Tuesday, February 16, 2021

اللہ

اللہ میرا ہے، یہ بات وہم سے بالا تر ہے. اس کے پاس رہتی ہوں یہ بھی شک سے دور بات ہے.  یہ فجر کا وقت جب سیاہی دور ہوتی ہے جب مرغ بانگ دیتے ہیں تو کچھ ستارے مرے دامن میں گرنے لگتے ہیں ان کو یہ علم نہیں ہے کہ مری ذات تو خود اک ستارہ ہے. میں خود اک قطب ہوں. صمدانیت کی حدوں میں رہنے والی نور. جس کے پاس اسکی دلاویز مسکراہٹ کا عکس ہے اور رحم بھری نگاہ جس نے میرا دل چیر دیا ہے

توشہ ء رحمت اٹھائے کھڑی ہوں،  میرے دل میں کبریاء جاناں کی مہک ہے. میرے دِل میں ہادی کی تَجلی ہے ...آج میں ذرا دور بیٹھی باران رحمت کو بنٹتا دیکھ رہی ہوں جیسا کہ یہ کائنات سجائی گئی میرے لیے ہے

اللہ کی ذات کا سفر مجاز سے شروع ہوتا ہے جس نے اللہ کی ذات تلک رسائی کا مجاز بن کہا،  اس نے کیا پایا؟  اللہ لفظ نہیں ہے. ذات تک پہنچنے کے لیے کسی اک ذات میں فنا ہونا ہوتا ہے. لا الہ الا اللہ کا کلمہ پڑھنا زبان سے ہوتا ہے مگر فنائیت میں اقرار ہوتا ہے. جب اللہ کہا تو اللہ سامنے مجسم ہوا ہے. یہ خیال صورت بہرحال مجاز راستہ ہے. جب اللہ کا تصور تن من میں محبت کا نغمہ چھیڑ دے تو بس اک دفعہ اللہ کہنے سے سرر کا وہ خمار طاری آتا ہے کہ لگتا ہے اللہ سانس میں دھڑکتا ہے. پھر یہ  بات جب آگے بڑھتی ہے تو کائنات کی دوئی یکتائی میں بدل جاتی ہے. یکتا کیا جانے گا؟ وہ تو خود عین ذات ہوگیا. یہ نقطہ اول سے نقطہ آخر تلک کا سفر ہے. محبت میں دوئی نہیں ہوتی  تضاد چلاجاتا ہے