Thursday, February 18, 2021

یارمن ‏کون ‏ہوتا ‏ہے

یار ِ من کون ہوتا ہے 
کیا وہ ہوتا تھا 
کیا وہ نہیں ہوگا 
کیا نہیں ہے 
وہ تو کسی کرسی پر فائز ہے 
یہ رمز بڑی شناسا ہے 
ایسا یارِ من تو نےکیا کیا ؟
آنکھ دے دی کیا  دل کو؟ 
دید خدا کی ہوتی ہے؟
اچھا ہوتی ہوگی 
جب جب دل میں جھانکا جائے  تو ہوجاتی ہوگی 
آنکھ والے بینائی جانیں گے 
نابینا کیسے دیکھے گا؟
اچھا ... 
پہلی دفعہ مری روح نے یار من  کو دیکھا کہاں تھا؟
میں مکان میں  تھی اور مجسم تھی تصویر جس سے لرزاں تھا رواں رواں 
وہ کون تھا؟
میں نے سوچا کہ بندہ کیسے پلک جھپکتے نقل مکانی کرسکتا ہے 
ہمزاد روح کا ہوتا ہے کیا؟
ہاں .... 
روح کا ہمزاد اللہ نے رکھا ہے 
کیسے؟  کیسے؟ کیوں؟
اللہ اللہ اللہ 
اللہ ہی جانے 
میں کیا جانوں 
میں نہ جانوں کچھ 
جانوں تو دل کو آنکھ بس مانوں 
میں نے جہانوں کی سیر کی مگر جہانوں کو آنکھ کی بند مٹھی میں دیکھا ... جہان دل کی آنکھ سے ...
ہاں.  .وہ آنکھ والا 
دامن دل میں نقشِ دلاویز لگا گیا 
نقش پرمنقش اختیار کی کرسی 
اس کرسی پر الحی القیوم لکھا ہے 
کسی کو حیات دوامی ملے تو ہم کیا کریں 
کسی کو  یادِ سبحانی ملے تو ہم کیا کریں 
ہم قدم بہ قدم رقص کریں گے 
دل بہ دل،
دل!
ہاں دل میں ... دل میں اک حاجی رہتا ہے 
کہتا ہے:  کعبہ کے غلاف نیلا ہے کالا نہیں ہے 
جبکہ میں کہتی ہوں نہ نیلا ہے نہ کالا 
یہ تو بے حجاب شفافی ہے 
یہاں تو نور ازل کا بے حجاب نور ہے 
میں نے حاجی سے کہا ہے کہ تجھ کو نیلے سے کیا دل ہے؟
دل والا کہنے لگا 
کہ ہاں ہاں ہاں 
رمز یہ ہے کہ 
کمان پر تیر رہنا چاہیے 
ورنہ معراج نہیں ہوتی 
دنیا بنائی ہے کمان و تیر کے لیے 
کمان والا تیر جہاں جانے پھینکے اور ترکش بے میں یاد کے کتنے تیر 
یہ تیر.وہ تیر
بسمل کا رقص 
تیر بہ تیر... رقصِ آہن 
سنگ میں رنگ دیکھا 
کس کا؟
یار کا؟
اچھا یہ لکا چھپی ہو رہی ہے 
ہاں یہ کھیل ازل سے چلا آیا ہے
بس یہ پردہ تھا جو ہٹ گیا 
دل کے من مندر میں کون ہے؟
یہ کمان پر تیر کس کا ہے؟
یار برآمد .... 
کہاں سے؟  
کشش کے تیر نیناں دے لے گئے سارا جل 
مچھ جائے کتھے؟  ہوئی او بے جل 

پانی والا،  کشش والا 
نور والا ..  
اے لازوال ازل کی روشنی ...  اوج ابد کی جانب لے چل ...دل کی کمان پر نقش ہے ...نقش میں راز ہے. یہ راز کیا ہے نمانے نہ جانیں  جو جانیں وہ کہہ ڈالیں "میں نہ جانوں، تو ہی جانے سب کچھ ....

من میں چھپ کے صدا لگائی کس نے؟
من میں چھپ کے کس نے کہا "میرے ہوتے تجھے ڈر کیسا " 
کیوں ایسا ہوتا ہے کہ عشق پر اختیار نہیں رہتا؟  عشق تو نکل جاتا ہے ایسے جسم سے جیسے دھاگا کسی پتنگ کا ٹوٹ جائے 

میری آوارہ روح! تو ٹھہر جا 
ٹھہر جا!
یار نے بلایا ہے. 
یار من دل کے سیپ دیکھ لیے،  دکھا دیے 
اب بتا کریں کیا 
چل کہ وجدانی لہر ہے 
چل کہ نورانی لہر ہے 
چل کہ وہ بات کریں جس میں آئنہ تمثال گر کی تمثیل ہو

میں نے اپنے دل میں مثال دیکھی تو کیا تھی یہ؟
یہ تو موجہ دل میں بحر جذبات سے نکلا عشق کا عین 
عین ہے!  شین کہاں ہے؟  قاف کہاں ہے؟  
جب عشق عین و لا ہو جائے تو ہم کریں گے کیا؟
نہ جا، نہ جی!  ہم تو کچھ نہ کریں گے
ہم.تو سجدہ کریں گے 
یار من سجدہ!  
سجدہ ہوا سجدہ یار کو 
قبلہ سج گیا دل کا 
دل کے قبلے پر یار من لکھا ہے 
یار من نے جلوہ کرلیا ہے 
حقیقت!  یہ ہے حقیقت!  حقیقت کی جانب چلو!  دل کو تو طوعا کرھا چلنا ہے 
دل کو رسہ کشی ہے کہ عشق تو نری بربادی ہے!  عشق کرواہٹ ہے مگر حلاوت ہے. یہ حلاوت ہے مگر کڑواہٹ ہے. یہ نہ ہونا ہے مگر ہونا ہے. یہ ہونے میں نہ ہونا ہے. ہم کو کشش کے تیر لے گئے جانے کس جانب

اب سچ پوچھیں تو بات یہ ہے کہ عین ہے!  عین تو ابتدائے دید ہے!  جا بجا تو ہے مگر کہاں کہاں نہیں ہے تو. دل نے کہاں کہاں نہ ڈھونڈا تجھے مگر ملا کہاں؟ ہاں!  مل گیا!  کیا گمشدہ تھا؟ نہیں بس لکا چھپی کا کھیل تھا.
اب وہ بے حجاب ہے 
اب وہ شفافیت سے بھرپور ہے 
اب نور سے پرنور آنکھ دل میں ہے 
وہ نور جس نے دید دی وہ تو ازل سے ابد تک قدامت کا حسن لیے ہے. ارے حسینو!  سنو کہ حسن والے جذب کرتے ہیِں.    جذب تو وہ پہلے سے ہوتے ہیں اس لیے تو حسین ہوتے ہیں. اس لیے خدا نے کہا ہے کہ قدیم نور سے آزاد روح کا خمیر ہے. 
اے نائب روح ...چل جانب سفر... وہ سفر کیا ہے جس میں یار دم ہماہمی میں نگاہ کیے ہے. اندر ٹھہریں؟ باہر چلیں؟
یہ چکر پے چکر ہیں 
یہ تو رقص پے رقص ہے 
سمجھ نہ آئے تو بھی چلو 
سمجھ بھی آئے تو چلو 
ہم نہیں جانتے کہ یار نے کیوں بلایا ہے 
وہ تو فاصلے کا قائل نہیں ہے پھر یہ بلاوا کیسا؟
یہ صدا کیسی؟  
یہ پکار کیسی 
میں نے مناجات کیں 
ہاں مناجات کیں 
طوٍاف میں روح اور مرکز آنکھ ہے 
دل کا کعبہ اک آنکھ ہے 
اس چشم کا کیا کہنا جس نے دل کو نمی دی. اس چشم مقدس کو سلام جس نے دل کو دل بنایا 
اے ہادی تجھ کو سلام!
اے سلام والی عالی ہستی تری سرداری پر بارہا سلام

قسم شب تار کی 
قسم نازنینوں کی 
قسم ان حسن والی ہستیوں کی ...
میں حسن پرست ہوں 
مجھے حسن نے فنا کردیا ہے 
حُسن بھی کسی الوہی جامے میں آیا تھا مجسم 
مجسم! مجسم! مجسم ... 
وہ  یار کیسا جو نام نہ لوں تو آئے نا 
میں عبد کیسا کہ اس نے کن کہا، فیــــکون نہ ہو    
فـــیکون کی تحریر انسان ہے 
انسان جانتا نہیِ ہے وہ تحریر نتیجے پر پڑھتا ہے مگر پڑھنا امر سے پہلے ہوتا ہے اور کن سے فیکون تک سجدہ کرنا ہوتا ہے پھر کہیں جا کے تسبیح ہو پاتی ہے اللہ کی

اللہ کی تسبیح کرنا آسان ہے!  آسان ہے اس لیے چاند و اشجار تسبیح بیان کرتے ہیں. یہ پوری کائنات مجذوب ہے اس لیے کن کی مجذوب ہے اور فیکون جاری ہے. شجر نے قیام کی تسبیح پرھی ہے جبکہ زمین نے سجدے کی تسبیح پڑھی ہے جبکہ پہاڑ تشہد پر قائم ہے .. پوری کائنات مل کے نماز قائم کیے ہوئے اور انسان نے نماز کو اتنا آسان جان لیا ہے

نماز آسان ہوتی ہے تو یار کی تسبیح میں دل جذب ہوجاتے اور فنائیت سے دار بقا کوچ کر جاتے ہیں  ... نماز قائم کرنے آیا ہے 
کون آیا ہے؟  
یار من خود آیا ہے 
نماز سکھارہا ہے 
نماز سیکھی نہیں ہے اورعبادت کا ہنر کیسے سیکھیں گے ہم. ہم تو نہ سیکھیں گے وہ سکھائے گا جس نے نفخ سے جدا کیا  ہاِں کیوں جدا کیا؟
پہلے خود جدا کیا 
پھر خود کہا نماز پڑھ 
پہلے کہا جا آزاد ہے تو 
پھر کہا آ، محبت نبھا 
یہ ان دیکھا محبت کا قفس ہے ... 
قفس کی تیلیاں سرخ  ہیں 
سرخی دکھائی دی 
یہ توحید ہے 
وحدت کا رنگ ہے 
واحد سنگ ہے 
دوئی کہیں نہیں سب وہ ہے 
دوئی جھوٹی ہے ہم تو روز کن سے ابد تک ساتھ ہیں 
روز کن اس نے اپنی محبت کی سند ہمیں دے دی تھی اب تو گیت گایا جارہا ہے. گیت ہے!
ہاں گیت ہے 
کیسا گیت؟
پیار کا گیت 
سُر کیسا ہے؟
الوہی سا 
خمار ہے؟  
تھوڑا سا ... 
پی لی ہے یا پلا دی گئی ہے ... 
ہم کیا جانیں کہ پی ہے یا پلا دی گئی ہے


لوح قلم پر یہی تحریر ہے کہ آزاد روح پر اس کا نام ثبت ہے. وہ ذات سے عین کی بات ہے یا عین سے ذات ہو ... اس نے لکھ رکھا ہے کہ جسم تو قفس ہے جبکہ روح پھرتی رہتی ہے اور جہان کی سیر میں پالیتی ہے دید کو  یہ بھی اسکی پکار ہے جس پر دل نے سجدہ کیا ہے  سجدہ اچھا ہے  تسلیم اچھی ہے  اچھی بات ہے کہ میں نہیں ہوں وہ ہے .  وہ ہے تو میں ہوِ مگر میں ہوں کہاں  نہیں تم نہیں جانتے کہ جانِ تمنا کو اک جان کافی ہے  ہر جگہ میں ہوں  تو نہیں کوئی .میں نے کہا تھا اور ہوا ہے. میں نے ازل سے جو لکھا ہے وہ پورا ہے. یہ سرخ چادر اک تحفہ ہوتا ہے جس کو دے دیا جاتا ہے  چلو توحیدی مے خانے میں کہ اجازت ہے 
اذن حاضری کو بلایا ہے 
اذن حاضری کو جانے کس کا رنگ لگایا ہے 
یہ پی کا رنگ ہے. 
مورا رنگ .... .دیکھو یہ رنگ 
کس کو نہ دکھے گا کہ اپنی دید سے ہوتا ہے رنگ عیاں اور دیکھا جاتا ہے کہ کون ہے دل میں نہاں  دل کے نہاں خانوں میں کون بسا ہے 
آ ... آ... آ... یہ دھمال ہے 
آ... آ... ... آ یہ اک جال ہے 
آ... آ... آ.. دام موج میں پھنس جا 
آ... آ... آ.... رنگ رنگ میں ذات کو دیکھا 
ھو الحی ھو القیوم 
ستار بجنے لگا 
ساز کی صدا سنو 
سنی؟  سنو!  
سنو اور دم سادھ کے سنو 
خدا نے سرگوشی کی ہے کہ میں نے فریاد سننے میں لمحہ بھر دیر نہ کی. بسمل کی فریاد وہ کیوں نہ سنے گا. اس نے درد دیا اس لیے تھا کہ اس کے پاس جانا تھا  اس کو درد دے کے پیار آیا تھا ...وہ جس ناز و پیار سے مجھے دیکھ رہا تھا مجھے خود پر پیار آگیا تھا ...بس یہی تو دید تھی جو میں نے بوقت کن عہد الست کو پائی. وہ محبت کی نظر اور میرا مست ہوجانا. اس نے مست الست جام سے میخانہ بنا کے پوچھا تھا کہ بتا کمی ہے 
کہا تھا بے حدو بے حساب دے 
اتنا دے کہ بے شمار ہو ... 
لامحدود ہے تو تو اپنے جیسے دے 
اس نے دے دیا اپنا آپ اور پیمانہ بنایا ایسا کہ پیمانہ بھرتا نہیں ...پتا کب بھرے گا 
جب الف ہوگی 
جب الف ہوگی تب انسان کلمہ ہوگا 
کلمہ جائے گا محفل حضوری میں


ہاں!  حضور یار میں رہتے تھے دیوانے اور دیوانہ کیا جانے کہ دنیا کیا شے ہے وہ دیکھتا ہے کہ کلمہ ہوا نہیں  
اے دل!
ہاں؟
کلمہ ہوجا. 
کیسے؟
کلمہ فنائیت کی کہانی ہے 
یہ جذب میرے حروف میں داستانی ہے 
یار من .... 
تم نے جدائی کا درد دیا ...بتاؤ کیوِ دیا؟
کیسا بدلہ تھا یہ 
پہلے خود سے خود جدا کیا اور وچھوڑے کا درد مجھے دے کے کسی روپ میں نمودار ہوگیا اور نمودار ہو کے دل میرا لے لیا. اب دل دھڑکے تو تجھے دیکھے. یہ کیا کیا؟  اچھا اچھا.   تم صلہ مانگتے ہو ...؟ مانگتے ہو؟
نہیں دل کو دل چاہیے صلہ تو اجر والے مانگتے. ہم تو جان نذرانے میں دیتے ہیں سر ہتھیلی میں لیے پھرتے ہیں ..پھر جب نذرانہ قبول ہوتا ہے تو بندہ الف ہو جاتا ہے
اے دل 
ہاں ...
الف ہو جا ... 
الف کی قسم ..ہم تو الف کو جانیں گے ہم تو الف کو مانیں گے. پوری دنیا میں الف کا رنگ ہے مگر دیکھے کون؟

ہاں دیکھے کون؟  الف سے میم کی کہانی ہے ..   میم تک جانے کے لیے الف ہونا لازم ہے. لازم ہے یہ دو رنگ ہم دیکھیں گے اور کلمہ ہوگا مکمل ...احسن التقویم کی نشانیاں دل میں ہیں .. وہ تلاوت کررہا ہے مجھ میں کہتا ہے. سنقرئک فلا تنسی 

والتین ..  الہام کا شجر ہے جو مجھ میں ہے اور زیتون کا بابرکت تیل مجھ جلا رہا ہے اور دل کبھی طور تو کبھی شہر مکہ.ہوا جاتا ہے. یہ نشانیاں مجھ میں جل رہی ہیں اور اسفل سافلین سے احسن التقویم کا سفر جاری ہے. اس نے اپنا نور مکمل کرنا ہے کہ نور تو وہ مکمل کرتا ہے اور بندہ بس سجدہ کرتا ہے اور دل ایسے مجلی ہوجاتا ہے جیسے کسی بلب کا روشن ہو جانا

سلام اس ہادی مرسل کو جس کی وساطت سے دل کی بتی روشن ہے. سلام اس مثال یسین کو جس کی وجہ سے دید کی بات چلی ہے. سلام اس دل حزین کو جس نے سفل سے احسن التقویم کی جانب جانے کا عندیہ دیا ہے. مقرب ہوا چاہتا ہے کون. اللہ جانے اللہ جانے اللہ جانے

Wednesday, February 17, 2021

دید

چہرہ سامنے ہو تو جلوہ ہوتا ہے اور چہرہ کیسے ہو سامنے؟ اللہ نے سورہ البقر میں فرمایا فثمہ وجہ اللہ .. جس جانب منہ کرو، اللہ کا چہرہ ہے...

قران پاک میں ہی ہے لیس کمثلہ شئی

جس کی مثال نہیں ہے اسکا چہرہ؟
پھر فرماتا ہے اللہ نور السماوات والارض ... اس کی مثال اک طاق کی سی ہے ....
یہاں بھی اس نے مشابہت دی ہے طاق سے،سلطان باھو فرماتے ہیں کہ الف--- اللہ -- چنبے دی بوٹی...


یہاں بھی وہ مثال دے رہے ہیں...
مثال سامنے ہو تو بندہ بے مثال کے روبرو ہو سکتا ہے  جس کے پاس مثال نہ ہو وہ کیا کرے گا

مثال سامنے ہوگی تو دید ہوگی خود کی اور خود کی دید سے جا بجا اس کی دید ہوگی..یہ ہے عرفان کا وہ نقطہ ہے کہ خدا کی دید کیسے ہو. یہ کسی نے پوچھا تھا...صفات عالیہ اپنانے سے ذات کی قربت مل جاتی کہ ذات معاون ہوتی ہے صفات کی ترویج میں...کسی کو صفات میں تو کسی کو عین ذات ملتا ہے

یہ ضرور ہے کہ انسان کو اللہ کی تلاش کسی اللہ والے کے پاس لیجاتی ہے کیونکہ اللہ والا ان صفات سے بھرپور ہوتا ہے. اس کے پاس توحید کا وہ راز ہوتا ہے جس کو بتا کے لیا جا نہیں سکتا ہے...

