Thursday, October 7, 2021

سب اللہ کو دیکھ رہے ہیں

 سب صنم لیے پھر رہے ہیں

سب مگر اللہ کو دیکھ رہے ہیں
سب کے ہاتھوں میں کھلونے ہیں
سب مگر خود سے کھیل رہے ہیں
سب دو دھاری تلوار ہیں
سب تلوار سے کاٹ رہے ہیں
"میں " سب سے الگ کہاں
میری بات میں رگ کہاں
جسم میں میرے جان نہیں
خالق کی مجھے پہچان نہیں
آنکھ نہیں،وضو نہیں، ایقان نہیں
میں سب میں خود کو دیکھ رہا ہوں
میں سب کا خالق ہوں
کوئی مجھے مگر نہیں دیکھ رہا ہے
میں سب کا والی ہوں
کوئ مری ولا میں ہے نہیں
سب فنا میں ہے
کوئی مری بقا میں ہے نہیں
والفجر
اٹھو لیل! سورج کی گود میں بیٹھو
سدا سہاگن کے راج میں
سدا ناگ، سدا باز، سدا ساز
جوگی بین بجائے رے
پنچھی اڑتا جائے رے
الوہی راگ بجائے رے
میں کی نیّا چلائے رے
میرے ہاتھ میں تان تمھاری ہے
میں چپ، نردھان تمھاری
سدا سہاگن ہائے رے
تجھ بن کیسے گائے رے
چپ کی جبین پر نازش کا ٹیکہ ہے
آنکھ میری نہر بہائے رے
اللہ اللہ کی صدا آتی ہے
کہانی اپنی دہراتی ہے
کن کے نفخ کی پھونک.ہوں
میں ساز الوہی کی گونج.ہوں

اللہ گمشدہ نہیں ہے

 اللہ گمشدہ نہیں ہے

وہ بس غائب ہے
تم جو حاضر ہو
تم جو نائب ہو
تم جو اول ہو
تم تو آخری ہو
اللہ گمشدہ ہے
اللہ کی تلاش کی؟
خلقت دیوانی ہے
اللہ کہاں گمشدہ ہے
اللہ تو دل میں ہے
وہ دلوں کا نور ہے
وہ پربت کا سرور ہے
لن ترانی وہ نہیں کہتا
من رآنی پر تم آتے نہیں
وہ تمہیں چاہتا ہے
وہ گمشدہ نہیں ہے
اسکو گم صم مت جانو
اسکو مان سے، اپنا جانو
وہ راہ حقیقت کی جان ہے
ترا مرض فقط یہ دھیان ہے
واہ رے سکھی! کیا شان ہے
تجھے اللہ مل گیا ہے
تجھے گمشدہ لگتا ہے
تری ماں کو تجھ پر مان ہے
تو روپ نگر کا وہ استھان ہے
رادھا جس پر براجمان ہے
سوچ کے دیپک جلا
خیال کے پر تھام کے
اڑان طائر فلک کی دیکھ
یہ سدرہ، یہ چوکھٹ،
یہ وادی، یہ پربت،
یہ پریت اور پریتم
اللہ گمشدہ نہیں ہے
اللہ دھیان میں ہے



Tuesday, July 6, 2021

درون ‏و ‏بیرون ‏

کبھی بات برسر منبر ہوتی ہے، کبھی بات پردہِ غیاب سے مظہر بنتی ہے تو کبھی عین متجلی حقیقت ہوتی ہے. معرفت یہی ہے کہ خود میں گُم ہوجا اور اللہ کے نام سے درون میں چھپا خزانہ تلاش کر.  تو متلاشی نہیں بلکہ حقیقت تری تلاش میں ہے اور جوہر ذات میں عیاں حقیقت نے تجھے فاش کردیا ہے. تو ذات میں حقیقت لیے ہے مگر تو جانتا نہیں ہے. تو پہچان کا سفر آگہی سے بھرپور ہے ... افلاک سے افکار کے موتی تری زمین پر بکھرے پڑے ہیں. حقیقت متوجہ ہو تو روشنی ہی روشنی ہوتی ہے مگر عبد کو جانے کس تلاش نے مخمصہ میں ڈال رکھا ہے. اسے چاہیے کہ وہ موتی اٹھالے کہ بار امانت اٹھانے کے لیے ہوتا ہے. زندگی بہت تھوڑی ہے اور اس تھوڑے میں کثرت تری ذات ہے .... ذاتوں کا اجماع ہے اور تو فنا ہے. فنا کی رمز بقا ہے. نہ فنا ہے نہ بقا ہے اگر تو ذات کے ساتھ ہے اور تو عین ذات ہوجا. تجھ میں اخفاء کیا ہے بس یہ جان!


یقین کا ظہور قیاس سے بنتا ہے. گمان پر دھیان بنانے سے گمان کی وسعت سوئے لامکاں تلک جاتی ہے اور تم خفی و جلی ہر شے میں مذکور ہو جاتے ہو. یہ وہ وقت ہوتا ہے جب حق تمھارا ذاکر ہوتا ہے. تعریف کے لیے اسمِ نور العلی ہے اور جمالی اوصاف سے خود کو ڈھانپ لینا وقعت بے نظیر ہے. تم خیال کی انتہا میں اسکو پالو گے. جہاں سے اسکو پاؤ گے،  وہاں سے حقیقت شروع کرے گی سفر اپنا.  تم راہ حق کے مسافر ہو اور مسافتیں تمھیں گمان بنا دیں گے 
اپنے گمان ہونے پر فخر کرنا عین ذات ہونا ہے. یہی کلمہِ ہے اور شاہد کون ہوتا ہے؟  جس نے شہید کو پایا ہے. جب شاہد و شہید ایک ہو جاتے ہیں تو مشہد جنم لیتا ہے. یہ وہ جگہ ہے جہاں سے رویاء تجھ پر اصل عین کھول کے واصل حق کرتے ہیں. تو حق کی جانب گامزن رہ!  ترا اس جانب جانا بھی گمان ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ تری جانب رخ کیے ہے. ...


نشان تجھ میں موجود ہیں. نشان تب بنتے ہیں جب تنزیل ہوتی ہے. اس کی تنزیل، ترا صعود ہے. جب تنزیل و صعود برابر ہوجائیں تو مکان و لامکان و زمان برابر ہو جاتے ہیں ... جتنی آیات دل میں تجلیات بناتی ہیں. اتنے نقطے تجھ میں اک مدار کی صورت رواں ہوتے ہیں ...نقطے نقطے سے خط ہونے تک، کا سر لامنتہی کا سفر ہے. جب آسمان پرواز کے لیے کھول دیا جائے تو رجب کا ماہ شروع ہو جاتا ہے. ماہ رجب سے ماہ صیام تلک کا فاصلہ تجھے اتنا قوی کردے گا کہ تو حالتِ روزہ میں خود میں لیل و نہار کے مدار دیکھے گا. یہ قیام ہے اور قائم تجھ میں ایسی روشنی ہے جس نے تجھے تضاد سے ماوراء کیا ہے. یہی حقیقت ہے عارف کی روح،  ہر تضار سے ماوراء اس کی جانب پلٹ جاتی ہے. یہ حالت رویت جو ہمہ حال ہوتی ہے. یہ نوازش ہے


میں وہ صدا ہوں، جو دھیان سے وجود میں آتی ہے. مرا ہونا، تری نفی سے موجود ہے. یا تو وہم ہے؟ یا تو مجھے وہم سمجھ رہا ہے؟  یاد رکھ!  حقیقت کو وہم سمجھنا سراسر حماقت ہے. یہی حقیقت ہے کہ تو اک وہم ہے، جسے مرے خیال نے جنم دیا ہے. میں ہی تجھ میں ایسی حقیقت ہوں،  جس تک تری بات پہنچتی ہے. تو اس جا پہنچے،  جہاں حق تجھ سے کلام کرے،  وہ نصیب سے ملتا ہے. رنگ بھی یہی ہے کہ کائنات کی وحدت میں اک جذب ہے. جذبہِ دل کا رنگ اس حقیقت سے ابھرا ہے کہ ترا جذبہ دل اس عین حقیقت سے متصل ہو کے تجھے یک رنگ بنا رہا ہے. یہ رنگ سے رنگ ہونا،  رنگ برنگ ہونا،  تمام سے دوئی کو نکال دینا ،  سب عین ذات سے ظہور ہے،  اسکی جانب گامزن ہے. یہ درجہِ توحید ہے. تو توحید کی جانب چل  جہاں ترا وہم،  اس کی حقیقت سے مل کے تجھے حقیقت میں بدلے. تو حقیقت ہو اپنی ذات کی اور اپنا مصحف پڑھ کہ جنم جنم کی کہانی. تری کہانی کا لکھا چل رہا ہے اور کس نے لکھا ہے تجھے تو اس جانب رجوع کر

Saturday, June 26, 2021

عین ‏عین ‏میں ‏ہے ‏کیا ‏

اک تار "اللہ " مجھ میں ہے. اک ساز "محبت " مجھ میں ہے اور یہ کسی شہنائی والی رات بج رہا ہے. میں تمام تاروں کو اجتماع ہوں 
میں کون ہوں؟
اللہ والی تار 
میں کہاں سے آئی 
جہاں سے تار آئی 
میں اک صدا ہوں 
کہاں سے آئی ہے؟
ازل کے نورِ قدیم سے  

مجھ میں نور قدامت بول رہا ہے اور تن، من میں اک بات ہے کہ الوہیت کا جامہ پہنے دل سلگ رہا ہے جبکہ جذب مجھے مدہوش کیے دے رہا ہے. آنکھ رو رہی ہے اور دل میں آگ نے تمام منظر اجیار دیے ہیں .... 

میں کون ہوں؟  
اللہ والی تار ہوں 
میں کہاں سے آئی 
نور قدیم ہوں 
راز قدیم ہوں 

مجھے وہ فاش کردے گا!
کون؟
اللہ، اللہ،  اللہ 

مجھ میں ھو ھو کا ستار بج رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ سب اللہ ہے، باقی مایا ہے. سب اللہ ہے، باقی مایا ہے. سب مٹی میں اصل تم ہو. میں کون ہوں؟  میں نور قدیم ہوں، نورِ قدامت مجھ میں جل رہا ہے اور رات سج رہی ہے. میں رات کی چاندنی میں "اللہ "اللہ " اللہ " کہہ رہی ہوں ...اک شعاع دل پر پڑتی ہے اور عین ہوش غائب!  
عین عین عین میں غین غین کیا؟
عین عین عین میں میم میم ہے 
عین عین عین میں نون، نون ہے 
عین عین عین میں قلم قلم ہے 
عین عین عین میں کتاب کتاب ہے 
عین عین عین میں راقم و مرقوم 
عین عین عین میں کــھــــیــــعـــص
عین عین عین میں رخِ تاباں ہے 
عین عین عین میں غین غین کیا 
عین عین عین میں شین میم ہے 
عین عین عین میں ستارہ سحری 
عین عین عین میں رجب کا ماہ ہے 
عین عین عین میں اللہ اللہ اللہ ہے 
عین عین عین میں قل کفایتنا ہے 
عین عین عین میں الف الف ہے 

عین سے الف ہے،  عین سے میم ہے،  عین سے نون ہے،  عین سے وجہ اللہ ہے،  عین سے کلیم اللہ ہے،  عین سے شمس اللہ ہے،  عین سے راگ میں اللہ ہے،  عین سے بات میں اللہ ہے،  عین سے وہ لکھ رہا ہے،  عین سے چل رہی بات سے بات اور بات میں دل دیا مانندِ سوغات اور قبول کرلی قطرے کی اوقات، کردی میں نے مناجات کہ دید کی ہے حاجات اور روایت سے جاری ہے آغاز ....

