Monday, February 22, 2021

دعا

انسان کسی بات کے لیے اپنی سی کوشش کرتا ہے میں نے بھی کوشش کی  ۔۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ  دل کو چھڑاؤں، ضبط کا دامن تار تار نہ ہو،  میں نے کوشش کی شیشہ دل پر لگی ٹھیس عیاں نہ ہو مگر افسوس ! میں نے کوشش ہستی کا دھواں رواں رواں نہ دے، میں نے کوشش کی وحشت کو پنجرے میں ڈال دوں،  میں نے کوشش کی خود کو خود سے نکال دوں،  میں نے کوشش کی درد کی چادر اوڑھ لوں، میں نے کوشش کی آگاہوں  کو آگاہی دوں، میں نے کوشش کی جسم کے سیال کو ابال دوں،  میری ہر کوشش رائیگاں ہوئی. 

میرے دعا،  مجسم دعا بنا وجود نہ سنا گیا،  نہ دیکھا گیا، نہ محسوس کیا گیا،  میری جبین نے سر ٹیک دیا اور در محبوب کا تھام لیا۔۔۔! اس کو جائے نماز کی طرح سنبھال کے نماز عشق کے سجدے کیے مگر جواب ندارد! کیا کیا  ہے میرے دل میں،  میں برس ہا برس سے پُکار رہی ہوں،  کیوں ایسا ہے دعا کو ٹال دیا جاتا ہے؟  کیوں رستہ بھی جمود کا شکار ہوتا ہے کیوں ایسا ہے بارش نہیں ہوتی، کیوں ایسا گھٹن کا سامنا ہوتا ہے کیوں ایسا آسمان کی جانب  حیرت بھی خاموش ہے!  کیوں ایسا ہے کہ قرب کا جاواداں شربت پلایا نہیں جاتا!  وہ  دل. میں بھی ،سینے  میں بھی، قلب میں  بھی!  زمین سورج.چاند سب ادھر!  مگر سنتا کیوں نہیں!  کون تڑپ دیکھتا ہے؟  جو پیارا ہوتا ہے اس کو اٹھا لیا جاتا ہے... وہ مجھے پاس نہیں بلاتا نہ کہیں سے اذن میرے رنگوں کو نور ذات کو  سرور دیتا ہے! 

 یہ دنیا ہماری ٹھوکر پہ پلی  ہے ہمیں دنیا نہیں.چاہیے ہمیں اپنا پیارا  درکار ہے!  پیارا جو ہمیں نہال ایسا کر دے کہ سالوں سرر نہ بھولے سالوں کیف کی منازل ہوں...ہمیں اس سے غرض ... وہ جانتا ہے وجود سارا مجسم دعا ہے دل میں اس کی  وفا ہے .... یہ یونہی درد سے نوازا نہیں جاتا جب بڑھتا ہے دوا مل جاتی!  اک درد وہ ہوتا ہے جو وصل کا تحفہ ہوتا ہے وجود ہچکی بن جاتا ہے، دل طوفان کا مسکن،  آنکھ ولایت کی شناخت ہوجاتی ہے مگر اک درد وہ ہے جس سے شمع نہ گھلتی ہے نہ جلتی ہے اس کا وجود فضا میں معلق ہوجاتا یے. ..... 

نہ رکوع،  نہ سجود،  نہ شہود ... ذات میں ہوتا وقوف ..اس پہ کیا موقوف کائنات جھولی ہوجائے ہر آنکھ سوالی رہے... اس پر کیا موقوف دل جلتا رہے، خاکستر ہوجائے مگر مزید آگ جلا دی جائے ...

.

جب آگ جلائ جاتی ہے تو وہ سرزمین طور ہوتی ہے تب نہ عصا حرکت کرتا ہے نہ شجر موجود ہوتا ہے!  عصا بھی وہ خود ہے اور شجر بھی وہ خود ہے!  یہ شجر انسان کا پھل و ثمر ہے جسے ہم عنایت کرتے ہیں ...زمین جب کھکھکناتی مٹی کی مانند ہوجاتی ہے تب اس کی سختی نور َالہی برداشت کر سکتی ہے ... یہ ہجرت کا شور مچاتی رہتی ہے مگر علم کا تحفہ پاتی ہے ... اس کا اسلوب نمایاں شان لیے ہوتا ہے... مٹی!  مٹی کے پتے ڈھلتی کتِاب ہیں ..

یہ.پانی کی موجوں کا.ابال ...یہ رحمت کی شیریں مثال ...یہ.بے حال.ہوتا ہوا حال ...کیا.ہو مست کی مثال.

.یہ کملی.شانے پہ ڈال ...اٹھے زمانے کے سوال ..چلے گی رحمت کی برسات ... مٹے گا پانی.در بحر جلال ... طغیانی سے موج کو ملے گا کمال ..یہ ترجمانی،  یہ احساس،  تیرا قفس،  تیرا نفس،  تیری چال،  تیرا حال ... سب میری عنایات ...تو کون؟  تیری ذات کیا؟  تیرا سب کچھ میرا ہے!  یہ حسن و جمال کی.باتیں، وہم.و گمان سے بعید.رہیں ...یہ داستان حیرت ... اے نفس!  تیری مثال اس شمع کی سی ہے جس کے گرد پروانے جلتے ہیں جب ان کے پر جلا دیے جاتے ہیں تب ان کو طاقتِ پرواز دی جاتی!  اٹھو دیوانو!  تاب ہے تو جلوہ کرو!  مرنے کے بعد ہمت والے کون؟  جو ہمت والے سر زمین طوی پہ چلتے ہیں،  وہ من و سلوی کے منتظر نہیں ہوتے ہیں وہ نشانی سے پہلے آیت بن جاتے ہیں ..آیتوں کو آیتوں سے ملانے کی دیر ہوتی ہے ساری ذات کھل جاتی ہے!  سارے بھرم حجاب سے ہیں یہی حجاب اضطراب ہے!  نشان ڈھونڈو!  غور و فکر سے ڈھونڈو!  تاکہ نشانیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچتے تم اک تمثیل بن جاؤ!  " لا " کی عملی.تفسیر جا میں الا الہ کہ تار سے کھینچے جاؤں گا ... یہ تیری دوڑ جتنا مضبوط یوگی اتنی حدبندیاں کھلیں گے،  اتنے ہی مشاہدات ہوں گے،  سر زمین طوی بھی اک ایسے جا ہے جہاں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں... یہ جو سر سبز پہاڑ کے جلوے ہیں ان میں عیان کون ہے؟  جو کھول کھول میری آیتوں کو پڑھیں،  ان.پہ کرم.کی دیر کیسی،  یہ تسلسل کے وقفے ضروری ہیں ...یہ محبت کے سر چمشے پھوڑتے ہیں...جتنی حبس ہوگی اتنا ہی پہاڑ ٹوٹتے ہیں!  زمین سے چشمے نکلتے ہیں ... زمینیں سیراب ہوتی ہیں .. درد کو نعمت جان کر احسان مان کر  پہچان کر نعمتوں کے ذکر میں مشغول دہ .... 

خاک کی قسمت!  کیا ہے؟  دھول.ہونا! یہ پاؤں میں رولی جاتی ہے ... جبھی اس کے اصل عکس نکلتا.ہے!                        

 اس نے جانا نہیں یہ درد کا تحفہ کس کس کو دیا جاتا ہے!  جو نور عزیز ہے،  جو کرم کی چادر سے رحمت کے نور میں چھپایا گیا ہے!  تیرا ساتھ کملی والے کے ساتھ ہے،  کمال ہم نے درِ حسین علیہ سلام پہ لکھا ہے،  حال فاطمہ علیہ سلام کے در پر ....  

ہوا سے کہو سنے!  سنے میرا حال!  اتنی جلدی نہ جائے!  کہیں اس کے جانے سے پہلے سانس نہ تھم جائے!  سنو صبا!  سنو اے جھونکوں ..سنو!  اے پیکر ایزدی کا نورِ مثال ... سنو ... کچا گھڑا تو ٹوٹ جاتا ہے،  کچے گھڑے سے نہ ملایو ہمیں،  ہم نے نہریں کھودیں ہیں،  محبوب کی تلاش میں،  ہمارا وجود ندی ہی رہا تب سے ِاب تک!  نہ وسعت،  نہ رحمت کا  ابر نہ کشادگی کا سامان،  لینے کو بیقرار زمین کو کئ بادل چاہیے .... تشنگی سوا کردے!  تاکہ راکھ کی راکھ ہوا کے ساتھ ضم ہوجائے،  وصالِ صنم حقیقت یے دنیا فسانہ ہے!  ہم تیرے پیچھے پیچھے چلتے خود پیغام دیتے ہیں ... ہمارا سندیسہ پہنچ جائے بس ...  قاصد کے قصد میں عشق،  عاشق کے قلب  میں عشق،  زاہد نے کیا پانا عشق،  میخانے کے مئے میں ہے عشق .... اسرار،  حیرت کی بات میں الجھ کے بات نہ ضائع کر جبکہ اسرار خود اک حقیقت ہے ... ستم نے کیا کہنا تجھے،  ستم تو کرم یے،  بس سوچ،  سوچ،  سوچ کے بتا کہ بن دیکھے جاننے والا کون ہے؟  اسماء الحسنی کو اپنانے والا کون ہے؟ صدائے ھو کو اٹھانے والا کون .. شمع حزن در نبی ہے!  یہ وہاں کہیں پڑی ہے،  دل کی  حالت کڑی یے ..  

حق ھو !  حق ھو!  حق ھو!  یہ حسن کے پھیلاؤ کی ترکیب جان،  راز ہیئت سے جان پہچان کر،  جاننے والے در حقیقت پہچان جاتے ہیں منازل عشق کی منتہی کیا ہے کہ ابتدا کو قرار کن کی صدا دیتی ہے، موت کو قرار اک اور صدائے کن دیتی ہے ..یہ بین بین وقت ہے،  ہماری حکمت ہے!  یہ زمانہ ہے،  یہ وقت ہے جب پہچان کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے،  یہ خسارہ جو زمانے نے اوڑھ رکھا ہے اس کی اوڑھنی پہ قربانی کے ستارے جب چمکتے ہیں تو ماہتاب جنم لیتے ہیں ..انہی ماہِ تاباں میں سے کوئ اک آفتاب ہوتے ہیں!  حق موجود!  تو موجود!  حق موجود!  وہ موجود!  حق اللہ!  حق باقی!  حق،  کافی،  حق،  شافی ...حق ھو حق ھو

سفر ‏بغداد

سفر بغداد شُروع .... نداء کی جانب چلو ....کوہِ صفا کدھر ہے؟   نشانی لیے چلو!  آیتِ حق نے بُلایا ہے.  سبحانی نور کے پاس چلو .. نفس پاک کرکے چلو ...وہ حق کا جلال بہ جمال مانند آیتہ الکرسی .....الشیخ عبد القادر جیلانی سکونتِ من بہ دل بہ روحی بقربانِ جانی!  یا شیخ عبد القادر جیلان ...او جیلانی اننی سکونت ِ ..این بغداد؟  این من دلم؟  من دلم نورم سکونتی، بقلبی حرکتی بن نورم ... دلم گوید او عبد القادر یستیبی نورک .... کچھ عطائے کریمی کیجیے حال درد سے پُر ...حال خراب ...دل میں جاناں کا خیال محو نہیں ہوتا ...دل کے لیے کیا ہے؟  دل کی تار کس طرح ہلے؟  یہ کیسے ہلے کہ ہلائی گئی بری طرح ....
من سکونتی بقلبک! 
من وصلتی بقلبک! 
شبیہ نور ایں در خاک!!
لا سکونتک مکانی!
لا موجک مکانی!
تو شہباز لامکانی! 
تو جانباز طائر فضائے لاہوتی
عکس ہاہوت سے مرقع ریشہ ہائے تار تار ترا بمانند گل تر! 

میں جبین نیاز میں جھکا کے!  وضو سے چلی شیخ کے پاس!  این اھلک؟  کیف حالک؟  ھل عطاک چشم عیسی، جذب موسی،  نور شمع؟  ھل عطاک شبیہ نور محمدی؟  ان گنت درد نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر .....

تو بہ نور، روزن دل موجود ایں در لامکانی!  اتررہی ہیں آیات الہی!  غور و فکر، تدبر کی کمی کیوں ہے؟  افلا یتفکرون؟  افلا یتدبرون؟  این صم بکم عمی؟  الاعمی ان عند اللہ الشرالدواب ....

یہ ہیبت، یہ جلال! کدھر گیا مرا کمال!  دل خشیت سے کانپا!  کدھر ہے حبیب؟ کدھر ہے قرین؟  نہ ہوش رہا   ...نہ ذوق رہا ...کیا رہا ...عکس و معکوس کے سلاسل میں نور محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلی آیتوں کے انوارات .... خدایا رحم کن بہ احوال نور کن ... خدایا رحم کن ...دل مارے ہیبت کے بیٹھ جائے گا ....

بے ‏خبری

یہ بے خبری جو کچھ ظہور سے پہلے ہوتی ہے خود میں درد کی خوبرو ساعتیں دیتی ہے . مسافر اس کے پیچھے اسطرح جاتا ہے جیسے کُتا ہڈی کے پیچھے . لوگوں کے پیاس بجھانے کے طرائق مادے سے جُڑے ہیں جبکہ مسافر پیاس اسی کتے کی طرح بُجھاتا ہے جس کا درد شدتِ درد میں نزع کی سی کیفیت لیے نسیان طاری کیے دیتا ہے اور بعدِ نزع بکری ذبیح کی جائے ، اس کی کھال اُتاری جائے کیا فرق پڑتا ہے .فرق کرنے والے اور جزیرے کی مخلوق ہیں اور ہم تو ان جزائر سے دور وحدت کے جزیرے میں سکون سے رہتے ہیں . وحدت کے جزیرے میں سمندری لہریں جب ہل ہلا پیدا کرتی ہیں تب طوفانی سُونامی کی صورت اختیار کیے دیتا ہے اور ہم چاہتے ہیں اس سونامی میں بار بار ڈبویا جائے تاکہ بار بار ڈوبنے سے عدم کا گمان ہوں .یہ کیف وجدان کی بیداری کا ہوتا ہے جب شوقِ منزل کی جانب لے جا جایا جاتا ہے

رحم ‏

مسکین کے حال پہ رحم کردیجیے شہِ ابرار، امت کے پالنہار، بردارِ ذوالفقار، رحمت العالمین مسکینوں کے والی، فقیروں کے مالک، شہنشاہِ خیر الانام، شمس الضححی ... آیت کوثر کی بشارت پانے والے خاتم الانبیاء، مہر ختم نبوت 

صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

درود کی شب میں درود کی رت میں،  درود کے گلشن میں اک کلی دل میں کھلی ہے. سرکار واجب الاحترام ہے. سرکار کا ادب ہم بجا لائیں گے ..سرکار کمال کے خزانے پائے ہوئے ہیں ..سرکار سے دل کی لگی ہے ...آنکھ میں موتی چمکے تو نام شہِ  ابرار کا آیا ...لب پہ مہر رسالت کا نام پایا،  دل نے پڑھا درود صلی اللہ علیہ والہ وسلم ...

وہ صورت جس کی مسکراہٹ دیکھ کے کائنات مسکراتی ہے ... اس کی مسکراہٹ پہ تصدق، کائنات مسرت بانٹ رہی ہیں ...ہمیں جو مل رہا ہے وہ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگہ سے. ہم.تو خود سے نکل نہ سکیں تو بارگہ میں پہنچیں کیسے ... ہمارے آنکھ میں وضو کی جاری نہر دل سے وصول کی جاتی ہے. دل کے اشک نہیں گرتے ہیں اور زمین پہ گیلی مٹی سے مہک ہاتے زیادہ ہیں ..



بچے

بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ بچے مستقبل ہوتے ہیں .... بچے آج کل کے دور میں زیادہ علم کے حامل ہیں اسکی وجہ ہمارا میڈیا اور اسکی اثر انگیزی ہے ...اسی اثر انگیزی نے نوجوانوں، جوانوں اور سن رسیدہ افراد کو مسحور تو کردیا ہے مگر یہ اک کڑوا سچ ہے کہ کسی حد تک برانگیختہ بھی کردیا ہے .... 

اک بچی جس نے بڑے ہوکے ماں بنتے قومی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے ... وہ بچی اوائل عمر میں seduction سے abduction کا سامنا کرتی ہے .. اک حادثے /سانحے کے بعد اس کی نفسیات اس حد تک متاثر ہوجاتی ہے کہ بچی کا روحانی قتل ہوجاتا ہے ...جسمانی حالات و زخم تو انمٹ نشان ہوتے ہیں .. بچی کے علاوہ بچے بھی ایسے حالات کا شکار ہوجاتے ہیں اور قوم اپنے مستقبل کے معمار کھوتی جارہی ہے 

 Rape and abduction کے بعد قتل! قتل سے ماحول پر دہشت کے اثرات. سوچنے کی بات ہے کہ والدین بچے کس لیے پیدا کرتے ہیں؟ کیا ظلم یا ناانصافی کی بقاء کے لیے! دور جہالت میں بیٹی ناموسِ خاندانی کی وجہ سے شرمناک دھبہ تھی تو آج کل کیا کیا جارہا ہے؟  کاروکاری؟  ہمارے بزرگوں نے تو غیرمذہب میں ستی کی رسم ختم کی اور ہم کیا کر رہے ہیں؟  آج کل جگہ جگہ تیزاب پھینکنا،  خاندانی اثر رسوخ استعمال کرتے شادی نہ ہونے پہ
 کstoning  کی رسم جاری ہے اس رسم کا فائدہ قبائلی نظام اٹھاتے ہیں ... بچی کو پتھر مار کے شہید کردیا جاتا ہے. اجتماعی ظلم و بربریت کے مظالم سہتے بچی اس جہان فانی سے کوچ کرجاتی ہے مگر  معاشرے کی بے حسی ختم نہیں ہوتی 

یہ سب معاشرتی بے حسی کی جانب اشارہ کرتے ہیں .. معاشرہ کس social change کی جانب گامزن ہے اور یہ تبدیلی مثبت ہے یا منفی ... اگر یہ معاملات ملکی عدلیہ تلک پہنچتے قانون کو بدل دینے یا نیا قانون بنانے کے مجاز ہیں تو اس تبدیلی جو کہ مثبت ہے ظاہر کرتی ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں .... جبکہ تبدیلی قتل، social chargeاور  الزامات تک رہ جاتی ہے تو اسکا مطلب ہے ہم اک منفی قوم ہیں 

یہ اجتماعی زیادتیاں،  ریپ،  قتل،  پتھراؤ سے اموات، ونی یا دیگر چیزیں کیوں ہورہی ہیں؟ اسکا پہلا سبب ہے کہ والدین بچوں کے لیے پرائمری یا بنیادی گروپ ہیں ... والدین کے بعد دیگر سارے گروپس سینکڈری یا ثانوی ہیں. اک بچہ والدین کے پاس کتنا وقت گزارتا ہے بہ نسبت سیکنڈری گروپس کے؟  زیادتی اور اموات کے زیادہ کیسز تب ہوتے ہیں جب خاندانی ادارہ مضبوط نہ ہو. جب ماں یا باپ میں  ذاتی خلش اس قدر بڑھ جائے کہ بچہ عدم تحفظ عدم احساس کو گھر کی فضا میں محسوس کرتا ہے. وہ باہر کسی ثانوی گروپ کی طرف جاتے کرے.  سیکنڈری گروپس پہ بچے کا زیادہ انحصار خاندانی نظام کی موت ہے ...!  