دید کے طالب کیا کر سکتا ہے؟ وہ وہ اوصاف اپنا لے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں. وہ دینا شروع کردے ..یعنی کہ اک ہے بات کہ  آسانی دو.  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسانی دیتے ہیں یعنی فائدہ دیتے ... اب دیکھنا یہ ہے وہ فائدہ میں ذات کو ترجیح دیتے تھے یا نہیں...
ذات کو ترجیح نہیں دیتے تھے قربانی دیتے ..اب فقط اک وصف اپنا لینے سے ایسے ایسے راز باطن عیاں کر دیتا ہے...میں کچھ نہیں --- یہ کرنا آسان ہے --- کلمہ ہوجانا آسان کہاں....

آسان ہے تو اسکی قرأت اس لیے ہم اس کی قراأت کرتے ہیں اور من کا جوار بھاٹا ہمیں سکون دیتا نہیں ہم تاریخ تک اسکو محدود کرتے ہیں...

جب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

یہ آج کے زمانے کے ہر انسان کے لیے ہے تو قران پاک بھی آج کے ہر مسلمان کے لیے ہے...
یہ مقامات ہیں یہ درجہ بہ درجہ اترتا ہے اللہ فرماتا ہے تم ضرور اک حال سے دوسرے حال تک بتدریج پہنچو گے...یہ حال بھی بتدریج ہے یہ اک لمحہ میں کچھ نہیں ہوتا ہے جو ہوتا ہے وہ دھیرے دھیرے ہوتا ہے پھر غار کا اندھیرا روشنی میں ڈھلتا ہے...

یہ بہت اہم نقطہ ہے کہ جاننے کے لیے اور جاننے والے ہیں اسکو پہچاننے والے...جاننے والے، نہ جاننے والوں کے برابر نہیں اور جاننے والے پہچان والوں کے برابر نہیں...جان لیا. تجھ تک پہنچ گیا. اب پہنچی ہوئ شے کو اپنایا تو پہچان ہوگئ....یہ سارا سفر ہے جس میں دید ہوجاتی ہے اللہ کی

Tuesday, February 16, 2021

اللہ

اللہ میرا ہے، یہ بات وہم سے بالا تر ہے. اس کے پاس رہتی ہوں یہ بھی شک سے دور بات ہے.  یہ فجر کا وقت جب سیاہی دور ہوتی ہے جب مرغ بانگ دیتے ہیں تو کچھ ستارے مرے دامن میں گرنے لگتے ہیں ان کو یہ علم نہیں ہے کہ مری ذات تو خود اک ستارہ ہے. میں خود اک قطب ہوں. صمدانیت کی حدوں میں رہنے والی نور. جس کے پاس اسکی دلاویز مسکراہٹ کا عکس ہے اور رحم بھری نگاہ جس نے میرا دل چیر دیا ہے

توشہ ء رحمت اٹھائے کھڑی ہوں،  میرے دل میں کبریاء جاناں کی مہک ہے. میرے دِل میں ہادی کی تَجلی ہے ...آج میں ذرا دور بیٹھی باران رحمت کو بنٹتا دیکھ رہی ہوں جیسا کہ یہ کائنات سجائی گئی میرے لیے ہے

اللہ کی ذات کا سفر مجاز سے شروع ہوتا ہے جس نے اللہ کی ذات تلک رسائی کا مجاز بن کہا،  اس نے کیا پایا؟  اللہ لفظ نہیں ہے. ذات تک پہنچنے کے لیے کسی اک ذات میں فنا ہونا ہوتا ہے. لا الہ الا اللہ کا کلمہ پڑھنا زبان سے ہوتا ہے مگر فنائیت میں اقرار ہوتا ہے. جب اللہ کہا تو اللہ سامنے مجسم ہوا ہے. یہ خیال صورت بہرحال مجاز راستہ ہے. جب اللہ کا تصور تن من میں محبت کا نغمہ چھیڑ دے تو بس اک دفعہ اللہ کہنے سے سرر کا وہ خمار طاری آتا ہے کہ لگتا ہے اللہ سانس میں دھڑکتا ہے. پھر یہ  بات جب آگے بڑھتی ہے تو کائنات کی دوئی یکتائی میں بدل جاتی ہے. یکتا کیا جانے گا؟ وہ تو خود عین ذات ہوگیا. یہ نقطہ اول سے نقطہ آخر تلک کا سفر ہے. محبت میں دوئی نہیں ہوتی  تضاد چلاجاتا ہے

Monday, February 15, 2021

میں ‏خدا ‏کے ‏ساتھ ‏ہوں ‏

درود سے سوا کیا چاہیے دل کو؟  درود سے لبریز پیالہ برتن میں انڈیلا جاتا ہے. یہ سیاہی کہاں سے آئی ہے؟  یہ سیاہی دینے والا مولا سائیں ہے. اس نے مجھے خود سے متصل کرلیا ہے. اب ہم ایک ہیں اور کوئی حد فاصل نَہیں ہے  . مجسم نور میں اس کے عرش کے پاس بیٹھی ہوں اور وہ مجھ سے کہنا چاہتا ہے کہ انعام چاہیے؟ میں کہتی ہوں تو ساتھ ہے تو کیا چاہیے. پوچھتا ہے تو کس چیز کی طلب گار ہے تو؟ میں کہتی ہوں کہ جلوہ دائم مصطفوی نور کا میرے لیے کردے. آج سے میں نے بے نیازی کا لباس عطا کردیا ہے. میں نے جان لیا ہے میرا یار مجھ پر حکم ہے  اس نے مجھ پر حاکم.ہونا ہے. اس لیے تو انسان نائب ہے. نائب سے پہلے کون تھا؟ کوئی تھا جس نے مجھے کون و مکان کی سیر کرائی ہے آج میں اس کی لامکانی میں گم ہوں. اس نے مجھے مکان میں قید کر رکھا ہے. مکان میں وہ ہے اور قفس کیسا. جہاں وہ ہو وہاں قفس کیا کام؟  بس طائر نے اس کے ساتھ سفر شُروع کردیا ہے. خدا اس کے ساتھ ہوگیا ہے. خدا نے اسکو تھام لیا ہے

درود

ہمیں کہنا چاہیے کہ اللہ ہمیں اپنا قرب عطا کرے..ایسا قرب جس میں دنیا نہ ہو. دنیا وہ خود دے دیتا ہے مگر پہلے اس کے لیے دنیا کون چھوڑتا ہے یہ امتحان وہ لیتا ہے...اللہ نے ہمیں یہاں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم نعت کہیں......اللہ نے ہمیں یہاں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم نعت کہیں..
:...ہمیں نعت کی توفیق کیسے ملے؟  اس کے لیے دل میں دیکھنا پڑے گا کہ دل میں اللہ ہے یا دنیا....بس درود شروع ہوجاتا ہے جب لا الہ الا اللہ ہوتا ہے....اللہ نے جب واضح کہہ دیا درود تو وہ بھیجتا ہے تو انسان نے یہ کیسے سمجھ لیا درود وہ بھیجتا ہے..انسان کو اللہ کی طرف پہلے رجوع کرنا ہوتا ہے توحید جب تک دل میں نہ ہو درود،  بس زبان سے ادا ہوتا ہے...انسان کو اللہ کی طرف پہلے رجوع کرنا ہوتا ہے توحید جب تک دل میں نہ ہو درود،  بس زبان سے ادا ہوتا ہے...زبان سے ادائیگی بھی اللہ کے کرم سے ہوتی...درود کی زبان سے عمل سے ہر طرح سے ادائگی محض اللہ کا کرم ہے...درود کی زبان سے عمل سے ہر طرح سے ادائگی محض اللہ کا کرم ہے...ضرور اس مومن کے دل میں صدا آتی ہے وہ صدا خیال بن جاتی ہے وہ صدا حضور ہوجاتی ہے.....یہ بھی اک درود ہے جب ہم بیٹھے اللہ کے پاس ہوں  اللہ محبوب کا ذکر چھیڑ دے....آپ کو لگے مہک آرہی ہے. مہک اس لیے آتی ہے کہ اللہ نے یہ ذکر کیا ہے آپ کا دل پاک ہے آپ یہ ٹو وے کمینوکیشن کا ذریعہ بنے ہوئے ہو.....اب درود درد والی زبان سے ادا ہوا ہے اور درود گریہ بن کے ٹپک پڑا ہے....جب دل گریہ کی نہر ہوجائے تو آنکھ نظارہ ہوجاتی ہے طائر کو پرواز مل جاتی ہے وہ  حضور یار میں رہنے والی آنکھ ہے  یہ کرم ہے نا کہ جن کو نعت سننے کی سعادت ہے. یہ بھی تب ہوتا ہے دل میں اللہ موجود ہوتا ہے...جب دل میں اللہ موجود ہوتا ہے تو وہ اپنا ذکر سننا پسند کرتا ہے اس کا ذکر کیا ہے؟  درود...

وظیفہ ء دل ہے درود 
صحیفہ ء دل ہے درود

قرأت سے مخمور دل 
قرأت  سے ہے طور دل

قندیلِ مصطفی ہے منور 
صندل مہک سے مہجور 
خوشبو کا جنگل ہے دل 
خوشبو نے معطر کیا دل


چلو ہم صحیفہ داؤدی اٹھا کے دیکھ لیتے ہیں  صحیفہ داؤدی کھلا ہے. اس سریانی لہجے میں تلاوت سے کھلا کہ یہ شیریں لہجہ تو مستعار لیا گیا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا، اللہ اللہ

اب وادی ء طور میں چلو تو چل کے دیکھو موسویت کی چادر تو کہیں سے لی گئی ہے. محبوبیت کی غنائی شال بھی دی گئی ہے. یہ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غنا. دے کے بے نیاز

عیسوی قندیل کی بات سنو. وہ بائبل میں رقم ہے کہ لحم مادر میں بولنے والا بچہ گویائی و سخن لے کے آیا تھا اور یہ تو دیا گیا تھا واہ واہ واہ یہ کمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم...


نواز کے خزانے لٹائے ہیں اور امتیوں کے لیے آئے تو ان کو نہ دیے ہوں گے؟...یہ تو سوچو کہ جس کا درود اللہ نے بھیجا تو واپسی میں بھی تو کچھ ملے گا؟واپس میں جو ملے گا وہ بھی خوب ہوگا. بس اللہ ہمیں یہ موقع دے کہ دل دو طرفہ ٹریفک بن جائے. جو نعت کہے دل وہی حمد کہتا ہے قران پاک میں دو باتیں ہیں. کہیں اللہ کی تعریف ہے تو کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت...سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں مگر سمجھ کے سمجھے نہ جو اس کے لیے کیا ہے؟

عقل والوں کے لیے دل کی سماعت بند،  گویائ بند،  آنکھ بند!  افسوس دل مقفل!  مقفل دل نور کی دید کیسے کرے گا؟اللہ نے فرمایا ہے قران پاک میں، جس نے میری دید یہاں نہ کی وہ وہاں بھی نہ کرے گا

عشق ‏و ‏عقل

عشق و عقل دونوں دونوں عین ہیں. خارج کے لیے عقل ہے. درون کے لیے عشق ہے. عشق وہ لو ہے جس کی آنچ نے مجھے پرنور کر رکھا ہے. اک براق ہاشمی ہے اک دہن عربی ہے اور رنگساز نے شفاف کرم رکھا ہے. بس پلک جھپکتے لاکھوں منازل عشق طے کرادے گا اور عقل نے آنکھ کھولی نہیں ہوگی. یہ کسی کو کیا پتا ہے کہ عشق خدا کرتا ہے وہ کن کرتا ہے تو خطا سے قم باذن ہوجاتا ہے. یہ خطا وہ کرواتا بھی خود ہے اور عقل والے حیلے تلاشتے ہیں عشق کو مارنے کو. عشق بیچارہ ہوتا نہیں ہے تو بس اس کی بساط ہے. کوئ پیادہ ہے تو کوئ مہاراج ہے. بس یہی فرق ہے عشق میں اور عقل میں. عقل چلنا سیکھتی نہیں ہے عشق جوانی سے بڑھاپے کی جانب لیجاتا ہے عقل لفظ سیکھتی ہے جبکہ عشق حروف سے مزین تختی ہے. آج خدا میرے پاس بیٹھا ہے اس نے یہ تختی مجھے تھما رکھی ہے میں نے یہ لوح یہ کنجیاں دیکھ کر بھی اسکو نہ چھوڑا کہ جو بات اس کے ساتھ میں ہے وہ ان میں کہاں مگر عاشق صادق ان کے بنا مکمل نہیں ہوتا ہے اس لیے اسکو سب یہ اٹھانا ہوتا ہے. امانتیں اٹھالیں جاتی ہیں اور بندہ بیچارہ عقل کے ہاتھ مفلوج


تحیر تو انسان خود ہے عشق انسان کو تحیر میں لے گیا. وہ نظارہ تھا ایسا کہ معشوق و عاشق ضم کوگئے اور تحیر باقی رہ گیا اور عشق نے رکھی جتنی ہوش، اتنی ہوش سے کہہ دیا گیا کہ عشق کی خبر یہی ہے کہ عشق باقی ہے ... ایسی بے خبری کہ عاشق و معشوق دونوں مست و بیخود ہیں اور جذبہ سلامت حکمران ہے. کون جانے اس جذبے کو جس نے جھیلا ہے وہ جانتا ہے دیوانہ یک ٹک سو دیکھے نہ دیکھے دیوانگی دیکھتی ہے. زندگی بس نظر کا دھوکا ہے اور دھوکے سے نکل آؤ تو نگاہ سے فیض لو. یہ فیض ہے جس نے ثابت کردیا ہے مجھے. اللہ نے جس کو اثبات کی جانب گامزن کردیا ہو اس سرمست کی مستی کو ہزار سلام. یہ عشق ہے جو جب بارگہ ناز و ادب میں بیٹھتا ہے تو عشق عشق نہیں رہتا ہے اس کی آنکھ  سماعت دل سب کا سب ہمہ تن گوش اتنا محو ہوتا ہے کہ یہ وہی ہوجاتا ہے کہ اس میں بچتا کیا ہے  یہ رمز ہے


تحیر تو انسان خود ہے عشق انسان کو تحیر میں لے گیا. وہ نظارہ تھا ایسا کہ معشوق و عاشق ضم کوگئے اور تحیر باقی رہ گیا اور عشق نے رکھی جتنی ہوش، اتنی ہوش سے کہہ دیا گیا کہ عشق کی خبر یہی ہے کہ عشق باقی ہے ... ایسی بے خبری کہ عاشق و معشوق دونوں مست و بیخود ہیں اور جذبہ سلامت حکمران ہے. کون جانے اس جذبے کو جس نے جھیلا ہے وہ جانتا ہے دیوانہ یک ٹک سو دیکھے نہ دیکھے دیوانگی دیکھتی ہے. زندگی بس نظر کا دھوکا ہے اور دھوکے سے نکل آؤ تو نگاہ سے فیض لو. یہ فیض ہے جس نے ثابت کردیا ہے مجھے. اللہ نے جس کو اثبات کی جانب گامزن کردیا ہو اس سرمست کی مستی کو ہزار سلام. یہ عشق ہے جو جب بارگہ ناز و ادب میں بیٹھتا ہے تو عشق عشق نہیں رہتا ہے اس کی آنکھ  سماعت دل سب کا سب ہمہ تن گوش اتنا محو ہوتا ہے کہ یہ وہی ہوجاتا ہے کہ اس میں بچتا کیا ہے  یہ رمز ہے

حسن

عشق کی داستان تو خوب داستان سنائی ہے اور مقبول بھی ہے. اس عشق کی خوشبو سونگھ لیجیے. یہ عطر عطر ہے  یہ مشک مشک ہے. یہ وہ رنگ ہے جو بے رنگ ہے  آج کے دن خدا کسی شخص نما کی طرح موجود ہے  قبلہ نما کہاں ہے یہ قندیل حق گواہ ہے کہ لاکھ گواہیاں بھی لائیں جائیں یہ رگ نوید کے سامنے ٹھہر نہ سکیں گی اور حسن جمال کے سامنے خم بہ دل ساجد ہو جائیں گی. حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں ہوگی کہ جدھر خرد کی بخیہ گری نہ ہو جنوں کی پردہ دری نہ ہو وہاں حسن مدہوش بھی کیے دے تو لکھنا والا کہ اٹھتا ہے کہ مہ رخ ہے مہ جبین ہے. اس مہ رخ کے رخ تابانی نے تجلیات کے سو در وا کر دیے ہیں. آئنے کے سامنے تن مجلی.ہوگیا ہے. یہ آئنہ اتنا مجلی ہے کہ شافی ہوگیا. اے شافی محشر... سلام سلام سلام. اے والی کون و مکان.سلام.ہے. بہار کا موسم وصلت کا.ہے.


اللہ دکھ کی اس گھڑی میں تو سائبان ہے. ہاں میں اکیلی ہوں اور تو اکیلا ہے. اس لیے اکلاپے کا درد جھیل رہی ہوں کیونکہ تو بھی جھیل رہا ہے. تو نے مجھے یکساں کیوں کردیا ہے؟ ہم میں تو یکسانیت والی کوئی بات ہے ہی نہیں. میں تو بشر ہوں اور تو امکان ہے. میں نے تجھے جب بھی چاہنا چاہا تو مجھے خود سے محبت ہوگئی. اللہ جل شانہ تو نے اپنی حکمت کے خزانے مجھ پر کھول دیے ہیں اور میں جواہر دیکھ تو رہی ہیں چاہتی تو خود جھولی وسیع کر. تو خود ڈال. تاکہ میں لینے میں پہل نہ کروں. تو جانتا ہے تری بارگہ میں اپنا سفید لباس تجھ کو ہدیہ کروں بھی تو میں پھر سفید رہتی ہوں کیونکہ تری نگاہ نے مجھے شفاف کردیا ہے. جیسے جیسے تو نگاہ بڑھاتا جارہا ہے ویسے ویسے میں ترے قریب آتی جارہی ہوں  یہاں تک تری شعاع در شعاع نے نیلا کاسنی وجود کردیا ہے. نیلگوں روشنی!  ہاں نیلگوں روشنی!  یہ وہ روشنی ہے جس سے میں نے حقیقت پائی ہے. یہ وہ حدت ہے جس میں میری حرارت کھو جاتی ہے. یہ وہ چاشنی ہے جس میں ترے لہجے سے درود کی مٹھاس ہے. مجھے ترے چہرے سے وہ الوہی مسکراہٹ دکھ رہی ہے جیسے کہ تو کبھی رحمت ہے تو کبھی اللہ. اب کے تو مجھ سے مخاطب ہوگا اور اب اہم اکیلے رہا کریں گے. دم بہ دم دھیرے دھیرے اور ہمارے مابین خاموشی کی دیواریں نہ ہوں گی. یا اللہ جو مجھے تنگ کرے تو اس کو فراخ کر. جو مجھے آسانی دے تو اسکو خوشی دے. یا اللہ جو مجھے پیار دے. تو بھی اسکو پیار کر کہ یہ میری تیری تو بات ہے

بشیر ‏و ‏نذیر

قران کریم کلام اِلہی ہے، الہیات کا مجموعہ ہے. یہ الہیات زندہ شخصیات،  زندہ اشیاء، کونین کے نظام کی تنظیم کرنے والی شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے ...

