لم یلد ولـــــم یـــــولـــــد
اکیلا تنہا خاموش
اس سمندر کی آنکھ میں
ٹھاٹھیں مارتی میری محبت
میں! کوکاں ماردی داڑ دی کونج
بچھڑن لمحے سندی ساں
لم یلد ولم یولد
وقتِ معلم نے سکھایا ہنر قربانی کا
وقتِ معزم نے بتایا دائم نماز کا
فصل لربک وانحر
بوقت کن کی ہجرت بدلی وصلت میں
ملا جب یار پرانا
رانجھن یار نہ دسدا کوئی.
ڈھونڈن اس نوں چلی آں
او کہنندا اے
لم یلد ولم یولد
اٹھو!
حامی ء کوئے شہر جناں
وادی بطحا کی منادی سنو
اک شخص کی پکار
اک شخص نے دل سے کہا
ہجرت میں وصلت ممکن؟
ندا آئی
لم یلد ولم یولد
ہاں اس شخص کی بات
جس نے کہی ایسی نعت
نہ یہ تھی اسکی اوقات.
جس نے دیے یہ جذبات
اس نے کہا کہ آؤ، ملو
لم یلد ولم یولد
اک نفس کا تیر جب چلا
اک دید کی بات بھی ہوگئی.
وہ پھر زائر ہوگیا اور دم طوف کہنے لگا
اے خدا تو ایسے ملے گا؟
بتا تو ایسے ملے گا؟
اچھا کہا میں نے
لم یلد ولم یولد