریں یا پھانسی دیں فرق کیا پڑتا سرمد کاشانی نے لا الہ کا ورد کیا الا اللہ ہو نہ سکا کہ اپنی نفی کے مقام کے مجذوب تھے مگر جب مرے تو شان خدا دیکھیے اثبات ہوگیا سر کٹا کے کلمہ پڑھنے والے سرمد کاشانی کیساتھ اللہ ہوا. اللہ نے ہمیں شعور دیا ہے خواہشات دیں اور ساتھ اپنا آپ دیا. تقدیر کے پہیے چلتے ہیں اور وہ ہمیں ارادہ ء کن سے نوازتا جاتا ہے ہم کہتے ہیں گھر بنالیا کیونکہ ارادہ تھا اور جادہ اس نے نہیِ ہم نے ارادہ سے بنایا اور یہ ارادہ یہ نیت یہ طاقت کہاں سے استعمال ہوئ باطن سے. باطن کی قوت سے خارج کے کام ہو جاتے مگر باطن کی قوت سے باطن کے کام مشکل لگتے ہیں دعا ہے کہ اللہ ہم.سب کو جذب حق عطا کرے وہی ہے جو نواز دے گدھے کو تو اسکی شان وہی جو شاہ کو گدھا کردے وہ یے جو چوڑے کو اختیار دے وہ ہی جو سالار کو بھکاری کردے ہم بس یہ کہتے رہیں نمی دانم نمی دانم نمی دانم حق گویم حق گویم حق گویم

عرش ‏کا ‏رازدان

خُدا مجھ سے مرے لیے ہم کلام ہے،  تم نے سمجھا کہ یہ تمھارا کلام ہے! ہاں یہ گفتگو کچھ عام ہے،  ہم میں دھڑکتا ہے مگر عام نَہیں. تم اسکا استعارہ تو ہو مگر تم خدا نَہیں ہو. میں گنہ گار ہوں مگر قرین ذات ہوں. یہ الوہی کیفیت ہے نا اس میں سچ حقیقت بن کے سامنا آجاتا ہے. تم دیکھو اس نے کتنے اداکار بنائے مگر صنعت اک سچ کو ہے وہ خدا ہے. خدا دل میں اتر آئے سچی گواہی بن کر تو اے مرے دل مت جھٹلانا. وہیں بمانند سنگ سجدہ ریز ہوجانا


خسرو  پیا لامکاں میں نشان ہے، صابر پیا  خدا کا وجدان ہے، من آشکارکر، رگِ نہا میں بستے کردار ہیں یہ ... خزانہ ہے!  یہ بَہانہ ہے! یہ یارانہ ہے!  یہ نذرانہ ہے!  یہ ہستیوں کا کیف ہے!  یہ نشاط ہست کے سائے!  وہ دور سے بلائے! کون؟  وہی جو پاس ہے! کتنا پاس؟  اتنا کہ بس سانس کا ردھم آری چلاتا ہے. تو روک دو سانس!  لاشریک لہ

کبھی لا الہ الا اللہ کہا؟
کَہو 
نہیں کہہ سکتی 
کیوں 
جذب نفی نہیں الا اللہ کا اثبات کیسے ہو 
رگِ باطل کاٹ ڈالو 
فنا کتنا دشوار ہے گویا اشکوں کا ہار ہے، یہ گیت سنگھار ہے، یہ ذات سے پیار ہے 

تو نہ کر ذات کی پریتم، تو ہو جا اس ذات کی، کر نفی ہو اثبات کی ..چل درودں کی دستار پرو، چل اشکوں سے ردھم لا،  چل لامکانی چل ..حق لامکانی ھو ...
حق ترا وجدان جو ترا مہمان ، میری رگ رگ میں نسیان 
تو عرق نیساں کا شفاف موتی، تری ذات میں مدوجزر کا استعارا ہے ڈوبتا کنارا گویا چاند ستارا 
افلاک کی گردش تھم گئی ...تھم گئی ..رک گئے ماہ سال ...رک گئے طوفان ....


گرج رہے تھے بادل،  اتر رہی تھی کرسی، بکھر رہے تھے بادل، کڑک رہی تھی بجلی اور پگھل رہے تھے پہاڑ ..حشر ..وضو ..حشر ..وضو ..حشر ..وضو ..یہ کیا ہوا؟ چاند ہے رات ہے!  بڑی سوغات ہے. اسکی کیا بات ہے جس میں جذبات ہے. اللہ کا نعرہ الا اللہ کی تار میں ..حق سبحانی ھو ..حق کی زبان ہے یہ حق کی ترجمان ہے یہ آیت کاشان ہے دل میں مہمان ہے بندے بڑے انجان ہیں.شاید کوئی قربان ہے مگر رہتا انجان ہے ..کون مہربان ہے 
وہ کبریاء جاناں 
وہ شیریں شہد 
وہ میٹھا میوہ 
وہ گفتار حیرت 
وہ روشنی ہے 
ہاں روشنی ہے

پتوں سے پوچھو 
اشجار سے پوچھو 
انوار سے پوچھو 
کیا کیا پوچھو گے؟

کرسی ... لا الہ الا اللہ ھو الحیی القیوم 
یہ جلالِ وحدت ہے، یہی جمالِ شیریں ہے، یہ رسم سخاوت ہے، یہ دل کی عداوت ہے. یہ معاملے ہیں جب کہا گیا 
امروز میں کیا ہے 
کہا ترا جلوہ ہوگا 
فردا سے کیا لو گے 
کہا تو.ہی تو ہے 
من کنت ربی 
ہاں ہاں تو.ہی مرا سائیاں،  دل دیتا ہے دہائیاں 
صورت دیکھی مری؟
من آیتِ وجہ اللہ 
من رویت وجہ اللہ 
ھو رویتی؟  
حق اللہ 
اللہ واحد ہے!  اللہ عالی ہے اللہ عارفوں کی زمین کا آسمان ہے اور ہر عارف کی زمین کے آسمان عارف ہی ہیں. یہ ساری کہانی ہے ...لن ترانی سے من رانی کا.سفر ہے ..جسے دیکھا اسے دیکھا کہ مازاغ چشم سرمگیں محبوب کبریاء صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم کی ہے حق سے پایا وہ نشان ہے جس کے نشان ہیں ارض و سماں.


رازدان ہے وہ ... عرش کا رازدان ہے کہانی کا عنوان ہے، کہانی میں الہام ہے. طائر کو بوقت پرواز کہا گیا تھا کہ ید بیضا تھام لے. اس نے راستے طے کیے وہ جہاں جلوہ فرما تھا. وہ جگہ پانی میں تھی. پانی سے وضو کا طریقہ پوچھا تو جگہ نے کَہا،  راز ہے!  راز ہے!  راز ہے!  بات بات میں راز ہے اور راز میں بات پتے کی ہے، پتا بھی ہلتا ہے گواہی ہے اعمال کی اور شجر نیتوں کے وضو سے پروان چڑھا ہے. اندر بڑا پانی ہے،  یہ خیال میں اک سچ ہے اور سچ حق ہے اور حق رب ہے. رب ہم سب میں ہے مگر ہم سب رب میں نہیں ہاں اس سے ہیں. ہمارا ڈھانچہ خاکی،  ہماری روح نوری، ہماری فکر وجدانی،  کرو ذکر قرانی،  واقعہ ہے ہر اک سبحانی،  جذب آیت آیت ہے اور یہی روایت ہے. جذب اور جاذب بن،  جذب ہو پھر جاذب بن،  جذب ہو پھر جاذب بن 
یہ پتوں اشجار کی بولی ہے 
یہ چلمن سے اسرار کی بات 
یہ واللہ ہے اعتبار کی بات 

ترجمہ تفسیر قران اک ذات ہے،  ذات نقطہ ہے، نقطہ بحر ہے اور بحر سبحانی ہے،  سبحان کی نشانیاں ہیں رحمان کی وساطت جیسی کوئی مل جائے ریاست،  جب آنکھ چلی جائے تو منانا کیسا؟ جب ذکر پھیل جائے تو مرنا کیسا؟  جب جاودانی کا سفر ہو تو رکنا کیسا؟  جب انجیل تمنا پریشان کرے تو مایوس ہونا کیسا 

التباس میں حقیقت ہے اور طریق رہ حق التباس ہے جیسے جیسے ہم.شعور کی گہرائ میں اترتے ہیں ہم جان لیتے ہیں اس کی مملکت میں انسان کا ذکر نہ تھا اب ذکر ہے. انسان آپے آپ اپنا ذکر کر ریا او رب نے ذکر کرن نہ دیوے. کج تے کریا جانا چاہی دا

حمد

خوب اللہ کا  مجھ پہ یہ احسان ہے
شعر کہنے کو جو  پایا وجدان ہے

چوم  کے دل سے یہ نامِ ذیشان لوں 
جاں محمد پہ میری تو قربان ہے

بارگاہِ محمد میں ہے سر جھکا 
یہ ادب جو نبوت کا فیضان ہے

خادمِ پنجتن مثلِ ریحان ہوں 
واہ!  میری بھی کیا خوب پہچان ہے

مصرعے  نعت کے یوں اُترتے رہے 
یُوں لَگا دل  مرا شہ  کا مہمان ہے

 میرا نامہ بَنی خامہ فرسائی  ہے 
ذات کا نعت  گوئی وہ عرفان ہے

اسکی رحمت نے دامن نہ چھوڑا ہے
میں تو غافل مگر وہ تو رحمان ہے

منقبت

اللھم صلے علی محـــمـــــد وعــــلی آلہ واصحـــــابــــہ وســـــلم 

ہم کیا لکھیں سیاہی ہے درکار فاطمہ   رض 
سائے میں آپ کے ہو یہ اظہار فاطمہ رض 

تڑپائے یاد ان کی، کسی پل نہ چین ہے 
درکار بس مجھے تو ہے دیدارِ فاطمہ  رض 

پردے تمام ہٹنے لگے، خامہ چل پَڑا
بیٹھے ادب سے ہیں کہ ہے دربارِ فاطمہ

 اٹھتی نَہیں نگاہ اٹھاؤں بھی میں اگر 
میں ہوں زمین، مطلعِ انوار فاطمہ   رض 

انکی نگاہ میں جو بھی کوئی رہا کبھی 
دم دم نے تب صدا دی، ہیں سردار فاطمہ  رض 

عفّت رسول کی ہیں، علی کی وہ زوجہ ہیں 
حسنین نے بھی پایا ہے کردارِ فاطمہ   رض

قربان کربَلا میں ہوئی  آلِ فاطمہ
دیکھا زمانے نے یہ ہے کردارِ فاطمہ   رض

منقبت

الھم صلی علی محمد ---- 

کیا کہے نور، کیا ہےشان زھرا ؟ رض
جو زمان و مکاں کی آن زھرا   رض

دخترِ   مصطفی ، شہید ِ زمن   
جملہ کلمات کی ہیں شان زھرا  رض 

ناز قسمت کو ، نوکری یہ ملی 
میں کَہاں اور  کہاں بیان زھرا   رض 

بخت خفتہ بھی جاگے، تن من جب
 میں کَروں کربلا میں دان زھرا     رض 

نسبتِ فاطمہ مکمل  ہو 
دم دما دم میں ہو گمانِ زھرا  رض 

 میں صبا بن کے چوم لوں مرقد 
مجھ کو مل جائے گا نشانِ زھرا   رض 

آئنہ کائنات ان کا ہے 
جا بَجا نقش ہےنشانِ زھرا    رض 

 کاخ و کو میں مہک بَسی رہتی 
میرا دل ہے بَنا مکانِ زھرا     رض 

اب کوئی  بھی نگاہ میں ہے نَہیں 
رہتا ہر پل مرا دھیان زھرا      رض

دو ‏آنکھیں ‏

دو آنکھیں ---- وہ سرمئی مائل پرکشش آنکھیں،  جب بھی کوئی کام کرتا وہ آنکھیں اسکا تعاقب کرتیں. بچپن سے لے کے جوانی تک وہ ہرکام انہی آنکھوں کے اشارے سے کرتا آیا  .... کبھی کبھی اسکا دل چاہتا ان آنکھوں کو اپنی مرضی کے رنگ دے اور کینوس پے اتار دے یہ سب .... ایسا کرنے کو سوچتا مگر کاموں کے چکر میں بھول جاتا 

اک دن برش اُٹھایا اور بناتا چلا گیا ہر نقش و اشارہ، یہ استعارات جن کی وجہ سے وہ رستہ بھٹک نہیں پاتا تھا. وہ چاہتا تھا درون سے خارج میں اس سب کو نقش کرلے .....درون سے نکلنا آسان نہ تھا مگر دلجمعی سے یہ کام کرتا گیا .... 

جب اس نے آنکھیں کینوس پے منتقل کیں ..وہ کینوس پے دھڑک رہی تھیں مگر وہ آنکھیں دکھنا بند ہوگئیں ... دنیا اندھیر ہوگئی اسکی ... وہ پریشان رہنے لگا اور پھر ان آنکھوں سے جس دلجمعی سے بنایا تھا، اسی شدت سے  کینوس سے اکھاڑ پھینکا 

خدا پتا دے گا، پتا ہے جس کا لا پتا 
فنا سے قبل، فنا کا کہنا جرم ہے کڑا 

اندھا ہوگیا وہ ---- اسکی آنکھیں چھن گئیں، مثلِ یعقوب وہ اپنے یوسف کو رویا بُہت .... سجدے ٹکر بنتے گئے، رکوع میں نیاز مندی مگر رہی .. ---- تہجد کو اٹھنے لگا،  گڑگڑانے لگا،  مگر اشک تو جیسے بہنے کا صلہ نہ دیں اور آنکھیں بھی اندھی نہ ہوں 

نہ وہ دکھے، جو دکھتا پہلے چار سو تھا 
وہ رنگ و بو کا نظارا پہلے کو بہ کو تھا 
نگر نگر بکھر گئے یہ خاک دل کا ذرہ ذرہ 
خودی کے جام پی کے نظارہ طور ہوا تھا 

دعا سے سراپا دعا بن گیا، التجا والا دل مجسم تھا، اسکا وجود اشک ریز ..توانائی جاتی رہی جیسی رمق زندگی کا نہ رہے مگر کام عشق کار مستقل ہے ....! وہ سجدے والا سر،  بسجدہ رہنے لگا ... میکدہ مگر خالی ... اک دن روشنی ہوئی مگر عجب طرز لیے،  عجب بو لیے. دیواریں شفاف ہوگئیں راستے سمٹ گئے ..دیوار کے پار آنکھ والا دکھنے لگ گیا ... وہ وہیں پے مرگیا ---- مرنے سے پہلے مرگیا تھا وہ

نوری ‏محفل ‏سجی ‏ہے ‏غار ‏حرا ‏میں "***

نوری محفل سجی ہے غارِ حرا میں 
مۓ شہادت  جو پی ہے غارِ حرا میں
جلوہ  تیرا  دکھے  ہر سو   کہ سعادت
دید کی ضو پائی تھی غارِ حرا میں 
کوچہ کوچہ یہ صدا  دے  یا  "محمد "
ہر طلب  مٹ چکی ہے غارِ حرا میں

مٹ گئی تیرگی ، سرمایہِ زیست بس یہی ہے دیوانگی کو پی لیجیے ! زندگی کو جینے کا ڈھنگ سیکھ لیجیے ! ڈھنگ ہے کہ رنگ ہے ، رنگ ہے کہ  سنگ ہے ، سنگ ہے تو درِ جاناں کا ، خاک بن کے اڑوں جاناں کے قدموں سے ، نازاں ہوجاؤں اپنی قسمت پر ، جاناں کا جلوہ کب دکھے گا ، جاناں کب دکھے گا؟ اپنی قسمت پر ناز ہوگا جب ناز دائمی ہوگا ، جلوہ جب دائمی ہوگا ، کہ جمالِ نبی ﷺ کے جمال کی حد کہاں ، کہیں  ایسا نہ ہو کہ تجلیات آئنہ توڑ نہ دیں ، یہ جو جمال ہے کب ٹوٹنے دے گا ، لطافت لحجا دے گی ، جمال لٹ جائے گا باقی کیا بچے گا؟ عکس سے مینارہِ دل ، مینارہِ دل سے طور تک ، طور سے نور تک عکس مصطفی ﷺ ۔۔۔۔ جینے کا مقصد بس ایک ہے ، جو ملا ہے وہ دیے جا ! جو ملا ہے وہ دیے جا ! ملے گا اور۔۔۔۔ یہ نگینے سُرخ سُرخ ، یہ وصل کی  مۓ درکار ہے