سورة البقرة, آیات: ۱۱۹

إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْـَٔلُ عَنْ أَصْحَٰبِ ٱلْجَحِيمِ

(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی

یہ نشانیاں ہیں نوید کی اور ڈر و خوف کی .. ایمان حُبِ رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بنا مکمل نہیں ہے. جب ہمیں محبت کی بشارت ملتی ہے تو دل سرشار ہوجاتے ہیں، جب ہمیں ناراضگی سے خوف آتا ہے تو ڈر کے مارے دبک جاتے ہیں ...ہمارے رسولِ محتشم پاک مجمل منور محسن صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غصہ تو کیا نہیں تھا مگر جس دل کو نوید ملی اس نے ان کو دیکھ لیا اور جس کو نہ ملی وہ بو جہل ہوگیا. نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دیدار بنا ممکن نہیں کچھ. جس دل نے نعت کہی، جس دل نے درود پڑھا، جس دل نے نمی محسوس کی ان کے نام مبارک سے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو اس نے گویا ان کو پالیا کہ وہ ہمیں دیتے ہیں،  ان کا دینا دیدار ہے جبکہ ہمارا کچھ نہیں گیا نقصان!  اس نقصان کی قسم کھاتے اللہ نے فرمایا والعصر ... اللہ نے تو جگہ جگہ محبوب کی قسم کھائی ہے .
.درود کا ذکر ہو صبح و شام،  
رہو ان کی فکر میں صبح و شام 

سورة البقرة, آیات: ۱۵۴

وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَن يُقْتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتٌۢ بَلْ أَحْيَآءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے

 شہید زندہ ہوتا.ہے اور رہے گا تاابد تو انبیاء رتبے میں کئی گنہ زیادہ. انبیاء کی مثال "احسن التقویم " کی سی ہے کہ زمانے کی اکمل و کامل مثال وہ خدا کی شہادت دیتے ہیں کہ ان کے وجود عشق الہی میں شہید ہوچکے ہوتے ہیں .. اس لیے یہ دنیا و سماوات ان زندہ قائم مثالوں سے چل رہا ہے 

تو نورِ سماوی تو نور زمانی 
نبی سارے ترے نوری نشانی 
محمد میں تیری.ہے صورت مکمل 

جب سب کچھ یہیں اس دنیا میں ہے تو الہیات کا سلسلہ جاری و ساری ہے. ... 
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل

عالمین ‏

اپنے عالمین سنبھال کے بیٹھو. عالم کی رونق اللہ تعالی ہے. تم سے نور اتنا ہوسکا کہ تم دیوانہ وار جالیوں کو چومتی رہتی. تم غارحرا کو احذر امن کی طرح دل میں مقبول ہوتا دیکھ سکتی. آج کے دن نور تم خدا کے سامنے بیٹھی ہو. خدا تم سے خود اپنا ثناء لکھوا رہا ہے. تم اک سفید لباس میں ہو جس کے روئیں روئیں سے سفید نور نکل رہا ہے. تمھارا رنگ سفید اسی وجہ سے ہے کہ ماہ احمر میں تم حسنین کریمین سے نسبت ہوگئی تھی. جب تم پیدا ہوئی تو بوقت پیدائش سب محکم اعلی نے حدیث کررکھا تھا کہ راقم چاہتا ہے اور ہوجاتا ہے  عمل اس کے کن کا محتاج ہے. کہ چاہنے سے ہوجاتا ہے  کیا انسان کے بس میں ہے کہ اس کے چاہنے سے عمل ہو جائے؟  نہیں!  نہیں!  ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ نیازمند روحیں اس کے سامنے ہر لمحہ حضور میں رہتی ہیں اور داستان بیان کرتی رہتی ہے. وہ اللہ جو بے نیاز ہے وہ ان کو اپنے اسم سے مالا کرتا ہے ذات کر دیتا ہے

اللہ جواب دیتا ہے اپنے بندوں کو ..وہ جواب دیتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ تم میرے ہو اور وہ اس کے ہوجاتے ہیں. ہمارے غموں میں پوشیدہ موتیوں کو سنبھال کے رکھو. ہمیں دیوانہ وار جالیوں کو چومنے دو  تم کو تو علم نہیں ہے مگر جان لو بابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے محبت رکھتے ہیں. وہ کہہ چکے ہیں کہ نور مجھ سے ہے. میں نے نور کو اپنی کملی میں جگہ دے رکھی ہے. یہ میرا نور ہے. نور کے لیے اس نسبت سے بڑھ کے کیا نسبت ہوتی کہ اس نسبت نے اس کو معین کردیا. وہ خدا سے باتیں کرنے لگی ہے اور  خدا سے جواب پانے لگی ہے  وہ وہ ہستی ہے جس نے نور پر نوری چادر ڈالی ہے اور کہہ دیا کہ میرے ترے درمیان کوئ تیسرا ہے؟ بندے اور اللہ کے درمیان وسیلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے.

Friday, February 12, 2021

خدا ‏پیش ‏رو ‏ہے ‏

خدا پیش رو ہے 
تم اپنی ظلمتیں چھپالو.
خود میں چھپ جاؤ. 
لمحہ لمحہ وہ گن رہا ہے 
وقت ڈھل رہا ہے 
آیت اتر رہی ہے 
ترتیل اور قرأت ہے ساتھ 
خدا پیش رو ہے ہے 
تم اپنی سسکیاں حضور کرلو 
تم اپنی باتیں اس سے کرلو 
تم اس کو دامن دل میں بھرلو  
وہ تمھاری ضرور سنے گا 
خدا پیش رو ہے 

یہ قبلہ،  یہ حادثہ 
یہ مناجات،  یہ دنیا 
کسی گھڑی اک پل کے لیے 
اسے مانگو، اس کے لیے 
وہ منتظر ہے 
اسے مانگ لو. 
وہ ہر حادثے،  ہر خبر کو جانتا ہے 
وہ دلوں کا مکین، تمھیں جانتا ہے 
وہ تمھاری وحشتوں کو قرار دے گا 
تمھیں تم سے بڑھ کے پیار دے گا.
خدا پیش رو ہے

Thursday, February 11, 2021

مدد

افلاک سے تارہ ابھرا ہے 
 کسی ماتھے پر چمکا ہے
جانے کتنی دعاؤں مابعد نتیجہ ہوا ہے. 
جسے میں نے چاہا ہے 
وہ میرا ہوا ہے 
ستارہِ سحری.
مرغ بانگ دیتے ہیں 
شمس کی سرخی رات کو غروب کرتی ہے.
وہ طلب سے بے نیاز شخص 
مناجات میں کیے جائیے زاریاں.
اسے علم تھا فتح ہونی ہے 
اسے ناز تھا کہ خدا اسکا ہے 
پھر خدا نے اسکو تھام کے یقین پر کھڑا کردیا 
کہا کہ مدد آگئی ہے 
تم یقین رکھو .... 
اس شخص کے دامن میں مامتا کی لازوال دولت ہے 
اس شخص نے تخلیق کا درد سہا ہے 
کتنی مدت کے بعد 
کتنی چاہت کے بعد 
آج وہ ستارہ بام فلک پر 
معبد وجود میں ہے ... 
آج کے دن کوئ انتشار نہیں 
وہ شخص جو مشت غبار ہے 
اسکو اپنے ہونے پر ناز ہے

فتح کا جھنڈا گاڑے 
روح کی صدا سنی؟
روحی!  الروحی! من روحی 
وجد کی آفرینی 
لحم میں سے صدا ابھری 
خدا میرا ہے 
خدا میرا ہے.
یہ یقین جس پر وہ شخص کھڑا ہے 
اس کے سجدوں کا نتیجہ ہے 
اس کی بے ریا عبادتیں 
جب وہ جھکا تھا خدا کے آگے 
کہا تھا اس نے 
سجدہ ترا ہے،  واجب کیوں نہ ہوتا 
خدا پھر واجب الوجود ہوگیا 
شاہد نے تب دی شہادت ایمان کی 
ایمان مکمل.ہوگیا 
ایمان کی گواہی تھی 
یہ کس نے کہا تھا 
تری چمک نے دل میں سماوات کو چیر دیا ہے 
یہ کبریاء جاناں کی مہک تھی.
گلاب،  عطر سے بھرپور مہک 
اس نے کہا تھا درود واجب ہے 
اس کی سانس کی صدا میں اک انہونی خوشبو تھی 
دما دم کہ دم دم میں صدائیں ہیں درود کی
ابھی موسی جلوہ گاہ سے لوٹا ہے 
ابھی اس کے پاس یدبیضائی ہالہ ہے
گاہ میں آیت یسین تو گاہ میں حم .... 
بس جب ستارہ سحری سے چمکی یہ آیات 
تو ساجد نے کردیں مناجات 
تذکرہ گلِ لحن کا چھیڑ کے پوچھا ... 
آسمان پر کوئ ہے اس جیسا 
ساجد نے کہا نہیں 
لیس کمثلہ شئی
بس مثال کامل،مثال پاک 
وہ ذات خصائل انوارات سے بھرپور 
منور ہے! منور ہے!  منور ہے!  
اس شخص کی سن لی گئی ہے 
سنی کیوں نہ جاتی؟ 
خدا کا اس سے ازل سے ساتھ ہے 
خدا اسکا تھا،  اسکا ہے اور رہے گا

لم ‏یلد ‏ولم ‏یولد

لم یلد ولـــــم یـــــولـــــد 

اکیلا تنہا خاموش 
اس سمندر کی آنکھ میں 
ٹھاٹھیں مارتی میری محبت 
 میں! کوکاں ماردی داڑ دی کونج
بچھڑن لمحے سندی ساں 
لم یلد ولم یولد 

وقتِ معلم نے سکھایا ہنر قربانی کا 
وقتِ معزم نے بتایا دائم نماز کا 
فصل لربک وانحر 
بوقت کن کی ہجرت بدلی وصلت میں 
ملا جب یار پرانا 
رانجھن یار نہ دسدا کوئی.
ڈھونڈن اس نوں چلی آں 
او کہنندا اے 
لم یلد ولم یولد 

اٹھو!
حامی ء کوئے شہر جناں 
وادی بطحا کی منادی سنو 
اک شخص کی پکار 
اک شخص نے دل سے کہا 
ہجرت میں وصلت ممکن؟
ندا آئی 
لم یلد ولم یولد

ہاں اس شخص کی بات 
جس نے کہی ایسی نعت 
نہ یہ تھی اسکی اوقات.
جس نے دیے یہ جذبات 
اس نے کہا کہ آؤ، ملو 
لم یلد ولم یولد

اک نفس کا تیر جب چلا 
اک دید کی بات بھی ہوگئی.
وہ پھر زائر ہوگیا اور دم طوف کہنے لگا 
اے خدا تو ایسے ملے گا؟
بتا تو ایسے ملے گا؟
اچھا کہا میں نے 
لم یلد ولم یولد

Tuesday, February 9, 2021

لم ‏یلد ‏ولم ‏یولد

لم یلد ولـــــم یـــــولـــــد 


اکیلا تنہا خاموش 
اس سمندر کی آنکھ میں 
ٹھاٹھیں مارتی میری محبت 
 میں! کوکاں ماردی داڑ دی کونج
بچھڑن لمحے سندی ساں 
لم یلد ولم یولد 

وقتِ معلم نے سکھایا ہنر قربانی کا 
وقتِ معزم نے بتایا دائم نماز کا 
فصل لربک وانحر 
بوقت کن کی ہجرت بدلی وصلت میں 
ملا جب یار پرانا 
رانجھن یار نہ دسدا کوئی.
ڈھونڈن اس نوں چلی آں 
او کہنندا اے 
لم یلد ولم یولد 

اٹھو!
حامی ء کوئے شہر جناں 
وادی بطحا کی منادی سنو 
اک شخص کی پکار 
اک شخص نے دل سے کہا 
ہجرت میں وصلت ممکن؟
ندا آئی 
لم یلد ولم یولد

ہاں اس شخص کی بات 
جس نے کہی ایسی نعت 
نہ یہ تھی اسکی اوقات.
جس نے دیے یہ جذبات 
اس نے کہا کہ آؤ، ملو 
لم یلد ولم یولد


اک نفس کا تیر جب چلا 
اک دید کی بات بھی ہوگئی.
وہ پھر زائر ہوگیا اور دم طوف کہنے لگا 
اے خدا تو ایسے ملے گا؟
بتا تو ایسے ملے گا؟
اچھا کہا میں نے 
لم یلد ولم یولد

Monday, February 8, 2021

اخلاص ‏پر ‏میرا ‏خیال ‏پارٹ ‏۱

سورة الإخلاص, آیات: ۱

قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ

کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے

اس کا مخاطب مری ذات ہے اور قران پاک کل مخاطب ہے!  قُل مجھے کہا 
یہ کس نے کہنا؟
روح نے کہنا نفس کو 

کہنا تو نہیں یقین کرنا ہے. یقین کرنا ہے اللہ ایک ہے.

اس کا مطلب ہوا معبود بیمشار ہیں. جیسے میں نے سوچا ہے اچھا سا گھر، گاڑی،  تعیشات،  جیولری ... مجھے عزت چاہیے، مجھے شہرت چاہیے،

نفس .. اب سمجھ آیا اصل میں نفس الہ بنا ہے 

نفس کہے گا اللہ ایک ہے 
یعنی کہ نفس کی نفی ہو جائے گی ... 
میرے لیے نفس کی نفی کرنا بہت مشکل ہے ..  قدم قدم پر نفس سامنے 

* اب مجھے اس کو کہنے کے لیے اللہ سے دوستی کرنی پڑے گی. کھانا کھاتے وقت اس سے پوچھنا پڑے گا کہ کھالوں؟  وہ اداس تو نہیں ہوگا؟  پھر وہ ساتھ بیٹھے گا 
* جب کچن میں کام کروں گی ... میں کل کھڑی اللہ سے کہہ رہی تھی مصالحہ گرائنڈ کرتے کیسے تجھے پاؤں ..دل نے کہا تو خود کی ایسی نفی کر اور افف نہ کر ... میں لرز گئی! میں نے کہا اس سے ممکن نہ ہوگا. کہنے لگا کہ محبت سب کچھ کرالیتی ہے! میں چپ ہوگئی ... 

میں نے اللہ سے کہا ابھی 
قل کی عملی قرأت تو ممکن نہیں ہے اب تو آ،  تو مجھے سے کروا قرأت

اللہ اکیلا ہے تو نفس کیوں شامل ہو خدا بنے!  اللہ نے منع کب کیا نفس کو وہ کھانا نہ کھائے یا کب کہا اچھا پہنو اؤڑھو نہیں ... اللہ نے تو مجھے کہا ہے جب اچھا کھاؤ تو اس نیت سے کھاؤ کہ اللہ کو پسند کہ میں اچھا کھاؤں،  اچھا پہنو تو اس نیت سے پہنو کہ اللہ بہت خوش ہوگا .. جب کسی کو دو تو بس کہو اللہ تو خوش ہو ...بس ہر جگہ نفس کو ساتھ نہ رکھو ..اللہ کو پاس رکھوں میں 
اب میں زندگی کے ہر معاملے میں قل کہوں 
یہ دوستی ہے 
یہ اخلاص یے 
یہ نیت ہے



سورة الإخلاص, آیات: ۲

ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ

معبود برحق جو بےنیاز ہے


میری دوستی تو ہوئ نہیں. اگر دوستی ہوئ ہوتی تو میں ہر وقت اللہ کے ساتھ ہوتی. اللہ کی محبت میں ہنستی. اللہ کی محبت میں کھیلتی،  اللہ سے باتیں کرتی کہ اللہ اب بس!  اب پیار دے!  اب لاڈ کرنا ہے.

دوستی ہو یا نہ ہو 
بندہ کرے یا نہ کرے 
وہ بے نیاز ہے 
کہتا مجھے 
ماں دیکھی اپنی 
کبھی محبت میں کمی کی؟  
تو نے کتنا ستایا ہے اسکو.
جوابا کبھی اس نے برا منایا؟
تو نے کتنی بے ادبی کی 
کبھی اس نے تجھے پاس آنے سے روکا 
تو کھانا نہ کھائے بے چین وہ 
چوٹ تجھے لگے پریشان وہ 
تو، میرا نفخ سے قرار پایا سوت ہے!  تو مجھ سے ہے!  تو میرا خیال ہے!  تو میں نے کبھی تجھے چھوڑا؟

میں نے یاد کیا 
میں نے اللہ کی بہت نافرمانی کی. اللہ سے دور ہوگئی!  اللہ کے خلاف ہوگئی مگر اللہ نے رزق نعمت رحمت وافر فراہم کی. بس اس لیے نفس الہ بنا.ہوا تھا میں محبت پا کے بے چین تھی کہ مین کیسے اسکو ریٹرن کرر رہی؟

میں محبت کا جواب نفرت میں دوں؟  .
بس پھر وقت جب اللہ سے بات ہوئی تو 
مجھے احساس ہوا اللہ نام محبت کا. میں اسکو دوں یا نہ دوں میں تجارت کروں نہ کروں ... وہ بے نیاز یے!  وہ کہتا میرے پاس کوئ تمھاری قربانی کی کھالیں پہنچتی ہیں میں تو نیت کو جانچ رہا ہوتا کہ نیت دنیا داری یے یا میری رضا!  

اک مسئلہ آتا ہے جب کوئ کہے نا اللہ محبت دے اللہ محبت دے اللہ دے نا محبت تو تو ماں جیسا ہے. ترا پیار ماں جیسا شفیق ہے. تو خود مہربان ہے ...  وہ جب خالص ہو کے اس کے پاس جاؤ وہ نیت والی قربانی مانگ لیتا 
نیت والی قربانی کیا ہوتی ہے؟
وہی ہابیل و قابیل والی 
جب اک بھائی نے دوسرے بھائ کو مار ڈالا. کیونکہ اک کو دل.پسند دنیاوی محبوب مل گیا،  دوسرا بھائی انتقام میں خود ساتھ برا کر گیا 

میں نے من سے پوچھا کہ اللہ.تو دنیا نہیں دیتا. پھر من چاہا محبوب کیوں دے ڈالا؟  

من نے کہا:  جب اللہ کے لیے خالص ہو کے جان و مال نذر کردو تو وہ بھی تمہیں تمھاری چاہت لوٹا دیتا ہے 

وہ بے نیاز ہے 
وہ خالص ہونا مانگتا ہے

سنقرئک ‏فلا ‏تنسی ‏

سورة الأعلى, آیات: ۱

سَبِّحِ ٱسْمَ رَبِّكَ ٱلْأَعْلَى

 اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو

اللہ نے کہا کہ اللہ کی شان بیان کرو. اچھا رمز کھولی شان کیسے بیان ہوتی .. 

