Friday, February 26, 2021

اسے ‏یاد ‏ہے

اُسے یاد ہے وہ ذرا سی بات جس پر لکھا گیا ہے ریت سے کہ وقت پھسل گیا ہے رات میں مقام دل پر حرف اترتے رہتے ہیں. یہ حرف تیغ بہ کف جو دل کی حفاظت کرتے ہیں. تو سن راہی!  حرفوں کی حفاظت کر یہ عطیہ منجانب خدا ہوتے ہیں!  حرف لوح سے اترتے ہیں عرش دل ان کا ٹھکانہ ہوتا ہے!  تو "ن " اترا آ!  یہ حرف قلم بندش جذبات نہیں بلکہ تلاطم خیزی ہے!  یہ مل جائے جسے تو خدا کی جانب سے یہ بشارت ہے کہ عطیہ تقسیم کردیا گیا --- یہ مل گیا تو سب مل گیا اور سب ملا تو رب مل گیا --- کل کے مالک کے پاس عطائیں ہیں اور جو درود کے توشے اوپر سے اترتے ہیں تو طائر ان کو.سنبھال لے!  یہ کامرانی کی گھڑیاں ہیں یہ دعا جوقبول ہوئی یے اس کا نذرانہ ملا ہے!  یہ کاش صنم تراش سے پوچھے کوئ کتنا درد سہا جاتا کسی شے کو سنوارنے میں تجھے علم.ہو کہ خود سے خود کو نکالنے میں کتنا درر سہنا ہڑتا ہے تو جان لے اے دل کہ دردبھی تحفہ یے یہ حیات کا عندیہ ہے اور سجدہ ریز رہ کہ سجدے ردائیں ہیں جو بنٹ جاتی ہیں اور الغفار سے مل جاتی ہیں اپنے تن ڈھانپنے کی ردائیں ..افلاک میں رکھا دل سماوات میں رکھا ہے ..میم کی مثال نہیں کوئ اور حرف کمال میں رکھا یے. سوغات کو چاہیے کیا کہ دل سوٍغات میں رکھا یے. نباتات تو سلاسل ہیں اس کے یہ خوشا اسی بات میں رکھا ہے. سنو پت پت کی بولی. سنو بوٹے بوٹے کی داستان ..سنو موج رواِں کے فسانے یہ تیر جو لاگے نشانے ہر ہیں یہ خاص ہیں!  یہ  خاص ہیں

نور ہے! چار سو نور ہے!  نور کی پوشاک ہے! نوری ہالے ہیں!  یہ اسماء کیفیت والے ہیں!  یہ حرف پیامِ شوق والے ہیں! یہ نگاہِ شوق کا بیان ہے دل میں معجز بیانی کہ کہاں سے چلے ہم اور کہاں تلک ہم جائیں گے ... سیاہی بھی محجوب ہوگئی -- شرم سے -- حیا سے --- ردائیں، نوری دوشالے میں صحنِ نور ہے جس پر مجلی آیات ہیں .... یہ استعارہ ہے یا نقشِ علی پاک جس سے میرا ستارہ منور ہورہا ہے....   ستارہ سحری جسکو صبح کو نوید ملی یے --- آشیانہ تنکا تنکا کرکے جمع ہو تو ضائع ہو جاتا اور بنا بنایا زمین بوس مگر جو شہر دل ھو کے ویرانے میں رہے --- وہیں کاشانہ ء رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم موجود ہوتے ہیں --- وحدتِ کل،  امامت کل،  تاجدار کل،  علمِ کل،  قدسی سلام بھیجتے ہیں 
یہ ترے قدسی کے ان کے قدسی سے ربط ہیں 
کتنا شاداں بخت ہے تمام جن و انس کے قدسی بہ نسبت اسی صورت وہاں موجود ہوتے جس قدر یہاں 
جس کے دل کا تار مل جائے تو کہے 
وجی میم دی تار 
سانوں مکایا مار 
اشکاں دے اے ہار 
ہوئے دل دے آر پار 
شمع دل اچ وسدی اے 
ہور نہیں کوئ دسدا سے

اک ‏امکان

اک امکان کے پاس، مکان ہے اور مکان میں یاد کا امکان ہے ـ رمز اس کی جدا ہے، خوشبو سے جس کا لکھا جاچکا ورق ہے. یہ سرخ مکان جس کی سنہری دیواروں پر نیلی چادر نے اطراف سے سب رنگ غائب کردیے اور اک دیوانہ،  مستانہ چلا جارہا ہےـ اس مستانے کو ہوش نہیں تھی زمانہ کیا جانے اس کے گیتوں کو ـ وہ سازِ الوہیت میں مست تھا،  غائب کیا جانے حاضر کیا ـ یہ تخت،  یہ مسند،  یہ آئنہ جو اس کے لیے بنایا گیا،  سجایا گیا ـــ یہ وہی تھا جس کا وہ ہمراز تھا ـ اک پکار، اک چیخ تھی جب وہ مسند نشین ہوا ـ شاہی ملنے پر واویلا کرنا؟ کون جانے شاہ ہونے والے کو لازم،  شمع کو گُل کردے اور شمع پھر بھی روشن رہے ـ یہ گِل جس میں گُل کھلیں تو خوشبو تن من میں پھیل جاتی ہے  خوشبو بھی خالی نہیِ بلکہ ھو کی صدا ہے ـ یہ قاری جو اندر ہے وہ کہتا ہے لاتحرک بہ لسانک  اور جب اس قاری سے قرات کے اسرار کھلتے ہیں تو عقل دنگ ہو جاتی ہے ـ بلند بانگ دعوے؟  انسان کی مجال نہیں وہ دعوی کرے!  یہ تو کروایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر درود بھیجتا ہے،  درود ان پر بھیجا جاتا ہے جن کی نماز قائم ہو 

اے قائم ہونے والی نماز 
اے قیام کرنے والے شجر 
اے تسبیح کرنے والی رات 
اے گردش کرنے والی صبح 
اے تضاد والے چاند 
اے محورِ روشنی رات کے 

بتا کہ کائنات مجذوب ہے، کائنات تری یکتائ کی تسبیح پڑھ رہی ہے اور بندہ دوئی میں گم، تضاد میں گرفتار. اللہ کا نور، وہ چراغ جس کی لو نہ شرقی ہے نہ غربی کہ وہ تضادات سے پاک ہے اور ہم اس کے حضور پیش ہوتے ہیں تضاد لیے ـ ہماری دوئی کے نقش کب جھوٹے ہوں گے؟  ہمارے پالنہار نے ہمیں محبتوں میں سمو رکھا ہے اور فرماتا ہے" انما امرہ اذا ارادہ شئیا ان یقول لہ کن فیکون " انسان صاحب امر ہوجاتا ہے جب وہ صاحب کا ہوجاتا ہے ـ جو ازل سے اس کی مانگ ہو،  وہ اسکا ہو کے رہتا ہے ـ وہ لاتا ہے واپس اسکو اپنی رہ پر، چاہے پیار سے، چاہے ٹھوکر سے اور جب پیش حضور عالم غیاب سے کلام کرتا ہے تو کہا جاتا ہے بتا ترا کوئ نقش ہے؟  جس کے دل میں علم ہوتا ہے،  عرش کا پانی ہوتا ہے وہ کیا جواب دے؟  وہ ایسا صاحب حال ہو جاتا ہے جس کو خاموش کرا دیا جاتا ہے ـ درد میں آواز نکالنا نعرہ منصور جیسا ہوجاتا ہے اور سزا تو وہ اپنے محبین کو دیا کرتا ہے ـ قلم چلتا ہے قرطاس پر نور بکھر جاتا ہے ـ قلم کیا ہے؟  قرطاس کیا ہے؟  قلم اور قرطاس ایک ہیں؟  من و تو کا جھگڑا تو ہے نہیں ـ وہ رگ جان سے اتنا قریب ہے کہ سانس اس جاناں کے بنا لینا دشوار ہے مگر سانس کے کارن ہی ہم اس کو محسوس نہیں کر سکتے. وہ قلب سے مقلب القلوب کو حی قیوم کی کرسی دیتا ہے اور کہتا ہے یہ کرسی تری ہے ـکرسی پر بیٹھنے والا اگر گھبرا جائے تو فائدہ؟  اس نے تو کہا جا تجھے ستاری دی، جا تجھے شاہی دی،  جا تجھے محبت کے بیش بہا جواہر دیے ـ اب کرسی والے کو چاہیے وہ تقسیم کرے کہ کرسی والے،  کرسی کی مثال لیے ہوتے ہیں ـ یہی ہوتے ہیں جن پر حیات دوامی کا اصول نافذ ہو جاتا ہے ـ تکبیر پڑھنی ہوتی ہے " اللہ اکبر " جب تحفہ ملے تو سمجھ لو کہ تحفہ اک کو اک سے ملاتا ہے. وحدت کی شراب جاری ہو جائے تو میخانہ ہی پیمانہ اور پیمانہ ہی میخانہ بن جاتا ہے 
شہنائی والی اک صدا بہت دور سے سنی جارہی ہے اور دل رنگ والا ہے ـ رنگ نے رنگ والے کو غنی جانا ہے اور رنگ ایسا دیا کہ رنگ ہی رہا،  مل گئی ہستی اور اتر گئی خاک کی ملمع!  یہی شمع ہے یہی حق کی جاری قندیل ہے جس کے لیے کہا گیا ہے وہ طاق میں چراغ ہے. چراغ الوہی ہے اور راگ الوہی ہے ـ جب روشنی اور راگ مل جاتے ہیں تو فرشتہ حاضر ہو جاتا ہے اور کہا جاتا ہے " بتاؤ،  کس نے کس کو جانا؟  " بس کہا جاتا ہے اندر نے اندر سے صدا لگائی. جس نے پہچان کرائی. جس کو پہچان ہوئ. وہ دونوں اک ہی ہیں 

ماہ و سال کی گردش میں تضاد سے بندہ گھبرا گیا ہے اور وقت کو کہتا ہے رک جا ـ وقت رک جائے تو حم کا مقام آجاتا ہے ـ معراج مل جاتی ہے ـ معراج کا مقام صدیقیت ہے،  ولایت ہے،  عین علی کا فضل ہے،  عین علی رضی تعالی عنہ سے حسینی نور کی تمثیل ہے ـ پوری کائنات کا آئنہ اک ہے مگر منقسم پنجتن پاک میں ہے. مجذوب بیٹھا علی علی کہتا ہے ــ اخلاص تو یہ ہے جو کہا،  جس نے کہا وہی وہ ہوگیا ـ بات تو ساری اخلاص کی ہے. یہ حق موج ہے جو سینے میں پیوست ہے ـ یہ مرجع العلائق سے خلائق تک سپرد کی جانی والی وہ تلوار ہے جس نے دلوں کو چاک کرکے بس نظارہ ھو دیکھا یے

پریم ‏کتھا **

پریم کتھا لکھنے بیٹھو تو رام نیا بہنے لگے ـ رام نیا کو بہنے کے لیے پانی چاہیے اور عرش دل ہے دل میں پانی ہے ـ یہی ساری کہانی ہے ـ کہانی بہت پرانی ہے ـ یہ سمجھ میں آنی ہے جس نے کہنا اس کو پرانی ہے ـ بات پرانی یہی ہے کہ وہ فلک نشین ہے ـ فلک نشین کون کون ہے؟  اک تو ہے اور اک کے ساتھ جو فلک نشین ہیں وہ بے حجاب مظاہرہ کرتے ہیں الوہی الوہی روشنی کا ـ جب کائنات نے نور سے سمیٹا کچھ،  تو خاص روشنی تھی وہ مرقع زہرا رضی تعالی عنہ جن کے سبب کوثر جاری ہے. وراثت جاری ہے،  ولایت جاری ہے ـ یہ جو رنگ رنگ دکھتا ہے،  یہ رنگ اک ہے مگر منقسم پانچ میں ہے،  یہ پانچ منقسم ساتھ میں ہیں ـگویا پہلا فلک اک رنگ سے پانچ میں اور ان پانچ سے باقی پانچ افلاک تصویر میں آئے ـ وہ مصور جو میم سے تراش رہا تھا کنیوس پر،  تو میم کے رنگ دیکھ کے مسکراتا رہا ـ یہ جو شاہا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تبسم ہے یہ حقیقت میں وہ عکس ہے جس کو خدا نے قلم سے محصور کیا اور مسکرایا ـ یہی وسیلہ خدا تک پہنچنے کا ـ یہ جو گویائی ہے یا حق موج ہے جس نے سینہ تیر فگن کر رکھا ہے،  یہ تیر ایسا کہ بسمل وانگ لگن لگی اور ہارن لگی بازی میں.  سئیاں نوں میں کہیا کہ یہ جو شربتی حلاوت ہے روح میں،  یہ کیا ہے تو کہا " یہی تو مصوری ہے وہ جس پر وہ مسکرایا " آج تک وہ مسکراہٹ غیب سے حاضر میں وجود رکھتی ہے گویا جس جس کو اس مسکراہٹ کی پہچان ہو جائے وہ جان جائے کہ پہچان ہے یہ!  یہ پہچان جس نے محبت کو قرار دیا ہے اور وہ مقرر ہوگیا ہے، جس کے لیے کہا گہا ہے " عارفوں کی زمین آسمان ہے،  عارف ایسا ستارہ ہے جس کو کام چمکنا ہے،  جس کا کام سمت دینا ہے، جس کا کام گویائی سکھانا ہے،  جس نے فہم دینا ہے. العارفین عن الناس،  ھو العارف این ما کنتم! یہ جو کہا گیا ہے وہی ہوگیا ہے. نظر کی بات ہے، دلِ بینا سے دیکھو تو تم کو عارف ملے گا،  جب تم کو شناخت ہوگی تو علم ہوگا پانچ رنگ ہفت افلاک سے ہوتے عارفوں کا چہرہ بنے ہوئے ہیں. یہ درون کا چہرہ ہے،  یہ صورت گر جب صورتیں بناتا ہے تو کیمیا گری کرتا ہے ـ یہ فیض ہوتا ہے جو بانٹا جاتا ہے ـ دیا جو جاتا ہے تو دینے کے لیے دیا جاتا ہے،  تقسیم کرنا ہوتا ہے ورنہ فیض رک جاتا ہے اور سلسلہ رک جاتا ہے. خدا شاہد ہوتا ہے جو تقسیم کرتے ہیں،  اور پھر شہادت ہو جاتی ہے مومن کی،  ظاہر وہ ہو جاتا ہے جو باطن میں ہوتا ہے ـ شہادت کا کام شیروں کا ہوتا ہے ـ جان کی بازی لگانا آسان نہیں ہوتا بلکہ جان لگ جاتی ہے اور باز،  شہبازی کرتے فلک کے لامتناہی گوشوں میں جاتا کہتا ہے " منم محو جمال او " رقص یار میں گم پروانہ،  پروانہ نہ تھا بلکہ وہ تو یار تھا جو خیال کی صورت رقص میں تھا. وہ عین شہود تھا. یہ قران پاک کی تلاوت ہے ـ ذات ہماری قران ہے اور نسیان سے ملتا عرفان یے. یہ جو رات چھائی ہے جس کی مدھم مدھم روشنی مہک دے رہے ہیں ـیہ روشنی عین شاہد یے کہ وہ ہستی جس کے لیے کائنات بنائی گئی وہی سامنے ہے. وہ درود ـ جب کہ زبان گنگ ـ زبان گنگ میں کلام ـ کلام بھی کیا عرفان ـ عرفان بھی کیا یہ ایقان جس سے ملی ہے پہچان ـ پہچان بس نعت ہے. یہ وہ نعت ہے جو دیکھ دیکھ کے لکھی جاتی ہے،  جس میں نقش نقش کی ضو سے رنگ رنگ اترتا قلب کو چمکاتا ہے. یہ آشنائی بھی نصیب ہے گویا حبیب قریب ہے.