نجف کا سرمہ لیے بنا کیسے آنا ہوا؟  الا اللہ  کا اثبات ہوا ؟ دید کیسے ہو؟ دل پر خواہشات کا جال مٹا کیا؟ فنا کو بقا ملی کیا؟ زندگی کو موت ملی کیا؟ رات کیا صبح میں ڈھلی کیا؟ نہیں ؟ تو جلنا مقدر ٹھہرا ! مقدر میں جل کے بکھرنا برا ہے کیا؟  ذرہ بکھرتا ہے تو گلنار ہوتا ہے

ہم تو جمالِ نبی ﷺ پر مٹے ، ہم تو کمالِ نبی ﷺ کو پا نہ سکے ! جمال میں ڈوبیں یا کمال کو پائیں؟ کمال ، جمال سے پرے جلال دکھے ۔۔۔ جلال ایسا کہ دکھے بھی نا ! یہ بھول بھلیاں جن میں راہی کھو جائے مگر کھوئے بھی نہ ! مل گیا ہمیں جاناں کا راز ، جاناں کا جلوہ کائنات کے دل میں ہے ، جاناں کا جلوہ شہ رگ میں ہے ، جاناں کی تجلی بوقت کن ملی ، جاناں کی تجلی ایسے جیسے الم ۔۔۔ اللہ نے لوح میں  محمد ﷺ کی تجلی رکھ دی ۔۔۔ 

درود  یا سیدی ﷺ سلام یا سیدی ﷺ

سر جھکا ! آنکھ پھر اٹھی نہ مقامِ ادب 

انظرنا کی خواہش ۔۔۔ مقامِ ادب 

جاناں کی مسکراہٹ پر لاکھوں سلام 

اے کاش کہ آنکھ نہ اٹھے ، اٹھے تو سر کٹے ، سر کٹے تو ذرہ ذرہ جلوہِ جاناں لیے ہوئے ہو ۔۔۔ کٹنا کیا ہو ؟ کٹنا کہ مرنا ۔۔۔ مرنا بہتر یوں کہ جینا ہو ، ذات میں رہ کے ذات کی نفی ۔۔ لا الہ الااللہ ۔۔۔ محمد ﷺ کی دید کے بنا کیسے مل پائے ۔۔۔ اے طہٰ آپ پر ان گنت درود

من ‏کی ‏پریت

من کی پَریت میں دیپ ہیں. ان دیپوں میں دُھواں مثالی ہے. میں جو سچ میں اُن  پر فدا ...میرے ہاتھ میں رہن رکھا سوال ... کپکپاہٹ طاری ہے گویا کہ رگ رگ میں ساز وحی جاری ہے. سورج رعنائیاں لیے جا بجا مجلی اور مجنوں کا لیلی ہوجانا کمال کا قصہ ہے. جب میں نے پوچھا تھا کہ شاہ کون؟ تو پتا کیا جواب دیا؟

شاہ فقیر ہے ...
شاہ عشق ہے ... 
شاہ رہبر ہے .. 
شاہ تمثیل ہے .... 

میں نے شاہ عشق سے پوچھا کہ شمس کیوں اتنا جلتا ہے،  تابناکی کی کرن کرن میں مجنوں کا جلوہ ہے، انعکاس عجیب ہے... منعکس لہروں میں ارتعاش ہے ...مجھ میں باقی نہیں کوئی کہ سر طور ہادی نہیں کون. یہ اکھیوں کے جھروکوں سے ملنے کی بات نہیں ہے. یہ تو سرحدوں کے فسانے ہیں. شان دیکھیے کہ قران جس رات کو اترا وہ لیل بھی فضیلت والی تھی، میں شاید وہی رات ہوں جس میں ترتیل ہورہی ہین آیات...دل کہ دل میں اتری تمجید ... تمجید نے کہا کہ رک شمس حقایت... ٹھہر جا رک جا ..ورنہ بازی گر کا تماشا رہ جائے گا اور تو چلا جائے گا ...میں نے کہا کہ تماشا تو چل رہا ہے، اب تو شہتیر نکلنا باقی ہے،  زخم کے نشان کیا ختم.ہوں گے باقی؟  اس نے کہا اسکو نہیں جانے دیتے جو جان لے راز ...کچھ مزید تیروں سے نوازا جاتا ہے اور یہی حصہ کہ یاداشت کھو جاتی ہے جب جدائی میں تو رہ جاتا بس عشق ہے ...میں ہی تو ازل کا.عشق ہوں ..میں ہی تو دائمی نغمہ ہوں ..سندھ کے  مضافات جا ..وہاں اک اللہ والی ہے، جا اسکو سلام کر ...وہ سلام پیش حضور کر تاکہ تجھ کو خرد کی گھتیوں سے فرصت مل جائے 
.جنون میں لذت مل سکے،  ہجر میں کمال مل سکے،  وصال کے جلال میں راستے مل سکیں ...

"رہ جائے گا تو، تو چل ...میں کتھے جانا؟  تو ہی تو،  تے چل نال نال 
.چھیتی آ... جان سولی وانگڑ لٹکی ... میرے لوں لوں دی دہائی اے ...

میں تو نس نس دا کلمہ ہے 
ایہی تے روگ میرا 
ایہی تے جوگ میرا 
رنگ تے غنا دی چادر 
رنگ تے جفا دی چادر 
ریشمی رومال لے تے لنگ جا 
ریشم دے لچھ کچھ درود وانگر 
تو ہتھ لا،  تو لنگ جا .. 
ریشم چنگا پے تینوں ریشم نہ کردیوے 
فر تو نہ جانڑے کہ ریشمی رومال کیہڑا ہے 
اے میڈا راز ہے،  تو جان لیا،  تو مان لیا

شہید

قران کریم کلام اِلہی ہے، الہیات کا مجموعہ ہے. یہ الہیات زندہ شخصیات،  زندہ اشیاء، کونین کے نظام کی تنظیم کرنے والی شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے ...

سورة البقرة, آیات: ۱۱۹

إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْـَٔلُ عَنْ أَصْحَٰبِ ٱلْجَحِيمِ

(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی

یہ نشانیاں ہیں نوید کی اور ڈر و خوف کی .. ایمان حُبِ رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بنا مکمل نہیں ہے. جب ہمیں محبت کی بشارت ملتی ہے تو دل سرشار ہوجاتے ہیں، جب ہمیں ناراضگی سے خوف آتا ہے تو ڈر کے مارے دبک جاتے ہیں ...ہمارے رسولِ محتشم پاک مجمل منور محسن صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غصہ تو کیا نہیں تھا مگر جس دل کو نوید ملی اس نے ان کو دیکھ لیا اور جس کو نہ ملی وہ بو جہل ہوگیا. نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دیدار بنا ممکن نہیں کچھ. جس دل نے نعت کہی، جس دل نے درود پڑھا، جس دل نے نمی محسوس کی ان کے نام مبارک سے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو اس نے گویا ان کو پالیا کہ وہ ہمیں دیتے ہیں،  ان کا دینا دیدار ہے جبکہ ہمارا کچھ نہیں گیا نقصان!  اس نقصان کی قسم کھاتے اللہ نے فرمایا والعصر ... اللہ نے تو جگہ جگہ محبوب کی قسم کھائی ہے .
.درود کا ذکر ہو صبح و شام،  
رہو ان کی فکر میں صبح و شام 

سورة البقرة, آیات: ۱۵۴

وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَن يُقْتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتٌۢ بَلْ أَحْيَآءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے

 شہید زندہ ہوتا.ہے اور رہے گا تاابد تو انبیاء رتبے میں کئی گنہ زیادہ. انبیاء کی مثال "احسن التقویم " کی سی ہے کہ زمانے کی اکمل و کامل مثال وہ خدا کی شہادت دیتے ہیں کہ ان کے وجود عشق الہی میں شہید ہوچکے ہوتے ہیں .. اس لیے یہ دنیا و سماوات ان زندہ قائم مثالوں سے چل رہا ہے 

تو نورِ سماوی تو نور زمانی 
نبی سارے ترے نوری نشانی 
محمد میں تیری.ہے صورت مکمل 
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل

جب سب کچھ یہیں اس دنیا میں ہے تو الہیات کا سلسلہ جاری و ساری ہے. ...

حی ‏علی ‏الفلاح ***

احساس کے قلمدان سے نکلے لفظ جب نکلتے ہیں تب تلاطم برپا ہوجاتے ہیں ۔ روشنی کا سفر شُروع ہوجاتا ہے اور احساس کچھ یوں قرطاس پر تحریر ہوتا ہے

''وہ جو عشق کی لو بڑھا دی گئی ہے،دل میں تمجید بڑھا دی گئی ہے، خشیت وضو کرا گئی ہے ،طائر کو پرواز دی گئی ہے ،روشنی قندیل (دل) کا حسن بڑھائے اور شُکر کا کلمہ ادا نہ ہو ، بھلا کیوں ؟''

احساس سے نکلے لفظ جب تحریر ہوتے ہیں ، سوال سامنے ہوتا ہے اور جواب کی تلاش کی جاتی ہے، شکر کا اگر کہا جائے تو شکر لازم اور بندہ خود کلامی کرتا ہے

شاکر پڑھ کلمہِ لا : سبحان اللہ

شاکر پڑھ کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

شاکر پڑھ کلمہِ عشق:

أَشْهَدُ أنْ لا إلَٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

یہ عشق مثلِ توحید اخلاصِ عمل ،یہ عشق مثلِ بحرِ موج  طغیان مشتاق ،یہ عشق علائق سے جان چھڑانے کو،یہ عشق تیز ہوا میں لے جائے،تندِ باد سے کون گھبرائے اب،وہی گرائے جو اٹھائے بار بار،بالآخر عشق کہے :

عشق تو ہی اندر ،میں کون؟عشق رونما ،جلوہ نما ، دنیا کہاں؟۔عشق جنم در جنم کھیل کی پوٹلی سے نکلا دھاگہ،عشق داستان ہے کٹھ پتلیوں کی ،عشق بے کلی میں گامزن اوج کا سفر ہے ،عشق شہادتوں کا سلسلہ ہے ، یہ امامت کا رتبہ ہے ،سعادت کا کلمہ ہے ، شجاعت کا پیکر ہے تیغ زن ہادی ہے۔سیدنا اما حسینؑ عشق کی ان تمام باتوں پر پورا اترتے ہیں ،عشق کی آذان دی اور بُلایا

شاکر پڑھ کلمہِ عشق:

أَشْهَدُ أنْ لا إلَٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو فلاح کی طرف : فلاح محبت سے ہے ، محبت عبادت ہے

سیدنا امام حسین کی پیروی ہر مسلمان و مومن پر جائز ہے ، ان کی دی گئی قربانی فلاح کی ترویج کے لیے تھی ، عشق کے موذن نے کیا خوب آذان دی ۔ اس آذان میں عشق جب چاہا وار کیا  ...  یہ  نماز ایسی ہے کہ نمازِ عشق میں عاشق لہو لہان ہوجائے اور جب چاہے علاج کرے  یا طبیب جی مرضی کے بے بس چھوڑ دے ! اسکے مریض   عُشاق ہیں !    عشق ستم نوک سناں دیتا ہے،  پیدا ہوتے ہجر کا جہاں دیتا ہے!   بعدء امر  عاشق کا رواِں رواں فغاں کرتا ہے!  ضرب العشق سے موت کو ہجر کا آسمان دیتا ہے. نشاط ہست کا مثردہ ہے  عشق! عشق کو جو بیان کریں، نہ کر پائیں!  جواسکو کر سکیں،ان سے ہو نہ پائے، جو ان سے ادا ہو عشق  ،تو بیان ہو جائے ... سیدنا امام حسینؑ عالی مقام نے کیا خوب عشق ادا کیا ہے، عشق  فریضہ حج کی نمازِ قربانی ہے. تسلیم جس کا وضو ..رضا اس  کی نیت ہے ...

٭٭٭٭

شاکر پڑھ کلمہِ لا : سبحان اللہ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

اے زندگی!  بدل جا مٹ جا!  اے زندگی!  حقایت ہو جا!  داستان ہو جا!  اے موجِ نفسِ ذات ہماری ہوجا!!  تیرے لیے بنایا جہاں!  ہمارے لیے جہاں کی ہو جا!

تو ساز عشق ہے ... تو صلیبِ وفا ہے!  تو مریضِ دعا ہے، تو نم مٹی کی التجا ہے!  تو میری حیا ہے!

اے مٹی!  مٹی ہو،  مٹی بن،  مٹی رہ،  مٹی سے رل،  مٹی کھا،  مٹی اوڑھ ...

''اوڑھ لی تیری چادر ساقی!  اوڑھ لی ... تیری نظر میں ہم ہیں!  گھائل نہ کیجیو!  ہم تو اب مانگے رے حجاب! ''

نہ کر بندیے تیری میری!!  ہو جا تو اب فقط میری ...

''شرمندہِ خواب کی مانند رسوا نہیں ہم!

ہم وہ جو چاہیں تجھے عمر بھر!''

احساس عاشق کو توانا کرتا ہے!  لباس مجاز میں حقیقت کی اوڑھنی پہناتا ہے ،  چاہت کا نغمہ سنانا عاشق کا کام!  عاشق تیرا اور کیا کام؟  چل لے میرا نام،  ہے مردود بس شیطان،  لے میرا نام،  ملے تجھے انعام ہوگا تجھ پرہوھا اکرام،  بارش یہ نہیں عام،  مٹ جانا تیرا کام، باقی رہے گا میرا نام!  آجا !  آجا میرے کول!   عاشق ہو جا میرا!  کیوں ہے یہ دوری!

عاشق :میں تیراں آں مولا!    میرا مرشد سائیں توں،  ہادی سچا توں،  میرا عشق وی توں،  پیامبر وی توں،  میری ذات نوں شمع مثل کیتا توں،  میرا کی کام مولا،  لواں گا بس تیرا نام!

صبوح!  قدوس!

الرحمان!  الرحیم!  الروف!   الماجد!  الرافع!  المقیم!  المغنی!  المقسط!  الحئی القیوم!

یہ ترا رنگ ہے جلال کا  یا کہ کمال میں چھپے بے شمار خزانے!  یہ خرانے علم کے ...یہ جواہرات اسماء القدیم!  یہ منقش کرسیوں پر آیتیں!  یہ دل کی سنگتوں میں حق  ھو کی واجیں!  یہ تری ،مری کہانی!  حق تیرا عاشق  جہاں جہاں گیا،  نہ ملا تو ،تو ملا کیا؟  ملا تو، رہا کیا؟  رہا کچھ نہیں ،تو تماشا کیا؟  تماشا بزمِ توحید کا سجاتے ہو!  ہر آیت وحدت کی بتاتے ہو!  جلاتے ہو!  بجھاتے ہو!  ہائے!  اتنا جلا دو کہ ہوش نہ رہے!  جلا کے کیجیو بے ہوش!  کہیو نا ہمیں!  کہاں کہاں نہیں ہم!  یہ کرسی!  یہ فلک!  یہ عرش!  یہ نکہتِ زیبائش سے گل رنگ مصفطوی نور جس سے چمکے لوح مبین!  دمک اٹھی زمین!  نوریوں نے کہا!