خیال عدم سے، وجود جہاں سے. ..میرا ہونا ترے ہونے کی دلیل ہے. فلک میں رہا ہے دل کہ نوری قندیل ہے جس میں عکس ربِ جلیل ہے  شانِ رب کہنے کو عمر قلیل ہے.  ترا نام اللہ ہے اور اللہ اسمِ یقین ہے . یقین سے داخل ہوجاؤ غیب میں  ایمان بالغیب سے حاصل ہوا ہے حرف.. 



سورة الأعلى, آیات: ۶

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰٓ

ہم تمہیں پڑھا دیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے


جب اسکو یاد کیا جاتا ہے تو دل سے وہ ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے کہ وہی تو ہے چار سو.دل سے پھر قرأت ہوتی  دل کو قرأت ہو تو قران پاک کبھی نہیں بھولتا ہے  .. درحقیقت اسکی قرأت رب کراتا ہے تب جاکے کہیں آتا ہے کہ اللہ نے ہمیں محبت سے پکارا ہے  جو دل ہارے وہ پڑھے اسکو اسکو اللہ ملے گا یہیں سے  کہیں اللہ کی حمد ہے تو کہیں اللہ کی کہی نعت. اتنی محبت !  اتنا احساس!  اتنا پیار. اللہ کا نام ہے پیار اور محبت!  
اب آپ میں سے کوئ  حمد کرے دل کی بات بیان کرے تاکہ دل کی بات دل کو پہنچے

Sunday, February 7, 2021

ستارے ‏کی ‏بات

سورة الطّارق, آیات: ۱

وَٱلسَّمَآءِ وَٱلطَّارِقِ

آسمان اور رات کے وقت آنے والے کی قسم

گزشتہ سال اسکو پڑھتے پڑھتے میں ڈوب سی گئی. میرے سامنے ستارہ تھا نور محمدی کی شکل. ایسا ستارہ جس کی آب و تاب رات میں بھی نمایاں اور دن میں تو روشنی نمایاں.  مجھے لگا کہ اللہ نے پیارے محبوب کو اس ستارے سے تشبیہ دی ہے. اک انجانی سی خوشی دل میں در آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات دل میں در آئی تھی ..   اللہ نے جگہ جگہ پیارے کریم آقا کی قران پاک میں ثنا کی ہے اور اسی میں فرمایا ہے 
سورة الطّارق, آیات: ۱۳

إِنَّهُۥ لَقَوْلٌ فَصْلٌ

کہ یہ کلام (حق کو باطل سے) جدا کرنے والا ہے

ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روشن ستارہ ہیں وہ ستارہ ہر ذات میں موجود ہے 

اللہ رب العالمین 
محمد رحمت العالمین 
الھم صلی علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم 

 اللہ ہمارے دل میں ہے ہمارے دل کی کائناتوں کا مالک ہے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت ہیں جس دل میں محبت ابھرے انسانیت کے لیے درد ابھرے تو وہ یہ سب اس پاک رحمت کے وسیلے سے ابھرتا ہے دل میں سماتا ہے. یہی ذات کا روشن ستارہ ہے جس جس دل میں یہ چمک اٹھے اس دل کی تمام کائناتیں روشن. وہ خود نور سے بے پایاں منور...
اس لیے تو یہ کلام  حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل پر اترا اور حق والوں نے تب بھی بیعت کی 

تصور میں جائیں صدیوں قبل تو احساس کی چاشنی احساس دلاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تو تھے ہم. وہ ہمیں محبت سے دیکھ تو رہے تھے ان کا دل تو آنے والے نفوس کو جانتا تھا. ہم تو خود سے محجوب تھے مگر ان کے سامنے تھے  آج ہم جو درود بھیجتے ہیں آج دل ان کا نام لیتا ہے یہ اس وجہ سے ہے فقط انہوِں نے دیکھا انہوں نے ہم پر نگاہ کی. ان کی نگاہ سے یہ دل شق ہوگیا .. بس جس کو یاد آگیا وہ زمانہ اس نے کیا سجدہ 
محمد ص شمع عالم ہیں.
محمد ص سرور عالم ہیں.

Friday, January 29, 2021

حبیب ‏جان ‏قرین ‏ہے

حبیب دل میں رہا ہے 
قرینِ جاں وہ رہا ہے 
کون ہے وہ پتا بتاؤ؟
نَہیں!  حجاب اچھا 
نہیں اچھا نقاب!  
پاگل ہو تم،  سب دید میں ہیں 
محو لقا ہیں 
گم دیوانے ہیں 
مے خانے پیمانے میں ہو 
تم کو دیوانے کہتے ہیں 
میخانے پیمانے میں ہیں 
دل میں رہتے مستانے ہیں 
یہ دل مکین جانب اطہر ہے 
شاہ دو جہاں کا یہ اثر ہے 
دنیا کی دل میں اک قبر ہے 
دنیا نبھانی اب اک  جبر ہے 
دنیا میں رہنا؟  ارے حذر ہے 
دنیا مٹی ہے اور دل پاؤں ہے 
رکھی کسی نے یہ چھاؤں ہے 
رحمت کی بدلی چھائی ہے 
رحمت سے دنیا پاؤں میں ہے 
کملی والے نے لاج رکھی ہے 
صدائے دل میں بات رکھی ہے 
وہ کون ہے جس میں جلوہ حق نما ہے 
وہ کون ہے جس کو غازہ کہا دنیا نے 
غازہ حق لیے وہ شہپر جبرئیل لیے ہے 
دل کو دیکھو یہ بابرکت قندیل لیے ہے 
وہ محمد کا نور ہے دل پر نوری ہالہ ہے 
یہ شیریں درود ہے کہ درود کا پیالہ ہے 
دل میرا جھکا ہے  کہتا ہے شہ والا  ہے 
دل کی زمینیں ہیں 
دل کے افلاک ہیں 
دل پر رحمت کی بدلی ہے 
دل پر جنبشِ مژگان نے نم کردیا یے 
نم ڈالتے ہیں وصل کرتے ہیں ہم 

میں نے محبوب سے پوچھا تم کہاں تھے؟  کیوں نہیں ملے اس سے قبل؟ کتنا رلایا تھا ...رات جگایا تھا مگر نہ آئے تم ...اب تم آئے ہو جب دجلہ سوکھ گیا ہے جب بادل پانی کھوچکے ہیں جب بینائی نے آنکھ کھودی ... ظلم ہوا نا مجھ پر ... محبوب پیارا ہوتا ہے محبوب آنکھ ہوتا ہے آنکھ ہے روشنی ہے ...آنکھ اسم ذات ہے محبوب اسم ذات ہے محبوب بندگی کی وہ روشنی ہے جو ھو بن کے دل میں جل.رہی ہے. رحمت کی جل تھل ہے کہ جل جل بجھ بجھ کے جل رہی ہوں. کملی.والے نے پناہ دے رکھی ہے میری ذات میں شام رکھی ہے دل رات کی ہتھیلی میں ہےاور سورج کی تابش میں جلن نے دل جلا دیا 

جل گیا دل.اور بچا کیا؟ 

تو بچائے کیا آئنہِ دل؟  دل تو بچا ہی نہیں ہے دل کسی کی یاد میں فنا ہے ... فنا ہونے کے لیے محبوب چاہیے ہوتا ہے اور جس دل کو طالب نہ ملے وہ مطلوب نہیں ہو سکتا ...
جس.کو.مطلوب نہ ملے وہ طالب نہیں اچھا 

طالب بن جا مطلوب پاس ہو 
مطلوب ہو جا کہ طالب پاس ہو 

یہ قاب قوسین کی.رمز نرالی ہے ...ہم ان کے سائے میں ہیں یہ حکمت نرالی ہے ...یہ ثمہ دنا کی.رفعت بن مطلوب حاصل نہیں ہوتی ہے ...مرشد کا سینہ.قران ہے جس کو سینہ نہ ملے اسکو پناہ نہیں ملے گی ... اپنے آپ کو بچالو محبت سے ...

اے محبوب تم نے کتنے واسطوں، کتنے سلسلوں میں بات کی؟
تم کو دوئ میں جا بجا دیکھا 
تم کو خود میں نہاں دیکھا 
اے محبوب بتاؤ کہاں کہاں نہیں دیکھا .. باہر ہو تم ..اندر بھی تم ... تمھارے نام کی شمع جلتی ہے دل میں تو نام اللہ نکلتا ہے. تسبیح دل والی پڑھو. تسبیح کیا ہے؟

محبوب کہتا ہے کہ تسبیح دھیان ہے دھیان میں آجاو ..دھیان فکر ہے اور افکار میں وسعت ہے وسیع ہوجاؤ لامحدود ہو جاؤ عشق لامحدود ہے اور تم کیسے دھیان محدود کیسے کرسکتے. تم کو رفعت پر جانا ہے اور بے انتہا کی شدت میں گم ہونا 

اے  بیخودی ہم کو تھام لے 
اے خودی تجھ میں گم ہیں 
یہ خودی سے ابھرتا جنون ہے 
روح گم ہے اور گم کس جہان میں ہے 

اچھا.محبوب کہتا ہے کہ جام وحدت پی لے اور کہہ دے دوئی نقش ہے جھوٹا اور کردے عشق سچا. 

دل بتا تو سہی کہ عشق سچا میں کیسے کروں؟  تو خود اسم دعا بن کے مٹا دے جھوٹ دل کا اور ہو جا مجھ میں بس اک تو سچا 

حق سچا اللہ ہے 
محبوب میرا اللہ ہے 
محبوب وہ ہے جو اللہ سے ملا دے 
اللہ.اللہ اللہ کہو 
اللہ.سے اللہ ملے گا 
اللہ کہنے میں رمز پوشیدہ ہے 
ذات خود میں پہچان کرچکی ہے 
یہ معرفت وہ حاصل کرچکی ہے ...

محبوب ‏قاتل ‏ادا ‏ہوتا ‏ہے

"������محبوب قاتل ادا ہوتا ہے . اسکا حُسن ایسا ہوتا ہے.  مصور نے محبوب کو تراشا ہوتا ہے ایسی طرز سے کہ اسے دیکھ کے خدا یاد آتا ہے. جو اللہ کہتا ہے اسکو قلم مل جاتا ہے اور تعریف مل جاتی ہے ..   

سوال یہ ہے کہ محبوب قاتل ادا کیوں ہوتا ہے؟  

وہ پیدا ہی دلوں کو گھائل کرنے کے لیے ہوتا ہے. دل اس کو چاہنے لگ جاتے بنا کسی واسطے کے اور بنا کسی لیل لعت کے. اس چاہت پر روک ٹوک������������������� کے کس لیے ... قاتل ادا کیونکر ہوتی ہے کیونکہ حسن رکھتی ہے. جہاں جہاں حسن ہے وہاں وہاں اللہ اللہ .. گویا حسن حسن میں اللہ ہے ..اللہ حسین ہے اور اللہ کسی جبین پر چمکتا ہے وہ جبین کونسی ہے؟  وہ جبین ایسی ہے کہ ہر قندیل نے ان کو سجدہ کیا اور ساجد ہوگئے ... 

وہ قندیل پاک محمد ص کی ذات ہے، محبوب کی ذات جلوہ گر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کسی دل کی قندیل ساجد ہے. یہ آیت سجدہ کی تلاوت ہے. دل جب تلک آیت نہیں ہو تب تک بات روایت نہیں ہوتی اور لب پر شکایت نہیں ہوتی  ... اس قندیل پاک سے بات روایت نہیں ہوتی ہے. وہ مجسم ہیں وہ منور ہیں. منور کون ہوتا ہے جو سورج ہوتا ہے.  

الشمس کی زمین ہے،  
دل میرا رگِ التین ہے 


شمس کی بات ہے اور شمس کی بات جب ہوگی حسن بنٹنا شروع ہوجاتا ہے. وہ پیارا جان دینے والا جان دیتا ہے .. سادات دل میں جمع ہے کہ سید دل میں جان قرین ہے ..

جمعہ کا نزول ہوگیا اور جمعہ نازل ہوجائے تو بات بن جاتی ہے. جمعہ ایسا دن ہوتا ہے جو رات سے مبراء ہوتا ہے اس میں چاند ستارے وحدت میں ہوتے سورج میں حجاب لیتے ہیں .. سورج وہ ہے جس کا نور مکمل.ہوگیا .. جس کا نور مکمل ہوگیا اس نے قرات قرانی سے حاصل کیا ... قرات خود خدا کراتا ہے وہ ایسی قرات کراتا ہے کہ کچھ بھولتا ہی نہیں ہے ... 

Tuesday, January 26, 2021

سوال

کون زمین کا حال پوچھنے نیچے آتا ہے۔۔اور جو ہمارے ساتھ ہے وہ پھر کون ہے جو کہتا ہے میں تمہاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں۔
Tahir Nazeer

آپ کا جواب جوابی تبصرہ کے کیریکڑز پار کرچکا تھا اس لیے الگ اسٹیٹس میں جواب دینا پڑا 

ہماری شہ رگ سے قرین اللہ ہے مگر حکم کیا دیا گیا ہے 

سورة الحديد, آیات: ۴

هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے

مومن کا دل عرش الہی ہے ....  وہ فرماتا ہے دل میں وہ سماتا ہے اس لیے دل میں یا تو اللہ سما سکتا ہے یا دنیا ...

انسان جو ہے وہ اک یونٹ ہے یا نینو ڈسک ہے پوری کائنات کی. جو کائنات میں موجودات ہیں وہ اس نینو ڈسک میں بھی ہے .. یعنی باہر تو وہ ہے پر اندر بھی ہے. اللہ درحقیقت خیال ہے  خیال بذات خود اک نور ہے. سوچ و خیال میں فرق ہوتا ہے  باہر جو تجسیمی اشیاء آپ کو دکھائی دے رہی ہیں یہ سب کا سب اسکے خیالات کی کرشمہ سازی ہے اس نے ارادہ کیا یعنی خیال تھا وہ وجود میں آئی اشیاء ..  یہ تو ظاہر ہوگیئں اشیاء ... ظاہر کے درون میں کون ہے؟ جب سب کارخانہ ء قدرت اس کے خیال کی تجسیم ہے تو سب اشیاء میں کس کا خیال موجود ہے 

سورة الحديد, آیات: ۳

هُوَ ٱلْأَوَّلُ وَٱلْءَاخِرُ وَٱلظَّٰهِرُ وَٱلْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ

وہ (سب سے) پہلا اور (سب سے) پچھلا اور (اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر اور (اپنی ذات سے) پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے

وہ ظاہر ہے 
وہ باطن ہے 
آپ ظاہر ہو یا میں ظاہر ہوں اور میں کاریگری کس کی ہوں؟ میں اس کے خیال کی تجسیم ہوں. یعنی مجھ میں اسکا خیال موجود ہے ..

کائنات کی ہر شے اس کی تسبیح بیان کرتی ہے. یعنی ہر شے اللہ کی وحدانیت میں گم ہے 

سورة الحديد, آیات: ۱

سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ

جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتی ہے۔ اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے
ہر شے محویت میں ہے. ہر شے کا دھیان اللہ ہے. اس لیے کائنات کا نظام آٹومیٹک طریقے سے چل رہا ہے. حضرت انسان کو اس نے نفس دیا. باقی اشیاء جو اس میں محو ہیں ان کے پاس نفس نہیں ماسوا جانوروں کے ..... اس نفس کی وجہ انسان کے باطن میں موجود خیالات کی لطافت مٹی کی کثافت میں دب جاتی ہے. اس سبب اشغالات کروائے جاتے .. مگر بوقت تہجد اللہ کثافتِ دل کو خود ہٹا کے یا حجابات ہٹا کے جلوہ افروز ہوتا ہے اس لیے فرماتا ہے 

سورة المزّمّل, آیات: ۲

قُمِ ٱلَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا

رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات

رات کا قیام تہجد کا ..اس وقت اللہ انسان کے قریب ہوتا ہے اس لیے انسان کا اللہ سے ربط بہت آسانی سے بن جاتا ہے ... اس وقت کرنا کیا چاہیے 
سورة المزّمّل, آیات: ۸

وَٱذْكُرِ ٱسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا

تو اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو اور ہر طرف سے بےتعلق ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہوجاؤ

اسکو اس کے ناموں سے یاد کرو ...وہ نام کیا ہیں. اک تو اسم ذات اللہ ہے 

سورة الحشْر, آیات: ۲۲

هُوَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ هُوَ ٱلرَّحْمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ

وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

سورة الحشْر, آیات: ۲۲

هُوَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ هُوَ ٱلرَّحْمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ

وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سورة الحشْر, آیات: ۲۳

هُوَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْمَلِكُ ٱلْقُدُّوسُ ٱلسَّلَٰمُ ٱلْمُؤْمِنُ ٱلْمُهَيْمِنُ ٱلْعَزِيزُ ٱلْجَبَّارُ ٱلْمُتَكَبِّرُ سُبْحَٰنَ ٱللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ

وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی) پاک ذات (ہر عیب سے) سلامتی امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ خدا ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے

سورة الحشْر, آیات: ۲۴

هُوَ ٱللَّهُ ٱلْخَٰلِقُ ٱلْبَارِئُ ٱلْمُصَوِّرُ لَهُ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ يُسَبِّحُ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ

وہی خدا (تمام مخلوقات کا) خالق۔ ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اس کے سب اچھے سے اچھے نام ہیں۔ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے

پھر وہ یہ بھی فرماتا ہے 

اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم 

ھو اک جانب اشارہ ہے ذات کی طرف 
ھو ہمیں فکر/ دھیان کی تعلیم.دے رہا ہے کہ اللہ کو سوچیں کہ اس کی ذات کہاں کہاں کن صفات سے جلوہ گر ہے 

دھیان کا مقام دل ہے 
دھیان کبھی بھی دماغ سے نہیں ہوتا 
یعنی اس کے تصور میں کھو جانا ہے 

جب انسان اس کے تصور میں کھوجاتا ہے تو انسان اس کی تصویر ہوجاتا ہے اور وہ مصور 
ھو المصور 
پھر وہ انسان کو وہ بناتا ہے جیسا اس نے اللہ کے ذاتی ناموں سے اسکو سوچا ہوتا ہے
یہاں پر آکے یہ بات مکمل ہوجاتی ہے 
ھو الظاہر ھو الباطن 

اللہ ہرجگہ ہے اللہ کہاں کہاں نہیں ہے 

کسی بات میں کوتاہی ہوئ ہو تو معافی چاہتی ہوں. آپ خود اہل علم ہیں اور ہم جیسے آپ سب سے سیکھ سیکھ کے جواب دے پاتے ورنہ آتا جاتا کچھ نہیں

