Wednesday, March 3, 2021

وہ ‏حبیبِ ‏زمانی ‏ہے

وہ حبییب زمانی ! اس نے کہا نور میرے ساتھ رہا کر ! میں اس کی پہلے سی تھی مگر آنکھ کی نمی بڑھا دی ! اس نے کہا نور عشق تیرا ہے ، تو مریض ہے ، تو محبوب ہے ، درد بڑھا دوں ؟ میں نے کہا کہ تو،تو ہے میں تیری ہوئی تو  جیسے تو رکھے مجھے راضی ، سرجھکا کے نیزے پر چڑھا یا نفی میں گم کرتے اثبات کرااور سر کٹوا دے ! مجھے تیرے ہونے نے کمال کی بلندی عطا کردی ہے ! اس نے کہا کہ تو نے میری جستجو کیوں ختم کردی ! میں نے کہا میں نے خود کو ختم کردیا ! سب نفی ہوگیا اور کیا جستجو کروں ! اس نے کہا چل میرا طواف کر ! میں نے کہا اس سے کبھی فرصت نہیں ملی ہے ! وہ کہتا رہا کہ نور تو میری ہے اور میرے روح نے چیخ ماری ۔۔۔میرے درد میں لامتناہیت شامل کردی گئی ! ہائے ! ہائے ! کہاں جاؤں ! کس سے کہوں میں درد کی کہانی ! یہ سمجھ کسی کو آنا نہیں ! جس کو آنا ہے ،اس نے سننا نہیں ! وہ کہتا ہے میں تجھے بھگو بھگو کے ماروں یا ذرہ ذرہ نڈھال کردوں ،تجھے فرق پڑے گا !میں کہتی ہوں کہ میرے محبوب ! قسم ہے تیری ذات کی فرق پڑے گا ، میرے ہر ذرے کو نور دے دے ، اس کے لامتناہی ٹکرے کر ، اِن کو  رلا رلا کے ، تپش دے دےکے مار  ! ان کو دھوپ دے مگر ابر نہ دیوں مالک ! ان کا عشق بڑھائیں مالک ! میرے ہر ذرے کو عشق میں دے دے نا ! مجھے فرق نہیں پڑے گا !  میں نے تجھ سے تجھے مانگا ہے نا مالک ! دنیا والے تو دنیا مانگتے ہیں ، عشق والے  تجھ سے وصل مانگتے ہیں میں نے تجھ سے ہجر مانگا ہے کیونکہ جو ہجر تیرے پاس ہے وہی لینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی سہنا ہے ! وہی لیتے لیتے، مرتے مرتے تیرے پاس آنا ہے ۔مجھے خود میں گمادے ، اپنی ولایت عطا کردے ! میں تو ،تو میں ! کیا فرق ہے مالک! تو میرا ہے میں تیری ہوں !
 اندر بڑی آگ ہے سائیں !
اندر بڑی تڑپن ہے سائیں !
 اندر سب نیلا ہے !
 نیلاہٹ اور دے دے نا !
مجھے نیل و نیل کردے نا !
 اندر روتا ہے ہر پل ،
  عطائے بے حساب کردے نا !
مجھے اضطراب کی انتہا دے دے !
  کھوٹ  دل سے نکال دے !
  دل میں اپنے سوا تو کچھ بھی نہ رکھ !
 دل میں تیرے سوا کوئی بھی نہ ہو!

تیری ذات بڑی بے نیاز ہے ۔مجھ جیسی ذات کی ذلیل و کمینگی میں پھنسی کو اپنے عشق کی دولت سے نواز دیا ۔میں کیسے ے  بتاؤں دنیا والوں کو ۔میں اب ذلیل نہیں ہوں ۔''تو جسے چاہے ذلت دیتا ہے ،تو جس چاہے عزت دیتا ہے '' میں ذلت و رسوائی کا تاج پہنے ہوئے مگر میرے سر پر تاجِ بے نیازی ہے ۔مجھے عشق کی خلافت کا میں بادشاہی دی گئی ہے ۔ لوگو ! تم کیا جانو ! مجھ پر کرم کی انتہا ہوگئی ہے ۔ اس نے مجھے اپنا دوست کرلیا ہے ۔ وہ جب خوش ہوتا ہے نا مجھ سے !!! میرے اندر انہونی خوشی کی لہریں پھیلا دیتا ہے اور پھر سمندر  شور بھی کرے نا تو اچھا لگتا ہے ۔اس شور کی آواز میں موسیقی سنو ! یہ آواز دیتا ہے تو میں لکھتی ہوں ،یہ مجھے نغمہ دیتا ہے میں سر بناتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ ! کون جانے محبت کا درد ! کون جانے عشق کے ہجر کی لذت ! جو جان جائے اس کو درد کی شدت میں ،جلن میں ایسا مزہ ملتا ہے کہ درد ہی اس کے لیے عید ہوجاتا ہے

تو شہ یار ہے

تو ابرار ہے

تو پالنہار ہے

میں قلم تیری

تو میرا علم ہے

میں عاشق تیری

تو میرا عشق ہے

میں تجھے چاہتی ہوں

یا تو مجھے چاہتا ہے

کیہ فرق کراں مولا!

کیہڑا فرق تو جانڑاں

مجبوریاں دا ایہہ ویلا

یار دے سنگ منانا

اندر تیڈھی کائنات

وار وی تیڈھی کائنات

تو کیہڑا   میرے توں دور

میں تیڈی یاد وچ مخمور

اندر کتنے غم سائیں

اندر تیرے غم سائیں

زندگی نے مجھے یار کے پاس چھوڑ دیا ۔ میں یار کے سامنے مدہوش ہوں مگر دنیا کے سامنے میرا لباس لہولہان ہے ۔ یہ عشق بیانی میرے رقص کی داستان ہے ۔اس درد کا بیان کیسے ہو ۔ میری ذات کو بسمل بنادیا ہے ۔۔۔ تڑپ رہی ہوں مگر میرے زبان اس کو پکار رہی ہے ۔۔

اے عشق ! سر جھکا ہے

اے عشق ! وہ ملا ہے

اے عشق ! رقص بسمل کر

اے عشق ! آگ پر چل لے

میٹھا درد سہانا ہے ۔ آہ نکلتی ہے نا ہائے ! بس جی چاہتا ہے میں عشق ، عشق کہوں ۔۔مجھے عشق ہوگیا ہے ۔۔۔میں اس کی ہونے چلی ہے ، اندر شادی کی کیفیت ہے ۔ میری زنجیر اس کے ہاتھ ہے ، اس نے اب زنجیر اپنی جانب کھینچ لی ہے ! وہ کھینچتا جارہا ہے اور مسرت سے دل تلخی سے بھرتا جاتا ہے ۔

عشق حلاوت میں کڑواہٹ ہے ۔

عشق کڑواہٹ میں حلاوت ہے

عشق خون ریزی کی علامت ہے

عشق ، عاشق کی جلالت ہے

رقص بسمل کر اور چل جا زمانے

لٹا دے خاک پھر پھر پاس میرے

ہم کو پاس بلاتا ہے اور پھر بھیجتا ہے ! وہ کیسا یار ہے جس کو ہم محبوب بھی ہیں ، ہمیں بلاتا ہے مگر پھر ہم کو امتحان میں واپس بھیج دیتا ہے


Tuesday, March 2, 2021

ساقی ‏تری ‏محفل ***‏

کسی ظالم کا حسن بھی ظالم ہوتا  وہ حسن کی وجہ سے ظالم ہے. خطاب اپنے آپ مخاطب کی جانب لیجائے تو کشش بے جا نہ ہوگی. پھر کہو گے 
ظالم، محفل لوٹ لی 
بولو کیسے ؟
ارے حسن خوابناک ہے زکوہ نکلے نا حسن کی تو تسبیح کیسے ہو؟ 
چل پھیرے لگا 
چل کوچہ جاناں 
چل طواف کر 
مطاف میں بیٹھو 
سلام پڑھو.
تسبیح ہے 
مسجد ہے 
واج بھی یے 
ساز بھی ہے 
کافر کو بولو. ظالم تو نے پی نہیں 
ہم پی لیں گے میخانہ. ہم کو نہ کہیو ساقی ، 
ساقی تری محفل کی شان نرالی 
ساقی تو نے جبین کس جا جھکالی 
ساقی تو نے کہا ساقی تو ہوگیا 
ساقی ہوش خراباتی میں ، رند خراباتی 
ساقی تقسیم نہیں یے ساقی تجسیم نہیِ یے 
ساقی خواب نہیِ ہے ساقی سہاگ نہیں یے 
ساقی شام نہیں ہے ساقی چراغاں نہیِ یے 
رند چل اٹھ طواف کر. چل بیٹھ اللہ بے بلایا 
چل اللہ بلائے سلام پیش کیے جا 
چل رونق لگا چل واپس نہ جا.
چل شوق امام رکھ چل پیار سے رہ 
چل محبوب رہ چل محبت کر .
چل جا جانب طیبہ خاک لے لے .
چل جا جانب بطحا آنکھ لے لے 
آنکھ کا سودا ، اللہ لو اللہ لو اللہ لو 
لو اللہ اللہ 
حق اللہ
 

تری پرواں کرن گیا واواں 
تو چھپر اتے کنڈی لاچھڑ 
کتھے چانن نہ ترا لک جاوے 
آساں امیداں دے دیوے بلن 
درد ملے، درمان ملے، ماں ملے 
تینوں سب تو یاری نہ پلے ہوگی 
یار نے یاری واسطے بلایا اے 
مرا دل انہے میتھوں لکایا وے 
میں کیہ جانڑاں درداں دی 
جانڑے گا اے زمانہ



آپ آوے،  آپ مستور 
آپ کعبہ،  آپ دستور 
آپ مانگ،  آپے سندور 
رب تو ملیا ملسی ضرور 
رگ جاوے رگ آوے سرور 
ایسی مانگ دا سودا بھر 
 پا کے ڈبدی جاوے تو تر
سر دا سودا منگدے نہ زر 
بچ جاوے کہ آس ہے نرا شر

اللہ ‏کی ‏اطاعت

اللہ کی اطاعت
نور حجاب کی بات ہو یا نور انسان کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمانی کی بات ہو یا بشریت کی ------------مٹی کی بات ہو یا روح کے امر کے ----------- سب میں ایک راز پنہاں ہے ۔ انسان پر جب تیسری آنکھ کھُلتی ہے اصل راز کھلتا ہے کہ اندر کی دنیا پر حجاب دراصل تیسری آنکھ ہے اور جس کی تیسری آنکھ بیدار ہوگئی ------------اس نے حقیقت کی جانب قدم رکھ لیا -------وہ قدم جس کی سیرھیاں خار دار تاروں سے بھرپور ہیں ، جن پر مسافروں کے نقش پا ہیں ۔۔کچھ لوگ نقش پا کی کھوج میں وقت برباد کر دیتے ہیں اور کچھ قدم قدم دھیرے دھیرے رحمان کی جانب قدم بڑھانا شروع کردیتے ہیں ۔ کچھ لوگ فیاضی سے تو کچھ لوگ عفو سے تو کچھ لوگ اخلاق سے اللہ کو پاتے ہیں ۔ سب سے کامل درجہ اخلاق کا ہے جس نے خلق کو اپنے اخلاق سے مسخر کرلیا اس پر تمام حجابات کے نقاب اتر گئے اور راز کے انکشاف اس جہاں پر لے گئے جس کو روح کی معراج کہا جاتا ہے ۔ نصیب والے ہوتے ہیں جو اس دنیا میں وصل عشق میں ہجر کے بعد وصال پاتے ہیں گویا وہی دیدار الہی کے سچے حق دار ہیں اور روز قیامت ان کا درجہ شاہدوں سے بڑھ کے صدیقوں میں ہوگا -------------اللہ کی حکمتوں کی شہادت ہر ذی نفس دیتی ہے مگر اس کی جانب حجابات ہر روح پر دور ہونا بہت مشکل ہے ۔ اس راہ میں بڑے بڑے پھسل جاتے ہیں ۔

ذکر اللہ کا
نام اللہ کا
کام اللہ کا
جلوہ بھی اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں اشکوں کی لڑی ہو
دل کی زمین میں نمی بڑی ہو
محبوب کی یاد دل سے جڑی ہو
دل کی حالت سٰیخ کباب کی سی ہو
حیرت کے مقام پر غلام کھڑی ہو
عطا تیری جنبش کی منتظر میں ہے
کرم کی اب سوغات دے دے


کسی کو یہ جلوہ لیلی میں مل جاتا ہے تو کسی کو یہ جلوہ محبوب کے محبوب میں مل جاتا ہے ۔ نبی پاک صلی علیہ والہ وسلم کے امتی ہونے کا ایک فائدہ ہمیں حاصل ہے ۔ موسی علیہ سلام کو اللہ نے کہا کہ موسی تم مصطفی صلی علیہ والہ وسلم کی آنکھوں میں دیکھ لینا ------تجھے رب کا دیدار ہوجائے گا------------جبکہ نبی کے امتی اس پر فوقیت لے گئے ۔ ان کے راستے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم سے جڑے ہیں ۔۔۔۔ جب ان کے نقش پا کو ہم اس راستے میں پاتے جائیں گے تو ہم بھی اس منزل تک پہنچ جائیں گے جس مقام پر میرے مصطفی صلی علیہ والہ وسلم پہنچے کیونکہ ان کی اتباع و پیروی ان کے راستے پر چلنا ہے ۔ بے شک محبوب جیسا کوئی نہیں ہے اور ناہی ان جیسا کوئی ہوگا مگر ان کے راستے پر چلنا عین عشق ہے اور اس راستے میں صعوبتوں کو برداشت کرنا عین الرضا ہے ۔ اس لیے اللہ تک پہنچنے کا راستہ نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی


محبت کی انتہا ہے عشق
نفس کے انکار میں عشق
حق کے ہے اقرار میں عشق
شوخی و ہیجانی ہے عشق
بے سروسا مانی ہے عشق
جستجو کا قصہ ہے عشق

Monday, March 1, 2021

میں ‏حسن ‏مجسم ‏ہوں ***‏

میں حُسنِ مجسم ہوں 
کبھی کبھی تعریف کرنے کو دل چاہتا ہے میں خود کی تعریف کروں کہ میں حُسنِ مجسم ہوں ۔ ویسے تو ہر کوئی حُسن پرست ہے مگر میں کچھ زیادہ ہی حُسن پرست ہوں۔ گھنٹوں آئنہ دیکھوں مگر دل نہ بھرے ۔ میں نے آئنہ دیکھنا تو بچپن سے ہی شروع کیا کہ ہر کوئی پچپن سے کرتا مگر اپنے حسین ہونے کا احساس بچپن سے ہی جڑ پکڑ گیا کہ میں نور مجسم ہوں۔ میں حسین اور مجھ سا کوئی حسین نہیں۔ سوا اپنی حسن پرستی اور خُود نمائی کہ کچھ نہیں ۔ کچھ عرصہ ایسا گزارا میرے دل نے آئنے کے سامنے کھڑا ہونا چھوڑ دیا مجھے لگا کہ میں حسین نہیں ہوں ۔ میں سدا کی حُسن پرست ، جمال و ذوق کی خاطر اپنا نقصان کرنے والی ، ایک دن دنیا کی خاطر اپنے ذوق کا نقصان کردیا۔


آج میں کھڑی ہوں آنئے کے سامنے اور صبُح سے تک رہی خود کو۔۔۔ سوچ رہی ہوں میں کتنی حسین ہوں ، مجھ پر سحر سا طاری ہو رہا ہے جیسے میں کسی جھیل کے کنارے کھڑی ہوں ، اور ندی کی جھرنے میں سے میرا عکس میرے ہوبہو کھڑا مجھ سے باتیں کر رہا ہے اور میں ان جھرنوں کی موسیقیت میں خود کو سمو لے کر پُھولوں کی مہک محسوس کرتی ہوں میرا تن من مہک جاتا ہے ۔ گُلاب کی خوشبو کی میں شُروع سے دیوانی۔۔۔!!! مجھے خوشبو پاگل کر دیتی ہے 

یہ میری خود پسندی نہیں ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے ہر بندہ خوبصورت ہے کہ نگاہ میں ہو خوبصورتی بس! تلاش کو گر خوبصورتی کی مورتیں ۔۔۔کہاں ملیں گی ؟ کھوج لو یہ مورت اندر ! مل جائے گی خوبصورتی ۔۔ اس کی قیمت ابدی ہے ۔ یہ ویسے ہی خوبصورتی ہے ، جیسا کہ دنیا میں ہر سو باد ک جُھونکوں نے اشجار کے پتوں میں آواز پیدا کر دی ہو۔۔۔ ہواؤں نے گُلوں کی خوشبو جہاں میں مہکا دی ہو ۔ ندیوں نے پانی کی غزل بنا دی ہو۔ پرندوں نے موسیقی سے تال ملا دی ہو ، پہاڑوں نے کوئی گواہی دی ہو تب۔۔۔۔۔۔۔!!! گواہی دی ؟ ہاں دی !

کس کی گواہی ؟ حُسن کی گواہی !

''میں'' کہ اس وادی میں، جہاں سب مظاہر میری تعریف کرتے ہیں کہ ''میں'' ہی سب کچھ ہوں اور ''میں'' ایک حقیقت ہوں ۔ کیا حسین ہونا ہی خوبصورتی ہے ؟ میں نے کبھی خود کی تعریف نہیں کی تھی مگر آج جی چاہتا کہ تعریف کیے جاؤں اور کہے جاؤں کہ ''میں'' خوبصورت ہوں ۔ ''میں'' سرمدی نغمہ ہوں ۔۔۔!!!

میری اندر کی ''تو'' کی جنگ کو شکست فاش ہوگئی ہے ۔ کشمکش کو انجام ہونا تھا ۔ کشمکش انجام پا گئی ہے ۔ اس لیے اب کہ ''میں ''خود اپنے جمال میں محو ہوں ۔ انسان کتنی عُمر لے کے آیا ؟ کتنی لے کر جائے گا؟ بچہ پیدا ہوا معصوم ۔۔ لے کر آیا جمال اور واپس نہ جاسکا بحالتِ جمال تو کیا ہوگا؟


ابھی جمال میں محو ۔۔۔!!!