٭٭٭٭٭

پڑھو: کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

  نور مجلی آیا!  چھپ جاؤ!  حجاب لے لو،  بے نقاب آیا!  جھکتے کیا !!!  گر گئے سارے!  تسبیح رک گئی!  تھم گئی کہانی!  سکتہِ حیرت کو سو سال سنائے گئے کہ سکتہِ وصل کی بوندوں سے ترسائے گئے!  سکتہِ جذب میں مٹی کیا گیا!  سکتہ جمال نے ہوش دے دیے! مجذوب کردیا!  کمال ہوگیا!  نوریوں کو ہوش آگیا، دم میں دم آگیا. جبین اٹھ گئی ،سر نیاز میں گیا،  رات کٹ گئی وصل میں،  صبح کا اعجاز گیا،  شام ہجران کو بدلا الفتِ کی بدلیوں نے رات کی ماہتابی میں، چاندنی میں!  مسکرا کے قمر نے آنکھ موند لی!  چمک اٹھا سورج!  لوح مبارک چمک اٹھی!  اشک زار زار! پوچھو میرا حال!  کمال!  کمال!  کمال!  حال!  حال!  حال!  بے حال جاناں ہیں ،کیا سنائیں۔۔۔؟ ...قصہِ مختصر رگوں کا سکون چھن گیا،  طنابیں کھینچ لی گئیں اور سورج کو سجدہِ شکر ہوا!  سجدہ شکر!                

شاکر پڑھ کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

دل اچ واجاں درود دیاں آندی نیں!  دل وچ ہادیؐ، مرسلؐ سچا عشق سائیں!  دل وچ طٰہؐ سچا مسیحا ؐتوئی!  دل وچ طبیبؐ تے حبیب ؐاے! یہ نصیب کی بات ہے ، کرم کے فیصلے ، جسے چاہا اپنا بنالیا ، جسے چاہا اپنا بنا لیا ! جسے چاہا محفل میں بلا لیا ،

یا نبی سلام علیک ، یا رسول سلام علیک ، یا حبیب سلام علیک

سارے پڑھو درود ، صلی علی حبیبِ ناز ، صلی علی محمد ؐ

٭٭٭٭٭

شاکر پڑھ کلمہِ لا : سبحان اللہ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

تیری بزم میں سر جھکائے کھڑے ہیں ، ادب سے جھکی گردن ہے ، دل کہ ستم سے بیحال ! مت پوچھو کیا ہے دل کا حال ! بعد وصال فراق کا موسم نہ ہو ، بہار ہے ، سدا بہار رہے !

یہ رنگ جو کائنات میں بکھرے ہیں ، یہ سارے میرے رنگ ہیں ! میں ہی دکھ دیتا ہوں ،میں ہی طبیب ہوں

صدا سنتے ہی عشق جو مودب کھڑا  ، سدھ بدھ کھو دیتا ہے

توں اندر،  باہر توں!

توں متوف،  مطاف وی توں

تو حاجی تیں،  کعبہ وی توں

توں معبود تے ،عبد اچ توں

تو'' لا ''دی مٹی اچ وسیا نور

''الا اللہ'' کہیے تو مارے'' اللہ ھو'' دی تار!

ھو !  سبحان ھو!   صبوح قدوس!  صبوح قدوس!

حق رحمانی ھو!  اللہ والی تار وجی!

  مرشد ترا کون؟  عشق!

    ہادی کون؟  عشق؟

    خالق کون؟  عشق

  مخلوق اچ کون؟  عشق

عشق کتھے کتھے،  چارے جاواں، چار چفیرے،  مٹ گئے سارے ہنیرے!

حی الفلاح!  حی الفلاح!

  آذان سنا دی گئی!   فلاح کی بات کر دی گئی! آذان عشق کی، نماز عشق کی، تسبیح عشق کی، قربانی عشق دی .... نعمتیں مکمل! جب سب مکمل ہو جائے تو ربِ تعالیٰ فرماتا ہے

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

رب کی رضا ہوجاتی ہے ، جب زندگی اسکے دیے گئے طریقے کے مطابق بسر ہوجاتی ہے ، جب طاعت مکمل ہوتی ہے تب اسکی نعمتیں بھی مکمل ہوجاتی ہیں ، وہی والی ہوجاتا ہے عبد الولی کا !  یہ نعمتیں کس پر مکمل ہوئیں ؟ سیدنا امامِ عالی  نبی محتسمؐ پر ، جن کے بارے رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ

لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾

                 

شاکر پڑھ کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

اے عشق، دیار عشق چل!

اے دیار عشق!  نبیؐ کے در چل!

اے دل تھم جا!  رک جا!  یہ نبیؐ کا در ہے!  اے دل مٹ ہی جا! نصیب بن جائے گا!  رک جا!  مر جا!

ہم مرنے نہیں دیتے!  ہوش والوں کے ذمے بہت سے کام ہیں!  یہاں دیوانگی سر عام نہیں!  عشق منبر کا کلام نہیں!  یہ تلوار نیام میں نہیں! ...

سیدی!  مرشدی!  یا نبی!  یا نبی!

سارے پڑھو درود سرکار آگئے!  سارے پڑھو سلام سرکار آگئے!

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

محفل مقدس میں حاضری کا مقدر ہے ،  آپ کی غلام ہوں ،  آپ کی سگ ہوں !  آقا!  لے لو سلام!  مرا آقا!  سلام لے لو !  اے ہادی!  اے یسینؐ!  اے طٰؐہ!  اے شوق کے آئنے میں براجمان تجلی ..... آپ کی عنایات نے  دل بھر دیا ہے !  شکر کیسے ہوا ادا!!!

آقا!   قدموں میں جگہ دے دیجیے!  آقا!  آقا یہ دل اپنی پناہ میں لے لیں... !  اے میرے یحیی! اے میرے عیسی! اے مرے موسی!  اے مرے ہادی ...! ن... اس دل  کو پاس رکھ لو اپنے آقا. یہ دل  آپ کا دیکھتا رہے گا تبھی سکون میں رہے گا!  مجھے در پر پڑا رہنے دو!   آپؐ کو کتنے عزیز تھے سیدنا بلال رضی تعالیٰ عنہ،  سیدنا زید رضی تعالیٰ عنہ  ... ان کے پیار کے صدقے مجھ پہ کرم کر دو نا آقا !  آقا لے لو سلام!

ایسا نہ ہو کہ دم گھٹ کے مر جاؤں، ایسا نہ ہو کہ آقا ہچکیاں  لیتے لیتے مرجاؤں ...اس دنیا سے ہر رشتہ جھوٹا ، سب سچے رشتے عشق کے  دل میں آپؐ کا خیال ہے آقاؐ ... دل نم ہے آقاؐ!  اشکوِں کے ردھم کی مالا نے سانسوں کو ضوفشانی بخشی ہے. طغیانی  میں  خاموش!  خاموش!  با ادب!

حسن کو نوازش کی انتہا سے ہماری محفل میں جگہ مل چکی ہے ...

وہ مبارک چہرہ مسکرائی جائے!  مسکراہٹ دلنشین ... اک اک ادا پہ قربان آقا!   .. شاہا!  آپ کے دندان مبارک سے جو روشنی نکلتی ہے مجھ میں  اس کی تاب نہیں!  مگر پھر بھی جلوے کو بے تاب  کہ  آرزو مکمل ہوجائے، تصویر مکمل ہو ،زندگی رہے بے شک ادھوری ... شاہا آپؐ کے  دندان مبارک سے غار حرا کے دیواریں تک روشن ہیں، جب سرکار دکھیں گے دل مدینہ ہو گا  کہ مکہ!  دل سر زمین حجاز ہے. عشق کا یہ اعجاز ہے

مکالمہ

اُس نے کہا رک جا 
میں نے کہا بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں 
اس نے کہا دیکھنے کو تاب ہے 
میں نے کہا احساس پاس نہیں ہے 
اس نے کہا خیال میں کون ہے 
میں نے کہا کہ خیال ہے ہی نہیں 
اس نے کہا کہ یہ تو ویرانہ ہے 
میں نے کہا نہیں ترا کاشانہ ہے 
اس نے کہا کہ شام محفل ہے 
میں نے کہا کہ  شمع کا رخ کدھر یے 
اس نے کہا فثم وجہ اللہ 
میں نے کہا مغرب میں مشرق کو اور مشرق میں مغرب کا امتیاز کیسے؟
اس نے کہا اضداد پہچان کا سفر ہے 
میں نے کہا سکھا دے جو کہ نہیں جانتا یہ دل 
اس نے کہا کہ راہی خود جاننے لگ جاتا ہے 
میں نے کہا کہ جذب آہنگ سے نواز دے

رگ ‏دل

رگ دل سے رگ باطل تک اک سماں بنتا ہے 

لا الہ سے الا اللہ 
اللہ سے ھو کا 
ھو سے واؤ کے چشمے کا 
واؤ سے ح تلک بھی سفر ہے 

منظر سارے حسین کے ہیں 
منظر میں حسین ہیں(رضی تعالی عنہ)
نوید آگہی میں وجدان کی تڑپ ہے 
وہ وہ کہتے کہتے میں میں ہوجاتی ہے 
میں تو مرجاتی ہے، یہ میں کونسی ہے؟
بس اللہ اللہ ہوتا ہے

نعت

وَرَ فعنا لَکَ ذکرک 

تری بات سے ذکر سب پس دیوار ہوئے 
چلے سب قافلہ ء عشق میں سالار ہوئے 
ترا نوری ہالہ گنبدِ جسم میں معجزن 
طٰہ کی باتوں میں رنگ بو برگ و سمن 
شام کی لطافتوں کا حال، گھنیری زلف 
حسن ازلی کے نشان لاپتا کو مت پوچھ 
ردائے نور میں ادب سے سر بسجود ہوئے 
میخانہ کہاں،  ساقی کدھر؟  میخوار کون؟
یہ درز درز وا ہوئے، اندھیرے دور ہوئے 
کالی کملی والے کی شان میں لب وا ہوئے
یہ بدلی رحمت کی، یہ برکھا اور بہاراں 
مرگ نسیاں زیست کو کافی، نہ اور پوچھ

نعت

اک نعت میں نے لکھی ہوتی، وہ پھر کہی ہوتی،
میں نہ سوتی،  جو سوتی تو، دید ہو جاتی 
روئے ہم ہزار بار کہ یاد میں ہوئے ٹکرے ہزار 
جو چپ ہوئے تو جگر پر خنجر چلے بار بار 
اک دید تو کمی ہے،میرے پیار میں ہی کمی ہے 
آپکی رحمت کے بادلوں میں چادر نور کی تنی ہے 
میری بنی تو آپ سے ہے  لو لگی تو آپ سے ہے 
میں پاس کیا نہیں بس رات میں چاند کی کمی ہے 
آپ کے قدم،  میرا رہے سر،  یہ اٹھے نہ کبھی 
میری زندگی آپ کے آستان سے تو بنی ہے

افق

یہ افق کے ماتھے پہ جو رنگ ہیں ، وہ کس کے ماتھے کا وہ ٹیکا ہے ؟جس سے سات رنگ نکل رہے ہیں اور جگ سمجھے کہ قزح پھیلے!

مار ڈالا،
سرگوشی نے،
اسکے رنگ نے، 
اسکی صدا نے،
میٹھے سرگم بے،
دھیمے سُر نے، .

رنگ

آج رنگ کی محفل میں راگھا نے دیپک کے گیت چرا لیے،  دیپک نے جگنو پکڑ لیے اور شام گزار دی،  رات میں فراق نے پکڑا تھا کہ راگھا کے رقص نے زندگی دے دی  .... زندگی کے پل ❤ مگر تیر پیوست ہوگیا دل میں 💘 راگھا کون تھی؟  دیپک؟  بگھوان؟  کیا؟

رات

رات کی ہتھیلی پہ چاند!
دن کے آنگن میں سورج. 
اے مرے من نگر میں رہنے والے دیپ 
تم دونوں سے منسوب ہوئے 
گویا کہ تم خوب ہوئے

نعت

تری یاد میں دلِ حزین کا قرار لُٹا 
دید میں ہو کے گُم، باڑہ نور کا بنٹا 
ماہ لقا!  مہرِ رسالت،  تمثیل یزداں 
دل میں نہیں کوئ بس تو پنہاں 
یہ جو ہم ہار گئے، تیر دل کے پار گئے 
جو جان سے گزر گئے ترے در بیٹھ گئے 
سچ پایا سب نے روئے شہِ ابرار کے پاس 
گنوا دیے دل جو گئے شافعی امم کے پاس 
رات سلونی،  شام خنجر، انتظار لذت 
منتظر ہیں وار پہ وار کہ ہیں یار ساتھ 
اے ختم الرسل،  ہادی برحق، سالار امم 
دیکھیے مجھےآنکھ میں نم،  دل میں غم

حسین ‏ابن ‏علی

حسین ابن علی کو سلام پیش کر رہی ہے صبا. باوضو دل کی صدا کہ ڈالی ہے حیا کی ردا. یہ باوضو دل سے نکلا ہے کہ.
نفس نفس میں ہے نورِ زہرا 
جمال یار کی لڑی نور زہرا 
فسانہ دل کہوں کیسے میں 
کہ روبرو ہے یہی نور زہرا 

حسین زندگی کی نشانی ہے 
حیات نو کی اجلی کہانی ہے 
حسین کی سرخی ہے شاہی 
شاہ کا غلام ہے ایک سپاہی 

مکتب!  دل مکتب!  حرف جامع!  لفظ شیریں!  بیان ہند!  یہ اجمیر کا پرند! رکھ دل کے پاس نذرانہ ء حجاز. مجاز؟ مجاز نہیں ہے یہ اک کھائی ہے چلی جس میں لڑائی ہے. کیوں آنکھ بھر آئی ہے؟  شہر دل سے ہو کے آئی.

ختم!  راز ختم!  اب کہ اختتام لفظ ہے!  اب کہ اختتام حرف ہے!  یہی ابتدا ہے جو منتہی ہے!  یہ ازل کا رستہ ابد کے چراغ سے ہے. یہ منزل سحر نوگاہی شمشیرحسینی سے ہے. یہ نور حسینی کمال کے خرانے لیے ہے. نورحسینی سے خلافت درجہ بہ درجہ، کمال بہ کمال،  حال بہ حال،  جلال بہ جلال،  انفعال بہ فعل چلی آرہی ہے.. حسین زندہ باد!  
.یقین کا مرگ یزیدیت! سرمدی استقلات حسینیت!  رہے قدم قدم پہ برا حال کہ شاہ اجمیر خود حسینی ہیں ...رنگ سے چلی حنا!  حنا بن صبا کے نہیں!  شن عروس کو لباس سرخ سے ملال ہجر کے دن کٹن آون!