Monday, January 25, 2021

افکار

چل اس نہج کہ زمین کی گردش تھم جائے اور افکار کے سلاسل مل جائیں. کچھ مل جائے تو دل ہِل جائے. دل کو صدا سنائی دے یا چہک اس بلبل کی جو زمن در زمن ساتھ میرے ہے. زمانہ تو میرے ساتھ ہے تو میں کون ہوِں. مجھے افلاک کا سینہ چیر کر دکھایا جائے تو دل گویا ظاہر ہوجائے. ایسے ممکن نہ تھا کہ مکان گویا مکین کے بنا.ہو. مکین ساتھ ہو.تو زمانے ساتھ ہوتے ہیں ..  مکین سے پوچھا جائے کہ زمانے ساتھ ہیں تو اس مکان کی حیثیت کیا ہوگی. مکان والے بڑی شان والے ہوتے ہیں اور شان کریمی سے پردہ بڑا رہ جاتا ہے. فہم سے مدبر ہوتا انسان خود میں دربار ہوجاتا ہے. دل میں مکین ہو شاہ اور حجاب رہے تو حضرت انسان پردے سے ہچکچاتا ہے  ہچکی لگی رہے گی تو زمین خالی نہ رہے گی. سیلاب زندگی کا عندیہ ہیں اور تخریب کا صدقہ بھی  یہ تلاطم وجود میں جب بھرپور ہوتے ہیں اور شور میں ہیجان آتا ہے  شور کہتا ہے کہ  چل جانب منزل  چل اس متناہی سلاسل سے لامکان کی منزل پر جہاں تجھ پر حقائق ہائے ھو کھلیں  جہاں شور میں سکوت اور سکوت میں شور ہوجائے  دل میں بس اک صدا ہو بس جناب وہ کہیں گے 

یا محب و محبوب 
یا مطوب و طالب 
یا عاشق و معشوق
اے طواف والی ہستی 
مطاف میں بٹھا 
مطاف میں نور ہے 
نور جانے کس کا ہے 
نورِ من تو سن!
طورِ دل بتا تو 
کہ انگلیاں کٹ گئیں 
بنا دیکھے حسن کی تابش 
دیکھیں گے تو حال کیا ہوگا 
یہ جلوہ حضور 
مجھے کرے مہجور 
وادی عشق میں طیور 
ان کی جانب ہیں ضرور 
مٹ جائیں دل کے فتور 
دل کو مل جائے صبوری 
راقم سے ہو بات ضروری

عشق ‏تے ‏عطر ‏ہن ‏رلن ‏ھو ‏

عشق مشک دی خوشبو !ھو!
عشق  تے عطر ہن رلن! ھو!
عشق  کستوری توں ودھ کے! ھو!
عشق گلُ گلُ لبیندا !ھو!
عشق عاشق نوں سجیندا! ھو!
عشق رفعت دی نشانی! ھو!
عشق سچی ذات دی کہانی! ھو!
ایڈا عطر بازاروں لبدا نہیں!
جیہڑا انہوں لا لوے
ہوش خود دا رہندا نئیں
عشق پردیس کٹن دا نم ہے
درد نوں سینا کٹھن کم ہے

جنگل میں دُور دُور چلی جارہی ہوں ۔مستی مجھے گھُمائے جارہی ہے ۔  اپنے راہ چلے جارہی ہوں ۔عشق کی مستی میں گھما دیتی ہے!  گمان یہی ہے کہ رنگ و بُو کی محفل سجنے جارہی ہے خانہ کعبہ ! میں خود کو خود میں  سجدہ کرتی ہوں !  اندر ایک کعبہ ہے راس کو سجدہ کیے جارہی ہوں ! شاید یہی نماز عشق ہوتی ہے جو چین چھین لیتی ہے .. یہ نور محمد صلی علیہ والہ وسلم کا ٹھنڈا ٹھنڈا احساس ہے جو رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے ہے !  

پُھول میرے ہاتھ میں دیا گیا ہے ! یہ خاص پھول ہے جس کے عطر سے کستوری کی مہک آتی ہے ! مہک میں نے کبھی محسوس نہیں کی مگر آج تو محسوس ہو رہی ہے !

عشق نے عنبر کردیا
مجھے خود میں عطر کردیا
جذب عطائے ربی ہے
عشق کی ازلی نشانی ہے
وہ کشش کا اصل منبع
مل رہا ہے نور کو نفع
رنگ و نور سے سینہ بھرا
ہر روح کا محل دِل میں بنا
ِدل جگمگ تارہ نگینوں کا!
حقیقت کو جو بھی پائے گا
چھوڑ جھگڑوں کو پیار کمائے گا
آج رنگ کی محفل لاگے ہے
سبھی چشمے مجھے میں بہے ہیں
رنگوں نے دل کو سجا ڈالا ہے
روح کو اپنے یار سے ملا دیا ہے

روح میری بہت تڑپتی رہی جب اصل سے جدا ہوئی تھی ۔ یہ بہت تشنہ بہ لب  ہے ! اپنے اصل کی طرف لوٹ کے جانا چاہتی تھی ! بڑا عرصہ گزرگیا ، یہ احساس موت جیسا جان لیوا ہے!
یہ محض خیالات نہیں ہوتے جب اہل وطن دیار غیر میں دکھائی دیتے ہیں ... ! جب میں ان کو دیکھتی ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ آج رنگ و نور کی برسات ہے ! 

دل مانند اندھیرے غار کی طرح ہے اور روشنی داخل ہوا چاہتی ہے....یہ محسوس ہوتا کہ پہاڑوں پر قندیل رکھی گئی ہے جس سے ہلکا ہلکا دُھواں  کسی  چھوٹے سے سوراخ سے نِکل رہا ہے ! یہ دُھواں اوپر کی جانب اُٹھ رہا ہے ... گمان تو یہی ہوتا ہے کہ  یہ قندیل میرا دِل ہے !
دل مانند اگر بتی جل رہا ہے اور مہک رہا ہے  !  کیا خبر تھی کہ دِل خوشبوؤں کا مسکن بنا دیا جانا ہے ! میری ذات عِطر عِطر کر دی جائے گی !

عشق دی بوٹی رچ مچ گئی اے میرے اندر
پنڈا اندروں ایویں ہلدا جیوں پتر ہلدےہوا نال
ایس عشق دا بالن جدوں اندر اے بلدا
میرا رواں رواں ایدھے نال اے بلدا
ہر ویلے تسبیح عشق دی پڑھیندی آں
مرشد مرا عشق  اے سچا کہندی آں
دیوا عشق تیرے دا خورے میرے اندر بلدا
سب نوں لگدا نوراے میرے لفظاں توں ڈلڈا
قران تیرا جد لایا سینے نال
لگیا نور مدینے دا سینے نال
نال نگاہ دے دل میرا رنگیا ای
تجلی ہکوں نالوں سینہ مدینہ کیتا ای
جھلی بن تیری ہن نگر نگر پھردی آں
نور ہن کدی نہ چھٹے اے در کہندی آں

Sunday, January 24, 2021

سچی ‏الوہی ‏کیفیت

یہ سچی الوہی کیفیت ہے جو ازل سے عطا کردہ ہے!  دھیان کی قوت ہے نا اس سے ناجانے کتنی تمناؤں کا سینے چاک ہوئے تو کتنے یار فنائیت سے دار بقا کو چلے. دل تو  نور  ہوتا ہے، یہ خود اک تجلی  کی  طرح ہے،  دل کا دھیان مٹی میں کیسے ہوسکتا ہے؟   مٹی سے ہو تو اس میں دل ٹوٹ جاتا ہے بار بار .... اب کہ  دل کی یکجائی کا پیالہ ٹوٹ گیا کہ حق کے سوا کچھ سچا نہیں!  یہ حق کی موج!  یہ موجِ حق جو سینے میں پیوست ہے.... یہ نشان جو مجھے کھینچ رہا ہے یہ تو  "ھو " ہے. یہ نجانے کس میں ظاہر ہے... ذات کی فنائیت یونہی ہوتی ہے
 

عشق کا قصہ صدیوں سے سُنتے آئے ہیں.  محبت کی یہ داستان اتنی مقدس ہے جتنا اک مجذوب کا دل!  عشق ماشاءاللہ قصہ ہے کٹھ پُتلیوں کا ہے مگر تماشائے الفت سر بازار کون لگاتا ہے؟  یہ ہم ہیں جو دھاگے گھُماتے ہیں، دوڑیاں ہلاتے ہیں تو بو علی کا نقارہ بجتا ہے تو کبھی امیر خسرو کی بات سُنی جاتی ہے تو کوئی صابر کلیری کی طرح عالمِ سکر میں گُزر جاتے ہیں. کچھ ایسے ہیں جن کے لیے زمانہ کٹھ پتلی کی مانند رقص کرتا ہے یہ شہباز قلندر پرواز کرتے ہیں ... عشق کا کلمہ کسی تسکین کی اوسط نہیں مگر یہ ساز سوز صدیوں سے قلندروں سے بجتا آیا ہے
 
 یہ جو  قلندر ہوتے، یہ  مثل نور ہستم ہوتے.  یہ مجاز کے پرندہ ، مٹی میں قید ہوتے .... جذب ان کو مسحور کرتا ہے، یہ اللہ  کے نور میں روشن زیتون سے بنا اک نسخہ ہوتے ہیں،  جسکو اس نے انجیر کی خشک بوٹی سے توانا کیا ہوتا ہے .. سودا،  جنون خاکی کو سُلگاتا ہے.  باہر کی آگ کچھ بھی نہیں  جو باطن میں آگ لگ جائے ... باہر کے آبلے کچھ نہیں اگر اندر کا.شیشہ چور چور ہو ....
 
 کسی کو عشق میں فنائیت کیسے ملتی ہے؟   جب تک ایک سچی آیت نہ ملے.. وہ آیت رہنما ہوتی ہے .. وہ راستہ جو حقیقت کی جانب لیجاتا ہے، یہ آیت اس سے ملاتی ہے .. یہ سیال جو آگ بن کے راہی کو جلاتا ہے یہ پارہ جو تھر تھر  کانپنے پر مجبور کیے دیتا ہے،  یہ  استاد کی ہستی سے ملتا ہے .
 
استاد کیا کرتا ہے؟ وہ غلامی کے اصول ازبر کراتا ہت  .... دل زنگ آلود کو صیقل کرتا ہے... رمز ہے پوشیدہ ہے کہ وہ علم جو ظاہر سے ہو، وہ سارا لُٹ جاتا ہے،  وہ جو استاد کا علم ہوتا اس کا قطرہ مل جاتا،   اس قطرے میں کتنا اضطراب ہے!  اس میں کتنی تپش ہے!  یہ صحرا کی دھوپ میں کوئلے کو ہیرا کرتا ہے!  روشنی پھر وجود کا حصہ بنتی ہے اور  کہا جاتا ہے
 
 حیدری ہیں! قلندر ہیں!  غلام ہیں!  غلام ابن غلام ہیں ...  خون کے قطرے قطرے میں لا الہ کی تسبیح ہے!   دل میں شاہا کی تسبیح ہے!  کہیں یسین! کہیں حم!  کہیں طسم!  کہیں مزمل!  کہیں مدثر تو کہیں الم!  کہیں طس!  ہر حرف راز میں پوشیدہ راز اک خاص ہستی سے منسلک ہے !  
 
 عشق مانند برق لہو بن کے دوڑتا ہے!  یہ اصل مقناطیس کی قطبی کشش ہوتی ہے! ہر انسان کا قطبی ستارہ نایاب ہوتا ہے مگر جب وہ مل جاتا  ہے تو راستہ سیدھا ہوجاتا ہے!  یہ سمت دیتا ہے اورکہا جاتا ہے:  تو قطب ہے!  تو شاہ ہے!  تو عالی ہے!  

 قربانی کا وقت مقرر ہوتا ہے اور وقت کے مذبح خانے میں اپنا قیمتی جوہر لٹانا ہوتا ہے اور یہی کہا جاتا ہے
 
 حیدری ہیں!  حسینی چراغ ہیں، جسکی لُو علی(رضی تعالی عنہ)  سے جلا پائی اب وہ لو ایسی روشن ہے کہ سر تا پا مجسم شمع جل رہی ہے گویا دل اس سے اتنا جلایا جاتا ہے کہ کوئلہ ہوجاتا ہے!  دل کو روشنی اتنی ملتی ہے کہ منظر جو اندھیرے میں ہوتے ہیں  روشن ہوجاتے ہیں 

آپ نے سوچا طسم کیا ہے لباس بندگی میں دید کے بعد طلوع آفتاب کی روشنی لیے مجلی ہستی جسکو پیامبری دی گئی،  موسی علیہ سلام کا آگ لینے جانا،  دید میں گم لوٹ آنا، آگ کو خود میں لپیٹ لینا!  مگر رحمن کی رحمت وہ ہے جس کے درمیان "ت " اور " ن " کا فرق ہے!  
 
 احترام کے پانی سے وضو کرتے استاد سے ملا جاتا ہے اور  سر بہ قدم چلا جاتا ہوں کہ فنائیت   ہستی کی ہوتی ہے!  یہ قاف جو عشق کا ہے جس میں دل قبلہ بن جاتا ہے!  منزل نماز کے بعد منزل جہاد ہے!  نفس سے لڑنا!  مگر اے دل تو ہے تو پہچان ہے!   

لکھنا تو بہانہ ہوا وگرنہ میں تو اِظہار میں مجسم ہوجاتی ہُوں.  میری محبت میں کھوٹ نہیں ہے!  میں تو بس اپنے یار کی آمد پر رقص کروں گی!  جس وقت مجھ پر نظر کی جارہی تھی اسوقت میرا خیال تو خدا تھا. یہ حادثہ ہوا میں خُدا تلاشنے نکلنے نکل پڑی ....
 
 خدا کہاں ملے گا؟  عرش معلی پر و عرشِ حجاز پر؟  عرش کے پاس جو پانی ہے اس پانی میں عکس کس کا تلاش کروں؟  انسان تو پہلے ہی خدا کے زیرِ سایہ ہے بس پہچان کا دُھوکا ہوتا ہے!  وہ روح ہے اور میِں اُسے ڈھونڈ رہی ہے پتھر  سے برق نمودار ہو اور مجھے اُچک نہ لے!  وہ شجر جس پر خود وہ ایستادہ ہوا تھا کہیں وہ شجر میں تو نہیں ِ؟  

 وہ بی بی مریم!  پاکباز،  پاک طینت!  ایسی کشش ہے ان میں لگتا ہے کہ میں انہی سے نکلی ہوں!  انہی کا خمیر ہوِں!  انہی کے سائے میں چلتی ہوں!  وہ جب جب میرے من کے دریچوں سے جھانکتی ہیں تب میں خوش بختی پر نازاں ہوتی ہوں!  اک عجیب سا احساس ہے ان کا جیسے ان کا تبسم مجھے اپنی جانب کھینچ رہا ہے یا لگ رہا ہے اپنا دل ان کے دل سے لگا دیا ہے جیسے دو روحوں کا ملن ہو تو عجب ہو ان کے ساتھ لگ کے ان کو محسوس کررہی ہوں اور روتی ہوں ... ان کا لباس سفید ہے بالکل سفید!  وہ خدا سے عشق کرتی ہیں انہوں نے مجھے بتایا خدا دل میں موجود ہے میں نے ان سے سوال کیا ہے جلوہ کہاں ہوگا؟  جلوہ جب ہوگا تب پوچھنے کی نوبت کہاں ہوگی!

احساس ‏کلیمی

احساس کلیمی کو دیکھنا چاہو تو لال لباس میں کبھی موسی علیہ سلام سے ملو!  ان کو دیکھو تو لگتا ہے وہ اک ایسی ہستی ہے جن کی جلال سے بھرپور ہستی ہے!  مگر یہ تبسم ان کا اک عنایت ہے وہ جو میں نے ان سے پوچھا خدا کہاں ہے؟  تو بولے کہ خُدا سچ کے پیچھے ہے . خُدا سچی داستانوں میں پوشیدہ ہے!  لعل رنگ کے لباس میں گھنگھریالے بال لیے ہاتھ میں عصائے الہی الیے،  وہ دراز قد بزرگی کی چادر پہنے تھے!  میں نے کہا آپ نے تو جلوہ کیا ہے خُدا کا؟  یہ لباس جو لعل ہے یہ اس کے دید کے حامیوں کو ملا ہے!  خُدا کیسے ملے گا؟  بتائیے!  خُدا انسان میں پوشیدہ نورانی آیات میں ملے گا!   خدا خضر سے رستہ پُوچھ کے ملے گا!  دست شفقت سر پر رکھتے جب میں اس باریش بزرگ کی جانب گئی جسکے جسم سے نکلنے والا نور آنکھ چندھیائے دے رہا تھا ... ـ میں قدم بڑھاؤں تو پاؤں جلتے محسوس ہوں!  ان کے جلال سے دل جلتا سا محسوس ہو!  ان کے رعب سے غلبہِ ہیبت نے مدہوشی سی طاری کردی .... یوں لگا موت واقع ہوگئی!  میں نے مست نگاہی سے پوچھا!  یا عیسی علیہ سلام!  خُدا کہاں ملے گا؟  خُدا "الم " کی ہستی میں الوہی نُور ہے!  خدا مجسم نہیں مگر مجسم محمد صلی علیہ والہ وسلم میں ہے!  وہ خاکی لبادہ! خدا نور سے پرنور گنجینہ!  تو میں مدینہ کیسے جاؤں؟   وجدان کے پَر قوی ہوں تو پرواز کرتے کرتے

 یہ عشق جس کی طاقت خیال ہے گویا دل خود میں اک طور ہے!  یہ طور خیال کے سینے کے نور سے پہنچا جب خیالات باہم مل جاتے ہیں!  خیال جس نے  اپنے نور سے جلا دیا جانے کتنی دفعہ اور جلال میں سے ناسوت کو علیحدہ  کردیا .... میں نے  پوچھا خدا کہاں ملے گا تم نے مجھے بتایا الم کی ہستی میں .....، جب حـــــــم کی حــــــ سے قربانی بعد حج کرو تو دل میں حیرت بھی حـــــــم کی تجســـــــیم ہوتی ہے! الـــــــم ............. کُنجی ہے! یہ خزانـــــــہ ہــــے

عشق ‏کی ‏الف ‏میں ‏کیا ‏کیا ‏ہے


جوگ پالنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے رانجھے کو ڈھونڈنا پڑتا ہے ، رانجھا مل جائے تو اُس کے لیے رانجھا ہونا پڑتا ہے ۔خاک چھانیے یا دربدر پھریے ! نگر نگر بھٹکیے ، اُس کو مظاہر میں ڈھونڈیے ۔۔۔۔ ہر مظہر کے باطن میں جھانکیے ، گویائی نا ہونے کے باوجود ہرشے  اس سے باتوں میں مصروف ہوں ۔ درخت کی لکڑی زمین کی نیچے بھی اتنی ہے ،جتنی زمین کے اوپر ہے ، سورج اور زمین کی کشش میں درخت برابر قوت سے نمو کرتا ہے ۔رانجھا ڈھونڈیے ! اندر کی مٹی ، باہر کی مٹی سے ربط کیجے ! کسی کو باہر کی مٹی سے مل جاتا تو کسی  کو اندر مٹی سے! کشش دونوں جانب متوازن ہو تو محبت کے دَرخت پر عشق کی بیلیں پھوٹتی ہیں ، سچائی کی تلاش میں ،سچ کا کڑوا گھوانٹ ، دھیمی آنچ پر پکنا چاہیے ! دھیمی لوُ پر چلتی ہانڈی کا ذائقہ بڑے سواد کا ہوتا ہے ، تن کی ہانڈی میں جذبات کی آگ کی دھیمی آگ سے ، عشق کے اظہاریے  کو اُبھاریں یا ابھریں تو ایک مصور کی ذات بذات خود تصویر ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔جب تصویر کی روشنی ملے تو جانیے کہ وصل ہوگیا !