من ‏تکڑی ‏ ***

من تکڑی اور تول دی گئی نیت! 
ویل  للمطففین 
نیت کا تول بھاری اور من کی لاگی ایسی کہ خدا سے ہم کہتے رہتے اس کو اس کے کیے جزا کم دے اور میرے کیے کی نیت کا بھرم رکھ ـ جب بھرم کی بات آتی ہے تو مطاف سے صدا لگاتی ہے کہ یہ تو دیدار کا وقت ہے ـ نہیں انتظار کا وقت ہے.  یہ التفات کا وقت ہے ـ وقت کاذب ہے اور اس نے کہا 

والمرسلت عرفا 

یہ صبا جس کو وقت کاذب میں چلاتا ہے تاکہ جان کنی کا حال کم ہے. تخلیق کے مراحل جان لیوا ہوتے ہیں اور لفظ مولود کی گھڑیوں میں جنم لیتے ہیں،  درد اتنا ہوتا، نسیان اتنا ہوتا ہے کہ خبر نہیں رہتی کہ وصال تھا. جب وصال ہو تو دن و رات سے پرے اک مقام پر وہ ملتا ہے جس کو شب قدر سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ الرحمن کے بندے ہیں وہ جو والکاظمین الغیظ کی مثال درد کو جذب کرنے والے ہیں. یہ کرسی والے کا مقام ہے وہ اک میں جذب ہو جائے اور واویلا چھوڑ دے. کرسی والے کو ملتا ہے وہ مقام جس کے لیے فرمایا جاتا ہے والشمس. یہ قسمین وہ کھاتا ہے اور بڑے پیار سے نوازتا ہے مگر اس سے پہلے شرح صدر ضروری ہوتا ہے، بوجھ سہنا ضروری ہوتا ہے. یہی تو حق موج یے جس نے میرے لیے اسم لامثال سے بے مثال موتی کشید کیے. چشم نمی کی کہانی اتنی پرانی ہے جتنا یعقوب کا گریہ ـ وہ عشق معشوق کے لیے رویا. بات بہت آسان سی ہے کہ خدا،  خود اپنے لیے رویا ـ خدا نے کتنے آئنے بنائے،  کتنا حسن بانٹا اور پھر جس جس کو حسن دیا گیا اس بے دیکھنے کی نوبت نہ کی بلکہ صم بکم عم کی مثال ہوگیا. دل شر البریہ ہو جائے تو شرالدواب ہوجاتا ہے اور ایسے پر کنکری جب پھینکی جاتی تو کہا جاتا ہے "وما کن اللہ رمی. بس یہ پھینکی کس نے،  یہ کون جانے

اک بازی تھی صیاد کی اور ہوا تو زور کی جب جھکڑ چلا تو کہا گیا کون ہے دل کے قریب؟ کس نے خبر دی " والنشرت  نشرا " بس یہ کائنات کا اخبار خبر دے رہا سچے سمیع العلیم کی. وہی تعلیم یہی دیتا ہے کہ ھو اللہ الواحد!  واحد کو کوئ دیکھتا نہیں تو اس کے نشان روح پر کیسے پڑیں؟  وجہ اللہ پھر کیسے ہوں؟  اپنا چہرہ ہی وجہ اللہ ہے. اپنی رویت آسان نہیں اس کے لیے کان کنی کرنی پڑتی ہے. پھر ہر سمت اس کا جلوہ ہوتا ہے. فثمہ وجہ اللہ. تب قبلہ بنتا ہے،  تب نماز قائم ہوتی ہے. یہ نماز ایسی ہے جس میں دل صامت ہوتا ہے،  اشجار ساجد ہوتے ہیں

حرفِ ‏گریہ ‏***

حرف گریہ!  حرفِ گریہ!  حرفِ گریہ 
محذوف دائرے!  لامکان کے پنچھی چلے پرواز کو، جانب عدم جانے کس کا پہرا ہے!  اکہر ہے!  اکہر ہے!  جی شام سے سویرا ہے! نوید ہوئی ہے کسی نے کہا کہ نوید ملی ہے!  کسی نے جبین جھکی ہے!  کسی نے کہا سجدہ ہوا ہے!  گگن پر لالی ہے،  افق کے ماتھے پر چاند ہے ـ سجاد وہ ہے جس نے سجدہ کِیا ہے ـ یہ سُحاب جو چھائے ہیں،  یہ ساون برسنے کی نشانی ہے ـ  یہ جو برس رہا ہے یہ کیا ہے؟ یہ فرض کیا کہ یار ملا ہے مگر ملا نَہیں ـ یہ قاف جو عشق کا ہے، جو سین ہے وہ "ن " سے نکلا ہے،  قلم لوح جب اصل کاتب سے ملنے لگے تو وصل ہوتا ہے ـ یہ مگر درد ہے ـ عارف کی زمین پر درد بہت ہے،  کرشمہ ہے!  کرشمہ ہے!  کرشن بھی وہی،  رام بھی وہی،  خدا بھی وہی. حرف مگر اک ہے،  حرفِ دل نے کتنے نام دیے ہیں اسکو،  وہ نام سے مبراء ذات ہے!  وہ حال سے مجلی عین بات ہے.  تم اس سے بات کرنا چاہتے ہو تو اس انسان سے بات کرو جو اس سے اتصال میں ہے. حقیقت میں وہ وسیلہ ہے اور مخلوق بنا وسیلے کے نہیں ہے. اسکی کرسی جس کے دل میں مقرر ہو جائے،  وہ اس کا کان، ہے وہ خود سناتا ہے اور خود سنتا ہے  خدا نے درد میں سرگوشی کی ہے کہ مخلوق درد میں ہے،  جذب نہیں تو انجذاب نہیں!  تقسیم ہے انتقال کی!  یہ ہم ہیں جو منقسم ہو رہے ہیں،  یہ ہم ہیں جو قرطاس ہیں،  یہ ہم ہیں جو قلم ہیں،  قرطاس کی چاندی نور ہے،  اس کے ورق ورق میں وہ ظہور ہے!  شبیر و شبر کی بات کرو تو جلال میں جو ہو،  اسکا وظیفہ بھاری ہوتا ہے  اس کی قربانی عظیم ہوتی ہے. قبلہ عشق کا ملتا ہے اسے، جس کی رگ دل سے چھری سے جاری خون کسی مینڈھے کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ دید ہوتی ہے ـ یہی حج ہے!  خلقت چاہے سوا لاکھ کالے کپڑے کے گرد پھیرے مارے، گر دید والے سے نہ ملے تو شریعت قائم رہ جاتی، ظاہر کا بھرم رہ جاتی. اندر خالی رہ جاتا ـ اندر نور نہ ہو تو فائدہ نہیں نماز کا ـ افسوس ایسے نمازیوں پر جن کی نمازیں ان کے منہ پر مار دی جائیں گی ـ افسوس ایسے نامی حاجیوں پر جن کا کالا رنگ نہ اترا،  افسوس اس وقت پر، جس کو رنگینی میں ضائع کردیا گیا ـ ہائے!  وہ ملنے آیا تم سے، تم نے برتن میں نجاست بھرلی. وہ تو مرج البحرین یلتیقان کی مثال قائم رہتا ہے جب تک کہ نور بجھ نہ جائے. اللہ تو نور کی تکمیل چاہتا مگر جو نور کو خود بجھا دے. ان پر افسوس کیا جاتا ہے. آج خدا نے افسوس کیا ایسے دلوں پر جنہوں نے اس کو زبان کے پھیرے سے مطلب کے لیے رکھا، جنہوں نے خیال میں سجائی کائنات ـ وہی اصل ذاکرین ہیں. انہی ذاکرین نے الکرسی کی مثالیں بنانی ہوتی ہیں جلال والے نینوں میں. کرسی والا چلا جاتا ہے ذاکر کے دل میں اور الحی القیوم کی صدا آتی ہے ـ ھو الباری ـ اس نے میرے عناصر کو ترتیب دے دیا ہے،  میرے اجزاء میں خاص لعل ہیں، کہیں عقیق ہیں تو کہیں نیلم. یہ نشان روح پر پڑتے ہیں جبکہ روح امر ربی ہے جو صدائے کن کی واجب ہے. وجود اس کی ہیبت سے لرز جاتا ہے اور رگ میں جان نکالی گئی باقی جان نے ھو ھو کہا گویا اک رگ سے جو پانی نکلا باقی وسیلے بنے ھو، ھو کہتے رہے

درد ‏سے ‏بھیجا ‏گیا ‏درود ***

وہ درد سے بھیجا گیا درود،  وہ درد کی دوا بن گیا ـ درد تو دِیا گیا ہی اِس لیے جاتا ہے کہ رقص کرنے لگے زمانہ ـ زمانہ رقص نہیں کرتا بلکہ کائنات میں سب اشیاء کی تسبیح دکھنے لگتی ہے ـ  یہ اشیاء جن میں اس کے نشان ہیں،  زائر سیر کے دوران کہنے لگتا ہے کہ دیدار ہوگیا ہے ـ  یہ مدارج الی اللہ ہیں کہ اس کو جانے کو ذات ہی منبع ہے ـ ذات کا ستارہ، قطب ہے ـ قطب منور ہو تو ہر شفاف شے منعطف ہونے لگتی ہے ـ یہ شفاف ہونا لازم کیوں ہے؟ شفافیت "من و تو " کا جھگڑا ختم کرکے انالحق کی منزل سے گزار کے واجب الوجود بنا دیتی ہے ـ زمانہ لاکھ کہے انسان ہے مگر روپ بہروپ کو جانڑے کون ـ فرزانہ جانے گا انسان،  دیوانہ جانے گا ذات ہے 

اک فرزانہ ملا،  دیوانے سے ـ ملن کا قصور تھا فرزانگی جاتی رہی اور جذب حسن میں فرزانے کی کائنات ہوئی ـ چلو اشک بندی ختم کرو!  چلو رقص فزوں کرو کہ لٹو کا وجود نہ رہے ـ 

میری جان!  روح سے روح مل جائے گی!  میرے دِل محبت میں محبوب ہوگا ـ اے میری روح،  عشق،  عاشق اصل ہوگا معشوق کہ وجودِ عشق نے خدا کو وہ دوام بخشا کہ نہ فرق رہا،  نہ حذر رہا، نہ خطر رہا 

پری چہرہ ـ وہ بے مثال چہرہ ـ وہ پری چہرہ جس کا درون شامل کیے ہوئے تم سب کی صورتیں ـ ان صورتوں میں کہیں جلال ہے، کہیں جمال ہے، کہیں حال ہے، کہیں کمال ہے ـ یہ تسبیحاتِ درجات پکڑائی جاتی ہیں سیر الی اللہ میں اور جبل پر تجلیات اتنی پڑتی ہیں کہ جبل النور کا گمان ہونے لگتا ہے 

نظر نہ ملائی جائے گی 
نظر نہ اٹھائی جائے گی 
نظر سے ملاقات ہو گی 
نظر سے بات ہو جانی ہے 
نظر مظہر، نظر اظہار 
نظر زائر،  نظر دائرہ 
نظر حصار، نظر محصور 
نظار جبر،  نظر جبار 
نظر  مکان،  نظر لامکان 
نظر زمن،  نظر لازمان 
نظر محب، نظر محبوب 
نظر چنر،  نظر منظر 
نظر حاشیہ، نظر قافیہ 
نظر غزل،  نظر غزال 
نظر مجاز، نظر حقیقت 
نظر مجذوب، نظر جذاب 
نظر حسن، نظر حسین 
نظر قطرہ،  نظر قلزم 
نظر حرف، نظر کتاب 
نظر شاہد،  نظر مشہود 
نظر والی،  نظر ولایت 
نظر جمال، نظر جلال 
نظر حال،  نظر کمال 
نظر انتساب، نظر اختتام 
نظر محور،  نظر شمس 

نظر ملے،  حیا سے جھکا سر ـ جھکا سر نہ اٹھا اور محبوب کو دیکھا کیسے جائے؟  احباب بس دو سے اک ہوگئے اور مل گئی نظر ـ وحدت کا پیالہ ٹوٹے نہ ٹوٹے کہ جام الوہی ہے ـ شام سلونی ہے کسی دیوانے نے فرزانے پر نظر کی، جسم نہ رہا، لباس نہ رہا، بس خیال رہا ـ خیال خیال سے مل گیا   ـ 

یار مل گیا،  یار جانم، یار ہجر میں نمناک، یار جلن سے منتشر، یار خوشی سے مرکب، یار تحفہ، یار سائل، نفی کچھ نہیں اثبات کچھ نہیں ـ جہاں سارا اثبات ہے، کس کی نفی کریں؟  عالم ھو میں ثباتیت دیکھو،  دل پر ہاتھ رکھ کے پوچھو کہ اللہ کہاں ہے؟  اللہ واجب الشہود ہے   اللہ واجب الوجود ہے، اللہ ظاہر ہے،  اللہ شاہد ہے،  اللہ مشہود ہے،  وہ خود شہید ہے

رنگ ‏کے ‏سوانگ ‏بھرنے ‏آیا **

رنگ کے سوانگ بھرنے آیا 
وہ پھر مجھ سے ملنے آیا 
رنگ ساز نے رنگ دے دیا 
رنگ کی لاگی کا سوال ہے 
رنگ میں ترا رنگ پہلا ہے 
رنگ میں تو اول، تو آخر 
رنگ سے ملی ہے رشنائی 
رنگ ہے قلم،  رنگ دوات 
رنگ ہے ذات،  رنگ بات 
رنگ ہے سوت،  رنگ چرخا 
رنگ شہنائی، رنگ شادی 
رنگ جلوہ،  رنگ مجلی 
رنگ میں سنگ ہے وہ 
رنگ میں جگ ہے وہ 
رنگ میں ساز کون ہے 
رنگ میں راگ کس کا؟  
رنگ مورا ترا ہے رے؟  
مورا کیا ہے،  سب ترا 

صبر کی چنر میں رقص کیا گیا ہے دیوانہ،  دوات مانگی کلیر کے صابر سے!  اجمیر کا صابر زندہ ہے!  وہ تو شاہ کا پرندہ ہے!  قرار سے گیا کوئی!  جھوم جھوم کہے جائے! مورے صابر پیا، تورا رنگ لاگے رے، توری چنر ملی رے،  ترا جذب ملا رے،  تو سنگ رے،  تجھ میں جذب رہے،  رنگ سے لاگی نبھائیں گے جب کہیں گے کہ ھو الحی القیوم. وہ اللہ کے ساتھ اللہ والے ہیں اور بس سب مسند نشین ہیں ـ سب نے اللہ کو منالیا ہے ـ سب نے ہجرت و وصلت کا سنگ ہٹا کے موسم اک کردیا ہے ـ یہ جذبات و احساسات تو اس کی ملک سے نکلے اورتیر دل پر آشکار کر گئے یہی کہ روشنی ہے تو ان کی روشنی یے ـ ان سے ملا ہے رنگِ حنائی. ان کی چنر ڈالی گئی ہے ـ ان سے بات بنی ہے ان سے بات چلی ہے ـ ان کی نظر سے منظر ہوگئی ہوں میں اور وحدت کے پیالے سے کون جانے میخانے و پیمانے کا فرق ـ پیمانہ تو زمانوں پر محیط ہے تو زمانے سماگئے ہیں اور ًکلیر کے شاہ کہتے ہیں کہ شاہوں کے ساتھ رہنے والے شاہ ہوتے ہیں،  وہ مجذوب ہوتے ہیں،  وہ قلندر ہوتے ہیں،  وہ سمندر ہوتے ہیں،  وہ ذات کے ملنگ ہوتے ہیں،  وہ دھاگوں سے منسلک ہوتے ہیں یہ دھاگے جو ذات سے نکلے ہیں. ان کا رنگ طائر کو کشش کیے جارہے ـ صابر کے کلیر سے بات بنی ہے ان سے ملا ہے ایسا کشش کا نظام کہ کشش زات اپنی ہوگئی اور بچا کیا؟  بچے تو وہ اور ہار گئی طائر کی پرواز. وہ رک گیا ان کے مکان،  اپنا مکان بھول گیا ـ پرواز ملی تو ایسی ملی کہ سنہری رنگت والوں نے میرے ہاتھوں پر سجی حنا کو دیکھ کے سلام کیا ـ سلام قول من رب رحیم ـ خدا تو خود رحیم یے!

عاصی ‏بابا

عاصی بابا،  عاصی کے پاس کنگن ہیں فقیری کے ـ کون لے پائے گا؟  وہ تو کہے لو انزلنا ـــ جبل ایسے کانپے "واذ الجبال نسفت " جب ظہور ہوگا تو  " واذ النجوم انکدرت " یعنی تاروں کا آسمان بکھر جائے گا ـ آسمان اور زمین اک ہوں گے تو دوئی کے نَقوش  سب اتریں گے من سے ـ تب صبح سانس لے گی ـ یہ  سینہ  نگینہ ہے جس میں الم نشرح صدرک کی مثال ملحم آیات ہیں ـ ایسے مصحف جو شاہِ نوران نے بھیجے ہیں ـ شاہِ نوران نے اک بات سمجھائی ہے کہ شہہ کی سواری میں باری باری سب کا حساب ہوتا ہے ـ جس کے دل سے شہد گرتی ہے،  اسکو دے دیا جاتا ہے ـ بتائیے کہ شہد پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے ـشہد خیال ہے ـ شہد حضوری ہے. جب خدا مسند دل پر بیٹھا ذاکر ہوتا تو شہد سے بندہ شفاف ہوجاتا ہے پھر سرکار کا جلوہ ہوتا. ان گنت درود سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر

مستوار ***

مجبور گاؤں جاتے ہیں، وہاں مستور رہتے ہیں ـ وہیں پر لوگ مست وار کے نینوں پر قربان ہوجاتے ہیں ـ مستوار کون ہے؟ مست کس نے کیا؟  یا احد،  جبل احد سے نکلی صدا ـ دہقان نے یہ سنی تو مستانہ ہوگیا اور کہنے لگا "ھو " وہ رحمٰن جارہا ہے،  وہ رحیم جارہا ہے، وہ حاشر، تم نے دیکھا کیا؟ وہ تصویر میں چھپا مصور جانا؟ مستانہ تھا پاگل، پاگل کی سمجھ کسے لگے؟  مستانے نے شدت غم سے گریہ کیا، گریبان نالہِ آہو سے تارتار ہوا.  وہ رنجور چلتا رہا یہاں تک کہ مقامِ حرا پہنچ گیا ـ وہ سوچنے لگا کہ وادی ء حرا میں اسمِ لا سے الہ تلک تو ٹھیک ہے، محمد رسول اللہ کی تعریف کرنے والے بندے!  بندے خدا بہروپ ہوئے اور روپ بہروپ میں اپنا نعرہ آپے مار لگایا 
ورفعنا لک ذکرک 
مستانہ وادی میں کھڑا منظر دیکھتے منظر ہوتا رہا کہ دھول ہوتا رہا کہ غیاب سے عین صدا تھی نغمہ شیریں نے ایسا محو کیا کہ مجنون کو لیلی کا خیال بھول گیا ـ بتاؤ بھئی، وہ خیال کیا ہوگا جس میں محو ہو کے اسکا خیال غائب ہوگیا ـ جس کے حضور وہ تھا،  وہ بھی وہی رنگ میں لیے تھا ـ وہ عکس تھا آئنہ نہ تھا. آئنہ اک ہے اور جلوہ گاہیں ہزار. موسی کو جلوہ گاہ سے ملا سرر،  وہ چالیس سرر کی راتیں جو وحدت کی گھڑیاں تھیں ـطور دل میں وہ مقام ہے جس سے قلب مستحکم ہوتا ہے جلوے کو مگر پاؤں ننگے اس وادی میں جلنا شرط ہوتا جبکہ حرا ایسا مقام ہے جہاں نعلین بھی ساتھ ہوتی ہے کہ نعلین بھی مبارک ـ ہم جب ان کے سائے میں پلتے ہیں، شاہ کے غمخوار ہوتے،  وہیں گریہ زار ہوتے ہیں تو شہہ کا ہاتھ ہمارے سر پر رہتا ہے ـ ہماری کائنات ویسی استوار ہوجاتی ہے جیسے کہ پہلے اشتہار کی صورت یہ دل میں نقش ہوتے ہیں. سنو جو جو ان کے سائے میں رہتا ہے وہ خود نہیں ہوتا، وہ وہ ہوتا ہے جہاں سے نعت کی اجابت و مقبولیت کی بات چلتی ہے 
رنگ رنگ میں مصطفوی نور 
رنگ رنگ میں یہ چراغِ طور 
رنگ رنگ سے یہ دل ہوا مخمور 
رنگ رنگ نے دیا ایسا سرور 
نعرہ لگا کہ چلو چلو سب طور 
سب نے دیکھا اسمِ میم کا ظہور 
ہر پتا بوٹا میرا ہوا ہے مہجور 
طائر،  تو ہے کیا؟ نہ کر غرور 
ملیں گے غنیم سے تحفے ضرور 
شہ رگ سے ملیں گے اپنے ضرور 
یہ جو تو نے کہا، ترا کیا قصور 
وہ کرتا ہے جو چاہے کرے مشہور 
جسے کرے، اپنا بات سے مخمور 
لے جائے گا  مصطفی کے حضور 
ادب سے جھکے گا دل مرا ضرور 
وہ دیکھیں گے، جلوہ ہوگا ضرور 
ملے گا دائم، قائم رہے گا  سرور 
یہ عنایت ہے ورنہ سب مجبور 
حسنِ مصطفی کی رویت رویت 
حسن سے ملی،  بصیرت بصیرت 
حسن نے دی ہے صورت، مورت 
حسن نے دی ہے شہرت، دولت 
حسن کیا ہے؟  جذبی کیف ہے 
حسن کیا ہے؟  ربی سیف ہے 
حسن کیا ہے؟  شامِ لطیف ہے 
حسن کیا ہے؟  رگ مجید ہے 
حسن کیا ہے؟  اجتنابِ ہائے ہو 
حسن کیا ہے؟  سخن وری ہے 
حسن کیا ہے؟  نغمہِ جاوداں 
حسن کیا ہے؟  میم کی نگاہ 
حسن کیا ہے؟  میم کا ساتھ 
حسن کیا ہے؟  لا سے الا اللہ 
حسن کیا ہے؟  جذب سے جازب 
حسن کیا ہے؟ رگ سے عارف 
حسن کیا ہے؟ درد میں صامت 
حسن کیا ہے؟  جلوہ، جلوہ، جلوہ 

 
حسن کی سج دھج دیکھ رہے تھے سب اور مل رہے تھے سب!  جیسے ملے ہوں رب سے،  کن کے وقت کوئی نہ تھا مگر اس کا خیال جو ارادہ نہ ہوا تھا ـ ہم تب بھی محبوب تھے، اب بھی محبوب ہیں. اس نے ہم میں رکھی آیات اور محبت کی ان سے. حسن چاہنے والے کی آنکھ میں ہے ـ حسن دل بینا ہے جس نے دیکھا اس نے کہا سرر ہے . وہ محور ہے اور محور ہوگیا.