کچا ‏دھاگہ

کچا دھاگہ نہیں ہے ہوتا جس پہ بسمل چلتا ہے. نیچے آگ ہوتی ہے اور تار لہو چاٹتی ہے. رنگ اڑ جاتا ہے،  ذات بکھر جاتی ہے مگر ذات بکھر جائے تو غم کیا کہ ذات کا اصلی شعور باقی ہے یہی حاصل شعور ہے مگر بات بین السطور ہے کہ عشق محجور ہے. سرزمین دل طواف میں کہ قبلہ دل پہ لکھا گیا ہے اللہ ھو یا محمد چار یار زندہ باد. سلامت پیر باشد یا حسین خلافت زندہ باد.  یہیں سے تو چل رہا ہے سرمہ ء ہستی کا وصال دل سے قرار. یہیں سے تو ہے رنگ چمن میں نکھار. یہیں سے تو ہے شام حنا میں غزل کا اقرار، یہیں سے تو ہے آہ کا خاموشی سے گزر بسر، یہیں سے تو ہے نالہ دل فگار کو قرار، یہیں سے تو ہے زخم جگر کو دل سے ملال کہ نہ پاس ہے قریب نہیں. وہ کیسا حبیب ہے جس میں ذات بنی رقیب کہ یہ عشق نصیب ہے. یہ جان جلاتا ہے تو کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر نہ کرے یہ کیسا پیار ہے

کتاب

شاہ ‏بغداد

دل،  اک سرزمین ہے،  یہ زمین بلندی پر ہے. زمن نے گواہ بَنایا ہے اور ساتھ ہوں کہکشاؤں کے. سربسر صبا کے جھونکے لطافت ابدی کا چولا ہو جیسا. ازل کا چراغ قید ہے. یہ قدامت کا نور وہبی وسعت کے لحاط سے جامع منظر پیش کرتا ہے. کرسی حی قیوم نے قیدی کو اپنی جانب کشش کر رکھا ہے  وحدت کے سرخ رنگ نے جذب کیے ہوئے جہانوں کو چھو دیا ہے. شام و فلسطین میں راوی بہت ہیں اور جلال بھی وہیں پنہاں ہے.  دل بغداد کی زمین بنا ہے سفر حجاز میں پرواز پر مائل ہوا چاہے گا تو راقم لکھے گا کہ سفر بغداد کا یہ باب سنہرا ہے جس میں شاہ جیلان نے عمامہ باندھا ہوگا اور لفظِ حیات پکڑا تھمایا ہوگا. وہ لفظ حیات کا عقدہ کوئی جان نہیں پائے گا . بس یہ موسویت چراغ کو عیسویت کی قندیل سے روشنی نور محمدہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل رہی. وہ بابرکت مجلی زیتون کا درخت جس کے ہر پتے کا رنگ جدا ہے مگر درخت نے سب پتوں کو نمو دیے جانے کس نگر کا سفر کرادیا ہے. داستان گو نے کہا ہے کہ انمول خزینے ہوتے ہیں جہاں نورانی مصحف شاہ جیلاں اتارتے ہیں اور کہنے والے کہتے پیرا سچا بغداد ساڈا.  اودھی دستار دے رنگ وی وکھو وکھ. اوہی سچے دا سچا سچ

شاہ بغداد قطبِ اولیاء 
شاہ جیلاں امامِ زمن 
شاہ سے بنٹا نوری باڑا 
اسمِ محمد کا ہے اجالا 
ذات کے گرد نوری ہالا.
دل کہے جائے شہ والا 
دل پہ ہے مکڑی کا جالا 
کاتب نے اسے ہٹا ڈالا 
رنگ بڑا سبز سبز ہے 
سرمئی روشنی پھیلی 
 
تار عنکبوت اتار دو. وقت ہے دعا کا اور نزع کے وقت مقبول دعا حج ہے.  حج شروع.  حج ختم. حج مطاف دل میں،  حج غلاف کعبہ کے اندر،  سوچ کعبے کو طواف کر اور پیش کرے سلام


Monday, February 22, 2021

شبنم

۔ لکھتے ہوئے شبنم نے گھاس پر گرنا شُروع کیا ہے ۔ کاش سبزہ بھی اس شبنم کے گرنے کو نہیں بچا سکتا ہے کہ شبنم کے لیے بہترین جگہ تو گُلاب کو پھول ہے ۔ واصف علی واصف کا کلام ہے ، میں نعرہء مستانہ ۔۔۔۔ بہت سے ایسے کلام ہیں جو انسانی سوچ کی پیداوار نہیں ہے ۔ سوچ تو مظاہر کی تابع ہوتی ہے ، سوچ کو ترقی تب ہی ملتی ہے جب وہ کسی اور جہاں کی سیر کرچکی ہوتی ہے اور یہ وجدانی صلاحیتیں تب ہی بیدار ہوتی ہیں اور انسان یک دم ، یک سکت لکھتا چلا جاتا ہے جیسا کہ اقبال کا قلم لکھا کرتا تھا ۔ ہم سے سب اپنے دائروں میں مقید ایسی ہی جنت کے متلاشی ہیں جس کو آپ حسرت کا نام دیتے ہیں اور میں اس چراغ کا نام دیتی ہوں کہ لاکھ آندھیاں اور طوفان بھی نہیں بجھاسکتے ہیں جو شمع اندر ہوتی ہے وہ باہر نہیں ہوتی ہے ۔ وہی بات کہ جب میں باہر تمھیں دیکھوں تو سب مظاہر میں تم نظر آتے ہو اور جب میں اندر دیکھوں تو مجھے اندر بھی گہرائیوں میں تمھاری دید ہوجاتی ہے میں اس گہرائی میں کھو کر سب کچھ بھلادوں ۔ یہ کچھ بابا بلھے شاہ کے کلام میں بات پائی جاتی ہے ۔ 

کچھ اپنا لکھا ہوا شریک کررہی ہوں ۔۔

میرے خواب کی حقیقت کیا تم جان پاؤ گے . میں کبھی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتی ہوں اور کبھی بند آنکھیں نیند کی وادیوں میں گھسیٹ کر مجھے وہ صورت مجسم کردیتی ہے جس کی جستجو ہوتی ہے . میری زندگی کی حقیقت میں سراب بھی حقیقت ہے اور حقیقت بھی سراب ہے . تم ان کہے گئے لفظوں سے دھوکا مت کھانا . مجھے اپنے مجاز کے سراب میں حقیقت دکھتی ہے اپنی حقیقت جان کر مجھے دنیا سراب لگتی ہے . مجھے یہاں رہنا ہے مگر میرا ٹھکانہ تو کہیں اور ہے . میری روح کسی اور جہاں کی اسیر ہے . اسے سر سبز وادیاں ، آبشاریں اور جھرنے اس لیے عزیز ہیں کہ یہ حقیقت میں جنت کی تمثیل ہے . تم پھر دھوکے میں کھو جاؤ گے کہ مجھ میں جنت کی خواہش حرص بن رہی ہے . میں اس دنیا میں ان نظاروں کو اس کی حقیقت کا آئنہ سمجھتی ہوں . میرے سارے دکھ ان نظاروں میں کھو کر بے مایا ہوجاتے ہیں . مجھے سرسبز کوہساروں میں درخت پر بہتی شبنم صبح نو کی نوید دیتی ہے تو وہیں مجھے صبح کی نوخیزی جگنو بنادیتی ہے میں گلاب کا طواف کرنا چاہتی ہوں جس میں پسینہِ اطہر کی خُوشبو ہے . یہ پاک خوشبو مجھے معطر معجل مطاہر کردیتی ہے . اندر کی دنیا کے باسی کو محبوب کا پسینہ بہت ہے . جب وہ خوش ہوتا ہے تو روح کی سرشاری مجھے مست و بے خود کردیتی ہوں . لوگو ! میں ہی حقیقت ہو کہ میرا وجود مجھ سے بڑی حقیقت لیے ہوئے ہے . اس کو سلام کرنا میرا فرض ہے . اس سوچ میں رہتے ہوئے مجھے بندگلیاں اور رنگ راستے بھی کشادہ راہیں نکال دیتے ہیں . مشکلوں میں آسانیاں مجھے مل جاتی ہیں .

ہر قدم میرا قید ہے مگر میں اس قید میں بہت خوش ہوجاتی پر کبھی کبھی لطافت مجھے لحجاتی ہے . میں کبھی باہر کی دنیا کی سیر کرتی ہوں اور جہاں جہاں جاتی ہوں کھو سی جاتی ہوں اور اندر کی دنیا کیسی ہوگی . یہ دنیا شریانوں میں محسوس ہوتی شہ رگ میں مقید ہوجاتی ہے . اس مقید شے مجھے اپنا عکس نظر آتا ہے . اس عکس میں مجھے کون محسوس ہوتا ہے . وہ جو میری جاں سے قریں ہے ، وہ جو میری جبل الورید سے قریب ہے . اس کا ذکر میرے خون میں چلنے والی سانسیں کرتی ہیں . مگر میں اپنے خرابات میں کھوجاتی ہوں . مجھے سمجھ نہیں آتی کیا درود بھی پھولوں کا دستہ ہے جس کا ہر پھول ایک گل دستہ ہے . میں نے جب اس دردو سے اپنے تن میں خوشبو لگائی تو میرے اندر کی جمالیت نے مجھے حسن عطا کردیا ہے . مجھے خود کو حسین ترین کرنے کی طمع ہونے لگی ہے .

مجھے ‏خدا ‏نہیں ‏ملتا

مجھے خدا نہیں ملتا! اس کو مجسم جلوے کو پانا دور کی بات، مجھے اُسکا عکس نہیں ملتا!  اس کی جانب لُو کی تو وجود دُھواں ہوگیا مگر اسکا احساس تک نہیں ملتا. مجھ میں ملوہیت کو مٹی میں گوندھا گیا ہے.  یہ ملمع کاری کے رشتے مجھ سے نبھیں گے کیسے جب اصل سے تعلق نہیں جڑتا.  قران پاک کے ورق ورق میں آیت آیت نشانی.  اس نشانی کا مجھ پر عکس نہیں پڑھتا کیونکہ اندھا دل سنے گا کیا!  دیکھے گا کیا؟  جہالت میں مجھ سے آگے نکلتا نہیں کوئی مجھے علم دیتا نہیں کہ مرا نفس شیطان سے ساز باز کرلیتا ہے. 

خُدا کیسے ملے گا.  ہم سُنتے ہیں خدا جستجو سے ملتا ہے اور عکس محِبوب بندوں میں ملتا ہے. محبوبیت کے اعلی درجہ پر فائز ہستی سے کون مجھے ملائے گا؟  میرا نفس؟  یہ بُہت کمینہ ہے، بُہت جاہل ہے، اس کو کیا آداب محافل کے ...

مگر وہ تو کہتا ہے وہ جو کرم کرے تو دِل میں سَما جاتا ہے. دل سے دنیا تک اسی کی صدا لگتی ہے. وہی انسان کا بُوجھ اٹھالیتا ہے اس کو صدا دیتے کہ میں ہوں اس بندے کے پاس جو صدائیں لگائے

بندہ یہ صدا سنتا نہیں کیونکہ سماعت سے دور اپنی دُنیا کی اندھیر نگری میں گُم رب سے بے نیاز ہوجاتا ہے. رب سے بڑا بے نیاز کون ہے؟  بندہ کیسے کیسے الزام پر دھر جاتا ہے مگر وہ لازوال مامتا کا حامل بار بار اپنی جناب
لیتا ہے "آجا، تُجھے سنبھال لوں، تو میری امید کے جُگنو سے پروان چڑھا، تجھے شمع کی ضوفشانی دکھادوں، تجھے اصل شمع سے ملا دوں ...

بندہ ڈرتا رہتا ہے کہ وہ تو دل کو منور کردے گا مگر اپنی ملوہیت کو الوہیت سے منسوب کردے گا اور منصور کیطرح نعرہ انالحق کا سزوار ٹھہرے گا. وہ تو ہر ہر شے میں مُجلی ہے. اشجار میں،  پہاڑ میں، پانی میں، ہوا میں، ریت میں، مٹی میں، زمین کی کھیتی میں،  آسمان میں، ستاروں میں، ابحار میں، طیور میں.... اسکی تجلی کی صفت ہر اک شے میں معکوس ہے مگر معکوس کا اصل کہاں ہے؟  وہ کہاں ہے؟  تجلی صفاتی کہاں ذات سے ملتی ہے؟  تلاش کے تمام پارے جب اک قران کی صورت بنیں گے تب وحدہ لاشریک ظاہر ہوگا

ماں

ماں ایسی ہستی ہے جس نے تخلیق کا فرض نبھایا ہوتا ہے ، جس نے تخلیق کی خدمت کی ہوتی ہے مگر بدلے میں سرکشی ، خودسری خلقت کی سرشت ہوتی ہے ، ایسی بے مثال ہستی جس کی اپنی خلقت  بھی اسے برا، بھلا کہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے کہ خلافِ رحمت کام کرنا ماں کے شانِ شایان نہیں ہوتا

ماں! کیا ہوتی ہے ماں؟ آخر درد کو حاصل کرکے کتنا سکون پاتی ہے ماں؟ اس  ملال کو جو رکھے دوریوں پر، کتنا ترساتی ہے ماں، وہ جب جب قریب ہوتی ہے، فلک پر دنیا نصیب ہوتی ہے! ماں کی مامتا بڑی بے لوث ہے! بڑا دکھ سہا مامتا نے! تخلیق کے وقت موت سے گزر جانے والی ماں کی قدر اسکی اولاد نہیں جانتی مگر اسی نافرمان اولاد کے پیچھے بھاگ بھاگ کے جاتی ہے ۔ بچہ پیدا ہوتے ماں کا لفظ پکارتا ہے اور ماں خوشی سے پھولے نہیں سماتی ! بچہ اپنی پہچان کو ''ماں '' بلاتا ہے اور جب بڑا ہوتا ہے تو اسی ماں کو بھول جاتا ہے ، بچہ ماں ماں نہ کہے ، کتنا دکھ کرے ماں ۔پہچان اصل چیز ہے جو بڑے ہونے پر سب بھول جاتے ہیں

ماں کی دوری نے ہلکان کردیا جیسے ذرہ ذرہ پریشان کردیا، کتنا دکھ کرے تخلیق ؟ دکھڑا درد کا کیسے کہے تخلیق؟ جب سنے نہ کوئی تو کون سنے؟ جب دکھےنہ کوئی تو کون دکھے؟ جب چھپے نہ کوئی تو کون چھپے؟ جب اٹھے نہ کوئی تو کون اٹھے، ماں نے پورا وعدہ نبھایا پر سبق ملن کا نہ آیا

سبق ملن، جدائی اور ہجر نے جلادیا دل، جلا دیا دل، اس کی جانب نگاہ ہے، سجدے میں سر بھی جھکا ہے، اس کو پہچانوں ناں، کتنا دکھ کرے ماں؟ وہ جو قریب ہے؟ وہ جو حبیب ہے؟ وہ جو حسیب ہے، وہی نصیب ہے! 

ماں تو دوری بڑا ستاندی اے، 
اکھ ہن نیر وگاندی اے

ماں تجھے پہچان نہ سکوں تو کس کو پہچانوں؟ ماں  تجھے نہ مانوں تو کس کو مانوں، زمانے کے سرد و گرم سے بچایا، مجھے نور میں چھپایا، لہو لہو دل ہے، قلب میں جس کا جلوہ ہے جس کی قندیل ہے، وہی میرا وطن ہے، وہی میرا اصل ہے، وہی مرا مقصدِ حیات ہے جس کو پایا بعدِ ممات ہے! ماں توں دوری نے آزمایا، لوکی کہون مینوں پرایا، میں اس دنیا اچ کی کمایا جے ماں تینوں نہ پایا؟

یہ جذبات، یہ احساسات، یہ رگ رگ سے نکلے لہو کے ان دیکھے قطرے جو گر رہے قلب کے وجود پر، جن کا نشان نہیں ہے مگر ظاہر نے نمی سے منعکس کردیا جس کا جلوہ  عالی ذیشان ﷺ کی آنکھوں میں ہے، وہ مسیحا، وہ جس کو میں کہوں: میرے  عیسی ، قم باذن اللہ سے میرا دل جلایا،  دی زندگی، قلب کو منور کرایا ....  وہ مجسمِ نور ، وہ سراپاِ رحمت ، وہ عین رحمانی ، وہ نور یزدانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ طہٰﷺ ، جن کی تجلیات نے بطحا کی وادیوں کو روشن کردیا ہے ، جن کا احساس دائمی ہے ، دل جن کے آنے مجلی ، مطہر ، مطیب ، منور ، منقی  ہوجاتا ہے ، انہوں نے درد کو سہا ہے ، وہ محبت جو خالق نے اپنے محبوب ِ خاص ﷺ کو دی ، وہی محبت عام کردی آپ نے یعنی کہ بانٹ دی ، خالق کی عنایت تو خاص کر دیتی ہے ، نبی ﷺ کی نظر سب پر یکساں پڑتی ہے ، ذروں کو آفتاب کردیتی ہے ۔

