افلاک سے تارہ ابھرا ہے
کسی ماتھے پر چمکا ہے
جانے کتنی دعاؤں مابعد نتیجہ ہوا ہے.
جسے میں نے چاہا ہے
وہ میرا ہوا ہے
ستارہِ سحری.
مرغ بانگ دیتے ہیں
شمس کی سرخی رات کو غروب کرتی ہے.
وہ طلب سے بے نیاز شخص
مناجات میں کیے جائیے زاریاں.
اسے علم تھا فتح ہونی ہے
اسے ناز تھا کہ خدا اسکا ہے
پھر خدا نے اسکو تھام کے یقین پر کھڑا کردیا
کہا کہ مدد آگئی ہے
تم یقین رکھو ....
اس شخص کے دامن میں مامتا کی لازوال دولت ہے
اس شخص نے تخلیق کا درد سہا ہے
کتنی مدت کے بعد
کتنی چاہت کے بعد
آج وہ ستارہ بام فلک پر
معبد وجود میں ہے ...
آج کے دن کوئ انتشار نہیں
وہ شخص جو مشت غبار ہے
اسکو اپنے ہونے پر ناز ہے
فتح کا جھنڈا گاڑے
روح کی صدا سنی؟
روحی! الروحی! من روحی
وجد کی آفرینی
لحم میں سے صدا ابھری
خدا میرا ہے
خدا میرا ہے.
یہ یقین جس پر وہ شخص کھڑا ہے
اس کے سجدوں کا نتیجہ ہے
اس کی بے ریا عبادتیں
جب وہ جھکا تھا خدا کے آگے
کہا تھا اس نے
سجدہ ترا ہے، واجب کیوں نہ ہوتا
خدا پھر واجب الوجود ہوگیا
شاہد نے تب دی شہادت ایمان کی
ایمان مکمل.ہوگیا
ایمان کی گواہی تھی
یہ کس نے کہا تھا
تری چمک نے دل میں سماوات کو چیر دیا ہے
یہ کبریاء جاناں کی مہک تھی.
گلاب، عطر سے بھرپور مہک
اس نے کہا تھا درود واجب ہے
اس کی سانس کی صدا میں اک انہونی خوشبو تھی
دما دم کہ دم دم میں صدائیں ہیں درود کی
ابھی موسی جلوہ گاہ سے لوٹا ہے
ابھی اس کے پاس یدبیضائی ہالہ ہے
گاہ میں آیت یسین تو گاہ میں حم ....
بس جب ستارہ سحری سے چمکی یہ آیات
تو ساجد نے کردیں مناجات
تذکرہ گلِ لحن کا چھیڑ کے پوچھا ...
آسمان پر کوئ ہے اس جیسا
ساجد نے کہا نہیں
لیس کمثلہ شئی
بس مثال کامل،مثال پاک
وہ ذات خصائل انوارات سے بھرپور
منور ہے! منور ہے! منور ہے!
اس شخص کی سن لی گئی ہے
سنی کیوں نہ جاتی؟
خدا کا اس سے ازل سے ساتھ ہے
خدا اسکا تھا، اسکا ہے اور رہے گا