وصل گوکہ لطف و کیف کی سرشاری عطا کرتا ہے مگر عُشاق کے لیے ہر قدم سلگنا ، ہر قدم امتحان بن جاتا ہے ۔ گومگو کی کیفیت عشق میں کبھی پیدا نہیں ہوتی ہے اس لیے عاشق کے قدم آہستہ آہستہ بُلندی کی جانب اٹھتے ہیں ! جب اٹھتے ہیں تو تھمتے نہیں !جب تار ہلایا جاتا ہے تو درد سے راگ چھڑ جاتا ہے ، عاشق کی ذات بھی ایک ساز کی مانند ہوتی ہے ، عشق سرمدی نغمہ ، سُر جس کو دینے والی ذات صاحبِ امر ٹھہری ! وہ چاہے تو قربان کردے ، وہ چاہے تو قربانی لے ! وہ چاہے تو وصل دے ! وہ چاہے تو ہجر سے کبھی نکالے ہی نا ! وہ چاہے تو بس ایک ''کُن '' کی محتاج ساعت اپنی منزل کی جانب روانہ ہوجاتی ہے ۔ عشق  اکی پہلی منزل عبادت ہے مگر  ایسی عبادت جس کا ظاہر نہیں ! ایسی جو دکھتی نہیں ہے ! ایسی جس سے خلق کو فائدہ ملتا ہے ! ایسی جس سے انسان پھر سے جی اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں عاشق عابد بہت کم ہیں ! دنیا میں معلم عالم بہت کم ہیں ، دنیا زاہد و عابد اور مبلغ عالم سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔ عشق کے سوت تو باطنی ہیں ، اس لیے عبادت عشق کا ظاہر وہی دیکھ سکتے ہیں جو عشق میں ہیں

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اس عبادت سے فائدہ کیا جس سے مخلوق کو فائدہ نہیں ملے۔ ہمیں سُنانے والے منبر پر بیٹھ کے اچھی باتیں سناتے ہیں ، وہ بھلائی میں مصروف ہے کیونکہ دل پھر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ نے اسی ایک رات کے سیکھے کو آگے پھیلایا تو آپ کامیاب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بندہ بھی جس نے اچھا سبق دیا مگر آپ پھیلا نہیں سکے اور اصرار پر رہے تو جان لیجئے کہ آپ کے استاد کی بات کی تاثیر کھوچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔بات میں تاثیر ہو تو لفظ ''الف'' ایسی ضرب لگاتا ہے کہ ''ب '' کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اور الف ۔ ب کا علم نہیں تو ''م ، د '' کا علم کیسے لو گے ، اگر تم نے علم نہیں حاصل کیا تو مجھے پہچانو گے کیسے ؟ اگر پہچانو گے نہیں تو میری طرف کیا خالی لوٹو گے ؟ اُس نے امت محمد صلی علیہ والہ وسلم کی امت میں عشق کو مرشد بنا دیا ہے ،


[CENTER]عشق مرشد تو ہست نابود ،
عشق مرشد تو مستی کا جمود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/CENTER]

آپ کیوں لباس کی طرف توجہ دیتے ہو ، اس کو صاف کرتے ہو مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ لباس تو خود تمھارے جسم کا محتاج ہے ، اگر تمھیں جسم کی صفائی مقصود نہیں تو شریعت کا لباس فائدہ دینے کے بجائے ،دین کو خشک کردے گی ، جب لباس معطر نہیں ہو ، اس کی خوشبو بدبُو کھینچ لے تو باقی پہننے والی قُبا بھی بدبودار ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔آج کے دور میں منافع پرستوں نے دین کو کاروبار بناتے ، دین اسلامی کی قُبا کو میلا ، بد بو دار کردیا ہے ۔۔۔

خدشہ بیٹھا ہے دل میں .. جو مجھے خوفزدہ کر رہا ہے کہ اگر ''الف'' کا علم حاصل نہیں کیا تو اس کی طرف لوٹو گی کیسے؟ اگر لوٹ گئ تو دنیا میں جس مقصد کے لیے وہی فوت ہوگئ ..کیا انسان مقصد کے فوت ہونے کے بعد زندہ رہتا ہے؟ اررے! جب حق دل میں سما جآئے تو کسی کی اور ضرورت نہیں رہتی ..یہی ''الف ''کا علم.ہے ....یہی عشق کی ابتدا ہے؟ اسی'' الف ''سے آدم کو ملی بقا ہے ..''.الف ''کو جانو گو تو جو عیاں وہ کتنا نہاں ہے ..وہ جو ظاہر ہے اس "الف " کا پردہ " ب " ہے .... تب رانجھا رانجھا کہتے بندی خود ہی رانجھا بن جاتی یے تب شیرین کا آئنہ فرہاد اور فرہاد کا آئنہ.شیریں ...کیا فرق باقی؟ نہیں نا جب دو پرتیں کھلتی ہے تو محمد صلی علیہ والہ وسلم کی حقیقت کھلتی ہے .... حقائق کب کہاں کسی پہ عیاں ہوتے ہیں؟ حقائق انسان کے دل میں ہیں ان کو دریافت کرنا پڑتا ہے .....روح کو ظاہر کیسے سبق دے گا؟ مٹی کے پوست کو مٹی سبق دے سکتی ہے مگر روح کا علم روح سے مشروط ہے ...کون جانے گا اس کو؟ حق تو دل میں ہے؟ حق کے کلمہ نے خون کو رواں کیا ہے! ہمارا عہد، قالو بلی کا، ہمارا لاشعور چلا رہا ہے ...ہم فطرتا نیک ہیں ..جب فطرت نہیں تلاش کریں گے تو جھگڑیں گے، قیل و قال میں پڑیں گے نا!!


''الف'' کا الٹ ''ب'' اور ''ب ''سے نکلی'' پ ،ت'' ۔۔۔۔۔۔۔۔'' الف'' ہمارا قیام ہے ، حالت نماز میں'' قیام ''کی حالت ہمارا عشق ہے اور ''رکوع'' کی حالت میں '' حمد ' کی بات نکلتی ہے ، ہمارا سجدہ ہمارے ''مرکز '' سے ''محبت '' کی گواہی ہے ۔''مرکز'' سے محبت کی گواہی کے بعد ''حالت تشہد'' اس کی فنا میں غرق ہوکے گواہی دینے کا نام  ہے ۔ نماز عشق کبھی کسی نے اد ا کی ہے ؟ چُنیدہ لوگ ایسی نماز پڑھتے ہیں ، چُنیدہ لوگ حج کی '' فنا'' میں لوٹنے کے بعد ''بقا'' کو پاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ رحمتِ خاص ہے جس کے بار ے میں پروردگار عالم نے فرمایا ہے

هل جزاء الإحسان إلا الإحسان..

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے ؟ اس نے تم پر کرم کیا تم اس کے بندوں کے لیے رحمت ہوجاؤ ۔۔۔۔۔۔۔رحمن و رحیم کا یہ مفہوم ہمیں قران پاک کی ہر سورہ میں ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔ذات اُحد نے اپنے بندوں کے لیے رحمت عام کردی اور کچھ پر اس کی عنایت خاص ہوئی ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی  خاص رحمت  سیدنا  حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم  پر کی اور ان کو تمام زمانے کے لیے رحمت العالمین بنا دیا  ۔ احسان کے بدلہ دیتے فرماتا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔۔۔اس کی رحیمی و رحمانی بذاتِ خود  نعمتیں ہیں

قلم

لکھتا رہے ہے مجھے قلم، سیاہی جانے کس بخت سے نصیب ہے. شام کے دھندلکے میں القران سے جاری وصیت ہے .یہ کائنات کی مجھے نصیحت ہے کہ قائم رہنا ہوتا ہے جب تک کوئ خبر منشور الہی سے نشر نہ ہو. دل کے سودے ہوجائیں تو دل اپنا نہیں رہتا  دل جسکا ہوتا ہے اس کے سامنے سر بہ خم ہوتا ہے. یہ وظیفہ ہے یہ صحیفہ ہے اور میں نے اپنی ذات کی قرات شروع کردی    ... یہ ٹھہر ٹھہر کے پڑھا قران ہے، یہ جو عمل مجھے حکمت کی جانب لیے جارہا ہے. حکیم قران پاک ہے. مجھے قران پاک نے یہ نصیحت کی ہے کہ قران پاک محبت ہے. قران کی آیت آیت محبت سے لبریز ہے. افسوس کیا گیا حضرت انسان پر کہ وہ کیوں جاہل اور نادان ہے ... اللہ نے وقت کی سب سے برگزیدہ ہستی کو کہا 

یا ایھا المدثر 

اے کمبل اوڑھنے والے ....  درون میں کملی کون سی ہوئی. کملی تھی حجاب کی. جب حجاب درز درز روشنی سے اقراء کا پیام لایا تو الہیات سے جسم مبارک لرزنے لگا ... اللہ کی شام بے نیازی والی ہے جبکہ بہترین عبد کو نیاز میں رہنا اسطرح کہ نیاز اللہ کے لیے بطور خیر ہدیہ تقسیم کی جائے. یہ الہیات کا نزول اپنی ذات کے لیے نہیں ہے. یہ ملحم آیت وارد ہوتی ہیں. وارد آیت نشان بن کے دل میں چمکتی ہے. جس دل میں اللہ کے نشان پڑجائے اللہ کے قدم تو نور حادث نور قدیم سے جا ملتا ہے اور مکمل ہونے لگتا ہے .... یہ نور وقت کے  ساتھ ساتھ مکمل ہوتا جاتا ہے ..  یہ نور جب مکمل ہوتا ہے تو کہتا ہے دل 

اللہ ہے خیال،  مجاز میں رحمن 
اللہ ہے حق،  مجاز میں رحمن 

خشیت سے جسم ایسے لرزتا ہے جیسے پتے تیز ہوا سے بکھرنے لگتے ہیں.    انسان خود میں سمٹنے لگتا ہے ..جب کملی بدل دی جاتی ہے،  روشنی مل جاتی ہے تب انسان کے لیے منصب ہوتا ہے اور اسکو عہد نبھانا ہوتا ہے ... فرمایا جاتا ہے 
قم فانذر 

اللہ کریم محبت ہے محبت بانٹنے کا حکم مل جاتا ہے. حق و باطل کے معرکے ہوتے ہیں اور حق کی جیت ہوجاتی ہے. حق سچ ہے اور سچ لازوال ہے .... قلم نے لکھا ہے کہ خدا محبت ہے. خدا کی پہچان محبت سے ہے. خدا ماں کی وہ لوری ہے جو نور قدامت کی پہچان ہے  ہم قدیم نور ازل سے اسکی تلاش میں ہے. یہ کھیل کھیلا جاتا ہے تاکہ کھوجی روح کھوج کرے اور جذب حق میں دھیان سے اس کی لگن قائم رکھے ... اللہ تو قائم ہے مگر عارف اللہ کو قائم رکھتا ہے. یہ پہچان ہے کہ اللہ العالی ہے مگر عارف ذات سے اسکی رفعت کو مذکور کرتا ہے توصیف کرتا ہے. جس کی رفعت کا تذکرہ ہوتا ہے وہ کون کررہا ہے یہ دیکھا جاتا ہے .. عارف اللہ کی وہ زمین ہے جس کو شمس کی سی تابناکی حاصل ہوتی ہے 

سنو ... خدا قدیم ہے مگر جس کے لیے نور حادث ہے اس نے نقطے کی جانب سفر شروع کردیا ہے  اس نے ع اور غ کا فرق مٹا دیا گویا نقطہ اس کی ذات ہے. یہی پہچان ہے کہ نقطے ہو جاؤ اور نقطے مٹادو ...نقطہ جس کو مل گیا اس پر الم کا نشان بطور قدم واجب ہے  یہ آیات قدم ہیں جو دل پر ایسے پڑتے جیسے گرم پگھلا لوہا ہو دل ... نشان ہوتا ہی منور ہے

Saturday, January 23, 2021

محمد ‏کی ‏میم ‏

محمد کی میم

جو یاد رہتے ہیں ، ان کو بھولا کہاں جاتا ہے ۔ جو یار بنالیا جائے ، اسے چھوڑا کہاں جاتا ہے ۔ جسے عشق ہوجائے ، وہ خود میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ خود کا ہی یار ، خود کا جوگی، روگی ہوجاتا ہے ۔ اس کا رستہ گمشدگی میں ہے ۔

ڈھونڈنے والو ! مجھے ڈھونڈ کے تو دکھاؤ ! آؤ ! مجھے دیکھو ! میرا جلوہ تو کرو !میں تمھیں یہاں وہاں کہاں ملوں ۔جنگل ، پربت میں یا مسجد منبر میں ۔۔۔۔۔۔۔دل کی سرزمین پر ہریالی کے فصلوں میں محبت کے ابدی نغمے کا سر لگاتا ہوں، میں دل میں رہتا ہوں ۔لوگو ! اس گمشدگی کو ڈھونڈو ۔ اس سے ملو ،یہ میری نشانی ہے ! خالق کی قسم ! خالق اپنے بندوں پر گواہ ہوتا ہے ! خالق نور پر گواہ ہے اور یہ گواہی  عام نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حق ھو ! حق ھو ! حق ھو !
مجھے دیوانہ کردیا ہے
ھو کی ھو نے مست کردیا
اس ھو سے جذب مل گیا
میں مجذوب قلندر ہوں
میں اس کا شاہباز ہوں
پرواز میری آسمانوں پر ہے
کون میرا راستہ جانے
کوئی نہ جانے میرا راستہ

امتحان کی نشست لگی ہوئی ۔ میں اپنے خالق کے پاس محبت کا امتحان دے رہی ہوں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں دیوانی ہوگئی ہوں ۔ امتحان تو سبھی نے دینا ہے مگر یہ کیا کم ہے کہ خالق کے پاس اس کی صحبت میں بیٹھی ہوئی ۔ اس کا نور مجھ میں سماتا جارہا ہے میں خود میں گم ہوتی جارہی ہوں ۔ نور کی شعاع نور سے ٹکراتے نور کی ہوجاتی ہے ۔ نور کے دل کو کعبہ بنا دیا ہے ۔ نور اپنے دل کے گرد شمع کی مانند طواف کیے جاتی ہے ۔ کیا ہوں میں ؟ میں کچھ بھی نہیں میں کچھ بھی نہیں بلکہ جوبھی ہے وہ میرا خالق ہے ۔ نور نے خالق سے کہا کہ مجھے اپنے پاس رکھ لے۔ نور خالق کو کہتی ہے کہ دنیا کیوں بنائی ! یہ جال کیوں پھیلایا!  اس دنیا میں پہچان کا کھیل کیوں رچایا ؟میں سوالات کے جوابات کہاں سے لاؤں میرے علم کا منبع تو وہ خود ہے ۔۔۔۔۔۔ جواب دے نا میرا  محبوب کہ پہچان کا فرق کیوں رچایا

علم معرفت عارف کی پہچان
اس پہچان میں بپا نہ کر ہیجان
ہر کسی کو نہیں ملتی معرفت
عام نہیں ذروں پر اس کی لطافت
ذرہ نے اس سے فریاد کی
کیوں رچایا کھیل معرفت کا
کسی کو شاہ تو کسی کو فقیر بنا کے
کسی کو عالم تو کسی کو جاہل بنا کے
کسی کو عاقل  کسی کو کامل بنا کے
کسی کو غلام کسی کو مالک بنا کے
رسولوں، پیامبروں کو اپنا شاہد بنا کے
رسولوں کو نبیوں کا شاہد بنا کے
نبیوں کو ولیوں کا شاہد بنا کے
کیا ملا؟ کیوں کیا ؟

عارف کو حقیقت معرفت سے ملی
پیامبر کی حقیقت کنجی سے کھلی
پردہِ مجاز میں حقیقت کے رنگ دیکھ
حقیقت کا پتا گمشدگی میں دیکھ
حقیقت میں لطف زندگی ہے معرفت
حقیقت سے ملنے کا رستہ ہے  معرفت
عشق شناس بندوں کو عارف بنایا
حقیقت شناسی سے پائی معرفت
عارف کی پہلی سیڑھی  ہےولایت
سورج  کی جیسے ستاروں میں ہے روایت
باب عشق عیاں ہوا معرفت سے
لگی ہے دل میں لگن معرفت سے
ستم سہنے پڑے، قسمت کے یہ وچھوڑے
اس میدان میں آتے نہیں بھگوڑے
شدت اظہار سے روح، جسم میں ڈال
عشق کو پہچان کی لگام میں ڈال

مسیحائی کا پیشہ طبیب کے دم سے ہے
مریضِ عشق کا غم پتھر میں مدغم  ہے
شرمساری عصیاں کی بڑھتی جائے ہے
ندامت سے گردن جھکی جائے ہے

دل کی کیا حیثیت موم جیسی ہے جو پگھل پگھل کے بھی ختم نہیں ہوتی ہے ۔ اس موم میں اگربتی ، گلاب ، لوبان اور مشک کی خوشبوئیں ملائیں گئیں ۔ جب اس کو چنگاری ملی ۔ ایک تجلی نے جہاں میں جل تھل کردے ۔ برسات کا موسم آگیا ہے ۔ پھول کھلنے لگے ۔ پھول کی تسبیح لا الہ الا اللہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔اپنے مالک کو یاد کر رہے ہیں ۔خوشبو چمن میں پھیل کے اپنا پتا کھو رہی ہے اور بلبل اپنا گیت سنارہی ہے ۔۔۔ بلبل کی صدا ہے حق ھو حق !