نوید ‏سحر ‏کی ‏ہے

نوید سحر کی ہے، سعید گھڑی ہے 
بسمل کے دم دم میں ذکر جلی ہے

تڑپ دیکھو مری پرواز کرنے والو 
اشک لَہو، فگار دل اور بے کلی ہے

درود پڑھتے پڑھتے نیند آئی تھی 
دل کے کاخ و کو صبا پھر چلی ہے

ہچکی بدن، لرزش پیہم،آمد شہا کو
شہر دل میں سجی ہر اک گلی ہے

کوئی دیکھے نگاہ لطف کے اسرار 
دعا ہے کس کی، جبین جھک چلی ہے

پنجتن ‏سے ‏در ‏دل ‏فیض ‏عام ‏ہوا

پنجتن سے درِ دل فیض عام ہوا
دُروں میں ذکر زہرا سے کام ہُوا

غیر آگے جھکا نَہیں، ابن  زہرا
کا تذکرہ ہر زمن میں عام ہوا

شہرِ دل میں مصطفوی چراغ سے
رگ رگ میں نور کا انتظام ہوا

حیدر کے ہوتے دشمن کہاں جاتا 
قلعہ خیبر یوں حلقہ ء اسلام ہوا

چل رَہی نسبت کوثر سے کائنات 
مداوا غم دل کا یہی جام.ہوا ہے

روشن ‏جمال ‏یار ‏سے ‏گلیاں ‏ہیں

روشن جمال یار سے گلیاں ہیں 
یہ درود کی نئی حد بندیاں ہیں 

 گوشے کھلے مہک خرام خرام ہے 
دودِ ہستی میں گُلاب دَرو بام ہے 

فَلک پہ تھی نِگہ، جَبیں نیاز میں 
تجلی سے جَل اٹھی  ہر شام ہے 

عشق کیے گئے بن آگہی کے ، ملا  
ہمی کو زخم بعد سرر کا جام ہے

کہو ‏نا ‏نعت ‏کوئی ‏،دل ‏اداس ‏ہے

کَہو نا نعت کوئی دل اداس ہے 
پتا چلے گا کون دل کے پاس ہے 


نَہیں خالی دل میرا، مسکن بَنا ایسی ہستی کا،
کہ پہنے وہ پوشاکِ نوری،
وہ خاتونِ جنت!
وہ گفتار میں عالی، ملکہ مرے دل کی 
وہ ہیں سیدہ فاطمہ زہرا،
جو اپنے ہیں بابا کی لاڈلی 
محبت کو حرفوں میں کیسے تراشوں
کہ میں ضبطِ تحریر لاؤں 
مقدر میں وہ حرف بکھرے پڑے ہیں 
درودوں کے گجرے دھرے کے دھرے ہیں 
یہ احساس پھر مجھ کو ہونے لگا ہے.
خموشی اصل گفتگو ہے 
یہی راز ہے جستجو کا
صدا دل سے آئی 
لکھا ہے نا، دل ـ دل کا راقم ہے بنتا 
لکھا ہے نا، سجدہ فنا بعد ملتا
لکھا ہے نا، یہ بھی!  جبیں پر کشش کے بنے دائرے یہ جہاں زیر کردیں 

کہ جیسے الکڑانز رواں دائروں میں 
کہ جیسے ہوں سورج بھی افلاک کے گرد،اے دل! 
قسم ہے، دلوں کی حرکت جو ہے آپ کے دم سے وہ ہے 
 یہ عالم اجالے بکھیرے ہے جائے 
یہی آپ کے دم سے ہے،
وہ فانوسِ عالی، وہ قندیل روشن 
وہ جاویداں ہستی، 
ہے نسبت مجھے ان سے، جن سے زمانہ منور ہے 
تو اے شہزادی، یہ فانوس رنگو بو کا سیلاب ہو گویا
سلامِ شوق بہ عزت محترم عالی وجود کو 
سلام شوق بہ تہہِ دل کہ دل میں ماسوا کیا ہے؟
سلام شوق بہ مو مو کہ ذکر میں رہا ہے،  مگر حق ادا نہ ہوا 
سلام  شوق مادرِ عالی حسنین کو کہ جن کہ بیٹوں نے قربانی دی ایسی 
کہ سر کٹا کے حق کا اثبات کردیا 
اللہ اللہ اللہ

صبح ‏کا ‏ستارا

صبح کا ستارا 

یہ دولت ہے علمُ البَیاں کی*
قَلم نعمتِ رب ہے،  آیت بہ آیت چلا سلسلہ ہے 
حِرا میں ہُوئی ابتَدا، اور سدرہ پہ معراجِ بشری 
شُروعات "اقرا " کی سوغات سے کی گئی ہے 

خدا کے محبوب، عالم کی رحمت
حرا میں مراقب ہوئے جب 
فَریضہ نبوت کا سونپا گیا تھا
فَرشتہ وَحی لے کے آیا، 
" نَہیں جانَتا میں " کی تکرار کرتے رہے تھے 
 وہ دو قلب یوں پھر ملائے گئے تھے 
کہ نورانی مصحف اُتارے گَئے تھے
خَشیت سے جسمِ مبارک تھا کانپا 
خدیجہ نے کملی سے اپنی تھا ڈھانپا
یہ پہلی وَحی کا اَثر تھا کہ اتنا
نَزولِ وَحی بعد میں رک گیا تھا
سکوں پھر دِلو جاں کا رخصت ہُوا تھا
یَکایک اَبر رحمَتوں کے تھے چھائے
کہ روحُ الاَمیں پھر وحی کو آئے *

کہا رب نے پھر " قُمْ فَأَنذِرْ"
طَریقِ عِبادت بَتایا گیا تھا 
تو قرأت کے اِسرار کھولے گئے تھے 
یہ بارِ نبوت بَڑی شان سے پھر اُٹھایا 
نبوت سے ظلمت جَہاں کی مٹائی 
ہدایت کا رستہ سبھی کو بَتایا
اُُجالے دلوں میں جو ہونے لگے تھے 
صَحابہ محمد پہ مرنے لگے تھے 
کسی کی تھی نسبت اویسی،
تو روحِ بلالی کسی نے تھی پائی 
کہیں جستجو کو جو سلمان فارس سے نکلے 
جو آوازہ  "حیّ علی خیر " کا پھر اُٹھا تھا 
تو "اللہ اکبر" کی گونجیں صَدائیں،
تَیقُّن سے سینے منور ہوئے تھے*
گرفتار اندیشوں میں ان کے دشمن 
مظالم تبھی مسلمانوں پہ ہونے لگے بے تحاشا
تو مکّہ سے ہجرت بھی کرنی پڑی تھی 
خطرناک کفّار کے جب ارادے ہوئے تھے 
گَھروں سے تَہّییہ یہ کرکے وہ نکلے 
  کہ اس شمعِ ایمان کو وہ بجھا دیں
یَقیں کی جو طاقت سے انجان تھے وُہ
رَمّی وہ محمد کی تھی، وہ رَمّی تھی خدا کی 
تو قدرت خدا کی کہ اندھے ہُوئے سب، 
مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تھے 

*چراغِ اَلوہی بجھایا نہ جائے گا، یہ فیصلہ تو ازل سے رقم تھا 
کہ قندیلِ طاہر سے سارے جہانوں،  زمانوں نے روشن ہے ہونا 

یَہودو نَصارٰی مقابل ہوئے جب 
تو کُفّار کو چین پھر کیسے آتا
مُقابل لَشاکر یہ سارے ہوئے تھے
.بَدر میں،  احد میں شجاعت، دلیری دکھائی
فَتوحات کے جھنڈے گاڑے گئے تھے 
   وہ فتحِ مبیں اور کعبے سے بت سب اکھاڑے گئے تھے  
رسالت، نبوت، نیابت کی تکمیل ہوئی تھی
 مقامات درجہ بہ درجہ یہ طے جو ہوئے تھے
تو طٰہ، وہ یٰسین، حم کہہ کے پُکارے گئے تھے *
مقاماتِ بشری کے یہ استَعارے،
یہی راز ہیں معرفت کےتو سارے

وہ شب قدر میں اوجِ بشری 
سرِ لا مکاں سے طَلب جب ہُوئی تھی 
سوئے منتَہی کو چلے سرورِ انبیاء تھے 
ستارے حَیا سے حجاباتِ شب میں 
 منور، مطہر محمد کی سیرت 
تصور میں کیسے سمائے وہ صورت 
فَرشتے تبِ و تاب اس حسن کی لا نہ پائے 
جو جس حال میں تھا، اُسی حال میں مر مٹا تھا
تحیر کی ساعت سے کیسے نکلتا کوئی پھر
حبیبِ خُدا پھر اَکیلے روانہ ہوئے تھے
وہ دن تھا بھی کتنا سُہانا
یہ" ثُمَّّ دَنَا" سے کہیں آگے سفر تھا*
خطِ حد سے کم فاصَلہ تھا
ہیں "ما زاغ" چشمِ کرم ،یہ شَہادت خُدا کی
نِگاہیں مطہر تھیں، دل بھی نَمازی 
وہ معراج،  "صلّ عَلی "کی صدائیں *
وہ اسرٰی کی شب اور اقصٰی کی مسجد 
رَموزِ حَقیقت عَیاں سب ہوئے تھے
محبت میں سب انبیاء ہی کَھڑے تھے 
امامت کو شاہِ رُسل جو کھَڑے تھے
صَبیحو منور یہی وہ ستارہ 
رُخِ زیبا جسطرف اسکا ہو جائے
وُہ پاکیزہ،  طاہر ہو  جائے
مرا دل اسی تارے سے جگمگا دے
سبھی تارے اسمِ محمد سے چمکے


ہے ‏تار ‏دل ‏کی ‏صدا ‏

ہے تارِ دل کی صدا لا الہ الا اللہ 
یہی ہے غم کی دَوا لا الہ الا اللہ

فَنا ہے زیرِ قَدم، حرفِ اوّلیں کی صدا 
جنوں کہے یہ سدا لا الہ الا اللہ

حُسینی لعل نے دریا سخا کے سارے جب
بہادئے، تو کہا لا الہ الا اللہ

یہ کائنات پہ پھیلی حیا کی جو ہے ردا 
کہ فاطمہ نے کہا لا الہ الا اللہ

فقط طلب یہ خدا سے کہ آئے گی  جو قضا 
تو نکلے دل سے صدا لا الہ الا اللہ

چلو ‏آؤ ‏!

چلو آؤ!  
پیامِ سحردیں 
چلو آؤ کہ نویدِ بہاراں سنائیں 
محمد کا دامن پکڑ لو 
وگرنہ خسارہ کہیں کا نہ چھوڑے 
کرو مدح دم دم میں درودِ سرکار سے 
مرادوں سے بھرلو یہ جھولی

سوچ سوچ کے قدم رکھنے والے کہاں تلک چل سکتے ہیں؟ یہ فہم درک کس کام کا جب حساب میں کمال نہ ہو، جب تیر کمان میں نہ ہو، جب زندگی وصال میں نہ ہو، جب شام ملال کو مجال حرف آرزو نہ رہے کہ کسے کہے گی شام، نوید صبح کی بانگیں تو گونج رہیں مگر اندھیر نگری میں بھلا کب بس چلا ہے کرم روشنی ہے..فسانہ کیا کَہیے، درد کا کہیے کیا.  بس اسے دیکھنے کی رو کو بہ رو کہیے. جبین افسردہ کہیے، دل پژمردہ کہیے. پارہ ء دل میں رگِ دل کا قصہ کہیے...

خوشبوؤں کے مسافر سے رستہ پوچھا تو کہا اس نے کہا مہک ساتھ چلی ہے. عشق میں نمی ہے کہ مٹی تو زرخیزہے اور بوئے گل کو لیے چلی ہے باد. یہ جھونکے ہیں جو گواہ ہے شہادت کہ محبوب شہر دل میں رخ کیے موجود. ہم سربسجود گویا کہ نم دل سے مٹی کی اوقات نہ پوچھا کر بس طواف کیے جا. شمع سے کاخ و کو روشن ہیں.


دل ‏اک ‏صحیفہ ‏ہے

رکیے، ٹھہر جائیے 
بھلا کیوں؟
جلوہ دکھے گا جب نظر اٹھے گی 
نظر اٹھے گی؟
اٹھے نہ اٹھے، روشنی ملے گی 
پھر رکنا محال ٹھہرا 
لا یدرکہ الابصار کا استعارا کھل گیا 
ہم ہے نہیں، سب نگاہوں میں وہ ہے 
لطافتیں عنایت کردے تو اچھا ہے
 ورنہ صم بکم کے تالے ہیں 
یہ آنکھ سرمہِ نجف پائے تو دیکھے 
یہ جہاں اور ہے، وہ جہاں اور ہے 
خامہ متحرک، لب صامت ہیں 
خیالِ درود میں اک شبیہ طاری ہے 
انہیں سے ملو، جن کی سواری ہے 
ہستیاں سب مبارک لوح پر موجود ہیں 
بس قران پڑھ، تنزیل کی باری ہے

صحیفہ ہوتا ہے اور پاک ہوتا ہے. جب صحیفہ پڑھا جاتا ہے تو روح پہ نشان لگ جاتا ہے. جس پہ حق کی مہر لگ جائے تو وذھق الباطل والی بات بن جاتی ہے. نگاہیں پھر سرمگیں اور جذب رسائی تلک چلا جاتا ہے . یہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات ہے جس سے ہماری بگڑیاں بن رہی ہیں. وگرنہ رنگ دل کو لگتا نہیں . رنگ لگاؤ! بھلا کیوں؟  خدا فرماتا ہے صبغتہ اللہ ہی بہتر ہے. بس رنگ لوں خود کو ورنہ دیر نہ ہو جائے؟  
یہ بھی مشکل ہے کہ اظہار میں بیقراری نہ ہو اور رنگے جانے میں تاخیر!  وگرنہ سارے مارے جاتے ہیں 

سارے پڑھو درود 
سرکار آگئے صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
شہید زندہ ہوتے ہیں، انبیاء کا مقام بہت بلند ہے.

جب حرف متکلم ہوں تو دل نماز ہو جاتا ہے. جب کچھ جاننے لگ جاؤ تو خامشی کو در وا نہ ہونے دو. جب نگاہ کے انداز ملیں تو شیریں سخنی سے کام لو، حیرت میں کھونے لگو تو دیکھو 
والیل سے والشمس تک رستہ ہے 
والعصر سے والضححی تک کی بات ہے 
ما رای سے فقد راءنی کی تصدیق بھی 
جب فلک ٹوٹ جاتا ہے تو دل کی کائناتیں میں حشر بپا ہو جاتا ہے. تب دھوپ کا سوال؟  ستارے لپیٹ دیے گئے. اب تو امید ہے تب حشر ہوگا. اب دید نہ کی تو حشر یہیں بپا ہوگا. مرے خواب سے ادراک تک اک سفر ہے جیسا معراج بشری کو روانہ ستارہ ہو. والسماء والطارق!  واللہ اللہ ستارے بناتا ہے کہتا ہے. انما امرہ اذا ارادہ .... کن فیکون. ارادہ اسکا ارادہ تو ہے مگر وہ ارادہ کے ساتھ ہم میں موجود یے. یعنی کہ ہم بے بس و لاچار نہیں، مگر ہیں بھی بے بس و لاچار. یہی عبد و معبود کا فرق ہے


یہ دِل ایک صحیفہ ہے اور دل کو پڑھنا دشوار لگتا ہے. ہمارے لیے اس سے بَڑی خوشخبری کی بات کیا ہوگی کہ وہ سینہ جس کے لیے اللہ فرماتا ہے "الــم نشـــرح لــک صـــدرک " وہ سینہ علوم سے پُر الفاظ کی صورت موجود ہے. قران پاک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کا دل ہے اور ہمارے سامنے ان کا دل موجود ہے. یہ دل اک ظاہری لباس یعنی لفظیات کی صورت ہے. اس تک رسائی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے "قـــــم الیل " یہ ایسا حکم ہے جسکو "کــــن " جیسا کہہ سکتے کہ روح ہر حال میں چاہے ڈر سے چاہے محبت سے قیام لیل پہ مجبور ہو جائے. قیام لیل کا کہا "الا قلیلا " کہ کم از کم تہجد کے وقت ضرور اٹھنا چاہیے اور "او ذد علیہ ... " جس کا جی چاہے تو اضافہ کرلو ... اس قیام میں دو باتوں کا حکم ہے " واذکرسم ... " اللہ کو اسم ذات یعنی اس لفظ اللہ سے پکارا جائے اور ورتل القران کہ قران پاک کو ترتیل سے پڑھو ..  کہا گیا ہے سات طرز کی قراءت ہیں اور سات طریق سے علم کے نقاط دل میں اتر جاتے ییں. بس قران پاک کا باطن یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک رسائی تلاوت سے ہے.میری تلاوت مجھے علم سے آشنا کرے گی. فقط میری

چراغ ‏مصطفی ‏ہے ‏دل

چراغِ مصطفی ہے دل، جَلا ہے مثلِ طُور جو  
ہَوا بُجھا نَہ پائے گی،یہ روشنی  کمال ہے 
                  ******
ہے طائرِ حَرم کَھڑا سُنہری جالیوں کے پاس 
نَہ دید گر ہُوئی تو اسکی زندگی  محال ہے 
                *****-**

صَبا ہماری خاک کو حَرم کی گردِ راہ کر
طوافِ روضہ ہو سَدا کہ اب یہی خیال ہے 
                 **********

حضورِ یار حرفِ دل  کہوں تو مسکرا  کے وہ 
یہ کاش کہہ ہی دیں کہ واہ! نعت بے مثال ہے

                     ********
خُدایا ذوق شعر گوئی بے مثال دے مجھے 
لکھوں وہ داستانِ دل بَڑی جو پُر ملال ہے 

                      *******
دعا نہ التجا جو کی ہے ہم نے غیر سے کبھی
حضور جانتے ہیں مارے ہجر کے جو حال ہے
               *********  
بنا مرا یہ دل حرم، چلا انہی کا ہے کرم
ہے گردِِ ش خیال میں نبی کا جو  جمال ہےNòór Iman

نعت

ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے
کہ دفن ہم یہاں پہ ہوں گے ،ایسا بخت پائیں گے

چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دلِ امید!
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے

کہیں کرائیں اور کیوں جگر کے زخم کا علاج 
مسیحا منتظر ہیں ہم، تجھی سے چوٹ کھائیں گے 

بھرم وفا کا رکھ چکے، خموش ہم رہے سدا
ذَرا بَتائیں،  آپ اور کتنا آزمائیں گے

کرم کرے، کرے ستم، یہ سر سدا رہے گا خم
بنا رہے یہ رشتہ، ہم اسے نہ اب اٹھائیں گے 

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
تمام عمر نغمۂ ازل نہ بھول پائیں گے
..

ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں حسن اسکا پائیں گے

لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ گنگنائیں گے

اسی کے جلوے سے ملی ہیں نور، ہم کو خلوتیں
کہ شوقِ وصل سے ملال ہجر کو مٹائیں گے
Nòór Iman

علی ‏علی ‏کہنا ‏بھی ‏کمال ‏ہے

علی علی کہنا بھی کمال ہے، جب جمال کو خدا کی نظر سے دیکھا جائے، تو مجازاً بھی مظہر چاہیے تھا. بس علی علی کہنا کمال ہے!  جس نے زبان سے کہا کہ دل سے واجب الوجود ہوتے دل طاہر نکلا. تبھی تو دیکھا سب نے جلوہ عین  روئے شہ ابرار صلی اللہ علیہ والہ وسلم...  

تجلیات کی اقسام میں جہاں جہاں جلال ظاہر ہوا ہے وہیں چراغ حسینی کی بات ہوئی ہے. حق نے جہاں جہاں قران پاک میں قربانی کا ذکر کیا، بخدا ان میں نمودِ حُسینی تھی جو بعد از لباس مجاز نام حُسین سے متاثر ہوئی کہ وہ مثالِ جلال جس نے مثالِ اثبات لہو دل سے تحریر کیا ... 

جمال کی بات قران پاک میں جہاں جہاں ہوئی تو سیدہ طاہرہ صفیہ واجدہ عالیہ نور والی بی بی،  کالی کملی والی کی بیٹی،  ام ابیھا،  بنت خدیجہ،  رافعہ،  تحمل والی،  صبر و عفو کا پیکر "والکاظمین الغیظ "کی مثال  ہیں،  وہی تو ہیں جو مومنات کی سیدہ ہیں ا ہم خدام ان کے.  زوجہ حیدر کو سلام کہ آیت کوثر کی نہر بھی وہی ہیں!  مریم بی بی میں  اخفا نور یہی تھا! یہی تو جس نے امر کن بوقت نفخ سرداری و نیابت و علم کی وہ تلوار لی، جس سے سادات کی سیادت چلی اور آئمہ کی امامت چلی!  وہ رات میں ظاہر ہوں تو پوشیدہ پوشیدہ جیسا کہ بی بی آسیہ کے زمانے،  بی بی مریم کے زمانے رات کے تھے، جب وہ ظاہر ہوئ صبح ہوگئی 

سلام سیدہ بی بی پے کہ صبح کی نمود ہیں 
سلام سیدہ بی بی پے کہ الواجد کا وجود ہیں 
سلام سیدہ بی بی ہے کہ آیت خفی و جلی ہیں 
سلام سیدہ بی بی پے کہ ظاہر و باطن کی ملکہ 
سلام سیدہ بی بی پے کہ ہم نقش زہرا کی خاک 
سلام سیدہ بی بی پے کہ  وہ حسن کا مجسمہ
سلام سیدہ بی بی پے کہ شہ دو جہاں کی دلاری

کرسی ‏جب ‏اترتی ‏ہے

کرسی جب اترتی ہے دل میں تو کہاں  سنا ہے سچ کو 

وسعی کرسیہ ..... 
عالم لامتناہی کی کرسی دل کو کتنا وسیع کرسکتی ہے!  رب پوری کائنات ہے جب کائنات دل میں اترے تو باہر کیا بچتا ہے؟  جب اندر اجالا ہو تو اندھیرے کا کیا کیا جائے؟  کلمے کو دیکھا جائے یا نماز کو تو لازم ہے جب اللہ کا ذکر ہو تو ساتھ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھی کردیا جائے کہ اللہ کی سنت یہی ہے . بس 

کائنات کا ذرہ ذرہ درود پڑھ رہا ہے 
کس کو؟
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ...
فثمہ وجہ اللہ ...
ہر جانب اللہ کا رخ ہے 
ہر رخ میں تسبیح درود کی ہے 
ہر رخ یعنی چہار سو میں ہر شے کی تسبیح درود 
اس لیے پتھر کلمہ پڑھتے ہیں 
پتھر ایمان لے آئے

خوشبوؤں کے مسافر سے رستہ پوچھا تو کہا اس نے کہا مہک ساتھ چلی ہے. عشق میں نمی ہے کہ مٹی تو زرخیزہے اور بوئے گل کو لیے چلی ہے باد. یہ جھونکے ہیں جو گواہ ہے شہادت کہ محبوب شہر دل میں رخ کیے موجود. ہم سربسجود گویا کہ نم دل سے مٹی کی اوقات نہ پوچھا کر بس طواف کیے جا. شمع سے کاخ و کو روشن ہیں.


چلو اشک بیان کرے، جو بیان نہ ہوا کبھی.  یہ بیان شروع ہوا تھا زندگی کے بعد موت کا. جب میں نفخ سے پہلے تھی. سورہ ص میں فرمایا ونفخت ...بس جدائی ہوئی تو موت ہوگئی. میں پہلے سے مردہ ہوں مجھ کو موت کیا  ڈرائے گی. میں پہلے سے مومن ہوں کہ پہلے سے امتی ہوں ....  میں نے پہلے سے کہہ دیا تھا 

جب رب نے کہا کون رب تمھارا ہے 

میں نے کہا الحمد للہ رب العالمین، محمد رحمت للعالمین، اھدنا الصراط المستقیم، ھو الشاہد، ھو احد،  ھو الظاہر، ھو المصور،  

اس نے کہا یہ راہ کیسے ملی 
میں نے کہا جب کہا تھا اھدنا الصراط الذین انعمت علیھم 

اس نے کہا علم الاسماء سکھائے آدم کو، کیا پایا 
میں نے کچھ القابات کچھ مقطعات 
طٰہ، المزمل، یسین، طسم، حم، کھیعص، حمعسق،الم،  المدثر،  ص، ن،  ..... 
اس نے کہا کہ قسم کیوں کھائی میں نے 
میں نے کہا جہاں جہاں تو ظاہر ہوا تھا اک بار، وہ پاک جگہ نشان ہے. تو رب عِظیم نشان کی قسم کھاتا ہے کہ وہ تجھ میں سے ہے 

اس نے کہا کہ احسن الخالقین کون ہیں؟  
میں نے کہا جس نے سارے حجابات کے اندھیرے مٹادیے پھر کہا ما  زاغ .....  
بس یہی پہچان چلی آرہی ہے ...


درد ‏کے ‏چہرے

درد کے بے شمار چہرے!  وہ درد جو رگ دل سے جاری ہو، وہ ثمر رکھتا ہے  . وہ جان جس نے ممنوعہ شجر  کی معارفت کو زمین پے آکے پہچانا،  وہ شارع جن کے لیے جناب خضر علیہ سلام ظاہر ہوئے،  وہی جن کے لیے کہا گیا کہ آپ پاک زمین طوی میں ہیں،  وہی جن کی مادر نے بن باپ کے خلق کیا، وہ بچہ یک لخت معرفت الہیات کی جامع تفسیر!  وہ باپ جس نے بینائی کھودی اور دردِ محبت کو سلامت رکھا،  وہ بیٹا جس نے شیوہ ء تسلیم کو رسمِ پیامبری سے تعبیر کیا اور ذبیح ہونے کا عزم کرلیا،  وہ بھی جن کو مچھلی کے پیٹ میں بھی رزق پہنچا گویا حق جیسا باخبر اور رزق رساں کون ہے،  وہی جن کے لیے کہسارمعیت میں تسبیح کرتے جن کی بادشاہی میں جنات و شیطین تابع کردیے گئے اور وہی جن کے لیے مثالیں تخلیق ہوئے.  جب ساری مثالیں کی جامع تصویر بنی تو وہ محمد عربی رسول کائنات،  خاتم وحی،  نور جلی و خفی،  شہ جمال صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو کس طرح اک نبی کے انکار کے بعد ہم آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں؟  آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سینہ ء مبارک تو تمام انبیاء کے سینہ ء مبارک کو سموئے ہوئے ہے.. صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مہک

درود بھیجنے کو رب نے بھیجا. تعریف کرنے کو رب نے کردی.  اب ہمارے لیے کیا بچا؟  نہ زُبان! نہ دل!  نہ لفظ!  نہ سیرت! نہ عمل! یہ سیہ دل کس نگر جاکے چھپالیں؟  ہماری تو اوقات نہیں ہے کہ نامِ "محمد " صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی میم کو ٹھیک سے بولیں کجا کہ مصطفوی چراغ کا ذکر بُلند کریں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم ..  پھر بھی رحمت نے رحمت کررکھی ہے اور ہم.دھڑلے سے نام لیتے ہیں. کچھ مجھ کو خوف نہیں آتا کہ دل میں ان کی مہک کیساتھ کسی غیر کو رکھتی. دل کے اندر غیر خیالات کے مجسمے بنے ہیں اور مجسمہ ساز بنی میری روح ہے 

وہ.تو رحمت للعالمین ہے. اپنی انگلی سے ہم سب کو تھام رکھا ہے. وہ نہیں دیکھتے کہ رنگ و نسل کی وجہ سے کوئی ممتاز ہے.  کیا آج تک کوئی ایسا لفظ ہے جو ہم نے کہہ دیا.ہو مگر رب نے نہ کہا.ہو .... رب نے محبوب صلی اللہ علیہ والہ.وسلم کی.تعریف اتنی کی ہے جتنا کوئ کر نہیں پایا. ..

مہک ایسی نہیں پاس میرے، جیسی زمانوں سے گلستانِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چمن در چمن سے گل بہ گل چلی آرہی ہے مگر خوشبو مستعار لی ہے ان سے.  کوئی کوچہ پسند آئے تو بسالیا دل میں جاتا ہے. میں نے محبوب کے کوچے کی خوشبو سے رنگ لگا لیے ہیں . رنگ میرا سرمایہ، یہ میرا وجود ہیں.

قلم ‏والی ‏ہستی

اچھا،  قران پاک میں لکھا ہے 
والقلم وما یسطرون 

خدا نے قسم کھائی قلم کی اور اہل قلم کی.  اہل قلم تو انسان ہوگیا اور قلم وہ امر ہوگیا جو منتقل ہوگیا.  یہ لکھوانے والی ذات لکھوادے تو جسکو لکھوائے، وہ نازاں ہو کہ اس سے لکھوایا جارہا ہے.  قران پاک کا اعجاز یہی ہے کہ یہ دل پر وارد ہوتا ہے اور ہر دل بنا تفریقِ مذہب اسکو پڑھے تو دل کے احساسات متلاطم،  زبان حرف چو گویم نمی دانم مگر سب جانتی ہے.  تو جس جس ذات پر یہ احسانات ہوئے وہ صاحب امر کے تعلق کیساتھ صاحب امر بن گئی. جیسا شمس صاحب نے کہا قم باذن ..  یہ قلم کی زبان تھی جس کو اہل قلم نے وارد کیا اور حق یونہی چلتا آتا ہے. دل بہ دل، نگاہ بہ نگاہ،  چہرہ بہ چہرہ!  محبوب کو کبھی اکیلے نہ جاننا گویا محبوب ہونا سعید یے اور جو منظر دکھتا ہے وہ نوید سحر ہوجاتا ہے. وہ صبح کا استعارہ بن جاتا ہے. بابا فرید بھی اہل قلم ... اس لیے چینی یا شکر کی بوریاں نمک میں تبدیل ہوگئیں. سچ بولنے والے کی زبان جھوٹ کو سچ کردیتی ہے کہ ثابت ہوگیا ہے.  

پھر اک سورت ہے قران کریم کی سورہ الفتح!  
انا فتحنا لک فتحا مبینا 

قلم والی ہستی تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں. انہی سے مل رہیں فتوحات سب کو. وہی حاکم وہی شہنشاہ

وہ جہاں میں تشریف لائے تو چراغاں ہوا. زمین کی ہستی پے لا الہ الا اللہ کی تکمیل ہوئی. قلم ہوا "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ " یہ داستان رقم ہوئی کہ شہ ذی وقار رسالت مآب نیکی و خلوص کے پیکر، جمالِ خدا،  دین کی تکمیل کرنے والے خاتم مہرنبوت لیے تمام انبیاء کے امامت کرانے کو آگئے. وہ جمال جو زمین پہ ظاہر ہوا تو اس کی چمک سب زمانوں پے پڑ گئی. ہر زمانے میں نبی کا نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے.  اور وقت جسکو خدا سے تعبیر کیا جاتا ہے اس وقت کا قلم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں.  آپ آج ہمارے سامنے نہیں مگر ہم میں موجود ہیں   ..نگاہ سے اوجھل ہیں،  حجابات اگر ہٹ جائیں تو چہرہ بہ چہرہ دید ہوگی!  منظر میں منظر مل جائیں گے!  وہ ہمارے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ خیال کرو وہ تمہارے پاس ہیں. خیال کی طاقت اتنی ہے کہ وہ پاس لگیں.  خیال کی طاقت نور ہے اور ہر نور کا شہ نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں. وہ خدا کے بعد ہیں مگر خدا سے متصل ہیں. وہ قران پاک کی تجسیم و پیکر وحی ہیں. وہ شمع ہدایت ہیں. وہ جبین رسالت ہیں،  وہ ذی وقار ہستم ہیں ہر دل میں ان کی شمع جلانے کو درود کافی ہے. یہ درود گویا ورود نور ہے. اور ورد جب لب دل سے ہوا تو گویا چاک دل کے زخم رفو ہوگئے  گویا جاناں کا خیال آنا اور قائم ہوجانا!  اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوگی؟

آیت ‏الکرسی

خُدا دل میں اتر سکتا ہے اور ایسے جیسے بات دل میں اتر جائے. کوئی اس سے پوچھے کہ کتنوں کے دِلوں میں قبل اس سے اُترا. جہاں اترا وہ تو تری یاد میں مٹ گئے اور کتنے خواہشوں میں فنا.ہوگئے.
تجھے پانے کی خواہش 
تجھ دیکھنے کی خواہش 
تجھ سنگ زندگی 
تجھ بن موت 

اے آدم ذات!  انسان مٹی کی مورت ہے!  اس کی بصیرت میں ہوں. یہ کھیلتا.رہتا.ہے اور کتنے دل ایسے جن میں ہُو نے نغمہ بجا دیا. یہ ہم ہیں جو راستہ دکھاتے ہیں ..یہ ہم.ہیں جو سلطانی دیتے ہیں. یہ ہم ہیں جو بن کہے پورا کرتے ہیں 

خُدا کی جستجو دنیا سے الگ ہے. وہ دنیا الگ ہے جو اسکی تلاش کی دنیا ہے. وہ دنیا جہاں کوئی نہیں گزر سکتا ماسوا انسان کی اپنی ذات کے. میں اکثر خود سے پوچھتی ہوں ..