والدین کے بعد peer group  ہیں ..یہ وہ گروپ ہے جو بچے کے بہن بھائی اسکے ہم جماعت اور اسکے کزنز یا ہمسائے اسکے عمر کے قریب قریب ہوتے ہیں. یہ گروپ اسکا حلقہ احباب بناتے ہیں. عدم تحفظ میں مبتلا بچہ اکثر peer group میں اپنی عمر سے بڑے لوگ کو چوز کرتا ہے .. اکثر استاد،  اکثر سینرز کلاس فیلوز، اکثر ماموں چچا یا ہمسائے کے نزدیک یہ بچے منڈلاتے پائے جاتے ہیں ..اور ان کی کمزوری ان کو شکار بنادیتی ہے 

بچوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے یہ تو سوچنا پڑے گا کہ بڑے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ بڑے ہیں؟  جذبات اتنے منہ زور ہوگئے؟ جذبات کو لگام نہ ملی؟  Instinct اس قدر بڑھ گئی کہ دل شر البریہ ہوگئے ... جذبات اللہ کی جانب لے جاتے ہیں اگر ان کا رخ روح کی جانب ہو مگر ان کا رخ نفس کی جانب ہو تو تباہی ہے ..  صم بکم عم فھم لا یرجعون کی مثال جن کے دل کا نور بجھا چاہتا ہے وہ انسانیت کا قتل کردیتے ہیں.   ایسے تمام لوگوں کی ذہنی کیفیت جانچ کو اک بات زیادہ جان لیوا ہے کہ یہ بھی اک قسم کے بیچارے ہیں. جی ہاں!  ان پہ کی گئی ریسرچ بتاتی ہے کہ ان کا بچپن ایسے ظلم سہتے تباہ ہوا اور جوان ہوتے انہوں نے مظالم کا بدلہ لیتے گزار دی!  سوچیے کہ اک بچہ جو اس ظلم کا سروائیور ہے وہ آگے جاکے منفیت کے رحجان کا زیادہ حامل ہوتا ہے

اے مولائے پاک ....
ہمارے خاندانی ادارے کو مضبوط کر .... 
تاکہ بچہ راہ فرار اختیار نہ کرے 
تاکہ بچہ کل کو کسی کا مستقبل نہ خراب کرے 
اے مولائے پاک 
ہم سب پر رحمت کی نظر رکھ ...
ہم مسلمانوں پہ کرم سے فیصلے فرماتے ہمیں معاف فرما .... 
گناہ گاروں کو ہدایت نصیب فرما 
بچے کو والدین پہ اعتماد کرنے کی صلاحیت دے 
بڑوں کی آنکھ میں حیا رکھ تاکہ شرم سے آنکھ نہ اٹھے 
یا الہی العالمین 
معاف فرما

غزل ‏اور ‏شکیب

غزل اور شکیب

بادِ صبا کی نرم نرم بوندیں پھُوار بن کے دونوں کے اوپر برس رہی تھیں اور وہ  دونوں جھیل کے کنارے ایک بڑے پتھر پر بیٹھے تھے۔یہ پتھر دوسرے بڑے پتھروں سے متصل ایک پہاڑی سے جُڑا ہوا تھا۔ پہاڑیوں نے جھیل کو گھیرے میں لے کر اس کی نیلاہٹ میں اِضافہ کر دیا تھا۔ گُلاب کی خوشبو چاروں طرف مہک رہی تھی تو دوسری طرف موتیا کے پھول کائنات کے  حُسن میں اضافہ کر رہے تھے ۔پتھر پر بیٹھے غزل نے نیلے پانی کے اندر جھانکا ، ایک دم واپس اوپر کو ہوگئی ۔۔ ڈری گھبرائی--- غزل سے شکیب نے پوچھا : کیا ہوا؟

غزل :میں پانی میں اپنا عکس نہیں دیکھ پائی  مگر --- ایک پل کو توقف کیا۔۔۔!
'' پانی میں ارتعاش پیدا ہوگیا  اور میرا عکس ان لہروں میں کھو گیا ہے ''
اٗس نے غزل کی بات سُن کے ایک قہقہ لگایا اور بولا:
شکیب:''گویا تم پتھر ہو! پانی میں پھینکا اور لہروں نے شور مچا کے رقص شروع کردیا ! کمال کرتی ہو تُم۔۔۔!!!اچھا ایک کام کرتے ہیں۔۔آج مجھے شامِ غزل میں جانا ہے، تمہیں بھی ساتھ لے چلتا ہوں۔۔! چلو گی ؟

غزل نے حامی بھرلی اور جھیل کے پاس بیٹھ کر پانی کی گہرائی ماپنے لگی ۔۔۔۔!!! جب اپنا چہرہ پانی کے قریب کرتی ، پانی کی لہریں رقص شروع کردیتیں۔۔ ۔ اس کو نا جانے کیا سوجھی کہ اس نے اپنی انگلی پانی میں ڈال دی اور پانی کی تمام ساکن موجوں میں سکوت کا انجماد یک لخت ٹوٹا اور تحریک کے طوفان نے بگولوں کی صورت سمندر کو گھیرلیا۔۔۔۔ پانی کے شور نے ،طوفانی لہروں نے عین مرکز پر اکٹھے ہوتے آبشار کی سی صورت اختیار کرلی اور آبشار کی مانند گھومتے تمام لہروں کے لیے رہنما بن گئ ۔۔۔ غزل یہ تمام منظر یک ٹک دیکھے جارہی تھی کہ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا : '' یا حیرت''  اسی حیرت میں پلٹ کے شکیب کو دیکھا مگر وہ انجان تماشائی بنا بیٹھا تھا جیسے اس کے لیے یہ سب نیا نہ ہو !

 غزل :تُم نے پانی کی لہروں کو رقص کرتے ہوئے دیکھا ؟ 
 شکیب :نہیں! غزل کیا ہوگیا ہے ؟ 
غزل : جو میں محسوس کر رہی ہوں اسے تم کیوں نہیں پاسکے ؟ جو میں دیکھ رہی ہوں وہ تم سے اوجھل کیسے ہوسکتا ہے ؟
شکیب: ہر انسان اپنے احساسات کا مالک ہوتا ہے ! یہ غزلیں ! یہ غزال جو وجود میں بیٹھا ہے ہمیشہ نئے انوکھے تجربات سے نوازتا ہے !
 غزل :مجھے آج احساس ہو رہا ہے کہ غزل کیا ہوتی ہے ! سمندر کے سکوت میں لہروں کی موسیقی اور ان کا آہنگ ! اس آہنگ کے بننے میں پل سے کم وقت لگتا ہے مگر درد کو سموچنے کے لیے صدی جتنا طویل وقت ۔۔۔شکیب اس کی باتیں خامشی سے سنتا کبھی سمندر میں جھانکتا تو کبھی غزل کے چہرے پر سمندر کے بنتے بگڑتے نقوش دیکھتا ! پھر ایک پل کے توقف کے بعد سمندر میں جھانکا تو اپنا عکس دیکھ کے مطمئن سا ہوگیا 

شکیب : مجھے تو اپنا عکس نظر آرہا ہے ! میں وہ تصویر ہوں جس کا مصور شاہکار بناتا ہے ۔۔۔۔۔۔! چلو ۔۔! شام چھارہی ہے اور محفلِ غزل شُروع ہونے کو ہے !  

شکیب نے غزل کا ہاتھ تھاما اور طویل راہداریوں ، میدانوں ، وسیع سمندروں سے ہوتے زمان و مکان کی قید سے دور محفلِ غزل میں پُہنچ گئے ۔ محفلِ غزل میں سازندے ایک طرف ہوکے بیٹھے ساز سے مختلف دھنیں ترتیب دے رہے تھے ، جبکہ اکا دکا لوگ رُباب سے کھیلنے میں مصروف میں تھے ۔۔۔ غزل کے لیے یہ بہت انوکھی دُنیا تھی جہاں پر سکوت نے قبضہ جما رکھا تھا مگر ہر شے بولتی دکھائی دے رہی تھی ! ایسے جیسے تصاویر بولتی ہوں ! گائک بھی خاموش اور سامعین بھی مگر سبھی ازل کے گیت کو بہت دھیان سے سن رہے تھے ۔ جس طرح بن پیے بندہ پیاسا نہیں ہوسکتا ہے بالکل اسی طرح بن سُنے بندہ اس گیت کو پہچان نہیں سکتا !سب پر  ایک سحر سا  طاری تھا ! جانے کس کی فسوں کاری کا کرشمہ تھا کہ تمام تصاویر میں تحریک شروع ہوگئی ۔ غزل سحرزدہ سی مدہوشی کے عالم میں فرشی نشت پر بیٹھی تھی ، سراسیمگی میں شکیب کا ہاتھ دبوچ لیا کہ کہیں وہ بھاگ نہ جائے اور خود غزل نے ازل کے گیت پر رقص شروع کردیا 

نظر نے نظر سے ملاقات کرلی
رہے دونوں خاموش اور بات کرلی
زمانے میں اس نے بڑی بات کر لی
خود اپنے سے جس نے ملاقات کرلی

انسان کی خود سے مُلاقات ہوگئی گویا کہ غزل کی تکمیل ہوگئی ہو ۔۔۔۔! ذات کی ملاقات بڑا تڑپاتی ہے ، روح جسم سے باہر نکل جاتی ہے ، جسم کی قیود میں زمانہ قید رہ بھی کیسے سکتا ہے ۔ اب کہ غزل نے ہاتھ چھڑانا چاہا کہ بڑی بے چین ہو کر اٹھی ۔ یوں لگا کہ شکیب اس کی ہاتھ سے دوڑی کی طرح بندھا ہے ، جیسے ہی اس کا رقص شروع ہوا، شکیب ایک کٹھ پتلی کی طرح ساتھ رقص کرتا رہا، دونوں بہت خوبصورت لگ رہے کہ دونوں ایک دوسرے کی لیے لازم و ملزوم تھے ۔مگر غزل کی بات اور تھی ! شاید اس نے فنا ہونا تھا اور دوسرے نے باقی رہنا ہے ۔ ایک نے  زہر کا پیالہ پی کے عالمِ فانی کی طرف جانا ہے اور دوسرے نے آبِ حیات پی رکھا ہے ۔دونوں رقص میں تھے اور جام دونوں پی چکے تھے مگر پیمانہ مختلف تھا مگر ساقی ایک  اور خزانہ بھی ایک اور  عطا کا حساب مختلف ! عطا کے بعد دونوں مست و رنجور تھے ۔۔۔!  اس عطا پر دھمال ڈالنے والوں میں انہوں نے بھی حصہ لیا مگر ہوش نے مدہوشی لے لی ! اس عالم میں غزل نے اُس کا ہاتھ چُھڑانا چاہا تو اس کو ایک صدا سنائی دی !

''سنو ! تم مجھ سے چاہ کر بھی ہاتھ نہیں چھڑا سکتی ! میں تب بھی تھا ،  جب تم نہیں تھی اور جب تم نہیں ہوگی ، تب بھی میں رہوں گا ۔۔!میں ازل سے ابد تک کا ساتھ ہوں ۔۔ میں مکان کی قید سے آزاد ہوں ۔۔۔۔ !!! تمھارا نام مجھ سے جڑا رہے گا اور اس نام کی وجہ سے تمھارا نام امر ہوگا !!!

غزل نے  اس کا مضبوطی سے تھام لیا جیسے سکندر کو خضر کے کھونے کا غم ہو ! اسی اضطرار میں اس کی گرفت اس کے ہاتھوں پر مضبوط ہوگئی اور بے ساختگی میں کہے دیا 

 غزل :'' کون ہو تم ؟ تم شکیب نہیں ہو!! تم خضر ہو ۔۔۔!! زہر کے پیالے کا تریاق نہیں ہوتا ہے ، میں اس جہاں فانی سے چلی جاؤں گی اور تم رہ جاؤ گے ۔ افسوس! محبت کچھ نہیں ہوتی ، یہ صرف ایک قید ہوتی ہے ، جس طرح تم میرے اندر قید ہوتے  امرت کا پیالہ پی چکے ہو اور میں تم سے باہر رہتے ہوئے بھی زہر کا اثر زائل نہیں کر سکتی ۔۔آہ ! اس سے برا کیا ہوگا میرے لیے۔۔۔!

رات کی سیاہی سحر کے طلوع ہونے کا اشارہ رے رہی تھی ۔ارواح کے رقص دائروی سے ہوتے ہوئے زائروی ہوگئے ،اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے انہوں نے شاید  اپنا اصل پالیا جاتا ہے ، یہی کچھ اس رقصِ بسمل میں ہوا۔۔ دونوں تب تک رقص کرتے رہے جب تک کہ دونوں کا آہنگ ، رقص کی تال ، ایک سی نہ ہوگئی اور جب دونوں ایک ہوئے تو ہوش ختم ہوگیا ، کائنات تھم گئی ۔

زندگی نے دوبارہ آنکھ کھولی تو وہ دونوں اسی وادی میں پتھر پر بیٹھے تھے ، جہاں سے وہ کوچ کیے تھے ۔سورج نے چاند کو اپنی اوٹ میں چھُپا کے زمین کو تنہا کردیا۔۔۔ پتھر پر بیٹھے بیٹھے غزل نے آنکھیں بند کیں اور  آنکھ بند کرتے ہی'' عکس اور منظر ''پسِ عکس بدل گیا۔۔۔۔ ! جھیل ایک صحرا میں بدل چکی تھے ۔ دائروی بگولے چار سو گھومتے ہوئے غزل کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے ۔ اچانک آندھی آئی اور وہ غائب ہوگئی ۔۔۔! شکیب غزل کے پیچھے بھاگتا ہوا پتھرا پر بیٹھا اور خود کو آنکھیں بند کرنے پر مجبور پایا۔ جیسے ہی اس نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا ۔۔! اسے لگا جہاں وہ کھڑا ہوا تھا ، وہاں پر غزل کھڑی ہے اور وہ غزل کی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے ۔۔۔ جھکڑوں کی گرج دار آواز میں وُہ غائب ہوچکا تھا۔۔جبکہ غزل کھڑی مسکرا رہی تھی ۔

آیات ‏کوثر۳

خیال کو اظہار چاہیے اور اظہار کو نمود کا لباس جبکہ لباس کو سلیقہ چاہیے ۔ اس خیال کی حدت سے دل گرمادیے جاتے ہیں کہ تو نے ھو کی بات کی مگر ذات نفی میں نفی نہیں کی جبکہ نفی میں ذات رکھ دی  ۔۔ تو نے اس کو روبرو کرلیا اور اس شدت سے مناجات کیں کہ تیری نفی میں ذات سامنے تیری رہنمائی کو آئی اور تجھے نفی سے نکال کے اثبات کی جانب گامزن کرنے لگی ۔ جلوہ کیا ہے؟  جلوہ انسان کے اندر ہے جیسا کعبہ انسان کے اندر ہے یعنی کعبے کا نور اندر ہے اور اس کعبے کا کعبہ یعنی تجلی مرشد برحق بھی اندر موجود ہے ۔۔۔ ھو ! ھو ! ھو ! ھو ! سب سے بڑا دکھ روح کی قید ہے جو مٹی کے قبر میں محیط ہے ۔ یہاں موت کے بعد پرواز مل جائے تو دوام ذات حصول فنا ہے ۔دل کی  دیواروں میں اللھم صلی علی کی  صدا گونجتی ہے تو روشنی کی کرنیں آفتاب کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں


سیدہ طاہرہ واجدہ، سیدہ سادات موجود مِظہر مِظہر میں دلیل سیدہ مِظہر جودو کرم و سخا 

بنام فاطمہ زہرا بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم زوجہ امیر حیدر شیر دلاور، مادر حسین بن علی شیر شہید، حسن بن علی.شبیہِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

بنام سیدہ سردار النساء منجانب کنیزِ عالیہ سیدہ 

نگاہ کرم لطف کے منتظر، 
حجاب ازل کو الٹ دیجیے 
مطہر تہِ دل میں وہ ہوں 
محمد کی سیرت تصویر 
مصور محمد تصور محمد 
شبیہ محمد مشبہ محمد 
عکس محمد آئنہ محمد 
روح روح میں ...محمد 
رب کرے محمد،  محمد 
صدیق اکبر کا بیاں، محمد 
دل کرتا رہے محمد محمد 
جہاں ساجدِ محمد،

زہرا بی بی کو کڑوڑ ہا سلام 
کنیز کا سلام 
بس اوقات میں ذات رکھی ہے 
دل میں آپ کی بات رکھی ہے 

مومنو، سوچو
سوچو 
کیا؟
کتنی پیاری ہستی 
کون؟
فاطمہ زہرا ... سیدہ عالیہ 
مومنات کی سردار 
مومنین کی پہچان سیدہ فاطمہ کے بنا ناممکن ہے ... 
یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیاری لاڈلء بیٹی ہیں ..
یہ نور بوقت کن بھی تھا 
یہ نور جاری و ساری ہے 
یہ نور جانب ابد یے 
ہم خوش قسمت کہ ان سے ملے گی پہچان 
 خوش قسمت کے ان کے  وسیلے سے پہچانے جائیں گے 
زہے نصیب ..... ہم سب وقت ازل سے وقت ابد کی جانب ہیں .... ہم سب تکمیل کے مراحل میں ہے .... فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ سے خدا کو پہچانا اور ہم نے آپ کے دامن میں پناہ لے لی ...


اپنی نگاہ جھکا لیجیے 
دل کو پاک کر لیجیے 
سرکار تشریف فرما ہیں 
خاموش گفتگو کیجیے 
درود سنت خدا ہے 
محمد کو متصور کیجیے 
کچھ دل کو منور کیجیے 
یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم



زندگی ‏حقیقت ‏میں ‏بھاگ ‏رہی ‏ہے

زندگی حقیقت میں بھاگ رہی ہے اور ہم حقیقت سے دور بھاگ رہے .... زندگی دو مدار پر گردش رواں رکھتی ہے ....فنا اور بقا ...بچہ پیدا ہوا ...زندگی ملی اور پھر فنا ہوگیا بوڑھا ہوتے ...قبر تک جاتے ....  اب جو فنائیت مادی جسم کی موت سے ملے، وہ تو کچھ معانی نہ رکھتی ہے ...اس لیے جو انسان اس کی محبت میں موت سے پہلے فنا ہوجاتا ہے ...اسکو  اس دنیا سے جانے کے ابدیت مل جاتی ..اسکا ذکر بلند ہوجاتا ...اللہ فرماتا ہے 

ورفعنا لک ذکرک .... 

اب جس کا ذکر اللہ بلند کرے تو وہ شخص کیا ہوگا ...درحقیقت یہ کرم ہے جب صدر چاک ہوتا ہے ...اللہ فرماتا ہے 

الم نشرح لک صدرک .... ووضعنا عنک وزرک ... 