تو ہی تو میرا سائیاں ، 
تو ہی تو میرا سائیاں
دل کردا ایہہ میرا دہائیاں

میرے تو لگیا جیہڑا جیہڑا
اونوں ملدا جاندا اے سویرا
میں سیاہ رات اچ اجلا سویرا

کوکاں مار دی میں جگاواں
لوکی سمجھن  کملی دیوانی
درد دیاں گلاں کوئی نہ جانڑے
کتھے لوکی حُسین حُسین کردے نیں
قربان غرض توں ایمان کر چھڑدے نیں
میں حسینی نور آں ! پھیلاں شوخ ہوکے
میرے ہتھ وچ حسینی چراغ اے
آبشاراں نوں رستے نوے ملدے نیں
ندیاں بہندیاں چنگیاں لگدیاں نیں
ایدھی واجاں تو کوئلاں چہکدیاں نیں
ایناں باغاں وچ گلابی پُھل اے محمد
جیہڑا شاخاں اچوں  روشنی اے  پھیلاندا
جیہڑا اوتھے جاوے خوشبو پاوے
میل لاوے ، تن اجیارے
مالی پھلاں دی حفاظت شوق نال کریندا اے
اوتھے بیٹھا  جیہڑا حسن دی شیدائی اے
اونہوں میں آکھیا مالک تو کی کمایا؟
کی کمایا لا کے دنیا دا تماشا؟

او آکھے !

محمد دی واسطے سوانگ رچایا
جا ! اس وانگر لب کے کوئی ہور لیا
اودھے جیا ہور ایتھے کوئی نہیں
محمد دی 'م' اچ چھپی اے کہانی
میم دا قصہ سن لوو مری زبانی
شب و روز گزرتے جاتے ہیں
غم ہجر  بھی ٹلتے جاتے ہیں
مراداں والے میرے کول آندے نیں
محبت دی مانگ دل.وچ بھرجاندے نیں
معراج دا تحفہ پاندے جاندے نیں
منور ، مطہر ، مزمل ، مدثر ، معجل
مجلی ، مصفی ، معطر ،  محمد دا سینہ
جیہڑا لگیاں اس نوں ، ملیا سفینہ
محبت دا امین ، معین ، مھیمن اے
محمد دی ''م '' وچ کیہ کیہ لکیا اے
ایڈھ وچ قران دا ہر اک صفحہ اے
محمد دی' م ' اچ کیا کیا چھپا ہے
محمد دی ''م'' اچ الہام چھپا ہے
وحیِ رسالت کی امین ہے جس طرح
محمد رسولوں میں معین ہیں جس طرح
محمد کی ''م '' میں کیا کیا چھیا ہے
محمد کی ''م'' میں مکہ اور مدینہ چھپا ہے
محمد  کی ''م '' میں کیا چھیا ہے
محمد کی ''م'' میں مامتا چھپی ہے
محمد کی رحمت  کا بڑا اونچا قد ہے
محمد کی ''م'' محبت والی ہے
اس کے دم سے زندہ ہر سوالی ہے
محمد کی ''م '' موجوں کو طغیانی دے
محمد کی ''م'' مظاہر کو نشانی دے
محمد : مرشد ، مہدی برحق ہیں
محمد کی محبت میں کھڑی یہ سگ ہے
محبت کی ''م'' مستی والی ہے
محبت کی '' م'' مرادوں والی ہے
''م '' کے خزانے بے شمار ہیں

علمِ معرفت کی  '' دو میم' سرادر ہیں
حاجی کعبے آون ، شوق دے دیوے لاون
حج نہ ہووے جدتک مدینے نہ جاون
کعبہ وی مدینہ مدینہ کردا اے
دل اچ رنگ مدینہ توں لگدا اے
''میم '' دا رنگ سرخی آلا اے
''میم ''  سرخ جوڑا پوندای اے
''میم '' شوخی تے مستی چڑھاندی اے
'' حق ھو ! ''میم '' دے نال کریے
حق !  میم کی محبت میں نشرح نازل ہوئی
ورفعنا لک ذکرک کی چلیں باتیں
کرم کی  بارشوں سے پائیں سوغاتیں

دردو پڑھو ! پڑھو درود ۔۔۔م کی چاہت سے پالیں سوغاتیں

اللھم صلی علی محمد وعلی الہ محمد وبارک وسلم 

 

محمد کی محبت سے غلامی کی سند حاصل ہوئی
محمد کی غلامی سے یہ شان حاصل ہوئی
رنگی گئی نور اس محبت میں مکمل
اپنے رنگ لٹانے  چلی ہوں مکمل
میں رنگ گئی محمد کی محبت میں
پرواز کی طاقت سے ہوں رفعت میں
اڑتی ہوں فضاؤں میں شہبار کی مانند
اس محبت نے علم کی دولت عطا کی
عقلِ کل تک رسائی ہے  عطا کی

خزانے ''م'' کے مجھ پر لٹا دے حق۔ان کو پانے کو میں مضطرب ہوں ۔ مولا محبت میں مری جارہی ہوں ۔میرا سینہ مکہ مدینہ بنادے ۔ میرا سینہ فلک کی مانند بلند کردے ۔اوج رفعت ملی ہے مجھے یار کے نقش قدم سے ۔میرے ساتھ چلو جہاں جہاں میں چلوں ۔میں مستی میں چلی جارہی ہوں ۔مجھے ڈھونڈو مگر کیسے ڈھونڈو گے کہ میں تو گمشدہ محبت کی بستی ہوں ۔۔ میں نشے میں مست جارہی ہوں ۔۔جنگل کو خوشبو دیتی جارہی ہوں ۔ صحرا سے جنگل کا سفر میرا شروع ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔

حق ھو ! حق ھو ! حق ھو! گمان ہوتا ہے کائنات مجھ میں سما گئیں ۔افلاک میرے اندر ہے اور پاتال بھی میرے اندر ہے ۔ قبرستان بھی اندر ہیں ، مسجد بھی میرے اندر ۔۔ سبھی رشتے میرے اندر ہیں میں کہاں ہوں ، کدھر جارہی ہوں میں تو مستی میں چلتی جارہی ہوں ۔۔ مستی جنگل  اور دریا کے سنگم میں ملی ہے ، یہ اوج مجھے یار  سے ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وہ شہسوار ہوں جسے کوئی مات نہ دے پائے ۔۔میری رفتار کسی بھی گھڑسوار سے تیز تر ہے کہ یک مشت میں بلندیاں میری مقدر ہیں ۔میں ذات کی قلندر ہوں ! میں شہباز ہوں ! کون میرے پیچھے آسکتا ہے کہ میرا بسیرا بلند فضاؤں میں ہوگیا میں نے اڑنا سیکھ لیا ۔۔۔پنچھیوں کو اڑتے دیکھ کے اب آہیں نہیں بھرتی کیونکہ میری اڑان بہت بلند ہے ۔میری اڑان بلند ہے ۔۔میرے پاس ہفت اقلیم کی دولت ہے ۔میرے پاس دولت کے خزانے ہیں ۔علم کا خزانہ مجھے مل گیا ہے مجھے اپنا آپ مل گیا ۔مجھے اس نے مکمل کردیا ۔۔۔۔۔۔۔میرا یار مجھ میں بس گیا ہے ! میرا یار مجھ میں بس گیا ہے ! مجھ میں بیٹھ کے تار ہلاتا ہے ! میں تار پر لہو بہاتی ہوں اور سیاہی بنتے لکھا جاتا ہے ۔ درد دلاں داں کون جانے ! کوئی نہ جانے گا کہ یہ میں ہی جانوں 

درد کا سب سے خوبصورت چہرہ محبت ، عشق ہے ۔عشق کے جام مجھے دیے جارہے ہیں میں مستی میں ابھی ہوش میں ہوں ۔۔مجھے کیا معلوم میں کہاں جارہی ہوں میں بس چلتی جارہی ہوں ۔۔پہاڑ پر تو کبھی ندیوں پر تو کبھی آبشاروں سے تو کبھی ڈھلانوں سے تو کبھی دریاؤں سے کبھی درختوں کو چیرتے ہوئے ۔۔۔! مجھ سے ندیاں باتیں کرتی ہیں ! میں نے اسے پالیا ہے  ۔پہاّڑ میرے آگے جھکتے ہیں ! مجھے  آقائے دو جہاں کی محبت نے سورج کردیا ہے ۔ آسمان پر پڑے سورج کی میرے سامنے کیا حیثیت ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔

Saturday, January 16, 2021

در ‏نبی ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ ‏وآلہ ‏وسلم

مکان مکینوں سے بنتا ہے اور انسان کے دل کا مکین رب ہے. اسے ربی ربی کہنا چاہیے مگر وہ دنیا دنیا کرتا رہتا ہے. جس نے ربی ربی کہا،  اس نے رب کو پالیا. یہ بہت آسان سی بات ہے جب ہم کو اس نے کہا نماز قائم کرو ... تم نے کہہ دیا ربی ربی ... نماز تو ہمہ وقت اس کی تسبیح ہے یعنی اس کا خیال ...اب یہ مشکل بات ہے دنیا میں رہتے اس کا خیال رہے. مجذوب کے لیے بات آسان ہے کہ وہ خیال ایک کرلے مگر دنیا دار کیا کرے کہ دنیا نبھانی ہے. یہ مشکل ہماری خیال و اعمال کے ربط سے آسان کردی گئی ہے . ہمارے خیال میں جب کائنات کی سب سے عظیم ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوگی تو ہمارے اعمال ان کے سانچے میں ڈھل جائیں گے.  ہم نے ان کے جلوے کو ایسے پانا ہے کہ ہمارا خیال اور ظاہر یعنی عمل ان کی سیرت میں ڈھل جائے. ہر جگہ ہمیں ان کا جلوہ دکھنے لگے گا. اس سے عظیم فنائیت انسان کو نہیں دی گئی. انسان نائب ہے اور نائب کے پاس اختیارات بہت. اختیارات کا استعمال نائب دنیا کے لیے کرتا ہے جبکہ کچھ لوگ بانگ سے بانگ سے ملاتے ہیں اور صدا بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں 

میرا رب عظیم ہے 
دل میں وہ مقیم ہے 
اسکی شان کریم ہے 
اسکی بات رحیم ہے


یہ کاسہ ء فقیری پھینک دے اور دُر ہوجا درِ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا.  اے حضرت انسان!  تجھے تو میری شان بیان کرنی تھی اور تو اپنی شان بنانے میں لگ گیا. اے وہ نیک بخت! جس کے لیے میں نے کائنات بنائی، وہ اپنی کائنات بنانے میں لگ گیا.  شمس کی تسبیح دینا ہے اور رات میں روشنی دینی پڑتی ہے. شمس روشنی کا محتاج ہے اور شمس، شمس کی جستجو میں لگ گیا. رب نے فرمایا قم الیل ... قم حکم ہے اوررات میں قیام بڑا مشکل ہے. شمس کو رات میں قیام کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کی تسبیح زمانے کی تسبیح ہوجائے. یہ دولت  اللہ عزوجل اور شاہ رسالت مہرنبوت،  امامِ انبیاء کی جانب سے اور توسط سے پہنچتی ہے اور خیر پہنچ کے رہتا ہے جبکہ شر نے مٹ جانا ہوتا ہے. رات کا قیام ضروری ہے ... قائم ہونا بالذات اس لحظ سے کہ ذات کی جلوہ گری ہے. انسان کو مگر اپنی پڑی ہے تو وہ جان لے کہ سزا بھی کڑی ہے. یہ مہرِ رسالت کی کڑی ہے جس سے ملی کڑی سے کڑی ہے اور رات جس کے سامنے کھڑی ہے،  وہ کوئی توشہ ء محبت کی لڑی ہے. سن کہ تو اللہ کے واسطہ بنایا گیا ہے نائب مگر تو نے اختیار کا ناجائز استعمال کیا ہے تو ہوگیا گھاٹے والوں میں ... رب کی شان بیان کرو 
ربی ربی،  ہر صدی رب کی ہے 
ربی ربی،  رب کی شان بڑی ہے

تسبیح

یہ خزانہ ہے جس نے خیال میں مہرِ رسالت، شمع نبوت سے دنیا سجالی. یہ خزانہ ہے اور بڑی دولت ہے  جس کو مل جائے اسکو خبر ہونی چاہیے کہ وہ خود اخبار ہے اور خدا کے منشور کا وسیلہ ہے. وسیلہ کیا ہوتا ہے؟ فیض سے انتقال کی صلاحیت مل جانا. صحرا کی دھوپ میں خیال کی چھاؤں مل جانا فیض ہے.  رقیب سے درد کا مداوا کرنے بیٹھ جانا فیض ہے. ان کی نگاہ میں آجانا فیض ہے. شب گزیدہ سے اٹھ کے کھڑے ہونا اور شور میں سکوت کا سامنا فیض ہے. فیض ہر اس کا سینہ ہے جس کا سینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسلک ہے. وہ جسم جس کے قلب کی روح کے میناروں میں گنج لامتناہی نور کے سلاسل ہے اس کی پہنچ سدرہ تلک ہوجاتی ہے.

شمس کی دلاوری دیکھیے کہ دلاوروں کے پیچھے ہے ... شمس تم ہو جس کو دیکھ دیکھ کے یہ دل جیتا ہے. دل کا پیالہ عشق کی مے سے خمار آلود ہے اس میں رنگ و بو کا انتظام ہے  یہ نظام علی الصبح جاری ہے اور رات کا جاری نظام صبح صبح جانم جانم جلوہ افروز ہے  خیال اچھا ہے. کمال اچھا ہے. حال اچھا ہے


کمال کا انسان ہوا ہے آج میں جس نے قران پاک کو سینہ سے جانا ہے .مومن کو دل پڑھنے کو کس لیے کہا گیا ہے کہ سینہ لوح محفوظ سے متصل ہے.  ساری بات اس میں پوشیدہ ہے.  اس سینے کو یا قلب کو انسان ہاتھ نہیں لگا سکتا یعنی نگاہ نہیں کرسکتا. یہ باطن کی نگاہ ہے جب تک وہ طہارت اختیار نہ کرلے. طہارت لفظ جٍڑا ہے باطمن کی صفائی سے. جتنا باطن صاف ہوتا جاتا ہے فہم حاصل ہوتا ہے ... نور تو موجود ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال ہر لحظہ ہر جہت موجود ہو تو مفہوم انسان پر آشکار ہوتا ہے. اللہ کہتا ہے تو راز رکھ ورنہ راز ہستی کیا ہے؟  یہ جاننے والے بہتر جانتے

الف رکھ اور پاس اللہ کے رہ.  میم محمد سے سجا ذکر کی محفل. ان گنت درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ...ان کے نام کی تسبیح ہوجا. تسبیح عمل کی چکی ہے یا عمل کا لامتناہی دائرہ ہے. چاند کی گردش تسبیح ہے اور سورج کا روشنی دینا تسبیح ہے. شناخت کے بعد وہ کام کرنا جس کے لیے پیدا کیے گئے ہو اس میں محو ہوجانا تسبیح ہے .. کسی کا عمل لا لا لا کی تسبیح والا ہے تو کسی کا عمل الا اللہ کی تسبیح والا ہے تو کوئی سبحان اللہ کی تسبیح کرتا. ہوتا یہ ہے وہ کرتا ہے ایسے اچھے سبحانی کام اور لوگ کہتے ہیں سبحان اللہ. کسی نے قران کی قرات کی تسبیح کرنی ہے اور سننے والوں پر ترتیل سے نزول ہونا لکھا ہے قرات سے. اس سے خشیت کا دل میں اتر آنا قرات کا تسبیح ہے. کسی نے حسبی رب جل اللہ کہتے اس کے جلال کے سائے میں رہنا ہے یہ کسی مجذوب کی تسبیح ہے. کسی نے فلک پر بیٹھ کے نعت کہنا ہے .نعت کہنا بھی تسبیح اور نعت ہوجانا عظیم الشان تسبیح ہیں.  جو چلتی پھرتی نعت ہوجائے تو وہ درد کی چیخ مارتے جامی ہوجاتا ہے تو کہیں سعدی اذن سے نعت ہوتے ہیں تو کہیں مظفر وارثی کا دل حرا کی وادی ہوجانا توصیف کی تسبیح ہے. غرض کہ کرو عمل کی تسبیح.