میرے ہونے کا مقصد ترا ہونا ہے.
میرے ہونے سے مگر تجھے فرق نہیں ہے 
تو مگر دل میں اترتا نہیں 
تو احساس کے پردوں سے چلمن.اٹھاتا.ہے 
یہ.تڑپ جو تو لگاتا ہے یہ تو آگ سی ہے

میں انسان ہوں!
میں وہ ہوں جو اکثر بے چین رہتا ہے 
اضطراب کا زہر لہو میں مانند عقرب ہے 
زہر کا تریاق بس اک ذات ٹھہرتی ہے 
اس سے کون کیسے پوچھے کہ اس کے ہونے کے نشان جابجا ہے مگر وہ کہاں ہے یہ علم احاطہ میں نہیں 
وہ تو.فرماتا ہے 
وسعی کرسیہ السماوت ولارض 
اسکی کرسی وسیع ہے ....!  
تو کہیں فرماتا ہے اللہ نور سماوات ولارض 
پھر کہتا ہے فثمہ وجہ اللہ 
اتنا کچھ کہہ دیا. ہر جانب اسی کا رخ ہے 
تو پھر کہتا ہے 
رب المشرقین ورب المغربین 

اتنے نشان ہیں اور انسان ذات اسکی ذات کی تلاش میں ہے. وہ سامنے ہے اور وہ اسکے ہیچھے بھاگ رہی ہے. اسکی تلاش میں زندگی کے ماہ سال بیت گئے اور پھر اسکو پتا چلتا ہے وہ اندھا ہے 

ایسا اندھا جس کی آنکھوں پے پٹی بندھی ہوئی ہے...!  وہ پٹی آنکھوں کے آگے بندھی ہے. آنکھیں تو ہیں نا. اگر آنکھیں نہ ہوتی تو صم بکم عمی کا فرمان لاگو ہوجاتا ہے 

آو کہ رخ پھیریں اسکی طرف اور ادا کریں سب نمازیں اک نماز میں!  سب دل یکجا ہوجائیں تو دل اک ہوجائے اور اک دل نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے اور رب کا آئنہ اک ہے. وہ آئنہ جس کے مصفی و مجلی ہونے کی بات خود وہ ذات فرماتی ہے. جس کے اخلاق کی قسم اس نے خود کھائی. وہ عفو کا پیکر اتنا رویا ہمارے لیے کہ اسکو لقب "حریص " کا دے دیا ...



ہاشمی ‏چراغ

دل کے ٹکرے شُروع ہوگئے اور ہاشمی چراغوں سے اُجالا کرنے لگا یہ قَلم ... حَلم سے رکھ لفظ اے قلم! ہاشمی چراغوں سے دل روشن ہونے جارَہا ہے! استاد کہتے ہیں اسے جو ہدایت کا چراغ پہلے روشن کردے! دل میں اسم الہی کی تکرار ہے اور دفینے کی تہہ میں ھو لکھا ہے ......

سینے میں اَحد کا میدان ہے اور حمزہ پِیا کی قبر ہے! بوطالبی چراغ، ہاشمی روشنی .... رضاعی بھائی، حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ... غنیم کی سرحدوں میں گھرے، دلیری سے لڑتے رہنے والے میرے محبوب صحابی نے جان کی قربانی سے دریغ نَہ کیا .... ناک، کان، ہاتھ، ہاتھ، غرض عضو عضو قربان ہُوا! دل والے حاضرین ...یہ وہ قربانی ہے جو اک ہاشمی چراغ کا خاصہ ہے!

دل کی سرزمین پر جبل احد پر حمزہ پیا شَہید ہوئے ... دل کو دُکھ ہے؟ دل کو غم ہے؟ دل نازاں ہے ایسی قربانی پر ... سرخ تیروں سے زخم کھانے والے، دل میں احد احد کہنے والے اللہ کے وجود کا اثبات ہیں ... اللہ قران پاک میں فرماتا ہے...

ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن تشعرون

وجود اثبات حق کا دلیل ہے،
حمزہ شہید ہو کے بھی شاہد ہے
دل نَذر کیا گیا تھا راہ خدا میں
بعد میں جان کا نذرانہ دیا گیا
نعرہ تکبیر اللہ اکبر کہا گیا تھا
اکبریت کو شَہادت سے بتایا گیا
چشم نم عالیجناب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہوئی تھی
ہاشمی چراغ فنا بعد بقا ہوا ہے

بوطالبی دہن، داؤدی لحن لیے شاہِ نجاش کے سامنے کون تھے؟ جعفر طیار بن ابوطالب برادر علی شبیہِ صاحب جمال سید البشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم ...ہاشمی چراغ روشنی کرے، دل میں خشیت نہ اترے؟ ورتل القران سے وجلت قلوبھم کا سفر نَہ ہو؟ کیا ممکن ہے! شاہ نجاش نے عیسوی قندیل کا قصہ سُنا اور دل تیقین سے اسکا حق حق کرنے لگا! دربار میں ھو کی خاموشی چھا گئی ....
حق ھو! حق ھو! حق ھو! حق ھو!

گفتار میں اللہ کی شان جعفر
کردار میں اللہ کا ایقان جعفر
زیست کا قصہ ء صداقت ہے
شہادتِ جعفر حق کی امامت ہے

موتہ کا میدان اور عَلم جعفر رضی تعالی عنہ کے ہاتھ میں ... تیر سے تیغ سے لہو لہو بدن ...سرخی دیکھ گگن کی! ارض پر گرتا رہا لہو اور نازاں ہوئی زمین! شاہِ ہاشم ہیں جعفر طیار! پرواز میں شہباز ہیں جعفر طیار! آنکھ سے نہ پائیے لفظ میرے، دل میں اتر جائیے! دیکھیے گھڑ سوار لہولہو گھوڑے سے لگا عَلم کو سنبھالے! واہ کیا ذیشان ہے! جس کی شان رشک ملائک ہے! جس کو پَر دیے گئے پرواز کو! حق کو بھی تو پیار ہے نا جعفر سے! اس لیے تو بُلالیا سکینت کی نیند میں .... میرے دل میں اردن کی سرزمین روشن ہے اور جنگ و جدل نے حرف و صنعت میں جہاد نہیں سیکھا!
اللہ نے فرمایا اس لیے شہید کو مردہ نَہ کہو! شہید زندہ ہے! جس کی زیست حق کا اثبات ہو! وہی احسن التقویم کی بنیاد ہے

حق کی زَمین میں مقدس ترین مقام ہے کعبہ! علی رضی تعالی عنہ کی ولادت کی جا ہے! مولود کعبہ نے شان سے آنکھ کھولی! حرمت کی مثال فاطمہ بنت اسد تھیں ان کی ماں، جن کی تربیت میں ذیشان مثل خورشید ایمان لانے والوں میں سبقت کرگئے! گویا اللہ کے پیغام پر لبیک کہہ دیا بنا کسی تردد کے!

نے رد کفر، نے جنگ و جدال سے،
کلمہ ء حق پڑھا حق کی مثال سے
آیتِ تمجید لوحِ دل پر اتری ہے
علی بُراق ہاشمی، الواجد کا وجد
الماجد کی تمجید، آیتِ تطہیر
ولایت کی زمین، امامت کے تاج
نور کے آفتاب، تجلیات کا مرقع
ناطق قران ہیں اسم الہی ہیں
العلی کی مثال، قدسی تخت ہیں
جبروتی کرسی، ھاھوت پر فائز
صبر کا اخبار ہیں، لوح قرانی ہیں
مقطعات کا علم، گنجینہ الاسرار

امام علی ایمان لائے! وصال آیت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وقت .... امام علی ساکت! ہر شے میں سکتہ ء درد، دل کی کرسی ہجرت میں لرزے لرزے گرتے گرتے بچی ہے! علی رضی تعالی عنہ کو جب یقین آیا تھا تو وفا کی لاج نبھاتے آیت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تدفین کی ...کیا سعادت پائی! حق والے ہیں! اس پاک مقدس آیت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لحد میں اتارے صامت ہوگئے! عالم ھو میں سب ہوا ...آنکھ اشکبار تھی، دل میں اللہ اللہ کی صدا تھی ..وہاں پر شجر بمثال مرا دل بھی رویا تھا! میں نے جب دیکھا یہ منظر تو لرز اُٹھا دِل ....!

جانتے تھے شہادت ان کی راہ دیکھتی ہے! مرغ جس دن بانگ دینے سے گھبرا گئے! سحر نمودِ صبح سے گھبرائے! سپاہی گھبرائے گھبرائے سب! فضا پر ملول تھی! اشک بندیاں میری دیکھو دل والو ...اک مرغ بسمل کی مانند تڑپ رہی تھی میں، امام علی مسجد میں تھے اور میرا دل لرزاں! جب تلوار چلائی گئی! مسجد خون سے نہلا دی گئی! امام علی نے کہا میں کامیاب ہوگیا ... حی علی الفلاح کی آذان پر شہید

ہاشمی چراغ گیا نہیں، میرے سینے میں فانوسِ نور میں لُو کا نام ہے یہ ..... یہ چل رَہی ہے رِوایت، اشک بہ اشک، دل بہ دل، لعل بہ لعل ...

.اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ .....

روحِ حسینی استقلال آہنی
روح حسینی لوحِ قرانی
روحِ حُسینی باعمل کہانی
الا اللہ سے نسبت چلانی
روح حسینی، زنجیرِ الہی
روحِ حُسینی، پیہم جاودانی
روح حُسینی، جہاد ایمانی
روح حسینی، قربانی پرانی
روح حسینی، یقین کا اثبات
روح حسینی، کوثر کی بات
روحِ حسیی، تار حریر ریشم
روح حسینی، سیف اللہ
روح حسینی رخِ وجہ اللہ
روحِ حُسینی الحی القیوم
روحِ حسینی کربل کی نشانی

خاک کربل نازاں بہ ایں ہاشمی و بو طالبی چراغ! مقتلِ کربل میں کچھ مردان مثلِ علی، کچھ مردان مثل جعفر، کچھ مردان مثلِ حُر تھے! حُر والوں نے جان دے دی، بَہا دیا خون! زمین سرخ کردی! مردان مثل جعفر نے عَلم کی حفاظت میں جان دیدی کہ اسلام زندہ رہا ان کی قربانی سے! مردان مثل علی نے اَبدی چَراغ روشن کیے اسلام کی حرمت خلافت سے مملوکیت میں بدل نہیں سکتی! زمین پر انسان نائب ہے، اللہ حاکم ہے! یہی تو لڑائی تھی ساری کہ حاکمیت اللہ کی اور انسان اسکا نائب! حسینی قربانی یاد رکھنے والو! فخر سے سر بلند کرلو! خلافت آج بھی جارہی ہے جبکہ بادشاہت مٹ چکی ہے! جس جس کو خلیفہ الارض کا ناز حاصل ہے! مل کے اک نعرہ لگاؤ
حسین زندہ باد!
خلافت زندہ باد!
اللہ مالک و مقتدر!
اللہ العلی! اللہ الوالی
اللہ حق! اللہ والے حق

حُسین ‏نام ‏سے ‏جہان ‏حسین ‏ہے ‏

حسین ابن علی کو سلام، عقیدت کے پھول 
حسین نام سے جہاں حسین ہے 
زمین کیا یہ آسماں حسین یے 
حسینی لعل سا نہیں کوئی یہاں 
حسین ایک ہے، حسینی ہزار ہیں 
حسین شاہ، حسین پادشاہ گر 
حسین کی مہک پھیلی نگر نگر 
حسین سے چلے زمانہ زمن زمن 
جو  پھیلا نور ان سے چمن چمن 
حسین کا سینہ آیتوں کا نگینہ 
حسین سے ملا ہے کشتی کو سفینہ



پاکستان ‏نور ‏ہے

پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں!(سرکار واصف علی واصف) 

یہ جملہ نہیں میرا مگر یہ میرا جملہ بن گیا ہے. کوئی چھ سال قبل یا اس سے بھی زیادہ میرا نظریہ پاکستان  بدل گیا تھا. زیادہ کتابیں پڑھنے سے مجھے لگنے لگا تھا قائد اعظم تو بس اک pawn تھے تاکہ  برطانوی سامراج کے لیے اسکو gateway بنایا جاسکے. ..،  دو قومی نظریہ اور بنگال کا معرض وجود ... یہ دو چیزیں اتنی متضاد تھیں اس پےستزاد بلوچستان تحریک،  سندھ کا royalties کا مطالبہ اور سرائکستان کی تحریکوں نے اس نظریے کو مزید تقویت دی اور میں سمجھنے لگ گئی جیسا کہ کچھ دانشور کہا کرتے تھے وہ اک غدار ہیں اور مجھے مولانا آزاد حسین اس وجہ سے اچھے لگنے لگے کہ انہوں پان اسلام ازم کا نظریہ پیش کیا .... غرض کہ پاک افواج کی ہار، ہر جنگ میں جب ان جنگوں کا جرنلز سے مطالعہ کیا تو احساس ہوا کہ کتابوں میں جھوٹ لکھوایا گیا...  پھر اقبال محترم کا خط، خطبہ الہ باد جس میں نظریہ پاکستان دے کے ۱۹۳۶میں اک خط میں اس کی تردید کردی ... وہ خط پڑھ کے احساس ہوا بہت تضاد ہے بہت کچھ چھپایا گیا ہے ہم سے! 

پھر میں نے یہ جملہ سنا "پاکستان نور ہے، نور کو زوال نہیں " یہ جملہ دل میں سرائیت کرگیا کہ پاکستان جس کو روحانی بنیاد پے حاصل کیا گیا، وہ قوت جو ناممکن کو ممکن کرگئی وہ قوت روحانی ہوسکتی ہے. یہ عطا ہوتی ہے. یہ نہ ہوتی . جو فیکٹس اور فگرز میں نے پڑھے وہ بظاہر معلوم ہوتے تھے کہ یہ سب جھوٹ ہے ...ہم نے وہ تقسیم و ہجرت جھیلی کہاں تھی .. ہم جھیلتے تو مانتے!  آج ہندوستان میں جو مظالم ہورہے ہیں تو مزید احساس قوی ہوگیا کہ پاکستان اسلامی اجتہاد  کے نتیجے میں وجود آیا ..nation -state کا تصور وہی ہے جس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت کی اور اسلامی حکومت قائم کی. اس کے بعد ہی احکام شریعت کا نزول شروع ہوا. یہ بھی حقیقت ہے جہاں مسلمان وہیں ریاست ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی نظام کو چلانے کے لیے ریاست کا تصور اہم یے!  

آج بھی اک غیر مرئی قوت اسلامی نظام دلوں میں نافذ کیے جارہی ہے. اسلام اتنا خشک مذہب نہیں کہ یہ جسٹ اصول پے چلے. نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اخلاق حسنہ کی وہ مثال قائم کی کہ ان کے عشاق بھی مثل نور ہوگئے. اس لیے غلام، غلام رہنے پے مصر رہے! جن کو ایسا تاجدار مل جائے ان کو آزادی سے کیا لگاؤ ہوگا ... ہمارے دل جب تک طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نہیں چل سکتے تب تک ہم شریعت کو نافذ نہیں کرسکتے!  دل میں محبت کا پودا جو نبی کی محبت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے ہو، نہ ہو تو شرع محض اک چیز رہ جاتی ہے اور تب تفرقہ پیدا ہوتا ہے. ہم جتنے اسوہ ء حسنہ سے نبی کی محبت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دور ہوئے، ہمارے طریقے یعنی نیتِ دل میں نفاق پیدا ہوتے ابتری میں لیے گئے ..