الحی ‏القیوم **

الحی القیوم 
وہ بقا کے دروازے پر کھڑا 
وہ فنا سے گزر کے ہے کھڑا 
شاہ کے در پر کون ہے پڑا 
نگینہ میری روح میں جڑا 
امتحان لیا گیا ہے بڑا کڑا 
ملا یار، یار تو اپنا ہے بڑا 
لامکان کے دائرے سے چلا 
ساجد ترے در پر ہے کھڑا 
نیناں دی لگی رے!  
نیناں دی لگی رے!
موج کر، مست رہ!
مست رہ!  ہست سے پرے 
ترے رنگ تمام ہوں گے ہرے 
تری دوا میری بات سے ہے 
تو میرا راگ، میں ترا ساز 
تو محجوب، تو مستور ہے 
تو سجدہ کر، ثمہ دنا مقام 
الف سے چل، لام تک تو آ 
سفر تمام ہوگا، منتہی ہوگی 
معراج کا سفر ہے، بشارت ہے 
اوج معرفت، اوج حقایت 
رفیقوں نے حزن نہ رکھا 
درد میرا دیا دم دم ہے چکھا 
تو رکھ لے دل میں شہد 
بات ہے یہ مہد سے لحد تک 
قاف سے قبلہ، شین سے شوق 
شوق میں عین ہوجا، عین ہو 
عین ہو، نین ہو، عین ہو، نین ہو 

کبیر نے کہا کہ مقبرہ اعظم کہاں ہے؟  صغیر نے کہا جہاں نطقِ اعظم ہے ـ وہیں پر مشروط ہے راگ سے نجانے کیا کیا ـ مجرب ہے دعا،  سلیقہ حیا سے آتا ہے بندگی میں جب دوا مل جاتی ہے ـیہ ہم ہیں جو سناتے ہیں اور سننے والے کہتے ہیں غم آگیا ـ ہم نے کان میں سرگوشی کی، بندے نے کہا غم آگیا ـ کیسے لوگ ہو؟  قربت کو غم کہتے ہو ـ جب قریب ہوئے، تبھی تو دور ہوئے!  دوری موت ہے!  موت کے بعد پھر وصلت ہے!  مرن توں پہلاں مریے، گل ساری ایہو اے.جانیے دل دی گل تے چلائیے ذکر دا ہل ـمالی دا کم کہ دیوے نہ دیوے پھل ـ تو نہ کر کل کل،  کل کل بڑی جدائی وانگ ہے،  ملدا نئیں ؤہ جس نوں اساں ملن جائیے ـ وفا نے سکھایا کہ سیکھو بس سیکھو.، بچے کیطرح سوالی ہو جا.

مابعد ‏حجاب

ما بعدِ حجاب طواف ضروری تھا اور تو نے نَہ کیا،  ہائے!  یہ کِیا کیا؟  طواف کیسے کروں؟ کیسے فرق جانوِں؟ فرصت ملے گی تو دیکھیں گے کہ مطاف کو چومنا کیسے ہے ـ ابھی تو محو ہیں دوست اور رقابت کا سوال نَہیں ـ اجتناب نہ کرو، حساب کرو مگر سراب نہ کہو ـ جواد وہ ہے جس نے سخاوت کی حد کردی ہو ـ رقیب نہیں کہ ہر جا،  دوست ہے ـ میرے دِل میں تری یاد کے ہزار پُل اور ان سے گھٹتا فاصلہ محض سوچ کا تھا ـ سوچ نے ہٹایا فاصلہ تو حائل صدیوں نے بتایا کہ نورِ قدیم سے فاصلے نہ تھے ـ وہ قدامت میں، کسی نے خود کو عرش کے پانی میں دیکھا،  عرش کے زیرسایہ رہنے والے نے پھر بھی قربت کی انتہا مانگی ـ انتہا کیا ہوتی؟  لذت نے بھلادی انتہا بھی اور سوالِ منتہی بھی ـ فلک پر حطیم ہے، مطاف بھی ـ وہیں اک جاذب، نظر خاتون کو بیٹھے دیکھا ـ وہ حسین تھی اتنی کہ اس کے حسن میں میں کھوگئی ـ میں نے اس سے سوال کیا 
تم اتنی حسین کیسے بنی؟
اس نے کہا:  یہی سوال تم سے بنتا ہے 
پھر اس سے آگے سوال نہ رہا،  اس سے آگے کا جواب لفظ کا محتاج نہ تھا کہ حروف نے اس حسین پری وش کے گرد چکر لگائے اور اتنے چکر لگائے کہ پری چہرہ غائب ہوگئی جبکہ وہ حرف سامنے تھے ـ پری چہرہ کہاں گئی مگر حروف نے یکتائی کی قسم کھائی اور یکتا ہوتے سب منظر ہوتے گئے دل میں ـ یہ کس کا دل تھا جس میں صورتِ مریم نے قدم رنجہ کیا ـ یہ عیسوی قندیل میں لگے شجر میں کیسا نور ہے؟ یہ موسویت کی چادر کا رنگ گہرا کیوں ہوتا جارہا ہے؟  شجر زیتون نے برق سے کلیمی کی صورت دی اور صورت صورت میں صورت اس کی جھلکنے لگی. اس کی غزل کے جا بجا قافیے ہیں اور میں اس کے شعر کا ایسا قافیہ ہوں جس کو بڑی محبت سے، بڑی چاہ سے، بڑی الفت سے لگایا شعر پر کہ یہ شعر رحمت بن گیا ـ رحمت میں رحیمی کا نگینہ لگا پڑا ہے،  کسی پیارے نے پیار سے کہا:  سو جا،  رات ہے ـ ہم نے پیار سے جواب دیا کہ پیار میں نیند نہیں آتی،  پیار میں پیار قائم ہوجاتا ہے ـخواب میں پیار ہے،  جاگ لگن کی دیر ہے جاگ جاتی ہے روح، راگ نے آگ لگائی ہے اور بابا جان نے بلایا ہے ـ بابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان گنت درود  یہ ہم تو قابل نہیں نا کہ خیال سجائیں مگر خیال سجے تو کہنا لازم:  سلام قول من رب رحیم ٌ رب کا سلام پہلے کہ بندگی کا طریقہ یہی ہے کہ عجز میں رہا جائے. راستہ بہت کھٹن ہے جی جناب کٹھن ہے مگر ساتھ سجن ہے اور رات اس میں مگن ہے ـ لعل گگن ہے،  دل میں شراب کہن ہے، یہ صحنِ ارم ہے کہ جانبِ حسن ہے ـ امام حسن رضی تعالی عنہ نے کیسی نرمی پائی شباہت بھی کیسی پیاری ہے اور نورانی ایسی کہ یزدان نے جمالیات کے سبھی نقوش قلب معطر کے حوالے کیے ـ ہم کہاں دیکھیں رے ان کو، وہ ہمیں دیکھتے ہیں اور لگتا ہے ہم ان کو دیکھ رہے. وہ اک قبر جس کی لعلی نے میرے دل کی زمین کو گاہِ کربل بنادیا،  سجدہ شبیری یہی ہے کہ  گم رہ مگر غائب نہ رہ

جمعہ ***

مجھ پر جمعہ نازل نَہیں ہوتا ـ احرارِ بریرہ و ریشم سے براءت نہیں ہوتی ـ ذکر میں جاودانی نہیں ہوتی ـ رات رحمانی نہیں ہوتی اور بات سبحانی نہیں ہوتی ـ کسی سے پوچھا جائے کہ جمعہ کیا ہے تو وہ کہے گا کہ دن ہے ـ یہی گڑ بڑ ہے کہ جمعہ دن نہیں ہے ـ تمام جہات کے منبعِ انوارات کی جمع ہے ـ جب جمع واحد میں ہو تو واحد واحد رہتا ہے پر کثرت ھو ھو بولنے لگتی ہے ـ سامنے الواحد بیٹھا جب ھو ھو یعنی " تو،  تو " سنتا ہے تو صبح صادق ہوتی ہے اور سحر سے پہلے جمعہ نازل نہیں ہوتا ہے ـ طلوعِ سحر میں رات کا سماع گویا شادمانی کا سماع ہوتا ہے ـ یہ وسیم کی طرف تحفہ ء ایزد ہے جب طائر پر لگا کے اڑان بھرتا ہے تو جانب یمن سے جانب لعل یمن کہ جانب حسین بروضہ امام رضی تعالی عنہ جاتا ہے تو سلام لب بہ دہن،  دل بہ سخن،  نظر بہ رہن،  قرض بہ لعلی ادا کرتا ہے تو شہِ دلاور،  دلاویز مسکراہٹ سے دلاوری عطا کرتے ہیں. ـ یہ جن کو روضہِ حسینی کے پاس بیٹھنے کی بشارت مل جاتی ہے تو گویا امامت کا تاج پہنا دیا جاتا ہے ان پر نگہ الطافانہ ہوتی ہے اور نظرِ محرمانہ سے محبوب کا جلوہ شروع ہوجاتا ہے ـ یہ کائنات کل وحدت کے دو ٹکروں میں دکھنے لگتی ہے ـ جمال بہ رسول اکرم معظم محتشم  سے بی بی پاکدامن سیدہ مطہرہ عاقلہ عالیہ راضیہ مرضیہ زہرا رضی تعالی کی سے جناب امامِ حسن رضی تعالی عنہ، وہیں جناب علی المرتضی رضی تعالی عنہ سے حسینی لعل یمن رض کی صورت بصورت جلال ـ قران پاک میں یہی دو آیات  ہمیں ازبر کرا دی جاتی ہے جیسا کہ اللہ حاشر ہے،  اللہ الباری ہے اللہ البصیر ہے اللہ العالی ہے اللہ جمال والا ہے اللہ ستار ہے اللہ قہار ہے اللہ جبار ہیں ـ اس کی ذات کی شہادتیں تقسیم ہوجاتی ہیں ان ہستیوں میں اور نورانی مصحف کھل جاتے ہیں. مطہرین لوح محفوظ پر قران پاک دیکھ سکتے اور پڑھ سکتے ہیں مگر لوح محفوظ تو دل میں رقم ہیں اور دل میں جھانکنا ہم نے چھوڑ دیا ہے 

جب دل میں جھانکنا چھوڑ دیا جائے تو جمعہ کیسے نازل ہو ـ کیسے ھو ہو تو کیسے اللہ روبرو ہو،  کیسے بات ہو تو کیسے ہم کلام ہو،  کیسے کلیمی ہو جب کلیمی نہیں تو معراج کی بات کیا ہو، یہ جو عشاق سدرہ المتہی پر رک جاتے ہیں ان کے آگے کا سفر رقم ہے ـ وہ دیکھ رہا ہے جو ہو رہا ہے کیونکہ وہ شاہد ہے اور بندہ مشہد  جلوہ گاہ بنا ہوا تو وہ فرماتا ہے لایدرکہ الابصار تو یہی دید ہے ـ ہم نے اس کا ہونا ہے اور دید ہونی ہے . ہم بھلا کہاں سے وہ خلا لائیں گے جہاں وہ نہیں ہوگا. جہاں وہ ہے جہاں میں ہوں نہیں میں نے وہی ہے تو کہیں اپنا آپ جلوہ گاہ دیکھتے ھو ھو کہے گا تو کہیں جلوہ گاہیں دل کو دیکھتے ھو ھو کہیں گی یعنی تو تو، تو پیار ہوگا. یہ محبت ہے یہ عبادت ہے ـ یہ سیادت ہے ـ اس سیادت کے پیچھے نقشِ نعلین پانے کی سعادت ہے ـ جب سعادتیں سادات سے ملنے لگیں تو جمعہ نازل ہو جاتا ہے

نماز***

نماز پڑھ!  نماز پڑھ!  نماز پڑھ!
گیان نہیں، مکان نہیں، جہان نہیں 
تو جلوہ گر ہوگا تو قضا بھی ادا 
فقیر کے سر پر ڈال دے گا وہ ردا
وہ ہے تو سب ادا، وہ نہیں تو سزا

نماز میں دستار باندھی گئی کسی شاہ کے والی کے،  دیکھنے والوں نے شوق کے مارے سرجھکا لیا، کہیں لاگی میں دم نہ رہے. دم نہ رہے تو گم رہے کون. اک جدا ہوتے ساتھ ہے،  اک ساتھ ہوتے جدا ہے. یہ خیال ترے سدا بہار ہمارے قبلے بنے. ہم نے دستارِ شوق میں قیام کی حالت سے،  سجدے کے حال تلک دیکھا ـــ حــم ... اس کی رمز نہ جانو، جو جانو تو تیار مذبحِ وقت میں سر کا سواد قضا نہ جانو!  وہ لیتا پہلے ہے اور دیتا بعد ہے. وہ فصلِ گل و لالہ کی لگالیتا ہے اور کربل کی زمین میں راکب کو ثاقب بناتا ہے. شامیانے جہاں لگے ہیں،  آستانے وہیں کے، جہاں ناز خاک نے کیا کہ یہ کس سجاد نے فخر بخشا.  وہ نماز بدلتی رہی؟ نماز بدلتی ہے؟  نماز نذر کا نام ہے، نماز ہدیہ کے نام ہے،  جان ہدیہ ہوئی تو نماز قائم ہوئی. جس کا اپنا کچھ نہ تھا، یار اس کے سنگ،  وہی تو ہے مست ملنگ، جس کو ملے ہست ہست سے رنگ، یہ ستار ہے رنگ برنگ!  کس نے پوچھا تھا کہ دستار باندھی کیوں جاتی ہے؟  کس کو بتایا گیا تھا کہ جس کو سرداری دی جائے، جسکو شوق کی سالاری دی جائے، جس کو قائم سواری دی جائے، جس کو یاری دی جائے کہ اسکو باری دی جائے.. پھر جان وار دی جائے کہ کہنے میں،  سننے میں قصے ہیں!  دکھ جائیں تو اجالے ہیں ‍. سالک کو چاہیے دیکھے تمام سیر کو اور حلقہ ء بگوشِ دستِ خرامِ مہرِ نبوت کے رہے کہ رہنے والوں نے دستِ الوہی میں تن دان دیا، من دان دیا. کیا  قربان ہوا، کیا نہ قربان ہوا یہ حساب نہ رکھا. اس لیے خدا نے ان کو بے حساب دیا. اجر ِ رحیم محبت ہے . رحمت سے رحیمی ملتی ہے اور رحیم بانٹ دیا جاتا ہے.

مطاف

مطاف میں جاذب نظر بیٹھی ہے، جس کے ہالہِ نُور سے اردگرد کے حرکت سکتے میں ہے.  جب بندے خدا کے محبوب ہوجاتے ہیں تو طواف یونہی ہوتا ہے. مکان میں نوران شاہ رہتے ہیں. شاہِ نوران، شاہ ولایت کے ساتھ رہتے ہیں. کعبے کے اندر جو نور ہے،  کالا رنگ اتر جانے سے وہی باہر ہے.  جاذب نظر اسی نور سے بانٹ رہی ہے. کعبے کی چادر اک حجاب ہے اور وہ حجاب تو نہیں رہا ہے. مطاف میں نماز ادا کی جارہی ہے. یہ کیسی نماز ہے جس میں گم صم رہ کے بات کی جائے. جس میں جو تماشائی ہو،  وہی آواز ہے.

میزان میں آواز اتری ہے،  آواز ایسی کہ شاہ نوران نے بلایا ہے ـ شاہ نوران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رونقِ دو عالم ہیں. ایسا محسوس تو کیجیے گلی گلی میں سب انسان ہیں،  کسی میں یا علی یا علی کی صدا لگ رہی ہے،  کسی میں یا محمد کی، کوئی غوث پاک کا دیوانہ ہے. انسان نہیں ہیں اس جہاں میں عالم ذات میں ہم سارے آئنے ہیں. وہ جب جھلک دکھلاتے ہیں ہم میں صدا ابھرنے لگتی ہے. وہی صدائے غنود ہی صدائے شہود ہے کہ شاہد ہی مشہود ہے.  اب کون پوچھے گا تم کون ہو؟ ہم کہیں گے ہم شاہ نوران کے سوالی ہے. ہم ان کے در پر رہتے ہیں یہ راز کسی کو معلوم نہیں ہے شاہ نوران نے ہم سے محبت کی ہے. یہ لعلی اسی نورانیت کی میراث ہے.

آدم ہو کہ حوا،  سب نے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوتا. کسی نے کہنا ہوتا ہے تو کسی نے کچھ کرنا ہوتا ہے. کسی کو آگ لگنی ہوتی تو کسی کو آگ لگانی ہوتی ہے،  کس کو آگ چاہیے؟  یہ پاک وادی ہے،  جوتے اتار دو،  تاکہ آگ مل جائے ورنہ انسان تو بیچارہ ہاتھ ملتا رہ جائے گا

Thursday, February 25, 2021

خوش ‏وصال ‏گھڑیاں ‏***

سوچتی ہوں اُن خوش وصال گھڑیوں کو، عہدِ محمدی صلی اللہ علیہ والہِ وسّلم اور حضرت سلمان فارسی کی تَلاش کا سفر ..... آگ کی پَرستش کرتے ہیں مگر ان کا دِل ایسی پرستش سے خالی تھا، ان کو جستجو تھی ایسی ہستی کو چاہا جائے جو واقعی  اللہ کہلائے جانے کی مستحق ہو ....



فالھمھا فجورھا واتقوھا



حضرت سلمان فارسی سفر میں رہنے لگے تاکّہ اصل کی جستجو کی جاسکے. راہب سے ملے، اس کی خدمت کی تو علم ہوا، خدا اَلوہی اَلوہی ہستی ہے اور ان حضرات سے اللہ کا پتا ملتا ہے جو خود الہیات کے جامے پہنے ہوئے ہوتی ہیں ... راہب نے مرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خبر دی، ساتھ مہر نبّوت کی خبر دی....، فارس کے سلمان رضی تعالیٰ عنہ،  جستجو لیے مدینہ منّورہ پُہنچے اور کھجور کے جھنڈ دیکھے. دل کے اُن کے قرار آیا کہ  وُہی ہے سرزمین ہے جسکی عید جیسی خبر ملی ان کو، خُدا کی تلاش کو ایسے شخص کی تلاش کی جس کے پشت پر مہر نبّوت ہو، صلی اللہ علیہ والہ وسلم ..... فارس کے سلمان رضی تعالیٰ عنہ نے جب آیتِ نبوت دیکھی تو وجود خشیت سے لَرزنے لگا، اشک گرنے لگے،  خوشی کے آنسو، تلاش مکمل ہونے کے بیحال آنسو ......،  نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت پر ایمان لے آئے .......  اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ...



سلمان منا اھل بیت ....



تلاش و جستجو کا سفر،  حضرت ابو ذَر غفاری کا جناب سلمان فارسی سے بڑھ کے لگا،   دور جاہلیت میں فرمایا کرتے تھے، اللہ ہر جگہ موجود ہے، قبلہ بھی جس جانب وہ، اسی جانب وہ!  دل میں موجود خانہ کعبہ مقدس سمجھ کے خدا کو چاہے جاتے اور ایسی نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انتظار کرنے لگے،  جو ان کو حق سے واصل کرے ... ،  



فالھمھا فجورھا واتقوھا



حقیقت میں اللہ نے بَدی و نیکی ملحم کردی ہے مگر اِس کا اِحساس ایسے چند نفوسی کے لیے مثبّت ہوا، جنہوں نے دورِ جاہلیت میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرح خود کو پاک و صاف رکھے. حضرت ابوذر غفاری تو اس حد تک پہنچ گئے،  قبیلہ ء غفار کے منکرین کے بُت توڑ ڈالے .... تلاش ان کو درِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم لے گئی، یقین ایسا تھا بنا کسی نشانی کے کلمہ پڑھ لیا ....

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ



آپ صلی نے فرمایا اس سفر کو اخفاء رکھنا، مگر حق جس کو ظاہر کردے وہ رُکے نَہ رُکے، یہی حال جناب ابو ذر کا ہُوا، خانہ کعبہ گئے بُلند آواز میں کلمہ پڑھ آئے بنا کسی احتیاط کے پتھر برسیں گے، گھونسوں سے لاتوں سے مارا جائے گا،  غرض جتنا مار کھاتے، اسی جوش سے کلمہ جاری رہتا تھا ....یہاں تک کہ مدہوش ہوگئے ....اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی .... شیر دلاور کیسے چھپ چھپ کے اسلام کو رکھتا ... !



ان ہستیوں کو سوچتے اُویس قرنی کا خیّال آیا،  روح کا ربط روح سے کیسے جدا تھا، دور بیٹھے بھی کوئی بندہ ء خدا تھا،  سینے میں چلتا رہا قران کا علم،  انتقال کا یہ سلسلہ جُدا تھا!



محبت کے یہ سلاسل سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ذات بہت حقیر ہے. ذات کے تکبر کو نفی کیا جانا چاہیے تاکہ کسی اک صفت سے اللہ نواز دے اور مسلمان ہونے کی غیرت جاگ جائے،  تاکہ عمل کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے ..... پھر محبت ہو ایسی کہ حضرت بلال رضی تعالی کا سوز و گداز نصیب ہو، روح کو اذن ملے تو سفر ہو

استاد ‏کا ‏مقام ‏

اک استاد کا مقام آج کل کم ہوگیا ہے.  آج کے دور میں سب کمرشلائز ہوگیا ہے.. استاد پہلے بنانے کے لیے پڑھاتے تھے. اب استاد کمانے کے لیے پڑھاتے ہیں. استاد کا مقام بھی بدل گیا ہے. پہلے اک استاد کے ہزار شاگرد اک مجلس میں بیٹھ جاتے تھے اور ادب ایسا ہوتا تھا کہ مجال سر اٹھے کہ استاد کو گراں گزر جائے. آج کل استاد کو شکایت ہے بچے اسکی سنتے نہیں .یہ کس قدر مشکل مرحلہ انسانیت پر آچکا ہے .. استاد کا مقام صفر ہوچکا ہے کیونکہ شاگرد جانتا ہے کہ استاد کمرشل ہوچکا ہے ... استاد پہلے دلوں میں اتر جانے کا فن جانتے تھے مگر آج کل کے استاد ہزارہا حیلے ڈھونڈ ڈھونڈ کے بچوں کو پڑھاتے ہیں. استاد کا مقام کم ہوگیا ہے ..

استاد کو کیا کرنا چاہیے؟   کچھ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں. رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی شروع کردے ...بچوں کی تربیت ایسے کرے نسل سدھر جائے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے استاد تربیت کیسے کرے؟  

اک بچہ اک استاد کے پاس آیا اور کہا کہ یہ سوال سمجھا دیں!  استاد نے جواب دیا کہ ابھی تو فارغ نہیں. کلاس میں آکے سمجھا دوں گا تو بچہ کبھی استاد کے پاس سوال لیے آئے گا؟  

اللہ سے بھی تو ہم سوال کرتے اور اللہ کہے دو چار سال بعد سنوں گا. صرف سننے کے لیے سالوں کا عرصہ ...لوگوں نے اللہ سے بھاگنا شروع کردینا کہ اللہ تو سنتا ہی نہیں .. اللہ نے اس لیے تو کہا کہ میں شہ رگ سے قریب ہوں ... خدارا!  مقام کو پہچانیں!  سمجھیں استاد نے اپنی عزت خود نہیں کروائی .. استاد اپنے مرتبے سے خود گرگیا ہے ... 

یہ بہت مقدس پیشہ ہے! افسوس یہ پیشہ ہے. اسکو شوق ہونا چاہیے تھا ..وہ شوق جس سے معاشرے کی اصلاح ہو جائے!

سرحد

کبھی کبھی سوچ کے دَر وا ہوتے ہیں ـ مجھ پر اک دروازہ ایسے کُھلا کہ آہٹ سےچونک سی گئی ـ سوچ تھی کہ خدا مذہب سے ماوراء ہے، سرحد سے ماوراء ہے.  نیلے آکاش کی سرحد دیکھی کبھی؟  یہ سرحد  حدِ احساس سے ماوراء ہے ـ 

میرے من نے سوال کردیا کہ مذہب ضروری ہے 

میں نے جواباً کہا کہ منکر کون ہے؟  



میں تو فقط یہ کہنا چاہتی تھی خدا کو سب نے اپنے دل سے پہچانا ہے ـ جب پہچان لیا تو سرحد کا تعین ہو گیا 

کیسی سرحد؟
شریعت کی

غزل ‏

لباسِ تار تار کو رفوگری سے کام کیا
ملے ہیں اتنے زخم، مجھ کواب ہنسی سے کام کیا


ترے خیال کے سبب چراغ ایسا جل گیا
ہوا بجھا نہ پائے گی، سو تیرگی سے کام کیا



بہانہ دید کا بنے، ہو بات آپ سے کبھی 
کبھی تو آئیے گھر مرے، مجھے کسی سے کام کیا

ہماری زندگی ہیں آپ، ہر خوشی بھی آپ سے
بلائیں آپ دار پر تو زندگی سے کام کیا


جو ہم کو تیرے میکدے سے جام ہی نہ مل سکا
تو ساقیا ہمیں کسی کی تشنگی سے کام کیا


لہو لہو جگر میں  تیر ہے تری جدائی کا
پیا ہے آبِ موت،مجھ کو زندگی سے کام کیا 


حضور آپ جو کہیں، وہی کریں گے ہم سدا
فقط غرض ہے آپ سے، ہمیں کسی سے کام کیا


غرض نہیں کسی سے، جب چراغِ دل ہی بجھ گیا
کہیں جو روشنی بھی ہو تو روشنی سے کام کیا

عشق ‏نصیب ‏ہو ‏جسے ‏**

عشق نصیب ہو جسے ، مر کے بھی چین پائے کیا 
درد جسے سکون دے، نازِ دوا اٹھائے کیا


مرگ ہو جسکی زندگی، چوٹ اجل کی کھائے کیا
میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مُجھے بُجھائے کیا

ٹوٹا ہے دل کا آئنہ، عکسِ خیال لائے کیا
شعر کوئی بنائے کیا؟  مایہ ء فن لُٹائے کیا

غم سے مفر کِسے یَہاں، دیکھے جِگر کے زخم کون
کس کو سنائیں حال ہم،  اپنے ہی کیا؟  پرائے کیا؟

ساعتِ وصل حشر تھی  صدمہ ء زندگی بنی
بیٹھے ہیں روتے رہتے ہم، کوئی ہمیں رلائے کیا 

تاب نہیں سنانے کی،  دل کی تمہیں بتانے کی 
حالِ ستم زدہ کوئی غیر کو پھر سنائے کیا 

سخت ہے منزلِ سفر، رستہ نہ کوئی نقشِ پا
 تُو جو ہے میرا رہنما، رستہ مجھے تھکائے کیا

ماں ‏

ماں ایسی ہستی ہے جس نے تخلیق کا فرض نبھایا ہوتا ہے ، جس نے تخلیق کی خدمت کی ہوتی ہے مگر بدلے میں سرکشی ، خودسری خلقت کی سرشت ہوتی ہے ، ایسی بے مثال ہستی جس کی اپنی خلقت  بھی اسے برا، بھلا کہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے کہ خلافِ رحمت کام کرنا ماں کے شانِ شایان نہیں ہوتا

ماں! کیا ہوتی ہے ماں؟ آخر درد کو حاصل کرکے کتنا سکون پاتی ہے ماں؟ اس  ملال کو جو رکھے دوریوں پر، کتنا ترساتی ہے ماں، وہ جب جب قریب ہوتی ہے، فلک پر دنیا نصیب ہوتی ہے! ماں کی مامتا بڑی بے لوث ہے! بڑا دکھ سہا مامتا نے! تخلیق کے وقت موت سے گزر جانے والی ماں کی قدر اسکی اولاد نہیں جانتی مگر اسی نافرمان اولاد کے پیچھے بھاگ بھاگ کے جاتی ہے ۔ بچہ پیدا ہوتے ماں کا لفظ پکارتا ہے اور ماں خوشی سے پھولے نہیں سماتی ! بچہ اپنی پہچان کو ''ماں '' بلاتا ہے اور جب بڑا ہوتا ہے تو اسی ماں کو بھول جاتا ہے ، بچہ ماں ماں نہ کہے ، کتنا دکھ کرے ماں ۔پہچان اصل چیز ہے جو بڑے ہونے پر سب بھول جاتے ہیں

ماں کی دوری نے ہلکان کردیا جیسے ذرہ ذرہ پریشان کردیا، کتنا دکھ کرے تخلیق ؟ دکھڑا درد کا کیسے کہے تخلیق؟ جب سنے نہ کوئی تو کون سنے؟ جب دکھےنہ کوئی تو کون دکھے؟ جب چھپے نہ کوئی تو کون چھپے؟ جب اٹھے نہ کوئی تو کون اٹھے، ماں نے پورا وعدہ نبھایا پر سبق ملن کا نہ آیا

سبق ملن، جدائی اور ہجر نے جلادیا دل، جلا دیا دل، اس کی جانب نگاہ ہے، سجدے میں سر بھی جھکا ہے، اس کو پہچانوں ناں، کتنا دکھ کرے ماں؟ وہ جو قریب ہے؟ وہ جو حبیب ہے؟ وہ جو حسیب ہے، وہی نصیب ہے! 

ماں تو دوری بڑا ستاندی اے، 
اکھ ہن نیر وگاندی اے

ماں تجھے پہچان نہ سکوں تو کس کو پہچانوں؟ ماں  تجھے نہ مانوں تو کس کو مانوں، زمانے کے سرد و گرم سے بچایا، مجھے نور میں چھپایا، لہو لہو دل ہے، قلب میں جس کا جلوہ ہے جس کی قندیل ہے، وہی میرا وطن ہے، وہی میرا اصل ہے، وہی مرا مقصدِ حیات ہے جس کو پایا بعدِ ممات ہے! ماں توں دوری نے آزمایا، لوکی کہون مینوں پرایا، میں اس دنیا اچ کی کمایا جے ماں تینوں نہ پایا؟

یہ جذبات، یہ احساسات، یہ رگ رگ سے نکلے لہو کے ان دیکھے قطرے جو گر رہے قلب کے وجود پر، جن کا نشان نہیں ہے مگر ظاہر نے نمی سے منعکس کردیا جس کا جلوہ  عالی ذیشان ﷺ کی آنکھوں میں ہے، وہ مسیحا، وہ جس کو میں کہوں: میرے  عیسی ، قم باذن اللہ سے میرا دل جلایا،  دی زندگی، قلب کو منور کرایا ....  وہ مجسمِ نور ، وہ سراپاِ رحمت ، وہ عین رحمانی ، وہ نور یزدانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ طہٰﷺ ، جن کی تجلیات نے بطحا کی وادیوں کو روشن کردیا ہے ، جن کا احساس دائمی ہے ، دل جن کے آنے مجلی ، مطہر ، مطیب ، منور ، منقی  ہوجاتا ہے ، انہوں نے درد کو سہا ہے ، وہ محبت جو خالق نے اپنے محبوب ِ خاص ﷺ کو دی ، وہی محبت عام کردی آپ نے یعنی کہ بانٹ دی ، خالق کی عنایت تو خاص کر دیتی ہے ، نبی ﷺ کی نظر سب پر یکساں پڑتی ہے ، ذروں کو آفتاب کردیتی ہے ۔

وحی ‏

غارِ حِِرا، جبل النور میں واقع ہے. کہساروں سے بھرپور وادی میں وحدت کا نظّارہ کرنا مشکل نہ تھا! اللہ کی دید کی ابتدا سے پہلے علم یعنی نور کی جانب رجوع ضروری ہے. آنکھ متصور اس وقت کے گھڑیال پر ہے، جب چودہ صدیاں قبل اک نفس سجدہ ریز رہا اکثر، یہ قیام حرا کے غار میں اور سجدے آیت دل منور کیے دیتے، لڑیاں آبشار کی مانند آنسوؤں کی بہتی ..وہ پاک صفت نفس، لاجواب تڑپ لیے ..خدا کو دیکھنا کمال دیکھنا    .... وہ الوہی صفات کا جامے پہنے  نفس سفید لباس میں موجود خُدا کی دید کی خاطر سب سے الگ تھلگ ہوگیا ..... 

غار میں مقیّد، سپیدی نے رات کا پردہ چاک نَہیں کیا تھا مگر غار بقعہ نور بنا ہُوا تھا ، نور محل بننے جارہا تھا... فلک پر نوریوں نے یک سکت دیکھا تھا  پھر خالق کو سجدے میں واپس پلٹ گئے، اسی اثناء میں جبرئیل امین غار حرا میں وحی لے کے آئے!  نور سے دل بھرنے جارہا تھا ....




جبرئیل امین آگے کو لپکے، سفید روشنیوں نے غار کو ایمن بنا رکھا تھا .... آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اک حال میں فرماتے "امی پر ہوتا نَہیں عیاں " جبرئیل امین آگے بڑھے،  سینے کو سینے، قلب کو قلب سے، روح کو روح سے معطر کردیا .... اب جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اقراء پڑھا

اس کی گونج پتھر پتھر کو پہنچی .... بس پورا غارا جھک کے مسجود ہوگیا. ...آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر لوٹے تو گھبرائے ہوئے تھے، خشیت سے آنکھ وضو میں ..... زملونی زملونی .... آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا....

میرے نفس کی ریا کاری دیکھیے، قران کا لفظ لفظ پڑھا مگر لفظ اقراء کے مکارم نہ کھلے .... پڑھتی کیسی؟ قران پاک کے لفظ عام تو نہیں ...دل کو پاک کرنا، نفس سے جان چھڑانا آسان تو نَہیں .... منافقت اس طرّہ پر کہ دل خیال کیے بیٹھا ہے اس کو قران پاک پڑھنا آتا ہے!  دل کی ریاکاری پر تف!  دل کو ملامت صد ہزار!  اس ملامت کے پیچھے ریاکاری چھپی ہے جسکو سمجھنے کے لیے دل میں جھانکنا چاہیے .... یہ اک کیفیت مکمل مل جائے تو دل تقدس میں ڈھل جائے!  وضو ہو جائے دل کا ...نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مکمل زمانہ متصور ہو جائے      ......  کیا چاہیے ...کبھی کبھی جب دل بہت بے چین ہوجاتا ہے تو اک منظر سامنے آجاتا ہے ....طائف کی سرزمین ....پتھر برسنا ...خون کا گرنا ...زمین کا لہو لہو ہونا ..وہ رویت بے مضطرب کن جب دعا کو ہاتھ اٹھنے ..شرم سے دل کا جھک جانا ..پتھر کھا کے دعا دینے والے، میں نفسی نفسی میں ڈھلی مورت..کاش  ڈھل جائے،میری  سیرت  مکمل،  کامل، اشکوِں سے  نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مناظر دیکھتے دیکھتے

لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے قران کا نزول،  علم صدر در صدر  کیسے پھیلتا ہے ....لازم ہے ہم کو ملے گا اشکوں کا تحفہ ...لازم ہے ہم حال سے مغلوب ہوتے سہیں  گے سب ستم، مسکرا کے کہیں گے مرحبا یا سنت!  مرحبا یا سنت!  مرحبا یا سنت!  

تلاوت ہم بھی کرین گے واتبتل ہوکے، تبتیل والی کیفیت پر ہم بھی رہیں گے ...اللہ پاک کا نور  تصور غالب رہے گا .....، ہماری ذات اور وہ رہے گا ہر جگہ موجود .

پری ‏چہرہ ***

جتنے الیکڑانز کائنات کے مدار میں ہیں، 
جتنے سورج کہکشاؤں میں ہے، 
جتنے دل زمین پر ہے 
اے دل!  قسم اس دل کہ سب کے سب انہی کے محور میں یے 
جتنی روشنی ہے، وہ جہان میں انہی کے  دم سے ہے 
لکھا ہے نا، دل، دل کو رقم کرتا ہے 
لکھا ہے نا، جَبین سے کَشش کے تیر پھینکے جاتے ہیں
لکھا ہے نا،  سجدہ فنا کے بعد ملتا ہے 
اے سفید ملبوس میں شامل کُن کے نفخ سے نکلی وہ  روشنی
جس روشنی سے لامتناہی کائناتوں کے دَر وا ہوتے ہیں 
تو سُن لیجیے!  

ان سے نسبتیں ایسی روشن ہیں، جیسے زَمانہ روشن ہے 
جنکی قندیل میں رنگ و نور کے وہ سیلاب ہیں کہ سورج کا گہن بھی چھپ سکتا ہے اور چاند اس حسن پر شرما سکتا ہے

وہ ا روشن صورت درد کے بندھن میں باندھے  اور خیالِ یار کے سائے محو رکھتے اور کبھی کبھی فنا میں دھکیل دیتے ہیں

تو سُن لیجیے! 
تو سُنیے، خاک مدینہ کی چمک کا اسرار
مہک و رنگ و نور سے نگہ سرشار 
روئے دل میں آئے صورتِ یار بار بار 
کرے کوئی کیسے پھر اظہار 
وہ مصور کا شہکار   

جب کوئی خیال میں جھک کے قدم بوسی کرے تو فَلک کو  جھک کے سَلام کرتا پائے!     
محبت میں کوئی نہیں تھا، وہی تھا ..
یہ خاک کچھ نہیں،  وہ عین شَہود ہے 

ہم نے مٹنے کی کوشش نہیں کی کہ  یاد کرنے کو وہ پانی زمین میں شگاف نہیں کرسکا ہے وگرنہ کیا تھا فنائیت میں "تو باقییست "کا نعرہ لگاتے رہتے ....

اے زاہدہ، عالیہ، واجدہ، مطاہرہ، سیدہ، خاتون جنت! 
کتنی عقدیتوِں کے افلاک وار کے کہتی ہوں .... سلام 
اے آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتنے دل یکجا ہوتے ہیں، کڑی در کڑی در سلسلے سے مل کے سلام بھیجتے کہتے ہیں کہ جلوہ جاناں پر لاکھوں سلام

مصطفوی چراغوں کی تجلیات دِیے، شبیر و شبر کی کنجی
 
کتنے مومنین کی بنات آپ کے  پاس آنے کو بیقرار ہیں،  روح صدقہ ء جاری پانے لگے گی اور کہے گی کہ نواز دیجیے، 

جب کوئی چہرہ ماہناز کو دیکھے  تو جذب کتنی کائناتوں کے در وا کرتا ہے ... وہ کائناتیں لیے ہیں 
وہ حجاب میں عین نمود ہیں........
لن ترانی سے رب ارنی کے درمیان ہستیاں بدل دی گئیں تھیں مگر اے نور حزین! فرق نہ دیکھا گیا، جب زمین میں شگاف پڑتا ہے تب کچھ نیا ہوتا ہے ...میرے ہر شگاف میں  نمود ہے،

یہ  کمال کے سلاسل میں تمثیل جاودانی ہے کہ رخ زیبا نے دل مضطر کے تار ہلا دیے ہیں، مضراب دل ہو تو کتنے گیت ہونٹوں  پر سُر دھرنے لگتے ہیں، کتنے دل جلتے گلنار ہوتے یقین کی منزل پالیتے ہیں اور دوستی پہ فائز ہوجاتے ہیں ..

صورت شیث میں موجود   یعنی کہ حق کا جمال کتنا لازوال ہے، تحفہ ء نَذر بعد حاصل اک دوا ہے ... 

میں نے ساری کائناتوں سے پوچھا کون مالک 
کہا اللہ 
میں نے پوچھا کون میرا دل؟
کَہا بس وہ، بس وہ، بس وہ

بس میں نے فرق سیکھ لیا ہے مگر فرق تو وہی ہے جسکو میں نے کہا ہے، درحقیقت اک رخ سے تصویر دیکھی کہاں جاتی ہے.

یہ دل جھک جاتا ہے تو اٹھتا نہیں ہے 
پاس دل کے اک نذر کے کچھ نہیں کہ یہ لفظ ادعا ہیں ..یہ دل سے نکلتے ہیں تو دعا بن کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ...

میری آنکھ سے دل کے نیل دیکھے؟
دل کے نیل پہ افلاک گواہ ہیں 
جی ان سے خون رس رس کے ختم ہوا کہ جدائی کی تیغ نے جان نکال دی ہے اور سارے وہ پل،  جن سے کھڑا رہنا تھا، بیٹھ گئے ہیں 
وہ کشتی جس کے بادبان طوفان لے جائے وہ کیسے چلے 
بس کشتگان رہ وفا نے لکھی ہے تحریر کہ بتادے بنام دل حیدری آواز یے کہ وہ ہیں،  ہاں وہ نقش رو ہیں،  پری چہرہ روبرو ہے ...

فریاد ***

آج خود سے بات کرنے کو دل ہے، خود تو خود سے بچھڑ گیا .....،  اسکا درد کون جان پائے!  ہائے رے میرا دل،چُنر رنگ دی گئی  اور بے رنگی دی گئی! 
اِلہی ضبط دے، ورنہ قوت فغاں دے 
نالہ ء بلبل سننے کو، جہاں کو تاب دے 
باغِ گلشن سے اجڑ گئے سب پھول
تاج یمن سے اجڑ گئے سب لعل
قریب مرگ جان نوید جانفزاں آیا 
وقت مرگ مرض نسیاں کے طوفان نے عجب شور مچا رکھا ہے، کاٹ دیا گیا سر،  برہنہ تھی تلوار اور خون بہہ رہا تھا ... 
الہی ماجرا ء دل دیکھ کے اہل عدن رو پڑے 
یہ تری حکمت کی فصیل تھی، جرم تھا کڑا،   

باغ رحمت کے پاس کھڑی ہوں اور وہ کان لگائے ہمہ تن گوش ....
بَتا درد دیا تو قوت درد بھی دے 
یہ درد تو مرگ نسیاں ہے!  
کھاگیا بدن، پی گیا لہو،  کھنچ گئی رگ رگ ...
پھر ترے پاس کھڑی پکارتی رہی 
الہی درد دیا تھا تو تاب ہجر بھی دے 
وحشت دی ہے تو لذت مرگ بھی دے 
ملیں ترے وصل کے اشارے،  ملن نہ ہو 
ڈھونڈو ملنے کے بہانے،   بات نہ ہو!  ....
الہی، محرما نہیں کوئی ...
الہی،  روشن شب فرقت میں دیپ جلے ہیں 
الہی،  دست وصال لیے،  دست کمال ملا ہے 
الہی،  ہجرت کے درد نےاور ہجرت فزوں کردی 
الہی،  آشیاں تباہ ہوا، بنا تھا،  پھر بگڑ گیا   
الہی،  داستان غم لکھی تو نے، سناؤِں میں 
الہی، مزے تو لے اور درد کا گیت گاؤں میں 
الہی،  کچھ تو نگاہ کرم مجھ پہ کردیتا ہے 
الہی، یا تو لمحہ وصال مستقل کر، یا درد سے فرار دے 
الہی،  اشک تھمتے نہیں،  زخم بھرتا نہیں،  رفو گر کا کیا سوال؟  
الہی،  شدت درد نے مریض کردیا ہے،

ایک فریاد  وقت ِصبا سے!
ایک بات،  اک دل کی لگی کا قصہ  
اے وقت نسیم! 
سن جا!  محبوب کو بتانا 
ادب سے،  
ملحوظِ ادب کو سجدہ کرنا اور مانند رکوع نماز قائم کرنا 
یہ عشق کی نماز ہے ....! 
کہنا،  جب سے میخانے کا رستہ ملا ہے،  جام جم یاد نہ رہا،  جب سے دیوانہ بنایا ہے،  آپ کا نقشہ ہی یاد رہا،  
قرار نہیں ہے،  فرار نہیں ہے،  تپتا تھل ہے،  آبلہ پا!  کیا کروں؟ 
زخم رَس رہے، کوئے اماں کیسے جائیں؟
ہجرت کے نِشان ڈھونڈنے کَہاں کَہاں جائیں؟


یہ کسی کی سرگوشی جو سنی ہے دل نے!  
حکم الہی اور احساس کی تلوار 
یہ دی جاتی ہے اور رگ رگ سے جان نکالی جاتی ہے... یہی تلوار ہے جو پیوست رہے تو دمِ ہجرت میں دمِ وصلت کا احساس فزوں ہوجاتا ہے. اسی احساس کی روشنی میں ملاقات طے پاجاتی ہے!معجز نور کے سامنے کی بات ہے اور بات ہی چلتی ہے.احساس دل چاک کرتا ہے اور دل پر شوق کا رنگ کچا ہو تو محویت کا جام کیا سب رنگ پکا کردے ....
احساس کی صدا سنائی دیتی ہے! 
تجھے شوق سے دیکھوں ،  تو کدھر؟ 
میں تو گم ہوں،  نہ جانوں کدھر،  
یہ شوق احساس جو مانند شمع جلایا جائے اور جس کی مہک مانند اگربتی پھیل جائے ...
یہ معطر خوشبو ہے!  اس دھواں کی مثال عنبر و عود کی سی ہے! 

  قسم شب تار کی، ناز حریماں پہ سب تارے لٹا دوں،  شمس کیا،  سب آئنے محویت کے یکجا ہوکےٹوٹ جائیں گے اور کیا چاہیے؟
احساس سے کہا جاتا ہے جواباَ

دل کی لاگی ہے، نبھانی مشکل ہے 
ریشمی رومال سے لاگ کا سوال ہے
 
ریشم ریشم دھواں ہے،  دل میں لرزتا رواں رواں  ہے،  ... کیسے دل مطہر و پاک ہو؟  مصفی ہو؟ معجل ہو؟

او صاف صفائی دل دے کرئیے تو رب مل جانداں اے 
جنہاں کیتی  نیک کمائی اونہاں نوں رب مل جانداں اے

بہ ‏عنوان ‏درد *|*

درد سے ہلالِ نو کی تخلیق 
حسن سے گل رو کی تخلیق 

صاحبو!  دل تھام کے رکھو. تھام کے دل دھک دھک کی صدا میں یارِ من کی پُکار سُنو! حسرت ہے یارِ من کی سنی نَہیں. خلوت جلوت میں یار من نے سنایا اک قصہ. اک درویش روٹی کھا کے اللہ اللہ کی ضرب لگاتا ـــ اللہ اللہ جاری ہوا کھانے سے ـــ درویش نے پوچھا ـــ مرے پیٹ میں پُکار کیسی 
اس نے کہا 
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین 
درویش نے کہا:  تجھے خدا نے محفوظ رکھا تو آہ و بکا کیسی؟

جوابا وہ گویا ہوئی ـــ وادی ء من کے سیپ جب خیال میں ڈھلیں تو آنکھ حیرت زدہ، دل پگھل جائے. اگر میں محفوظ رہی تو تری معرفت مجھے جلا دے گی ... تب و تاب کو سہنے کا حوصلہ تو پہاڑ میں نہیں ... اسکے بعد درویش نے روٹی کو خود سے الگ کرلیا اور  یکسو ہو کے متوجہ ہوگیا ...توجہ کے بعد نہ خرد رہی نہ جنون رہا ـــ نہ فراق کا نوحہ ـــــ نہ وصال کا قصیدہ ..اک موسم چھا گیا 
الحی القیوم 
لا تاخذہ سنتہ ولا نوم 
بس مرگیا ـــ وہ مرا نہیں تھا

دردِ زہ کے بعد تخلیق ـــ یہ میرے حرفِ نو ـــ جن کے خمیر میں تری چاہت کے رنگ 
مرے کوزہ گر!
تو کَہاں ہے؟
میں نے ویسے زمین کو درد دیا، جیسا پاؤں سے بہتا لَہو عیاں ہے 
دردِ زہ!  
تخلیق!
اک منجمد پانی سے نئی روشنی 
اک برق سے نئے اشجار 
اشجار سے برقِ نو 
درد زہ!
پتھر صم عم بکم 
درد زہ!  
وجلت قلوبھم کی مثالیں کھالیں نرم 
دردِ زہ!  
شر البریہ سے شیطان ــ
خیر البریہ سے انسان ـــ 
درد کے چہرے میں رحمان 
تخلیق کا رنگ صبغتہ اللہ 
سنو چارہ گر 
اک بار ملو 
حرف سے بات کرو 
لفظوں کی سازش پکڑو 
سانس کی مالا میں روشنی ہے 
حریص ہو جاؤ ایسی مثال 
رحمت کے لیے حریص
کرم کے لیے،  فضل کے لیے

درد زہ!  
زمین ہلا دی گئی
نکل رہا زمین سے شر و خیر کا تناسب ...نکل رہا ہے،نکل رہا ہے ... 

ستارے سے ملو!
روشنی ہو گی 
آبشار کے طریق بہے گا وہ لافانی چشمہ ..جس میں پربت والجبال اوتاد سے والجبال نسفت کی مثال ہوں گے 
تری کیا مثال ہوگی!  
ماں صنف سے بے نیاز رہی ــــ 
ماں بے نیاز یے ـــ
ماں لا محیط یے
تخلیق سے نیلگوں مادہ وجود!  
اے عینِ ظہور بتا!  
درد کتنا سہا؟
بتا ترے آنگن کے سیپ کس کو ملیں 
ملن واجب ...ملن واجب ...ملن واجب 

 .لاشریک  لہ  ــ  خود کی نفی  ... جہل کی نفی  ...علم میں اضافہ ہوگا ــ تسلیم کا اثبات

تلاش ‏کا ‏سفر ‏۲ ***

قبیلہ قیس سے بنو مضر تک ایک شخص ایسا تھا جس کو رب سے بہت پیار تھا. حق تو یہ ہے کہ وہ رب کا دلارا تھا ...جس کے پاس بھیڑ بکریاں سکون سے پھرتی رہتی تھیں،   جس کی نماز حضورِ یار بنا نامکمل رہتی تھی ...وہ جس کا دل بنا کسی تحقیق کے، بنا کسی جستجو کے براہ راست حقیقت سے استوار ہوگیا ...جسکو شک نہ تھا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ..جسکی محبت پر اصحاب کو رشک آیا تھا .....سیدی اویس قرنی ...کیا کیا عاشق رسول ہیں ...کیا کیا عاشق رسول ہیں.   حبِ رسول سے روح جسکی گندھ جائے، وہ مہک جائے،  مدح و توصیف میں بہہ جائے، وار تیر و خنجر کے سہہ جائے، قاتل تلک  کو عفو کا سندیسہ دئیے جائے،  یہ چمن ہستی کے چمکتے چمکتے سرخ، نیلے پیلے،  ننھے ننھے سے پھول،  ان سے رنگِ گلزار دیکھیے،  سارا عالم بہار دیکھیے،  چہرہ یار دیکھیے، آنکھ ہو تو بار بار دیکھیے،  دل سے دل کے وار دیکھیے،  دیکھیے، شہِ ابرار دیکھیے، آنکھ تو  ہے، اشکوں کے ہار دیکھیے،  جبین جھکے تو اظہار دیکھیے،

وہ سرحدِ شام سے فارس کی سرزمین سے اک جوان روحی روحی، قلبی قلبی منور نکلا حق کو ..اک کوچہ ء جاناں سے دوسرے کوچہ ء جاناں تک،  سرحد ہا سرحد کے فاصلے طے کرتا،  جسکے پاؤں کی زنجیر اسکو ہلاتی، تڑپاتی اور وہ چلتا سمتِ یار کی جانب،  وہ گلستان عرب میں رسول مدنی کا ظہور .............تڑپتا، سسکتا اک کوچہ ء جان سے دوسرے تک سفر کرتا رہا " رہبری قافلوں سے مانگتا،  نشانیاں جوڑتا، ملاتا، دل کے تار سے وقت کے ملاتا اور مشیت کے تقاضے سوچتا،  جس کے دل میں نور حزین نے سایہ کررکھا تھا، وہ جسکی روح صدیوں کے حائل فاصلوں کو عبور رکھنے کی اہل تھی ، جانب حجاز مگن، تھا سر پہ گگن، کیسی تھی یہ لگن، دکھا اسے جو سجن، سوچا ہاشمی ہے مگر ہے مگن،  ستم نہ کہ کرم مگر شرفاء سا چلن،  فارسی تھا مسکن،  مہر نبوت دیکھ رکھی ہے، سیدی کی کملی پہن رکھی ہے، چمن کی خوشبو بھلی ہے، ،  رخ سے دور اندھیرا،  کسی کی عید ہوگئی،  آقا کی دید ہوگئی،  زلف محبوب کی اسیر ہوگئی،  نغمہ گل سے مڈبھیر ہوگئی، شمس کی کیا تدبیر ہوگئی،  غلامی کی تطہیر ہوگئی، مدحت نبوی شمشیر ہوگئی، قالب میں قلبی تمجید ہوگئی، گگن سے لالی نے جھانک لیا،  دل تھا جو مانگ لیا،  

ہوا سراسرئے، یا محمد
پتا پتا لہرائے، یا محمد 
سماوات نے کہا یا محمد 
زمین بول پڑی، یا محمد
چمن در چمن، یا محمد 
کلی درثمن ، یا محمد
گل لحن میں، یا محمد 
رب کی صدا،  یا محمد
القابات سے نوازے گئے 
مزمل سے ہوئی ابتدا 
مدثر سے کلی کھلی 
طٰہ سے حقیقت پائی
یسین سے دید پائی 
احمد بھی، محمد بھی 
الف اور میم کا سنگ 
شمسِ ہداہت کی کملی 
بشر نے تحفتا ہے پائی
بدلی رحمت کی چھائی 
زندگی کی یہ کمائی ہے 
آنکھ کیوں بھر آئی ہے 
قسمت رشک کرے ہے 
فلک آنکھ بھرے جائے 
میرے باغ میں دو پھول.
نام محمد سے ہوئے ہرے 
بوٹا امید کا کھِلتا جائے 
پیار جیسے ملتا ہے جائے 
شمع کو طلب پروانے کی 
جگنو کو طلب بوئے احمد

حق کی تلاوت، سلمان
تڑپ کی سعادت، سلمان 
گل قدسی مہک، سلمان 
جمال کی انتہا، سلمان 
محبت کا ایمان، سلمان
آنکھ کا وضو،  سلمان 
قفس میں اڑان، سلمان
ساجد کا وجدان، سلمان 
ذات با ریحان، سلمان 
محفل کی جان سلمان 
محشر کی روداد، سلمان
حجر کا آستان، سلمان 
عقل با رحمان، سلمان

سلمان کا پوچھتے رہیے، نام سلمان  رضی تعالج عنہ نے طرب بجا رکھا ہے، کمال کا نام سجا رکھا ہے،  سعید با سعد بنا رکھا ہے،  کشف در ححابات بہ ایں حجاب سلمان،  صلیب سے یکتائی کا سفر ہو،  یا ظاہر سے بباطن کا تماشا،  اک واحد یکتا کی داستان ہیں سلمان ..فخر بوترابی، لحنِ داؤدی ہیں،  تڑپ میں اویسی ہیں،  رفعت میں خضر راہ،  کعبہ شوق دیکھنے آئے، دیکھتے ہی کلمہ پڑھ آئے،  قریش کیا بھلا سوچیں،  غیب کی داستان پہ ایمان لائے گویا عدم سے حقیقت کو وجود میں لائے، حقیقت رسا کلمہ سلمان،

تلاش ‏کا ‏سفر ‏۱ ***

تلاش کا چَمن اَزل سے مہکتا رَہے گا، زَمن دَر زَمن کا سلسَلہ ہے. جستجو مانندِ گُل ہستی کا نور ہے اور حرفِ جستجو خیالِ پیرِ کامل ہے. حرفِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دل میں نمو پائے تو گویا بندگی کا جوہر نمو پائے. یہ عدم و موجود کے تعلق کا ایسا نقطہ ہے کہ انسان اس بن بہت ادھورا ہے. 

 

قبیلہ ء غفار میں ایک شخص ایسا رہا ہے جس کے دل میں اسکی پیدائش سے ہی الوہی چراغ نے نمو پالی تھی. وہ بت گروں کے قبیلے میں رہنے والا واحد فرد جس نے ہاتھ سے بَنائے ہوئے اصنام کی پرستش کرنے سے انکار کردیا تھا. قبیلہِ غفار اس سردار بچے کی عقل و دانش پر ماتم کُنان اور مشکک کہ وہ کیوں بتخانے نَہیں جاتا. یہ بچہ جوانی کی سرحدیں پار کرتا ہے تو اس کی زبان پر یہی کلمہ ہوتا "فثمہ وجہہ اللہ " دل میں پیر کامل کی آمد نے اخبار نشر کر رکھا تھا اور وہ نوجوان آنے والے تجارتی قافلوں سے پوچھا کرتا تھا کہ منبعِ انوارِ خشیت،  مہر رسالت و نبوت کی خبر دو! ایک دن  تپش سے بیحال ہوا،  اس قدر کہ چاکِ گریبان کیے عازم مکہ!  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بنا لیت و لعل حلقہ بگوش اسلام ہوئے!  اس وقت بہ آواز بلند کلمہ پڑھنا جرم تھا اور خون کے پیاسے،  مظالم کے بہانے ڈھونڈنے والے بیشمار!  جناب بوذر غفاری کو منع کیا گیا باآواز بلند کلمہ پڑھنے کی! وجہِ تسمیہ مظالم سے بچانا تھا، مسلمانوں کی حالت ابتر تھی مگر یہ جوان خانہ کعبہ میں داخل ہوتا ہے اور قریشی حلقوں میں بیٹھے  مصروف عبادت، بتوں کی ! ایک آواز ان کے کانوں میں پڑی، یہ بلند آہنگ آواز ایسی کہ سیسہ پلائی دیوار کو چیر دے اور تیقن سے بھرپور کلمہ پڑھنے والے بوذر غفاری گھیر لیے گئے . لاتوں، گھونسوں اور پتھروں کی برسات میں خون سے لت پت وجود نے مصمم آواز میں کلمہ پڑھا اور تواتر سے پڑھا،   خون بہتا رہا،  زبان،  دل بہ آہنگ بلند لا الہ الا اللہ کہتے رہے  اور اس تکرار پے کفار کی مار کی تسلسل! بس جان کنی کا عالم اور ایمان مصصم کا عالم کہ زبان سے کلمہ نہ چھوٹا،  پیرکامل کی نظر نے دنیوی غم بھلادیے اور جلوہ دے دیا ... پیرِ کامل میل دل کے دھوئے اور یقین کی وہ طاقت دے کہ جس سے سنگلاخ چٹانیں ریزہ ریزہ ہوجائیں. 

ملائک سے "سماوات " مخاطب 
مولائے کائنات سے "آپ " مخاطب
یوں سلسلہ ہائے نور در نو.چلا 
عرش سے نور فرش تلک  چلا 
زیست کے سفر میں کفر اضافی 
اللہ کے بندے کو اللہ ہے کافی 
ان کا سایہ ملے، بدلے گی کایا 
اسمِ محمد جہاں پر ہے چھایا
کلمہ حق کی استمراری زبان ہے 
نام محمد تو اللہ کی گردان ہے 
حق نے سج دھج کی مثالِ میم 
کائنات مسکرائی  مانندِ شمیم 
یہ وار، محبت کے تلوار سے کاری 
نعت لکھنے کو کیفیت سی طاری 

جاری ہے .......

یقین ‏

خدا سے تعلق یقین کا ہے ـ یقین کا ہتھیار نگاہِ دل کی مشہودیت سے بنتا ہے. دل میں جلوہِ ایزد  ہے ـ درد کے بے شمار چہرے اور ہر چہرہ بے انتہا خوبصورت!  درد نے مجھ سے کہا کہ چلو اس کی محفل ـــ محفل مجاز کی شاہراہ ہے ـ دل آئنہ ہے اور روح تقسیم ہو رہی ہے ـ مجھے ہر جانب اپنا خدا دکھنے لگ گیا ہے ـ کسی پتے کی سرسراہٹ نے یار کی آمد کا پتا دیا. مٹی پر مٹی کے رقص ـ یار کی آمد کی شادیانے ـ یہ شادی کی کیفیت جو سربازار ــ پسِ ہجوم رقص کرواتی ہے ـ تال سے سر مل جاتا ہے اور سر کو آواز مل جاتی ہے ـ ہاشمی آبشار سے نوری پیکر ــ پیکر در پیکر اور میں مسحور ــــ خدا تو ایک ہی ہے ـ دوئی تو دھوکا ہے ـ ہجرت پاگل پن ہے ـ وصل خواب ہے ـ مبدا سے جدا کب تھے؟  اصل کی نقل مگر کہلائے گئے ـ کن سے نفخ کیے گئے ــ کن کی جانب دھکیلے جائیں گے ـ اول حرف کا سفر حرف آخر کی جانب جاری ہے اور خاموشی کی لہر نے وجود کو محو کر رکھا ہےـــ  ساکن ساکن ہے وجود ــ سکوت میں ہے روح اور صبا کے جھونکوں نے فیض جاری کردیا ہے ـ جا بجا نور ـ جابجا نوری پوشاکیں ـــ نہ خوف ـ نہ اندیشہ،  یقین کی وادی اتنی سرسبز ہے کہ جابجا گلاب کی خوشبو پھیلنے لگی ـ وجود مٹی سے گلاب در گلاب ایسے نمود پانے لگے،  جیسے گل پوش وادی ہو اور مہک جھونکوں میں شامل ہو ـ یہ وہ عہد ہے جسکو دہرایا گیا ہے اور اس عہد میں زندہ ہے دل ـ یہ وہ عہد ہے جسکی بشارت دی گئی ہے ـ اس عہد کے لیے زندگی کٹ گئی اور کٹ گئی عمر ساری ـ بچا نہ کچھ فقط اک آس ـ آس کیسی؟ جب یار ساتھ ہو تو آس کیسی؟  یار کلمہ ہے اور پھر کلمہ ہونے کی باری ہے ـ قم سے انذر سے اور خوشخبری ... جس نے یار کو جا بجا دیکھا،  تن کے آئنوں میں دیکھا،  نقش میں روئے یار ـ مل گیا وہی ـ سہاگن باگ لگی ـ راگ الوہی بجنے لگا کہ راگ تو ہوتا ہی الوہی ـ محبت کا وجود تھا اور وجود ہے اور رہے گا مگر جس نے محبت کا میٹھا سرر پالیا ـ اسکو علم کہ سروری کیا ہے ـاس سروری سے گزر کے کچھ بھی نہیں اور اس سے قبل بھی کچھ نہیں ہے ـ من و تو ــ یہ نہیں مگر اک وہی ہے. وہی ظاہر کی آیت،  وہی باطن کی آیت ـ وہی مشہد،  وہ مشہود،  وہی شاہد،  وہ شہید ــ وہی اعلی،  وہی برتر ـــ چلتے پھرتے دیوانے جو دکھتے ہیں اور بہروپ کا بھر کے بھیس پھرتے ہیں وہی تو چارہ گر شوق ہیں. وہی تو اصل کی جانب ہیں

تمھاری ‏صورت

تمھاری صورت اک ظاہر ہے - دوسری درون کی ہے --- صورت گَری میں ہر صورت جُدا ہے مگر جدا صورتیں ہوتے ہوئے رنگ تَمام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکلے --- آپ؟  آپ اللہ کا نورِ خاص ہیں اور صبغـــتہ اللہ کی حَسین مورت ہیں --- اللہ کا رنگ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا رنگ ہے جسطرح اطیعواللہ ہے اطیعو الرسول --- یہ اَطاعت کَہاں سے ملتی ہے؟ تم کو یہ طاعت رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عطا ہوتی ہے جب وہ اپنی کملی میں لیتے --- کملی انکا نور ہے --- یا ایھا المزمل --- یہ پرجلال کملی --- یا ایھا المدثر --- یا صبح جَلال والی ---- طٰٰہ یہ ایسا سایہ جو جلالی قوت میں بخدا یکساں ہے جو صرف نبیوں اور مقربین کو عطا ہوتا ہے --- یہ یسین ایسا پرت ہے جو تہہِ دل میں بے انتہا جمال لیے ہے --- حـــم نفس کی عبدیت سے بے نیازی کا نشان ہے -- یہ سفر کے استعارے ہیں جو نبی ء محتشم خود عطا کرتے ہیں --- صلی اللہ علیہ والہ وسلم -- یہ سفر ہے جس کو وہ خود طے کراتے ہیں -- یہ تمام ان کی زیر پرستی میں ہوتا ہے، وہی ہے جو پرواز قوت سے بلاتے ہیں وہی  ہیں جو پرواز دیتے ہیں کہ بندہ اقرب ہوجائے ...شہ رگ لا کہتی رہے اور بندہ پہ الا اللہ ثابت ہو -- جب الا اللہ ہو تو پھر اعراف میں جانا دور تو نہین ہے ..علیین سے ملنا کہاں نا ممکن ہے -- عالم برزخ پردہ ہے -- لاروحی کا -- اک ہے سب کے عالم -- اک ہیں سب یکتا اور یکتائی وحدت کا سفر ہے -- علیین والے بلندی سے دیکھتے ہیں زمین کو تو مطلع انوارات سے سب حشر خیز مراحل عبور ہو جاتے ہیں یہ ان کی نگاہ ہوتی ہے جو بانگاہ ہوتی -- مگر یکتائی خدائ کو ہے تو خدا ہی ہے جو علیین سے دیکھے یا زمین سے -- بندہ کو جب کچھ ملتا ہے تب وہ آسمان دیکھتا ہے برستا یے زمین بیل بوٹے اگانے لگ جاتی ہے یہ رزق ہے جو نیت پر مل جاتا ہے..رب حبیب رکھتا یے جو زمین کو اخلاص کا پانی دیتا رہتا ہے * 'چاند مثلِ شمس نہیں ہوتا مگر شمع آفتاب بن جاتا ہے جس سے کرنیں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں کرنیں بھی کیا پھیلیں جب پروانہ جل جاتا ہے بس مرکز بن جاتا ہے قطب بن جاتا ہے بندے کا قطبی ستارہ اسکے اندر ہے اور رب اس قطبی ستارے کی قسم کھاتا ہے والسماء والطارق کہ جب آسمان سے نگاہ ہوتی ہے تب قطبی ستارہ چمک اٹھتا ہے ورنہ انسان کی اوقات کیا ہے بین الصلب والترائب -- یہ اللہ ہے جسے جیسے چاہے نواز دے جسے جس رنگ میں نواز دے

محبت ‏کا ‏چہرہ

درد ــــ
لافانی ہو رہا ہے
روحانی ہو ریا ہے
دل دیکھیے، مترجم کی کہانی ہو رہا ہے
شمس کی طولانی ہو رہا ہے
آنکھ کی زبانی ہو رہا یے
جلے دل کی نشانی ہو رہا ہے.
یہ دل مانند پیشانی ہو رہا ہے
اچھا، کلام ربانی ہو رہا ہے
کعبہ میں اترے گا دل کبھی
کعبہ دل سے طواف طولانی ہو رہا یے
کاجل لاگ گئے ـــ لاگی من دیپک کی نشانی ہو رہا ہے
دھواں موم سے اٹھ رہا ہے
لہریے دارہوائیں ـــــ جذب عشق مستانی ہو رہا یے
نعرہ ء دل میں عشق کی گرانی
مرا دل وجود کی دھانی ہو رہا ہے

یہ بیان کیا ہے جب رگ رگ میں نسیان نہ ہو تو سمجھ نہیں آتا ہے کہ اللہ قران پاک کے لفظوں میں چھپا ہے (ھو الشہید) اللہ چھپا ہے جب لفظوں کو پیچھے راز پالیں تو ہمیں سمجھ آئے گا قران کیسے اترا تھا ...یہ کب کب اترا ..ہمیں جنابِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سینے سے اترتا، ان کی زندگی کے تمام واقعات دکھنے لگیں گے ...ہم جب تک ان کو دیکھ دیکھ کے قران نہ پڑھیں گے ہمیں نہیں علم ہونا کہ قران پاک ہے کیا؟ ان(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کے عمل دیکھیں گے،  ان کی محبت ان کی شفقت اگر نہ دیکھیں تو فساد کریں گے. مجھے نہیں علم کہ کہاں کہاں سے یہ بات کررہی ہوں  مگر  یہ علم ہے  کہ سر پر ہاتھ رکھا ہے....  یدِ بیضائی ہاتھ کا ہالہ مجھے گھیرے ہوئے ہے ـ میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں گم ہوں کہ یہ دست مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہر ہونے کی مثال کشتی ء نوح جیسی ہے اور نوح علیہ سلام کی مثال  استقلال جیسی ہے! جبکہ انسان کا دل موسی علیہ سلام جیسا نہ ہو تب تک بات بنتی نہیں ہے ـجسکو شہید کا شاہد ہونا نہ آئے تو فائدہ!  یہ بات جناب عیسی علیہ سلام تک جاتے ملتے نہیں ـ کسی کو خبر نہیں کہ  تمام انبیاء نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع میں اور ہم ان تمام کی اتباع میں ہوتے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کی اتباع میں ...یہ رویتیں نبیوں کی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں موجود ہیں اس لیے کسی کا روپ موسی علیہ سلام جیسا ہو جاتا کسی کا حال عیسی علیہ سلام جیسا ـــ کسی کا حال  مثل نوح ، تو کوئی خیال خوانی کرتا کوئی انتقال ِ بہ جگہ جانے کی صلاحیت رکھتاــ  کوئی  تو  مثلِ داؤد نغمہ سنانے والاــــ  سنیں کہ یہ کمالات ہمارے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کو حاصل ــ 

آج کے دِن اللہ تمھارے پاس بیٹھا ہے اور وہ کہہ رہا ہے میں دیوار بن کے سن رہی ہوں --- شاید دل بہت بیتاب تھا. دنیا کچھ نہیں ہے دنیا غیر ہے،  دنیا کو رکھا ہے پاؤں میں - ہاتھ میں محبت کا چراغ لیے روشنی مجھ میں پھیل رہی ہے یہ اسکے جلال کی نمود ہے یہ اسکی بات ہے جو سمجھ نہیں آتی. وہ کیا کبھی کسی کی فہم میں آیا ہے؟  نہیں فہم سے بالا تر ہستی ہے اس لیے تم میں موجود شفاف روح نے مجھے پکارا یے میں نے دل ہارا ہے یہ دل محبت کی تار سے جڑا ہے یہ دل جڑا ہے آسمان سے کہ محبت آسمانی جذبہ ہے کس کو بتائیں کہ جذب وہ خود کرتا ہے سامنے چہرے چہرے میں رونما ہو جاتا ہے بندہ کہتا رہ جاتا ہے کہ اس نے دیدار کرنا ہے،  طور جانا مگر طور دل سمانا یہ بات تم سمجھو ! میں سمجھوں بلکہ سب سمجھیں کہ اک نفی ہے ...اسکا دکھ نہیں دکھتا،  اس نے اپنی ذات زیرو کرکے ہمیں دنیا میں بھیجا اور ہم نے اس کے زیرو کو ایک نہیں کیا ...کیا اسکا دکھ کبھی کسی نے سمجھا یہ میں نے سمجھا ہے مگر مجھے سمجھ نہیں آتا ہے زیرو کو ایک کیسے کرنا ہے ...اسکے دکھ کم ہوں گے جب ہم چھپ جائیں  گے اور چلمنوں سے وہ جھانکے اور یہ لکا چھپی ہوتی رہے ـــ  لا الہ الا اللہ ہوتا رہے اس وقت ساری دنیا چھپی ہے کہیں لکا چھپی ہو رہی ہے کہیں الا اللہ ہو رہی ہے. قران پورا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا بیان.ہے

تضاد ‏و ‏اخلاص

رنگ نے جہانِ نقش و بو میں دھکیل دیا ہے ـ دوئی کا خاتمہ ایسی دنیا میں ہوجاتا ہے اور ست رنگی بہار، یک رنگ کی نَیا میں بہنے لگتی ہے.  یہ احساس کہ جب یار پاس ہو، یار کے رنگ سے جہاں دیکھو، بس ہر جگہ سوہنا مکھڑا دکھے ـ وہ صورت گر، اس نے یار کی صورت ایسی بنائی، اس میں یکجائی رکھ دی تمام عالمین کی اور کہہ دیا کہ الحمد اللہ رب العالمین اور کہا:  تلاش کرو رحمت کو ـ رحمت تو ہم کو خود تلاش کر رہی ہے پھر فرمادیا:  وما ارسلنک الا رحمت للعالمین ـ یہی شاہی ہے جس کو رحمت عالم عالم میں ملنے لگی. در در کا کیا فائدہ،  اک در کی جانب چلیں، جس در سے رحمت کا باڑہ بنٹ رہا ہے اور یہ رستہ ہادی کا ہے ـ محشر سے پہلے جام پی لو ـ کوثر کی آیت کا جاری چشمہ ہے اور اس میں حسینیت کے پانی سے دل کا وضو ہونے لگے تو سمجھو روح دھل کیا گئی،  نکھر گئی کہ گویا بات بن گئی ہے. اک انجیل تمنا:  یار کو دیکھیں،  اک حرفِ تمنا:  سنائیں حال یار کو اس طرز سے کہ حال سناتے حال میں نہ رہیں اور ان کے مکھ کو دیکھی جائیں. اشک با ادب!  اس جہاں اگر اشک بھی بنا اجازت نکل گئے تو گستاخ نین کہلائیں گے. ہم تو چلے نینوں کی بہار میں رلنے،  سہنے تیر سینے پر سہنے،  جگر میں داغ کو سنیچنے اور لفظ ہمارے برہنہ کر رہے. یہ برہنگی جو بے نیازی کا لباس ہے،  آج عیاں ہوئی ہے. 
اک تھا نین والا، جس کے پیچھے چلی باگیا ــ باگیا نے نین کی بازی میں سب ہار دیا ... پی کے سنگ رہنے میں ایسی الوہیت ہے جس میں رنگ بکھرنے کو مایا نہیں کہتے بلکہ کہتے:  جہاں پر اسکا ہے سایہ جس نے پلٹ دی کایا. یہ حدیث داستان سنیے!  جب پی سے ملے،  اک ہوئے!  ایک نے زمانہ دیکھا تو کوئی الگ نہ تھا. اک رانجھن یار کے پیچھے رکھ دی دلوں نے دنیا ـ دنیا گئی مگر مل گئی جہانبانی. یہ عجب رت ہے کہ دن میں رات کا سماں ہوگیا. گویا رات اور دن میں کچھ فرق نہیں مگر پھر بھی صبح و شام تسبیح کرتے. یہ فیکون سے کن کی جانب سفر جب دن و رات کا تضاد ختم ہوا. تضاد ختم ہونے لگے تو سورہ اخلاص سمجھ آنے لگتی ہے. آدمی بہت ہیں مگر انسان اکیلا ہے.  اور اکلاپے میں اس نے یار پایا ہے. یار پانے کے بعد احساس ہوا کہ فرق ہے :  وہ تو اولاد والا ہے اور خدا تو بزرگ و برتر ہے. لا روحی کی بات ہے.  اک دھاگہ،  اک کن،  اک نور کی دھار وجود کے گرد محو ہے اور بلا رہی ہے کہ چلو محبوب کو

جمعہ ***

مجھ پر جمعہ نازل نَہیں ہوتا ـ احرارِ بریرہ و ریشم سے براءت نہیں ہوتی ـ ذکر میں جاودانی نہیں ہوتی ـ رات رحمانی نہیں ہوتی اور بات سبحانی نہیں ہوتی ـ کسی سے پوچھا جائے کہ جمعہ کیا ہے تو وہ کہے گا کہ دن ہے ـ یہی گڑ بڑ ہے کہ جمعہ دن نہیں ہے ـ تمام جہات کے منبعِ انوارات کی جمع ہے ـ جب جمع واحد میں ہو تو واحد واحد رہتا ہے پر کثرت ھو ھو بولنے لگتی ہے ـ سامنے الواحد بیٹھا جب ھو ھو یعنی " تو،  تو " سنتا ہے تو صبح صادق ہوتی ہے اور سحر سے پہلے جمعہ نازل نہیں ہوتا ہے ـ طلوعِ سحر میں رات کا سماع گویا شادمانی کا سماع ہوتا ہے ـ یہ وسیم کی طرف تحفہ ء ایزد ہے جب طائر پر لگا کے اڑان بھرتا ہے تو جانب یمن سے جانب لعل یمن کہ جانب حسین بروضہ امام رضی تعالی عنہ جاتا ہے تو سلام لب بہ دہن،  دل بہ سخن،  نظر بہ رہن،  قرض بہ لعلی ادا کرتا ہے تو شہِ دلاور،  دلاویز مسکراہٹ سے دلاوری عطا کرتے ہیں. ـ یہ جن کو روضہِ حسینی کے پاس بیٹھنے کی بشارت مل جاتی ہے تو گویا امامت کا تاج پہنا دیا جاتا ہے ان پر نگہ الطافانہ ہوتی ہے اور نظرِ محرمانہ سے محبوب کا جلوہ شروع ہوجاتا ہے ـ یہ کائنات کل وحدت کے دو ٹکروں میں دکھنے لگتی ہے ـ جمال بہ رسول اکرم معظم محتشم  سے بی بی پاکدامن سیدہ مطہرہ عاقلہ عالیہ راضیہ مرضیہ زہرا رضی تعالی کی سے جناب امامِ حسن رضی تعالی عنہ، وہیں جناب علی المرتضی رضی تعالی عنہ سے حسینی لعل یمن رض کی صورت بصورت جلال ـ قران پاک میں یہی دو آیات  ہمیں ازبر کرا دی جاتی ہے جیسا کہ اللہ حاشر ہے،  اللہ الباری ہے اللہ البصیر ہے اللہ العالی ہے اللہ جمال والا ہے اللہ ستار ہے اللہ قہار ہے اللہ جبار ہیں ـ اس کی ذات کی شہادتیں تقسیم ہوجاتی ہیں ان ہستیوں میں اور نورانی مصحف کھل جاتے ہیں. مطہرین لوح محفوظ پر قران پاک دیکھ سکتے اور پڑھ سکتے ہیں مگر لوح محفوظ تو دل میں رقم ہیں اور دل میں جھانکنا ہم نے چھوڑ دیا ہے 

جب دل میں جھانکنا چھوڑ دیا جائے تو جمعہ کیسے نازل ہو ـ کیسے ھو ہو تو کیسے اللہ روبرو ہو،  کیسے بات ہو تو کیسے ہم کلام ہو،  کیسے کلیمی ہو جب کلیمی نہیں تو معراج کی بات کیا ہو، یہ جو عشاق سدرہ المتہی پر رک جاتے ہیں ان کے آگے کا سفر رقم ہے ـ وہ دیکھ رہا ہے جو ہو رہا ہے کیونکہ وہ شاہد ہے اور بندہ مشہد  جلوہ گاہ بنا ہوا تو وہ فرماتا ہے لایدرکہ الابصار تو یہی دید ہے ـ ہم نے اس کا ہونا ہے اور دید ہونی ہے . ہم بھلا کہاں سے وہ خلا لائیں گے جہاں وہ نہیں ہوگا. جہاں وہ ہے جہاں میں ہوں نہیں میں نے وہی ہے تو کہیں اپنا آپ جلوہ گاہ دیکھتے ھو ھو کہے گا تو کہیں جلوہ گاہیں دل کو دیکھتے ھو ھو کہیں گی یعنی تو تو، تو پیار ہوگا. یہ محبت ہے یہ عبادت ہے ـ یہ سیادت ہے ـ اس سیادت کے پیچھے نقشِ نعلین پانے کی سعادت ہے ـ جب سعادتیں سادات سے ملنے لگیں تو جمعہ نازل ہو جاتا ہے

کچا ‏کاغذ ‏نہیں ‏تم ***

کچا کاغذ نہیں تم!  
تم خوشبو کی گلابی چادر ہو!  
تمھاری دودِ ہستی عنابی ہے!  
پرواز تمھاری سرخابی ہے!  
شمس سے تمھاری لالی ہے!  

لعل شہباز قلندر سہون شریف میں مدفن ہیں. حضرت انسان جانتا نہیں کہ وہ لعل کیوں ہے ـ لعل سے لالی مل جائے تو پہچان پر مہر ثبت ہوجاتی ہے ـ شناخت یہی ہے کہ لعلی نصیبہ ہے!  ذات کے نسب خانوں میں قران کی آیت کھلی ہے اور آیتِ رحمان میں یہی لکھا ہے کہ تم سے جو تمھارے حضور کہہ ڈالیں،  تم پر حق ہے ان کے آگے سرخم کردو ـ وہ یقین کی بنیاد ڈالیں تو تو غلامی کی لائن میں صیغہ ء راز دہرا دو ـ وہ یاد دلائیں تو نقش بن جاؤ ـ یہ محمد عربی رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قران ہے جو ہر سینے میں موجود ہے. قران کے ورقے باہر ہیں مگر سینہ بذات خود قران ہے ـ یہ قران سینہ بہ سینہ انتقال ہوتا ہے ـ اضحملال طاری ہوتا ہے کیونکہ ہر دور میں راقم کرنے والے لکھا ہے خدا شاہد ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شمع عالمین. جس دل سے وہ جھلک دکھلائیں جس کو دکھے یہ تو رب جانے رب کا محبوب جانے 

اے باد نسیم 
والمرسلت عرفا 
والملقیت  ذکرا 
بتا کونسا ذکر لائی ہے 
بتا کونسی فکر لائی ہے 
بتا کس خبر نے منشور سے نشر ہونا 
بتا کس کا سینہ گنجینہ الاسرار ہے 
بتا کس نے بھیجا کیسا یہ دشوار ہے 
بتا کس کے پاس ہادی کی تلوار ہے 
بتا کس نے ذوالفقار کو دیکھا، پایا ہے 
بتا کس شہسوار نے شہسواری کی ہے 
بتا کس عنابی رنگت والے کی تصویر؟
بتا کہ یہ یاحسین امام ما جلال ہیں؟
بتا کہ یہ ہم ساجد ہیں پہاڑ جھکے ہیں 
خشیت سے لرزش ہو طاری کب ہوگی باری


کچا کاغذ امام جلال کی جلالی سے جل کے راکھ ہوتا ہے اور گم صم ہوجاتا ہے ـ خوشبو کی چادر برقرار رہتی ہے مگر دھواں چھوڑتی ہے ـ یہ جو دھواں لفظِ منصور کی صورت نکل رہا ہے یہ تو بہت عاجزانہ سی بات ہے کہ انسان کے بس میں نہیں وہ حد امکان سے باہر جائے الا بسلطن!  تب مرج البحرین یلتیقین کی مصداق پارہ روح کا ربط جسم سے مربوط افلاک کی جانب پرواز ہوتی ہے ـ یہ افلاک دل میں سمائے ہوئے ہیں کہ افلاک ہوتے ہی دل میں ہیں دل تو عرش الہی ہے اور اس کے پانی سے روحِ قلندری کو تخلیق کیا جاتا ہے ـ جب اسے زمانے میں بھیجا جاتا ہے تو اس کو تجدید کی لگن لگتی ہے اور عہد نو یاد آتا ہے کہ بوقت نفخ سے پہلے وہ الگ نہیں تھا تو یاد آتا ہے گو وہ الگ نہیں تھا تو اب وہ الگ کیسے ہے ـ جب تم اور وہ الگ نہیں ہیں تو سب رب ہے ـ سب حق ہے ـ سب سچ ہے!  سب کی تسبیح اس کے گرد ہے اس لیے کائنات اس کی مجذوب یے 

چلو رقص کریں 
چلو وجد آیا یے 
چلو وجود غائب ہے 
چلو ہم حاضر ہیں 
چلو ہم موجود ہیں 
وجد تو آنا ہے 
دھمال تو لگے گی 
رنگ ہے!  
یہ میرا رنگ ہے 
میں ترے سنگ 
یہ رنگ ہے!  
رنگ سرمایہ 
رنگ حیات 
رنگ سے ممات 
رنگ کی لاگی 
صبغتہ اللہ

طٰہ

دل

Impulse

When your impulses are turning to impudence ,when your earth is drowning into the water , when your chemistry is changing , when changes are unknown , when your curiosity is on the peak , when you want to fly high and high , when you are confined in your limits , though  you are limitless in your approach , when you have seen inside , waves ruthlessness pushing whole body like a throbbed heart , when your existence is like mercury boiling which boils and splashes after heating , when your heart has numerous hidden questions, not answered yet , when your pain is beyond your limit , when you are yearning for meeting with your beloved , 

then, call Him !

O ` dear come near ~ So near , 
no distance can be mounted between , 
no boundaries can be imagined between , 
no pain  will be hanging inside the case !

Rain ! Rain ! it is falling and lightning the meadows , caves ,flowers and gives lights to fireflies ...The firefly has started rotating around rose ,and jasmine fragrance has started dispersing here and there ,when your flutter the wings to un-cage the cage , when you sing like a nightingale , when music has started tuning you , when you are absorbed in Him , 

He says : O light ! 
Thy flaming light is mine , 
Thy shimmering is mine , 
thy melody is mine , 
thy dance is mine ,
 what is yours ? 

Tick ! Tick ! Tick !
 Tock ! Tock ! Tock ! 
 Tick tock ! Tick tock ! ticktock 

Thy mingled voice , 
Thy ignited flaming fire , 
Thy glistening light , 
Thy musical notes ,
 ! Aaw ! What is mine ! 
All is yours ! Who is in me ? 
You ! Who are you ? 
My lord ? My master ? My beloved ? 
Yes ! you are my beloved !

 Loook !The distances are like rifle shot and bullets are piercing into my heart , waves splashes are like flood , I am in flood ! I am in flood , you are immense , you are deep , you are supreme !...... ..with your soft melodious voice you have cut my heart like  a knife cut an apple .......Your love wine is making me numb ........

When there was no one , I was .......Man has been given powers and I am absorbed in him ,,,My love, he never understands and person who wants to approach me would have to suppress  the ego ...

Dance ! Sing ! smell ! see ! 
whirling fireflies moved around Rose in ecstatic state ! 
Some one has gone lunatic , 
some has lost senses , 
someone is finding her love , 
someone is in cage ,
 someone is not able to resolve mysteries 

Glass is shattered ! Crash! Crash ! Crash ! 
Awww ! pieces ! Who is seeing , to whom I am looking ?
 Who has same shade of mine ! I am Him or He is me ! 
I am Him , or He is me , I am Him , he is me ! Haq ! Haq ! Haq ! HO ! Hoo! Hooo! Hoo! He is in me ! He is me or I am him ! He is my dress , white dress , without any stain ! 

Whirl ! Whril ! Whril! 
O my wind ! O my wind 
whirl ! Whirl and see the world , 
He wants to see the world , 
He wants to make me see the world ...
He is here , Where HE  is ?
 He is in desert ? H e is in sea? 
He is shadow ? My  shadow ?
 No He is not anywhere . I am Him !

Round the world in caves , mountains, valleys , seas, trees , skies , hell , heaven, heart , human , houses , water , clouds .......... what is there ....
He is who makes us weep 
He is who makes us to reap
The crop of love from fields
His love is like a shield 
I am wounded by His Sword
I am clouded by His rain ... 
He makes me toflap in a cage
Then took a notice of that flutter 
In a shock unable to utter 
O my wind whirl ,make world to twirl 
O my wind whirl, make me to drill 
O my wind whirl, make heart to grill 
O my wind whirl ,make my soul to shrill
O my wind whirl, to cease my ecstasy
Ceaseless Ecstasy is giving me pain 
I am in mirth , I am in rain

He says ! O Noor ! Your are mine .
I am saying , you have flamed my heart ,
 my heart is aching with pain , 
flood is spinning the mountains , rain is making me insane ..... 
I am in your rain ...

Dream ! Noor dream ...When the night of dream will come , then prayers will be in stream , showering will gleam , do not scream ! 
Aww ! Whirling wind ! I am His meloday , the melodies which are piped inside , He is piping and I am listening , He is pulling me , I am dancing , I want to scream , when you will meet with me , when night of dream will come , when longings for Him will fulfill  , when snow will fall to become water , when I will walk over the bridge , When wind will blow giving a Rose smell !!!!!!!!!




Salutation

The numerous salutation on You !
 O`my beloved , 
O`the adorning rose , 
O`glistening light ,
 O `wind whirler ,
 O` the blessing fountain !
 I bowed in front of you !
 I have worn the attire of complaisance , 
My neck is like an arrow bow 
And your one sight is like an arrow making wounds in my soul ....
O my beloved , 
O the blessed by Almighty !
Millions salutation on you ! 
Shower your blessing , 
O ` the blessing fountain ! 
O` the rhythmic scent !
 Aye! mighty shower , 
When you were born ,
 Lights had taken light from you ,

 O` the sun of suns , O` the moon of moons ,
 O`the center of gravity ! Numerous salutation on you ! 
Aye lightening candle , Aye illuminating lantern, bless me ! 
Bless me with your one sight ! I am bowed in front of you , my Soul is in complete compliance , shower your blessings ......

O` the tribunal head !
 Now take my rope in your hand , 
Make me stand like your are sitting , 
O` the blessing fountain , 
Settle my queries, make me more ecstatic ,
 I want to see His light in you !
 Make me blessed !
 O `the blessed fountain , make me shine ! 
O`the blessing fountain , 
numerous salutation on you !
I was searching you in me ,
 I found your flame , 
Your light shimmering in blue color 
And the light of all blessed soul ..
.O` dear prophet (P.B.U.H) give me comfort ,
 O my beloved ! make my heart Madina ! 
O` the piper holder of all lovers ,
 O the rhythmic scent , 
O` the showering rain ,
 O ` the Almighty mirror !
 Numerous salutation on you !
O`the grandfather of Hussein!
 O`the father of beloved Fatima(R.A) ...
Numerous salutation on you ! 
Give me a favor , 
O the light of my eyes , give me comfort ,,,,,, 
I am comfort less sea!
The sacrosanct soul of universe replied !
You have light ! I have blessed you ! 
You have my scent , smell ! 
you have roses built inside ! 
When the dream night will come , you `ll be blessed !
 Patience ! O holy soul! You have my favor !

When the dream night will come ? I am already died , I am shot , your eyes have killed me ..... Your smile is like diamond cutting rose petals ! O the blessing fountain ! numerous salutation on you !

I am dead,

I am dead,  who is in me?
The engraved person said, "who is in me? " 
Grave pointed," YOU!  YOU!  YOU 
Air blanket veiled dust! Who is in me?
Blood whispered, "who is in me? "
Tangled waves asked, "who is in me? "
Whirl O' wind!  O'wind whirl!  
Fire is in! Snow is lingering over fire
Glacier is melting! Snow melted!
Lave erupted! Explosion!
The blast grinned, "who is in me? "
Bones chuckled to ask, "who is in me? "
Blue sky overshadow dust!
Dusk is mingling with dawn
Dusk smiled, "who is in me? "
Sky lit, moom shone, earth burnt
Exhilarating fumes growled, "who is in me? "
The thunder bolted in! Died!
Light asked, "who are you? "

The Prayer sizzles out

The prayer sizzles out 
The man 's riddle out 
The belief without doubt
Dancing in fire shout 
Hands raised in hope 
Give me your  rope 
Let  thy negativity crop 
Jewels are not for rob 
Lamentation is without sob 
Blood trickling from rod 
Who has cut  the skin' sod 
O' dear!  Help, not drop

cry not, weap not

Cry not,  weap not 
Let it be to vote 
Line turned into adot 
Book is to be  thought
Think not,  write 
Troubles are to fight 
Sanity asks for cost 
Insanity is without host
Whirl O 'wind, whirl O 'wind 
Soul rotates in tints 
Faint!  Faint O ' despair 
Step on! Don't stare 
Fire burst only glare
Veil! Veil O' sanity 
Hide! Hide O'vanity 
Move! Move on pride 
Show yourself not hide 
The light is to guide 
Stars are born to fight

you dance!

You dance! I am nowhere!
You smile!  I am everywhere!
Your sword demands blood stain!
My existence is a permanent pain!
You lit in! I prostrated!
Holy you! Holy you! Holy you!
My life  was in vain!
The sanity guised in insane!
You holy muse! I am your guitar
Waves streaming Ho ! Ho! Ho!  
Wind is whirling! Twirl wind thumping!
Dust! Mud! Sand! Lushy grass!
All elements say: Ho Ho Ho!
Impatience soul, restless zeal!
Aye Holy light! Where are you?
In me?  On sky?  In dust?  Trees?
Hey! Tree contains leaves of Tuha (P.B.U.H) 
Veins engraved blood of light 
Its wood stuck out shrine of Muhammd (P.B.U.H)
Its bark is in dirt!
He is in me: I want to see Him 
You are in light: I want His sight 
You  are out of cave: I want intimation

let not pass the day

The Muhammad (P.B.U.H)  

Let not pass the day, look up!
Let moon to be the sun! Look up!

Let me to meet in person! Look up!
Light on this barren land! Look up!

Let my pen to write! Look up!
Give me ceaseless ink! Look up!

light

The light spreaded all around, extremes went beyond....., words are in action,...... , motionless statue of my beloved  has started speaking,......,  the soul is keen to be with  in thy person fluttering, cage is restless, mountains enlighten a new discovery, a new secret of ecstatcy.......,  the timeless state of my idea is   turning into time, envisioned  possibilities are in process to dress morning gown, the beauty is becoming truth, beauty is truth, his pipe is piping in me,  I 'm listening melodies of Him in my own instrument ...His presence bell jingles and leaves me into the world of divinity,  provdence is with me, cackling like a baby, ring O 'bell again: Jingle, jingle, jingle! Dumbfounded, spellbound and mysemrized This state is making me a statue, while myself is  peeping a statue of my own  idea ... Let's celebrate the mirth of union,......!   let 's catch the moon grinning, let's approach the sun and jump to  sky, let 's  jump from sky, let 's wave ourself into the waves of his call ...He is calling like light prevails all around ... Tring! Tring, tring!  Bent!  Bowed!  Prostarted!  The world of forgetfulness is not feigning me,  the river is rejoicing to meet sea ...sea is making noise, his waves are rowdy,  The love tie is ultimate,  Thy bond is everlasting


Presence fumes! Fragrance everywhere!
Earth bent down!  Waterfall everywhere 
Rose petals spread as wind waves, as water ripples, as rain falls, as clouds move,
The madness cloaks, dancing like a wind whirl,  like a sand storm, like the hailing, like the  fire growling, like the  lion roar,  like a tiger's run, 
 Fumes! Fragrance!  Staning near fountain,  
Water is falling in to streams, like a strange melody ,like jingle bell, 

Fountain!  Fumes and fragrance!
Fired madness freezes!
Like a spellbound person, 
Life is in statue! Soul is stunned!
Senses were conjured! Breathless ceasless ecstatsy is calling ...

Fume! Fragrance and fountain!

ya Hussain

Hyderum Qalandrum mastum 
Banda e Murtaza Ali Hastam 
Focal point of my attraction 
 You -Destiny of my passion 
peshaway e Tmam Rindanum 
Q sage koyee sheer e yazdanum 
O ' Hussain! the Lilly among roses
O 'Hussain!  The red wine of lovers 
O 'Hussain!  The leader of pipers 
In sleepless night sleep wakes for an hour 
In motionless ecstatsy passion arouses for a while 
In ceasless seeing the eye stopped blinking,
In a divine rapture, the barren soul is ravishing 
The pain is digging inner tunnel of mountains,
caves  light with the bugle of grilled soil,
Go!  Go!  Don't gv a wake up call 
Come and walk with shawl

دستک ‏

آج یاد کی بے نام گلی میں سڑکیں بڑی صاف ستھری ہیں. موسم  مگر اُداس ہے جیسے سکون میں حزن ہے . اس سنگم کو بہار و خزاں کے اوائل میں محسوس کیا جاتا ہے کہ بھیگتا دسمبر،  بکھرتی چاندنی، مہکتے پھول،  لہلپاتے کھیت،  تان کے کھڑے درخت،  آبشاروں کی موسیقیت سب کچھ کتنا پیارا ہے!  دستک!  اک دستک سنائی دی ... یہ کیسی دستک ہے؟  یہ  تو صدیوں پرانی آواز ہے،  نیلا آکاش میرے آئنوں کے بکھرے ٹوٹے کی شبیہ ہے ..اے سفید رنگت  والے ملیح چہرے کے حامل آبشار،  یہ رنگت تم نے کہاں سے چرائی؟  کیا پہاڑ جو بھورے رنگ کا ہے اس کے پیٹ سے نکلے ہو، اس لیے نور سے چمک رہے ہو ... کیا تم فضا کو جانتے ہو؟  مجھے علم ہے تم نے اس کی گود میں خود کے لیے بہت سا سکون اکٹھا کیا .. یہ ہلچل ... یہ بے نیازی کہ شانِ بے نیازی ....  یہ احساسِ بےخودی کی ضُو،  یہ کہسار جو جھکا شان توصیف کے لفظوں کی تسبیح میں ہے کہ گوجنتے ہیں کو ہسار، بکھرتے ہیں آبشار اور ملتا ہے آوازہ 

ورفعنا لک ذکرک 
یہ تو کن کی صدا ئے کہ الست کا نغمہ جانے کس صدی کی گود میں سورہا ہے تخلیق کا سوتا جاگ اٹھا ہے،  نیند کی وادی سے کہو جاگ جائے ... تو سجدوں میں آذانِ احدیت کی باتیں ....
فاذکرونی اذکرکم

وطن ‏

آج یہ رخ کا فسوں کہ وطن واپسی ہے. تربت ہے پربت ہے کہ شراب ہے نگاہوں میں کہ بیخودی کے خال و خد یوں سرائیت کیے ہوئے جیسے آنگن وابستہ ان سے ہوا ہے قصہ کہ شام کی دہلیز رنگین ہے اور گلابی موسم بھی سنگین ہے. اے میرے ساتھی!  اے ہمراز!  اے چارہ گر!  اے رنگ ریز!  یہ جو دنیا ہے یہ خیال کی چاشنی ہے یہ جو احساس ہے کہ موسم ہے اظہار کا.  میں کتابوں میں گلاب رکھوں اور کتاب گلابی ہوجائے. کتاب پڑھوں کہ خوشبو کو بساؤں ... دونوں کے بیچ منجدھار ہےاس کشمکش میں بیٹھی روشنی چاندنی رات میں ادھر ادھر سرک رہی ہے جیسے چار سو چراغان ہوں ...شبِ چراغاں کہیں شب تیرگی کو نگل نہ لے!  شب تیرگی نے ماتمی لباس چھپا لیے!  ملال پہچھے اور کمال آگے. ان کے بیچ ندی ہے اس ندی کا راستہ غار سے نکلتا ہے غار میں مستی ک دھواں ہے جبکہ دیواروں پر عشق کا سرمہ ہے جس سرمے سے لکھا ہے ... عشق میں جل گئ شمع!  شمع کھوگئی.  رات  شمع کے لبادے میں مرگئی اور صبح ہوگئی. صبح کو رات کا سوگ ... یہ کیسا سنجوگ ہے کہ کوئی وصل نہیں ہے.  فلک مسکراتا ہوئے زمین کے تماشوں سے لطف انداوز ہوتا ہے کہتا ہے کہ 
فاذکرونی اذکرکم 
تذکرہ کب کیسے ہوگا ...یہ اخبار کہیں لوح و قلم کے بیچ سرخ رنگ کے نگینوں سے جڑا ہے. اے ہستم!  اے مستم!  اے مستم!  مست مخمور دل سے پوچھ کہ اس شراب کا آغاز کس سرنگ سے ہوتا ہے کہ کان کنی کے مراحل  ہے  کہیِں ... کوئی اس میں مرجاتا ہے اپنی موت اپنی تو کوئی سورج بن کے چمکتا رہتا ہے.

تاروں ‏کا ‏ستم ‏

تاروں کا سِتم،  تارِ ہست ہزار رنگوں میں بٹتا رہا.  ہر رنگ منبعِ نور بنا ... رنگوں نے  عنابی شراب میں مدغم ہوتے ہستی کھو دی .. تار کا ٹکرا کھوگیا ... تار کا ستم ...  
شمع کا نصیب ... جلی مگر بجھنے کے بعد ... بجھنے سے روشنی ایسی بکھری پھر روشن نہ ہو پائی.    شمع کا دُکھ،  شمع کو روشنی ملی،  روشنی سفر میں مسافر، چراغ سے جھولتی سمت دیتی رہی ... شمع  کھوگئی ... روشنی باقی رہی 
ہلکے ہلکے کاسنی لہریے دار دھوئیں کے مرغولے نکلے جب فلک نے سگریٹ کا کش لیا ...  یہ ردھم جو بخشش دیا گیا،  یہ رقص جو لکھ دیا گیا،  یہ اشک جو دریا بن گیا، یہ دل جو دشت ہوگیا،  یہ خلا جو پر نور ہوگیا مگر چراغ بجھ گیا،  مگر شمع کھوگیا،  مگر تار ٹکرے،  ٹکرے ... مگر کیا؟  مگر اگر کیا؟  یہ سوال اے حیرت ابھرے دل سے کہ دل کھوگیا،  دل نے حیرت کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے کہ کیوں لُکا چھپی کھلیتی ہو .. سامنے پربت ہے،  سامبے صحرا ہے،  سامنی وادی ہے،  سامنے ندی ہے،  سامنے دریا .... آؤ!  حیرت نے جھنجھلا کے کہا "غار میں رنگریزہ رہتا ہے " رنگ کی رنگائی کی کیا قیمت ہوگی؟  رنگے وے کو فکر کیا ہوگی؟  می رقصم شمع ہستم!  می رقصم شمع ہستم!  دل گرفتم!  آنکھ نمیدم!  گفتم از فلک!  یہ یار کا غار کدھر ہے؟  یہ غار جو اندھیروں میں ہے مگر روشنی کے فانوس اسکے آگے سجدہ ریز ہے!  می رقصم!  شمع ہستم!  دل گرفتم!  آنکھ نمیدم

رقص

اک رقص!  اک بسمل کی تڑپ،  اک آنکھ جو محبت میں آنکھ کھو دے، اک مسافر جو تا عمر رہنمائی کرے،  اک وائلن کی دھن جو عکس خوشبو ہے،  اک قبر جس پہ قتبہ ہے 
اللہ نور السموت والارض 
رنگ تو بس اللہ کا ہے ...رنگ ساز کون ہے؟  ڈوب جانے کے بعد احساس کا تار ریشہ ہائے جسم سے ایسا کرچی کرچی ہوا کہ آئنہ چیخ اٹھا،   عکس ٹوٹ گیا،  رم جھم سے صحرا جل تھل!  وہ جو راستہ ہے جو ہادی المرسل نے دیا ہے اے خضر ِ راہ کدھر ہے؟  خضر نے پوچھا کہ موسی کدھر ہے؟  ہوا نے پکڑا طالب اور کہا عکس خوشبو بن کے بکھرجاتا ہےط... اے شمعِ ہائے فلک کہ نصیب تیرا کہ فلک نے بخش دہ رفعت!  ناز کہ انداز بھی احساس بھی دل شناس بھی!  وہ تارا جس کی بوند بوند روشنی سے اماوس کی رات روشن تھی وہ تارا جس کی ٹمٹماہٹ بجھے چراغ سے کم لگتی ہے وہ پورے چاند کی روشنی لیے ہوئے .. اس تارے کے صحن میں روشنیاں بسیرا کیے ہوئے ہو ...  جب ندی اس تارے کے پاس بیٹھی اور بولی کہ پیاس آنے پر صحرا بننے سے بہتر ہے کہ ندی کے ساتھ دریا بن کے بہ جاؤ!  چھناکا!  سناٹا!  چھناکا!  سناٹا!  آوارہ رات ہوگئی چابد کی روشنی سے اور پربت طور ہوگیا .... مسافر نے کہا کہ جلوے کی تابش میں جلنا کیسا؟  بن جلے بوکے کیسوں؟ جلوں تو بولے کیسوں؟  جل گیا طور،  سرمہ طور کا فنا کرگیا ... فانی ذات کہاں ہے؟  فااذکرونی اذکروکم واشکرولی 
آواز گونجا ..  
لن تنالو البر ....
عرض کہ اکھیاں دید سے محروم کہ ہجر کی تنگی،  رات کی ننگی تلوار ہے ...  لن ترانی کرتا رہا مسافر،  لن تنالو البر ملتا رہا مسافر،  تھک گیا مسافر اور مسافت کی آندھی نے کہا  
واعتصمو بحبل اللہ 
اے امید جو وابستہ دلوں سے تھی،  ٹوٹ گئی ... اے امید،  رات کو حزن ہے

یاد ‏کے ‏پیکان ‏

اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد 
ثنائے محمد کیے جاتے ہیں اور پیش حق مسکراتے جاتے ہیں ... پیش حق مسکرانے سے بات نہیں بنتی بلکہ دل کو دل سے ملانے سے بات بنتی ہیں. جب میں نہیں ہوتی تو وہ ہوتا ہے اور جو وہ کہتا ہے کہ چلو رہ توصیف اور کرو بیانِ کے بیان اورعالم نسیان میں وجدان اسرار حقیقی کے نئے دھاگے لاتا ہے اور میں کہتی ہوں. میں نہیں کہتی یہ وہ کہتا ہے. جلنے میں حرج نہیں مگر جل جانے سے کیا ہوگا؟ جل کے مرجانے میں کچھ نہیں مگر جل کے مرجانے سے کیا ہوگا؟  بس آنکھ کا وضو بڑھ جائے گا. بس دل کے ریشہ ہائے منسلج میں رہنے والے تار تار کا بیان ہوگا. حق ھو. وضو کی نہر جاری ہے اور نیت دل میں نماز ہجر کا بیان نہیں تو نماز.شوق کروں کیسے بیان کہ اشک نہاں میں کُھبا ہے اک پیکان اور دل کے میر نے کہہ دیا چل کہ یہ سفر کا موسم ہے اور موسم  کے رنگ بھی عجب ہے. یہ ڈھنگ میں کیسے بھنور ہے کہ بھنور کو ساحل مل گیا یے ... شمس کی غنائیت میں چھپا سرمہ اک عجب رنگ رکھتا یے کہ یہ وہ شمس تھا جس نے ملتان سے گرمی کے سامان کو، ہجر کا نشان کیا تھا ... رکھ دے دل اور مسجود ہو جا جس کے دم سے روح ماہی بے آب کی طرح کانپتی ہے کہ دل مٹ جا کہ بسمل کی تڑپ کے سو نشان بننے والے ہیں .