تو اس پر رحمتوں کا نزول ہوجاتا ہے .... علم مل جاتا ہے ..یہ علم کیسے ملتا ہے ...؟  
قران پاک میں رب فرماتا ہے 

یا یھا المزمل .... 

وہ نور جو چھپا ہے،  وہ نور جس نے اک تجلی سہی اور گم ہوگیا ...جسے ہوش نہ رہا ... جس پر ڈر غالب آگیا یعنی رب سچے کا رعب بیٹھ گیا ..... 

اس نور سے رب مخاطب کرتے کہتا ہے ...

اے میرے مزمل .... 

پوچھا رب سے، مالک کیا احکامات؟

قم الیل الا قلیلا ...

قیام کر رات کو مگر قلیل ....
 
مالک قیام کیوں کروں؟  
ورتل القران ترتیلا ..
.
قران پاک پڑھنے کے لیے،مگر اسطرح کے ترتیل سے ...
مالک سے پوچھا قران سمجھ سے مشکل ...امی ہوں ... مگر طلبگار ہوں ...

مالک نے کہا .... 

مطلب ہم سمجھائیں گے، نیت دل پہ قائم رہ .... اسطرح کہ تو ذمہ داری کے قابل ہوجائے ..
..

انا سنلقی علیک قولا ثقیلا
یعنی عنقریب تم پر اسکے معانی مفاہیم سب کھلتے جائیں گے ... مگر انسان کہ نادان ....

لو انزلنا ھذا القران علی جبل لرایتہ  خاشعا متصدعا  من خشیتہ اللہ

اگر یہ قران کسی پہاڑ پہ نازل فرماتے تؤ خوف سے دبا جاتا ... پھٹا جاتا ...

 مارتے ہم لوگ اور لفظ کھوجتے ہم لوگ ...یہ قران نازل ہوتا ہے اور اگر قران پہاڑ پہ نازل ہوتا تو پہاڑ  روئی روئ ہوجاتا مگر انسان کے دل پہ قران نازل ہوتا اور انسان غور نہیں کرتا
انسان دیکھتا نہیں کہ اسکو کیسے پیدا کیا گیا؟  اسکی قدر متعین کی گئی ...اسکو احسن التقویم و اسفل سافلین کا اختیار دیا گیا اور خالق نے قسم کھائی "تین "کی اور زیتون کی ...یہ انسان جو اپنے اصل کی جانب آتا نہیں

انسان کا اصل تو وہ دور ہے یاد کرنا ...جس کو یاد کرنے کے لیے قران پاک نازل ہوا ...او غافل!  او نادان ...ذرا دیکھ ...دیکھ لفظ کے ہیر پھیر کچھ نہیں ...اسکی تلاوت ٹھہر ٹھہر کے کرنا لازم

جب انسان بھاری ذمہ داری سے عہدہ بھرا ہوجاتا تو خالق فرماتا ہے ....

وہ ذات بندے کو عرفان کی جانب لیجاتی ہے ... 

 

Allah SWT said:

سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَـرَا مِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَ قْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۗ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ
"پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا"
(QS. Al-Isra' 17: Verse 1)

یہی معراج حقیقت ہے ...
اے غافل ..اٹھ ..کپڑے جھاڑ ... اور نیت دل سے وضو کر ...نیت حضور کی طلب رکھ ....تیرا رب تجھے پکارتا ہے اور تو اٹھتا ہی نہیں رات کے پہر ..جس پہر خالق اور بندے کے رازو نیاز ہوتے

آیتِ ‏کوثر ‏۲

آواز سب لگاتے جاؤ 
خوشبوئیں پاتے جاؤ 

سیدہ فاطمہ کی شان بیان کرنے کے لیے لفظ خاموش...  سورہ کوثر اتری جن کے واسطے، جن کی مدحت میں الفرقان ہے، جن سے پاتے جاتے ہیں رنگ سارے اور کہتے ہیں ... 

سیدہ فاطمہ جہاں کی شان ہیں،  
سخاوت ان سے پاتی شان ہے 
ان کی صورت نورانی ہے 
ان کی سیرت لاثانی ہے 
سرداری ان سے ملتی ہے 
شاہی ان سے ملتی ہے 
فاطمہ بے مثال ہیں 
عفو میں لاجواب ہیں

بلا لیں مجھے در پر، .نہیں کوئی شہ رگ سے بر تر،  تقدس کی ملکہ ... تقدیس جن کو سلام کرے، چھو کے چھرن عزت پائے. وہ آیت کوثر دل میں تمجید کی سی اترتی ہے. پنجتن کے غلام ہیں 
رنگ سب پر عام ہیں

سیدہ خدیجہ کی بیٹی، ام ابیھا 
کیا ہے آپ کی شان؟ اے ام ابیھا.
سرکار پکار پکار کہتے، ام ابیھا 
کملی پیار میں بچھاتے، ام ابیھا 
سر پر ہاتھ رکھ کہتے، ام ابیھا 
دشمن آپ سے ڈر جاتے ام ابیھا 
لرز کے بام و در تھامتے ام ابیھا 
حوضِ کوثر کی ملکہ ہیں ام ابیھا 
فقیہ جوابات پاتے ہیں ام ابیھا 
شان میں جھکے رہتے ام ابیھا 
حسین کی ماں باکمال... ام ابیھا 
جلال میں ذیشان ہیں ، ام ابیھا 
علم میں مثل نہ مثال، ام ابیھا 
حَسن کی ماں با کمال، ام ابیھا
تقریبِ شادی... وضو کی نہر  جاری 
تقریب شادی ... آیت کوثر کی وادی 
تقریب شادی ..... مرگ نسیاں طاری 
تقریب شادی ..... وہ ہیں کمال والی 
تقریب شادی ...... وہ سرکار کی لاڈلی 
تقریب شادی ...... قسمت کی یاوری 
تقریبِ شادی ...... اللہ اللہ کی باری 
تقریب شادی .....تطہیر کی چادر والی

وہ جلال و جمال کا ہیں مرقع 
کمال جن کی شان سے مرصع 
وہ عالیہ،  وہ زاہدہ،  وہ واجدہ 
علم کی کائنات کا ہیں منبع 
وہ راضیہ،  وہ  مرضیہ، وہ فاطمہ 
جہاں کو بنٹتا ہے من و سلوی 
شانِ فاطمہ ..... یہ کمیں؟  
شان پنجتن ...... یہ کمیں؟  
لفظ کانپ کے نکل جاتے ہیں 
تیر کمال سے نکل جاتے ہیں 
آنکھ نسیاں میں خاموش ہے 
دل جلوے میں مدہوش ہے

آیت کوثر .... نماز کا قیام 
آیتِ کوثر ...... قربانی کی بات 
آیتِ کوثر ...... حسن، حسین کی کہانی 
آیتِ کوثر ...... حج کی تکمیل 
آیت کوثر ....... خاتونِ جنت 
سارے پڑھے درود 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم

آیتِ ‏کوثر۱

آیات فاطمہ( سلام. ان پر)   مجھ میں ظہور ہیں، مخمور ہوں، خوشی سے  چور ہوں.....  زہے نصیب کہ مری خوش قسمتی کہ  میں نے مکرم ہستی کو پہچانا ہے!  مکرم ہستیوں کا مسکن مرا دل ہے!  عجب روشنی ہے جس کے پیچھے مقام کربل کیجانب قدم بہ قدم ہون!  حیرت نے غرق کردیا سیدہ فاطمہ کے قدم مجھ کو مل رہے ...سجدہ ...سجدہ ...سجدہ ... اے خدا، مری اعلی بختی پہ مری ذات خود نازاں ہے  ....

 کربل کی مٹی میں نے سونگھی نہیں بلکہ اس خاک کو خود پہ ملنا چاہا ..  وہ بی بی پاک جن کے نفس دم بہ دم نے یہاں پہنچایا ...وہ روشنی اس اصل روشنی کا چشمہ،  پردہ ء غیبت میں جاتے مرے دل پہ ہاتھ رکھ گیا ..

 طٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وارث  ہیں، یٰسین کی مانند دید میں گم رہیں ! میرے آقا شاہد ہوئے رب کے پاس، رب نے شہادت دے دی ..شاہد و شہادت کی نفی نے اک ذات کا پتا دیا ... اے یسین سے نکلنے والا نور،  ..  حُسین عالیمقام رضی تعالی عنہ  سے نکلنے والے چشمے میں ڈوب جا .. طٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی  مجلی آیت طور نے جلوہ گاہ حسن میں قربانیاں دیں

 رونے کا مقام نہیں دوستو،  یہ مقام فخر ہے کہ اس فخر نے آدمیت کی تلاش میں دیر نہ کی. اس پاک نورِ حُسین  نے" والعصر" کے گھاٹے کو پہچانا تھا  یہ حُسینی نور جس کو ملے، اسکو آیت معراج سے آیت دل میں پیوست ہر روشنی مل جاتی ہے ...طٰہ کی روشنی، نور علی النور ہے، یہی نور  حسین عالیمقام کی روشنی  ہے
 
مثل طٰہ، مانند برق موسم ہیں

 جب حسین (سلام ان پہ، درود ان پر)  کے نور میں خون شامل ہو رہا تھا،  جب اس نور میں خدا ظاہر ہوا تھا  تو دنیا نے دیکھا کہ یزیدی لشکر پیچھے ہٹنے لگا تھا،  وہ بَہتّر تھے مگر ہزاروں  پہ بھاری تھے،  حسینی لشکر میں کچھ مردان حُر(اللہ کی رحمت ہو ان پر)  تھے،  کچھ مردان علّی(سلام ان پر، درود ان پر)  تھے،  کچھ مردان مثلِ جعفر(سلام ان پر، درود ان پر)  پھیلے تھے حق یہ مری روشنیاں تھیں

جو بھول گئے رستے،  مگر پھر بھٹکے ہوئے لوٹ آئے جب رب نے کہا" ارجعو"  اس صدا کو جس جس نے سنا وہ لوٹ آیا ...مردان حُر کو سلام مرا .. جو پابہ زنجیر بھی رقص کرتے رہے،  کچھ ایسے تھے جو مانند علی اکبر(سلام ان پر، درود ان ہر)  نور سیدہ فاطمہ بی بی جانم (سلام ان پر، درود ان پر)  کے جمال میں گویا ہوئے!  یوں  جسم کٹائے،بریدہ جسموں نے خُدا کا نام غالب کردیا 

قائم رہنے والی روشنی ہماری یے،  وہ  حضرت جعفر رضی تعالی عنہ  کی روشنی جس نے خمیر بو طالبی سے روشنی پائی...نجاشی کے سامنے تلاوت قران الہی کی تھی، وہ جن کی سیرت و صورت دونوں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مشابہہ تھی 
. وہ  علی رضی تعالی عنہ. کی روشنی جس نے کعبہ سے اللہ کا  رستہ پایا،  وہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم جن کی تخلیق خالق کے مصوری کی انتہا تھی 

مثل حضور کوئی نہیں 
اوج ذات پر کوئی نہیں

ہے ‏بنائے ‏خاک ‏کربل ‏آل ‏رسول

ہے بَنائے خاکِ کربل آلِ رسول 
کٹ گئے یاں لاشائے آلِ رسول؛ 
کام نَہ آسکے اس مقام پر جب 
روئے،یہ دیکھ کےصدیقِ رسول 
شاہد نے شہیدانِ کربلا دیکھے 
بقائے دین پہ شاہد اکبرِ رسول 
بسمل ہے ذرہ ذرہ خاکِ کربلاء کا 
کٹ گِرا یاں جگر گوشہ ء بتول 
ہے مَلال،نازم کہ ایں آلِ رسول 
حریت کی، جراءت کی پاسبان ہے 

اس ذی شہسوار کو سلام ہو.
آسمان جس سے ہم کلام ہو 
موت جس کو دیتی پیام ہو 
اللہ کی حرمت کا بس نام ہو 
دین کی خدمت جنکا کام ہو 
 یہ رسول کی ذیشان ہیں سارے
ان کو دیکھ کے، ہر بشر دل ہارے 
گنوادیے جنہوں نے پسر سارے 
منبرِ رسول سے ہے مسجد تلک 
چلا یہ سلسلہ کربلائے معلی تلک
سر کٹانے کی روایت، نہ جھکانے کی
پیام دے گئی ہے ہم کو آل رسول

نور

تلاش ‏کہاں ‏تک ‏لے ‏گئی

تلاش انسان کو کہاں سے کہاں تک لے گئی؟  تلاش نے آسمان سے زمین پہ پٹخا اور زمین نے پہچان کے بعد فلک تلک رسائی کی.  بجا اس لیے خالق نے فرمایا 

اللہ نور السماوات والارض ... 

متلاشی روح بمثل، خضر راہ کی طالب اور ہر موسی کا خضر علم ہے ...علم روشنی ہے،  علم نور ہے ..  

تونور سماوی، تو نور زمانی 
نبی سارے تیری ہیں نوری نشانی 

وقت کی گرد میں،  قفل کھلتے ہیں،  راہ چلتی جاتی ہے ... مرشد نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں اوربندے پہ کیفیات و حالت مکی و مدنی ایسے گزرتے، جیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر گزرے .... 

قران کریم کائنات میں موجود ہے،  عمل کو خدا دیکھ رہا ہے کہ کس نے طاق میں سجایا، کس نے پڑھا اور کس نے عمل کیا ...


منظم چلو شاہراہوں،
یہ رنگ عام نَہیں 
کچھ خاص نَہیں 
انسان ہے؟ وہم ہے؟
میں ہوں، کیا یہ خیال نہیں ہے؟
وہ ہے، اسکا نُور ہے 
ربی ربی کی صدا میں حدبندیاں ہیں 
گو کہ نوریوں کی حلقہ بندیاں ہیں 
انہی میں بزرگی کی چادر اوڑھے جانے کتنی ہستیاں ہیں 
انہی میں پیچیدہ پیچیدہ راہیں ہیں ... ... ... 
یہ.متواتر سی نگاہ مجھ پر ہے 
گویا حق علی حق علی کی صدا ہے 
گویا محمد محمد کی ملی رِدا ہے 
جھکاؤ نظریں کہ ادب کا قرینہ ہے 
پتے گویا جنگل میں قید ہیں
سر سر کی قامت بھی پست ہے 
محبت گویا عالی قدم ہے 
چلو منظم ہو جائیں 
چلو چلیں کہتے علی علی 
چلو چلیں، ذکر علی میں



نور محمد پیکر ایزدی کا آئنہ 
اس سے روشنی خراماں خراماں 
برق سے روزن روزن میں نور 
گویا ہادی کی،  آیت تطہیر ہے

الف میں میم، میم میں الف 
الحاقہ سے تکمیل،  تدریج 
لیل و نہار میں شَہد کی تطہیر 
صبا نے سندیسے دیے کہ تحریر 
نور محمد کی نہیں کوئی تمثیل 
سخن دلنواز فقط ہے اک تمہید 
قلم چلتا ہے کہ خالق کی ہے تحریر 
دل میں کھنچتی ہے کوئی زنجیر


رات، بھی رات ہے، دائم نہیں 
دن، بھی دن ہے،  قائم نہیں 
ہتھیلی پہ چاند کے نقش ہیں 
رات کی رانی کی مہک ہے

دل ‏پر ‏رقت

دل کی رقت پر سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ سوال کیا ہے؟ سوال کا جواب کیا ہے؟  سوال کا اسباب کیا ہے؟ رات میں ملال اور ملال کا لباس کیا ہے؟ جبین سجدہ ریز ہے، رمز شناس ہے کیا؟  جب جاگتے ہیں دل، روتی ہے آنکھ،  سوتا ہے شعور اور بہتا لہو دل میں ھو ھو کی صدا سے مخمور ہو کے رواں رواں میں محبوس ہو کے بھی نعرہ ء حق لگا دے تو بندہ کَہے کہ کہاں جاؤں میں؟ میں کتھے جاواں؟ کتھے اونہوں نا پاواں؟  اودھے جلوے چارچفیرے .. بانگ دیندے ریندے نے مرغ سویرے سویرے ...لنگ گئی حیاتی، غماں نے مار مکایا ..جنگ جاری ہے ... حیات  پیہم مشقت میں،  رہن رکھی چاندنی نے پوچھا کہ کیا ملا؟  ملا جو سوال کو جواب ملا ...جواب میں یاد کا سندیسہ تھا ..سندیسے آتے ہیں اور ستاتے رہتے ہیں .. رات میں نور علی النور چمکا چاند،  رات میں سحر در سحر اشجار ہیں جن کی رگ رگ میں جاودانی کا دھواں ہے اور مکھڑا جس کا نورانی ہے.. وہ پھرتا چلتا ہے عکس وجدانی ہے،  لہر لہر میں رنگ ہے اور رنگ میں کلی کلی کی مہک سے جل رہا ہے چمن،  دود ہستی میں راگ چھڑا ہوا ہے ..سرمدی راگ میں بات بھی ذات کی ہے اور بات ذات میں واحد ہی رہی اور واحد میں خاموشی صامت رہی. حق وحدہ لاشریک کے سامنے رگ جان سے قریب کون تھا؟  میں نہیں تھا ..وہ بھی وہی تھا ..بس آئنے تھے دو ..دوئ تھی کیا؟  دوئ نہیں تھی مگر یہ آنکھ روئ تھی کیا؟  جی جی!  جذب تھی جس آنکھ میں وہ رہتی ہے یاد میں ..زہرا کے بابا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بے حساب درود کہ کمان سے نکل گئے تیر اب زخم.سے جل.رہا دجلہ ... فرات کی نہر میں انالحق کی صدا ہے ...گراں تھا نعرہ کیا؟  راز عیاں تھا کیا؟  برسر منبر بہک گیا کوئ ... بہک جانے کی سزا بھی نرالی تھی مگر جس کے پاس سایہ کالی کملی والا کا ہے اسکی شان نرالی ہے. کوئ آقا والی ہے ..صلی اللہ علیہ والہ وسلم. مری غلامی بھی نرالی ہے کہ رنگ و نور کی محفل سجنے والی ہے. شام میں صدا یے اور صدا میں کرن کرن کا جلوہ اور جلوے میں رنگ ساز نے رنگ دکھائے تو ست رنگی بہار میں عیاں راز کے سارے پردے فاش!  راج ہوا کبریائی کا.  جو.صبغتہ اللہ والی ہے،  اسکی کملی کالی یے، جس کے پاس رات کی جاودانی ہے،  راج جس کا انوکھا یے سورج کی کرن کرن میں مگن کون یے؟ گگن کی لالی کہاں سے آئ ہے؟  راج کرے گی دنیا جب  دیکھے گی جب جھلک دیکھے گی ..کچھ جو صلی علی کی دھوم میں مر جائیں گے ..کچھ اس بازگشت میں رہ جائیں گے. کچھ اس جھلک کے سکتے میں رہ جائیں گے کچھ کے سر جھکے رہ جائیں گے کچھ قائم قیام میں رہ جائیں  گے. کچھ کو عندلیب کا نغمے سنائیں جائیں گے، کچھ رقص شرر میں جل جائیں گے، کچھ کو نغمہ جانفزاں سے بہلایا جائے گا کچھ کو دید کا سامان دیا جائے گا کچھ کو رات کے پہرے فاروقی نقارے دیے جائیں گے، کچھ کو صدیقیت کی مسند پر گرانقدر تحاٰئف دیے جائیں گے، کچھ علی علی کی صدا میں نبی نبی کی گونج میں مگن رہیں گے تو یہ ہوں گے وہ حال جن پر رشک فلک ہوگا، نوریوں کو ملال کہ وہ بشر ہوتے تو یہی احسن تقویم ہے. یہ زمانہ ہے شرفیت کہ اشرف المخلوقات سے وابستگی کا ہے کہ آؤ نعرہ ھو لگائیں دل میں رہ جائیں گے ارمان نہ ملیں گی وہ گلیاں