چار یاروں میں کیسا فرق ..ہم عام انسان و مسلمان اتنے چھوٹے ہیں کسی بھی صحابی پے بات کرسکیں یا نام لے سکیں کجا کہ ہم الزام دیں جو تاریخ لکھیں. ہمیں اتنا علم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں کوئ بھی کسی سے جدا نہ تھا،  کسی صحابی کی رائے اتنی اچھی ہوتی کہ قرانی احکام سے اسکو اثبات مل جاتا تو کسی کو فاتح خیبر بنا دیا جاتا کسی کو ذو النورین بنا دیا جاتا ہے کہ کسی کی حیا سے فرشتے شرمائیں کسی کی محبت کی انتہا اتنی کہ اپنا سب مال و اسباب قربان کردیا ... یہ جلیل القدر ہستیاں ہماری ہیں اور ہم ان کے ہیں ..

جنوں ‏بڑھتا ‏دل ‏گر ‏طور ‏ہو ‏تو

اظہار لفظوں میں  ، یہ لفظ جو انبار ہیں ، یہ چلتے ہیں ساتھ ساتھ ، جب تڑپ سے جگر چاک کر دیا جائے تو دیکھا نہیں جاتا کہ قربان کیا ہوا ، خون کتنا بہا! دیکھا جاتا ہے کہ خون خون لیر لیر  کیساتھ کون اس اہلیت پر ہے کہ فنا ہوجائے اور کرچیوں سے مَزید زخمی ہو ! جب ایسا ہوجائے تو رقص نصیب ہوجاتا ہے ! جلوہ کدھر نہیں ہوتا؟ صبا ملتی ہے تو یار کی خوشبو ملتی ہے ، شجر کی نیاز سے محفلِ نوری کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ، تن زخمی  ، دل جلے کو چار سُو محبوب دکھتا ہے ، پاگل من کہتا ہے 

ادھر تو ، اُدھر تو ، کدھر نہیں تو 
جدھر میں ، ادھر تو ، کدھر نہیں میں

جلن کیسے عطا ہوئی تھی؟  شمع کی مثل ہے جب پروانہ شمع کے طواف شُروع کرتا ہے ۔۔۔ تو طواف بھی کھو ہوجاتا ہے ، گیان بھی کھو جاتا ہے ، یاد کی محو بھی محو ہوجاتی ہے ، بے خبری کی خبر نہیں ہوتی ، دیوانہ کہتا ہے 

نیاز مند ہوں ضروی  ہے طواف 
عشاق کو نہیں ہے آئے حجاب 

دم دم کی صدا ہے ، فلک نے کہا کہ دوا کیسی مانگی تم نے ؟ مریض کا مرض دوا سے بڑھتا ہے ! درد بے زبان تھا ،بول اُٹھا 

غمِ دل سے نہ گھبرا نورؔ تو 
جنون بڑھتا دل ہو گر طور تو

چھارہی دیوانگی ، کیسی دوری ہے ، فاصلے کیسے ؟ ہائے ! دوریاں کیسی ملیں ، روح نماز میں مدہوش ہے ، ہوش کیسے آئے؟  یہ دل تو نہیں ہے جس میں محفل سَجی ہے ، چراغاں ہے چار سُو ، خوشبو پھیل رہی ہے ! خوشبو کی باتیں ، دیوانے کرتے ہیں ! دیوانی کی باتیں دیوانے جانیں گے ۔ یہ بات سَمجھ سے باہر ہے کہ روح کا قبلہ متعین ہوگیا ! میرے نبی پاک ﷺ کے لیے دل پاک ہے ! دل میں چراغاں ہیں ! میرے گھر آئیں گے تو خوشبو سے مہک اٹھے گی روح ، قلب سبز ہوجائے گا !  نہ پہچان رہے کوئی کہ پکار اٹھے زمانہ ، دیوانی ہے یہ آپ کی ﷺ ، آپ کی محبت میں خود کو بھُول بیٹھی ہوں ، آپ ﷺ کی یاد میں بیخودی کو پیچھے چھوڑ آئی ہے ، بڑی بیقراری ہے یارسول اللہ ﷺ ، کچھ دوا کیجیے ! اے میرے خواجہ ، اے میرے پیارے آقا ، یہ دل ، یہ قلب اپنے دست شفقت سے قرار میں کر دیں ، بہت بیقرار ہوں ، نہ سمجھ آئے میں کہاں جاؤں گی ،میں کس سمت جاؤں گی ،میں تو آپ کی محبت میں آپ کی طرح بن جاؤں

والسماء ‏والطارق

والسماء والطارق 

دو لفظ، وسعت ہزار 
جیسے کہکشاں میں راز ہزار 
بجتے ہیں دل کے تار 
عشق ہوتا ہے بار بار 
محویت کے جام لکھ بار 
ستم کے تیر سولہ ہزار 
آشنائی نہیں لفظ سے کہ متکلم کون؟  مستند راوی نہیں؟ کوئی ہادی نہیں؟
قسم کس کی؟
چمکتا ستارا کون؟
محمد ..صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

اللہ کریم نے کیسے کیسے نعت بیان کی کہ بندہ لفظوں کے سحر میں کھوجائے مگر یہ لفظ جادوگری تو ہے نہیں. تحریر دل میں پلتے نکلنے کو بیتاب تھی اور قرطاس مجھے لکھ رہا ہے، قلم چل رہا ہے 

وہ قلم جس کی قسم کھائی گئی "ن " 
پھر اس قلم کو متحرک کیا گیا جبرئیل امین آئے 
اور وہ امّی نہیں تھے کبھی مگر اب کائنات کی وسعتیں سماگئیں 
جب سینہ سینہ سے ملا، صدر سے صدر 
الم نشرح لک صدرک ... تو کمر ٹوٹ گئی 

پھر جب کمر ٹوٹی تو خشیت کی چادر اوڑھے، جسم پہ لرزا طاری،  روح میں اسرار وحی ... نبوت کا آغاز، نشانی سے نشان ہونے کی بات ہے 

پہاڑ تو ریزہ ریزہ ہوگیا جب موسی علیہ سلام سامنے دیکھ کے بیہوش ہوئے 
یہاں تو دل میں عالم سماگئے تو خشیت سے لرزا طاری نہ ہو 
پکارا گیا یا ایھا المزمل 
اے تاریکی سے، اندھیرے سے، قرطاس و قلم کے یکجا ہونے میں،  دو سے اک یعنی وحدت کے سفر میں جو سہا گیا، جو سنا گیا تو پکارا گیا "المزمل،  
محبت کا لقب محبوب نے دیا 
محبت کا لقب تب دیا جب دو نقطے متصل ہوئے، گویا انوارات کا آغاز ہوا، گویا علم ملنا شروع ہوا، گویا نور مکنا شروع ہوا، گویا وحی کے سلاسل میں ربط لامتناہی کا طریق جس کے لیے مقام "ورفعنا لک ذکرک " وضع کیا گیا 

یہ ہمارے محبوب جن کو لفظ اقراء نے دنیا جہان کا نور دے دیا 
یہ ہمارے محبوب جب نور سے نور ملتا رہا اور شجر زیتون کے بابرکت تیل سے سیراب ہوتا رہا،  وہ شجر جس کو تجلی نہ بھی ملے تو شفاف اتنا کہ خود ہی آگ پکڑ لے، جب شعلہ دیا جائے تو حال کیا ہوگا 

نور وحی کا منطقع ہونا 
نور وحی کا رابطہ.
گویا جلال کا سا حال، اک ہو کا عالم اور ویرانہ ء ھو میں ذات باری تعالی ..  
پکارا گیا یا ایھا المدثر 
جیسا کہ سرخ پوش کملی لیے کھڑے محبوب کبریاء، یاقوتی لبوں پہ مسکراہٹ کی تمکنت و جمال
المزمل المدثر ..صبح صادق و کاذب کے حالات ... یہ جیسے رات تہجد سے نمود صبح کا نظارا 
لفظ اقرا سے المزمل المدثر کا سفر اور یہ نور جب مکمل ہوگیا گویا شمس کی مانند طلوع ہوا 
تو فرمایا گیا 
والسماء والطارق 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ چمکتے ستارے ہیں جنہوں نے نور کی یہ منازل طے کی ہیں 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ رشد و ہدایت پے فائز ہیں 
اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ "النجم ثاقب " سے ایسے لاتعداد ستارے نکلیں گے اور فرمایا گیا 

انا اعطینک الکوثر 

تشکر عظیم کے لیے کہا گیا قربانی و نماز کا ..نماز تو محویت کا حال ہے 
محویت عشق کمال کا عالم 
عشق ہو تو قربانی لازم 
تو دی ہے نا قربانی چار یاروں نے 
مگر قربانی کی منتہی امام حسین علیہ سلام سے 
وہ پاک بابرکت ذات جو ستارے پیدا کرکے،  ان کو منور کرتی رہی 
اس ذات پے لاکھوں سلام اورسلام درود پنجتن.پاک  پے،  اصحاب و ال نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
تری نسل پاک میں بچہ بچہ ہے نور کا

وجے دل والی تار، کلام وی ہووے لکھ بار، جیویں چن دی چانن ایویں محبوب دے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم دی روشنی، جتھے نور محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بس جاوے، اوتھے شمع ہدایت دی بال دتی جاندی اے. اوتھے تو "تو "میں "دا سیاپا ہوندا نئیں. بس ادب نال کھلو جاوو تے مل جاووے یار 

رب نے قسم کھائی والسماء والطارق 
جیویں آسماناں تے اووہی، جیہرا آپ آپ آسمان 
تے صبح سویر جیہڑا تاراچمکدا پئیا اے، اوہدا ناں محمد 
ساہڈا رب سانوں کہندا میں تعریف کرنا محمد دی، صلی اللہ علیہ والہ وسلم، میں ً درود بھیجنا ناں  ...

 ایہو تے درود اے کدھی یسین، کدی حـــــم، کدی طٰہ، کدی مزمل، کدی طســـــم، کدی حـــمعــــسق، تے کدی الــــــــــم، تے کدی المــــدثر 

ایڈا سوہنا درود کوئی پیج سکدا؟ پیج کے وکھاؤ، رب رب اے، اوہدی ذات وکھو وکھ اے ...


مطاف ‏کے ‏سامنے ‏کھڑا ‏انسان ‏

مطاف کے سامنے کھڑا انسان، ہاتھ اُٹھائے گڑگڑا رہا تھا ... 

اسی کا عکس تھا، مکان میں مگر اور خاک کے پنجرے میں.کیا بچا تھا ... وہ سجدہ ریز تھا مگر التجائے حرم کو سوچ محرمانہ تھی. زندگی نزع کے پأل پے چل رہی تھی اور ہر دم موت نے لذت سے سرشار کردیا تھا ..  

وہ پھر سجدے سے اتھا مگر وہ دیکھ رہا تھا اپنے عکس کو، مصطفوی نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہالے میں.  گویا طائر کو وہاں بلایا جاتا ہے ...

اس نے ٹہلنا شروع کردیا اور ٹہلتے ٹہلتے ہڈیاں جواب دینا شروع کردیں.   

وہ مقام کربل پہ بیٹھا تھا اور سلام پیش کرتا رہا 

حسین حق ہے اور حق "لا " کیسے ہو 
حسین باقی ہے اور باقی فنا کیسے ہو 
حسین  بادشاہ ہے اور بادشاہ حکومت کیوں نہ کرے 
حسین صبح کا وہ تارا ہے، خدا قسم کیوں نہ کھائے 

والسماء والطارق  ...النجم الثاقب 

وہ ٹہلتے ٹہلتے بیٹھ گیا، گویا نیند میں ہو مگر وہ سویا تو نہیں تھا وہ تو شاہ نجف کے پاس تھا ... 

یہ چمکتا ستارہ دن میں نمودار ہوتا ہے اور رات کی سیاہی سے ابھرتا ہے ... یہی تارے روشن ہوگئے 

وہ تو نہ رہا اور خودی نہ رہی، جبین سجدے میں فقط طلب یار میں محو رہی. یہ فنا تو نہ تھی تو بقا کا سوال کیسے آتا ... چمکتا تارا طلوع کیسے ہو جبکہ اندھیرے کو روشنی چاہیے.

تخلیق ‏ہو ‏رہی ‏ہے

تخلیق ہو رَہی ہے ...
کیسے؟  
کون کر رہا ہے؟
کس کی ہو رہی ہے؟  
وہ جو مالک ہے کُن صاحبِ اسرار ہے،  
دیکھ رَہا یے،
سُن رَہا ہے،
سَمجھ رہا ہے،
یا ھو!  تمہید باندھی ہم نے 
ہائے ھو میں پکارا تمھی کو 
لا بھی ھو بھی،  انوکھا راز ہے 
سمجھ رہی ہوں کہ میں نے کس دن سے،  کب سے،  تمھارا نام دل کی دیوار پہ لکھا تھا 
دل کی دیوار پر سنہرا تھا رنگ تمھارا 
لگتا تھا کہ لال شفق پر کوئی بیٹھا ہے مانند شمس 
تو شمس کو دیکھا، کھوگیا قمر 
تو کھونے سے زمین میں لاگی گردش 
نہ ہستی رہی،  نیستی میں اسکی ہستی 
مستی رہی،  پستی میں وہی ہے 
کیف نہیں یے، کیفیتات ہیں 
دل ہائے اسرار کا مرقع ہے 
دل کے قران پاک پہ سطر سطر میں اللہ اللہ لکھا ہے 
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 
جگہ ترے لیے ہے 
دل فقط ترے لیے ہے
اور اسکی کرسی کو دل میں قرار ہے 
وسعت جس کی سماوات تک ہے 
دل عرش سے صبح فرش تک بس اک صدا

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ

ہستی شہود را سے مستی ہنوز را تلک فقط مالک کی صدائے ھو سنی ہے

سن لیا ہم نے نار میں کیا ہے، ھو کی صدا ہے 
سن لیا ہم نے فلک زمین کو بلاتا ہے،  ھو 
سن لیا ہم نے چاند و زمین کا نغمہ، ھو 
سن لی چرچرانے کی صدا میں،  پتے پتے کی ھو 
سن لی عشق ازل سے ابد کی صدا ھو 
نیستی میں نہیں کچھ بس وہ ہے 
ہستی میں وہ ہے، نہیں کچھ اور 
دل از لامکان تلک رفتار میں ہے 
خلائق جانب خلق گفتار میں ہے 
حالت سے حال کوئے یار میں ہے 
خانہ کعبہ دل کے اسرار میں ہے 
رنگ رنگ جو ہے،  وہ یار میں ہے 
زنگ اترے، کیا بات پیار میں ہے 
جا،  دے آ دل،  دل وار میں ہے 
لے، نکال نیام جو تلوار میں ہے 
رویت میں ہے،    گفتار میں ہے
مست، خراماں سے وقار میں ہے
جالی کے سامنے اظہار میں ہے 
اشک اشک، حال زار زار میں ہے
چلا وہ نغمہ جو ستار میں ہے 
رہ وضو میں، کیوں قرار میں ہے 
جنون ہے، جنون کوئے یار میں ہے 
پھیلی خوشبو، وہ جو ہار میں ہے 
دیکھی رنگ، جو چنر لعل میں ہے 
کیا ہے شوق نے راہ کو  معشوق 
عشق و معشوق ساتھ ساتھ ہیں 
یہ عشق دوئی مٹانا کا بہانا ہے 
یہ عشق ملنے کا اک سیاپا ہے 
ملن کے واسطے،  فسانہ ء جہاں 
ملن کے واسطے،  سجا یہ آستاں 
دل،  نمانا سمجھا نہ اسکے نشان 
محمدی نور میں عیاں ہے جہاں 
میم کے رنگ میں الف لازوال ہے 
الف میں الف کی مثالیں نہیں ہیں 
میم سے نکلیں ہیں سو ذاتیں
میم سے پھیلی ہیں کائناتیں 
میم نے کی سج دھج رگ جان میں 
میم سے پہچانا اللہ کا بیان 
میم سے جانا اللہ کا  ہےقران 
میم تو خود چلتا پھرتا قران  
میم کے واسطے یہ ہے جہان 
میم سے ملی شمس کو بینائی 
میم سے ملی قمر کو رعنائی 
میم سے ملی بحر کو روانی
میم سے ملی موجوں کو طغیانی 
میم سے ملی عشق کی کہانی 
میم سے ملی حسین کی قربانی 
میم سے ملی فاطمہ کی نشانی 
میم سے ملی اللہ کی مستانی 
میم سے کار جہاں دراز ہے میاں 
خودی کو سرفراز کیا ہے میاں