زمین ‏،پانی ‏

زمین پانی سے بھر جائے تو پیاسے کو آنا چاہیے ورنہ سیلاب آجاتا ہے. سیلاب زندگی بھی ہے. سیلاب گلاب ہستی بھی ہے کہ درد کے مابعد کا تحفہ ہے. خوشبو کا احساس خوشبو کی جانب لیجاتا ہے. خوشبو عرش کے پانی سے وجود میں آئی ہے. یہ خاص خوشبو گلاب کی ہے جس سے بقیہ خوشبو محصور ہو جاتی ہے. شمع رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں آنسو بہانے والو. تم کو کیا ہوا،  تم تڑپ میں اویسی و بلالی ہو جاؤ تاکہ فاصلے معنویت کھو دیں. تم کو قربت کی روشنی فارس سے بحضور کیوں نہیں کرتی؟  تم پروانے کیوں نہیں بنتے؟  تم ستارے بن جاؤ کہ سورج کو تلاش ہوتی اندھیروں کو. مٹادو تم اندھیروں کو. زمینیں بہت سی ہیں جن کو نور علی نور کی مثال ہونا ہے. جن کو ایسی مثال ہونا ہے ان کے پاس سیادت ہے. یہ نسبی و نسبتی سادات جڑے ہوتے آیتِ کوثر سے. اللہ ھو کہتے یہ نسبتوں کے سلاسل میں مودب ہوتے ہیں

اقربیت کی انتہا کیا ہے؟ اس کے لیے قربت کا مقام متعین کرنا پڑے گا. خدا تو لامحدود ہے اور تم عقل کے گھوڑے دوڑانے لگے ہو. وہ بابرکت زیتون کا تیل جو ہر انسان کی رگ نسوید میں موجود ہے اسکو روشن ہونے کے دیر ہے اس کے بعد انسان نور علی النور کی مثال اندھیروں کو چیرتا نور کی مثال ہوگا. یہ ہالہ نور کہیں  بھی منتقل ہو جانا. یہ مصرف میں بے انتہا ہو جانا یہ کرم سے ہے. قران ایک ہے اور سینے بے تحاشا ہے. کوئ بشر چاہےبھی تو مکمل پیروی نہ کر سکے گا ... اکملیت اک بشر پر مکمل ہے باقی سب سائے ان کی تربیت میں ہیں. انسان نے کہانی نہیں لکھنی بلکہ کہانی نے اس کو لکھنا. انسان کے ہاتھ میں قلم ہے ہی نہیں یہ قلم تو چل چکا ہے. انسان تو آگہی پارہا ہے. آپ سب کیا آگہی پارہے ہو؟  آپ کو وجود سے بڑی بات کیا لگتی ہے؟  وجود میں قلب سے بڑی شے کیا ہوگی. یہ ہم نے سوچا نہیں کبھی کہ ہم خدا کے کتنے قریب ہیں اور ہم مانگتے ہیں اقربیت. نحن اقرب کہتے وہ اعلان کر چکا ہے اور ہم مثل عقرب اپنے مرکز سے دور جاتے ہیں من میں زہر انڈیلتے. زہر کیا ہے؟  برا گمان. گمان کرنا ہے کہ اس نے اچھا کیا یا برا کیا ... فعل اللہ کی جانب سے ہے  فعل پر ناقد ہونا نہیں بلکہ فعل کے اثرات بڑے دور پذیر ہوتے ہیں ... اک بچہ بن باپ پیدا ہوتا ہے اور نبی بن جاتا ہے ... ہم ناقد ہوجاتے ہیں جبکہ فعل تو اللہ کی جانب سے ہے. ہم جانتے ہیں زلیخا نے عشق کیا سچی طالب رہی. ہم اس کے فعل پر ناقد ہوگئے جبکہ فعل اللہ کی جانب سے ہے. یوسف علیہ سلام نے انسان سے مدد مانگی ... اک نبی نے اللہ سے نہیں مانگا یہ دکھانا تھا فعل اللہ کی جانب سے ہے. انسان لاکھ چاہے تو مفعولیت کے دائرے سے نکل نہیں سکتا. انسان نے ہدایت پانی ہے

کمال کا انسان ہوا ہے آج میں جس نے قران پاک کو سینہ سے جانا ہے .مومن کو دل پڑھنے کو کس لیے کہا گیا ہے کہ سینہ لوح محفوظ سے متصل ہے.  ساری بات اس میں پوشیدہ ہے.  اس سینے کو یا قلب کو انسان ہاتھ نہیں لگا سکتا یعنی نگاہ نہیں کرسکتا. یہ باطن کی نگاہ ہے جب تک وہ طہارت اختیار نہ کرلے. طہارت لفظ جٍڑا ہے باطمن کی صفائی سے. جتنا باطن صاف ہوتا جاتا ہے فہم حاصل ہوتا ہے ... نور تو موجود ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال ہر لحظہ ہر جہت موجود ہو تو مفہوم انسان پر آشکار ہوتا ہے. اللہ کہتا ہے تو راز رکھ ورنہ راز ہستی کیا ہے؟  یہ جاننے والے بہتر جانتے

نگاہ ‏فیض

وہ نگاہ جس سے فیض ہو جائے وہ کیا ہے؟ وہ عشق جس کو ارشاد حاصل ہوجائے وہ کیا ہے؟ وہ رزق جس میں حلال کی برکات شامل ہو جائیں وہ کیا ہے؟ وہ طلسم جو حقیقت میں قید ہو جائے وہ کیا ہے؟ وہ قدم جس سے نشان ثابت ہوجائے وہ کیا ہے؟  
پہلے قدم ہوتا ہے اور پھر نشانِ قدم ہوتا ہے. اس قدم کی پیروی میں چلنا بھی اک قدم ہے. کارواں چلتا ہے قدموں کے زیر اثر. کہیں آفتاب زیر اثر ہے تو کہیں نشان زیر اثر. ریگزار حیات میں جو بات بے اثر ہے وہ ہے بنجر زمین. زمین خالی ہو جائے تو پانی کی سیرابی بھی کیا اہم ... اہم بات یہی ہے کہ فیض رساں بات ہو. وہ بات جس سے نگاہ دل کا راز آشکار ہو. وہ حقیقت ہے. وہ موتی جس سے دل چیر دے افلاک کو. وہ تو دل میں موجود ہے. اب بھلا بتاؤ کہ موتی کیا ہے؟ یہ احسن مخلوق ہونے کا شرف پانا. اس میں انسانیت کے فرائض نبھانا. جنبش مژگان سے موتی ٹپکانا خدا کی یاد میں تاکہ خدا ہمیں سرفراز کرے. ہم نے اس کی مخلوق ہونے کا فرض نبھانا ہے

نگاہ کہے ربی ربی 
یہ دل اس کی گلی 
دل کہے مرشد مرشد
مری بات ان سے بنی 

ستم یہ ہے کہ جہانیاں میں چراغ محبت ہے اور محبت تقسیم ہورہا ہے. ستم یہ ہے نجف سے ہوا چل رہی ہیں. ستم یہ ہے کہ کربل کے مقام پر دل پڑا ہے اور آہِ نہاں میں نالہ ء دل کہنے کو تابشِ غم بھی چاہیے. ستم یہ ہے اجمیر کے شاہ کا کرم ہے کہ کرم نے سنبھال رکھا ہے. ستم یہ ہے کہ الف اللہ والی بات ہے. ستم یہ ہے قاف سے قبلہ بنتا ہے اور ق سے قربانی ہوتی ہے. وقت کے مذبح خانے میں جوہر لٹانے کے بعد مست خرامی سے چلتے کہتے جاتے ہیں کہ کرم ہے!  کرم ہے!  کرم نے سنبھالا ہے ..

آج تم ایک انسان ہو. تم سوچو تم میں ایک چراغ ہے. تم کو خوش نصیبی پر فخر کرنا چاہیے کہ تم میں چراغ روشن ہے ... چراغ اپنی روشنی کے لیے بیتاب ہوتا ہے.  چراغ میں نور علی نور کی مثال روشنی ہوتی ہے. یہ سب مرشد حق کی بارگہ ناز سے محصول بات ہوتی ہے. جب نور مکمل ہونے لگے تو شہادتیں واجب ہوتی ہیں. انسان کو چاہیے ایک دوسرے کے کام آئے کہ انسان کے دل میں محبت کے چراغ اس لیے جلائے جاتے ہیں کہ محبت سے روشنی دیں  اللہ آسمانوں زمینوں کا نور ہے. چلو اس پر غور کریں کہ اللہ تو آسمان پر ہے اور زمین تو نور کی تلاش میں رہتی ہے. زمین ایک سیارہ ہے اور اس پر سورج ہے. سورج سے جہاں منور ہے. انسان کے اندر چراغ ہے  . اس کو باہر سے اک سورج چاہیے جو اس کے اندھیرے مٹائے. جب اس کے اندھیرے مٹ جائیں تو وہ خود اک سورج ہوجاتا ہے. بے شک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے. وہ اللہ کا کرم ہے جس کو نور علی النور کی مثال کہا گیا ہے. یہی زیتون کا بابرکت تیل ہے نہ شرقی ہے نا غربی ہے. اللہ ہر سمت ہے اللہ مشرق و مغرب سے پاک ہے. جس اللہ کی حد مقرر کرلو وہ اللہ تو لامحدود نہ ہوا. جو لامحدود ہوا وہ ہر ضد سے پاک ہے. اس نے تم میں نور کی تجلی رکھی ہے اور کہا من جھاتا فقیرا، لنگی حیاتی. افسوس کا مقام ہے ان کے لیے جن کے چالیس کے ہندسے گزر گئے اور ان کی پہچان کے زینے قدم کو نقش نہ پا سکے. ایسوں کے لیے اللہ نے کہا والعصر ..گھاٹے میں وہ لوگ ہیں جن کو علم نہ ہو سکا زندگی کی دوپہر گزارنے کے بعد وہ کون ہے چالیس کا ہندسہ مبارک ہے. یہ مبارک ہے کہ اس نے انبیاء کا تعارف دیا. اس نے کئی ولی اس طرز پیدا کیے،  اس ہندسے میں چار بجتا ہے. بس اللہ باقی ہر جگہ

کوئ ‏سامان ‏تشنگی ‏مہیا ‏کرو

کوئی سامان ِتشنگی مہیا کرو
اب ابر کی نہ برسات کی ضرورت
ایک بادل کے کئی ٹکرے ہیں
ہر ٹکرا پھر ایک بادل ہے
اور ہر بادل کے پاس آسمان ہے
سیلاب بہتا رہا یہاں وہاں
لوگ سمجھتے رہے مکاں بہا ہے
میں کہتی سب خاک خاک ہوگیا
جو دنیا درد سمجھ رہی ہے
اس کو میں نے ہنس کے پینا
جو درد مجھے ملا ہے
اس کو کوئی نہیں جانا
میرا اندر خالی ہے
اس میں کون سمانا
اس رمز کو وہ جانا
جس کے پاس سب نے جانا
یہ دنیا بڑی بے مایا
کون یہاں پر چھایا
ہم نے بوریا سنبھالا
سمجھا کہ روگ پالا
ہم ہوتے روگی تو اچھا ہوتا!
بنتے ہم جوگی تو اچھا ہوتا!
یہ دنیا بڑی بے ثمر ہے
میرا پاؤں اس کی نظر ہے
میں کیا کہوں جواب میں،
کچھ نہیں اس کتاب میں،
دل درد کے لکھ نہ پائے گا!
یہ درد کیا کون سمجھ پائے گا!
جو سمجھے وہ چپ رہ جائے گا!
جو نہ سمجھے وہ مجھے تڑپائے گا!
میں نے کہا بڑا برا کردیا!
ڈ رتو میری نظر سے گر گیا ہے
میرا تعصب مجھے کھا گیا!
میری حرص نے دغا دیا!
میری آنکھ میں ریا کاری،
دل !دل شرم سے عاری،
کیسے ہو دور اب گنہ گاری؟
ہم کو اُس دنیا جانا ہے!
جہاں انسان بستے ہوں!
وہاں مکان گر جانے سے،
کوئی فرق نہ پڑتا ہو!
دلوں میں چراغ جلتے ہوں!
ان چراغوں کی لو سے،
خود کو جلا جانا ہے،
ہم کو اس دنیا میں جانا ہے!
جہاں سے روشنی بن کے نور،
ذات کو نور کردے،
میرے من کے اندھیروں کو
دور کردے ۔۔۔!
اندھیرا دور ہوجانے کے بعد
ہمیں سب سمجھ آئے گا!​

اب کہ کوئی سوال نہ ہو،
یاس کو اب جواز نہیں!
درد کا اب حساب نہیں!
یہ مجاز کی رمز کی بات نہیں!
جل کے مرنا اس میں پیاس نہیں!
غلطی سے دل کی بات لکھی!
اس کی سزا میں نے چکھی!
مجھے معاف احباب کردو،
میرے الفاظ میں ندامت ہے
ان کو اب نظر انداز کردو
یہ سمجھ ، وہ سمجھ اور نہ سمجھی!
سمجھ کر بھی جہاں میں نہ سمجھی!
دنیا میں آتے جاتے رہیے
آنے جانا ایک میلا ہے
کون اس دنیا میں اکیلا ہے
وہ ذات جو کمال حق ہے
وہ نصیب کی بات ہے
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے​

دوستو! عشق کا تحفہ بڑی چیز ہے. جس کو اس سے نوازا جاتا ہے اس پہ اک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ محبوب کے رخ کا پردہ بڑی شان سے اٹھاتا ہے ... جس کو اجازت حجاب اٹھانے کی دی جاتی ہے، اس کو حجاب کے اندر داخل ہونے دیا جاتا ہے. کائنات کی دوئی ہجر کی اساس ہے اور وصل کی شراب عاشق کو دے دی جاتا . "لا " کی تسبیح تھما دی جاتی ہے

لفظوں کو اظہار دیجیے
ان سے بے حد پیار کیجیے
خالق کی نشانی ہیں لفظ
حقیقت کی ترجمانی ہیں لفظ

اک در بند ہوتا ہے تو سو در کھل جاتے ہی. وہ جو نیند کی طلب سے بے نیاز ہے یعنی کہ پیغام اجل! و وہی دے سکتا 

ہے. وہ سب سے بڑی طاقت ہے اس لیے نہیں کہ اس نے صرف دنیا بنادی مگر اس لیے کہ اس نے سب .چیزوں میں کشش پیدا کی. اس کشش میں محبت و عشق کا خمیر ڈال دیا .گہرائی کو عشق سے اور سطح کو کشش سے بھر دیا ...زمین پر چلنے والا نفس کشش میں رہتا اصل سمجھ نہیں پاتا، فساد برپا کرتا ہے جبکہ مرکز کے اجسام کے پاس اصل کو پہچاننے کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بس اسی کے ہوجاتے ہیں ... بس ان کے دل مین واحد کا بسیرا ہوجاتا ہے ... اس کی بارش میں بھیگنے والے ہر غرض سے بے نیاز کر دیے جاتے ہیں ...آزاد روح! آزاد روح کبھی قید نہیں ہوتی ..ان کی آزادی خالق کی نشانی ہوتی ہے ...اس نشانی کا احساس ایسا معجزن ہونے لگتا ہے کہ خود کی ذات معتبر ٹھہرنی لگتی ہے .... 

میرا وجود ترے عشق کی ہے خانقاہ
ہوں آئنہ جمال ترے عشق کا کمال ہے

بندہ مومن کے دل میں طلب دیدار پیدا کردی جاتی ہ ے..وہ شادی کی کیفیت! دنیا ہیچ ہے اس کے سامنے !. سب خزانے ہیچ ..

علم.و روشنی کا خزانہ وہی تو ہے
میراعشق و فسانہ وہی تو ہے
قلم! قلم کی قسم! قلم کی عطا
اس عطا کی انتہا مجھ پر ہے
!وہ کون ہے زمانے نہیں جانتا
!وہ وہ ہے جسے میں جانتی ہوں
وہ وہ ہے جس کی شہنائی درد والی ہے
وہ وہ ہے جس کے در کی دنیا سوالی ہے
ہم نے اس کے لیے کیا آنگن خالی ہے
دیکھ! میری گالوں میں سرخی، ہونٹوں پہ لالی 
میں اس کی ہستی کی مست حالی ہوں
میری بستی میں اس کا بسیرا ہے
جس کے دم سے جہاں میں سویرا ہے

مرض مجھے ملا یے اور میں مریض عشق ہوں..جس کو عشق میں جلنا ہو تو خود کو آگ پہ جلتا محسوس کرے. وہ آگ ٹھنڈی ہو جائے گی جبکہ اندر کی آگ تو بھڑک اٹھے گی ..اے دل والو! اندر کی آگ بھڑک رہی اور وہ جو دور ہے وہی قریب ہے. وہی جو قریب ہے وہی نصیب ہے اور جو نصیب ہے وہی حبیب ہے جو حبیب ہے وہ میرا جلیل ہے

وہی جو جلیل ہے وہ خلیل ہے. جو خلیل ہے وہ اسماعیل ہے. جو اسماعیل ہے وہی کلیم ہے جو کلیم ہے وہی روح ہے۔ جو عشق ہے اس کے انداز تو نرالے ہیں ،محمدﷺ کی صورت میں عشق مکمل ہے

محمدﷺ میں تیری حکمت مکمل
بصورتِ بشر  میں وہ  تیرا   تجمل

محمدﷺ کی ذات کے نور سے امت محمدیﷺ کو فیض حاصل ہوا ہے کہ وہ ان کا آئنہ بن سکیں ۔ حق ً! یہ واقعتا ! نصیب کی بات ہے کہ ہم انہی کی امت ہیں ۔ ان کا ہونا ، ان کی محفل میں رہنا بڑی قسمت کی بات ہے ۔۔امت محمدیﷺ میں بھی چنیدہ لوگ اس بات کے لیے انتخاب کیے گئے ۔تشنگی کا صحرا ، پیاس کے ابر میں ان کی پرورش کی گئی ۔ان پر ان کی نسبت سے فقر کو زندگی کا خاص تحفہ دیا گیا ۔ آزمائش کے واسطے پہل ان کے خاندان سے ہوگئی ۔ ان کا خاندان وسعت میں امت محمدی ہے ، اور حد میں عشاق کا قافلہ اس میں شامل ہے ۔سیدنا امام حسین علیہ سلام اس کے امام ہیں  جن کو نسبت سیدنا حضرت علی رض سے بھی ہے اور جن کو نسبت سیدنا محمدﷺ سے بھی ہیں ۔ ان کی امامت میں چلنے والے حق کا نور ، دل کا سرور ہوتے ہیں ۔ وہ خاص لوگ دنیا کے لیے تحفہ ہیں ،ان کی ذات کی تشنگی کا سامان بھی تشنگی ہے ۔

جس ‏کی ‏کرسی ‏عرش ‏پر ‏قرار ‏ہے

جس کی کُرسی عرش پر قرار ہے
وہ میرے ساتھ چلا ندی پار ہے
ندی میں عشق کا رنگ دیکھا
مقتول عشق ندی کنارے بہتا پایا

سُرخی نے لالیاں ندی اچ نیراں
سرخی اُتے نور، نور نال چلی جاندا اے
 سرخی اندر وی ! سرخی باہر وی اے
 ہستی اچ ہستی نے ہستی لبی اے
آئنہ جیوں آئنے دے اچ رلیا اے !
آئنے   تے نور دا ناں لکھیا اے
 سرخی نے پالیا سرخی چولا  اے!
میں لبدی پھراں کتھے گیا چولا!
یار نے رقص آئنہ وچ ویکھیا اے
 جیویں ندی اچ ندی ملدی پئی اے !
میرا رنگ روپ اُڈیا 
لالی نے  کیتا  مست حال
دل اچوں آری ہوگئی آرپار
بسمل وانگوں تڑپدی پیئ آں
اُوس نے ویکھ ٹھردی پئیی آں
یار حدوں حدی قریب ہویا اے 
اودھی خشبو دی سنیاں واجاں ایں
اللہ ھو ! اللہ ھو ! اللہ ھو !

ھو دی گلاں کریاں ہن  کیہ کیہ  میں
ھو نے کردی انگ انگ اچ سج دھج
نچاں ''الف '' تے ''میم'' دے سنگ
''م'' دی ہستی ویکھاں گی الف دے نال

اس کی آنکھوں سے جہاں دیکھا  میں نے 
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے میرے دل کا حال
وصل کے شیریں شربت کا  جام مل گیا ہے

وصل دی بوٹی مشک و عنبر وانگوں
کیہ دساں کیہ اے ہن میرا حال 
الف دی مستی لکی اے میری ہستی اچ
مٹڈے جاندے  نیں ہن ہستی دے زنگ
بارش چھم چھم کریندی جاندی اے
وصل دی گلاں کریندی جاندی اے

بارش میں بھیگی بارش بنتی گئی 
بارش نال بادل دا بسیرا
چھاندا جاندا اے ہنیرا
اندر سویرا تے بار ہنیرا
مینوں بار کج نظر نہ آوے
ایڈھے اچ میں ڈبدی جاندی آں
جیویں رت ہنیرا لاندی جاندی اے
رشنائی اندر چھاندی جاندی اے 
ایس رشنائی نے مینوں کیتا بے رنگ
رشنائی نوں رشنائی لکھواندی پئی اے
عشق دی رشنائی وڈی نورانی اے
لکھدی پئی میں ایس دی کہانیاں
ھو ! ھو ! ھو! ھو !
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو