Monday, February 15, 2021

عشق ‏و ‏عقل

عشق و عقل دونوں دونوں عین ہیں. خارج کے لیے عقل ہے. درون کے لیے عشق ہے. عشق وہ لو ہے جس کی آنچ نے مجھے پرنور کر رکھا ہے. اک براق ہاشمی ہے اک دہن عربی ہے اور رنگساز نے شفاف کرم رکھا ہے. بس پلک جھپکتے لاکھوں منازل عشق طے کرادے گا اور عقل نے آنکھ کھولی نہیں ہوگی. یہ کسی کو کیا پتا ہے کہ عشق خدا کرتا ہے وہ کن کرتا ہے تو خطا سے قم باذن ہوجاتا ہے. یہ خطا وہ کرواتا بھی خود ہے اور عقل والے حیلے تلاشتے ہیں عشق کو مارنے کو. عشق بیچارہ ہوتا نہیں ہے تو بس اس کی بساط ہے. کوئ پیادہ ہے تو کوئ مہاراج ہے. بس یہی فرق ہے عشق میں اور عقل میں. عقل چلنا سیکھتی نہیں ہے عشق جوانی سے بڑھاپے کی جانب لیجاتا ہے عقل لفظ سیکھتی ہے جبکہ عشق حروف سے مزین تختی ہے. آج خدا میرے پاس بیٹھا ہے اس نے یہ تختی مجھے تھما رکھی ہے میں نے یہ لوح یہ کنجیاں دیکھ کر بھی اسکو نہ چھوڑا کہ جو بات اس کے ساتھ میں ہے وہ ان میں کہاں مگر عاشق صادق ان کے بنا مکمل نہیں ہوتا ہے اس لیے اسکو سب یہ اٹھانا ہوتا ہے. امانتیں اٹھالیں جاتی ہیں اور بندہ بیچارہ عقل کے ہاتھ مفلوج


تحیر تو انسان خود ہے عشق انسان کو تحیر میں لے گیا. وہ نظارہ تھا ایسا کہ معشوق و عاشق ضم کوگئے اور تحیر باقی رہ گیا اور عشق نے رکھی جتنی ہوش، اتنی ہوش سے کہہ دیا گیا کہ عشق کی خبر یہی ہے کہ عشق باقی ہے ... ایسی بے خبری کہ عاشق و معشوق دونوں مست و بیخود ہیں اور جذبہ سلامت حکمران ہے. کون جانے اس جذبے کو جس نے جھیلا ہے وہ جانتا ہے دیوانہ یک ٹک سو دیکھے نہ دیکھے دیوانگی دیکھتی ہے. زندگی بس نظر کا دھوکا ہے اور دھوکے سے نکل آؤ تو نگاہ سے فیض لو. یہ فیض ہے جس نے ثابت کردیا ہے مجھے. اللہ نے جس کو اثبات کی جانب گامزن کردیا ہو اس سرمست کی مستی کو ہزار سلام. یہ عشق ہے جو جب بارگہ ناز و ادب میں بیٹھتا ہے تو عشق عشق نہیں رہتا ہے اس کی آنکھ  سماعت دل سب کا سب ہمہ تن گوش اتنا محو ہوتا ہے کہ یہ وہی ہوجاتا ہے کہ اس میں بچتا کیا ہے  یہ رمز ہے


تحیر تو انسان خود ہے عشق انسان کو تحیر میں لے گیا. وہ نظارہ تھا ایسا کہ معشوق و عاشق ضم کوگئے اور تحیر باقی رہ گیا اور عشق نے رکھی جتنی ہوش، اتنی ہوش سے کہہ دیا گیا کہ عشق کی خبر یہی ہے کہ عشق باقی ہے ... ایسی بے خبری کہ عاشق و معشوق دونوں مست و بیخود ہیں اور جذبہ سلامت حکمران ہے. کون جانے اس جذبے کو جس نے جھیلا ہے وہ جانتا ہے دیوانہ یک ٹک سو دیکھے نہ دیکھے دیوانگی دیکھتی ہے. زندگی بس نظر کا دھوکا ہے اور دھوکے سے نکل آؤ تو نگاہ سے فیض لو. یہ فیض ہے جس نے ثابت کردیا ہے مجھے. اللہ نے جس کو اثبات کی جانب گامزن کردیا ہو اس سرمست کی مستی کو ہزار سلام. یہ عشق ہے جو جب بارگہ ناز و ادب میں بیٹھتا ہے تو عشق عشق نہیں رہتا ہے اس کی آنکھ  سماعت دل سب کا سب ہمہ تن گوش اتنا محو ہوتا ہے کہ یہ وہی ہوجاتا ہے کہ اس میں بچتا کیا ہے  یہ رمز ہے