خاموش ‏دل

خاموش دل تھا، طوفان چاہیے؟  طوفان کو کیسا میلان چاہیے؟ کیا.رب سے کوئ امکان چاہیے؟ شرم کہ کیسا سامان چاہیے؟ اے دل مٹنے کی طلب یے کہ مٹ جا اوربے رنگ ہو جا کہ بے رنگ میں کئی ملال چھپ جاتے اور جواب ظاہر ہو جاتے ہیں. اے دل فنا ہونے میں کیا مضمر یے کہ راز جان کے جان لینے سے پہلے یقین کرنے میں کیا ہے. وہ جو رگ لاھوت سے سوئے یاھو کا نغمہ ہے وہ بج رہا ہے وہ جو محو پیکان میں تھا وہ بھول گیا یاد کو کہ یاد تھی کیا وہ تو یاد نہیں تھی. وہ سندیسہ تھا جسے رب نے بھیجا تھا اور جب بھیجا تھا کہا تو کہ اسے رکھ دل میں اور عیان نہ کر ورنہ گلاب کی مہک بکھر جاتے ہیں اور جب بکھر جائے تو سو سوال ...خوشبو پر سوسوال ..جواب اک ہو تو بات ہے کہ ھو میں رہتا ہے کوئ یک ٹک سو ہے. محویت طاری ہے کہ رنگ و نور کی بارش ہے کہ جنبش مژگان سے شبنمی.قطروں سے وصال کی قیمت پوچھ ...وصال میں ملال ہے کہ چھن جانا سب اور ہجر کا سوگ دائمی کہ آ لگا لیں گلے اسکو کہ نہیں صبر کا یارا ..ہم زخم کو سینے سے لگاتے ہیً اوروہ پاس بلاتا ہے کہ کہتا ہے 
یادش بخیر!  سب بجلیاں طور کی ہیں؟ کچھ معراج میں چھپا ہے جب دل کو الہام کیا گیا تھا کچھ غلط نہ دیکھا ... بس روبرو تھا کوئ ...کون تھا؟ کون اس آئنے میں چھپا تھا؟ کس نور سے نور ملا کس کو کس کو یہ کون جانے. یہ تو رب جانے اوردل جانے ..دل دی گلاں کون جانڑے. دل دے ارماناں دی اوس نو کون مانے؟ رخ سے جو نقاب ہٹ گیا تو رک جائے گا ہاتھ اوررفتار  بڑھ جائے گی. روح کے چکروں میں وہی ہونا ہے ..کیا؟ جلوہ؟  ہاں جلوہ بھی اک ہےآنکھ بھی اک ہے ..دیکھنے والے مظہر بھی ..بس لکا چھپی کا نظام ہے اور آنکھ جانتی ہے کس کو وہ اپنا دل مانتی ہے ...اے دل چل اس سرزمین جدھر سے یہ خوشبو آتی ہے ورنہ تھم جائے گی گردش اوررک جائے گا دل اور کہے گا کہ جینے کا سلیقہ کیسے ہوگا؟  پینے کا طریقہ کیسے ہو؟

ثنائے ‏محمد

اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد 
ثنائے محمد کیے جاتے ہیں اور پیش حق مسکراتے جاتے ہیں ... پیش حق مسکرانے سے بات نہیں بنتی بلکہ دل کو دل سے ملانے سے بات بنتی ہیں. جب میں نہیں ہوتی تو وہ ہوتا ہے اور جو وہ کہتا ہے کہ چلو رہ توصیف اور کرو بیانِ کے بیان اورعالم نسیان میں وجدان اسرار حقیقی کے نئے دھاگے لاتا ہے اور میں کہتی ہوں. میں نہیں کہتی یہ وہ کہتا ہے. جلنے میں حرج نہیں مگر جل جانے سے کیا ہوگا؟ جل کے مرجانے میں کچھ نہیں مگر جل کے مرجانے سے کیا ہوگا؟  بس آنکھ کا وضو بڑھ جائے گا. بس دل کے ریشہ ہائے منسلک میں رہنے والے تار تار کا بیان ہوگا. حق ھو. وضو کی نہر جاری ہے اور نیت دل میں نماز ہجر کا بیان نہیں تو نماز.شوق کروں کیسے بیان کہ اشک نہاں میں کُھبا ہے اک پیکان اور دل کے میر نے کہہ دیا چل کہ یہ سفر کا موسم ہے اور موسم  کے رنگ بھی عجب ہے. یہ ڈھنگ میں کیسے بھنور ہے کہ بھنور کو ساحل مل گیا یے ... شمس کی غنائیت میں چھپا سرمہ اک عجب رنگ رکھتا یے کہ یہ وہ شمس تھا جس نے ملتان سے گرمی کے سامان کو، ہجر کا نشان کیا تھا ... رکھ دے دل اور مسجود ہو جا جس کے دم سے روح ماہی بے آب کی طرح کانپتی ہے کہ دل مٹ جا کہ بسمل کی تڑپ کے سو نشان بننے والے ہیں .

جل رہا ہے دل کہ روح ہے 
مل رہا ہے دل کہ روح ہے 
ذرے ذے میں کو بہ کو ہے 
جس کی محو ثنا میں تو ہے 
رگ جان سے قرین ہوں میں 
دل کے فسانے کہ دوں میں 
قلم ٹوٹ جائیں گے سارے 
 بیان نہ ہوگی ہجر کی داستان 
ہجر میں عشاق کے قبیلے ہیں 
دل میں جاناں کے میلے ہیں 
خزانے ہاتھ میں رکھے ہیں 
شاہا نے کمال سے دیے ہیں 
وہ جو رنگ یاقوت میں ہے 
وہ جو رنگ لاھوت میں ہے 
فنا کے چکر نہیں سارے 
لازوال ہیں  دوست سارے 
روشنی کا  مزاج  عجب ہے 
لگتا ہے ہر ماہ، ماہ رجب یے 
یہ انسان میں کیسا نسیان ہے 
اترا رمضان  میں یہ قران ہے

رات ہے اور رات میں رات نہیں ہے. یہ تو سویرا ہے اور میں کس کو جا بجا دیکھ رہی ہوں ..جلوے ہیں جابجا میرے اور ان میں کس کو دیکھا جا رہا ہے ...

مہک مہک ہے،  رنگ رنگ ہے 
دل تو دل ہے نا،  روشن ہے 
رنگ میں خمار کی مے ہے 
دل میں غم کے لاوے ہیں 

اے مرشد حق!  ہم جھکاتے ہیں دل کو وہاں جہاں سے یہ جواب مل جاتا ہے. یہ دائرہ کیا ہے؟  یہ نسیان کیا ہے؟  یہ حیات کیا ہے؟ میں نے پوچھا آقا سے کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ..بندگی کیا ہے ...
بندگی خاموشی و ادب ہے 
بندگی  طریقہ دین ہے 
بندگی یاد میں رہنا ہے 
بندگی غلامی ہے 

میں تو غلام رسول ہوں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
میں خاک زہرا بتول ہوں 
عشق حرم کے فسانے ہیں 
چل پھر رہے دیوانے ہیں 
نبوت کے مینارے ہیں 
عجب یہ استعارے ہیں 
کنزالایمان،  بلیغ لسان 
محمد عربی کا ہر بیان 
شمس الدجی کی تجلی 
لگ رہی ہے کوئ وحی 
آنکھ میں ہاتھ رکھا ہے 
رات میں ساتھ رکھا ہے 
روحی چشمے سارے ہیں 
وصل کو پھرتے مارے ہیں 
 اشرف ہوئے سارے ہیں 
مدین سے پھیلے فسانے 
ناپ تول کے تھے پیمانے 
چھوٹ گئے سب یارانے 
جوگی مل گئے سب پرانے

مرکز ‏ہست ‏میں ‏عشق ‏سے ‏اجالا ‏کردے

مرکز ہست میں عشق اجالا کردے 
فنا کا سرمہ راہ طیبہ لیے جائے ہے 
اے درد، آ حسین ترین ہو کے پھر 
شہسوار کے اٹھنے کا نظارہ کرلے

Noor

عصائے ‏موسی ‏نے ‏کلام ‏کیا

عصائے موسی نے کلام کیا ہے 
سحر یونہی ننگ و عام کیا ہے 
یقین کے دل پر بیضائی ہالہ ہے
یہ معجزہ تو  نبوت والا ہے 
دربان عشق ہوا، شاہ عشق ہوا 
سولی پر چڑھا، ماتم دلبری کی
نوک سناں ہوا سجدہ شوق ہوا 
واہ عشق ترے فیض یافتہ بہت 
کیا کوئی یہاں حسین سا ہوا ہے؟
علی سے زیست کو ملے ہے آزادی 
اڑتا ہے طائر یہ سر سبز وادی ہے.
سریلا نغمہ بہ گوش دل ہوگیا ہے 
بولتا لہجہ ہے کہ لحن داؤدی ہے
Noor

مئے ‏دید ‏سے ‏عرفان ‏تک

مئے دید سے عرفان تک 
راز کھلے سب گیان تک 
ذات کھلتی ہے نروان تک
عشق جاتا ہے آسمان تک 
درد بڑھتا ہے پھیل جاتا.ہے
کائنات یوں وجود آتی ہے 
امید سحر، رات ہماری ہے
دل تو ہے، جھولی خالی.ہے
ہمارا دل.عشق کی.پیالی.ہے
سینے میں سنہری جالی ہے 
نور پر سبز گنبد والی  ہے

Noor

الہی ‏! ‏درد ‏دیا ‏تو ‏تاب ‏ہجر ‏بھی ‏دے

السلام علیکم نور !  
آج خود سے بات کرنے کو دل ہے، خود تو خود سے بچھڑ گیا ، ہائے رے میرا دل، مری چُنر رنگ دی گئی  اور بے رنگی دی گئی! اِلہی ضبط دے ورنہ قوت فغاں دے 
نالہ ء بلبل سننے کو، جہاں کو تاب دے 
باغِ گلشن سے اجڑ گئے سب پھول
تاج یمن سے اجڑ گئے سب لعل
قریب مرگ جان نوید جانفزاں آیا 
وقت مرگ مرض نسیاں کے طوفان نے عجب شور مچا رکھا ہے، کاٹ دیا گیا سر،  برہنہ تھی تلوار اور خون بہہ رہا تھا ... 
الہی ماجرا ء دل دیکھ کے اہل عدن رو پڑے 
یہ تری حکمت کی فصیل تھی، جرم تھا کڑا،   

باغ رحمت کے پاس کھڑی ہوں اور وہ کان لگائے ہمہ تن گوش ....
بَتا درد دیا تو قوت درد بھی دے 
یہ درد تو مرگ نسیاں ہے!  
کھاگیا بدن، پی گیا لہو،  کھنچ گئی رگ رگ ...
پھر ترے پاس کھڑی پکارتی رہی 
الہی درد دیا تھا تو تاب ہجر بھی دے 
وحشت دی ہے تو لذت مرگ بھی دے 
ملیں ترے وصل کے اشارے، نہ ہو 
ڈھونڈو ملنے کے بہانے،  نہ ہو!  ....
الہی، محرما نہیں کوئی ...
الہی،  روشن شب فرقت میں دیپ جلے ہیں 
الہی،  دست وصال لیے،  دست کمال ملا ہے 
الہی،  ہجرت کے درد نےاور ہجرت فزوں کردی 
الہی،  آشیاں تباہ ہوا، بنا تھا،  پھر بگڑ گیا   
الہی،  داستان غم لکھی تو نے، سناؤِں میں 
الہی، مزے تو لے اور درد کا گیت گاؤں میں 
الہی،  کچھ تو نگاہ کرم مجھ پہ کردیتا ہے 
الہی، یا تو لمحہ وصال مستقل کر، یا درد سے فرار دے 
الہی،  اشک تھمتے نہیں،  زخم بھرتا نہیں،  رفو گر کا کیا سوال؟  
الہی،  شدت درد نے مریض کردیا ہے،  
اے وقت نسیم،  
سن جا!  محبوب کو بتانا 
ادب سے،  
ملحوظ ادب کو سجدہ کرنا اور مانند رکوع نماز قائم کرنا 
یہ عشق کی نماز ہے 
کہنا،  جب سے میخانہ بنایا ہے،  جام جم یاد نہ رہا،  جب سے دیوانہ بنایا ہے،  آپ کا نقشہ ہی یاد رہا،  
قرار نہیں ہے،  فرار نہیں ہے،  تپتا تھل ہے،  آبلہ پا!  کیا کروں؟ 
زخم رَس رہے، کوئے اماں کیسے جائیں؟
ہجرت کے نِشان ڈھونڈنے کَہاں کَہاں جائیں؟

تھی مَلائک کی زبان پہ حکم الہی، تیغ ِ الہی دی جانے لگی .... یہ سیفی تلوار ہے،  ملتی رہے گی، چلتا رہے گا سلسلہ، سیف اللہ، وجہ اللہ کی تلوار ہے،  یہ امامت کا سلسلہ ہے، روشنی کا سینہ چاک ہونا ہے!  صدر و الصدور سے ملاقات کی باری ہے،  یہ شہِ ہادی کی سواری ہے، صدیق اکبر سب پہ بھاری ہے،  علی کی شیروں سے یاری ہے،  معجز نور کے سامنے قبہ ء نور دیا جانا اور دینے والا رنگی دوشالا پہنے ہو گا،  اس سے ملے گا نور،  کلیر کا صابر،  رنگ کی رنگائ مہنگی ہوتی ہے،  کچے دھاگے کا رنگ اور،  پکے دھاگے کا رنگ محویت!
تجھے شوق سے دیکھتا ہے،  تو کدھر؟ 
میں تجھے پاتی گم ہوں،  نہ جانوں کدھر،  
تو رسولِ معظم کی معین نشانی،  یہ داستان سنانے کو، بتانے کو کون ملے گا مجھ سا؟  ترے دل میں اشک نبوت ہے،  کاشانہ ء رسالت میں رہنے والے مرے نور،  
اللہ نور السماوات کی تحریر ہے تو، 
بتا تو سہی، کیسے تسلی دوں؟  
میرے نور کو مجھ سسے دلاسہ چاہیے،  میرا ہی کاسہ چاہیے اور میں نچھاور نہ کروں محبت!  
یہ اگربتیاں ہیں ....
اک ہم نے شوق میں جلائی
اک جلائی گئی،  مرے شوق نے 
یہ معطر خوشبو ہے!  اس دھواں کی مثال عنبر و عود کی سی ہے!  جلالت کی نمود ہے اور تو مرا وجود ہے! مرے ہوتے کیسی بیقراری! تری تو مجھ سے یاری!  قسم شب تار کی، ناز حریماں پہ سب تارے لٹا دوں،  شمس کیا،  سب آئنہ محویت کے،  ٹوٹ جائیں گے اور کیا چاہیے؟  راضی ہوجا!  راضی رہنا سیکھ!  آجا لگ جا مرے گلے 

اللہ.سوہنا 
ترے کہنے پہ بات کرلی،  اب خود جان تو 
اب آ شوق وصال چاہیے، تو،  ترا کمال چاہیے،  چاہیے نا حرکت دلم،  حرکت زوال کے وقوعے کو تصویر،  چاہیے شب تار کو ناز روشنی،  لیجیے گفتگو کے ہنر  سے، ہم بات کرتے ہیں،  تجھ سے براہ راست کہتے ہیں 

مولا دلگی کی ہے، نبھانی مشکل ہے 
ریشمی رومال سے لاگ کا سوال ہے
 
ریشم دھواں سا ہے،  دل میں رواں سا ہے،  یہاں اک کنواں ہے وہاں اک مجذوب بیٹھا جھاڑو پکڑ کہ صفائی کرے اور مجذوب صفائ نی کرتا دل کی ...
او صاف صفائی دل دے کرئیے تو رب مل جانداں اے 
جنہاں کیتی  نیک کمائی اونہاں نے رب مل جانداں اے

شمس کی طولانی فوج  میں.بیٹھے ماہ رسال نے پوچھا 
اے نور تار شب ریشم سے اوج ابد کی تلاش تک کا.فسانہ کیا.ہے؟  حیدری مئے پیے جاؤ اور شاہ ولا کی سواری پہ بیٹھے روز صبح کو لمحہ. وصال چکھ کے کاشانہ نور میں سیر کرو اور مجھے شب فرقت کے قصے سناؤ ...یہ ماجرا کیا ہے؟  درد بڑھادوں؟  مئے پلادوِ؟ تجھ کو ہلادوں؟  جا تری آزمائش کا وقت ختم ہے گرچہ وقت طویل ہے،  گرچہ رات سجیلی.ہے اگرچہ خواب حقیقت میں ڈھل رہا ہے گرچہ شام غزلاں پہ بیٹھے رفیق تاجدار حرم کے ساتھی ہیں،  گرچہ جہد مسلسل.جوانی میں،  جراءت کے ساتھ.اور تاب سخن!  اس روئے سخن پر قربان جائیے جس نے تجھے روشنی دی یعنی رب نے تجھے اور تو نے ہم کو ..دیکھ کے روئے جاناں کھوگئے 
محبوب کبریاء سے مل گئے،  سو گئے 
خالی نہ جاتا دیدار کے بغیر 
فقیر کو ملتا انعام.تاجور سے 
شیخ ہادی کا وسیلہ مکمل کرتا ہے یہ بخت نشان حیدر یہ  سب کمال کے سلسلے ہیں ...