ابھی اشکوں نے شرر بار کردیا ! ابھی ندامت میں سر جھک گیا ! ابھی حلاوت نے فرحت ختم کردی ! ابھی رموز و آداب سے واقف نہیں ہوں۔ اس لیے اپنے آپ میں محو ہوں ۔ ابھی سجدہ کیا ! سجدہ کیا کہ معبود کا سجدہ عین العین ہے ۔۔۔ ابھی گُناہوں کی معاف مانگی ۔!!! انسان سمجھتا نہیں ہے کہ انسان جمال کا طالب ہے ، حسن کا مشتاق ہے ، پاگل ہے ، آوارہ ہے ، نہریں کھودتا دودھ کے ، کچے گھڑے پر بھروسہ ہوتا ، اور جانے کیا کرتا ہے ، حاصل ِ ذات اگر کامل ذات نہ ہو تو فائدہ ؟ مجھے شرمندہ ہونا تھا ۔۔۔ آج کے بعد کبھی خود کو خوبصورت نہیں کہوں گی؟ مگر کیوں نہ کہوں اگر میں خود کو بُھلا دوں تو؟ مجھ میں کیا رہے گا ؟ مجھ میں واحد رہے گا ۔۔۔ تو پھر کیوں کروں خود سے نفرت ؟ میں خود سے نفرت کیوں کروں کہ خود سے محبت آج ہی تو کی ہے

زندگی ‏میں ‏محبوب ‏کو ‏کہاں ‏کہاں ‏پایا*** ‏

زندگی میں محبوب کو کہاں کہاں پایا!
مجسمِ حیرت ہوں اور دیکھ رہی ہوں اس کو... سب نظر آتا ہے جیسے کہ بس نظر نہیں آ رہا ہے ، سب ظاہر ہے مگر ظاہر نہیں ہے . نقش نقش میں عکس میں ہے آئینہ اس کا مگر میری نظر کمرے میں موجود ٹیبل لیمپ کی طرف مرکوز رہی .

میں نے اُس کو یک ٹک دیکھا اور سُوچا اس طرح محبت مل جائے گی . مسکرا دی ! اور بہار کا عالم سا محسوس ہوا کہ اب بہار کا موسم رہے گا کبھی نہ جانے کے لیے مگر اس بہار کو محسوس کرنا ہے کیسے .... یک ٹک دیکھنے سے ؟

نہیں ! پھر کیسے ؟

کمرے میں موجود ہوں اور مقید ہو کے نظر جمائے لیمپ کی روشنی دیکھ رہی ہوں اور کبھی ٹیوب لائٹ سے نکلنے والی روشنی ... یوں لگا منبع تو ایک ہے مگر ... مگر ایک نہیں ہے ..دونوں میں رنگ کا فرق ہے ... قریب گئی اور ہاتھ لگا کہ دیکھا ... لیمپ قدرے گرم تھا .. احساس ہوا کہ جاؤں اور ٹیوب لائٹ کو ہاتھ لگاؤں .. اس کا لگا کے دیکھا مگر مجھے محنت کرنی پڑی اس کو ہاتھ لگانے کے لیے ..... میں نے بالآخر لگایا ہاتھ .... احساس فرحت بخش تھا ... !

خود سے بولی : احساس ایک ہی ہے مگر جمال ہے جلال ..... ! جلال ہے کہ جمال ... ! یہ کہتی رہی ہوں میں .... روشنی روشنی ... بس روشنی روشنی ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں اس کو کوئی نام دوں ... روشنی کا نام ہے پھیل جانا اور اس کا کام اجالے دینا ، اُجیارا کرنا ... سیاہی کو مٹانا ...

فرق سے یاد آیا...

ارے !! یہ تو وہی چاند اور سورج کی روشنی ہے ... چندا روشنی لیتا ہے اور سورج کا ظرف ..... !!! سورج کا ظرف کہ وہ دے کر خاموش ہے ...تعریف چاند کی ہوتی ہے... تمثیل چاند ہوتا ہے .... محبوب بھی چاند ....!

سورج کی تمثیل نہیں کیا؟

ارے ! ہوتی ہے بابا!!! ہوتی ہے ! بس اس تمثیل میں آسمان و زمین کے قلابے نہیں ملائے جاتے ..... ظرف کا فرق ہے نا !!! ظرف ... جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا وہ خاموش ہے اور جو ہوتا ہے سمندر ... وہ خاموش رہ کر تصور باندھے رکھتا ہے چاند کا تو کبھی سورج کا اور سورج کا ہو کر چاند کو دیکھتا ہے کہ چاند ! کہ چاند ! تیری حقیقت کیا ہے ؟ کتنا غرور کرلے گا تو ؟ جتنا بھی کرے مگر اس پر کر .... ''دین'' تو ایک سے ہے اور لینے کا سلیقہ بس یہی کہ محبت میں رہے بندہ عاجز......!!!'

چاند گردش کس لیے کر رہا زمین کے گرد؟ کس لیے ؟ بتاؤ نا !!!

وہی تو .... لینے کا سلیقہ ہے اور دینے کا بھی ... اس ہاتھ لے اور اس ہاتھ دے ..... ملتا بھی تو ایسا ہے کہ فرق محسوس نہیں ہوتا کہ مل رہا ہے یہ چاند دے رہا ہے..


روشنی کی مشقت ! یا روشنی سے مشقت !

دونوں کرنی پڑتی ہیں... دونوں سے زندگی چلتی ہے جسم سے سرمدی نغموں کی لہریں نکلتی ہیں کہ نغمے کہاں سے آیا.... نغمہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے ... صدی بھی پل پھر کی ہوتی ہے یا پل میں صدیاں ... اور فاصلے کو کب ناپا جا سکتا ہے ... فاصلے بس فاصلے ... چلتے رہتے ہیں قافلے .... قافلے کو چلنا چاہیے کہ محبوب تو ایسے ملتا ہے ... نہ ملیں تو دکھ ، دکھ اور اس کے سوا کچھ ہوتا بھی نہیں ہے.... فاصلوں کا تکلف ... ہمیں کیا غرض ... ہمیں غزض ہو صرف اور صرف قافلے سے کہ جس کی سوچ پر چلنا ہے کائنات کا رُواں رُواں ... اس میں شمولیت کا ہونا عجب نہیں کہ عجب نہیں کائنات کے اس نگار خانے میں ... کوئی بیکار شے بھی کیا ہے کائنات کے اس کارخانے میں ؟؟؟

ارے ! ارے ! نہیں نہیں !!!! کچھ بھی نہیں ہے بیکار ! کچھ بھی نہیں ہے بیکار اس کارخانے میں....


کیا درد کا احساس بیکار نہیں ؟ کچھ بھی نہیں کہ دو پل کی زندگی ہے ، خوشی میں گزار دے اور جا نا ! جاکے عیش کر ! چار دن کی چاندنی ہے ...! گزار دے !

درد ! ہائے ! یہ درد ! جب سے محبوب جُدا ہوا ہے ،،،زمین تھم جاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ تھم دل بھی گیا ہے مگر اسی تیزی سے گھومتا ہے کہ صُبح کی نوید کوئی استعارہ ملے ....!!! کوئی اشارہ اور حوالہ ! یہ دنیا ہے ... دن اور رات کا چکر دنیا .... اس لیل و النھار کے چکر سے گھبرا مت .....!!! رات دن کی مجنوں اور دن رات کو لیلیٰ کی طرح چاہتا ہے ... رات کو دوام چاند سے ہے ... چاند کا رشتہ سورج سے ہے .... سورج روشنی ہے ! کون جانے گا اس روشنی کا.... کوئی کہے محشر کی گرمی ہے وصال میں اور کوئی راحت ہی راحت ہے چاند کے دیدار میں.... کون جانے درد کے کتنے چہرے ہیں ... کون جانے سب سے خوبصورت درد کا چہرہ .....؟

سب سے خوبرو چہرہ محبوت کا ہے.... سب سے پیارا درد کا چہرہ محبوب کا ہے .... اس کا احساس درد ہے ، مگر اس احساس سے دوامیت ملتی ہے ..... کون جانے گا اس محبت کے درد کو.... درد خوشبو ہے ، درد راحت بھی .. درد پیغام بھی ، درد الہام بھی ، درد اشکال بھی ، درد جمال بھی ، درد جلال میں.........کون جانے ! کون جانے ! کوئی نہ جانے ! جو جان جائے وہ کیا بتائے ! آہ ! درد بہت پیارا ہے............! اس درد کو میں اور آپ کیا محسوس کریں گے .....!

درد --------محبوب ---- روشنی

کیا تعلق درد کا روشنی سے کہ درد محبوب سے ملتا ہے ........ !!! جب تک ! جب تک درد نہ ملے ، آگاہی ہوتی نہیں ہے . اس کا انعام سمجھ اور تقسیم کو اکرام سمجھ ... اس تقیسم پر جہاں مرتا ہے ... مگر ہر کوئی مراد کہاں پاتا ہے .... راضی ہو جا اُس سے ، جو تجھ سے راضی ہے ... اس کی رضا میں سر جھکا ! سر جھکا ، مگر چھلکا کچھ بھی نا! جب جھکے گا سر ، تب ملے گا پھل ... اور جب ملے پھل تب کھلے گا اصل ... سب ایک ہی سے جڑا مگر مقصد جدا جدا ہیں...اصل اصل ہے اور نقل نقل ہے ..


مٹی کیا ہے َ؟ کیا ہے مٹی ہے؟ کچھ بھی نہیں ہے مٹی کی حقیقت .... کچھ بھی نہیں ... بس مٹی ایک ملمع ہے ، ایک پانی ہے ملمع کاری کا... بس اور کچھ نہیں .. نقلی چیز کون پسند کرتا ہے ...کوئی نہیں... سب سونا خالص مانگتے ! اور سونا خالص ہر جگہ ملتا نہیں ہے ....! جہاں ملے وہاں عطا ہوجاتی ہے ..


میرا سوال پھر بھی ادھوارا ہے کہ محبوب کو میں نے کہاں کہاں پایا ہے .....َ؟

سب کچھ سامنے ہے اور سوال پر سوال... غور کرآلے کچھ ... فکر کر لے کچھ.... محبوب کو درد میں پایا کیا؟ محبوب کا احساس میں پایا کیا؟ محبوب کو مظاہر میں پایا کیا ہے ؟ محبوب کو دل میں پایا کیا؟ اگر پایا تو سوال بڑا لا یعنی ہے اور نہیں پایا تو سوال بے معنی ہے جس کی تُک نہیں ... سب کچھ پکی پکائی کھیر نہیں کہ آنکھ چاہے ، دل مانگے جو وہی مل جائے ... بس جب فکر کی جائے تو آنکھ سے پہاڑ کی طرح کچھ بھی اوجھل نہیں ہونا.... بس راضی رہ ! راضی کرنا بھی سیکھ! خوش رہ اور خوش کرنا بھی سیکھ ! شکر کر اور شکر کرنا بھی سیکھ! چلتا بھی رہے اور ساکت رہنا بھی سیکھ کہ پانی بہتا بھی ہے اور ساکت بھی ہوتا ہے ، شور بھی مچا موج کی مانند اور خاموش بھی رہ سمندر کے جیسا...!!! درد لینا بھی سیکھ ، درد کو سمیٹنا بھی سیکھ ..! سیکھ سب ... فکر کر کیا کیا سیکھنا اور پھر جستجو کر

اک ‏سمت ‏سے ‏دوجی ‏سمت ‏چلی ‏میں*** ‏

ایک سمت سے دوجی سمت چلی میں

سوچ مقید ہو نہیں سکتی
روشنی بند ہو نہیں پاتی
خوشبو ہر سو پھیلتی ہے
سورج دن کو نکلتا ہے
کام سب چلتا رہتا ہے
ڈھنگ بدل جاتا ہے
آئین اسلامی ہو جاتاہے
جسم روحانی ہوجاتا ہے

حضرت محمد ﷺ کی جب بات ہوجائے ، ہر سمت خوشبو پھیل جاتی ہے۔ دل میں مناجات رہ جاتی ہیں  جو بعد میں حمد و ثناء میں ڈھل جاتی ہیں۔ آنکھ کا سُرمہ زائل ہوجاتا ہے ۔ بصیرت کھو بھی جائے تو غم نہیں ہوتا کہ سب کو فنا  ہے اور اگر کسی کو  فنا نہیں تو وہ ذات نورانی ذوالجلال ہے۔ اس ذات سے روشن سب ہیں ۔یہ رُوشنی سب میں موجود ہے مگر اس کو ڈھونڈنے کی سعی کوئی نہیں کرتا ہے ۔۔۔۔۔! اے میرے مولا کریم ! کچھ گُنہ گار ، سیہ کار کی عرضی سُن لے ۔۔

اے میرے مولا!
نمیدہ دل کو فراخ کردے!
میرے درد کو خاص کردے!
سینے میں آگ بھر دے!
آگ میں بھسم کردے!
میری راکھ جل جل کے،
بکھر جائے ہر کونے میں،
ذرہ ذرہ روئے بچھونے کو،
راکھ کے ہر حصے میں،
اے نورِ ازل!
اے نورِ ابد!
لکھ دے اپنا نام۔۔!
میری کچھ نہ ہونے پر۔۔۔!
لکھ دے، لکھ دے  نام اپنا ۔۔۔۔!
ترے کرم کی تجلی سے۔۔!
میرے دل کی ہر دھڑکن ،
رقص کرے بن کے بجلی،
ہوش کھو جاؤں ،
مدہوش ہوجاؤں،
ترے عشق میں ۔۔!
ہست کھو جاؤں!

اے مالک !
اے خالق!
اے رازق!
اے لم یزل!
اے حسن حقیقی!
اے دل کے نور!
اے جلیل !
اے حبیب!
میری آرزو اب یہی ہے!
آپ سے آرزو رہے میری!
محبت کی نشے میں گم ہوجاؤں!
عشق کی ہستی بن جاؤں!
گمشدہ بستی بن جاؤں!
کہ آپ کو بقا ہے!
اور مجھ کو فنا ہے!
اور مجھ کو فنا ہے!
فنا کی مٹی کو مالک،
فنا کی مٹی کو۔۔۔۔۔۔!
اپنے عشق میں نچا دے،
ایسی جلن اور مزہ دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

خیالات کی باتیں کبھی کبھی نثر میں اچھی لگتی ہیں ۔۔ کچھ نثری باتیں ہیں اور ان میں شامل موسم کی سوغاتیں ہیں ۔ انسان کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں ،، سوا راکھ کے ، اگر جل جائے عشق میں تو پروانہ بن جائے ۔۔۔ کبھی جلے تو بات بنے ۔۔ کبھی تو دل کے دیے جلیں گے ۔۔ کبھی تو شمعیں روشن ہوں گی ۔۔۔ اور دل کی مسند احد اور اُحد کا کلمہ پڑھے گی ۔ساتھ ساتھ اس کے محبوب کی باتیں کرے گی کہ مالک تک پہنچنا ممکن ہے تو اس کے محبوب ------رحمت اللعالمین کے ذریعے پُہنچا جاسکتا ہے ۔۔۔۔میری زندگی کا لفظ لفظ ان کی ثناء میں گزرے کہ اب یہی صدا میری ہے

شافی محشر۔۔۔!
ساقی کوثر۔۔۔!
والی کون و مکاں!
ہم چلے جہاں جہاں !
ذکر آپ کا وہاں وہاں!
صدیق و امین کے بیاں!
ہم نے سُنے یہاں وہاں!
محبت کا میٹھا کنواں!
کینہ کردے دھواں!
سچائی کے ہیں قالب!
نور پر نور کے جالب!
اے قاصد برحق!
در پر کھڑی ہے سگ!
سنہری جالیاں تکنے!
کاش روح لگے دمکنے!
نور کی بارش ہو جائے!
دیدار کی حسرت ہو پوری!
دنیا بے شک رہے ادھوری!
زندگی کے سب رنگ!
چلنے لگے تیرے ڈھنگ!
میرا دل و جاں و روح!
یک دل و جاں و روح!
پیش کرتے ہیں سلام تجھ کو!
بھیج رہے درود کا نذرانہ !
قبول کرلیں نذر عاجزانہ!

دل کی صدا کبھی کبھی'' یوں'' بھی ہونے لگتی ہے کہ اس صدا میں خوشی و شادمانی کی لہروں کے ساتھ بے قراری رگوں میں ڈورتی ہے اور دل پکارتا ہے


ترا دل اسم محمد سے چمکے!
سبھی ستارے اس دم سے دمکے!
یہ اسم بڑا ہے نورانی و سبحانی!
نہیں اس جیسا کوئی جہاں میں لاثانی!
دل کی کثافتیں دھوئے گا یہ اسم!
تری ذات کو چمکائے گا یہ اسم!
جس دل میں اسم محمد کا ہو ورد!
اس دل میں رب ہے بسیرا کرے!
طوفان میں دے گا کنارا یہ اسم!
معطر گلاب کی مانند ہے نام ِمحمد!
سجدہ شکر اسم محمد کی عطا پر کر!
ذات کا اسم اعظم ہے نام محمد!
۔۔۔۔۔
ایک سمت سے دوجی سمت چلی میں ۔۔۔!
         بن کے ہوا شوخ  
احساس کی بارش پر کروں گی جان کو وار
       میں ہوجاؤن گی گُلنار !   
         محبوب کون ہیں ۔۔؟   
جو اس دنیا میں پیغام لے کر آئے
        کس کا ؟ حق کا۔۔۔ !  
اس لیے تو ان کا نام روشن آج تک ہے !
ان کے نام کے بغیر نماز و قران کہا ہے ۔۔۔!
کلمہ میں بھی نام ہے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔
اقراء کا جب آیا فرماں۔۔!
کہنے لگے جنابِ محمد ﷺ!
امی پر کچھ نہیں ہوتا عیاں!
پڑھیے ! اندر ہے سب پنہاں!
انوار کی بارش آپ پر ہوگئی!
خوف کی رات طاری ہوگئ!
گھر آکے کہا خدیجہ رض سے!
زملونی زملونی ..
کملی والے کا لقب پاگئے!
مدثر و مزمل سے ہوئی ابتدا !
نشرح ہوئی جب نازل !
سینہ محبوب کا کھل گیا !
رب نے ذکر کیا عام !
ورفعنا لک ذکرک ہوئی بات!
محمد کی سیرت سے ہوگا!
اسلام کے ہر دور کا بول بولا!
اس ذکر میں ہے آئینِ قران کا ہالہ!
جو بھی کہے گا محمد ﷺ کو دیوانہ !
اس کا حال خود ہو گا مجنونانہ !
چلیے ان کی راہ پر چلیے سب!
رب کچھ اسرار تو کھولیے اب!

۔۔۔۔۔۔۔۔
!
اب باتیں کرم کی ہوں گی!
اب فضل سے کام چلتا رہے گا!
بادِ صبا کی اوڑھ میں ہم،
چلیں گے کوہساروں پر،
اور خوشبو پھیلے گی چار سو،
رنگ دنیا کا نکھرے گا!
ہر سو نور پھیلے گا!
حق کی بات ہے!
حق نے کہا ہے!
دنیا تلاش کر رہی ہے جسے،
وہ نہاں ہے ، نہاں دل میں!
نہاں روح کے اسرار خانے میں!
یہاں وہاں نہ دھونڈو! اے صاحب!
مجنوں کو نہیں ملتا سکون پینے میں!
پینے کے بعد تشنہ رہ جانے میں!
کیا سکون ہو گا ؟ کیا سکون ہو گا؟
اب کہ تشنگی سے کام چلتے رہا گا
ندی کی طرح بہ رہی ہے ایک وادی!
اس وادی میں رہ رہا ہے ایک حق والا!
اس حق کی ھو سے اب عالم نکھرے گا!
۔۔۔۔۔

آؤ ! دیوانو ! شرابِ عشق لو پی
رقص میں گُم خود کو کھو لینے تُو اب دو

آگ میں اپنی جلو ! بن شمع دکھاؤ
کپڑا جلنے دو کہ پروانہ اُڑا دو

خون سے بھر جائے مٹی زمیں کی
آہ سے اپنی شجر کو بڑھنے تو دو

زندگی کم، رات کا قصہ کہیں کیا
خاک کو بادِ صبا سے ملنے تو دو

حلق پر خنجر چلے چپ چاپ سہ لے
درد کو کم ہونے دو! خوش ہو لو دو پل


نور مجسم کی بات کرو!
حسن مکمل کی بات کرو!
جمالِ یار کی بات کرو!
حسرت کے مارو۔۔!
دیدار ِ یار کی بات کرو!
حق کے نور کی بات کرو!
حق ھو کا نور ایک ہے!
اس نور سے روشن عالم ہے!
اس نور کی بات کرتے جاؤ!
رنگ سے یک رنگ ہوتے جاؤ!
اس کے سنگ چلتے جاؤ!
زندگی سنورے گی!
دنیا والوں کی،
نور کا ذکر کرنے ،
نور کی بات کرنے سے!