مٹی ‏کے ‏ذرے

مٹی کے ذرے 

لمحہ موجود میں قفس سے روشنی کی شعاع نے اندھیرے میں چراغ کا سماں بپا کردیا تھا ۔ دور کہیں اس اندھیری وادی میں سُروں کے سنگیت پر ایک شہزادی بھاگ رہی تھی ۔ اس کی آواز کانوں میں حلاوت بخشتی جاتی اور وہ رقص کُناں ایک ہی لے کا نغہ روز سنا کرتی تھی ۔ دوران رقص روشنی قفس کے اندھیرے ختم کر رہی تھی ، ملجگے اندھیرے ، سیلن زدہ دیواریں ، روشن ہوتی  اس میل کچیل کو صاف کر رہی تھی ۔ جوں جوں روشنی کی مقدار بڑھی ، ساز کی آواز تیز تر ہوتی گئی ۔ شہزادی وصل کے لیے بے قرار رقص میں محو وراء سے ماورا کی طرف سفر کر رہی تھی ۔۔ ہر لمحہ سلگتا، جوار بھاٹے کا من میں شور ، روشنی کا سمندر اس کی ذات کو تقسیم کیے جارہا تھا ۔  صحرا کی تپش میں گلشن کی سیر میں محو نغمہِ آہو کا خاتمہ ہوا ۔ نفرت کی دبیز تہ نے محبت کی روشنی چار سُو بکھیر دی ۔ مٹی کے ذرے ہوا میں اپنا حجم کھورہے تھے  ۔ مشرق و مغرب کی سمت سے بے نیاز صبا اپنی دھن میں ان ذروں کی ضوفشانی میں مصروف تھی ۔ رات کے اندھیرے میں سورج اپنی پوری تابناکی سے ان ذروں کے حجم کو واضح کیے دے رہا تھا ۔ جو ذرے ''طوھا کرھا '' اس سمت روانہ ہوئے تھے ۔ تحلیل شدہ ذروں کو نیا خمیر عطا ہوا تھا ۔  بے بسی ، بے قراری ، بے کیفی اور بخارات سے بادل بننے کے بجائے   روشنی کے سفر پر ترجیح دیتے یہ خود پر نازاں تھے کہ مقام ایزدی سے جو مقام ان کو ملا ہے وہ کم کم کسی کو عطا ہوتا ہے ۔ تفریق کی مٹی نے اپنا وجود جب واحد و یکتا کے حوالے کرتے  یہ نغمہ سنایا

ھو احد
ھو صمد 
ھو المالک 
ھو الخالق 
ھو المصور
ھو الباری 
ھو الرحیم 
ھو الرحمان
ھو الکریم 

اس سرمدی نغمے  سے ایک صدا ابھرتی رہی اور وجود فانی اپنی تسخیر پر نازاں یار کے روبرو نظارے میں مصروف تھا ۔

انسانیت ‏کی ‏بقاء

انسانیت کی بقاء 

دنیا میں نظامِ کائنات کی تشکیل کے لیے سکوت اور حرکت کے مختلف وقفوں کو ایام کے نام سے منسوب کرتے ''امر کُن '' لاگو ہوگیا ۔ پیدائشِ انسانی سے پہلے کائنات کی تشکیل کے مراحل مخلوقات کی تخلیقات پر لاگو ہوئے ۔ ''نور '' کی پیدائش نے قدوسیوں کی جماعت پیدا کی ۔ وہ جماعت جو مکمل سجدے کی حالت میں ہے یا مکمل رکوع کی حالت میں ہے یا مکمل قیام کی حالت میں یا  تسبیح میں مصروف ہے ۔ ان کی ضد میں '' نار '' کو تشکیل کیا گیا ۔ ''نور '' اور '' نار '' ایک دوسرے کی ضد میں قدرت کے اٹل حقیت ''صبح و رات ، سحر و شام ، اجالا روشنی '' کے فرق کو واضح کیے ہوئے ہیں ۔ انسان کو جب پیدا کیا گیا تو اس میں '' نار و نور '' دونوں طرح کی قوتوں کو ''وہم و یقین '' کی صورت پیدا کردیا گیا ۔ ''شک و یقین '' کی قوت کو توازن میں لانے کے لیے عقل یا شعور عطا کیا گیا ۔ شعور انسانی کو چلانے کے لیے ''حواس خمسہ ''  کو نگہبان کیا ۔ 

تخلیق آدم کے بوقت '' نور '' کی تجلی کو پہلے پیدا کیا گیا ۔ آئنہ کی تشکیل کے بعد سجدے کا حکم ہوا ۔ سجدہ گویا خالق کو سجدہ اور انکار گویا خالق کی کبریائی سے انکار تھا ۔ جس نے انکار کردیا ، گویا اس نے خالق کو پہچان کر کبریائی کا دعوی کردیا۔ ایسی مخلوق جس نے معرفت حاصل کرلینے کے بعد '' نورِ ازل '' کی واحدانیت کو ماننے سے انکار کردیا گویا وہ '' اندھا ، بہرہ اور گونگا '' ہوگیا ۔ وہ تمام لوگ جو ابلیس کے پیروکار ہوئے ، وہ تمام کے تمام حواس کو بروئے کار لانے کے باوجود '' اندھے ، گونگے ، بہرے ہوگئے ، گویا وہ اللہ کے حکم کو پہچان لینے کے بعد پہچان نہیں پائے یا آئنہ میں '' نورِ حقیقت '' کا چراغ بجھ جائے ۔ اس کے بعد انسان کی حیثیت '' نار '' کی سی ہوجاتی ہے ۔  

''نار '' کے برعکس ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا ۔ آزمائش کی مثال ''پل صراط '' کی سی ہے ۔ جو اس آزمائش کو پار کرگئے تو گویا وہ اپنے رب اور اس کی حقیقت کو پہچان گئے ۔ دوست ، دوست میں فرق کہاں رکھتا ہے جب ایک ہستی اپنی ''ناری '' حیثیت سے دستبردار ہوتے '' سراپا نور '' بن جاتی ہے جس کو خالق نے قران پاک میں ''نفس مطمئنہ '' کے نام سے ہمیں آگاہ کیا ہے ۔ ''نفس ملحمہ '' پر استوار روحیں جب منزل شناس ہوجاتی ہیں ، ان پر جبروت و لاہوت کے نشانیاں بتائیں جاتی ہیں ۔ ایسے راستے ہیں جس  کی آگاہی ہر روح کے لیے جاننا ضروری ہے ۔ اس کی پہچان ہی دراصل ' محشر ' اور انصاف والے '' دن پر یقین کامل پیدا کرتی ہے ۔ گویا جو لفظ ''زبان '' نے ادا کیے اس کا ''عملی '' نظارہ روح کرلے ، اس کا شُمار کاملین میں ہوتا ہے ۔ انبیاء کرام کی روحیں پر جو عطا تھی وہ نبی آخر الزمان صلی علیہ والہ وسلم پر ختم ہوگئی ۔ اب ارواح کے مدارج ہیں جن کو ''صدیقین ،  شہید ، صالحین میں شمار کیا جاتا ہے

نور سے نار کا سفر کرتے رہے
کینہ حسد  جو خود میں بھرتے رہے
نور نے حقیقت کو قریب سے دیکھا
مشاہدہ ، شاہد ہوکے وہ کرتے رہے

رنگ

آج رنگ کی محفل میں راگھا نے دیپک کے گیت چرا لیے،  دیپک نے جگنو پکڑ لیے اور شام گزار دی،  رات میں فراق نے پکڑا تھا کہ راگھا کے رقص نے زندگی دے دی  .... زندگی کے پل ❤ مگر تیر پیوست ہوگیا دل میں 💘 راگھا کون تھی؟  دیپک؟  بگھوان؟  کیا؟

The Flute

Thy flute is immersing sad songs ... He is aware of the sad tunes as the script is already written.

O 'Allah why you have made love?
The love enthralls limits, 
Muses for beloved,
Chants unrhymed lamenting songs,
to captivate itself into the beauty of universe ...

Universe is a vast canvas of His paintings,
He strokes dark shades so light will be shed down inside the case 
The bird would escape leaving the uncaged case 
His script is already written 
The flight is ready 
noor

لٹو

نور کی برسات میں سونے ، ہیرے ، چاندی گرتے دکھ رہے تھے جبکہ لینے والے نے دینے والے سے سوال کیا 
تقسیم میں فرق کیسا ؟
اختلاف میں حسن کیسا؟
اظہار میں دیر کیسی ؟
یہ معاملہ ، اسمیں معاملہ کیسا ؟

وہ جو ہروقت سب میں تقسیم کے اختلاف کو مدنظر رکھتا ہے ، اسنے مسکرا کے لینے والے کو دیکھا اور کہنے لگا ،
دل میں نور کی صورت کیسی ؟
صنم خانہ کی ضرورت کیسی ؟
جلوے کی بیتابی کیسی ؟
اظہار میں بے باکی کیسی ؟

ابھی دیالو کے چہرے کی مسکراہٹ ختم نہ ہوئی تھی کہ زمین نے گردش میں گردش کو رد کرتے نئے زاویے بنا دیے ! 
ایسے زاویوں پہ حرکت کرتے دیالو کو احساس ہوا کہ سیم و زر کی بارش اس اضطراب کو کافی نہ ہوگی ، اسنے ہیروں کو بغور دیکھا جسمیں کوئی سرخ رنگ ، کوئی گہرے نیلے رنگ اور کوئی کالے رنگ کا تھا ۔۔۔ 

یہ نیلے رنگ کا تمھارا تھا ۔کالا تم نے اتار پھینکا ہے۔سرخ سے تمھیں نوازا جانا ہے۔تمھارا ہاتھ خالی ہے ۔تمھارا چاند ، ماہتاب بنا نہیں ہے اسلیے تمھاری گردش بھی نئی ہے ، احساس بھی مختلف ہے ۔۔۔ابھی تک جتنے بھی نوازے گئے ، سب کے احساس میں اختلاف ، اضطراب میں خاصیت ، رنگ میں ماہیت ہے ! تمھاری گردش بھی نئی ہے 

لٹو ---------------------زمین اسطرح گھوم رہی تھی جیسے لٹو ! لٹو کی گردش سے اسکی ہیئت بدل رہی تھی ، ظاہر باطن میں جھلکنے لگا اور باطن ظاہر میں ۔۔۔ جب گردش تھمی لٹو ٹوٹ چکا تھا ، زمین کا رشتہ فلک سے جڑ چکا تھا

نشان

اللہ سے سوال کرتے ہیں 
اللہ بتا تو سَہی نشان اپنے

نشان کہ بے نشان ہوں میں؟
اپنے ہونے کا امتحان ہوں میں؟ 

عیاں نہیں تو، نہاں کیسے دکھے 
جو جان نہ سکے،  وہ کرے کیا؟  

رکھ دل کے آگے  صورتِ یار اور 
محویت کی دیوار چاک کرتا جا 
میرے نشان دیکھ ہے کہاں کہاں 
یہ تو ہیں عیاں، یہی.تو نہاں

سلسلہ ِ امامت علی سے ہے 
سلسلہ  شہادت حسین سے ہے
سلسلہ زہد   زین علی سے ہے 
سلسلہ ِ حکمت  حنفیہ سے ہے
سلسلہ ہجرت شافعی سے ہے
سلسلہ  ِ عشق بصرہ سے ہے 
سلسلہ سوز وگداز  قرنی سے ہے
سلسلہ جستجو  فارس سے ہے

 وہ عشق کیا ہے ، وہ سوز کیا ہے  ،وہ محبت کی نرم میٹھی پھوار ہے ، اک خنجر دل کے آر پار ہے ، یہ خنجر سے خونِ جگر نکلا بار بار ہے ، یہ خنجرِ حسینی ہے ، جس کی عبارت ہے ''لا الہ الا اللہ '' ۔۔۔۔۔۔۔ شہادت نوکِ سناں  دی جارہی ہے ، خون کا کلمہ ہے ''لا الہ الا اللہ ''

طبیبا ‏تخلیہ ‏!

کیا علم تھا کہ پھر سے مرض عشق ہوجانا ہے. جتنا اس مرض سے بھاگا جاتا ہے اتنا یہ جان کو لگ جاتا ہے. پھر گریہ بھی کیا،  لہو بھی آنکھ کے پار ہوجاتا ہے .. بدلے میں جفا رہ جاتی ہے. کہنے کو سوداگری نہیں محبت کہ بدلہ مانگا جائے مگر جس دل میں محبت کے بے تحاشا سوراخ ہو، اسکے پیالے سے سب باہر آتا جاتا ہے .ہر آنسو آیت بن جاتا ہے اور ہر نشان میں خودی جلوہ گر ہوجاتی ہے. یہ وہ مقام ہے جس میں ہر شے آئنہ ہوجاتا ہے. درد سے پُر ہے دل، جان بلب ہے، شکستگی پر غشی سی طاری ہے، گماں ہوتا ہے نزع کی ہے باری،

طبیبا!  تخلیہ!  درد ہمارا مداوا
طبیبا! تخلیہ!  درد میرا تماشائی
طبیبا! تخلیہ!  درد محرم راز ہوا
طبیبا!  تخلیہ!  درد سے پُر میرا کاسہ
طبیبا! تخلیہ! دم دم میں ہمہ ہمی
طبیبا تخلیہ!  شور کی ہے کمی
طبیبا! تخلیہ!  زندگی ہے بچی
طبیبا!  تخلیہ!  رقص جگر مانند بسمل
طبیبا تخلیہ!  شوریدگان عشق کی ذاتیں
طبیبا تخلیہ!  دل میں پری چہرہ کا نقش

نقش پری چہرہ کے جمال سے جلال میں محو کمال نے فنا کے رہ میں حائل ملال سے زوال کا.پوچھا. زوال نے رستہ روک کے ملال کے سیلاب بہا دیے. افسوس مکان شہر سے نیچے تھا. پانی پانی دل اور غم بہتا ہے نہ کوئ ہے جالی ... اس پری چہرہ کے خیال میں درد کی تجسیم نے کیا حال کردیا ہے. دل میں وہی ہے، میرا دل مجھ سے شمیشر بکف ہے کہ
من تو شدی ...

تحریر درد کی دیوار پر لکھی گئی ...کچھ حرف منقش ہوئے

آؤ سوختہ جگر!  آؤ مرض عشق کے اسیرو!  آؤ چراغاں کریں درد سے. آؤ شام غم میں درد سے روشنی کریں کہ ایندھن یہی بچا ہے ... لہو نکل رہا ہے اور لفظ بسمل کا رقص دیکھ رہے.

بسمل کے رقص کا تماشا سب نے دیکھا
کسی نے تھام کے ہاتھ آسرا نہ دیا

مثال دوں بھی تو کیا دوں جب ارسطو نے
کسی بھی طور فلاطوں سا حوصلہ نہ دیا

رنگ میں ڈھلی ہے اک صورت ہے وہ صورت رسول معظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شبیہ ہے. جب وہ دکھے تو سارے درد ماند پڑنے لگنے لگتے ہیں. جیسے درد کی چاندنی کا شمس کی بینائی کے آگے کیا سوال!  دکھ تو شمس کی روشنی کا ادھورا حصہ ہے. آفتاب ہے مثال روشنی کمال ذات پر دیکھا جانے والا وہ لب بام پر گلاب ...گلاب پنکھڑی سے ہونٹ پر کھلتی مسکراہٹ اوع دندان مبارک سے نکلنے والی چاندنی ..دل کو دکھے تو سہا نہ جائے. دل دیکھی جائے عالیجناب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ریشم ریشم زلف ..وہ زلف جس کے تار تار کو ہوا چھو کے نازاں ہوں ..ہوا کی ٹھنڈک وجود اس لیے آئ کہ بال مبارک سے چھو کے گزری تھی اور عالم کو تحفہ دیتی رہی. اے باد صبا تجھ کو لاکھ سلام کہ تو محبوب کے در سے گزری ہے. ... آقا کی روشن آنکھ صبیح چہرے پر ایسے ہیں جیسے خواب کے بعد صبح ہو جائے ..جب آنکھ نیم وا ہو تو شام سے رات کا گمان ہو اور جب کھلے تو کائنات کا گمان ہو ...جب بولیں تو پھول گرتے محسوس ہوں. جب مسکرائیں تو کائنات مسکرانے لگے ...جب ہاتھ اٹھائیں تو روشن تجلیات کا ہالہ دکھنے لگے. جب کہ پیشانی کے خط پر کسی شمسی کا گمان ہو گویا شمس کی ذات میں ہزار شمس رکھے ہوں ... گویا لاکھ نظام و عالمین کا مجموعہ ہو ...اے شمس تو اک نظام کا مرکز. آقا کئی شمسین کے مرکز ...جو چہرہ تکے تو ساکت ہو جائے، جب ہوش آئے تو اصحاب کہف والوں کا سحر ٹوٹ جائے. رات کو بیٹھنے والے دیکھتے ہیں کہ چاند بھی آقا کی روشنی سے روشن ہے

نور

رنگ ‏رنگ ‏میں ‏ترے ‏جلوے

رنگ رنگ میں ترے جلوے ہیں اور ان جلوے میں چاشنی ہے اور کوئل اک ہے کو بہ کو یے جیسے کہے کہ 

رنگ اللہ کا!  اللہ کا رنگ!  سب اسی کا ہے، نہیں باقی چار سو!  نہیں ہے ماسوا اسکے!  چل رہی اسکی ھو!  رکھ لے دل میں سجدے اور پڑھ لے دکھاوے کو نماز ... یہ ہے ظاہر و باطن کی بات 

باطن میں ولا اس کی ہے 
حال میں چاہ اسکی ہے 
ریت پہ پانی لگ گیا یے 
پانی ریت ریت ہوگیا ہے 
فرق نہیں ہے، بس اللہ ہے 
اللہ ہے،  خدائی اس کی ہے
اللہ ہے،  رہنمائی اسکی ہے 
اللہ ہے، کبریائی اسکی یے 
اشھدان لا الہ الا اللہ کہا 
محمد رسول اللہ کی بات ہو 
راج پاٹ چھوڑ بیٹھے تھے 
ادھم اللہ اللہ کرتے رہے تھے 
ہائے!  لال قلندر کی نگہ میں تھے 
مولا چار سو ہے!  آقا کا جلوہ چار سو یے 
آبشار کی موسیقی سن یے تو اللہ اللہ کا گمان ہو اور جب تو پہاڑ کے اندر جا اسکے سونے میں ھو کو سن لے ...

روشنی جس نے وجود کو گھیر رکھا ہے رگ رگ سے نچوڑے ہے جیسے کپڑے سے داغ سب نکل جاتے ہیں ...