نور ۔۔۔نور  نور۔۔!!!
نور کی بات اب کون سمجھے گا!
نور دنیا میں رہ کر پھیل رہا ہے!
دیکھو، سنو اور سمجھو حق کو،
دنیا میں رہ کرنا کیا ہے؟
دنیا تو فانی ہے!
جان بھی آنی جانی ہے!
وہ ذات یکتا ہے!
نور جس کو کہتے ہیں!
نور کے آگے جھک جاؤ!
نور کو اپنا لو۔۔۔!
حق اللہ !حق اللہ !حق اللہ !
اے خالق کون و مکاں!
اے مالک دو جہاں!
ہم گر گئے ہیں گڑھے میں،
گناہوں سے بچا لے ہم کو۔


عشق احمد ﷺچاہئے!
حبِ مدینہ چاہیے!
ہو جائیں ہم خاک جب،
خاک ِ مدینہ چاہیے!
سرمہ عشق کا ہوجاؤں!
قدموں کا دھون ہو جاؤں!
جالیوں کو پکڑ لوں ا!
بولوں یانبیﷺ سلام آپ پر!
یا رسولﷺ سلام ہو آپ پر!
درود ہزار ہو آپ ہو!
نعت کا ہدیہ قبول کیجے!
آپ کی فصاحت کی بات کروں کیا!
آپ کی بلاغت کا داعی قران ہے!
یانبی ﷺ آپ چلتا پھرتا قران ہو!
آپ ﷺکے نور سے شام نہیں ہوئی!
خورشید کو روشن آپ نے کیا!
چاند کو حسن آپ نے دیا ہے!
یہ دنیا منور آپ سے ہے!


اے عفوِ کمال ِ ہستی!
اے صبر مثال ہستی
اے رحمت عالمین!
شافی المذنبین!
سید الثقلین!
امام القبلتین!
نبی الحرمین!
راحت العاشقین!
مراد المشتاقین!
شمس العارفین!
سراج السالکین!
مدحت کا بیاں کیا ہو؟
کس زباں سے مدحت کرو؟
تری مدحت میری بولی!
تو خزانہ میں ہو جھولی!
تری عطا نظرِ کرم ہے!
میری خلش مرا جرم ہے!
امام ہو تمام نبیوں کے!
پہچان تمام سرداروں کے!
اے مدنیﷺ و مکی ﷺ!
اے مزمل ﷺو مدثرﷺ
اے بشیر ﷺونذیرﷺ
اے یسﷺ طہ ﷺ
سرورِ دو جہاں ﷺ
نور عیںِ زمان و مکاں!
حق کا ہو آپﷺ نشاں!
کون مدحت کرے گا یہاں!
ہم سے کیا ہو آپ کا بیاں!
ہمارا قلم چلے تو چلتا رہے!
آپ کی تعریف ہوتی رہے!
ہمارا کام بنتا رہے یانبی ﷺ
آپﷺ کی نظرِ کرم کے محتاج ہیں!
ایک نظر سے پیمانہ پھر دیجئے!
آپ ﷺکا نام ہماری زبان پر چلتا رہے!
آپﷺ کا نام ہمارا قلم لکھتا رہے!
سانس چلے تو آپﷺ کا نام سے!
قدم رکیں تو آپﷺ کے نام سے!
ہماری سانسیں آپﷺ پر ہو قربان!
ہمارا قطرہ لہو کا آپﷺ پر ہو قربان!
آپ ﷺکے ہوتے رہیں سب پیروکار!
آپ ﷺسے ملتا رہا سب یاروں کو یار!
بھیجیں سب درود ، پڑھیں سب صلوۃ!

یاصاحب الجمال ویا سید البشر
من وجھک المنیر لقد نو القمر
لا یمکن الثناء کما کان حق ھو
بعد از بزرگ توئی قصہ مختصر
مختصر سی میری کہانی ہے
جو بھی ہے ان کی مہربانی ہے
جتنی سانسوں نے نام لیا ہے
یہ میرے آقاﷺ کی مہربانی ہے
نعت محبور دعور مستند ہوگئی
فردِ عصیاں میری مسترد ہوگئی
مجھ سا عاصی بھی آغوشِ رحمت میں ہے
یہ تو بندہ نوازی کی حد ہوگئی ''

لفظوں کی کہانئ اب کون سمجھے گا؟
میری زبانی اب کون سنے گا؟
آپ کی عطا سے ہو برگرفتِ خامہ!
مدحت کروں،بن جائے سخن نامہ!
تاجدار لکھوں ،سر کٹ جائے نذرانہ
مشہد میں آپ سے ہوجائے یارانہ!
مجھ کو بھجئے، مقتل بنا کے میخانہ!
سر کٹ جائے  ادا ہو ہر جانہ!
خار گل سے بھی دل کو بہلانا!
خوشبو سے نگر کو ہے سجانا!
اے جان ، جاناں ،جانِ جاناں!
قبول کیجئے میرا ادنی سا نذرانہ!

متلاشی ‏روح ‏کا ‏سفر ‏



زندگی میں سچائی کی جستجو میں متلاشی روح کا سفر ازل سے ابد تک محیط ہوتا ہے . لامکاں کی بُلندی سے مکاں کی پستی کے درمیان ارواح اپنے سفر میں آزمائشوں سے کامیابیوں کی جانب رواں دواں ہوتی ہیں  جیسے پرندوں کی ٹولیاں غول در غول خود میں مگن رفعتوں  کی جانب  پرواز کیے ہوتی ہیں تو کہیں کچھ پرندے پہلی پرواز  میں انجانے اندیشے میں مبتلا ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ خُوشی کا خُمار  سُرور کی منزلیں طے کرائے دیتا ہے .  آسمان کی بُلندیوں سے پرے  رنگ و نور کا جہاں ہے .  اس میں کھُو جانا سالک کا کام نہیں ہے بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا ہی عین زندگی ہے . محؒل کے پار ایک وادی ہے جس میں دہکتے ہوئے انگارے ہیں جو اپنی ہیئت میں سرخ نارنجی رنگت لیے ہوئے ہیں ان سے نکلنی والی چنگاریاں خوف کی کیفیت طاری کردیتی ہیں اور محل کی خوبصورتی اس وادی کو دیکھ کے اور بڑھ جاتی ہے . محل کی ابتدا میں یاقوت کی سیڑھیاں ہیں . ان سیڑھیوں پر قدم زائر احتیاط سے رکھ کہ پرواز بلندی تک  ہونی چاہیے .راستے کبھی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے نظر نہیں آتے بلکہ یقین کے راستے پر سفر کرنے سے حاصل ہوتے ہے ...

''اے خاک نشین !
''تیرا یقین تیری سواری بن چکا ہے'' .''اب منزل تک پہنچ تاکہ عین الیقین سے  ہوتے تجھے وہ  نظارے دیکھنے کو ملیں کہ  دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیاں جاتی ہیں .'اب اُس کا انتظار ختم ہوا جس کے لیے برسوں تو نے انتظار کیا ہے . اب رخت سفر  باندھ ''!

اٹھ  خاک نشین !
قدموں کی لڑکھڑاہٹ کی پروا نہ کر ! اپنے اندر جھانک اور نور کے نظارے میں گُم رہ اور اعتماد کے ساتھ میری طرف آ ! میرا پیار تجھے بُلاتا ہے ! میری رحمت کی آغوش میں آجا ! محبت لے جا اور عشق بانٹ دے .

محبت کی میراث لے جا مگر یاد رکھیں !

''آزمائشوں کا سمندر پار کرنا پڑے گا مجھ سے دوبارہ ملنے کے لیے مخلوق سے عشق کرنا پڑے گا . تیرے اشک جو میری یاد میں بہتے ہیں مجھے محبوب ہیں مگر اس زیادہ محبوب تر کام یہی ہے کہ مخلوق کا ہو کے عین الرضا کے مقام کو پہنچ تاکہ  عدم کی مٹی تجھے نصیب ہو تبھی تیری خواہش کو قرار آئے گا اور تجھے وصل کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوگی .

محبت والے عشق کا سمندر پار کر گئے
عقل والے  بے عقلوں سے بڑھ گئے
آجا ! عشق کی بازی کھیل لے
اپنا دامن ابدی مسرت سے بکھیر لے
مقصد ء حیات پورا کرلے

محل نور کا کس کو ملتا ہے ؟ وہ جو محبوب پر شاہد ہوتے ہیں . اپنے خون سے لوح و قلم پر لکھا عمل میں لاتے گواہی دیتے ہیں کہ رب یکتا و واحد ہے . اس کا کوئی شریک نہیں ہے . وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا.  جب کچھ نہ تھا تب بھی وہ تھا اور جب کچھ نہ ہوگا تب بھی وہی ہوگا . اسی ذات کو قرار ہے جو یہ کائنات رواں دواں کیے ہوئے ہے . وہ چاہے تو آسمان کی رفعتیں نواز دے اور وہ چاہے تو پستیوں میں گرادے . وہ چاہے تو شیطان کو ولی بنا دے وہ چاہے تو ولی کو شیطان بنا دے. وہ چاہے تو نفس پرست کو  عامل کامل بنا دے اور وہ چاہے تو عامل کامل کو نفس پرست بنادے وہ چاہے تو دنیا میں کوئی صدیق ہی نہ رہے اور وہ چاہے تو دنیا صدیقین سے بھر جائے . وہ چاہے تو  دنیا سے سرداری اٹھ جائے اور وہ چاہے تو دنیا میں نائب کا عمل دخل ہو جائے . وہ چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا ہے. و چاہے تو نائب کو سردار بنادے اور سردار سے محبوب بنادے . وہ چاہے تو پستی میں گرادے جس کی انتہا کوئی نہیں ہو مگر وہ اپنے محبوب کو گرنے نہیں دیتا . محبت شے ہی ایسی ہے کہ اس کا امر اپنے بندوں کو کشش کیے رکھتا ہے اور وہ اصل کی طرف لوٹ جاتے ہیں

 

سورہ ‏التین ‏اور ‏قسمیں ‏


جب پہلے نائب لائے تشریف
مالک کائنات کی تھے حدیث
ُاس کی سلطنت کا نشان
قبلہ اول مسجد الاقصی
جس سے نکلے ہر انسان
ہوجائے  کنزالایمان
اللہ کا گھر بنایا حجاز کی سرزمین پر
آدمؑ کو خانہ کعبہ کی تعمیر پر
   ملا خطاب صفی اللہ کا
لاالہ الا اللہ آدم صفی اللہ
کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا
اور آدمؑ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہیں ۔
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
ہوئے برگزیدہ اللہ کے پیغمبر
تمام نفوس کے باپ ہوئے آدمؑ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
وہ لوگ جو  مقامِ رضا کے اعلی درجے پر فائز
ان کی اتباع میں قربانی کے سبھی فرائض
مناتے ہیں  مسلمان تہوار کی صورت
ان کی اعمال میں چھپی ان کی سیرت
جب کہا مالک نے قربانی کا ابراہیمؑ سے
کردیا ذبیح رضا سے اسماعیلؑ کو
بھاگئی مالک کو ادائے خلیل اللہ
رکھ دیا نام اسماعیل کا ذبیح اللہ
لا الہ الا اللہ اسماعیل ذبیح اللہ
ہوئے دوست ابراہیم اللہ کے
لاالہ الا  اللہ ابراہیم خلیل اللہ
  کیا تعمیر اللہ کے گھروں کو
ایک قبلہ اول :مسجد الاقصیٰ
دوسرا قبلہ دوم: خانہ کعبہ
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
مقرر ہوئے جدِ امجد سبھی نبیوں کے
ہوئے اسحقؑ جدِ امجد بنی اسرائیل کے
ہوئے اسماعیلؑ جدِ امجد بنو  عدنان کے
اللہ اپنے مقرب بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
خاک ہوئی نمردو کی خدائی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
خلیفتہ الارض لائے تشریف
جن وانس ہوئے  ان کے تابع
حدی خوانِ جنت کو علم ملا نافع
اتری الہامی کتاب  بصورت زبور ان پر
لا الہ الا اللہ داؤد خلیفہ الارض
مٹی ہوئی فرعون کی بادشاہی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
موسیّ گھر کے لیے آگ لینے ہوئے روانہ
تجلی حق اور صدائے حق سے نوازے گئے
پھر خواہش ہوئی کہ مولا میں تجھے دیکھنا چاہتاہوں
فرمایا : لن ترانی ، تو مجھے نہیں دیکھا سکتا
اللہ سے کلام کرتے رہے تھے موسیّ
لا الہ الا اللہ موسی ّ کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت توریت
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
کلمہ: قم با اذن اللہ  کی عطا سے
کرتے رہے مردوں کی زندہ
مسیحائی بندوں کی کرنے والے
مریمّ کے بیٹے ، یحییّ کے بھائی
لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت  انجیل
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
وہ مکہ و مدینہ کی سرزمین
جس پر رہے ہیں نبی ﷺ مکیں
سردار الانبیاء ، خاتم الانبیاء
نور کی سرزمین پر نور کی جبین
شمع رسالت کے ہوا جو قرین
تابندہ ہوئی سب کی زندگیاں
عملِ بندگی سے مٹی  تاریکیاں
معراج کی رات قاب و قوسین کی رفعتوں پر مکیں
نبی آخرالزماں ،شافعی دو جہاں، رحمت اللعالمین
فقر و عفو سے کی سربراہی
دولت ایمان ہم نے پائی
اتری الہامی کتاب ، حکمتوں کا گنجینہ
مرے نبی ہوئے نبیوں کا نگینہ
احمد کو محمدﷺ کے رتبے پر کیا فائز
درود بھیجنا ہم پر  ہے کیا عائد
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
ان کی صفت میں گم ہے خدائی
ملتی رہے گی ان سے رہنمائی
مسخر ہوئی ان پر سبھی خلائق
تسبیح ان کی کرتے ہیں ملائک
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے؟
اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم کیوں کھائی ؟


سورہ التین میرے سامنے کھلی پڑی ہے ۔میں نے اس کی پہلی آیت پڑھی ۔ کچھ توقف کے بعد سوچ نے مجبور کیا ہے کہ اللہ قسم   پھل کی کھارہے ہیں ۔

وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ

|وَطُوْرِسِيْنِيْنَ|وَهٰذَاالْبَلَدالْاَمِيْنِ |
انجیر اور زیتون کی قسم ہے۔اور طور سینا کی۔اور اس شہر (مکہ) کی جو امن والا ہے۔


اللہ نے دو پھلوں کی قسم کھائی ہے اور میں سوچ پر مجبور کہ ان دو پھلوں کی قسم کیوں کھائی گئی ہے ۔ بے شمار پھلوں میں دو پھل اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں تو گویا  یہ جنت کے پھل ہیں ۔ اگر جنت کے پھل ہیں تو زمین پر سب سے پہلے  کس مقام پر ان کو اُگایا گیا ۔ تلاش و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ سرزمین فلسطین و شام میں ان کو اگایا گیا ہے ۔  وہ زمین جہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے اس قبلے کو دو مقرب ہستیاں تعمیر کرچکیں تھیں جو کہ حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت ابراہیم علیہ سلام ہیں ۔ بنی نوع انسان کے باپ اور نبیوں کے جد امجد پر اللہ تعالیٰ کے صحائف بھی اترے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی نسل سے تمام نبی و رسول مبعوث ہوئے ہیں جن میں کچھ زیادہ مقرب و برگزیدہ ہوئے ہیں اور انہی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی صحائف اتارے ہیں ۔  وہ دو پھل جن سے نبیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا کہ یہ پھل سدا بہار ہیں جن  پر ہمیشہ سبزہ رہتا ہے ۔  ان سدابہار پھلوں میں مقرب کون ہیں  جن پر الہامی کتابیں اتریں ۔ حضرت داؤد علیہ سلام اور حضرت سلیمان علیہ سلام نے قبلہ اول کو از سر نو تعمیر کیا گویا کہ نئے سرے سے دین کی بنیاد رکھی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر جب جب از سر نو تعمیر کیے گئے گویا دین میں کچھ ترامیم اور تبدیلیاں ہوئیں ۔حضرت عیسی علیہ سلام کی مشابہت حضرت آدم علیہ سلام سے ہے کہ دونوں بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔ وہ پھل جس کی بنیاد حضرت آدم علیہ سلام نے بنیاد رکھی اور وہ پھل جس کی بنیاد جناب سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے رکھی وہ سدا بہار پھل ہیں ۔ اس مقام کی قسم جو کہ اللہ کی نشانی ہے ، ان کتابوں کی جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں اور تمام انبیاء کے سرداروں کی قسم جو اللہ پر شاہد ہیں اور اللہ ان پر شاہد ہے ۔ اللہ نے ان کی قسم کھائی ہے ۔

حضرت موسی علیہ سلام  لاڈلے نبی تھے ۔ اللہ تعالیٰ سے کلام کیا کرتے تھے ۔ ان کو معجزات عطا ہوئے کہ ان کا ہاتھ سورج کی طرح روشن ہوجاتا تھا اور ان کا عصا سانپ کی شکل اختیار کرلیا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو کتاب سے کوہِ طور پر  نوازا گیا ۔ یہی طور کا پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ، اپنے نبی اور اس مقام کی قسم کھائی ہے ۔ تیسری آیت مبارکہ میں امن والے شہر کی قسم کھائی ہے وہ شہر حجاز جس کی تعمیر سیدنا آدم علیہ سلام اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کی ۔۔ یعنی جس دین کی ابتدا و ارتقاء ان مبارک و برگزیدہ ہستیوں نے کی تھی ، اس کی منتہیٰ سیدنا جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہوئی جن کے کمال کی کوئی حد نہیں ہے ۔ حضرت موسی علیہ سلام تو پہاڑ پر اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے گئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو خود اپنے پاس بلا لیا ۔اس شہر امان کی از سر نو تعمیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی تھی  ۔

دین کی ابتدا ہوئی آدم علیہ سلام سے
دین کی منتہی ہوئی محمد صلی علیہ والہ وسلم سے
نبیوں کے جد امجد ہوئے ابراہیم علیہ سلام
نبیوں میں مقرب ہوئے موسی  علیہ سلام
نبیوں میں خلیفہ ہوئے داؤد علیہ سلام
نبیوں میں کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
فلسطین کی سرزمین ہو یا طور کا مقام
سرزمین ِ حجاز کا ہو یا مقام
جنت کے یہ سبھی ہیں مقام
جن پر ہوا رسولوں کا قیام
زبور کی بات ہو یا توریت کی
انجیل کی بات ہو یا قران کی
یہ سبھی  الہامی ہیں پیغام
جن میں اللہ نے بندوں سے کیا کلام
پڑھیں گے جو اس کو ملے گا انعام
آیات کا مفہوم اترے گا بصورت الہام
اللہ کے پیغام کو کیا رسولوں نے عام
ان سب پر واجب ہے مرا تو سلام
جب بات محمدﷺ کی  کسی بھی زبان سے ہوگی
درود ہوگا جاری اور الہام کی بارش ہوگی
ان کی قسمیں کھائی ہیں مالک نے
بندوں کی اقسام بتائیں  خالق نے
احسن التقویم پر پیدا ہوئے سب
نور کے چراغ کے حامل ہوئے سب
اس نور کو نسبت ہے محمدﷺ سے
جو بڑھے گا اس نور کی جانب بھی
سینہ روشن ہوگا نور کی جانب سے
دور جو ہوئے  تھے نور کے چراغ سے
شداد ، فرعون ، قارون ، ابو جہل ہو یا ابو لہب
مقام اسفل کے ہوئے سبھی تھے حامل
قفل ان کے روحوں پر لگ گیا کامل



اس سورہ اور ان آیات کا موضوع ہے جزا و سزا کا اثبات۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے جلیل القدر انبیاء کے مقامات ظہور کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً کہیں فرمایا کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ۔ کہیں فرمایا کہ انسان اُس امانتِ الٰہی کا حامل ہوا ہے جسے اٹھانے کی طاقت زمین و آسمان اور پہاڑوںمیں بھی نہ تھی ۔ کہیں فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ۔ لیکن یہاں خاص طور پر انبیاء کے مقاماتِ ظہور کی قسم کھا کر یہ فرمانا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ نوع انسانی کو اِتنی بہتر ساخت عطا کی گئی کہ اس کے اندر نبوت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے جس سے اونچا منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں ہوا۔

اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے، اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔

اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ انسان میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اُس انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے زیادہ نیچ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی، دوسرے وہ جو ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اُس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو اُن کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ نوع انسانی میں اِن دو قسموں کے لوگوں کا پایا جانا ایک ایسا امر واقعی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا مشاہدہ انسانی معاشرے میں ہر جگہ ہر وقت ہو رہا ہے۔


Sunday, February 28, 2021

سوالی***

میری ذات ایک سوالی ہے ، آپ کی دل کی دنیا نرالی ہے ، ہم پر آپ نے کیوں گرہ ڈالی ہے ، یہ شان کملی والے ﷺ کی ہے ، نسبت سب سے نرالی ہے ، جانے کیوں، جانے زمانے ہم نے ، کہ روشن قسمت  تمھارے ہاتھ کی تھالی ہے

کمال تو نگاہ یار خیراں کا ہے کہ مست خراماں باد کو مخمور کردیا ، بہار کا نغمہ ہے سن ، خزاں کے جالے اُٹھا ، رستہ ہادی کا ہے سچے مرسلﷺ کا ،بس اندازہ بیاں محتاط ہے مسلسل ، عمر رفتہ کا جیسے عذاب ہے مسلسل ، خواب میں خواب ایک لگتا ہے مسلسل ، ، رہبر سچا ہادی ﷺ  رہنما ہے مسلسل ، درود زندگی کے مرض کی دوا ہے مسلسل ، سجدہ   تشکر کے جھکا بدن ، لرز اٹھا طور ، جلوہ گاہِ جلوہ میں تجلیات  کا طور ہے مسلسل

شمع کہے تو کون ہے ، تو کیا ہے

وہ کہے کہ خواب ہے ، خواب میں احساس ، احساس میں ادا ، ادا میں ناز ، ناز میں اعجاز کی دلربائی نے لوٹ لیا ، ہمیں، جس کی نگاہ نے لوٹ لیا۔۔رنگ جس کا کالا وہ ہمارا یار ہے مسلسل ، جس باب سے گزر کے ہمیں جانا  وہ رستہ طور مسلسل ، ہماری کہانی زخم سے پر ہے مسلسل ، لہو لہاں جگر اور آبلہ پا ہے مسلسل

حیدری باب میں میخوار ہے مسلسل ، منتظر شمع انوار کی مسلسل ، پلٹ کے صدائیں گونج اٹھیں مسلسل 

میخواروں کے ہادی یانبی ﷺ ہادی سلام قبول کیجیے ، ہمارے ہاتھ میں درود کے پھول ، قبول کیجیے ہمارا نذرانہ ، دیوانہ کیا جانے دیوانگی کیا ہے ، روشنی کا احساس ایسا ہے کہ روشنی پس دیوار ہے مسلسل ۔

روح ‏کا ‏طواف***

روح مرکز کے گرد گھومتی رہتی ہے،  جس شدت سے گردش ہوتی ہے اس قدر شدت سے شیشہ ٹوٹ جاتا ہے ..آنکھ کو جلوہِ جاناں چار سُو نظر آتا ہے .... وہ تو نم آنکھ کی نمی بڑھا دیتا ہے،  نم مٹی کی التجا  "تو "..... توئی چار سو ... اے جلوہِ جاناں، دل گھوم گھوم کے تجھے چاہے .... ٍ تو جلوہ نما ہے .... اے.میرے دل کے حبیب ...مٹنے لگے سب رقیب ... دوریاں گئیں، سب مل گئے دل کو اپنے ..... یہ جدائی تھی جو سہی گئی تھی .... یہ جو وصل ہے جو چیخنے پر مجبور کرتا ہے ...دھمال ڈالنے کو .... یہ کیف آور رقص .. یہ گھومتے چوراہے .... یہ منازلِ بقا کے فاصلے .... یہ رابطے محبوب سے ... شادی کی کیفیت،  وصل قریب ہے وہ جو حبیب ہے جو رگ جان سے قریب ہے .... کھال اترگئ بس رہ گئ دھمال .... ہم پہ سرر طاری ہے ... ہم میں وہ رہتا ہے جس کے لیے گھر صاف ہے .... لا الہ الا اللہ .... ہم نے اس میں خود کو فنا کردیا .... کیا رہا؟  وہ رہا ... کیا ہے مجھ میں؟  نور علی نور کے سلاسل سے ملا پاک نور ہے ...

 یہ زیتون کے پتے پر مجلی ہوتا ہے کبھی طوُر  پر تو کبھی حبیب کبریا صلی علیہ والہ وسلم کی نظر سے بکھر جاتا ہے ... وہ سراپا طور وہ سراپا نور ... کرتے ہیں دل کو مخمور .. میرے کبریاء جاناں دل میں رہتے ہیں،  ان کی آنکھ مستانی ہے،  دل میرا نورانی ہے ... ورقہ عشقِ ہستی پلٹا جارہا ہے،  میرا صفحہ صفحہ نور سے پر نور ہے ... زندگی کی کتاب روشن کردی گئ ہے میرے لیے ہدایت لکھ دی گئی ہے ... مجھے ملا ہے اجازت نامہ،  سند عشق کی حدیث .. دل میں اک ہی عزیز .. اررررے وہ کدھر ہے؟  ارررے وہ ادھر ہے !ارررے میٹھا سا نغمہ سناؤ ... سرمدی.عشق کا راگ ہے ... یہ رات کا سہاگ ہے ... دل اڑتا ہے فضا میں مانند باز.... سرخ ہاتھوں میں روشنی یار کی ..ذرہ ذرہ اسکی قندیل ... اس قندیل میں.زیتون کا تیل .... یہ شجر بڑا مضبوط ہوگیا ہے اس میں مہکتے گلاب کے خوشنما ہھول جن سے بسا رنگ و نور .... طہﷺ ... میرے طہ ﷺآگئے ... سارے پڑھو درود .... سارے پڑھو درود کہ سرکارﷺ آگئے ....  صلی علیہ والہ وسلم ...  دیے دیے پانی میں،  گلاب کی پتیاں رقص کریں گے .... روشنی بھی خوشبو بھی ... نور  و نور ہے زنجیر ... زنجیر عشق کی فولادی ہے ... عشق میں کیسی بربادی؟  ذات کے زندان سے پنچھی آزاد ... اس در چلیں گے جہاں پر مینار ِ نبوی صلی علیہ والہ وسلم ہیں .....

 الم نشرح لک صدرک .... کھل جائے جب سینہ تو خوشبو مل جاتی ہے، راز عیاں ہوجاتے ہیں ... حجاب مٹ جاتے ہیں .. اپنے  مل جاتے ہیں .... روشنیوں کا شہر دل بن جاتا ہے دل میں نبیﷺ کا گھر ہو جاتا ہے .. دل حجاز ہوجاتا ہے ... حجاز کی سرزمین بڑی روشن ہے ... روشنی کے شہر میں کیا ہم اکیلے ہیں؟  کیا آبشار نہیں؟  کیا پہاڑ نہیں؟  کیا  اشجار نہیں؟  ارے جھک گئے سارے نورِ مجلی صلی.علیہ والہ وسلم آیا ... سر اٹھ نہ سکا،  نیاز  مند ،نیاز میں رہا .....  رات کا اعجاز .. رات کا اعجاز کہ رات بہت سہانی ہے ... رات نے بانٹی سرخی ... گلابی سرخی ... رواں رواں سرخ .... شہادت دی رہی نمازآذاں ... کٹ گئی رات .. سجدہِ شکر ہوا ادا .... شکر شکر شکر ...  یہ شکر وصل کی نشانی ہے یہ مسجود و ساجد کی کہانی ہے بیت رہی اس پر جس کا دل نورانی ہے .....  

کعبہ.عشق کا کعبہ کون؟ رات میں چاند کا مہتاب کون؟  عشق کی تمثیل کی تمثیل کون؟  شمیشیر غوث پاک ہیں ..... شمیشیر غوث پاک ہیں مصحف کلمہ نظام صاحب ہیں .... مصحف کلمہ  نظام صاحب ہیں ... قلندروں کے امام حسینرضی تعالیٰ عنہ ہیں جمال کائنات امام حسن ہیں رہبر دو جہاں سرور کائناتﷺ۔  قصہ اک نیا شروع ہوا ... اک نئی منزل کا اذن .. مسافر آزان ِ عشق ادا ... نماز عشق قربانی کی رات ہے  شادی کی کیفیت ہے منادی کی کیفیت ہے .... یہ حج اکبر ہے ... .

رقص میں جہاں ہے یا میں رقص میں ....بات اک ہے ... میں ہی حقیقت ہوں ...باقی سب مایا ہے ....نور، سب مایا ہے ...مایا جال میں پھنسنا کیا؟ دل مثلِ شمع فکر وجدان ...دل مثلِ بہار بکھرتے پھول ... دل مثل باد کے بکھر رہا جھول رہا ... دل مثل اشجار ... جھکے بندگی میں ...تیرے بندے تیرے بندے تیرے بندے ..حم ...... حمعسق.... مر جانا مٹ جانا ... عین عشق ہو جائے بس... عین العین کا عکس ہوجانا اچھا ...فانی کو فنا ہوجانا اچھا ... باقی کو بقا میں قیام ہونا ..نماز کا عین ہے بقا ...بن بقا کے نماز نہیں ...بن بقا کے حج نہیں ... شادی کی کیفیت منادی کی کیفیت آزادی کیوں مانگ چل دے آذان حبش میں ہو یا قرن ہو یا ارم میں ہو یا فلسطین میں یا کہ عرب کے صحرا میں ... قافلے سبھی مل جاتے ہیں چاہے ہند سے ہوں ... فرق نہیں رہتا جب سارے حاجی حج سے ہوں .... جب نمازیں قضا ادا ہوجائیں ... جب دل رب سچے کا ہو جائے تو دل منم جمال او ..... جمال میں کمال چھپے نورانی خزانے .... یہ منزل فنا ہے کہ بقا؟ یہ اوج ہے یا زوال؟ یہ کیسا مقام ہے؟ یہ جنگل، نہ صحرا ...یہ موسیؑ اور ہارونؑ کا راز ہے ... یہ یحییؑ اور عیسیؑ کا راز ہے ... دل انجیل مقدس، دل انجیل مقدس ... دل میں قران مسلسل .. دل نماز میں مسلسل ... دل طوف شمع میں ... دل حاجی .. دل اچوں حق ھو دیاں واجاں ... دل میں نمی .. دل عکس سے معمور... دل محو جمال .. دل حسین تجلیات کا مرقع .. دل قبلہ نما بنا .. دل مجذوب ..جذاب عالم محمد صلی علیہ ہیں

نہ ادھر ہماری رہے نہ ادھر تمھاری رہے ....زمین پر واجب سجدہ شکر .... حم ...... حاضری کے بعد ملتی ہے محفل ...محفل کہ مئے ابدی کہ رحمت یزدان ... حرم سے نکلے دل کے فسانے محبت کے ملے کاشانے ... حاجیوں کو ملتے ہیں ساقی ... مخمور رہتے ہیں مست ہوتے ہیں جو وہ پاتے ہیں دل کی باتیں ... حق کی باتیں ... حق کی سوغاتیں .. حرم سے منبر تک ...منبر سے حرم تک ... شہ.رگ کے قریب ... حج جن کو نصیب ہوتا ہے وہ ان کے قریب ہوتا ...دیارِ حق میں وہ جن.کو.نصیب ہوتا ہے ... حق کی.نشانی اسم محمد صلی علیہ والہ.وسلم ... حم .... وہ حامی وہ مددگار ،وہ جلوہ نما، وہ قبلہ نما ..وہ رخ یار کی تجلی.،وہ جمال کی، جلال کی تجلی ،وہ آیات میں سب سے افضل نشانی ..مشک مشک ہے رواں رواں ... دل میں نورِ قران بسا ہوا ... نورِ رحمان دل میں ہے ...فرقان پر ہے دل  ہے وجدان پر دل .. دل کی تمجید تم کیا جانو ..نورانی دل ... اسم حق لا ھوت میں بسیرا ہے جن کا .... یا ھو جن کا ورد .. ان ملائک میں وزراء ہیں ان میں امراء ہیں ... ذکر ہوتا ہے ان میں ... ذکر یار نصیب ہوتا ہے ... جا خشیت کی چادر اوڑھ لے ... جا چھپ جا چاند کے اوڑھ ... جا چھپ جا ....ملیں گا تجھے کمال .کمال بندگی کے بعد دیدار ... جا چھپ جا ... جا چھپ حجاب میں ہو ...ازل کا نور بے حجاب ہے ... سجدہ شکر لازم ... حم ..... یا رحمانی ... ھو ..... حق ... ھو ... حق آگیا ..باطل مٹ گیا...

خوشبو***

زمین پانی سے بھر جائے تو پیاسے کو آنا چاہیے ورنہ سیلاب آجاتا ہے. سیلاب زندگی بھی ہے. سیلاب گلاب ہستی بھی ہے کہ درد کے مابعد کا تحفہ ہے. خوشبو کا احساس خوشبو کی جانب لیجاتا ہے. خوشبو عرش کے پانی سے وجود میں آئی ہے. یہ خاص خوشبو گلاب کی ہے جس سے بقیہ خوشبو محصور ہو جاتی ہے. شمع رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں آنسو بہانے والو. تم کو کیا ہوا،  تم تڑپ میں اویسی و بلالی ہو جاؤ تاکہ فاصلے معنویت کھو دیں. تم کو قربت کی روشنی فارس سے بحضور کیوں نہیں کرتی؟  تم پروانے کیوں نہیں بنتے؟  تم ستارے بن جاؤ کہ سورج کو تلاش ہوتی اندھیروں کو. مٹادو تم اندھیروں کو. زمینیں بہت سی ہیں جن کو نور علی نور کی مثال ہونا ہے. جن کو ایسی مثال ہونا ہے ان کے پاس سیادت ہے. یہ نسبی و نسبتی سادات جڑے ہوتے آیتِ کوثر سے. اللہ ھو کہتے یہ نسبتوں کے سلاسل میں مودب ہوتے ہیں

نور***

آج تم ایک انسان ہو. تم سوچو تم میں ایک چراغ ہے. تم کو خوش نصیبی پر فخر کرنا چاہیے کہ تم میں چراغ روشن ہے ... چراغ اپنی روشنی کے لیے بیتاب ہوتا ہے.  چراغ میں نور علی نور کی مثال روشنی ہوتی ہے. یہ سب مرشد حق کی بارگہ ناز سے محصول بات ہوتی ہے. جب نور مکمل ہونے لگے تو شہادتیں واجب ہوتی ہیں. انسان کو چاہیے ایک دوسرے کے کام آئے کہ انسان کے دل میں محبت کے چراغ اس لیے جلائے جاتے ہیں کہ محبت سے روشنی دیں  اللہ آسمانوں زمینوں کا نور ہے. چلو اس پر غور کریں کہ اللہ تو آسمان پر ہے اور زمین تو نور کی تلاش میں رہتی ہے. زمین ایک سیارہ ہے اور اس پر سورج ہے. سورج سے جہاں منور ہے. انسان کے اندر چراغ ہے  . اس کو باہر سے اک سورج چاہیے جو اس کے اندھیرے مٹائے. جب اس کے اندھیرے مٹ جائیں تو وہ خود اک سورج ہوجاتا ہے. بے شک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے. وہ اللہ کا کرم ہے جس کو نور علی النور کی مثال کہا گیا ہے. یہی زیتون کا بابرکت تیل ہے نہ شرقی ہے نا غربی ہے. اللہ ہر سمت ہے اللہ مشرق و مغرب سے پاک ہے. جس اللہ کی حد مقرر کرلو وہ اللہ تو لامحدود نہ ہوا. جو لامحدود ہوا وہ ہر ضد سے پاک ہے. اس نے تم میں نور کی تجلی رکھی ہے اور کہا من جھاتا فقیرا، لنگی حیاتی. افسوس کا مقام ہے ان کے لیے جن کے چالیس کے ہندسے گزر گئے اور ان کی پہچان کے زینے قدم کو نقش نہ پا سکے. ایسوں کے لیے اللہ نے کہا والعصر ..گھاٹے میں وہ لوگ ہیں جن کو علم نہ ہو سکا زندگی کی دوپہر گزارنے کے بعد وہ کون ہے چالیس کا ہندسہ مبارک ہے. یہ مبارک ہے کہ اس نے انبیاء کا تعارف دیا. اس نے کئی ولی اس طرز پیدا کیے،  اس ہندسے میں چار بجتا ہے. بس اللہ باقی ہر جگہ

تحفے*---

دل کی رقت پر سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ سوال کیا ہے؟ سوال کا جواب کیا ہے؟  سوال کا اسباب کیا ہے؟ رات میں ملال اور ملال کا لباس کیا ہے؟ جبین سجدہ ریز ہے، رمز شناس ہے کیا؟  جب جاگتے ہیں دل، روتی ہے آنکھ،  سوتا ہے شعور اور بہتا لہو دل میں ھو ھو کی صدا سے مخمور ہو کے رواں رواں میں محبوس ہو کے بھی نعرہ ء حق لگا دے تو بندہ کَہے کہ کہاں جاؤں میں؟ میں کتھے جاواں؟ کتھے اونہوں نا پاواں؟  اودھے جلوے چارچفیرے .. بانگ دیندے ریندے نے مرغ سویرے سویرے ...لنگ گئی حیاتی، غماں نے مار مکایا ..جنگ جاری ہے ... حیات  پیہم مشقت میں،  رہن رکھی چاندنی نے پوچھا کہ کیا ملا؟  ملا جو سوال کو جواب ملا ...جواب میں یاد کا سندیسہ تھا ..سندیسے آتے ہیں اور ستاتے رہتے ہیں .. رات میں نور علی النور چمکا چاند،  رات میں سحر در سحر اشجار ہیں جن کی رگ رگ میں جاودانی کا دھواں ہے اور مکھڑا جس کا نورانی ہے.. وہ پھرتا چلتا ہے عکس وجدانی ہے،  لہر لہر میں رنگ ہے اور رنگ میں کلی کلی کی مہک سے جل رہا ہے چمن،  دود ہستی میں راگ چھڑا ہوا ہے ..سرمدی راگ میں بات بھی ذات کی ہے اور بات ذات میں واحد ہی رہی اور واحد میں خاموشی صامت رہی. حق وحدہ لاشریک کے سامنے رگ جان سے قریب کون تھا؟  میں نہیں تھا ..وہ بھی وہی تھا ..بس آئنے تھے دو ..دوئ تھی کیا؟  دوئ نہیں تھی مگر یہ آنکھ روئ تھی کیا؟  جی جی!  جذب تھی جس آنکھ میں وہ رہتی ہے یاد میں ..زہرا کے بابا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بے حساب درود کہ کمان سے نکل گئے تیر اب زخم.سے جل.رہا دجلہ ... فرات کی نہر میں انالحق کی صدا ہے ...گراں تھا نعرہ کیا؟  راز عیاں تھا کیا؟  برسر منبر بہک گیا کوئ ... بہک جانے کی سزا بھی نرالی تھی مگر جس کے پاس سایہ کالی کملی والا کا ہے اسکی شان نرالی ہے. کوئ آقا والی ہے ..صلی اللہ علیہ والہ وسلم. مری غلامی بھی نرالی ہے کہ رنگ و نور کی محفل سجنے والی ہے. شام میں صدا یے اور صدا میں کرن کرن کا جلوہ اور جلوے میں رنگ ساز نے رنگ دکھائے تو ست رنگی بہار میں عیاں راز کے سارے پردے فاش!  راج ہوا کبریائی کا.  جو.صبغتہ اللہ والی ہے،  اسکی کملی کالی یے، جس کے پاس رات کی جاودانی ہے،  راج جس کا انوکھا یے سورج کی کرن کرن میں مگن کون یے؟ گگن کی لالی کہاں سے آئ ہے؟  راج کرے گی دنیا جب  دیکھے گی جب جھلک دیکھے گی ..کچھ جو صلی علی کی دھوم میں مر جائیں گے ..کچھ اس بازگشت میں رہ جائیں گے. کچھ اس جھلک کے سکتے میں رہ جائیں گے کچھ کے سر جھکے رہ جائیں گے کچھ قائم قیام میں رہ جائیں  گے. کچھ کو عندلیب کا نغمے سنائیں جائیں گے، کچھ رقص شرر میں جل جائیں گے، کچھ کو نغمہ جانفزاں سے بہلایا جائے گا کچھ کو دید کا سامان دیا جائے گا کچھ کو رات کے پہرے فاروقی نقارے دیے جائیں گے، کچھ کو صدیقیت کی مسند پر گرانقدر تحاٰئف دیے جائیں گے، کچھ علی علی کی صدا میں نبی نبی کی گونج میں مگن رہیں گے تو یہ ہوں گے وہ حال جن پر رشک فلک ہوگا، نوریوں کو ملال کہ وہ بشر ہوتے تو یہی احسن تقویم ہے. یہ زمانہ ہے شرفیت کہ اشرف المخلوقات سے وابستگی کا ہے کہ آؤ نعرہ ھو لگائیں دل میں رہ جائیں گے ارمان نہ ملیں گی وہ گلیاں

قریب ‏تھا ‏کہ ‏مرجاتے---*--

قریب ہے کہ مرجاتے ہیں،  قرین جان سے، جان کو جو پا جاتے،  ردھم نہیں ہے ... رات کی رانی ہے، گلاب بھی ہے،  اور پتے پتے ہل ہل کے سلام کہے جارہے ہیں ...شامستان کی گھڑی میں داستان عشق کا لہو کون دیکھے گا؟  یہ جو ہم جیسے قبیل کے چند ہیں،  کس میں ہمت ہے کہ لہو لہو کی بوند ٹپکاتے ہوئے یاد کے پیکان سے دل کو بہلاتے رہیں ..اے دل مسکرا کہ یہ عالم ہجر نہیں یہ عالم موت ہے اوررنگریز کی  جاودانی لہریں بھی ہے ..اے دل مسکرا کہ موت نے سجدہ کیا ہے کہ موت سامنے کھڑی مسکرا یے اور موت کے سامنے ہی میں موجود ہوں ...کیا میں موجود ہوں؟  میں نہی  موجود ہوں وہ موجود ہوں. میری نس نس میں جس کا ذکر ہے مری حرف حرف کی شدت اسکی گواہ ہے کہ سراہ راہ ہو یا سرطور بات اک ہی ہے ..ہمیں تو جلوے سے مطلب ہے کہ چار چفیرے ہیں مالک کے سب رنگ ...سورج کی تمازت بھی کیا خوب ہے کہ چمک رہا ہے تو صلی علی کی صدا ہے اور ہم کہتے ہیں سلیقہ بندگی میں طریقہ ء درود کیا ہے؟  طریقہ درود میں کیسی وارادت ہے کہ ورود کون یے؟  شاہد کون یے؟ شہود کون ہے؟  اے عکس  اٹھ جا!  اے رات ٹھہر جا!  اے حنا!  رک سوال باقی ہیں کہ کچھ نقاب باقی ہیں. کچھ زوایے ہیں الگ، کچھ ماہتاب الگ ہیں کچھ راج الگ ہیں. کچھ دیوانے مضطرب ہیں، کچھ انجان راہیں ہیں، کچھ نئے شاہرائیں ہیں، کچھ ہجر کی لمبی رتوں میں آہون کی داستان میں اک صدا ہے. حق وہی باقی یے. حق وہی موجود ہے. میں نہی  موجود یے وہی موجود یے. اے جلوہ جاناں. اللہ کہاں ہے. اب کون کیسے بتائے کہ اللہ کہاں ہے بس پیش حق کہتے ہیں کہ اللہ تو رگ جان سے قریب یے ..شہ رگ کا کلمہ ھو ہے میں کہتی ہوں تو تو تو تو ہے. عالم میں کیا ہے می تو خود اک عالم ہوں میں نہیں ہوں وہی عالم ہے. رات چھاگئی ہے اور گلاب مانند کتاب سینے پر دھرا ہے اب بتائیے کہ گلاب کا کیا کیا جائے؟ گلاب کو سونگھا جائے یا تکا جائے یا سونگھ سونگھ کے سرائیت پذیر سرمدی دھواں دیکھا جائے. کہنے کو تو عشق میں عشق رہ جاتا ہے طور جل جاتا ہے مگر طورمیں مجلی اسم کس کو ملا ؟ جی جو بیہوش ہو گئے ان کو ..سو اے خمار آلود آنکھ چپ رہ ورنہ خماری مہنگی پڑ جائے گی. اے دل گرفت رکھ ورنہ رات کٹ جائے اورصبح نہ ہوگی اورصبح کے بین کا رنگ کتنا پھیکا یے جب تک کرنیں روشن روشن ہو کے ہر جا کو جلوہ نہ بنادیں فائدہ ا اے دل خاموش!  ورنہ کیا رہ جائے باقی؟ کچھ طلب کے سکے؟  پھینک دے کاسہ کہ کاسے تو کہتا تو ہے پیاسہ. کیا تو پیاسا ہے. نہیں تو مضطرب نہی‍ یہ پیہم مرا طوفان ہے. یہ گریہ نہیں ہے یہ مری یاد ہے یہ تو نہیں ہے یہ میں ہوں میں تو ہر جا موجود ہوں میں شہ رگ کا کلمہ ہوں ..

مثال***

سادہ سی بات ہے، سب میں سادگی ہے. سادگی کیا ہے؟  سچ سادگی ہے  سچ میں قباحت کیا ہے؟  سچ کی حکمت یہ ہے کہ حکیم سے ملتا ہے  حکیم  طبیعت کا سلیم ہوتا ہے. سلیم وہ ہے جس نے رب سے وعدہ یاد رکھا ہوتا ہے  وعدہ کونسا؟  وعدہ کہ حق میں فقط نائب ہو مگر اصل تو ہی ہے  جس نے انالحق کہا،  اس نے فرق مٹا دیا .. اللہ مثال نہیں ہوسکتا ہے مگر مثل ٹھہرانا ہمارے لیے کیا ضروری ہے؟  اللہ اکبر. اللہ سب سے بڑا ہے  .مثال در مثال سب میں سچ ہے اور سچ بڑا ہے  ساری مثالیں مصوری ہیں. وہ المصور ہے. نقاش گر نے بنایا مجھے. میں نے نقش کو پہچان لیا اور پہچان کے سب کو  آپریٹو کردیا. اس آپریٹو کے پیچھے بڑی طاقت ہے. میں منبع کل کا معلوم نہیں ہوں. میں اپنی ذات کا معلوم ہوں  ... سب سے بڑا معلوم جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں. اس لیے:  بعد از خدا بزرگ توئ قصہ مختصر

Saturday, February 27, 2021

عشق ‏روحاں ‏دا ‏سنجوگ ‏

راگ سناوے آس دلاوے 
ساز وجاوے یاس مکاوے 
عشق روحاں دا سنجوگ 
عشق سے جاتا ہے سوگ 
عشق خوشبو عین وصل 
کدی ہجرت کدی وصلت 
کدی واج تے کدی خاموش 
کدی راگ اے کدی شور اے 
کدی بحر اے تو کدی موج 
کدی بادل اے کدی ساون 
کدی بجلی تے کدی رحمت 
دیدار دی اگ لگا دیوے 
آرزو نو صد آرزو بنا وے 
پیراں پڑیے، اکھیاں روون 
ساواں اوکھیاں راتاں لمیاں 
اتھرو وگن،  سرخی منگن 
جندڑی نو روگ لگا دیوے 
عشق روحاں دا سنجوگ ہے 
عشق توں جاندا سوگ اے 
عشق مست مست کریندا 
عشق جذب تے آپے مجذوب 
عشق دی ہستی مستی ویکھو 
عشق رلاوے عشق ہنساوے 
عشق دا مرض لاعلاج اے
من دے روگ تن دے سوگ 
عشق اے روحاں دا سنجوگ 
من دی ہستی ہوجاوے مٹی 
مٹی دی اوقات ہوجاوے مٹی 
عشق مٹی دا بالن  چنگا اے 
بھٹیارن بن جا جے سچا اے 
سمجھ سمجھ نہ آوے گا اے 
دلوں وحی بن کے اتر جاوے 
سجن مٹھن پیار دی مستی 
ساڈی ہستی کیہ اودی ہستی

سورہ ‏لہب ‏سے ‏ملا ‏پیغام ‏

جب نبوت کا آغاز ہوا تو، آپ کو شروع میں حکم  ملا کہ دعوت / تبلیغ کرو.... آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند اخلاق کے حامل انسان --- صادق و امین کا لقب پانے والے...

آپ کوہِ صفا پر جاتے ہیں اور سب کو بُلاتے ہیں ... پیغام پہنچاتے ہیں اللہ کا..... یہ پہاڑ اہم اطلاعات پورے قبیلے کو فراہم کرنے کا ذریعہ بھی تھا. اس لیے سب جمع.ہوگئے..... ابولہب ایک ایسا شخص ہے جو اچھے اور برے کی تمیز نہیں جانتا اور نہ بھلائ پر آمادہ ہے.... 

گستاخی کا مرتکب ہوتا کہ کہتا ہے ترے لیے ہلاکت ہو نعوذ باللہ کہ اس لیے یہاں سب کو  جمع کیا گیا ہے م.. اللہ جل شانہ کو جلال آتا ہے تو یہ آیت نازل ہو جاتی ہیں کیا گیا... 

ان میں پیغام کیا کیا ہے؟

ابولہب صاحب ثروت شخص تھا. اللہ کا قہر نازل ہوجاتا مگر ان آیات میں لعنت کی گئی.... 

تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اک انسان اللہ کے بہت قریب ہے کیوں؟ کیونکہ اس نے اپنی زندگی اللہ کے لیے وقف کردی. جس نے اللہ کے لیے وقف کردی اسکا ضامن اللہ تعالیٰ ہے 

اک شخص جس نے دنیا میں کھانے / پینے کے لیے وقت صرف کیا. اس کو خدا کے پیغام سے سروکار نہیں کیونکہ وہ تو خود شہرت و طاقت  نشہ لیے ہے.... 

میرے لیے پیغام کیا ہے کہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قائم.ہوجاؤں. اک عام انسان کے لیے یہی حکم ہے. ...معروف / نہی کا حکم.پہلے اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے. آپ کا عمل کا ذکر پہلے ہوتا ہے پھر زبان پر ذکر ہوتا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے عمل کے ذاکر رہے ہیں پھر آپ کو تبلیغ کا حکم.ہوا

مگر ہم.سب مسلمان ہیں اس لیے تبلیغ تو ہم.سب کو سوٹ کرتی.ہی نہیں ہے ہم.سب کو امر بالمعروف نہی عن المنکر کا عمل بھاتا ہے.... 

دوذخ کیا ہے .  دوزخ ہے کیا؟

اختیار کا ختم.ہونا دنیاوی جاہ دولت و سرداری کا ختم.ہونا ہے. جس شخص پر اس کی "میں " حکمران ہو. وہ منفی سوچ کا حامل ہوتا ہے منفیت ---- کینہ بغض لالچ حسد جھوٹ یعنی وہ عناصر جن کا ایندھن پہلے اپنی ذات بنتی پھر دوسرے. وہ شخص اپنی ہی دوذخ میں ہلاک ہو جائے گا

ان کے لیے نیکی کا رستہ بند کردیا گیا جس نے امر بالمعروف نہی عن المنکر کی بات کرنے والے شخص کو لعنت دی. اللہ جل.شانہ اس سے اسکا اختیار واپس لے لیں گے. اسکا اختیار اللہ کا دیا ہوا تو ہے

وہ اپنی منفی سوچ میں پھنس کر رہ جائے گا. اور جس میں کینہ حسد جھوٹ وغیرہ جیسے اوصاف انتہا کو پہنچ جائیں اس کے دل دوذخ کی مثال ہو جاتا ہے. وہ چاہے بھی تو اپنی ہی کریٹذ دوزخ سے نکل نہیں سکتا ہے

حبل الورید ...اللہ شہ رگ سے قریب ہے. یہاں شہ رگ سے قریب سخت رسی ہے. اللہ کی رسی تھامے رکھو مگر جس نے "میں " کی رسی کو تھام رکھا اس کے گلے میں اس کا میں کا.پھندہ اتنا شدید پڑگیا کہ اللہ کا احساس / نام و نشان تک مہ رہا. جس جگہ اللہ کا احساس نہ رہے وہ  جگہ/ دل بے سکون و انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں

جس شخص نے اپنی ذات کی فلاح سے کام کرتے دوسروں کو فلاح پہنچائ وہ کامیاب ہے

جس شخص نے اپنی "میں " کو خدا بنالیا اس کے لیے ہلاکت ہے. اللہ نے اس سے دودی اختیار کی

دل اسکا خالی ہوگیا. دل میں صدا آتی ہے اللہ کی. وہ شخص صم بکم عم کی مثال.ہوگیا
پس میں نے امر بالمعروف کی راہ اختیار کرنی ہے اپنی ذات کو حکم دینا ہے کہ میں فلاح کی جانب آؤں

پھر عمل کا ذاکر ہوتے دوسروں کو زبان سے کہہ سکتی. مشکلات میں اللہ ہمارا ضامن یے. وہ نیکی کرنے والے کے سر پر ہاتھ رکھے ہوتا ہے. اس کا پشت پناہ ...

سورہ ‏نصر ‏سے ‏ملا ‏پیغام ‏

اس سورہ سے مجھے سبق ملتا ہے:  حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اک cause کے لیے کھڑے ہوئے. یقین کے پیکر عالی نے سورج و چاند کی قسمیں کھائیں اور مشن عظیم کو جاری رکھنا کا عہد کیا............ اللہ پاک نے مومنین کو طرح طرح سے آزمایا ...!  مظالم سہے گئے،  مار پیٹ سہی گئی، معاشرتی بائیکاٹ ہوا،  ہجرت کرنی پڑی ... آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنوں کی جدائی سہنی پڑی ... اس کے باوجود آپ کا حوصلہ پہاڑوں کو مات دے. آپ بے مثال شجاعت و دلیری سے معاملات کو نبھاتے رہے،  پے در پے غزوات اور فتح خیبر!  یہودیوں کی عظیم الشان سلطنت کا خاتمہ اور اس کے ساتھ نوید دی گئی فتح مکہ کی ...

میرے لیے سورہ مبارکہ میں کیا.سبق ہے؟  میرے لیے کیسی مدد اور کیسی فتح ہے؟  میں نے خود سے سوال کیا ہے. آج اس مقام پر کھڑی ہوں اور قران کریم کا مخاطب میں ہوں ....
سب سے بڑی جنگ جو آج کے مسلمان کو یا مجھے درپیش ہے. وہ درون کی جنگ ہے. میں نے کوشش کی ہے کہ نفس کے حیلوں کو سمجھ سکوں؟  کبھی نفس کو سمجھانا چاہا؟  نفس میرا بھی یہودو نصاری کی طرح چال چلتا ہے. بد عہدی کا مرتکب ہوتا ہے. اپنا مفاد عزیز رکھتا ہے
یہ سورہ تمام مجاہدوں کے لیے پیغام رکھتی ہوں. میں نفس کے جہاد پر ہوں. یہ جہاد اکبر ہے.  جنگ کیسے ہوتی ہے؟  اسکی مثال 

* چار گہری دوستیں بیٹھی ہیں. ان کے معاشی اسٹیٹس میں فرق ہے. ان میں سے ایک جدوجہد میں مصروف ہے. ان میں سے اک احساس برتری میں مبتلا ہے. ان میں سے اک احساس کم تری میں مبتلا ہے...چوتھی دوست اس جہان میں نہیں ہے. وہ یقین پر قائم رہی ہے اور اب وہ حقیقت میں جی رہی ہے.

احساس کم تری میں نفس حاوی ہے. احساس برتری میں بھی نفس حاوی ہے.جبکہ جو جہاد میں مصروف ہے. اس کی روح کبھی حاوی ہوتی ہے تو کبھی نفس!  پہلی تو خود ترسی کا شکار ہے. اس پر ترس کھایا جائے،  رحم کیا جائے، منفی جذبہ اس کو خود کا اسیر کیے دے گا. برتری تکبر کا جذبہ ہے. شیطان کو جنت سے نکالا گیا تھا تکبر باعث

معرکہ حق و باطل میں اس لڑکی نے کئی معرکے سر کیے ہوں گے. جس سے یقین اس کو ملا ہوگا..  اب اللہ نے میرے نفس کو مخاطب کیا ہے کہ جو کوئی اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرے گا،  ویسے ہی نفس کو شکست دے گا، جیسے آپ صلی اللہ علیہ.وآلہ وسلم اور جناب علی رضی تعالی عنہ نے فتح خیبر میں یہودیوں کی دی. میرا نفس ویسے ہی من میں چھپے حرص، ہوس اور مکاری،  خود ترسی،  تکبر کے یہودیوں سے ڈٹ کر مقابلہ کرے گا تو اسکو اللہ جانب سے نوید ہے کہ اللہ کی مدد آپہنچی یے

اس نوید کے ساتھ ساتھ پیغام تو یہ ہے جس طرح فتح مکہ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خانہ کعبہ کے بتوں کو اکھاڑ پھینکا .یہ نوید ہے ہر مجاہد نفس کو کہ  اس کے دل کا خانہ ء کعبہ منفی عناصر سے پاک ہونے والا ہے. اس کے دل میں اثبات کا نور بھرنے والا ہے روح کو نفس پر فتح کی نوید ہے کہ جو یقین.سے پامردی سے لڑے اس کے لیے فتح کی بشارت ہے

یہ نوید بشارت ہے!  اللہ نے مدد کے ساتھ جیت کی خبر دی ہے.

زندگی ‏حقیقت ‏میں ‏بھاگ ‏رہی ‏ہے ‏

زندگی حقیقت میں بھاگ رہی ہے اور ہم حقیقت سے دور بھاگ رہے .... زندگی دو مدار پر گردش رواں رکھتی ہے ....فنا اور بقا ...بچہ پیدا ہوا ...زندگی ملی اور پھر فنا ہوگیا بوڑھا ہوتے ...قبر تک جاتے ....  اب جو فنائیت مادی جسم کی موت سے ملے، وہ تو کچھ معانی نہ رکھتی ہے ...اس لیے جو انسان اس کی محبت میں موت سے پہلے فنا ہوجاتا ہے ...اسکو  اس دنیا سے جانے کے ابدیت مل جاتی ..اسکا ذکر بلند ہوجاتا ...اللہ فرماتا ہے 

ورفعنا لک ذکرک .... 

اب جس کا ذکر اللہ بلند کرے تو وہ شخص کیا ہوگا ...درحقیقت یہ کرم ہے جب صدر چاک ہوتا ہے ...اللہ فرماتا ہے 

الم نشرح لک صدرک .... ووضعنا انک وزرک ... 

تو اس پر رحمتوں کا نزول ہوجاتا ہے .... علم مل جاتا ہے ..یہ علم کیسے ملتا ہے ...؟  
قران پاک میں رب فرماتا ہے 

یا یھا المزمل .... 

وہ نور جو چھپا ہے،  وہ نور جس نے اک تجلی سہی اور گم ہوگیا ...جسے ہوش نہ رہا ... جس پر ڈر غالب آگیا یعنی رب سچے کا رعب بیٹھ گیا ..... 

اس نور سے رب مخاطب کرتے کہتا ہے ...

اے میرے مزمل .... 

پوچھا رب سے، مالک کیا احکامات؟

قم الیل الا قلیلا ...

قیام کر رات کو مگر قلیل ....
 
مالک قیام کیوں کروں؟  
ورتل القران ترتیلا ..
.
قران پاک پڑھنے کے لیے،مگر اسطرح کے ترتیل سے ...
مالک سے پوچھا قران سمجھ سے مشکل ...امی ہوں ... مگر طلبگار ہوں ...

مالک نے کہا .... 

مطلب ہم سمجھائیں گے، نیت دل پہ قائم رہ .... اسطرح کہ تو ذمہ داری کے قابل ہوجائے ..
..
انا سنلقی قول ثقیلا ....
 
یعنی عنقریب تم پر اسکے معانی مفاہیم سب کھلتے جائیں گے ... مگر انسان کہ نادان ....

لو انزلنا ھذا القران الی جبل الرئیتہ خاشعا متصدعا  من خشیتہ اللہ 

اگر یہ قران کسی پہاڑ پہ نازل فرماتے تؤ خوف سے دبا جاتا ... پھٹا جاتا ...

 مرتے ہیں ہم لوگ اور لفظ کھوجتے ہم لوگ ...یہ قران نازل ہوتا ہے اور اگر قران پہاڑ پہ نازل ہوتا تو پہاڑ  روئی روئ ہوجاتا مگر انسان کے دل پہ قران نازل ہوتا اور انسان غور نہیں کرتا
انسان دیکھتا نہیں کہ اسکو کیسے پیدا کیا گیا؟  اسکی قدر متعین کی گئی ...اسکو احسن التقویم و اسفل سافلین کا اختیار دیا گیا اور خالق نے قسم کھائی "تین "کی اور زیتون کی ...یہ انسان جو اپنے اصل کی جانب آتا نہیں

انسان کا اصل تو وہ دور ہے یاد کرنا ...جس کو یاد کرنے کے لیے قران پاک نازل ہوا ...او غافل!  او نادان ...ذرا دیکھ ...دیکھ لفظ کے ہیر پھیر کچھ نہیں ...اسکی تلاوت ٹھہر ٹھہر کے کرنا لازم

جب انسان بھاری ذمہ داری سے عہدہ بھرا ہوجاتا تو خالق فرماتا ہے ....

وہ ذات بندے کو عرفان کی جانب لیجاتی ہے ... 

سبحان الذی اسرہ بعبدی لیل  من المسجد الحرام الی مسجد الاقصی الذی ....
 

یہی معراج حقیقت ہے ...
اے غافل ..اٹھ ..کپڑے جھاڑ ... اور نیت دل سے وضو کر ...نیت حضور کی طلب رکھ ....تیرا رب تجھے پکارتا ہے اور تو اٹھتا ہی نہیں رات کے پہر ..جس پہر خالق اور بندے کے رازو نیاز ہوتے

دل ‏غم ‏گین ‏بہ ‏رخِ ‏استم*** ‏

دل غم گین بہ رخ استم
دل حزین بہ قرب استم
شام گزید، ستم مکن ...
شاخ بَہ حَرم قرب استم.
خدارا رحم کن بَہ احوال نور....
منم پاشیدم  ،منم روحی  شمشیدم ، حیات گمشیدم، چشم در روح قرار دھید ... کجا رفتم، فنا گشتم....
ستم جانیا بیا پیش دلم
نہم مجرمی بہ عشقم
من رقصی بہ دار عشقم
شمع دل از فنائے رفتم
منم قلندرم منم حیدریم
دل کے قرار کو گلاب لہجہ بنا، آنکھ رکھ، دل میں گمشدہ رہا کر!  دل کسے کب حال سے نکالتا ہے، یہ انسان خود حال سے نکل جاتا ہے ....رقص محفل میں نہیں ہوتا، محفل رقص میں آتی ہے ...زلزلہ دل میں آتا ہے، طوفان  وقوعہ پہ آئے تو تھام کے دل سجدہ کر ...
سجدہ! سجدہ!  سجدہ!
منم ساجد  ...منم ساجد
سجدہ شکر بسمل کا، سجدہ شکر بسمل پہ رقص واجب .....
انا حسینی!  انا حسینی!  انا حسینی!  محبت حسین خمیر میں ہے!  اسکے عشق میں ڈوبی،  غوطہ زن ہو ...کچھ الفاظ کے سمندر ہیں، کچھ معارفت کی گہرائیاں ہیں، کچھ تجلیات سے منور روزن دل، کچھ حدت ہے،  آتش فشانی عمل ہے!  کچھ زلزلوں نے جسم کو ہلا رکھا. ...ہاتھ دعا کو اٹھتے ہیں مالک رحم! رحمی بہ حال بسمل!
تبسم!  تبسم!  تبسم!
تو جس حال کے لیے تخلیق کی گئی، اسی حال میں رحم .... اشکوں کی مالا پرو، رحم کی ندیاں بَہا .... رحم مل جائے گا ...خدمت میں جاودانی ہے ...جا خدمت کر، مرا دل جیت لے! میں تو منتظر ہوں کب سے محبت دوں! تو نے اس راہ آنے میں وقت ضائع کیا ....  آجا!  آجا میری بندی!  میں ترا معبود .....
پڑھ لا الہ الا اللہ
منم:  اللہ ھو اللہ ھو ...ھو، ھو ...اللہ ھو
مالک:  پڑھ رب زدنی علما
منم:  ازدنی علما او رب ....ازدنی، ازدنی ...
مالک: تیرے ساتھ چند فرشتے ہیں، تسبیح خوان ہیں ... چل تجھے علم ملا
منم:  سبحانک لا علم مالنا الا ما علمتنا ....
مالک:  سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی مسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا ...انہ السمیع العلیم ....
منم:  میں مسکین و عاجز .... کیا اوقات ....
مالک:  ما تفکرون؟  ما تدبرون؟  اللہ الوالیی .... اللہ العلیی ...اللہ الرحیم ...پڑھ یا اللہ یا الرحمن یا الرحیم یا ذوالجلال والاکرام .....
منم : میرے احوال پہ رحم ...میرا شمس کہاں گیا!  دل پہ حال، ملال ہے! شکر واجب ...مولا شکر واجب

تخلیہ -**‏

تخلیہ ... 
میرے ہونے کا تخلیہ 
دے رہا ہے جنم مجھے 
میں کون ہوں؟
یہ کون دل کے شیش محل میں ہے؟
یہ کس تیر نے آر پار کیا؟
ہاں!
تخلیہ!
اس سے پہلے کے راز فاش ہو جائے 
اس سے پہلے تو گھات میں آئے نہ خود کے 
مجھے میرے ہونے کا اذن ملا 
اب تخلیہ 
ہاں ...
تخلیہ ..

اک ‏نعت ‏وہ ‏ہے****

اک نعت وہ ہے جو وجد ہے 
اک نعت وہ ہے جو مہک ہے 
اک نعت وہ ہے جو وصل ہے 
اک نعت وہ ہے جو رات ہے 
اک نعت وہ ہے جو بات ہے 
اک نعت وہ ہے جو ساتھ ہے 
اک ذات وہ ہے جو ساتھ ہے 
جو وہ ساتھ ہے تو نعت بنی 
جو نعت بنی تو رات بنی ہے 
رات میں بات،  بات سے بات 
یہ ملاقات ہے، یہ بہاراں ہے 
نعت کا وصف، عمل عین.ہے 
نعت کا وصف،  حب عین ہے 
نعت کا وصف،  جذبِ دل یے 
نعت کیا ہے؟  نعت تعریف یے 
نعت سے بات،  بات سے رات 
رات نے پائی ہے رات کی سوغات 
کر مناجات،  مناجات پسِ ذات 
پسِ ذات؟  ہان عین ذات ہے 
یہ لا عین ہے یا عین لا ہے؟  
یہ عین و لا کا کھیل کیا ہے؟  
کھیل نہیں ہے. 
ہاں یہ ضرب عین و لا کیا ہے؟  
الا اللہ کی ضرب سے نعت ہوتی ہے 
ضرب حق!  ید اللہ ہے 
بانگ مرغ ہے کہ وجدِ آفرینی 
ترنگ میں مگن کوئی ذات یے 
یہ نہ اوقات تھی پر کیا بات ہے 
یہ سوغات ملے جسے عین بات یے 
کمال کا تحفہ کہ لا منات سے لاحاجات سے ہوا سلسلہ 
سلسلہ بنا کیا؟  
ہاں بنتا یے 
سلسلہ تو عین شہود ہے 
پس عکس رقص یے 
دیوانہ کوئے یار جاتا یے 
دیوانہ کو علم نہیں رستہ 
دیوانہ محتاج کسی کا ہوگا؟
لا حاجات سے بات بنی 
لا سے عین شروع ہوا 
العشقُ عین 
العشقُ حب من 
الذات بالذات 
الذات رقصِ اظہارات 
پسِ دل طور کی بات ہے 
سر آئنہ میں ہوں؟  پس آئنہ کون ہے؟

دیوانے کی لو لگی ہے 
شناسا جانے کہ ہوگا کیا؟  
شناسائی کا لطف پوچھنے سے ملے گیا کیا 
ربط ذات میں مناجات لا 
ربط ذات میں لا حاجات لا 
تو رک جا!  ساکت ہو جا 
ذات کو اظہار میں لا 
تو لا ہو جا ...عین الا اللہ ہو جا 
رقص بسمل پسِ مناجات ہے 
یہ دل کی بات ہے رمز شناس یے 
قبلہ یے قبلے میں سجدے کی بات ہے 
قسم اس کعبہ کی 
العشق ذات من 
الحب ذات من 
الذات بالذات 
تدراک نہ ہوگا 
رنگ نی ہوگا 
رنگ مگر ہوگا 
جدا نہ ہوگا 
مگر وصل نہ ہوگا 
کمال نہ ہوگا مگر اس میں کمال.ہوگا

رجب سے شاد ہے 
یہ ناشاد دل کب سے برباد ہے؟
نہیں!  نہیں!  
یہ ذات ہے 
یہ وہ عین ذات ہے 
جس کی بات سے چلی بات ہے 
نہ تھی اوقات مگر کیا بات ہے 
سلسلہ ءنور ہے کہ روشنی ہے 
روشنی ہے کہ ماہ و سال ہیں 
ماہ سال سے پرے اک نظام یے 
نظام سے پرے اک کائنات یے 
کائنات میں تمام عالمین ہیں 
عالمین کے رب کی بات یے 
الحمد للہ رب العالمین 
الرجب !  ہاں رجب!  
ذکر شاد!  ہاں ذکر افکار سے ہوا 
ہاں یہ عین بات سے ہوا 
یہ منادی یے کہ کسی نے کہا 
العکس بات من 
العشق ذات من 
رقص بسمل میں چھپا کیا ہے 
تماشائے ذات سر بازار رکھا ہے 
اس میں کمال نہیں ہے مگر کمال کی رمز ہے 
وہ جو عالمین سے ہے 
وہ دل میں دلوں کو پکڑلیتا ہے 
وہ قلب سے قلوب میں جھانک لیتا ہے 
وہ نظر میں رکھتا ہے 
نظر منظر،  نظر زاویہ 
نظر حاشیہ،  نظر مستور 
نظر اول نظر آخر 
نظر دائرہ، نظر نقطہ 
نظر اک سفر ہے 
سفر کب سے ہے 
سفر میں اک خبر ہے 
خبر میں کیا بات ہے

سرحد ‏پار ***‏

کیا سرحد کے پار پریم رنگوں میں ڈھلی مورت دیکھی؟
کیا سرحد کے پار یار کی یار میں  صورت دیکھی؟
لکھتے ہوئے جس قدر خوش ہوں، اسی قدر کرب سے دوچار ہوں ... 
آتش شوق کے مرغولے بکھر کے دائرے بناتے ہیں 
ان دائروں میں ان کہی کہانی کی تحریر دیکھتی ہوں.  
یہ دائرے سرحد پار سے میرے ہست نگر کے گرد چکر کھا رہے ہیں 
صدائے عشق مجھے نہ دو 
غمِ عشق میں حال سے گئے
کسے فرصت سنے شب دیجور میں سرحد پار کے فسانے 
سرحد پار مٹی کے پتلوں سے ہوتے ہوائیں پیٍغام دیتی ہیں 
آہستہ آہستہ چلیے 
یہ زینہ عشق  قرینہ ادب سے ملتا ہے.
الفت کے نشے میں سرشار ہوں، کسے خبر شرر بار ہوں 
میری حدت سے گھبرا کے آنکھیں موند لیں جس نے 
ہواؤں جاؤ،  بتاؤ اسکو!  بتادو کہ جاودانی ملی ہے!  یہ شراب عشق سے نصیب ہے.  
حبیب کون ہے؟  رقیب کون ہے؟  
کس کو خبر وحید کون ہے؟
کس کو عطا رنگِ پیرہن ہے 
کس کو ملی دستار شوق کہ وہ مدہوش ہے.  
سرمہ ء وصال میں رنگت کا سوال ہے بابا 
رنگت سرمئی ہے!  وجدانی لہر نے نعرہ لگایا.  صبغتہ اللہ!  
ملتا ہے یہ رنگ جس کو 
اسی کو شام و سحر میں انعام ملتا ہے 
وجدان!
وجدان کیا ہے 
میں اکثر سوچتی ہوں وجدان کیا ہے ؟  میں حیران رہ جاتی ہوں کہ وجدان بس ایک راستہ ہے. ایک سفر کی گزرگاہ جو وقت کے ساتھ طویل ہوجاتی ہے اور بحر کی مانند وسیع ہوجاتی ہے.  وجدان الوہیت کے چراغوں کو پانے کا راستہ ہے!  یہ شام حنا ہے جو رات کی ہتھیلی پر سجتی ہے. یہ رات کی قبا ہے جس کو پہن پہن کے رات بہروپ بدل کے جلوہ گر ہوتی ہے. رات کا حجاب کب اترے گا!  افسوس رات کا حجاب تار ازل سے تار ابد تک کالا ہی رہے گا اور اس بے معنویت سے گزر کے صبحیں ملتی رہیں گی مگر اے چارہ گر 
رات کے چراغ سے،  شام کے لباس میں چلتے ہوئے شمس کے سامنے نہ آجانا کہ چاند ہی کافی ہے!  اصل کا پردہ فاش ہوتا ہے تو شمس شمس نہیں رہتا اور چاند چاند نہیں. چاند پر شمس کا گمان اور شمس پر چاند کا. رات اپنے بے معنوی حسن کے پیچھے چاند و سورج کی گفتگو کھولتی ہے تو حجاب فاش ہوتا ہے کہ رات آنکھ کا دھوکا ہے ہر طرف اسی کا سرمدی دھواں ہے بس اسی سرمدی دھواں کے چھپ جانا، چبری اوڑھ لینا حجاب ہے.  حجاب کو ملال کیا ہوسکتا ہے؟  سوچیے؟  سوچ تو یہی ہے کہ حجاب خود اٹھنا چاہتا ہے تاکہ حسن کی سرسامانیوں سے اسے سکون ملے، سامنے والا اس جلوے کو سہے بار بار اور کہے 
حق محمد!  حق علی! حق اللہ 
حق حسین!  حق علی!  حق فاطمہ 
حق اللہ حق محمد

قدیم ‏نور ‏

لکھتا رہے ہے مجھے قلم، سیاہی جانے کس بخت سے نصیب ہے. شام کے دھندلکے میں القران سے جاری وصیت ہے .یہ کائنات کی مجھے نصیحت ہے کہ قائم رہنا ہوتا ہے جب تک کوئ خبر منشور الہی سے نشر نہ ہو. دل کے سودے ہوجائیں تو دل اپنا نہیں رہتا  دل جسکا ہوتا ہے اس کے سامنے سر بہ خم ہوتا ہے. یہ وظیفہ ہے یہ صحیفہ ہے اور میں نے اپنی ذات کی قرات شروع کردی    ... یہ ٹھہر ٹھہر کے پڑھا قران ہے، یہ جو عمل مجھے حکمت کی جانب لیے جارہا ہے. حکیم قران پاک ہے. مجھے قران پاک نے یہ نصیحت کی ہے کہ قران پاک محبت ہے. قران کی آیت آیت محبت سے لبریز ہے. افسوس کیا گیا حضرت انسان پر کہ وہ کیوں جاہل اور نادان ہے ... اللہ نے وقت کی سب سے برگزیدہ ہستی کو کہا 

یا ایھا المدثر 

اے کمبل اوڑھنے والے ....  درون میں کملی کون سی ہوئی. کملی تھی حجاب کی. جب حجاب درز درز روشنی سے اقراء کا پیام لایا تو الہیات سے جسم مبارک لرزنے لگا ... اللہ کی شام بے نیازی والی ہے جبکہ بہترین عبد کو نیاز میں رہنا اسطرح کہ نیاز اللہ کے لیے بطور خیر ہدیہ تقسیم کی جائے. یہ الہیات کا نزول اپنی ذات کے لیے نہیں ہے. یہ ملحم آیت وارد ہوتی ہیں. وارد آیت نشان بن کے دل میں چمکتی ہے. جس دل میں اللہ کے نشان پڑجائے اللہ کے قدم تو نور حادث نور قدیم سے جا ملتا ہے اور مکمل ہونے لگتا ہے .... یہ نور وقت کے  ساتھ ساتھ مکمل ہوتا جاتا ہے ..  یہ نور جب مکمل ہوتا ہے تو کہتا ہے دل 

اللہ ہے خیال،  مجاز میں رحمن 
اللہ ہے حق،  مجاز میں رحمن 

خشیت سے جسم ایسے لرزتا ہے جیسے پتے تیز ہوا سے بکھرنے لگتے ہیں.    انسان خود میں سمٹنے لگتا ہے ..جب کملی بدل دی جاتی ہے،  روشنی مل جاتی ہے تب انسان کے لیے منصب ہوتا ہے اور اسکو عہد نبھانا ہوتا ہے ... فرمایا جاتا ہے 
قم فانذر 

اللہ کریم محبت ہے محبت بانٹنے کا حکم مل جاتا ہے. حق و باطل کے معرکے ہوتے ہیں اور حق کی جیت ہوجاتی ہے. حق سچ ہے اور سچ لازوال ہے .... قلم نے لکھا ہے کہ خدا محبت ہے. خدا کی پہچان محبت سے ہے. خدا ماں کی وہ لوری ہے جو نور قدامت کی پہچان ہے  ہم قدیم نور ازل سے اسکی تلاش میں ہے. یہ کھیل کھیلا جاتا ہے تاکہ کھوجی روح کھوج کرے اور جذب حق میں دھیان سے اس کی لگن قائم رکھے ... اللہ تو قائم ہے مگر عارف اللہ کو قائم رکھتا ہے. یہ پہچان ہے کہ اللہ العالی ہے مگر عارف ذات سے اسکی رفعت کو مذکور کرتا ہے توصیف کرتا ہے. جس کی رفعت کا تذکرہ ہوتا ہے وہ کون کررہا ہے یہ دیکھا جاتا ہے .. عارف اللہ کی وہ زمین ہے جس کو شمس کی سی تابناکی حاصل ہوتی ہے 

سنو ... خدا قدیم ہے مگر جس کے لیے نور حادث ہے اس نے نقطے کی جانب سفر شروع کردیا ہے  اس نے ع اور غ کا فرق مٹا دیا گویا نقطہ اس کی ذات ہے. یہی پہچان ہے کہ نقطے ہو جاؤ اور نقطے مٹادو ...نقطہ جس کو مل گیا اس پر الم کا نشان بطور قدم واجب ہے  یہ آیات قدم ہیں جو دل پر ایسے پڑتے جیسے گرم پگھلا لوہا ہو دل ... نشان ہوتا ہی منور ہے

حبیب ‏دل ‏میں ‏رہا ‏ہے ***‏

حبیب دل میں رہا ہے 
قرینِ جاں وہ رہا ہے 
کون ہے وہ پتا بتاؤ؟
نَہیں!  حجاب اچھا 
نہیں اچھا نقاب!  
پاگل ہو تم،  سب دید میں ہیں 
محو لقا ہیں 
گم دیوانے ہیں 
مے خانے پیمانے میں ہو 
تم کو دیوانے کہتے ہیں 
میخانے پیمانے میں ہیں 
دل میں رہتے مستانے ہیں 
یہ دل مکین جانب اطہر ہے 
شاہ دو جہاں کا یہ اثر ہے 
دنیا کی دل میں اک قبر ہے 
دنیا نبھانی اب اک  جبر ہے 
دنیا میں رہنا؟  ارے حذر ہے 
دنیا مٹی ہے اور دل پاؤں ہے 
رکھی کسی نے یہ چھاؤں ہے 
رحمت کی بدلی چھائی ہے 
رحمت سے دنیا پاؤں میں ہے 
کملی والے نے لاج رکھی ہے 
صدائے دل میں بات رکھی ہے 
وہ کون ہے جس میں جلوہ حق نما ہے 
وہ کون ہے جس کو غازہ کہا دنیا نے 
غازہ حق لیے وہ شہپر جبرئیل لیے ہے 
دل کو دیکھو یہ بابرکت قندیل لیے ہے 
وہ محمد کا نور ہے دل پر نوری ہالہ ہے 
یہ شیریں درود ہے کہ درود کا پیالہ ہے 
دل میرا جھکا ہے  کہتا ہے شہ والا  ہے 
دل کی زمینیں ہیں 
دل کے افلاک ہیں 
دل پر رحمت کی بدلی ہے 
دل پر جنبشِ مژگان نے نم کردیا یے 
نم ڈالتے ہیں وصل کرتے ہیں ہم 

میں نے محبوب سے پوچھا تم کہاں تھے؟  کیوں نہیں ملے اس سے قبل؟ کتنا رلایا تھا ...رات جگایا تھا مگر نہ آئے تم ...اب تم آئے ہو جب دجلہ سوکھ گیا ہے جب بادل پانی کھوچکے ہیں جب بینائی نے آنکھ کھودی ... ظلم ہوا نا مجھ پر ... محبوب پیارا ہوتا ہے محبوب آنکھ ہوتا ہے آنکھ ہے روشنی ہے ...آنکھ اسم ذات ہے محبوب اسم ذات ہے محبوب بندگی کی وہ روشنی ہے جو ھو بن کے دل میں جل.رہی ہے. رحمت کی جل تھل ہے کہ جل جل بجھ بجھ کے جل رہی ہوں. کملی.والے نے پناہ دے رکھی ہے میری ذات میں شام رکھی ہے دل رات کی ہتھیلی میں ہےاور سورج کی تابش میں جلن نے دل جلا دیا 

جل گیا دل.اور بچا کیا؟ 

تو بچائے کیا آئنہِ دل؟  دل تو بچا ہی نہیں ہے دل کسی کی یاد میں فنا ہے ... فنا ہونے کے لیے محبوب چاہیے ہوتا ہے اور جس دل کو طالب نہ ملے وہ مطلوب نہیں ہو سکتا ...
جس.کو.مطلوب نہ ملے وہ طالب نہیں اچھا 

طالب بن جا مطلوب پاس ہو 
مطلوب ہو جا کہ طالب پاس ہو 

یہ قاب قوسین کی.رمز نرالی ہے ...ہم ان کے سائے میں ہیں یہ حکمت نرالی ہے ...یہ ثمہ دنا کی.رفعت بن مطلوب حاصل نہیں ہوتی ہے ...مرشد کا سینہ.قران ہے جس کو سینہ نہ ملے اسکو پناہ نہیں ملے گی ... اپنے آپ کو بچالو محبت سے ...

اے محبوب تم نے کتنے واسطوں، کتنے سلسلوں میں بات کی؟
تم کو دوئ میں جا بجا دیکھا 
تم کو خود میں نہاں دیکھا 
اے محبوب بتاؤ کہاں کہاں نہیں دیکھا .. باہر ہو تم ..اندر بھی تم ... تمھارے نام کی شمع جلتی ہے دل میں تو نام اللہ نکلتا ہے. تسبیح دل والی پڑھو. تسبیح کیا ہے؟

محبوب کہتا ہے کہ تسبیح دھیان ہے دھیان میں آجاو ..دھیان فکر ہے اور افکار میں وسعت ہے وسیع ہوجاؤ لامحدود ہو جاؤ عشق لامحدود ہے اور تم کیسے دھیان محدود کیسے کرسکتے. تم کو رفعت پر جانا ہے اور بے انتہا کی شدت میں گم ہونا 

اے  بیخودی ہم کو تھام لے 
اے خودی تجھ میں گم ہیں 
یہ خودی سے ابھرتا جنون ہے 
روح گم ہے اور گم کس جہان میں ہے 

اچھا.محبوب کہتا ہے کہ جام وحدت پی لے اور کہہ دے دوئی نقش ہے جھوٹا اور کردے عشق سچا. 

دل بتا تو سہی کہ عشق سچا میں کیسے کروں؟  تو خود اسم دعا بن کے مٹا دے جھوٹ دل کا اور ہو جا مجھ میں بس اک تو سچا 

حق سچا اللہ ہے 
محبوب میرا اللہ ہے 
محبوب وہ ہے جو اللہ سے ملا دے 
اللہ.اللہ اللہ کہو 
اللہ.سے اللہ ملے گا 
اللہ کہنے میں رمز پوشیدہ ہے 
ذات خود میں پہچان کرچکی ہے 
یہ معرفت وہ حاصل کرچکی ہے ...

طریقہ ----*****‏

چل اس نہج کہ زمین کی گردش تھم جائے اور افکار کے سلاسل مل جائیں. کچھ مل جائے تو دل ہِل جائے. دل کو صدا سنائی دے یا چہک اس بلبل کی جو زمن در زمن ساتھ میرے ہے. زمانہ تو میرے ساتھ ہے تو میں کون ہوِں. مجھے افلاک کا سینہ چیر کر دکھایا جائے تو دل گویا ظاہر ہوجائے. ایسے ممکن نہ تھا کہ مکان گویا مکین کے بنا.ہو. مکین ساتھ ہو.تو زمانے ساتھ ہوتے ہیں ..  مکین سے پوچھا جائے کہ زمانے ساتھ ہیں تو اس مکان کی حیثیت کیا ہوگی. مکان والے بڑی شان والے ہوتے ہیں اور شان کریمی سے پردہ بڑا رہ جاتا ہے. فہم سے مدبر ہوتا انسان خود میں دربار ہوجاتا ہے. دل میں مکین ہو شاہ اور حجاب رہے تو حضرت انسان پردے سے ہچکچاتا ہے  ہچکی لگی رہے گی تو زمین خالی نہ رہے گی. سیلاب زندگی کا عندیہ ہیں اور تخریب کا صدقہ بھی  یہ تلاطم وجود میں جب بھرپور ہوتے ہیں اور شور میں ہیجان آتا ہے  شور کہتا ہے کہ  چل جانب منزل  چل اس متناہی سلاسل سے لامکان کی منزل پر جہاں تجھ پر حقائق ہائے ھو کھلیں  جہاں شور میں سکوت اور سکوت میں شور ہوجائے  دل میں بس اک صدا ہو بس جناب وہ کہیں گے 

یا محب و محبوب 
یا مطوب و طالب 
یا عاشق و معشوق
اے طواف والی ہستی 
مطاف میں بٹھا 
مطاف میں نور ہے 
نور جانے کس کا ہے 
نورِ من تو سن!
طورِ دل بتا تو 
کہ انگلیاں کٹ گئیں 
بنا دیکھے حسن کی تابش 
دیکھیں گے تو حال کیا ہوگا 
یہ جلوہ حضور 
مجھے کرے مہجور 
وادی عشق میں طیور 
ان کی جانب ہیں ضرور 
مٹ جائیں دل کے فتور 
دل کو مل جائے صبوری 
راقم سے ہو بات ضروری

سفر ‏کا ‏آغاز ‏***

سفر کا آغاز شروع نہیں ہوتا مگر جب بچہ قدم رکھتا ہے ـ قد بڑھ جاتا ہے اور شعور پختہ ہوجاتا ہے ـ روح کا شعور سمجھنا پڑتا ہے یعنی شعور میں لانا پڑتا ہے ـ تم فلک پر بیٹھ کے وہ لکھتے ہو جو وہ لکھواتا ہے، تو پھر شعور بیدار ہے مگر تم زمین پر رہ کے اسی میں کھو گئے ہو تو زمین کی ناسوتی نے تم کو گھیر لیا ہے ـ  فلک پر مقیم ہونے کے لیے طائر کو پرواز چاہیے ہوتی ہے. پرواز کو پر لگانے والا جانتا ہے نور کن ہندسوں اور کن حروف سے منتقل ہوتا ہے ـ  تم کو آیات نوری چاہیے اور تم نہیں جانتے کہ خدا تم کو یہ آیات نوری دینا چاہتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ نور اپنا دائرہ مکمل کرلیتا ہے ـ دائرہ مکمل ہوتے ہی فرق مٹ جاتے ہیں ـ تب ہی دوئی کا خاتمہ ہوجاتا ہے ـ وحدت کی جانب سفر کا آغاز خشیت سے ہوتا ہے جب روح کو جلال ملنے لگے تو یہ مقام ہے ـ مقام اقرا.  یہ مقام لاہوت ہے. مقام لاہوت پر جائے بنا لفظ اقراء کے مکارم سمجھ نہیں آتے. جب لاہوت پر مقیم طائر جاننے لگتے ہیں تو ان کو ترس ہونے لگتی ہے کہ قراءت ہو مزید. ھل من مزید کرتے کرتے ان کو سرر کی منازل میں وہ سب طے کرایا جاتا جس کے واسطے ان کو عبدیت کا درجہ ملنا ہوتا یے. ہم چاہتے ہیں کہ انتخاب کریں تو ہمارا انتخاب کا طریقہ یہی ہے کہ دینے والا بس تسلیم میں رہے کہ بقا ہمیں ہے. یہ ہماری کرسی ہے جس پر ہم قرار کیے ہوئے ہیں. ہم دیکھتے ہیں تو روح دمکنے لگتی ہے. اسکو ہماری چاہت ہے. اے طائر،  تو نفس کے دھوکے و فریب میں پھنس کے اس کرسی کو اپنی کرسی مت سمجھنا ورنہ شہ رگ سے جو قلبی قلبی فرشتہ ہے،  جان کنی کے عالم میں اس سے ملنا محال ہو جائے گا. ہم نے جو عطائے غیب سے عطا کیا ہے وہ اک جریدہ ہے. اس پر جو تحریر ہے وہ فیکون کا وہ علم ہے جو تکوین کا محتاج ہے. ہم نے چاہا کہ پرواز دی جائے تو ہم چاہیں گے ایسا ہوگا. کسی کی مجال نہیں ہے کہ ہمارے قانون میں دخل ڈالے 

اے طائرِ سدرہ!  تجھے کس بات نے دھوکے میں ڈآل رکھا ہے؟  یقین کے بنا کچھ ممکن نہیں ہوتا ہے. جب تک نوری ہالہ مکمل نہ ہو، تب تک وہ مقام مقربین کا جو لکھا ہے، وہ ملتا نہیں . نقطے سے سفر شروع ہوتا یے دائرہ بنتا ہے اور دائرہ پھرنقطے تک لوٹ آتا ہے. سو لوٹ کے ہمارے پاس آنے والی روح،  اطمینان سے رہ!  سمیٹ لے یہ اشک اور سجدے میں رہ. خدا ساجدین کو محبوب رکھتا یے خدا صابرین کو محبوب رکھتا یے

قلم-- ‏کہانی ‏

اپنی کہانی ہے اور قلم لکھ رہا ہے. اصنام ستارے سے یا افلاک سے پرے مگر ہیں اصنام  ... دل کو ایک صنم کافی ہے جس نے انگلی پکڑ کے چلنا سکھایا کہ تو اب اٹھ اور کر کام. کام کے لیے یہ جہاں ہے. جہان میں ستارے ہیں جبکہ ہر انسان ستارہ سحری لیے ہے. تجھے چاہیے کہ ستارے کے پاس نہ جا بلکہ ذات کے سحر میں ستارہ ہو جا. اب کن سے فیکون ہو جا. امر حاصل ہے تجھ کو کہ خداکا امر ہے ہر جگہ اور اسم ذات سے جڑی ارواح کی تسبیح اللہ اللہ اللہ ہے. اللہ اللہ اللہ کرنے سے کام بن جاتا ہے کہ خدا ماں جیسا مہربان ہے مگر خدا اپنے ساتھ ذات کا خلوص مانگتا ہے. تجھ کو چاہیے کہ نیت خالص کرکے خدا کے پاس چل. وقت کے مذبح خانے میں جوہر لٹا دیا جائے تو تڑپ کو قرار کب ملتا ہے  تڑپ جذب کرنے سے قائم ہوجاتا ہے اسم ذات مگر نادان اس بات کو کہاں سمجھ سکتے. اے دل! قسم اس جہان میں ہزار دل ہے اور ہر دل میں اللہ ہے  ہر دل کی تسبیح ہے اللہ اللہ اللہ. اللہ کے اسم ذات سے ھو کا جلوہ ہوتا ہے. ہر جانب ھو ہے یعنی اللہ پورے جہان میں جلوہ گر ہے. کب کسی نے کہا ہے کہ قران پاک مقدس جائے نمازِ دل ہے. جب تک نیت کا جائے نماز بچھایا نہ جائے دل وضو نہیں کرسکتا. اے دل!  قرار پکڑ کے قائم ہو جا اس کلمے سے جس میں ھو کی نشانیاں ہیں. محبت مل جاتی ہے اور محبت تقسیم ہوجاتی ہے. جذبات نکھر جاتے ہیں اور قلب مطہر ہو جاتے ہیں. مطہرین کو چاہیے کہ نیت پاک رکھیں ورنہ کام بنتا نہیں یے. جس کا کام نہ بنے وہ گیا کام سے. جب سے اس جہان میں حسن آیا اور جلوہ گرہوا ہے. تب سے جہاں میں حسینوں کے متلاشی بنائے گئے ہیں. اک تلاش کرتا ہے حسین کو اور دوجا محسن ہوجاتا ہے. یہ محسن و متلاشی کی بات ہے. یہ قربت کی انتہا کی بات ہے کہ جس میں دوئی نہیں ہوتی کہ جس میں من و تو کی بحث نہیں ہوتی. یہ جذبات مصفی و مجلی ہوتے ہیں اور آیت زیتون دل میں ابھر آتی ہے. یہ زیتون کے بابرکت تیل سے آگ پکڑتی ہے اور دل کا لوح اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے. کون اس میں کود سکتا ہے؟  یہ عشق ہوتا ہے جو نار میں کود پڑتا ہے نار گلنار ہوتی ہے مگر کون جا سکتا ہے کہ درد کو ختم کرنے کے لیے درد جذب کرنا پڑتا ہے. جذبات پانے کے لیے جذبات قلم کربے پڑتے ہیں. قلم تلوار کی مانند ہر شے قلم کر دیتا ہے اور خالی دھڑ سے بسمل کا رقص ہوتا ہے بسمل دار پر رقص کرتا ہے اور جوش میں ہوش قائم رہتا ہے. یہی عین حیات ہے جو بعد ممات ہے

قصہ ‏گو ‏

قصہ گو چھیڑ رہا ہے قصہ مجھ میں اور میں لکھ رہی ہوں عشق کی کہانی . مقدس صحیفہ ہے جس کو لوح مبین سے مبارک دل میں اتارا گیا تھا اور اس کے جلوہ کو مخلوق آئی تھی. یہ نہ کہو کہ عشق مجذوب ہے بلکہ جس دل میں اترا ہے وہ مندوب رسول ہے. قسم اس رات کی جو سینوں میں قرار پکڑ لیتی ہے وہ عشق کی آگ ہے جس سے دل کے درد چھالے بدن کو دیکھنا محال ہوجاتا ہے. یہ آگ ان دیکھی ہے جس میں روح جل جل کے وہ خوشبو بکھیرتی ہے کہ روم روم سے یار   نکل آتا ہے اور یار اپنے  ذرے میں رونما ہوجاتا ہے .

جیسے اک مصحف تم میں ہے ویسے اک مصحف ہر آیت میں ہے. عشق دکھاتا ہے آیت آیت میں آیت ہے. یہ وہ ہاتھ ہے جسکو یدبیضاء کہا گیا ہے جس سے دل پر نوری ہالے وجود پکڑلیتے ہیں گویا دل برقی رو پکڑلیتے ہیں ... سب یک ٹک ہو کے تسبیح ھو کے پڑھنے لگتے ہے. کون کہتا ہے قران پاک میں عشق و معشوق کے قصے نہیں ہے. عشق کا قصہ اتنا مقدس ہے جتنا اک مجذوب کا دل. یہ کہانی تو قرار پکڑی، جب آدم علیہ سلام کو جنت سے نکالا گیا تھا

وہ گریہ ء آدم جس کو دل میں محسوس کیا جاتا ہے وہ کیا ہے؟  عشق گریہ کے بنا نہیں ہوتا ہے. یہ دل روتا ہے دیدار و وصلت کو .....،  وہ جنت جہاں راحت و چین جذب  کی صورت سرائیت کیے دیتی ہے اور کیا تم نے نہیں دیکھا اک باپ،  بیٹے کی جدائی میں بینائی کھو دے ... وہ عشق تھا جس نے خوشبو سے پتا دیا، بیٹے کا وہ دنیا میں خاکی لبادے میں موجود ہے

عشق اک ماں کے سینے میں نمودار ہوتا ہے اور ماں بچے کے لیے روتی ہے جیسا گریہ یعقوب تھا تم نے سنا. کبھی گریہ یعقوب دیکھو اور دیکھو کتنی مائیں اس جہان میں اپنی قربانی سے زمانے کو سنوار رہی ہیں

عشق کو پڑھو تم تو یاد ہوگا جب باپ و بیٹا قربان ہونے مقتل کو پہنچتا ہے اور اک دنبہ نمودار ہوجاتا ہے. دیکھو تو تم اک طالب رہا دوجا مطلوب ہے

عشق طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کو مطلوب بلاتا ہے اور مطلوب کو طالب. پیاسا کنواں کے پاس آجاتا ہے اور کنواں پیاسے کے پاس. قران پاک میں عشق کی داستانیں ہیں یہ داستانیں جب موسی علیہ سلام نے لن ترانی کہا. لن ترانی سے من رآنی کا سفر تھا سارا کہ ہستیاں بدل دی گئیں

عشق طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کو مطلوب بلاتا ہے اور مطلوب کو طالب. پیاسا کنواں کے پاس آجاتا ہے اور کنواں پیاسے کے پاس. قران پاک میں عشق کی داستانیں ہیں .....، یہ داستانیں جب موسی علیہ سلام نے لن ترانی کہا. لن ترانی سے من رآنی کا سفر تھا سارا کہ ہستیاں بدل دی گئیں

یہ عشق کا سارا کھیل ہے کہ جو ازل سے آزاد روحیں میں چلتا  آیا ہے جب ابراہیم علیہ سلام نے خدا کی کھوج کی اور کہا کہ خدا تو کیا چاند ہے؟  کیا تو سورج ہے؟  مظہر مظہر سے ہوتے وہ کہاں پہنچے... اللہ تک . ہر آزاد روح جو تلاش کرتی ہے خدا کو مظہر مظہر میں،  یہ عشق ہے ..

یہ طالب و مطلوب کی کہانی ہے کہ طالب کہہ رہا کہ کہاں ہے تو مطلوب. اے مطلوب چل آ ... مطلوب کہ رہا ہے کہ طالب آ،  طالب آ،  طالب آ ... یہ شب بیداری کے قصے جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جاگتے رہے اور حرا میں قائم رہے .. زملونی زملونی کہتے خشیت میں ڈوبتے ڈوبتے رہے یہ کیا تھا ..یہ عشق تھا
جب مومنین کی کھالیں قران کی خشیت سے کانپنے لگ جاتی ہیں اور وہ جذب ہوجاتے ہیں بہت سے ایسے ہیں جو آیت کے نور سے مسلمان ہو جاتے ہیں، یہ جذب ہونا عشق ہے

عشق مجذوب ہونا مانگتا ہے عشق جذاب مانگتا یے ....، عشق حسین مانگتا ہے،  عشق حسن مانگتا ہے ...، عشق کلام الہی ہے ....یہ قلم سے چلتا سلسلہ ہے جس میں ارواح زیر دام ہوتے قربان ہو جاتی ہیں. یہ جان دینے کا نام ہے جب ہم نے پڑھا قرأت صحابہ کی گرم کوئلوں پر ... یہ طالب و مطلوب کی کہانی ہے جس میں جمال کی طالب ارواح اکٹھی ہوگئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاز .. قسم اے دل..... تمام ارواح آج بھی جمع ہیں اسی گھڑی کو ہم دیکھتے ہیں ان کی کملی نے ایسی تمام ارواح کو اپنے کملی میں لے رکھا یے

لفظوں کے ہیر پھیر میں میرے دل کچھ نہیں. بندگی عشق ہے عبدیت عشق ہے  ..عبدیت یعنی خود نیاز کی انتہا میں ہونا اور خدا وہ ہے جو بے نیازی پر ہوتے اپنی مامتا کو لٹاتا ہے وہ ہے. لفظ عشق نہیں ہیں    روح عشق ہے عشق میِ روح جل جاتی ہے کپڑا جب تک نہ جلے عشق نہیِ ہوتا

کپڑا جلنا چاہیے اس لیے سورہ النور میں نور علی نور فرمایا ہے مرشد وہ نور ہے جو روح کے نور پر نور ہوجاتا ہے آئنے کو آئنہ نہ ملے آئنہ روتا ہے آئنہ چاہیے .. آئنے ہوتا ہے عشق ہوتا ہے....

آؤ ہم سب دعا مانگیں کہ ہمیں عشق سے نواز دے خدا...ہماری جھولی میں عشق کی وہ لازوال دولت رکھ کہ ہم تن من لٹا کے خدا کی گود میں سر چھپالیں کہ ہمیں بس خدا کافی ہے اللہ ھو الکافی اللہ ھو الشافی...خدا ماں کی لوری ہے. یہ جو مائیں پھرتی محبت بانٹتی ہیں بن عشق کے یہ قربان ہو سکتی ہیں؟ ان کی روح جل رہی ہوتی ہے ان کا درد مانگتا ہے اور درد اور.....،  درد کی دوا ہے درد....اے خدا ہمیں درد بے انتہا دے اور اتنا دے کہ درد نہ رہے اس درد میں یاد رہے تو اورکوئی نہ رہے کہ تو نے باقی رہنا ہے باقی سب کو فنا. اے خدا ہم کو فنا کردے کہ ہم فانی یے تو باقی. جب دل فنا ہو جاتا ہے تو دل کہتا ہے....، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ...یہ کلمہ ایسے دل میں قرار پکڑ جاتا ہے اور ہم کو خدا کے سوا کیا چاہیے  خدا کافی ہے

اضطراب*** ‏

بے چین ہے دل کیوں؟  یہ اضطراب کیوں ہے؟  رُخ تو مائل ہے، دل میں محسن بیٹھا ہے اور جزا نہیں محبت کا. اس سے پوچھنا کہ موجِ اضطراب مانند بحر تموج رکھتی ہے اور انتہا مانگتی ہے.  تو درد دے!  دے اور بے انتہا دے مگر ساتھ وہ دے جس کے لیے کاتب کو مکتوب لکھوا رہا ہے. یہ فاصلے حائل کیوں ہیں؟ یہ نقاط کیوں متصل نہیں ہورہے؟  تو نے کہا تھا کہ تو دے گا؟ تو نے تو کہا تھا تو نہیں چھوڑے گا!  تو نے تو کہا تھا کہ دائم ساتھ رکھے گا مگر یہ جو دوری ہے یہ تو اضطراب ہے ـ اے برق نمودار ہو!  اے شعلہ جلا دے!  اے الوہیت کے چراغ،  ملوہیت کی روشنی سے نواز ... تو نے دینا ہے تو نے تو کہا تھا تو دے گا 
خاموشی ہے اور رات سوتی ہے 
تو نے تو کہا تھا تو تو دے گا 

پھر سیم و زر کے انبار کہاں ہیں؟  پھر وہ رات کے عروج پر بام و در سے کھلی روشنی کہاں ہے ـ میرا گنبد افلاک میں کھوگیا ہے ـ یہ معبد بدن میں کس کی آیت ہے؟  یہ موج حق ہے جو سینے میں پیوست ہے 

سو جاؤ!  سو جاؤ!  سو جاؤ!  
ورنہ زار زار رو!  زار زار رو!  
اس نے بلایا نہیں ہم جاتے نہیں 
وہ بلائے گا تو ہم جائیں گے 

اک اسم مانند فرشتہ راہ میں ہے.  اک اسم مانند آئنہ نمود میں ہے. اس نے کہا تھا دید کریں گے. کرو گے پھر تم دید ... چلو پھر وادی ء بطحا میں چلیں. چلو پھر النمل کو پڑھیں. اور دیکھو چیونٹی کا سینہ زمین پر کیسا بھاری پڑا تھا.  چلو ہد ہد سے پوچھیں کہ افلاک سے زمین تلک کس کی شہنشاہی ہے ..چلو چلو ہم خود کن پڑھ کے پھونک دیں تن من میں "اللہ " جان آئے گی ہم میں.  جی اٹھیں گے ہم.  مردہ دل کو چاہیے کیا؟ کیا نہ چاہیے؟  وہ دے گا روشنی سے منور سجدہ. سجدہ پڑا رہے گا اور ہالہ نور سفر کرے گا. یہ مقام حــــم کب کھلے گا. یہ اسم طلحہ ہے. یہ مجاور اسماء کے فرشتے ہیں. دل میں مزار ہے جس میں نورانی مصحف کو پڑھنے والی کنجیاں ہیں اور مطہرین ان کنجیوں کو کھول سکتے. چلو " اسم کن " سے "لفظ " اللہ " کو پھونک دیں. یکمشت سب خود کھل جائے گا. تمام اسماء کی مجال نہ ہوگی. ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے .... صاحب قران وہی ہوتے ہیں!  قاری ء قران وہی ہوتے ہیں 

اے خدا!  کتنی دیر؟  یہاں سانس کم ہیں،  کام زیادہ ہیں. اے خدا بلا لے اور کاتب کو پکڑا دے وہ تمام اسماء جس کو بوقت نفخ دیا تھا. نائب کو چاہیے کیا؟  نیابت ادھوری ہے!  انسان ادھورا ہے. تجھ کو اللہ کب گنوارا ہے کہ نائب ادھورا رہے.  تو نے تو کہا تھا تو اپنا نور مکمل کرتا ہے. تو نے تو کہا ہے کہ نور مکمل ہوگا چاہے جتنی کوشش کوئ کرلے. تو نے کہا ہے کہ اکملت اکملت اکملت. جب تو نے مکمل کردیا تو امتی کیسے رہ سکتے؟  یہ تو ہمارے لیے ہے نا؟  ہے نا؟  ہے نا؟  تو دے دے اللہ!  اس سے پہلے سانس گھٹ کے مر جائے!  مرض بڑھتا جائے گا دوا کب ہوگا. تو نے کہا تھا کہ تو ملے گا. تو نے کہا تھا تجھ کو مخلوق سے محبت ہے. تو محبت والا ہے. تو پیار والا ہے. تو مانگے ہیں ہم اور مانگی جائیں گی کہ بنا لیے ہم کیسے جائیں؟  بتا؟  بتا؟  بتا نا؟

رنگساز ‏

رنگ والے نے بلایا ہے. رنگ والے سے کہو کہ اللہ ھو. اللہ ھو. اللہ ھو 

تم اللہ، وہ اللہ،  یہ اللہ،  ادھر اللہ،  اُدھر اللہ 
واللہ،  واللہ ہر جگہ اللہ،  واللہ واللہ اللہ اللہ  
یہ اللہ میرا، وہ اللہ اسکا،  نہیں سب کا ہے 
کہو اللہ، کہو اللہ،  اللہ والے سنیں گے ھو ھو 

تو خود ہے!  تو خود ہے!  تو خود مصور ہے!  تو خود ترتیب ساز ہے. تو چشم بصیر سے دیکھے اور کوئ جگہ ایسی نہ ہو جہاں چھپ نہ سکے ہم. ہم چھپ نہیں سکتا وہ دیکھے اگر تو تاب لاؤ گے؟  لاؤ گے تاب؟  آب و تاب میں حساب نہ  رکھو ورنہ ہو جاؤ گے لاجواب. یہ شام گلاب ہے. یہ شام ہے مست ولائے حیدری. منم حیدری! ہم حیدری ہیں. ہم غلامِ علی ہیں ... ہم غلام پنجتن پاک ہیں. بے حساب درود اعلی ہستیوں پر. یہ شمار نہیں کرتے دینے میں. مانگ لیتے ہیں ہم ان سے ذات اپنی ... ذات وہی ہے جو ساڈی ذات ہے. اسم ذات ہے!  حق ذات ہے!  جس میں شاہ عباس ہے. جس میں ریشمی رومال ہے جس میں ساجد بھی اک ہے وہی مسجود ہے. فرق نہیں. دوئ نہیں تو نماز ہوئ کیا؟  بس جانو اور کہو نہیں جانا. معلوم نہیں ہے. ہم نہیں جانتے 
کیف ھالک 
کہنا اچھا ہے سب 
یوم تکملو 
کہو کیا پتا کیا خبر 
بس کہو اللہ اللہ اللہ 
اللہ اللہ کہنے والا ساز اک 
اللہ اللہ کہنے والی بات اک 
اللہ اللہ کہنے والی آگ اک 
اے برق نسیم!  کدھر ہے!

بس ہم مرجانا چاہیں پر موت نہ آئی. ہائے!  کب آئے گی موت اور کب وطن واپسی ہوگی کہ پھر مکان کی قیود نہ ہوں گی. لباس پہنو یا اتارو اپنی مرضی. بس دوری کا سوال نہ ہوگا  بس اک بات ہوگی. وہ ہوگا وہ ہوگا وہ وہ ہوگا ہم نہیں ہوں گے ہم کدھر ہوں گے؟  گم گم گم گم گم ہم نقطے میں گم ہوں گے. ہم محور ہوں گے ہم گردش میں ہوں گے. ہم  رقص ہوں گے. ہم اپنا تماشا دیکھیں گے اور کہیں گے ھو ھو ھو ھو ھو

دعا ‏

دعا ہے کہ دعا رہے یہی.  جلتا رہے دل یونہی یونہی.  سچ کی رعنائی ملے یونہی.  افق کے ماتھے پر شمس ملے یونہی.  رنگ ملنے سے اچھا ہے رنگ نکل آئے.  چشمے اُبل پڑیں ... کچھ پتھر ایسے ہیں جن سے چشمے ابل پڑتے ہیں. کچھ ایسے جن کو برق اچک لیتی ہے. اک نے فیض دینا ہوتا ہے دوسرے نے لاڈ لینے ہوتے ہیں. پتھر کوئ ہوتا نہیں ہوتا جب تک پانی نہ ملے یا برق نہ مل جائے. یہ ہنگام شوق دیکھتا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ رات ہے اس میں بیٹھا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ جواب ہے سوال میں ڈوبا رہے گا؟  آگے بڑھ!  یہ نفس ہے اور نفس میں ڈوبا رہے گا؟  آگے بڑھ!  یہ روح ہے اور الجھا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ جسم کی قید نہیں ہے،  پرواز کو سوچی جائے گا؟  آگے بڑھ!  یہ طائر بیٹھا ہے کیا بیٹھا رہے گا؟  آگے بڑھ. یہ سمت ہے، وہ سمت ہے اور تو سمت کا تعین میں رہے گا؟  آگے بڑھ؟  یہ سجدہ ہے اور تو سوچے گا سجدہ کس نے کیا؟  آگے بڑھ؟  

اے حضرت انسان!  تجھے ترے رب نے عزت بخشی مگر تو نے تو رب سے بے نیازی دکھا دی جبکہ بے نیازی تواس کی شان یے. اے اشرف المخلوقات! تو نے سوچا نہیں کہ تجھے احسن التقویم کیوں بنایا؟ تو فکر کیوں نہیں کرتا؟ تو فکرکرے تو مجھ تک آ پہنچے مگر تجھے اپنی آیتوں کی لگی یے 

اے حضرت انسان. تجھے نسیان کھا جائے گا. تجھ کو ذمہ داری سے بات سننی چاہیے تاکہ تونفس پر رہنما ہو جا. تجھے لاج رکھنی چاہیے اس خلافت کی جو آدم کو ملی. آدم سے آگے سینہ بہ سینہ منتقل ہوئ .... یہ انبیاء کرام،  یہ رسول مقام بہ مقام زینہ بہ زینہ چلے اور زینہ کی انتہا معراج .... ہم نے دی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. اے انسان ...جب ترا ذکر کہیں نہیں تھا تب بھی میں تھا. تب تو نیست نابود ہوگا تو کس کا ذکر باقی رہے گا ... جس کو سمجھ لگے گی دوئ نہیِ کہیں وہ جانے گا جنت ودوذخ تو تضاد ہیں. خدا تو ضدا سے مبرا یے وہ نہ شرقی نہ غربی ہے. اس کا چراغ الوہی جل رہا ہے. جل رہا ہے  جل رہا ہے. جل رہا ہے.