چہرہ آئنے میں دیکھا تو آئنہ میں وہ دکھا 
آئنے بکھر گئے تو سوچا یہ تو میں ہوں 
تو کیا فرق ہے؟ بتا اے ہوا؟  
اب اس دل کے عالم اور باہر کے عالم کا فرق؟
ہاں گہرا پانی اندر ہے 
ہاں باہر بوند یے

تخلیق ‏ہورہی ‏ہے

تخلیق ہو رَہی ہے ...
کیسے؟  
کون کر رہا ہے؟
کس کی ہو رہی ہے؟  
وہ جو مالک ہے کُن صاحبِ اسرار ہے،  
دیکھ رَہا یے،
سُن رَہا ہے،
سَمجھ رہا ہے،
یا ھو!  تمہید باندھی ہم نے 
ہائے ھو میں پکارا تمھی کو 
لا بھی ھو بھی،  انوکھا راز ہے 
سمجھ رہی ہوں کہ میں نے کس دن سے،  کب سے،  تمھارا نام دل کی دیوار پہ لکھا تھا 
دل کی دیوار پر سنہرا تھا رنگ تمھارا 
لگتا تھا کہ لال شفق پر کوئی بیٹھا ہے مانند شمس 
تو شمس کو دیکھا، کھوگیا قمر 
تو کھونے سے زمین میں لاگی گردش 
نہ ہستی رہی،  نیستی میں اسکی ہستی 
مستی رہی،  پستی میں وہی ہے 
کیف نہیں یے، کیفیتات ہیں 
دل ہائے اسرار کا مرقع ہے 
دل کے قران پاک پہ سطر سطر میں اللہ اللہ لکھا ہے 
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 
جگہ ترے لیے ہے 
دل فقط ترے لیے ہے
اور اسکی کرسی کو دل میں قرار ہے 
وسعت جس کی سماوات تک ہے 
دل عرش سے صبح فرش تک بس اک صدا 

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 

ہستی شہود را سے مستی ہنوز را تلک فقط مالک کی صدائے ھو سنی ہے 

سن لیا ہم نے نار میں کیا ہے، ھو کی صدا ہے 
سن لیا ہم نے فلک زمین کو بلاتا ہے،  ھو 
سن لیا ہم نے چاند و زمین کا نغمہ، ھو 
سن لی چرچرانے کی صدا میں،  پتے پتے کی ھو 
سن لی عشق ازل سے ابد کی صدا ھو 
نیستی میں نہیں کچھ بس وہ ہے 
ہستی میں وہ ہے، نہیں کچھ اور 
دل از لامکان تلک رفتار میں ہے 
خلائق جانب خلق گفتار میں ہے 
حالت سے حال کوئے یار میں ہے 
خانہ کعبہ دل کے اسرار میں ہے 
رنگ رنگ جو ہے،  وہ یار میں ہے 
 زنگ اترے، کیا بات پیار میں ہے 
جا،  دے آ دل،  دل وار میں ہے 
لے، نکال نیام جو تلوار میں ہے 
رویت میں ہے،    گفتار میں ہے
مست، خراماں سے وقار میں ہے
جالی کے سامنے اظہار میں ہے 
اشک اشک، حال زار زار میں ہے
چلا وہ نغمہ جو ستار میں ہے 
رہ وضو میں، کیوں قرار میں ہے 
جنون ہے، جنون کوئے یار میں ہے 
پھیلی خوشبو، وہ جو ہار میں ہے 
دیکھی رنگ، جو چنر لعل میں ہے 
کیا ہے شوق نے راہ کو  معشوق 
عشق و معشوق ساتھ ساتھ ہیں 
یہ عشق دوئی مٹانا کا بہانا ہے 
یہ عشق ملنے کا اک سیاپا ہے 
ملن کے واسطے،  فسانہ ء جہاں 
ملن کے واسطے،  سجا یہ آستاں 
دل،  نمانا سمجھا نہ اسکے نشان 
محمدی نور میں عیاں ہے جہاں 
میم کے رنگ میں الف لازوال ہے 
الف میں الف کی مثالیں نہیں ہیں 
میم سے نکلیں ہیں سو ذاتیں
میم سے پھیلی ہیں کائناتیں 
میم نے کی سج دھج رگ جان میں 
میم سے پہچانا اللہ کا بیان 
میم سے جانا اللہ کا  ہےقران 
میم تو خود چلتا پھرتا قران  
میم کے واسطے یہ ہے جہان 
میم سے ملی شمس کو بینائی 
میم سے ملی قمر کو رعنائی 
میم سے ملی بحر کو روانی
میم سے ملی موجوں کو طغیانی 
میم سے ملی عشق کی کہانی 
میم سے ملی حسین کی قربانی 
 میم سے ملی فاطمہ کی نشانی 
میم سے ملی اللہ کی مستانی 
میم سے کار جہاں دراز ہے میاں 
خودی کو سرفراز کیا ہے میاں

گہرائی

میں ابھی کلام سُن رہی تھی ... 

یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہسوار ہے 
یہ بالیقین حسین ہے نبی کا نور عین ہے
لباس پھٹا ہوا غبار میں اٹا ہوا 
تمام جسم نازنیں چھدا ہوا کٹا ہوا 

اسکو سنتے ہوئے "گہرائی " کا اندازہ ہوا .. ہم جب گہرائی میں جاتے کوئی کام نہیں کرتے وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوتا.  زندگی میں گہرائی اتنی اہم ہے مگر پھر بھی لوگ گہرائی میں جانے سے کیوں ڈرتے ہیں ....... شاید گہرائی میں اترنے کا فن ہر کسی کو نہیں آتا ... شاید اس راستہ جنون سے گزرتا ہے اس جنون میں ہوش قائم رکھنا اصل حق ہے. باقی سبھی دیوانے ہوتے کہیں نہ کہیں کھو جاتے ہیں.

اک ٹیچر ہوں میں،  میں جانتی ہوں تدریس کا حق ادا نہیں کرسکتی ہوں مگر اک چیز کو محسوس کرتی ہوں ......   گہرائی اک ایسا احساس ہے جو بچوں کو پڑھانے میں مددگار ہوتا ہے. میں جو چیز پڑھاؤں گی،  اسکو پڑھانے کے واحد کا طریقہ ہے کہ بچوں میں اس کانسیپٹ کی گہرائی پیدا کروں  جب اس مضمون کی گہرائی ان میں پیدا ہوگئی تو پھر وہ سوال کریں گے. انہی کے سوالات انہی کا دھیان بنائیں گے.  اس کے لیے میں ان کو کتنا ایکٹولی انگیج کرتی ہوں، یہ سوچنا ہے

گہرائی کیا صرف ٹیچنگ میں کام آتی ہے؟  نہیں؟  میں نے سُنا بھی،  پڑھا بھی تان سین کے راگ میں اتنا دم تھا کہ اس سے پانی میں آگ لگ جاتی تھی.  پانی تو بیچارہ بے جان تھا،  جانداروں کا کیا حال تھا. ہمیں بعض اوقات کلام سنتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ یہ گانے والے یا قاری کس قدر سے دل گا رہا ہے یا پڑھ رہا ہے ... وہی تاثر جو آواز دینے والے سینے میں پیدا ہوتا ہے، وہی ہم میں ابھرنے لگتا ہے .. 

گہرائی والی بات کسی غیر زبان کو سمجھنے میں کام آتی ہے بشرطیکہ کہ دل پسند ادب سنیں یا پڑھیں.  جب ہم کسی کلام کو دل سے پڑھتے ہیں یا کہ سنتے ہیں تو اس غیر زبان کے لفظ ہماری فہم میں آنے لگتے اور ہمارے لیے وہ زبان بھی اجنبی نہیں رہتی ہے .... اسی کا حوالہ قران پاک کے لیے بھی ہے جسکو قران پاک سے محبت ہے وہ اسکو روز خشوع خضوع سے پڑھے تو اسکو بھی اسکی سمجھ آنے لگتی ہے ...

بات صرف گہرائی کی ہے.  ذرا گہرائی میں جاکے امام عالی حُسین کی قربانی کو محسوس کیجیے!  آپ کا دل میدان کربلا بن جائے گا.  آپ کے دل کی زمین سرخ ہوجائے گی اور آپ کا دل بھی پکارے گا 

یہ بالیقین حسین ہے،  نبی کا نور عین ہے

۲۰۱۸، المحرم الحرام ۹

رات ‏ہے ‏اور ‏رات ‏میں ‏رات ‏نہیں ‏ہے

رات ہے اور رات میں رات نہیں ہے. یہ تو سویرا ہے اور میں کس کو جا بجا دیکھ رہی ہوں ..جلوے ہیں جابجا میرے اور ان میں کس کو دیکھا جا رہا ہے ...

مہک مہک ہے،  رنگ رنگ ہے 
دل تو دل ہے نا،  روشن ہے 
رنگ میں خمار کی مے ہے 
دل میں غم کے لاوے ہیں 

اے مرشد حق!  ہم جھکاتے ہیں دل کو وہاں جہاں سے یہ جواب مل جاتا ہے. یہ دائرہ کیا ہے؟  یہ نسیان کیا ہے؟  یہ حیات کیا ہے؟ میں نے پوچھا آقا سے کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ..بندگی کیا ہے ...
بندگی خاموشی و ادب ہے 
بندگی  طریقہ دین ہے 
بندگی یاد میں رہنا ہے 
بندگی غلامی ہے 

میں تو غلام رسول ہوں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
میں خاک زہرا بتول ہوں 
عشق حرم کے فسانے ہیں 
چل پھر رہے دیوانے ہیں 
نبوت کے مینارے ہیں 
عجب یہ استعارے ہیں 
کنزالایمان،  بلیغ لسان 
محمد عربی کا ہر بیان 
شمس الدجی کی تجلی 
لگ رہی ہے کوئ وحی 
آنکھ میں ہاتھ رکھا ہے 
رات میں ساتھ رکھا ہے 
روحی چشمے سارے ہیں 
وصل کو پھرتے مارے ہیں 
 اشرف ہوئے سارے ہیں 
مدین سے پھیلے فسانے 
ناپ تول کے تھے پیمانے 
چھوٹ گئے سب یارانے 
جوگی مل گئے سب پرانے

جنوں ‏کی ‏مار

جُنوں کی مار" مُلت تان" لے گئی  
کَہاں کَہاں یہ داستان لے گئی 

.... .... ..... ....... ...... ...... ......
 گُلاب کی مَہک، یہ شمع کی چمک 
 قرار کے سبھی مکان لے گئی 
ـــــــ ــــــــ ـــــــ ـــــــ ــــــ ـــــ

یہ جو گرفتگی سی  ہم پہ  طاری ہے
وہ دل تو دل، سبھی جہان لے گئی
ـــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ ـــــ ـــــ

ستم ہوا، کَرم سے دور تھے کیا؟
جو ہجر کا دیپ  لا مکان لے گئی 
ـــــ ــــــ ـــــ  ـــــ ــــــ ــــ ــــــ

وہ کیا چراغ کی فقط لُو تھی؟
حضوری کے نئےجہان لے گئی 
ــــ ـــــ ـــــ ـــــ ـــــ ــــ ــــ ـــ
دَھڑک رَہاہے حرف حرف، یہ گھَڑی 
بھی رازوں کے  کاروان لے گئی 

ـــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ ـــــ ـــــ
گِریہ چُپ ہے، پینے کو جو مے 
یہ کربلا کے  میدان لے گئی
ـــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــ

عروج ‏ذات ‏

عروجِ ذات پے کَمال جس کا ہو نَصیب
وُہ زیست کو نَہ جانے خود سے قَریب 

رکا تھا سِلسلہ،  چھوٹ جانا تھا قافلہ 
وہ گِریہ تھا کہ چیخ ملا ہے مِرا حَبیب 

غُلام رَسول، خاکِ زہرا بَتول ہُوں، تَڑپ 
جو دیکھی تو مسکرایا تھا مرا حَسیب 

حَشر میں ریگزار پر چلنا کتنا محال تھا 
چلے تو گُزر کے جاں سے مل گیا شکیب 

یہ اہلِ نظر جانتے ہیں کِسے وہ دل مانتے 
ملا حَسیں چمنِ زَہرا کا، کھل اٹھا نصیب 

مِلا عکس زہرا بَتول کا، چمن میں صَبا نے 
کھلائے گُل اور سنا سبھی نے نغمہ عندلیب

نور ایمان

نفس

انسان نفس الہام کے ساتھ پیدا ہوتا ہے. جو اس الہامیت میں ترقی کرتے ہیں وہ نبوت کے حامل ہوئے ہیں یا ولی بنتے رہے جبکہ جو  نفس ملحمہ سے امارہ کی طرف چلے. ان کے دل قفل کھا گئے ..موت سے پہلے ہمیں مستقیم صراط نصیب ہو جائے. ہماری زبان کا کلمہ ہو لا الہ الا اللہ :

انسان دنیا میں آتے ہوئے شہادت دے لاالہ الا اللہ 
انسان دنیا سے جائے کہتے ہوئے لا الہ الا اللہ 
موت پہ اجل کی آمد   . قبر میں منکر و نکیر کی آمد اس بات پہ دیتی ہے دلالت کہ  کوئ معبود نہیں سوائے اللہ کے



He asks

He asks always what is in you 
I say:  don 't know 
He says don 't recognize ur beloved 
I say:  forgotten self is mine 
Restrained in insanity

خاموش ‏دل ‏تھا ‏، ‏طوفان ‏چاہیے

خاموش دل تھا، طوفان چاہیے؟  طوفان کو کیسا میلان چاہیے؟ کیا.رب سے کوئ امکان چاہیے؟ شرم کہ کیسا سامان چاہیے؟ اے دل مٹنے کی طلب یے کہ مٹ جا اوربے رنگ ہو جا کہ بے رنگ میں کئی ملال چھپ جاتے اور جواب ظاہر ہو جاتے ہیں. اے دل فنا ہونے میں کیا مضمر یے کہ راز جان کے جان لینے سے پہلے یقین کرنے میں کیا ہے. وہ جو رگ لاھوت سے سوئے یاھو کا نغمہ ہے وہ بج رہا ہے وہ جو محو پیکان میں تھا وہ بھول گیا یاد کو کہ یاد تھی کیا وہ تو یاد نہیں تھی. وہ سندیسہ تھا جسے رب نے بھیجا تھا اور جب بھیجا تھا کہا تو کہ اسے رکھ دل میں اور عیان نہ کر ورنہ گلاب کی مہک بکھر جاتے ہیں اور جب بکھر جائے تو سو سوال ...خوشبو پر سوسوال ..جواب اک ہو تو بات ہے کہ ھو میں رہتا ہے کوئ یک ٹک سو ہے. محویت طاری ہے کہ رنگ و نور کی بارش ہے کہ جنبش مژگان سے شبنمی.قطروں سے وصال کی قیمت پوچھ ...وصال میں ملال ہے کہ چھن جانا سب اور ہجر کا سوگ دائمی کہ آ لگا لیں گلے اسکو کہ نہیں صبر کا یارا ..ہم زخم کو سینے سے لگاتے ہیً اوروہ پاس بلاتا ہے کہ کہتا ہے 
یادش بخیر!  سب بجلیاں طور کی ہیں؟ کچھ معراج میں چھپا ہے جب دل کو الہام کیا گیا تھا کچھ غلط نہ دیکھا ... بس روبرو تھا کوئ ...کون تھا؟ کون اس آئنے میں چھپا تھا؟ کس نور سے نور ملا کس کو کس کو یہ کون جانے. یہ تو رب جانے اوردل جانے ..دل دی گلاں کون جانڑے. دل دے ارماناں دی اوس نو کون مانے؟ رخ سے جو نقاب ہٹ گیا تو رک جائے گا ہاتھ اوررفتار  بڑھ جائے گی. روح کے چکروں میں وہی ہونا ہے ..کیا؟ جلوہ؟  ہاں جلوہ بھی اک ہےآنکھ بھی اک ہے ..دیکھنے والے مظہر بھی ..بس لکا چھپی کا نظام ہے اور آنکھ جانتی ہے کس کو وہ اپنا دل مانتی ہے ...اے دل چل اس سرزمین جدھر سے یہ خوشبو آتی ہے ورنہ تھم جائے گی گردش اوررک جائے گا دل اور کہے گا کہ جینے کا سلیقہ کیسے ہوگا؟  پینے کا طریقہ کیسے ہو؟

لوگ ‏بھاگ ‏رہے ‏ہیں

لوگ بھاگ رہے ہیں،  
بلکہ مانگ رہے ہیں،
کیا مانگ رہے ہیں،  
دید کی بھیک،  
ممکن نہ تھی دید آسان،
جب  حاجرہ کے چکروں کا لگنا
اسماعیل کے پا سے زم زم کا نکلنا،  
موسی کا خود شجر سے سراپا آگ بن جانا 
اللہ نور سماوات کی تمثیل تھے 
یقینا ہم نے سبھی سرداروں کو اسی برق سے نمو دی،  یہ شہ رگ سے قلبی رشتہ تھا ... .
جس پہ مقرر اک فرشتہ تھا.   
جس نے جان کنی کا عالم دو عالم میں سمو دیا،  
یہ عالم موت تھا،  یا عالم ھُو تھا 
دونوں عالمین کے رب کی کرسی نے الحی القیوم کے زینے دکھائے،  
باقی وہی ہے،  فانی تھا کیا؟
یقینا فانی کچھ نہیں،  
مٹی تو اک کھیل ہے،  
روح کے ٹکروں کا کٹھ پتلی بننا تھا 
قالو بلی کا آواز کن کے آوازے سے پہلے،  
تخلیق آدم اور اسماء کا القا ء 
ذات کی تجلی،  صفات کی تجلیات 
دونوں آدم کو مل گئیں اور  شیطین کو کہا،  
ساجد ہو جا،  سجدہ میرا تھا،  قضا کرکے،  منصف بنا؟  
نہیں،  خطا تو آدم نے کی تھی،  آدم کی توبہ اور شیطین کا تکبر،  در سے در ملنا،  بند ہونا،  قفل لگنا،  
یہی لوگ شرالدواب ہیں،  
صم بکم عمی کے تالے ہیں ان کے دل میں،  
ہم نے بدترین کو کیسے کھڑا کیا،  اپنے سامنے کہ للکارے ہمیں اور ہم نے کیسے اسکو اُس تماشے کے پیچھے رسوا کردیا، جس کا آخر زیاں تھا، جس کی ابتدا بھی زیاں ..... افسوس شیطین نے زیانی کا سودا کیا اور آدم کو ہم نے نور نبوت کے فیض سے نوازا،  
پہلے عارف کی معرفت محمد صلی اللہ  علیہ والہ وسلم پہ مکمل ہوئ،
یہی توبہ کی مقبولیت کا وقت تھا،  
حوا کی زمین سے کیسے کیسے عارف نکالے،  
آدم کی پشت میں،  کتنے پیامبر تھے،  جن کو حوا نے دیکھا،  .
آدم کو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جد ہونے پہ فخر ہوا،  یہی ہمارے حکمت ہے کہ کسی کو کم،  کسی کو زیادہ سے نوازتے ہیں!  
اے وہ ذات،  آگ لگی ہے!
اے وہ ذات، جس نے مجھے چراغوں سے تبسم دیا،  
اے وہ ذات،  جس نے روشنی سے تیرگی کا فرق دیا 
اے وہ ذات،  مقصد کیا تھا میرا؟  
سلسلہ ء ہدایت کے واسطے، میں تو خود ہدایت کی متمنی،  میں تو خود اوج معرفت کی خواہش مند ...
اے دل،  دل کے واسطے کائنات ہے،
دل، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  اس دل کے  کتنے حصے پھیلے؟  
جتنے حجاز مقدس کے گگن سے رشتے تھے،  
جتنے کربل کے  شاہ نجف سے رشتے تھے،  
جتنے لاھوتی کے ملکوتی سے سلسلے،  
جتنے عجائبات کا،  عالم سے سلسلے،  
رابطے ہوتے ہیں،  نور کے نور نبوت صلی اللہ.علیہ والہ وسلم ہے،  جس کو ملے ہدایت،  اسکو ملتی ہے اس نور تک رسائ 

اے وہ ذات، کہیں میں گستاخ تو نَہیں؟  
اے وہ ذات ....، یہ سب جو سن رہی ہوں،  یہ نیا نیا ہے،  گویا کہ احساس ء حمد پہلے سے تھا،  القابض ...یقینا تو مری جان کو ابھی قبض کرنے پر قادر ہے تو قلم کردے سر میرا،  اٹھے تو کٹے،  جھکے تو جھکا رہے کہ یہ بارگاہ نبوت کا کاشانہ ہے،  ان گنت درود عالی مرتبت سرکار دو عالم پر،  

تری دید مقرر ہے،  
تو سعید ہے!  
ہم تری سعادت پر خوش ہیں!  
یقینا ہم جسے چنتے ہیں،  وہ اسی کے قابل ہوتا ہے ..

دعا


انسان کسی بات کے لیے اپنی سی کوشش کرتا ہے میں نے بھی کوشش کی  ۔۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ  دل کو چھڑاؤں، ضبط کا دامن تار تار نہ ہو،  میں نے کوشش کی شیشہ دل پر لگی ٹھیس عیاں نہ ہو مگر افسوس ! میں نے کوشش ہستی کا دھواں رواں رواں نہ دے، میں نے کوشش کی وحشت کو پنجرے میں ڈال دوں،  میں نے کوشش کی خود کو خود سے نکال دوں،  میں نے کوشش کی درد کی چادر اوڑھ لوں، میں نے کوشش کی آگاہوں  کو آگاہی دوں، میں نے کوشش کی جسم کے سیال کو ابال دوں،  میری ہر کوشش رائیگاں ہوئی. 

میرے دعا،  مجسم دعا بنا وجود نہ سنا گیا،  نہ دیکھا گیا، نہ محسوس کیا گیا،  میری جبین نے سر ٹیک دیا اور در محبوب کا تھام لیا۔۔۔! اس کو جائے نماز کی طرح سنبھال کے نماز عشق کے سجدے کیے مگر جواب ندارد! کیا کیا  ہے میرے دل میں،  میں برس ہا برس سے پُکار رہی ہوں،  کیوں ایسا ہے دعا کو ٹال دیا جاتا ہے؟  کیوں رستہ بھی جمود کا شکار ہوتا ہے کیوں ایسا ہے بارش نہیں ہوتی، کیوں ایسا گھٹن کا سامنا ہوتا ہے کیوں ایسا آسمان کی جانب  حیرت بھی خاموش ہے!  کیوں ایسا ہے کہ قرب کا جاواداں شربت پلایا نہیں جاتا!  وہ  دل. میں بھی ،سینے  میں بھی، قلب میں  بھی!  زمین سورج.چاند سب ادھر!  مگر سنتا کیوں نہیں!  کون تڑپ دیکھتا ہے؟  جو پیارا ہوتا ہے اس کو اٹھا لیا جاتا ہے... وہ مجھے پاس نہیں بلاتا نہ کہیں سے اذن میرے رنگوں کو نور ذات کو  سرور دیتا ہے! 

 یہ دنیا ہماری ٹھوکر پہ پلی  ہے ہمیں دنیا نہیں.چاہیے ہمیں اپنا پیارا  درکار ہے!  پیارا جو ہمیں نہال ایسا کر دے کہ سالوں سرر نہ بھولے سالوں کیف کی منازل ہوں...ہمیں اس سے غرض ... وہ جانتا ہے وجود سارا مجسم دعا ہے دل میں اس کی  وفا ہے .... یہ یونہی درد سے نوازا نہیں جاتا جب بڑھتا ہے دوا مل جاتی!  اک درد وہ ہوتا ہے جو وصل کا تحفہ ہوتا ہے وجود ہچکی بن جاتا ہے، دل طوفان کا مسکن،  آنکھ ولایت کی شناخت ہوجاتی ہے مگر اک درد وہ ہے جس سے شمع نہ گھلتی ہے نہ جلتی ہے اس کا وجود فضا میں معلق ہوجاتا یے. ..... 

نہ رکوع،  نہ سجود،  نہ شہود ... ذات میں ہوتا وقوف ..اس پہ کیا موقوف کائنات جھولی ہوجائے ہر آنکھ سوالی رہے... اس پر کیا موقوف دل جلتا رہے، خاکستر ہوجائے مگر مزید آگ جلا دی جائے ...

.

جب آگ جلائ جاتی ہے تو وہ سرزمین طور ہوتی ہے تب نہ عصا حرکت کرتا ہے نہ شجر موجود ہوتا ہے!  عصا بھی وہ خود ہے اور شجر بھی وہ خود ہے!  یہ شجر انسان کا پھل و ثمر ہے جسے ہم عنایت کرتے ہیں ...زمین جب کھکھکناتی مٹی کی مانند ہوجاتی ہے تب اس کی سختی نور َالہی برداشت کر سکتی ہے ... یہ ہجرت کا شور مچاتی رہتی ہے مگر علم کا تحفہ پاتی ہے ... اس کا اسلوب نمایاں شان لیے ہوتا ہے... مٹی!  مٹی کے پتے ڈھلتی کتِاب ہیں ..

یہ.پانی کی موجوں کا.ابال ...یہ رحمت کی شیریں مثال ...یہ.بے حال.ہوتا ہوا حال ...کیا.ہو مست کی مثال.

.یہ کملی.شانے پہ ڈال ...اٹھے زمانے کے سوال ..چلے گی رحمت کی برسات ... مٹے گا پانی.در بحر جلال ... طغیانی سے موج کو ملے گا کمال ..یہ ترجمانی،  یہ احساس،  تیرا قفس،  تیرا نفس،  تیری چال،  تیرا حال ... سب میری عنایات ...تو کون؟  تیری ذات کیا؟  تیرا سب کچھ میرا ہے!  یہ حسن و جمال کی.باتیں، وہم.و گمان سے بعید.رہیں ...یہ داستان حیرت ... اے نفس!  تیری مثال اس شمع کی سی ہے جس کے گرد پروانے جلتے ہیں جب ان کے پر جلا دیے جاتے ہیں تب ان کو طاقتِ پرواز دی جاتی!  اٹھو دیوانو!  تاب ہے تو جلوہ کرو!  مرنے کے بعد ہمت والے کون؟  جو ہمت والے سر زمین طوی پہ چلتے ہیں،  وہ من و سلوی کے منتظر نہیں ہوتے ہیں وہ نشانی سے پہلے آیت بن جاتے ہیں ..آیتوں کو آیتوں سے ملانے کی دیر ہوتی ہے ساری ذات کھل جاتی ہے!  سارے بھرم حجاب سے ہیں یہی حجاب اضطراب ہے!  نشان ڈھونڈو!  غور و فکر سے ڈھونڈو!  تاکہ نشانیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچتے تم اک تمثیل بن جاؤ!  " لا " کی عملی.تفسیر جا میں الا الہ کہ تار سے کھینچے جاؤں گا ... یہ تیری دوڑ جتنا مضبوط یوگی اتنی حدبندیاں کھلیں گے،  اتنے ہی مشاہدات ہوں گے،  سر زمین طوی بھی اک ایسے جا ہے جہاں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں... یہ جو سر سبز پہاڑ کے جلوے ہیں ان میں عیان کون ہے؟  جو کھول کھول میری آیتوں کو پڑھیں،  ان.پہ کرم.کی دیر کیسی،  یہ تسلسل کے وقفے ضروری ہیں ...یہ محبت کے سر چمشے پھوڑتے ہیں...جتنی حبس ہوگی اتنا ہی پہاڑ ٹوٹتے ہیں!  زمین سے چشمے نکلتے ہیں ... زمینیں سیراب ہوتی ہیں .. درد کو نعمت جان کر احسان مان کر  پہچان کر نعمتوں کے ذکر میں مشغول دہ .... 

خاک کی قسمت!  کیا ہے؟  دھول.ہونا! یہ پاؤں میں رولی جاتی ہے ... جبھی اس کے اصل عکس نکلتا.ہے!                        

 اس نے جانا نہیں یہ درد کا تحفہ کس کس کو دیا جاتا ہے!  جو نور عزیز ہے،  جو کرم کی چادر سے رحمت کے نور میں چھپایا گیا ہے!  تیرا ساتھ کملی والے کے ساتھ ہے،  کمال ہم نے درِ حسین علیہ سلام پہ لکھا ہے،  حال فاطمہ علیہ سلام کے در پر ....  

ہوا سے کہو سنے!  سنے میرا حال!  اتنی جلدی نہ جائے!  کہیں اس کے جانے سے پہلے سانس نہ تھم جائے!  سنو صبا!  سنو اے جھونکوں ..سنو!  اے پیکر ایزدی کا نورِ مثال ... سنو ... کچا گھڑا تو ٹوٹ جاتا ہے،  کچے گھڑے سے نہ ملایو ہمیں،  ہم نے نہریں کھودیں ہیں،  محبوب کی تلاش میں،  ہمارا وجود ندی ہی رہا تب سے ِاب تک!  نہ وسعت،  نہ رحمت کا  ابر نہ کشادگی کا سامان،  لینے کو بیقرار زمین کو کئ بادل چاہیے .... تشنگی سوا کردے!  تاکہ راکھ کی راکھ ہوا کے ساتھ ضم ہوجائے،  وصالِ صنم حقیقت یے دنیا فسانہ ہے!  ہم تیرے پیچھے پیچھے چلتے خود پیغام دیتے ہیں ... ہمارا سندیسہ پہنچ جائے بس ...  قاصد کے قصد میں عشق،  عاشق کے قلب  میں عشق،  زاہد نے کیا پانا عشق،  میخانے کے مئے میں ہے عشق .... اسرار،  حیرت کی بات میں الجھ کے بات نہ ضائع کر جبکہ اسرار خود اک حقیقت ہے ... ستم نے کیا کہنا تجھے،  ستم تو کرم یے،  بس سوچ،  سوچ،  سوچ کے بتا کہ بن دیکھے جاننے والا کون ہے؟  اسماء الحسنی کو اپنانے والا کون ہے؟ صدائے ھو کو اٹھانے والا کون .. شمع حزن در نبی ہے!  یہ وہاں کہیں پڑی ہے،  دل کی  حالت کڑی یے ..  

حق ھو !  حق ھو!  حق ھو!  یہ حسن کے پھیلاؤ کی ترکیب جان،  راز ہیئت سے جان پہچان کر،  جاننے والے در حقیقت پہچان جاتے ہیں منازل عشق کی منتہی کیا ہے کہ ابتدا کو قرار کن کی صدا دیتی ہے، موت کو قرار اک اور صدائے کن دیتی ہے ..یہ بین بین وقت ہے،  ہماری حکمت ہے!  یہ زمانہ ہے،  یہ وقت ہے جب پہچان کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے،  یہ خسارہ جو زمانے نے اوڑھ رکھا ہے اس کی اوڑھنی پہ قربانی کے ستارے جب چمکتے ہیں تو ماہتاب جنم لیتے ہیں ..انہی ماہِ تاباں میں سے کوئ اک آفتاب ہوتے ہیں!  حق موجود!  تو موجود!  حق موجود!  وہ موجود!  حق اللہ!  حق باقی!  حق،  کافی،  حق،  شافی ...حق ھو حق ھو                      

صدائے ‏امام ‏عالی ‏حسین ‏

آواز کا کردار بُہت اہم ہے ، اس نے کہیں دو دلوں کو ملایا ہے تو کہیں  اسی آواز کی بدولت  ایسی تباہیاں مچائی گئیں ہیں کہ دل  لرزتے لزرتے سہم سے جاتے ہیں جبکہ کہیں پر یہ تھم بھی جاتے ہیں، دل تھم گیا تو بندہ گیا. ... آواز کو اگر صدا سے معتبر کردیا جائے تو صدیاں یک بیک اک زمانہ بن جاتی ہیں اور کہیں  پے زمانہ پلٹ کے پیچھے چلنے لگتا تو کبھی مستقبل کی اڑان بھرنے لگتا ہے. نغمہ ء گُل ہو کہ آہو،  دونوں (صدا اور آواز)  بصورتِ راگ،  بہ آہنگ ساز باہم ہوں تو قیامت دلوں پر نزول  ہوجاتی ہےـ تان سین کے بارے میں سُنا تھا کہ راگ میں جادوئی، سحر کی بدولت پانی آگ ہوتا جاتا!  تو سوچیے دلوں کا کیا حال ہوتا  ہوگا؟ یہ تو گائیک نے گایا سر و تال پر کہ حاضرین تو حاضرین، پتا، پتا، بوٹا، بوٹا جھوم اٹھا ...

آواز اور صدا کا چولی دامن کا ساتھ ہے ـ کچھ احبابِ وقار اک کو سرائیت کرنے والی شے تو دوجی کو سرائیت شدہ سے معتبر کرتے ہیں. صدا نگوڑی سدا کی خاموش , سر نہواڑے اپنے نہ ہونے کا احساس دلانے کی ایسی ناکام کوشش کرتی ہے کہ بسااوقات بات شات تو بھول جائے مگر شور ان صداؤں کا بھول نہ پائے  گا کوئی.  یہ صدا جذبات سے ابھرتے من مندر میں رقص کراتی بھلادیتی ہے کہ مذہب کیا، ذات کیا اور اوقات کیا ـ جب صدا اک نقطے پر مرکوز ہوجائے تو دھیانِ عشق پیدا ہوتا ہے 

"مجھے اسکو پانے کی لگن ہے، جو مرا ہے ہی نہیں مگر دل مضطر سوچتا فقط اسی کو ہے!  " 

"میرا فن لاجواب!  باکمال ایسا کہ جس  جس نے  یہ شاہکار دیکھے، زلیخا کی جیسے انگلیاں دابے عش عش کرنے لگا، بس ہاتھ کٹنے کی کسر ہے کوئی  "حاش للہ" کہے اور  ہو حسن کا رعب طاری ..... "

"لفظوں کی صدا نکلتے ہی دل سے  تال میل ہوجاتے ہی  کہ دل دیوانہ، پگلا تصویر میں لکا چھپی کے مناظر دیکھتا تو کہیں کردار ہنستے بولتے دکھتے ہیں ...!  بس  یہ لفظ! ہائے، ان  کی صدا نے مار ڈالا،  چیر ڈالا!  "

"صدا من موجی اور آواز شعور کی بیساکھی، دونوں کا میل کاہے کا مگر لوگ آواز سنتے اور صدا چھپا لیتے... "

تمہیدِ گفتگو صدائے حسین، امام عالی پر مقام، ذی وقار، سلامتی و درود بھیجا گیا بار دگر ہر روح نے، یہ صدا نومولود بچے کی طرح مرے من میں پلتی بڑھتی رہی ہے اور جیتے جاگتے وجود کی مانند تشنہ بہ لب، جان کنی کے نئے عالم متعارف کراتی ہے گویا کہ شب و روز کی بیتی کا استعارہ صدائے حسین رضی تعالی عنہ ہے کہ یگانہ صدا، ریاکار دل میں گونجتی ہے تو نالہ ء بلبل کا سننے کو جذبات پہاڑ کاٹ کے دودھ کی نہریں جاری کرتے تلخ و آب زمین کو سیراب کیے دیتے ہیں.  پوچھیے!  جی مجھ سے کہ صدائے حسین تواتر سے دلوں میں گونجے تو ہر روز شب عاشورہ ہوجائے،  نوک سناں دل جھکے، ساجد ہر جا تسبیح کرتا ریگزار  کو دریا کرتے رہے.  میں اس زمین پے ہونے والے بے انتہا کرم پر خوش اور اپنی کوتاہی پر نالاں ہوں کہ مری آواز مرے کردار میں دب جاتی ہے تب بھی صدا باقی رہتی ہے کہ کردار عالی مقام اتنا بلند ہے کہ مجھ پست کو افلاک چیر کے دیکھنا امر لامحال ہے. پھر بھی دیکھیے دل ناداں نے ان کو یاد کرنے کے لیے دو تین آنسو بہا دئے ہوں کہ گویا دشت میں سحاب  چھٹ گئے ہوں. اپنی عزلت کو روتا یہ زمانہ دیکھے تو سہی کہ کیسے امام نے کس ہمت سے مصائب زمن کو سینے پر سہا اور آہ بھی نہ کی بلکہ عبدیت کا حق ادا کیا. آج یہ جہاں صف بہ صف امام کی صدائے غائبانہ کے پیچھے نماز عشق ادا کرتا اس اصول کی توضیح کرتا ہے کہ جب اللہ کی صدا سے اپنے من کی صدا کو اجاگر کیا جائے تو یہ زمانوں پر محیط بحر بیکراں کی مانند دلوں میں ہلکورے لیتی عشق کی اذانیں دیتی ہے

احساس ‏،خیال ‏دعا

رات کے لباس کو چاندنی نے تار تار کررکھا تھا . حسن گویا چہار سو بکھر کے اُجالا سے مدغم،  احساس نے پہاڑ تراش دیے تھے، جذبات کے سمندر میں نیلگوں روشنی تھی اور افق پر چاندنی کی کرنیں وجود مطہر کے لباسِ سفید کو نمایاں کررہی تھیں . سفید لباس میں جائے نماز پر بیٹھا وجود، جس کے چار ست اندھیرے روشنی لینے کو ترسے ہوئے تھے،  وہ صورتِِ ضیاء، عکسِ حیا ہچکیاں لیے، آنکھ تر بہ تر،  ہاتھ اٹھائے دعا مانگ رہی تھی.  وجود ہچکیوں کی جنبش سے ہلتا تو زمین کو زلزلے آنے لگتے مگر نازاں کہ رخسارِ اطہر سے معطر اشک خاک پر گرتے فخر ملائک کیے دے رہے تھے!  اشکوں میں زار زار وجود اور شبِ قدر کی رات!  وہ اک کچا سا مکان تھا جس کی زمین بھی مٹی کی تھی مگر کچی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نے گویا ذی نفسِ احساس کے نتھنے معطر کردیے تھے.  کبھی ہاتھ دل کے پاس رکھتے سکون کو محسوس کرتا وہ نفس رشکِ فلک اور کبھی فلک پر نظریں جماتا رشکِ کروبیان!  روح الامین اس نوری وجود کو دیکھ کے مسحور اور بیقرار کہ تشریف لاتے یہ بتاتے:  خدا نے آپ کی دعا قبول فرما لی،  امت محمدی کو گویا اشکوں سے خیرات مل گئی تھی.

جب نومولود بچہ پیدا ہوتا ہے تو فطرت میں اس کو محبت کو وہ تار دے دیا گیا جس کا سرا اس نفس مطہر کے پاس ہے اور جب احساس اشکوں کی صورت وجودِ روح کو جھنجھوڑتا ہے تو درود بصورت نذرانہ ادا ہونے لگتا ہے.  یہ اس دعا کی صورت ہمیں احساس درود سے نواز دیا گیا. ہمیں بتایا گیا کہ وہ قربان ہونے والی ہستی صدیوں سے ہم پر فریقتہ ہے اور ماں جیسی مامتا لیے ہمارے دکھوں کو اپنی رحمت کی کملی میں چھپانے کو بیتاب ہے مگر ایک بار اس احساس کو دل میں نمو ہونے دیں 

یہ احساس شعوری نہیں بلکہ لا شعوری ہے. روح کی بے چینی،  بیقراری اسی وجہ سے ہے کہ تصور کی رعنائی میں اس خیال کو لائیں،  جس خیال میں وہ مطہر وجود رہا؛  تمام امت کے اک اک فرد کو ذہن نشین کرتے بہ دعا مانگتا رہا خدا سے.  ہمارا خیال کو اس خیال تک پہنچنے کی دیر ہے اور دعا تو خالق نے قبول کرلی ہے. یہ امت سند یافتہ ہے!  ذرا نم ہو تو اس مٹی میں گوہر آبدار ہے!

تخلیہ

تخلیہ ... 
میرے ہونے کا تخلیہ 
دے رہا ہے جنم مجھے 
میں کون ہوں؟
یہ کون دل کے شیش محل میں ہے؟
یہ کس تیر نے آر پار کیا؟
ہاں!
تخلیہ!
اس سے پہلے کے راز فاش ہو جائے 
اس سے پہلے تو گھات میں آئے نہ خود کے 
مجھے میرے ہونے کا اذن ملا 
اب تخلیہ 
ہاں ...
تخلیہ ..

اک ‏نعت ‏وہ ‏ہے ‏

اک نعت وہ ہے جو وجد ہے 
اک نعت وہ ہے جو مہک ہے 
اک نعت وہ ہے جو وصل ہے 
اک نعت وہ ہے جو رات ہے 
اک نعت وہ ہے جو بات ہے 
اک نعت وہ ہے جو ساتھ ہے 
اک ذات وہ ہے جو ساتھ ہے 
جو وہ ساتھ ہے تو نعت بنی 
جو نعت بنی تو رات بنی ہے 
رات میں بات،  بات سے بات 
یہ ملاقات ہے، یہ بہاراں ہے 
نعت کا وصف، عمل عین.ہے 
نعت کا وصف،  حب عین ہے 
نعت کا وصف،  جذبِ دل یے 
نعت کیا ہے؟  نعت تعریف یے 
نعت سے بات،  بات سے رات 
رات نے پائی ہے رات کی سوغات 
کر مناجات،  مناجات پسِ ذات 
پسِ ذات؟  ہان عین ذات ہے 
یہ لا عین ہے یا عین لا ہے؟  
یہ عین و لا کا کھیل کیا ہے؟  
کھیل نہیں ہے. 
ہاں یہ ضرب عین و لا کیا ہے؟  
الا اللہ کی ضرب سے نعت ہوتی ہے 
ضرب حق!  ید اللہ ہے 
بانگ مرغ ہے کہ وجدِ آفرینی 
ترنگ میں مگن کوئی ذات یے 
یہ نہ اوقات تھی پر کیا بات ہے 
یہ سوغات ملے جسے عین بات یے 
کمال کا تحفہ کہ لا منات سے لاحاجات سے ہوا سلسلہ 
سلسلہ بنا کیا؟  
ہاں بنتا یے 
سلسلہ تو عین شہود ہے 
پس عکس رقص یے 
دیوانہ کوئے یار جاتا یے 
دیوانہ کو علم نہیں رستہ 
دیوانہ محتاج کسی کا ہوگا؟
لا حاجات سے بات بنی 
لا سے عین شروع ہوا 
العشقُ عین 
العشقُ حب من 
الذات بالذات 
الذات رقصِ اظہارات 
پسِ دل طور کی بات ہے 
سر آئنہ میں ہوں؟  پس آئنہ کون یے؟

دیوانے کی لو لگی ہے 
شناسا جانے کہ ہوگا کیا؟  
شناسائی کا لطف پوچھنے سے ملے گیا کیا 
ربط ذات میں مناجات لا 
ربط ذات میں لا حاجات لا 
تو رک جا!  ساکت ہو جا 
ذات کو اظہار میں لا 
تو لا ہو جا ...عین الا اللہ ہو جا 
رقص بسمل پسِ مناجات ہے 
یہ دل کی بات ہے رمز شناس یے 
قبلہ یے قبلے میں سجدے کی بات ہے 
قسم اس کعبہ کی 
العشق ذات من 
الحب ذات من 
الذات بالذات 
تدراک نہ ہوگا 
رنگ نی ہوگا 
رنگ مگر ہوگا 
جدا نہ ہوگا 
مگر وصل نہ ہوگا 
کمال نہ ہوگا مگر اس میں کمال.ہوگا

رجب سے شاد ہے 
یہ ناشاد دل کب سے برباد ہے؟
نہیں!  نہیں!  
یہ ذات ہے 
یہ وہ عین ذات ہے 
جس کی بات سے چلی بات ہے 
نہ تھی اوقات مگر کیا بات ہے 
سلسلہ ءنور ہے کہ روشنی ہے 
روشنی ہے کہ ماہ و سال ہیں 
ماہ سال سے پرے اک نظام یے 
نظام سے پرے اک کائنات یے 
کائنات میں تمام عالمین ہیں 
عالمین کے رب کی بات یے 
الحمد للہ رب العالمین 
الرجب !  ہاں رجب!  
ذکر شاد!  ہاں ذکر افکار سے ہوا 
ہاں یہ عین بات سے ہوا 
یہ منادی یے کہ کسی نے کہا 
العکس بات من 
العشق ذات من 
رقص بسمل میں چھپا کیا ہے 
تماشائے ذات سر بازار رکھا ہے 
اس میں کمال نہیں ہے مگر کمال کی رمز ہے 
وہ جو عالمین سے ہے 
وہ دل میں دلوں کو پکڑلیتا ہے 
وہ قلب سے قلوب میں جھانک لیتا ہے 
وہ نظر میں رکھتا ہے 
نظر منظر،  نظر زاویہ 
نظر حاشیہ،  نظر مستور 
نظر اول نظر آخر 
نظر دائرہ، نظر نقطہ 
نظر اک سفر ہے 
سفر کب سے ہے 
سفر میں اک خبر ہے 
خبر میں کیا بات ہے



نعت ‏

نعت کہنے کے لیے کیا چاہیے؟
نعت کہنے کو حرف دل چاہیے

نعت سرکار کی، کہوں میں 
در یار جا کے کیا کہوں میں؟  
ان کو کہہ دوں دید کب ہوگی؟
ان کو کہہ دوں عید کب ہوگی؟

صورتِ آفتاب، نگہ ماہتاب ہیں  طٰہ 
دل کی کتاب میں گلاب صورتِ طٰہ

کہہ دوں گی مائل کرم ہو مجھ پر 
دم بہ دم نگہ ناز ہو جائے مجھ پر
واہ واہ واہ 
کیا کہا؟ محشر کی بات کی 
دل دیکھیے بپا اک حشر ہے 
ہجر کا غم نینوں نے سہا ہے 
آئنے کی چاہت میں مبتلا یے


جلوہ بہ تیر دل فگن ہے.
دل پر مائل اک گگن ہے 
چار سو دکھے  سجن ہے 
رونق میں یہ دل مگن ہے

شمع افلاک سے، دل قندیل 
کس طرز سے اترے جبرئیل 
قرأت میں افکار کی ہے دلیل 
افکار میں مل جاتا رب جلیل


سینہ مبارک مانند انجیل 
طٰہ ہیں روشنی کے سرخیل


جذبات گم ہیں کائنات میں 
ہاتھ رکھ، ہے دل افلاک میں

رانجھن یار نہ دسدا کوئی 
سوہنے سرکار جیہا نہ کوئی

ھذ ‏العشق ‏؟ ‏ھذا ‏سید ‏من ‏؟

ھذا عشق!  ھذا سیدِ من 
یہ وہ غبار ہے جو تہہِ دل سے اٹھا ہے دل کے جبل میں انواز نے مجھے دیکھ لیا ہے. اجمال سے محو ہوگیا ہے پتھر اور مشہود میری روح ہے. روح پتھر کو سجدہ کرنے لگی. پتھر نے سجدہ کیا ہے اور کہا ہے 
ھذا عشق!  ھذا سید من 
جمال شیدا طلب سے ماوراء ہے 
کمال کا طالب دل میں گم ہوا ہے 
یہ میرے حاصل کا انتساب ہے 
میں گم کس کے ملال میں ہوں؟
یہ کیسا مجھ میں اترا جلال ہے؟
ھذا عشق! ھذا سید من

وفا کی دیوی نے مجھے بُلایا ہے قربانی کو. سر قلم کردیا گیا. میں نے کہا 
شوق آ ... شوق آ ... شوق آ 
مجھے طلب ہے دل میں موت ہوجائے. دل میں قبائے ہاشمی کی صدا نے دل میں اک الوہی سی کشش پیدا کررکھی ہے 
ھذا مرشد من 
العشق مرشد من 
حی علی العشق 
حی علی خیر العمل

یہ خیر عمل ہے جو بخیر ہوا ہے. قرب کی نہیں تمنا. جمال کی تلاش نہیں بس اک کرسی ہے ھو کی. جس نے مجھ میں قرار پکڑا ہے اور کہہ رہی 
ھذ علی العشق!  العشق من! میں نے ہبہ کیا عشق تجھ کو 
میں نے کہا بندگی بندگی بندگی

ملی بندگی. یہ تابندگی. یہ رقص قلم کے شرار جس کی حرارت نے مجھے وحدت میں مبتلا کردیا ہے وفا کا تقاضا ہے نا خون بہتا آنکھوں سے دیکھوں؟
میں بہہ گئی ہوں ... خون کیا ہے 
خون نے کہا 
ھو العشق ھو العشق ھو العشق


مزاج میں بندگی نے مٹا دیا ہے. عدم سے لایا گیا ہے. معدوم وجودیت میں نفس ہے. بقا کس کو ہے؟ اللہ کی ذات کو بقا ہے. سب میں اک ھو ہے جس کو ہم نے دیکھا نہیں ہے


وہ تلاش کرنے والے فارس سے نکلے! کیسی چمک و آب و تاب سے شام سے نکلے وہ مہِ خورشید!  رشک قمر!  اوج ِ ثریا پر مکین!  وہ ستارہ سحری سے طٰہ کا اجالا!  وہ کملی والا ... کملی بھی ہے استعارہ ..وجود کا پارہ پارہ کہہ رہا ہے 
ھو الہادی من!  وہ کون ہے 
العشق ہادی من 
درد جگر میں نہاں تیر میں جلوہ طٰہ کا ہے 
دل میں اسم طٰہ کی تجلی ہے کہ چمک نے مجھ کو محجوب کردیا ہے بس اک ذات ہے کہ وہ ذات ہے آئنہ ... 
کس سے پوچھو کہ اللہ کہاں ہے 
اللہ دل میں ہے. دل خالی ہے دل کو جب اللہ مل جائے تو دامن بھر جاتے ہیں اود اپنی نہیں ہوتی بس اس کی کرنی ہوتی ہے. میں نے ہادی من کو دیکھا ہے کہا ہے 
سچل مرشد قبلہ نما 
قطب من ہادی من 
دل کی وادی میں شہ بطحا کے اجالے 
دل کی راجدھانی کے شاہ ہیں اور شاہ کے آگے سر تسلیم خم
      
خمیدہ زلف کو ذرا دیکھ اود ڈوب جا. گیسوئے مصطفی سے جو ملے خوشبو. اس سے مانگ اک آرزو. کہ بس یہ رہے سدا اور صدا رہے سدا کہ آپ ہیں اور میں نہیں ہوں حضور. 


وہ آرزو کہ رخ سے حجاب اٹھے اود دل سے سحاب اترے. ابررحمت بارسے. ایسی برسے کہ برکھا رت کے قطرے قطرے میں شاہد ہو . لہو زنجیر ہو کہ دل فقیر ہو دیکھے شاہ کے جلوے دم بہ دم. ان کے حضور کس منہ سے جاؤ گے؟  وہ کہتے ہیں ہمیں بندگی!  بندگی!  بندگی!  بندگی میں گزر جائے زندگی. اود چاہیے کیا کہ ان کے رخ مہ تاب سے اک آنکھ سے دوسری آنکھ کی روشنی دیکھی ہے وہ روشنی ہے کہ ہائے دل بیٹھا جائے ان کا مسکرانا ہے دل ڈوب جانا ہے کہ وہ پیار کے تقرب کی محفل ہے. اس میں ہے دستخط مہر رسالت سے ...ہم جان گئے حضور کہ آپ نے کیا ہم کو قبول. دل پر رقت لگے گی ضرود کہ وہ پیارے ہمارے ہیں شہ ہادی شہ ولایت

یار من دل کے سیپ دیکھ 
یار من موجہ دل کو دیکھ 
یار من تیغ فغاں کو دیکھ 
یار من تیغ نہاں کو دیکھ 
موتی لا 
موتی ڈھونڈ 
سیپ کھوج

یار من نے چھپا لیا ہے موتی 
ڈھونڈن چلی میں اس نوں 
لکا چھپی کی رسم ہے پرانی 
یہ کہانی ہے ازلوں کی نمانی 
شبد شبد کی داستان نرالی 
عجب مرا دل 
عجب مرا حال 
عجب دنیا ہے. 
یہ موج طفر ہے 
دل کدھر ہے؟  
دھیان میں گئے 
دھیان نہ رہا 
دھیان میں نہیں میں 
دھیان میں کون یے 
یہ محور رسول ہاشمی نقطہ 
متوف ہے اک عجب سالار 
یہ دل میرا ہوگیا ہے بیمار 
کس سے کہوں مرض لاعلاج 
دل کو ڈھونڈو اب کوئ علاج


اللہ اللہ کہنے سے میرا دل ڈوب گیا 
ڈوب کے جانے والو سنو 
یہ افسانہ رنگین ہے 
ہر رنگ کی داستان عجب یے 
دل میں شاہی نقب ہے 
شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ شاہ 
.شاہ ولی شاہ ہادی شاہ ولایت


ابھی رنگ ہے ابھی وہ ساتھ ہے ابھی وہ پاس ہے ابھی اس نے بلایا ہے 

جس نے بلایا ہے اس سے پوچھو دل کے افسانے یہ فسانے مٹا رہے مجھے 
فنا کیا ہے؟
عشق فدا ہے مجھ پر 
میں عشق ہوں.
 میں نہیں تو 
ھو الشاہد ھو الشہید 
درمیان میں کون ہے؟
نفس یے 
اے نفس دھیان سے نکل 
اے روح میان میں رہ
اے موج تو آب بہ آب دُر پاتی جا


موج نے موج سے پوچھا کہ ساحل نے مجھ سے سنا نہیں فسانہ 
ساحل نے کہا 
چل داستان عشق نہ سنا 
میں خرابہ ء عشق سے پر ہوں 
موج بہ موج بحر میں ہوں 
میں تو خود کسی دہر میں ہوں 
دھیمی رفتار پر آنچ ہے.. یہ قرار پکڑ چکی ہے آگ. جانے وہ کونسی آگ ہے جس نے بحر کو آگ میں ڈال دیا. بحر کی آگ دیکھے کون.
پانی آگ 
آگ پانی 
یہ آگ پانی سے نکل جا 
ماٹی کا پنجرہ عجب ہے 
ماٹی کا پنجرہ نفس ہے 
نفس میرا مجھ میں قفس ہے 
روح میری فضائے دوستاں میں یے

جناب عالی نے مجھ کو بلایا پوچھا اور کہا 
یہ ستار ترا ہے؟
یہ صدا تری ہے؟
یہ قبا تری ہے!
کیا ہے ترا 

لٹو بن گئی میری روح میں لٹو. رقص نے دیوانہ کردیا مجھے دیوانہ کیا جانے چال الٹی ہے یا سیدھی

اب میں نہیں خود میں وہ خود مجھ میں 
جو خود ہے تو پڑھا جاتا ہے خود کو 
ذات کو پڑھ!
ذات صحیفہ یے 
ذات کو پڑھ 
ذات سے عشق 
 ھذا عشق؟
العش حب من 
العشاب میں نہیں خود میں وہ خود مجھ میں 
جو خود ہے تو پڑھا جاتا ہے خود کو 
ذات کو پڑھ!
ذات صحیفہ یے 
ذات کو پڑھ 
ذات سے عشق 
 ھذا عشق؟
العشق حب من 
العش دیار من دیار من


سنو عشاق! عشق آسان نہیں ہے. یہ پل صراط ہے جس پر چل کے جانا ہے پنجوں کے بل. یہ چلن زمانے کا کہ دیکھو پل صراط دنیا ہے ہم دوذخ سے اترنا ڈھونڈ رہے جنت کی وادی میں گھوم رہے. دنیا میں رہنا ہے متقی ہے .. یہ دنیا کس کی ہے 
یہ جہاں کس کا ہے 
یہ زمانہ یہ کچراغ کس کا ہے 
جب سب اسکا ہے میرا کیا ہے؟
دل بج رہا ستار وانگ 
بسمل کا تماشا ہے سر عام 
بسمل نے کردیا درد عام 
یہ وہ قیس جو نہیں عام 
یہ لیلی سے ملے گا کسی شام

وعدہ ء عشق ہوا؟  ہاں ہوا اور پھر وعدے میں میں نے دیکھا اک ارادہ

یہ کن کا تھا ارادہ 
کن والے نے مجھے نفخ کرنے سے پہلے 
مجھے مجھ سے مانگ لیا 
کہا یہ ہے میرا ارادہ 
کہا اب پورا کر وعدہ 
میں کون ہوں؟
میں ماٹی کے پنجر میں ایک دیپ 
لو!  لو!  لو دیپ لو!  دل بنا دیپ 
میرے دل کے دیپ میں رنگ ہے


نظامی رنگ ہے. دل پر چنر نظامی ہے. یہ رنگ ہے کہ موہا رنگ ہے پریمی. موہی چال ہے پریمی. مورا سجن دلربا. موری آنکھ میں ہاشمی لگن. یہ دل ان کو دیکھ تیر فگن. جان چلی جانی یے. جان چلی جائے گی کہ جان جانے سے میرا کیا ہوگا. نفخ سے نفخ بعد تک میں اسکی تھی میں اسکی ذات کی وہ تجلی ہوں جس سے وہ زمانے میں کہہ رہا ہے کہ 
لوگو پہچانو مجھے 
میں نے دنیا اپنے لیے بنائ 
تم دنیا اپنے لیے بنانے لگ گئے

میں نے نفخ کا کھیل سمجھ لیا میں نے خود میں خود کو دیکھ لیا میں نے اسکو پایا ہے. وہ ھو کی تجلیات لیے راز دل ہے. یہ وہ سرزمین ہے جس میں کئی راز ہیں اوردل راز کا امین ہے. اس دل سے کئی وعدے ہیِ 
آج دی گل نئیں رانجھن یار 
میں ازلوں تری نال منگاں آں 
میرا لوں لوں مہکائے وے 
مری جان بن بن آئے وے 
من شانت!  تن شانت!  رنگ برنگ اسکا راگ!  الوہی اسکا ساز 
تار میم کی لگی ہے 
تار اللہ والی ہے 
تار مل گئی ہے 
تار ہوگئی ہوں میں 
میں تار ہوگئی 
بھلا کون ہے وہ کون ہے کہ کہاں سے نفس سے پوچھے کہ تو کون ہے نفس شرمندہ محجوب ہے کہ کس سے کہے دل ہے اک صندوق جس میں رکھے سو سیپ. میرا دل اک َخزانہ ہے اس میں ہاشمی نگینے ہیں. یہ سامان تپش سے ہے جو مجھ کو ملا ہے رگ رگ میں سانس سانس میں واج اک ہے اللہ اللہ اللہ 
اللہ کی بات کرو 
اللہ دل میں



ابھی دل سے صدا ابھری 
تو مجھے دیکھ
دیکھا اس نے مجھے اور میں خود کو دیکھی جاؤں 
من میں ڈوب 
خود کو پا 
من میں ڈوب 
جوہر فشاں ذات ہے تری 
مہر رساں بات ہے تری 
من میں ڈوب 
مٹی ہو 
خاک بہ خاک 
ہو ذات بہ ذات 
اک آیت بن جا.
آیت ہو جا 
نوید ہو جا 
تحریر ہو جا 
اللہ کہہ 
اللہ بول 
اللہ ہے یہی کہہ