سُنو 
رموز عشق کا آئنہ عین و العین ہے کون؟
رموز عشق کا آئنہ عین العین ہے  کہاں؟  
رموز عشق کا آئنہ عین عین عین عین ہے 
رموز عشق کا آئنہ مصطــــــفوی چــــراغ 
رموزِ عشق کا آئنہ جنابِ سیــــــدہ جانم 
زموز عشق کا آئنہ جناب شــــــــــاہِ حسن 
رموز عشق کا آئنہ امام عالی وقار حسین 
رموز عشق کا آئنہ امام علی اکبر سلام علیہ 
رموز عشق کا آئنہ صاحب الرائے فاروقِ اعظم 
رموز عشق کا آئنہ صدیقِ اکبر، رفیق اکبر 
رموز عشق کا آئنہ منم امامِ عــــــلی، یا عـلی 

عین عین سے علی علی ہے 
عین عین سے علی ولی ہے 
عین عین سے حق جلی ہے 
عین عین سے صورہِ علی ہے 

نسبت سے چلو، نسبت ہو جاؤ اور نصیب ہو جاؤ. بس نصیب میں ہو تو دل سے کہو، "علی علی علی علی علی علی "احساس کی تیغِ حیدری دل میں اترتے پاؤ ----- احساس کے دیپ جلاؤ .... حی علی الفلاح کی بات کرو

Friday, June 25, 2021

طواف

لا ریب! 
دل میں تُو،  لاریب!  
ہاں کون ہے دل میں؟  
لاریب،  وہی ہے 
وہ جس نے من میں نمی دی 
وہ جس نے عشق کی بوٹی دی 
وہ جس کا رنگ کالا ہے 
وہ کالا رنگ اوڑھے کہتا ہے 
بکل دے وچ چور 

میں نے لکا چھپی کرتے پایا خود کو 
وہ چھپے تو دیکھوں میں 
میں لکاں تے ویکھے او 
بس یہ جنم بھومی سے لکھا ساتھ ہے 

جنم بھومی!  جندڑی رلی 
جنما جنم جنم نے 
جنما جنم کرتی ازلی کوک نے 
جنما ابدی رہنے والی تال و سر نے 
نغمہِ گل ہوں 
آواز سنو 
ہاں سنو آواز 
بہت ضروری ہے تم سنو 
تم محبت ہو 
تم نے محبت لی ہے 
قرض سمیت واپسی ضروری ہے 
چکھا ہے عشق؟
مرض العشق!  تن کا روگ 
مرض العشق!  روح کا سنجوگ 
مرض العشق!  انشراح بعد تو ہی تو رہا،
قلب تو تیرا ہے،  میں کون ہوں؟

سمندر کی آنکھ میں محبت 
میری محبت؟
ہاں میری محبت 
العشق حب من 
ھذ عشق؟
عشق فسانہ ء حیات 
عشق حقیقت ممات

جو چھپ جاتا ہے اس کو تلاشنا نہ چاہیے. جو ساتھ رہے اسکو ڈھونڈنا کیسا؟  وہ جو ازل کا ساتھ ہے وہ ابد تک ہے. اسکو ڈھونڈنا چاہا تو گم خود کو پایا 

من روحی من روحی 
الروح عشق 
لاریب!  یہ عشق روح میں پنپتا ہے 
لاریب!  قلب میں اترتا ہے 
لاریب!  آئنہ بدلتا ہے 
لاریب!  اندر محبوب رہتا ہے 
لاریب!  طواف ہوتا ہے اور عاشق کرتا ہے طواف

اللہ ‏کا ‏ساتھ

اللہ کے نور کی شعاعیں بدن سے نکل رہی ہے معبد بدن میں اللہ ہے. ہر شعاع نے نکل کے ڈھونڈا تو کہا کہ ھو ..تو. میرے وجود سے نکلنے والی شعاع کو یہ شناخت کس نے دی؟  یہ تو وہ ہے جس نے مجھے نیم واہی میں مست کرکے کہا تجھے مست میں نے کیا ہے. اب بتا تجھے تحدیث نعمت کے طور پر کیا چاہیے. میں نے کہا دوئ تو تھی نہیں تھی. میں لم یزل کا وہ وجود روح ہوں جس نے نہ جانے کتنے ہیر پھیر باوجود رگ رگ سے نگاہ رکھی ہے. میں نگاہ ہوں اور نگاہیں مجھ میں ہیں. میں اپنا آپ آئنہ ہوں. مجھے کسے کے آئنے کی کیا ضرورت ہے! میں اپنی ذات میں خود انجمن.ہوں مجھے کسی کے ساتھ کی کیا ضرورت ہے. میں کہ ساجد جس کی جندری رلی

اس نے کتاب روشنی کی مجھے دی ہے. یہ نور کی کتاب ہے جس کے پہلے ورقے میں الم لکھا ہے جس کے ن میں مجھے قلم رکھا گیا ہے. میں اسکا قلم.ہوں جس سے وہ زمانہ رقم کرتا ہے اور میں زمانہ ہورہا ہوں. وجود میرا گھلتا جارہا ہے اور چکر نے بدن کو لاچار کردیا ہے. عرش کے پاس نور کا مسکن ہے. نور کو اس نے چاہا ہے اور چاہت میں نور مگن ہے. یہ کیسا الوہی رقص ہے جس میں میں نے کچھ کہا نہیں ہے میں نے ارادہ کیا ہے اور وہ ہوا ہے. کن کی تعبیر کا توشہ میرے پاس ہے. میں کہاں نہیں ہوں. میں ہر جہاں ہوں. میں جا بجا.ہوں. میں بسمل.کی طرح رقص کرتی ہوں. میری کوکاں مار دی واج میں کیسی خاموشی ہے

پیاری ‏زہرا ‏رضی ‏تعالی ‏عنہ ‏

دِل بارِدگر بَرسنا چاہے 
بس اک تُجھے دیکھنا چاہے
تو جلوہ بَہ کمال ایں نیستی
تو پیش مظہر مانند حق شد

یہ فلک، یہ ماہ، یہ آفتاب، یہ جَہان، یہ عالم رنگ و بو ...  یہ دُکھی ہیں، انہوں نے میرے دکھ کو محسوس کیا ہے. میں نے چاند کو سرخ سرخ دیکھا ہے،  سورج تو جانے کس اوٹ میں ہے مگر بادل  آکاش کے نیل میں دامن گیر پناہ لیے ہوئے، کچھ بھرے بھرے بادل برسنے کو تیار ہیں، کچھ شجر جن کے پتے چُرمراتے آپ کے(پیاری زہرا) آنے کا پتا دیں مگر آپ نَہیں وہاں بھی ... کچھ مٹی کے ذرے جن کی دھول اڑتی ہے، جب اوپر اٹھ کے آنکھ میں پڑے تو اشکوں کا پھندہ بنتے بتاتے ہیں یہ تو ہے جو دِلاسے کو اشک بندی کرے ہے .... یہ جو چند ندیاں پہاڑوں سے جاری ہوئیں ہیں ..ان کی قیمت فرہاد کی دودھ کی نہر سے زیادہ ہے کیونکہ اس میں خونِ جگر کی آمیزش ہے.  یہ جسم کیا، ہزار جسم بھی ہوں تو نثار ہو جائیں، یہ روح کیا ہزار روحیں بھی ہوں تو وار دوں ... پھر کہوں کہ مالک کیسے اقرار دوں؟ 

یوم الست کو جس نگاہ نے دیکھا، وہ یہی تھی
یوم الست کو جس نے سوال کیا،  وہ یہی تھی
یوم الست کو جس کو جواب دیا،  وہ یہی تھی
یوم الست سے قالو بلی کی تجدید،  وہ یہی تھی
یوم الست میں کچھ قبل عشق کی تمہید،  وہ اور تھی
یوم الست سے کچھ بعد عشق کی تمجید،  وہ یہی تھی
یوم الست میں کچھ طواف، کچھ متوف،  مطاف کیا تھا؟
یوم الست میں کچھ دیوانے، کچھ مجذوب، وہ کون تھے؟
یوم الست میں پیکر جمال میں شامل پری کا کمال کیا تھا؟
یوم الست وعدہ ہوا تھا! یاد ہے مجھے مگر کس صورت میں؟
یوم الست میں چکر پہ چکر تھے اور یہی تو تھا سب
یوم الست کے ان چکروں میں بھولا تو خود کو، باقی تو تھا
یوم الست سے اب تلک نہ بھولا خود کو، باقی تو وہی ہے، تو ہے
یوم الست کی چیخ! ہاں چیخ!  سنی تھی نا میری؟ جب جدا کیا گیا تھا
کیوں جدا کیا گیا تھا؟ 
کیوں نیزے جدائ کے؟
کیوں برچھیاں یادوں کی؟
کیوں اشک عشق والے؟
دل کو کربل،  سے نسبت
دل کو حرم سے نسبت
میرا حرم بھلا کیا ہے؟
میرا عشق بھلا کیا ہے!
فرق نہیں نا کچھ بھی تو فرق نہ رکھیں گے
یہ اضداد تو کھیل تماشا ہے
یہ زوجین کے مابین رشتے
ہر روح کا زوج الگ،
ہر مادے کا زوج الگ،
ہر روح کا دوگ الگ،
ہر روح کا امر تو اک
ہر روح کی صورت الگ
ہر صورت کی شہ رگ تو
ہر صورت کی صدا الگ
صدائے ربی ربی میں نے کہا

پتا ہے خالق ... اندھے تھے ہم، ہاں اندھے ... تری روشنی اتنی تھی کہ دکھا نہ کچھ، پھر تیرگی کا وجود آیا اور ہم زمین پہ لائے گئے کہ نفس کے شہتیر سے چلائے گئے. جرم اذنی ربی سے خلا دل میں ہوا تھا کہ رب ارنی ارنی کی صدا میں تو نے لن ترانی کی بات کی تو پھر ہوا وہی خاکی مصدر کے ہوش اڑ گئے اور کچھ کو لگا زمین زائل ہو رہی ہے، کچھ کو لگا زمین گہری ہو رہی ہے، کچھ کو لگا تو مل رہا ہے، کچھ کو لگا کہ تو ہی تو ہے کچھ نہیں ہے، کچھ کو لگا کہ سید امام حُسین ہیں دل میں بستے ہیں، کچھ مکرم ترے سید حسنین کے لیے ، کچھ غلام تھے ازل سے سوہنے سے مکھڑے کے،  صلی اللہ علیہ والہ وسلم، کچھ کو تو نے روشنی سے جلا بخشی تھی، کچھ تری ذات کے وہ حصے تھے جن کو  شناسائی نہ تھا کہ تو ہی ذات،  تو خود اعلی ہے،  تو ظاہر حق باشی،  تو جانب چار سو ...کوئ ذات مکمل نہیں ماسوا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ... اس لیے ماسوا ان کے ناتمامی کی سوزش چار سو ہے ..وہی نور تو ہے ہر سو ...وہی تری جگہ ہے تو کہیں محمد محمد کی صدا ہے تو کہیں احمد احمد سے لگن ہے ...

سلام بی بی زہرا کے  نور کو، 
انکی پارسائی کے تیر دل میں چلے
سلام اس ماہتاب  چندے آفتاب کو
جس سے زمن در زمن چلتا آیا یے
سلام اس با حیا پاک صورت کو
جنکی غلامی سے جی بھرتا نہیں
سلام اس سیدہ عالی نسب کو.
جن کی نسبت ِ غلامی معتبر ہے
سلام اس چراغ ہست کو جس نے
چراغ کشتہ کو روشن کردیا یے
جنکی جدائ نے فنائیت کا احساس دیا
سلام اس پری چہرہ مثل بدیع الجمال
جن سے دم دم میں  صدا ہے
اب تو بس اک دھن باقی ہے
میری ذات کو وہی ہی کافی ہے
میں جو کہوں وہ کیا بلھے کی کافی ہے؟
میں جو بولوں وہ شاہ حسین کا گیت ہے؟
میں جو کہتی وہ شاہ لطیف کا ڈھنگ ہے؟
میں جو کہتی وہ سچل سر مست کا نغمہ ہے؟
میں جو کہتی وہ امیر خسرو کی غزل ہے؟ 
میں جو کہتی وہ  سراج کی عالم نیستی ہے؟
میں جو کہتی وہ بیدم وارثی کی شوخی ہے؟
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں وہ رب کا عشق ہے
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں اسکے ہجر کا ملال ہے
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں وہ اسکا حسن ہے
میں نہیں کہتی کچھ یہ وہ کہتا ہے سب
تو نہیں چار سو، وہی ہے چار سو ہے

جتنے ‏الیکٹرانز ‏کائنات ‏کے ‏مدار ‏میں ‏ہیں ‏

جتنے الیکڑانز کائنات کے مدار میں ہیں، 
جتنے سورج کہکشاؤں میں ہے، 
جتنے دل زمین پر ہے 
اے دل!  قسم اس دل کہ سب کے سب انہی کے محور میں یے 
جتنی روشنی ہے، وہ جہان میں انہی کے  دم سے ہے 
لکھا ہے نا، دل، دل کو رقم کرتا ہے 
لکھا ہے نا، جَبین سے کَشش کے تیر پھینکے جاتے ہیں
لکھا ہے نا،  سجدہ فنا کے بعد ملتا ہے 
اے سفید ملبوس میں شامل کُن کے نفخ سے نکلی وہ سرخ روشنی
جس کی لالی نے مری کائنات میں جانے کتنی  اُجالوں کو نَوید دی ہے 
تو سُنیے! 

جن سے نسبتیں ایسی روشن ہیں، جیسے زَمانہ روشن ہے 
جنکی قندیل میں رنگ و نور کے وہ سیلاب ہیں کہ سورج کا گہن بھی چھپ سکتا ہے اور چاند اس حسن پر شرما سکتا ہے

مجھے اس روشن صورت نے درد کے بندھن میں باندھ دیا ہے اور خیالِ یار کے سائے محو رکھتے اور کبھی کبھی فنا میں دھکیل دیتے ہیں

تو سُنیے
تو سُنیے، خاک مدینہ  سے چلتے اسرار کے  عنصر، جس میں مقید افلاک کے بحر،  
 شاہِ غازی کے در سے بنٹتے لنگر سے جاری دُعا کا سلسلہ اک ہی ہے
 بُخارا کے قدماء میں امام زین العابدین سے منجمد  جمتی سرخ لکیر،  یہ خون فلک سے اتر رہا ہے اور زمین پہ جم رہا ہے .... یہ سلسلہ اک ہے 

وہ جو شاہ مٹھن نے رنگ رنگ کے رنگ لگائے، اسکی مہندی میں  نمود کی قسم،  
گویا یہ زندگی چند دن کی مہمان ہے 

جب میں نے جھک کے قدم بوسی کی تھی، فَلک نے بھی جھک کے سَلام کیا تھا    
محبت میں کوئی نہیں تھا، وہی تھا ..
یہ خاک کچھ نہیں،  وہ عین شَہود ہے 
ہم نے مٹنے کی کوشش نہیں کی کہ  یاد کرنے کو وہ پانی زمین میں شگاف نہیں کرسکا ہے وگرنہ کیا تھا فنائیت میں "تو بود، تو شدی منم" کا نعرہ لگاتے رہتے ....

اے زاہدہ، عالیہ، واجدہ، مطاہرہ، سیدہ، خاتون جنت! 
کتنی عقدیتوِں کے افلاک وار کے کہتی ہوں .... سلام 
اے آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتنے دل یکجا ہوتے ہیں، کڑی در کڑی در سلسلے سے مل کے سلام بھیجتے کہتے ہیں کہ جلوہ جاناں پر لاکھوں سلام

مصطفوی چراغوں کی تجلیات دِیے، شبیر و شبر کی کنجی
 
کتنے مومنین کی بنات آپ کے   پاس آنے کو بیقرار ہیں،  روح صدقہ ء کوثر پانے لگے گی اور کہے گی کہ فرق نَہیں ہے، ہاں یہ لب و لہجہ و جلال کسی روپ میں بی بی زینب کا جلال لیے ہوئے ہے تو کہیں امام حسن سی مسکراہٹ لیے ہوئے، سلام سلام سلام

جب میں اس چہرہ ماہناز کو دیکھتی ہوں تو جذب مجھے کتنی کائناتوں کے در وا کرتا ہے ... وہ کائناتیں لیے ہیں 
وہ حجاب میں کبریائی نمود ہے 
بے حجابی میں دیکھیں سب فلک پر ..........
لن ترانی سے رب ارنی کے درمیان ہستیاں بدل دی گئیں تھیں مگر اے نور حزین! فرق نہ دیکھا گیا، جب زمین میں شگاف پڑتا ہے تب کچھ نیا ہوتا ہے ...میرے ہر شگاف میں کبریائی نمود ہے،

یہ  کمال کے سلاسل میں تمثیل جاودانی ہے کہ رخ زیبا نے دل مضطر کے تار ہلا دیے ہیں، مضراب دل ہو تو کتنے گیت ہونٹوں  پر سُر دھرنے لگتے ہیں، کتنے دل جلتے گلنار ہوتے یقین کی منزل پالیتے ہیں اور دوستی پہ فائز ہوجاتے ہیں ..

صورت شیث میں موجود ہیں  یعنی کہ حق کا جمال کتنا لازوال ہے،  وہ شیث  ہیں، جو تحفہ ء نَذر بعد حاصل اک دوا ہے ... 

میں نے ساری کائناتوں سے پوچھا کون مالک 
کہا اللہ 
میں نے پوچھا کون میرا دل؟
کَہا بس وہ، بس وہ، بس وہ

بس میں نے فرق سیکھ لیا ہے مگر فرق تو وہی ہے جسکو میں نے کہا ہے، درحقیقت اک رخ سے تصویر دیکھی کہاں جاتی ہے.

یہ دل جھک جاتا ہے تو اٹھتا نہیں ہے 
پاس دل کے اک نذر کے کچھ نہیں کہ یہ لفظ ادعا ہیں ..یہ دل سے نکلتے ہیں تو دعا بن کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ...

میری آنکھ سے دل کے نیل دیکھے؟
دل کے نیل پہ افلاک گواہ ہیں 
جی ان سے خون رس رس کے ختم ہوا کہ جدائی کی تیغ نے جان نکال دی ہے اور سارے وہ پل،  جن سے کھڑا رہنا تھا، بیٹھ گئے ہیں 
وہ کشتی جس کے بادبان طوفان لے جائے وہ کیسے چلے 
بس کشتگان رہ وفا نے لکھی ہے تحریر کہ بتادے بنام دل حیدری آواز یے کہ وہ ہیں،  ہاں وہ نقش رو ہیں، ہر پری چہرہ ہو بہو ہے ...

منور ‏مطہر ‏محمد ‏کی ‏سیرت ***

منور، مطہر محمدﷺ کی سیرت
تصور سے بڑھ کےحسیں انکی صورت

وہ نبیوں کے سردار ، ولیوں کے رہبر
نہیں کوئی انسان ان کا ہے ہمسر

مقامِ حرا ، معرفت سے ضُو پائی
نبوت سے ظلمت جہاں کی مٹائی

خدیجہ نے کملی سے انہیں تھا ڈھانپا
خشیت کی اُس شب دیا تھا دلاسہ

منور ،منقی تجلی سے سینہ
پیامِ خدا سے ملا پھر سفینہ

چراغِ الوہی جلا مثلِ خورشید
تجلی میں اِس کی خدا کی دِکھے دید

احد کی حقیقت سبھی کو بتائی
نہیں شرک سے بڑھ کے کوئی برائی

سبھی میں یقیں کر دیا تم نے پیدا
زمانے کا ہر بندہ تم پر ہے شیدا

اویسی ، بلالی صحابہ کی نسبت
محمد کی الفت نے دی ان کو رفعت

محبت کا میٹھا کنواں ہے محمد
ترے ذکر میں ہر رواں ہے محمد

مرا دل بھی اسمِ محمد سے چمکے
سبھی تارے اسمِ محمد سے دمکے 

نور

Wednesday, June 23, 2021

حسین ‏رات ‏

کتنے حسین ہو تم، جو رات میں یک ٹک سو اللہ کی تسبیح سے صبح کر رہے ہو اور میں تو ہوگئی.ہوگئی پانی پانی --- "لا- فانی نے فانی - لا " کردیا ہے!  ایسی بابرکت گھڑی میں تمھارا، میرا ساتھ کسی رت جگے کا وصال ہے یا کمال ہے. میں تمھارا جلوہ خود میں دیکھ رہی. تم باہر زیادہ؟  یا اندر؟  بس یہی دیکھ رہی ..... جب اندر تم کو دیکھتی ہوں تو کھو سی جاتی ہوں اور کہتی ہوں "بتاؤ،  اتنے حسین کیوں ہو؟  " تم میں کھو کے میں کتنی حسین ہو رہی ہوں " میں تم سے کہنے لگتی ہوں مگر حق نے مہر رکھ دی کہ وحدت میں دوئی نہیں ہے "


ذکر کیا گیا ہے!  نور کا ذکر ہوا ہے! کون جانے گا کہ نُور کون ہے!  نور تو خود نہیں جانتی کہ وہ کون ہے اور بس کہہ رہی ہے " تو،  تو،  تو " مجھ میں ہے!  ولی نے مجھ دیکھا ہے اور میں دوست ہوگئی ہوں. قلم بن کے،  دوات قطرہ قطرہ مجھ میں سمونے والے اللہ،  تری سرمئی رنگت نے مجھے سب کچھ دکھا دیا  ہے. سید --- کی نگاہ نے معتبر کردیا ہے اور ----- سید --- کا ساتھ مِل جانا باکمال ہے. زندگی میں تم اور میں کبھی دور نہ تھے مگر تم وقت مقررہ پر ساتھ ہو .... وقت نے کہا مجھے تھم کے رہ اور دیکھ مجھے اور میں وقت کی قید میں وقت دیکھ رہی ..  اک بڑے زمانے میں چھوٹے چھوٹے زمانے مقید دیکھ رہی اور ہر اس زمانے، جو بیت گئے، میں تمھاری رہی ہوں اور رہتی رہی ہوں " آج میں تم کو "خود " ہوتا دیکھ رہی ہوں 

سنو 
یہ رات کی مہک ہے 
یہ لیلتہ القدر ہے 
یہ شہر رمضان یے 
یہ قدسی مہک ہے 
یہ عرشی داستان 
کسی فرشی نے کہا 

عرش کی رفعت پر مکین،  سدرہ سے آگے،  شب دراز کی زلف میں تار محمد صلی اللہ.علیہ وآلہ وسلم سے پایا نور ہو تم --- تم کو نہین بلکہ نور علی النور کا سلسلہ دیکھ رہی ہوں ..بابرکت قندیل ملحم شدہ اوراق پتے پتے میں ڈال رہی ہوں اور میں اللہ،  اللہ،  اللہ کہہ رہی ہوں اور "یقین " کو غیب سے ڈھلتا دیکھ رہی ہوں 

ہم غیب پر ایمان رکھتے ہیں 
غیب سب سے بڑا معلم ہے 
مگر تم جانتے نہیں،  تم جانو 
جاننے میں،  نہ جاننے میں فرق جانو

رجب ‏

میں ---- آج بھی اور کل بھی تُمھــاری ــــــ اور تُم سے نکلی ہوں ـــ بطنِ روح سے وجود پایا سیپ ہوں اور دل میں یاد کے دیپ، ساز کو دھن کی نئی اوور سکھا جارہے ہیں اور میں خانہِ کعبہ کا طواف کرتے کہے جارہی ہُوں 

میں تُمھیں چاہ رَہی ہوں 
تم بھی تو مجھے چاہو 
میں تمھیں دیکھ رہی ہوں 
تم میں ڈوبی نہیں، کیوں؟  
تم کو دیکھ، فنا نہیں ہوں 
فنا کو بقا دوام پیا کیا دے؟

میں نے رام نیّا میں "پریم پت " بَہا دیا اور خود میں پانی میں صورت محبت "تحلیل " ہو رہی ہوں. میں بھی پانی -- تم بھی پانی --- اب کون جانے گا کہ حیثیت،  پہچان کیا؟  بس ڈوب گئے میاں!  اُبھریں گے، جب وہ چاہے گا اور حج کو جانے میں طواف کے چکر پر چکر کاٹ کہے جائیں 

اللہ،  اللہ اللہ 
تو نے یاد کے دیپ جلائے 
اللہ،  اللہ،  اللہ 
تو نینوں کو آس دلائے 
اللہ،  اللہ،  اللہ 
مورا دل، توری آنکھ 
اللہ،  اللہ،  اللہ 
کن سے فیکون ہوئی میں 

تکبیر کہو " اللہ اکبر " غوطہ زن ہوجاؤ سب میں،  سب میں تُم بول رہے ہو. تم جو بول رہے ہو تو "کان " سن رہے ہیں،  تم کو جو دیکھ رہے ہیں،  آنکھ " ان کو  دیکھ رہی ہے --- تم جا بجا،  ہر جا عین حیات ہو --- ھو بول رہے باہر باہر،  اندر کہے جاؤ، تو،  تو



آج رجب کی چاند رات ہے اور اللہ ہر جگہ موجود دکھائی دے رَہا ہے. نبض کی رفتار تھم تھم گئی اور آنکھ رک رک ---- یک ٹک سو -- دیکھتی رہ گئی اور دل کہنے لگ گیا، "کہاں ہو تم؟  " میں تمھارے ُحسن میں جذب ہو کے گم ہو کے رہ گئی ہوں، اب نہیں جانتی میں کَہاں ہوں؟ ،  ہاں،  ہاں،  ہاں،  میں ہوں تُمھاری " 

یوم الست سے میں تری دیوانی 
بارشیں مجھ میں ہورہیں رحمانی 

آئنہ،  آئنے کے سامنے اور مدغم ہو گیا ہے --- چل اب جہاں کو دیکھو تمھاری نِگاہ سے،  حجاب سارے اٹھ رہے ہیں اور مجلی روشنی اسمِ طٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابرکت قندیل سے مل رہا ہے 

مل رہا ہے کیا؟  
ہل رہا یے کیا؟  
پتا، پتا میں ہے 
جلوہ رحمانی 

دل پر مجلی --- اسمِ رحمٰن --- دل کی ہتھیلی پر اللہ نور السماوات والارض سے لکھا تخت ہے اور کتنا روشن جہاں، ہم دیکھتے ہی نہیں!  دیکھ لو سارے،  ابھی وقت ہے، کل کہو گے کچھ ہاتھ میں آجاتا --- رہ جانی اوقات کی پلیٹ میں دھری دنیا اور بقا پائے گی روح دوامی -- نام بہ نام تسبیح تو وہ خود پڑھ رہا یے * فاذکرونی اذکرکم --- تو بیت رہا ہے --- تن پر بیتے تو سمجھ آتا ہے کہ ہم بس محض کٹھ پتلیاں -- آزادی کے نام پر بہلائے گئے ہیں

قطرہ

تَصور تُمھارا اور روح میری، تمھاری! میں اور تُم کا چکر ختم کرتے ہیں اور باہم رقص کرتے ہیں. شدت سے رقص بدن کو کرچی کرچی کردے اور "میں - تم - یکجا " پرواز کرجائیں. مٹی کو چھوڑ دیں، ناسوتی قُبا کو چاک کرکے اپنے افلاک میں کھو جائیں .... زمین خیر باد!  زمین خیر باد!  زمین خیر باد!


اک قطرہ اور دو بوندوں نے یکجا ہو کے اسے وسعت بخش دی. توانائی  کی صدا  "من کنتم " لگی اور صدا دھاگہِ ازل سے ابد تک مجھ میں عیاں ہوتا جارہا ہے. میں وسیع کائنات کو ِبوند میں دیکھ رہی ہوں کیونکہ  قطرہ جو سیپ پر گرا،  اسکو معتبر کرتا جارہا ہے. مرکز کو نیا رخ مل گیا ... خدا مصور ہے اور شاہکار تخلیق کر رہا ہے 
والقلم یسطرون 
وہ.لکھ رہا ہے اور میں ہو رہی ہوں. گویا کُن فیکون کی تکوین میں خدا نے اس شدت سے مجھے تھام لیا ہے کہ میں، میں نہیں رہی ... باقی کیا بچا؟

نور النور کی مثل ہو تم 
اللہ کی خوب مثل.ہو.تم 
مثال لہ سے پہلے "ھو "تم 
"ھو "سے نحن بن گئی ہو تم 
خود میں، بیخود ہو تم 
بیخود میں،  "وہ  "ہو تم 

شبِ انتظار فصیل گرا دے اور ہجرت کی دیوار چاک کردے. اب وصلت کی رات کو دوام دیدے. ترے ہوئے ہم،  ترے ہوئے ہم،  ترے ہوئے ہم

Monday, June 21, 2021

آنکھ ‏کھل ‏جائے ‏تو ‏..... ‏

آنکھ کھل جائے تو نَم رہتی ہے. اشک زیرِ زمین رہیں تو فصل کی ہریالی پر شہادت الا اللہ کی لگتی ہے اور ہر جانب اس کی بہار جلوہ گر ہو جاتی ہے. جمتی کائی میں سے اک صدا --- ھو اور  ذرہِ مٹی یا مٹی ذرہ بن کے بادِ صبا کے ساتھ پرواز کرتی ہے. جہان رنگ و بُو میں اک شخصیت اُبھرتی ہے. وہ صورتِ اشک جو کہ ہچکی پے در پے لیے اللہ کے حضور دُعا کو ہاتھ اُٹھائے ہُوئے ہے اور جذبات سے رندھی دعا ہے بھی کس نے مانگی!  سرکار نے امتی امتی کا چہرہ دیکھا،  اور دُعا مانگی. - ان گنت درود جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.......  اور جس جس نے نگاہِ نازش کو جنبشِ مژگانِ دل سے رکھا اس رخ کو دل تو دل نے امانت کا بار اُٹھا لیا. جس جس نے دید کی،  اس نے امانت کا بار اُٹھا لیا ..... اِمانت میں خیانت نَہیں کی جا سکتی کہ رب رب کہنے والے مصطفوی چراغ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیے دل میں اللہ اللہ اللہ کہتے ہیں اور جب اللہ نے درود بھیجا تو "محمد،  محمد " کی صدا لگتی رہی. دل کو کان بن جانا ہوتا --- ہستی کو مٹ جانا ہوتا تاکہ اکابرین کی بات سُنی جا سکے اور جس نے کلام سُن لیا وہ خود "کان " ہوگیا ... جو دل گویائی پاگیا اسکا سفر احسن التقویم کی جانب شُروع ہوگیا .... 

ثمہ رددنہ سے اسفل سافلین کی گہرائی میں مٹی،  پُکار روح کی،  چکر روح کے سُنے کون؟  
بچہ جس طرح بھیڑ میں گُمشدہ پکارے "ماں،  ماں " 
میں کون ہوں؟  
وہ روح کی بازگشت جب روح کے دالانوں میں گونجتی ہے اور روح کو چکر پر چکر نے اس رقص کی جانب لیجانا ہے جو اسکی پہچان کا سفر ہے .... احسن التقویم کی جانب 

والعصر ...ویل ... روح کہے تو احسن التقویم کی جانب دل گھومنے لگ جائے تو ماتم ختم ہو جاتا ہے کہ سفر شروع ہو جاتا ہے ...جذبات سے رندھی روح جان جاتی ہے کہ بلایا گیا ہے،  ہاں،  اسکو بُلایا گیا،  بلایا گیا ہے!  

اقراء کی صدا سے چلتا سلسلہ الیوم اکملت تلک نہ پہنچے،  بے چینی کا سورج گرم رکھتا ہے اور حرف اللہ کی تکرار سے رنگ ماند پڑجاتا ہے اور رنگ سے روشن روشن ہستیاں نمودار ہو جاتی ہے اور وہ فرماتا 
نحن اقرب 
محفل سجتی ہے تو کہا جاتا ہے 
نحن اقرب 
جب وصال کا شبہ ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے 
نحن اقرب. 
جب وصال کا شیریں شربت دیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے 
اقربیت کی منتہی!  المنتہی!  المنتہی!  المنتہی!  
یہ تقویم، یہ زمانہ جس میں لوٹائی جا رہی ہے اور دل کی تسبیح ہے 
انا للہ وانا الیہ رجعون 
میں لوٹ رہی ہوں اور وہ کہہ رہا ہے 
ارجعو!  ارجعو!  ارجعو

Tuesday, May 18, 2021

صدا ‏اور ‏دل ‏دل ‏

آج کِسی صدا نے "دِل، دِل " کَہا ہے 
آج کِسی نے پھر اسی شدت سے پُکارا، جیسے خالق نے کُن سے پہلے پُکارا تھا 
کیوں پُکارا گیا ہے؟
کیوں بُلایا گیا ہے؟  
بس سمجھانا ہے کہ جسے وہ چاہے،  جیسے چاہے نوازے،  یہ اس کے کرم کے فیصلے جس میں بندش نہیں ہے. وہ اشارہ کرتا ہے اور کرتا گیا تو تجسیم ہوتی گئی. اسکا ارادہ کتنا طاقت ور ہے ہے اور وہ جسے چاہے ارادے سے نواز دے. یہ کرم و بھرم کے فاصلے ہیں جس میں خیال کی ترسیل بآسانی ہوجاتی ہے کہ پیمانے حجم میں خالی رہتا ہے چاہے شراب جتنی بھرے جائے کہ وسعت لامتناہی ہے اور پیمانہ کسی پیمائش سے پاک ہے 

تم کو سنائی دی وہ شدت؟  
سنی ہوگی نا وہ شدت 
جب کہا گا آو،  حی علی الفلاح اور چلو خیر العمل کی جانب.
جب آیت کُن میں میرا نام،  ترا نام اک جیسا لکھا گیا 
نام کیا ہے؟  
صورت نا 
توری صورت؟
موری صورت؟  
توری،  موری صورت کے گیت گائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے قالو بلی کے آوازے بعد کن ہوگیا ہے تو گیت کس نے گایا ہے؟  جانو تو مانو یا مانو تو جانو. بس جانو کہ تم کو بلایا گیا کسی اور فضا میں یا کسی منصب میں مگر خطائے شاہی میں پاسبان عقل کے پاس دلائل کی کمی ہی رہے ہے اور خطا تیر کب نشانے پر لگا ہے مگر وہ جو چاہے!  جو وہ چاہے تو رکھ لے اصل،  اصل وصلت میں کہ وصلت میں جاگ جانی یے زندگی اورزندگی نے کہنا ہے 
کچھ نیا ہے؟  
نہ تخریب ہے،  نہ تعمیر یے 
بس رستہ ہے،  بس سفر ہے 
بس مسافر یے،  بس ہادی یے،
بس وادی ہے،  بس شادی ہے 
بس کہیں ہیں ہم،  جانے کہاں ہیں ہم 
بس یہاں ہیں ہم،  نجانے کہاں سے ہیں 
بس کہہ رہے ہیں 
بجے اللہ والی دھمال 
سجے رنگ والی محفل 
شام حنا میں غزال دشت کا نغمہ؟  
سنا؟  
سنایا گیا ہے؟  
مطرب نے چھیڑ دی وہی ازلی دھن 
اور قوال بھی مست یے 
رقص میں روح ہے 
خواب ہے یا میں ہوں. 
خواب کی ریاست میں،  وحدت کے اشارے ہیں 
خواب کی ریاست میں،  ارشاد کی باتیں ہیں 
خواب کی فصیلیں ہیں،  خواب کے اشارے ہیں 
وجدان نے بتایا ہے، وجد سے نکلا ہے سرمہ ہاشمی 

انفعالِ دل سے اک موتی نکلا 
قبلہ نما موتی 
الہادی مرشد 
ساجد کون ہے؟  
جانو گے تو مانو گے 
مانو گے تو جانو گے 
بس رمزیہ بات کے اشارے ہیں 
میں نے کہا نا کہ چلے آؤ کہ سرکار پاس چلتے ہیں اور چلتے چلتے کہیں تصور میں محویت نہ بڑھ جائے. کیا خبر محویت میں جانے کا ہوش نہ رہے؟  کیا خبر محو کو خود سب کچھ مل جائے. کیا خبر ستار بجانے والے الوہی گیت بجانے والے ہمراہی ہیں کہ کس فوج کے سپاہی ہیں جانے گا کون؟  کون جانے کہ رمز ہے


شمس رات کی جھولی میں ہے ♥ رات آب و تاب میں چاندنی کو چاند بَنائے دے رہی ہے اور سانول دیس سے آیا ہے  سانول یار کوٹ مٹھن سے ہوتا آیا ہے اور اک ستار پاس سے لایا ہے کہ شہِ عرب نے بھیجا ہے ایسا ستار جس  کی آواز در وا ہو جائیں،  جس کی شہنائی وصلت کے گیت گھول دے ♥ جس کے درد میں چاشنی ہو  زندگی شاہ کی کہانی ہے اور شاہ کے لیے زیست نبھانی ہے  شاہ سچل سائیں ہے!  شاہ سچل سرمست ہے!  شاہ بھٹ میں رہنے والے ہیں اور نگاہ کی سوغات سے بانٹ رہے ہیں. یہ قبائے ہاشمی یے جس کے سبز غلافوں میں موجود خوشبو کی مہک جا بجا پھیل کے جہاں کو عنبر سے معطر کیے دیے رہی یے کہ وجہ یہی ہے کہ جب تک " علی،  علی " نہ کرو بات نہیں بنتی ہے. ابھی تو رات سجنے والی ہے اور رات کا حسن،  حسن والوں کے پاس ہے کہ پروانہ مضطرب گردش میں ہے کہ لگتا ایسا کہ زمین کی محویت کائنات کے سارے شیشے توڑ دے گے اور ہر آئنے میں شاہ کا عکس دکھنے لگ جانا ہے 

کس نے کہا شاہ ہوں میں؟  
کسی نے کہا کہ مست ہوں میں؟  
کسی نے کہا ست رنگ ہوں کہ یک رنگ  .
رنگ میں رنگی سے ہوئی یک رنگی. 
وحدت نے بخشا کثرت کا معلوم ہے 
شاہ معلوم ہے!  شاہ حاصل ہے!

Friday, May 14, 2021

عید

عید ہوتی ہے اور ایک بار نہیں ہوتی بلکہ روز ہوتی ہے ♥ ایک دن یاد کا رکھ لیا گیا ہے کہ عید ہے ♥♥♥ روزہ رکھنے کے بعد خوشی کا مل جانا عید ہوتی ہے اور عید ہے "مل جانے " کا نام ہے. ہم سب عید منارہے ہیں.😊😊😊 عید کا تہوار ایسا خوش آئند ہے 💝 تحفہ باربار نہیں ملتا مگر یاد سارا سال باقی رہ جاتی ہے 💝💝💝  اس تحفے کو پانے کو بے چین دل تیس روزے رکھتا ہے!  بھوک،  پیاس سے گزر جاتا ہے اور پھر ساتھ ساتھ محفل ہوتی ہے ♥ محفل میں تنہائی سے، تنہائی میں محفل کا سفر ♥ یہ تو عید ہے جس میں سب میٹھا میٹھا،  دلکش و دلنشین ہوتا ہے ♥ میٹھی عید کی مٹھاس کسی سے بھی پوچھو وہ کہے گا "سہانی " ہے ♥ خدا کرے یہ سہانا موسم تا عمر قائم رہے اور جاوداں رہے♬♬♬♬  
جاودانی ♬♬♬ 
سنیے جاودانی کی دُھن کو 
کیا سرر ہے، کیا لذت ہے ♥☞ 
لذتِ آشنائی سے بڑھ کے دولت کیا ہوگی؟  
رُخ یار سہی،  دید نہ سہی 
رخ اگر نہ سہی تو بات ہی 😊👋
تری بات سہی،  یاد سہی  

کہنا تھا نا کہ مگر کہہ نَہیں پائی 
سُنا؟  
ان کہے کو؟  
سن لیا؟
اُس نے جسکو سنانا تھا 
باقی جس کو نہیں کچھ ملا تو سمجھے گورکھ دھندہ ہے ♥♥♥♘♘♘ 

بس یاد اور یاد میں اک خیال ∞
لامحدود ∞

 بس لامحدودیت کے سفر میں غوطہ زن ہوجانا اور عید ہوجانا ہوتا ہے 😊🎸🎸🎸 

عید مناؤ 🎸🎸🎸
غوطہ زن ہوجاؤ،  ڈوب کے ابھر کے اور ڈوب!  اور ڈوب ⛄⛄⛄

عــــید کی خوشیاں ترے نام 
تجھے یاد کرنا بس مرا ہے کام 
سانسوں کی مالا نے جپا  ہے 
آکاش پر رہنے والے سے کیا.کلام♥★♥★
عید ہوگئی 
تری دید ہوگئی

Call, my Heart! Mount of Hira

Call, my heart! Mount of Hira!
Call my Heart, the light of holy oil!
Ignite me, with my own burns!
Call Allah Ho! Peace maker bead 
Shivering, aching and sobbing cry 
Body and soul lingers on thy Sky 
To Fly and saying the world bye!

Thy longing pain!
How did you think, it's yours?
Thy flaming urge purging heart!
How did you think, it's yours?
Shimmering! Glistening light 
Hissing soothing melody 
How did you think, it's yours?
Prostrate! To get holy wine!

When nights dress in my holy gown 
When Revelation is in my own town 
Truth is asking me to go and shine 
All paths will become holy and fine 
O Ali!  Ya Nizam ud din!
Ya Shah e Najaf!  Ya Mehboob e Elahi 
This flame is igniting to show relativities 
All threads of relativity are divine 
Ya Sabir kalari!  O 'Chist Saint 
Make me numb with ur gown 
My heart has become ur town 
Thy residing bench is shimmering 
Your light has touched my heart 
The ecstatic whirling soul is there 
Wine! Asking for more and more 

پی رکھی ہے؟  
نہیں پلا دی گئی ہے 
کتنی؟
جتنی تھی،  
پیمانہ رہا خالی!
درد نہ جانڑے کوئی 
حال سناواں کنوں میں؟

طلسم ‏ہوشربا

طلسم ہوشربا کی کہانی ہے اور یہ قرات ہے مری زبانی کہ راوی کہتا ہے اک گاؤں چین کی بنسری میں تھا کہ اچانک آگ لگ گئی 
مانا اندھیرا تھا 
مگر شجر زیتون کا سراپا آگ بن جانا 
شہر کا حرا بن جانا 
یہ عجب تعین تھا، لا تعین میں 
دل میں کسی شاہ کا ڈیرا رہا 

ازل کا نور قدیم ہے 
شیطان تو رجیم ہے 
علیین سے نکل جاؤ 
سجیین سے نکل جاؤ 
محبوبی میں آجاؤ 
اس نے عرش کا پانی دیا شجر زیتون کو 
قلم آیت بہ آیت چلا سلسلہ ہے
لوح دل پر قلم چل رہا ہے 
نشان گویا رقم ہو رہا ہے 
مزید نشانات اور علم کا باڑہ 
گویا سیارہ بن گیا ستارہ 
یہ ستارہ صبح ازل کا اشارہ 
موج کو ملے گا نہ اب کنارہ

خود میں بیخود ہو جاؤ 
بیخودی میں روبرو ہوجاؤ 
رات کی جھولی میں شمس 
قُبائے ہاشمی رات کا پیرہن 

دل! دل!  دل!  قلب طاق ہے اور طاق مین روح ہے اور روح میں نور ہے اور جو آگ پکڑ رہا ہے. یہی شاخ انجیر ہے! زیتوں کے پتوں میں انجیر نے ربط فلک سے قائم کرکے حرا کی وادی کے سامنے لا کھڑا کیا. فنا ہو جاؤ کہ بقا کی چادر آنے والی ہے. زندگی میں نئی زندگی آنے والی ہے اور طاق دل پر عرق نیساں نے بھلا دیا ہے کہ کہ میں کون!  تو ہے جابجا!  تو ہے کو بہ کو!  تو ہے چار سو!  شاخ گل پر بیٹھا داؤدی لحن میں گاتا طائر کون ہے؟

آج ہُد ہُد زمین پر ہے. ہُد ہُد نے خط القا کردیا ہے اور لقائے ذکر کی ہوا چل پڑی ہے. بسمل کے ہزار ٹکروں میں ذکر القا ہوگیا ہے. تسبیح میں مجذوب ٹکرے صامت ہیں کہ قرأت میں مجذوب ہیں پتے!  قرأت سے محدوب ہیں آئنے!  قرأت سے ہماہمی میں طلسم برپا ہے 
کھالیں نرم پڑنے لگیں ہیں 
ضرب لگنے لگی ہے
کیسی ضرب؟  
اللہ ھو والی ضرب 
یہ کیسا ہے طرب 
چلی کوئے عرب 
قیدِ قفس میں.ہے 
دل حبس بے جا مین 
جذاب حسین ہے 
مجذوب حسین ہے 
کلمہ مکمل ہو رہا ہے 

روح کی چادر ملمیں ہے اور ململ کء دھاگے پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا ہے.

Saturday, May 1, 2021

شہبازی ‏

زمین کے پاس پانی اور پیاس بُہت! یہ رات کا اعجاز ہے جس میں مکمل کام ایک ہوا ہے کہ رات میں سورج طلوع ہوچکا ہے. 

حاجمین!  حاجمین!  حاجمین!  

دیکھ زمین کے گرد روشنی کے زائروی دائرے کہ گویا غزال کی غزل سے بن گئی ہے اور رات سہانی ہوتی جارہی ہے. حِنا نے بکھیر دی ہیں پتی پتی میں مہکِ طٰہ 

طٰہ طٰہ طٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

بدن روئی ہوا چاہتا ہے 
شام سے محو خواب چاندنی نے موم جامے میں جھانک کے یہ سرگوشی دی ہے کہ 
مقدر میں یاوری ہے 
یہ شاہا کی سواری 
لگن میں جو ہاری 
وہ جوگن ہے پیاری 
یہ زندگی ہے سہانی 
رات کی رانی مہکی 
گلاب نے مست کیا 
بیخودی! جامِ بیخودی 

نیستی!  نیستی!  نیستی!  
ہستی!  ہستی!  ہستی!
جاذب نظر اور مجذوب گمان 
ہائے ستم والے کی چال دیکھو 
زمین میں روشنی کی بات ہے 
علی علی علی اور حق علی سے بات بنی 
سکھی مجھ میں بول پڑی 
سکھی کس رمز کو جانے ہے؟
سکھی کو دیا جانے کیا کیا اللہ نے 
سکھی پیا مورن بھاگن چل سہاگن 
اگنی!  من کی اگنی میں ناچا مور 

چلو رک جاؤ،  چلو ساکت ہو کے اللہ ھو بولو. چلو ورنہ گردش میں حق علی حق علی ہے اور روئے یار دیکھنے دنیا آئی ہے. یہ کمائی ہے کہ کمالو ورنہ رہ جاؤ گے 

ھذ علی القیاس 
القیاس فی البطن 
واتممت نعمتہ 
ورضیت!
لاریب 
خدا موم بتی کے دھاگے کی روشنی ہے اور دھاگا روح ہے جو مومی قلب سے جڑا ہے. یہی قلندری ہے. یہ کل اسرار سے واقفیت ہے کہ تو تو نہیں ہے اور وہ وہ ہے 

احدیت!  احدیت!  احدیت 
رمز کی بقا میں سکندری 
سکندر بھاگے ملے قلندری 
مرگ نیساں کی ہے شاہی 
کسی شاہ کو ملی ہے آزادی 
قفس توڑ دو!  
چلو اڑان بھرلو 
سرکار کا زمانہ یے 
چلو سرکار سے ملو 
ان گنت درود جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر

Sunday, April 25, 2021

عشق ‏رواں ‏موج ‏کا ‏تبصرہ ‏ہے ‏

عشق رواں موج کا اک تبصرہ ہے؟  
کیا ہے عشق؟
عشق مست دنوں کی یادش بحالی ہے؟  
کیا.ہے عشق؟
صاحبو!  
عشق عشق 
یہ تسبیح کرو 
پھر طواف دیکھو 
پھر موج.قلزم کو آب زم.زم.بنا.دیکھو 
پھر چشمات کو پاؤ 
درد سے کراہ لو 
نجات!  نجات!  نجات!  
نجات کے طالب ہین ہم 
ہم کو نہ ملے گی نجات 
قسمت میں ہے ممات 
ہائے یہ روز و شب کا.سلسلہ 
ہائے، افلاک سے اترتا کنواں 
پانی.برسا.رہا ہے 
رم جھم، .رم جھم 
پانی کی چھما.چھم 
غٹا غٹ زمین پی گئی 
ارے سیلاب کدھر؟  
جھلا، بھلا  مانس سیلاب کو پی گیا 
کہتا ہے 
ساقی اور 
ساقی.اور

Saturday, April 24, 2021

حسن ‏، ‏جذب ‏، ‏خدا

جذب ہوئے تو جذبات امڈ آئے. کاغذ پر رنگ بکھرے تو وعدہ الست  دہرانے لگے. یہ عجب ماجرا ہے کہ خوشبو پھیل رہی ہے اور کہاں تلک خوشبو کی پہنچ ہے، یہ حد حسینیت!  یہ حد جہاں سے اعراض نکل کے، تمنا کو جنم دیتا ہے اور تمنا جنون بن کے پروانہ بن جاتی ہے اور گزرگاہیں پکار اٹھتی ہیں 

انت مجنون!  
پاگل گزرگاہ ہے جس نے خوشبو کو پہچانا نہیں.جس نے پہچان لیا،  اس نے سر جھکالیا. خدا کان میں سرگوشی کرتا ہے اور پھر انسان راز سے پردہ اٹھاتے رہنے میں شعور حآصل کرلیتا ہے اور یہ وہ اسرار ہیں جس کو کل اسرار سے واقف ہونا کہتے ہیں. جب حد،  حد نہ رہے تو سر لامکاں کا.سفر شروع میں ہونے کیسی.قباحت  جب انسان اس سوچ سے نکل منجدھار بنتا ہے تو شاخچوں میں گلاب بھی پیغام دیتے ہیں کہ خدا متکلم ہے اور انسان کلیمی سے مبراء نہیں ہے. خدا جب ظاہر ہو تو قم باذن کی صدا سے دل دہل جاتے ہیں کہ دلِ مردہ دھک دھک کرتا نہیں بلکہ رب رب کو جاپ رہا ہوتا ہے. جاپ ایسے نہیں کرتا ہے کہ کہے " رب، رب " بلکہ کہتا ہے ""رب، کب " یا رب،  اب " "رب،  سچ " سچ،  تصویر "، تصویر حسن،  حسن مجذوب .... بس انسان اسماء پر غور کرتا ہے تو وہ شاہد ہو جاتا ہے اور سچ ہوجاتا ہے. صدیقیت کیا ہے؟  صدیقیت سچ کو ایسے ماننا ہے جیسے اسکو ہوتا پایا ہو. ہاں تم.سے سے کچھ صدیق ہیں اور کچھ شہید اور کچھ شاہد ہیں. بس یہ صالحین کا گروہ رب کا پسندیدہ ہے اور وہ جس کو جیسے چاہے اختیار کرلیتا ہے. اس نے کہا "کن " اور فہم کی کرسی دل میں اتر آئی. جب کرسی اترتی ہے تو فہم انسانی ہیچ!  بس قادر مطلق کی قضا کا عصا سامنے ہوتے اختیار کا ہاتھ ید بیضاء ہو جاتا ہے. تب عصا جھوٹ،  فریب کو نگل لیتا ہے اور حق غالب آجاتا یے کیونکہ غلبہ حق کو ہے. تم سے جو مکر و فریب کرتے ہیں وہ جان لیں کہ واللہ خیر الماکرین. جو اس کی شہادت دیں تو وہ جان لیں شہید زندہ ہیں اور وہ رزق دیتے ہیں. اللہ نے کیڑے کو پتھر میں رزق کا سبب مہییا کیا ہے تو کیا وہ علم کے اسباب نہ رکھے گا. عالم اسباب میں سب سے بڑا سبب تری اپنی ذات خود ہے. جس نے خود میں جھانک لیا اسکو مسبب مل گیا اور سبب غائب ہوگیا

عرفان اک نقطہ ہے اور نقطہ کسی دائرے میں رواں رہتا ہے. معرفت کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ جگہ ہوتا ہے جہاں کرسی قرار پکڑ چکتی ہے. کرسی مقرر ہو جائے تو اس کائنات میں ساری کرسیاں اک بڑی کرسی سے جڑے دکھتی ہیں. بس جب تم اک بڑی جبروت تک پہنچو تو احساس ہوگا کہ تم وہاں نہیں ہو بلکہ جبروتی کے دھاگے تم میں انسلاک ہیں اور تم ہو بھی نہیں سکتے، کیونکہ خدا کے علاوہ یہاں کچھ موجود نہیں ہے اور تم خدا نہیں ہو. تو کیا جانا تم کون ہو؟  بس ہم نا معلوم ہیں اور وہ معلوم ہے. اس کے معلوم میں شامل ہونا اسکا حصہ ہونا. اسکا حصہ اس سے الگ نہیں ہوتا ہے گویا تم جتنے نامعلوم ہوتے جاؤ گے،  اتنے معلوم کے ہوتے جاؤ گے. جس نے سمجھا وہ خود معلوم ہے وہ نفس کے ہاتھ فریب میں آگیا. بس نفس بڑی رکاوٹ ہے. 

سدرہ اک مقام ہے جس پر پہنچنا نصیب ہے جب نصیب اوج پر ہو تو خود بلایا جاتا ہے پاس محبوب کو اور ذکر نے بلند ہونا ہوتا ہے کہ مذکور تو ذاکرین میں سے تھا. فاذکرونی اذکرکم کی مشابہت کون و مکان سے کملی نمودار ہو جاتی ہے. اس کملی نے جتنی مثالیں شامل کر رکھی ہوتی ہیں وہ مثالیں ظاہر ہو جاتی ہیں اور لگتا یہ عالم مثال میں بس اک حقیقت ہے کہ بس ایک نے ایک کو ہمیشہ دیکھا. گویا کوئ موجود ہے ہی نہیں،  بس ایک،  ایک کے لیے موجود ہے. یہ وہ رمز ہے جس کو جانا جا سکتا ہے بعد بیتنے کے. جب بیت جائے تو طالب و مطلوب کے رشتے سمجھنے لگو گے. جان لو گے کہ اسی دنیا میں اللہ کسی روپ میں ظاہر تو کسی روپ اسکا محبوب. یہ جو سینے راز اگلتے ہیں یہ اس کی احسن شارح ہیں کہ اللہ واحد ہے اور کلیمی، کلیم جانتا ہے مگر بات یہ ہے کہ دیدار کی حسرت خمیر میں رکھی گئی کہ تجلیات میں کامل و اکمل اک تجلی ہے جب وہ رو سینے میں دوڑتی ہے تو ہر جانب خدا کا جلوہ دکھنے لگتا ہے تب حق کا پیغام پہنچانے کو اٹھ کھڑا ہونا ہوتا ہے

Wednesday, April 14, 2021

سبب ‏،مسبب

سب پوچھ رہے ہیں حیرت کے اسباب 
میں کہواں:  چل جانے بھی دے اب 
سب کہہ رہے ہیں،  اچھا!  رونق سر شام 
میں کہواں:  یہ ہے عالمِ اسباب!

سبب ہوا اور مسبب بنایا ہے. سبب کیا؟  اخبار کا ٹکرا، جو لگا دل کا تو لگی چنری میں آگ. نہ بجھی نہ بجھائی گئی. جلی تو جلائی نہ گئی!  ارے مٹی میں آگ! جل رہا ہے مٹی بدن!  محشر بدن!  آگ کندن!  نکل رہے ہیں جواہر اور منقش کرسی پر لکھا ہے الحی القیوم 

من شانت! من شانت!  شانتی مقدر!  شانتی سیئات سے دور لیجانے والی ہے. شانتی اک ہستی ہے اور رہتی مستی میں ہے. مستی میں الستی ہے کہ راز الستی کسی فقیر چشتی کے پاس ہے گمان ہے کہ گمان نہیں کہ وحدت کی گنگا میں بس اک چشمہ ہے اور چشمہ کا نام داؤدی سریانی ہے کہ لحن عربی ہے، چاشنی بھی ہے اور ہندسہ عربی جبکہ بات ہندی ہے. یہ کسی قبیل سے نکلا ہے اسم ہے کہ جس کے دھاگے چہار سو بکھر رہے ہیں. کس کی جیون نگری میں.درویش جھوم.جھوم جھوم کی صدا لگاووے. جیون کی مالا میں پریمی اک ہے اور پیالہ بھی. جس نے پیا،  اس نے پلایا اور کم نہ ہوئے مئے. اس مئے کو پینے کے بعد لاگ کے دھاگے کہون کہ 
اللہ اللہ ستارہ سحری! 
 اللہ، مرغ بانگ دیتے گہری

ضرب ‏اور ‏نہر

راز درد جیسا ہوتا ہے اور لہو اشک بن کے نکلتا ہے تب اسرار ظاہر ہوجاتا ہے. اک فقیر گاؤں میں بیٹھا ستارے تکتے رہنے کی ڈیوٹی پر تھا اور جو پاس آتا تو کہتا تو نے ستارہ سحری دیکھا؟  
لوگ پوچھتے بابا ستارہ سحری کیا ہوتا 
وہ کہتا جب پو پھٹنے کو ہو تو انسان نموداد ہوجاتا ہے،  پردہ غیاب سے جونہی انسان نمودار ہوتا ہے تو جانور اس سے بھاگنے لگتے ہیں یا وہ جانوروں سے مگر ستارہ سحری ان کو ایسی صبح دیے جاتا ہے کہ شامیں رشک کرتی ہیں 

لوگ پوچھتے بابا " ستارہ سحری کیسے ملے گا؟  
وہ کہتا جب تک نینیاں کی بازی میں،  نین دیپک نہ ہو جائیں تب تک دیر ہوتی ہے پھر نین کا فرق نہیں رہتا ہے

کوئ پوچھتا کہ بابا نین کا فرق کیسے نہیں رہتا ہے 

وہ ضرب لگاتا تو اللہ اکبر کی ضرب سے زمین سے نہر جاری ہو جاتی 
کہتا پیو اسکو 
جو جو پیتا،  تو کہتا 
نانا کے وارث بہت سے مگر وہ وارث ہمارا ہے 
اب وہ بولتا کیا ملا؟  
کہتا بس والی کونین 
امام القبلتین 

وہ جھک سے اس گاؤں سے غائب ہوتے دوسرے گاؤں چلا جاتا اور کہتا 
حق!  یہ ستارہ سحری ہے 
یہی ستارہ سحری یے جس کو نمودار ہونا تھا

Friday, April 9, 2021

سرخ ‏ردا

شہ سرخی میں کسی سرخ پوش کی ردا ہے اور آنکھ میں اتری حیا ہے  حیا کا مخاطب ہونا اور نور کا جھک جانا ..... جھک گئی زمین اور فلک چھا گیا 
کیا رہا؟ کچھ رہے گا؟
نور الھدی کا آئنہ باقی رہے گا 

اللہ وانگ ستار، ملی ہے دستار،  جبین پر چلتے تیر کی رفتار، یہ دل ہے گرفتار، مریض کا مرض لکھا ہے جانبِ رخسار،  وہ حلقہء یاراں کہ بارِ دگر دیکھ کے چلے مرا ستار اور واج میں حلقہ ء سلیمانی اور راج میں اک راجدھانی ہے  کیسی کہانی ہے اور کہانی لکھی ہوئ عجب نہیں بلکہ جاننے والا حیرت کا مجذوب ہوتا ہے  عجب نہیں کچھ بلکہ آنکھ کا فریب ہے  دل پر ریاکاری جب حجاب ڈال دے تو حقیقت ڈھل جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ادھر نہ جا،  اس دیس نہ جا،  ڈوب جا من نگر میں اور مست کے نئے باب سیکھ!  سیکھنے کو جہان رنگ و بو میں کیا رکھا ہے بس اک جہان ہے جس میں صبا چل چل کے ہوا ڈالتی ہے تو من کے پردے سرسراتے ھو ھو کہتے ہیں گویا یکتائی میں کائنات نے دیکھا جب خود کو تو روپ وہی رہا مگر مابعد جلوے بات بدل گئی ...

ڈوب گیا ہے کوئ ابھرنے کو 
ڈوبنے میں حیات ہے 
حیات دوامی وجود فانی ہے 
زندگی تو آنی جانی ہے 
یہ شبیرو شبر کی کہانی ہے 
شبیر ابن علی، فاطمہ کے لعلِ باکمال. 
شبیر جودو سخا کے مظہر اسم حال

میم ‏سے ‏ہست ‏جہاں ‏

میم سے ہستِ جہاں 
میم سے بودِ جہاں 
میم سے جمال عیاں 
میم سے اجالا معجل 
میم سے رسمِ کروبیاں 
میم سے ذکرِ ربِ نہاں 
میم افلاک کی قندیل 
میم جذبات کی سرخیل 
میم شمعِ ہدایت ہے 
میم جاری روایت ہے 
میم کا سرمہ لگ جاوے 
جدھر ڈھونڈوں، اپنا آپ نظر نہ آوے 
کمال ہوا کہ جلال جلال نہیں ہے اور حال نہیں ہے کہ اسم کمال نہیں کہ درد سے نڈھال نہیں، طیبہ میں وضو کی مجال نہیں ہے،  اشکوں کی ہرتال نہیں ہے،  روزہ میان میں نہیں ہے اور حال بھی حال میں نہیں. فکر دو جہاں سے فقر جاری ہے اور سوار کو مل رہی سواری ہے کہ شمع ایسی لو لگاوے عشق دل میں جلاوے، جان روگ لاوے اور آنکھ چشمات بہاوے. ریگِ دل پر لکھی تحریر پڑھو کہ 
اللہ اللہ کہا گیا ہے 
اللہ ہوگیا ہے جاری 
کہاں؟  
رگ رگ میں 
سانس سانس میں

بنانا ‏،مٹانا

 انتخاب آدمیت رسوائے ہست ہے
انتخاب احد و واحد باعثِ عزت ہے
جلوہ یزد ، نارِ ابراہیمی میں عینِ حق
جلوہ نور سے سرمہِ طور ہے حق الحق
جلوہِ ہست ابن مریم سرِ درا ، علم الحق
جلوہِ رحمانی تا فرش سرِ عرش حبُِ الحق

رحمت ‏

آشیاں میرا ہے یا ترا ہے؟  تو جہاں ہے اور مکان میرا ہے! دستارِ شوق مرے سر پر، سر ترا ہے یا مرا ہے!  رحمت تری نگاہ ہے اورنگاہ میں رستہ ترا ہے یا مرا ہے؟  تلاش مکمل ہوچکی ہے کہ الف سے الف تلک کی بات خالی الف کی بات نہیں ہے  الف سے پہلے ہونا ہے اور الف کے بعد ہونا ہے  پہلے نفی ہے اور بعد میں محبت ہے رحمت ہے،  ماممتا ہے. محمد کی میم ہے.

ان گنت درود سیدی سرکار دو جہان پر - صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے.

میم کا سفر ہے اور میم ایک ہے. اور رسائی میم تلک الف بنا نہیں ہوتی. الف ہونا آسان کہاں؟

لم یلد ولم یولد 
محبت نہیں،  عشق کا سودا ہے 
راکھ ہوتی قبا نہیں،  روح ہے 
انجذاب درد کے تیر ہورہے ہیں 



الف نے پکار لیا ہے 
میم سے اظہار ہے 
روح مشکبار ہے 
رات پھول پھول 
چمن مہک  مہک
زمین سرخ سرخ 
دیپ روشن روشن 
چاندنی چاند دونوں 
ماہتاب کے پیش ہیں 
ید بیضائی ہالہ دل.پر

یہ فاطمہ کا لعل ہے جن کی پیشانی سرخ سرخ ہے، جن کی بات اظہر من شمس ہے کہ شمس کی تابش میں پروانے جل جاتے ہیں اور قصیدہ شانِ قلندر شروع ہوتا ہے!  رنگِ حسینی برنگ  لعل یمنی ہے اور عقیق دہنی ہے. یہ سراج دہنی ہے 

زندگی اک قالب میں،  کہاں. ہاں اک قالب کے سفر سے چلتی اڑاں بھرتی ہے. جب بھرتی ہے تب تشبیہات سے پرے فاصلے ہوتے ہیں تب رہگزر سیدھی،  منزل آسان ہو جاتی ہے تب بلایا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ طالب کو چاہیے مطلوب بن جائے. یہ جہان طالب کا مطلوب اور طالب کا مطلوب ہونے کا سفر جاری و ساری ہے آب کوثر پانی ہے. یہ وہ پانی ہے جو عرش کا پانی ہے. یہیں سے پنجتن پاک کی مہک اٹھی ہے جو لحن در لحن ہر نبی نے رہن رکھتے منتقل کی. پھر یہ ہم تک پہنچی ہے. زمین کی کوکھ کے غم تب کم ہوتے ہیں جب درد بمانند اسماعیل پاؤں مارتا ہے تو چشمہ یہی پانی کی مانند ابلتا زم زم ہوتا ہے. وہ نشان جہاں کھڑے ہو کے سیدنا ابراہیم علیہ سلام کے پاؤں کا نشان ہے  یہاں ہر وہ طائر رہ گزیر ہے جس نے خود کو دریافت کیا. جب تک درد کے چکر حاجرہ کے جیسے سسکنے بلکنے پر مجبور نہیں کرتے،  جب تک قربانی کو ادا نہیں کیا جاتا ہے چشمہ جاری نہیں ہوتا. رحمت جھانکتی مگر دریچوں سے ہے

ملوہیت ‏سے ‏الوہیت ‏کا ‏حسن ‏

آج جسقدر ملوہیت کا مالک تمھارا حسن ہے گویا تم نیلے آکاش پر رہنے والی اک ایسی انجیلِ تحریر ہو جس کو یوحنا کے مقدس مصحف سے لیا گیا ہے. قندیلِ نُو ..

قندیلِ نو
برقِ نو .... 
اشجار پر پربت کے سائے 
پربت پر انوار ہیں چھائے 
افلاک منور ہیں 
تم کو ملوہیت کی مٹی نصیب ہے 
تم الوہیت کے چراغوں سے جل چُکی ہو 
گمان کیا ہے؟
خیال کیا ہے؟  
کمان کیا ہے؟  

تم دور افق پر رہنے والے رانجھے سے پیار کی بات کرتی ہو مگر رانجھا تو نشان والا ہوتا ہے وہ نشان جو تمھارے سینے میں چمک رہا ہے 

جل اُٹھا 
کیا؟
دل - دل کو جلنا ہی تھا نا 
تُمھارے کوچے میں بیٹھی ماہل کو کیسے منایا جائے کہ تم بھی خُدائی راز ہو  راز؟  فاش راز کیا راز ہوتا ہے؟

آج تم کو کس نے پکارا؟
میں نے؟
نہیں،  ھو کا نشان ہے 
نَہیں،  یہ تو گمان ہے 
نہیں، یہ تو نسیان ہے 
نہیں، یہ تو ہیجان ہے 

ہاں، ہاں، یہ گمان ہے 
ہاں، ہاں، کن فکان ہے 
ہاں ہاں، گورستان ہے 
ہاں، ہاں بوستان ہے 

یہ تتلیاں، یہ پہلیاں ہیں، یہ اداس نگر سے وجدان کی جانب جانے والے راز جن کو تم سہہ چکی ہو مگر کہتی ہو کہ میں نہیں کہتی بلکہ یار کہتا ہے. یہ سب گورکھ دھندہ ہے کہ کائنات کہانی ہے اور کردار سج رہے ہیں اور ساز بج رہے ہیں  اس نے مصحفِ داؤدی سے گایا ہے!
کس نے؟
جس کا تم ساز ہو.
وہ راگ جو صدیوں سے بجتا آیا ہے.
آج کے دن اللہ تمھارے پاس بیٹھا ہے اور میں اپنے اللہ کو تمھارے سینے میں قرار پاتا دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں یار جابجا ہے. یار تو ہے اور میں نہیں مگر پارہِ جگر! چاک جگر ہوتا تو بات رفو گری کی ہوتی 


سنو دل 
اے جانِ حزین 
تم اک ایسی ہوا ہو.
جو معطر، معطر ہے 
جو شاخِ نسیاں سے گلِ لحن کی صدا میں نغمہِ گل سناتی ہو  میں کیا کیا بتاؤں، کہ تم کیا کیا ہو. تم خدا ہو اور روبرو ہو. میں نے تم کو اب بھی خود سے الگ دیکھا ہے! آہ! یہ جفا کا تیر میری ذات سے چلا ہے اور خطا پر مسکراتے ہو،  تم بھی عجیب! شاید کیمیا گر نے فطری لحن ایسا رکھا ہے کہ میں تم کو دیکھ کے سنتی ہوں اور سنتے کھو جاتی ہوں 


اے دل. 
دل کے ہزار ٹکرے 
اے دل! .
رونما تم، جلو نما تم 
کبیر ملتا ہے کبریاء جاناں سے 
کبیر کی آہٹ تمھارے سینہِ انجیل میں تحریم صورت اک سورہ ہے اور افلاک نے سورہ مریم تمھارے سینے میں اتار رکھی ہے. تم باطن میں ظاہر ہو اور ظاہر میں باطن ہے. تم تم ہو کہ تم سے پہلے بھی تم جیسی کون تھی؟ تمھارے بعد کون ہوگا؟ ..
حدجان سے قریب آ. 
رگِ جان کو نصیب ہو.
نس نس میں حبیب آ.
شام ہے نا، شام میں آ.
رات رقص کی رانی ہے 
رات تری مری کہانی ہے 
رات روایت اک پرانی ہے 
رات کی بات  انجانی ہے

میں نے تم کو چاہا ہے تو چاہت میں افلاک زمین بوس ہوگئے. اب بتاؤ زمین کیا کرے؟ کیا زمین کا وجود رہے گا؟  

والجبال نسفت .... 
والاوتاد الجبال 
واذالنجموم طمست.

اخیار سے بھلائی کیا ہوگی؟  خیر ہے جان!  خیر سے نروان!  خیر ہے رحمن!  خیر ہے قران!  خیر ہے وجدان!  خیر ہے انسان اگر ہو رحمن یا کہ بن جائے انسان کہ پالے نروان اور بدھی ہو جائے!  بدھی ہوجانے والے کہاں سے آتے ہیں کہ جن کے بے کل سوتے وہ اپنے پاس رکھ لے وہ اس کی فکر میں بدھی ہو جاتے ہیں ...
یہ جات سرکار ہے.
موری جات سرکار.
مورا سئیاں پکارت 
موری باتاں ہارت.
میں کردی جسارت 

یہ آگ تھی! یہی پانی ہوئی، یہی گلزار، یہ ہاتھ تھا جو افق سے نمودار ہوا اور گلنار کردیا  آج تمھاری آگ اس کے افق پر نمود سے پہلے جل رہی تھی مگر پھر کس نے کہا.
شانت،  شانت،  شانت 
آنتا جانتا اک سانچا ہے. 
راجا اک ہے رات میں ہے 
رات پیار کی ہتھیلی ہے 
ہتھیلی میں ترا جگنو ہے



میں نے جانے کس اورر سے تم کو دیکھا، چُنر تمھاری گُلابی رہی اور نوابی رہی ہاتھ میں  یہ ہاتھ سرکار والا ہے،  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ اسمِ واؤ کا دل پر ہالہ ہے اور سیدہ بی بی پاکیزہ طاہرہ کی بات ہے. تم نے جلادی اگر بتی؟ تم نے عطر نہیں لگایا؟  تم لگاتی تو اچھا ہوتا کہ بی بی جانم ناراض ہوتی ہیں کہ ایسے بنا عطر کے اجازت نہیں آنے کی. سمجھا کرو دل مگر تم نے کہا اللہ اللہ اللہ اللہ 
پھر سنا ھو کس نے کہا
کہو موری جات؟  .
موری جات 
کیا تری جات؟  
تری جات سائیاں 
تجھ سے چاہ بے پائیاں. 

سائیاں شاہ مٹھل سائیں کے پاس سے تحفہ دیتے ہیِ جس میں لکھا ہے کہ اگنی کے دیپ دھوپ کی تمازت میں نہیں رات کے اندھیرے میں جلتے ہیں  تو خود جل کے منور ہو جا ..سرکار میاں میر کو سلام کو ہم نے بھیجا اک دل اور دل والے پوچھا دل دل ہے اور دل کہاں رکتا ہے دل رنگ بسنتی ہے یہ اعظم ہستی ہے یہ بالائے دل کون ہے؟  یہ پس دل کون ہے یہ جان کے بتایا جانا ہے تم کو کہ تم اک نوری اخبار ہو جس میں مصور کا نیلا رنگ کہیں پیلا تو کہیں سرخ موجود ہے  اس کی نگاہ ہوگی تو تلاوت ہوگی رنگوں کی. چل دھمال ڈال

شاہِ تبریز تم کو بُلاتے ہیں اور حکم سُناتے ہیں کہ محکم اولی شہباز کے ہیں وہ جس سے نسب و حسب اک کڑی ہے  سجدہ گاہ ہے اور اک سیّدہ کھڑی ہے. خمیر جس کا نسبی اور بات جس کی ہو کیا کسبی کہ زمین میں لکھی آیتِ الہی چمکتی اور چمکتی کہتی تحریر میں نصب دلاویز مسکراہٹ کہ تمکنت سے براجمان شاہوں کے شاہ ہیں  افلاک زمین میں ہوں تو زمانے مکان میں آجاتے ہیں. مکان کیا وقعت کھو دیتا ہے؟  امکان کبھی حرفِ امکان سے بڑھ کے ہوا کہ حرفِ امکان نے جہان رنگ و بُو منور کر رکھا ہے کہ گیسوئے حال میں لعلِ یمنی اور دل عقیقِ یمنی ہے  تابندہ جو بات ہے وہ اس کی بات ہے اور رات میں آقا ہوتے ہیں یا آقا والے  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. جناب مآب سے کبھی کیا کہیے کہ دل میں باقی کیا کچھ ہوگا؟  اچھا ہو بھی تو تب و تاب ہوگا کہ پوچھا جائے؟  سچ تو یہ ہے کہ سچ نہیں اس سچ کے علاوہ کہ ذات کا ارادہ کن کی تعبیر ہے اور تعبیر شبیرِ اولی علیہ سلام کی قربانی ہے جن کے پیچھے کھڑے ہیں انجانے سے، بیگانے سے. یہ حال وساطت رسمِ شبیری ہے کہ جسم میں کل حیات کی زنجیریں ہیں. راستے میں بہت سی تحریریں ہیں جن پر لکھا ہے یہ اللہ ھو والی ہستیاں ہیں کہ تو فنا ہو جا کہ بقا تو بقا والے کو ہو کہ فنا ہونے والے کلمہ مکمل کر پاتے ہیں. یہ اس کا اور اس کے حبیب کا جہان ہے اور تو درمیان میں آنے والا فردِ نو کون ہے؟  جسم میں جذب کی زمینیں ہیں اور آسمان سے مستی کی طلب گار ہیں کہ نکلے اشجار سے برق نو 
.برق نو؟  
قفل نو کھلا؟  
یہ سینہ ہے؟  .چابی کیا ہے؟  
طسم!  الف سے طسم!  الم کی بات ہے جس میں رکھی اک ذات ہے  جس کی یہ اوقات ہے کہ سوغاتِ ہما ہے جیسے اللہ نے شہبازی کو بلایا ہے اور جسم میں رکھا تیر چلایا ہو


کج ادائی ہے اور آنکھ بھر آئی ہے. یہ زندگی کبھی تری تو کبھی میری ہے کہ میری نہیں ہے اور تیری بھی نہیں  یہ جذب ہوتی ردا ہے کہ افلاک میں وہ اک نیلا رنگ جس تیر کا ہے وہ آج دل میں ہے اور فائز اک راگ ہے. یہ الوہی نغمہ ہے کہ عشق بس خدا کرتا ہے  یہ حادث و حدوث کا پابند نہیں ہے. ازل سے چلا دھاگہ وقت پر مکمل یکجا ہوجاتا ہے پھر الف الف ہوتی ہے. الف کے رقص میں الف خود تماشائی ہے. الف کو خود سے شناسائی ہے. الف کو ملی کسی در سے شہنائی ہے کہ کج ادائی ہے اور آنکھ بھر آئی ہے. یہ سونا مندر حیا کی تعمیر سے ہے  کہ حیا کا قرینہ اک سے ملا ہے بی بی پاک جانم سب سے عالی ہیں جن سے پانی ہے برق نو کے خالی خالی اخبار. خالی میں ایسی بے رنگی ہے کہ وہ بے رنگی الحق نعرہ خدائی سے خود خدا ہونے تک کا سفر ہے. حق یہ ذات کا سفر کتنا اوکھا ہے جو نہ سہہ پائے سفر اس کے لیے چھوکھا ہے. رادھا بھی بے چین ہے کہ ساغر کے چشمے سے غزال نے آنکھ لگائی ہے. آنکھ مل گئی ہے اور ہاتھ نمودار ہوا ہے  یدِ بیضا 
یدبیضا!  
یا سیدہ!  یا سیدہ!  یا سیدہ 
یدِ بیضا،  ید بیضا،  ید بیضا 
انظر حالنا،  انسان کیا کہے؟  حق کہ قرار میں نسیان تحفہ ہے. تحفہ پایا ہے؟  جذب میں جذاب ہے. رادھا کو چاہیے کہ شاہِ حسین رض نے کنگن بھیجے ہیں. یہ شہنائی والے کنگن ہیں 
برق نو 
احوال نو.
خال خال چہرہ.
بال بال حال. 
زمین نے چلنا چاہا مگر تھم گیا دک کہ  دل کا کام تھم جانا یے کہ رک جانا تھا


بس تھم گئی کہانی اور کہانی تھمتی نہیں سانس تم جائے تو ہاتھ دل پر رکھ دِیا جاتا ہے. سچ کا ہاتھ دل پر ہو تو آنکھ نمانی نیر بہاتی ہے کہ نیل بہے نہ بہے مگر بہتا ہے کہ جنگل میں رادھا ہے جس کو ملا ارادہ ہے کہ یہ وعدہ ہے جس میں رکھا آوازہ ہے.

کن کا  آوازہ 
خیر کا آوازہ 
قالو بلی کی خیر 
قالو بلی میں حیرت 
قالو قالو کہتے رہے 
رک گئے!  بیٹھ گئے دل اور قالو نَہ کہا گیا 
بس اک جان گو کہ دِل دِل تھا کچھ نہ رہا

کھیعص ‏

پھر سے سرگوشی ہوئی ہے اور پھر احساس کے دریچے سے آواز داخل ہوئی ہے. یہ آواز کو سُنارَہا ہے من نگر کی بتیاں عشق میرا. جسم فانی ہے اور روح اعظم ہے. روح اللہ ہے اور جانب جانب چہرہ اللہ کا ہے  فرش پر رہنے والے نے دستک سنادی ہے. شدت میں روکا گیا ہے اور سنگیت کی وادی میں جسم فانی کا گیت روح گانے لگی ہے  وہ گرج جو فانی دنیا نے سنائی تھی،  اسکا گیت روح نے گایا ہے کہ تار سے تار مل گئی  زمانہ زمانہ سے مل گیا  جسم میں افلاک طویل قدامت کا حسن لیے ایسے لامثال لہُ ہستیاں ہیں کہ دل نے کہا 

اے فقیرِ چشتی 
اے رہبرِ ہستی 
اے کافر مستی 
اے تیورِ زمنی 
اے جانِ لحنی 

یہ تھا قفل جس میں کہا گیا کاف اک برق ہے،  وہ برق جس کو طین سے نسبت ہے اور برق جس نے منسوب کیا ہے مٹی کو اور مٹی کو اچک لے یا مٹی اچک لے اس میں خود کو تو مٹی مٹی نہیں رہتی،... جیسے کہف والوں کا کتا سبقت لے گیا بالکل ایسے مٹی سبقت لیجاتی ہے. یہ سابقہ خواب والوں کو ملتا ہے کہ لاحقہ بھی خوب سے ملتا ہے درمیان میں اللہ ہے  جس نے جہان بھر کو مٹی کو مٹی کردیا اور اپنے نشانِ موت کو عزرائیل سے تعبیر کردیا.
جبرئیل امین روح الامین 
موت کے فرشتے جانشین.
میکائیل مٹی میں مکین 
لاریب!  یہ اللہ کے مکان 
لاریب!  یہ بجلی گراتے ہیں 
لاریب!  نشیمن جل کے مجلی ہوتے ہیں 

سنو، جب بجلی گرتی ہے تب سبب اللہ کے سبب نہیں ہے کوئی رہتا ہے. یہ شبیہہ ہے جس میں شائبہ نہیں رہتا مصوری کرنے والے نے قلم ایسے بنایا ہے .... کاف سے ھا کی عطا ہوتی ہے تو ہر شور کی جگہ قرینہِ حسن ھو ہے. وہ وہ ہے مگر وہ ہے کون؟ اس نے کس کو یہ مسند بخش رکھی ہے؟ یہ اظہار اسکو کیوں پسند ہے؟  جہاں سارا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے، یہ کہا ہے اللہ نے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کہتے ہیں 

علی علی علی،  علی علی علی .... 

علی کا ذکر کس نے کیا ہے؟  یہ ذکر ایسا چلا کہ چلا کہ چلتا رہا ہے. جسم تو فانی ہے مگر حق کی آیت نورانی ہے. آگ ہو کہ آتش جس سے دہک دہک کے کوئلہ دل کو روح جب پاتی ہے تو فواد تحریک پکڑ لیتا ہے  تب اللہ کی تار بجتی ہے اور تار جب جب بجے اللہ کی تو درود ادا ہوتا ہے. اس لیے کہا گیا درود اللہ اور اس کے فرشتے بھیجتے ہیں مگر انسان یہ سمجھ نہیں سکتا ہے اور زبان پر درود جاری نہ ہو کیسے جب دل میں اللہ ہو،  قلب میں خفی ہو یا جلی ہو ذکر جاری ہو تو ذکر میں ذکر ہوتا ہے اور دھیان اتارنے والے فرشتے کی قسم.
یہ ذکر جو لقا کے لیے ہوتا ہے 
یہ ذکر جو سینہ چیر کے اتارا جاتا ہے 
یہ ذکر جس سے رخ کی تابانی فزوں ہو جاتی ہے.
یہی احیاء العلوم ہے کہ فالملقیت ذکر کی ہوا سے چلنے والے ہادی فرشتے نے کہا کہ خدا کہتا ہے درود بھیجنا واجب ہے  واجب المرجب ہے  سوغات ہے کہ بات جذبات کی ہے ...بس اللہ جب درود بھیجتا ہے تو کاف سے ھا سے یا بنتا انسان جانے کہ مخاطب وہی ہے آواز وہی ہے خود ہے. ایک ہوجانا ایسا جیسا کن سے پہلے کی بات ہو. کن کا آواز بعد میں پھوٹا تھا قبل اس کے اس نے کہا،  اس نے سنا تھا.  "یا " سے چلتے جب صواد جانب رواں اسم ہوجاتا ہے. یہ حروف سے اسم کا سفر ہوتا ہے کھیعص!  تو دیدار پہلے واجب ہوجاتا ہے  دید کا دعوی کرنے والے پاگل ہوتے ہیں کہ اللہ جہت میں نہیں سماتا ہے مگر جہت کی تخلیق خود سے کرنی پڑتی ہے  اس کی جہت سے اپنی جہت اکو ہوجانی ہے. ہم سب اپنی اپنی نسبت سے خدائی راز ہیں اور جہات میں رازوں کا جہاں لیے جہات میں صواد ہوجاتے ہیں 

کھیعص کی آیت کی نمود 
کھیعص کی آیت کا نزول

سیدہ ‏بی ‏بی ‏جانم

اک ہیبت حسن ہے کہ غیبتِ دل ہے  اور جانے کس نگر سے کشش کی ہوا مجھے کھینچ رہی ہے. زمین کو زمان والے نے بُلایا ہے. خاک نشین تو خاک سے وراء ہوگیا ہے  خاکی اس کی خاک میں کھو کے الحی القیوم کا ذکر ہوگیا ہے. دھیان کر کہ دل کے میان میں نگاہ کے تیر ہیں. جبین جھکتی سیّدہ کو سلام پیش کیے جائے. جانِ حزین کہ رو ہے دل میں. منجمد برق تھی میری اور "رو " بن گئی جب سے ان کو دیکھا. دل نے کہا کھیعص!  کھیعص!  کھیعص!  عاصی کو آس رہی ہے اور آس نے آس میں خود کو چھپالیا ہے. یہ شان رو ہے کہ برق نو ہے.

سیّدہ بی بی جانم طہارت کی اعلی مثال کہ مثال ثانی نہیں کوئی!  ان جیسا بننے کی کوشش گستاخی ہے. ان کو دیکھنا عین گستاخی ہے. بس نین جھکے رہتے ہیں اور سجدہ ہوجاتا ہے. 

سربقدم سیدہ عالیہ ہے 
سر خالی مگر وہ عالی 
وہ جن کی تربت پر ہے 
نور کے دل کی ہے تھالی 
تربتِ زہرا نشیمن ہو مرا
تربتِ زہرا سدا رہوں میں 


قصور نہیں ہے مگر کشور کا مالک کہتا ہے مکسور ھ ہے اور بی بی جانم کے پاس واؤ کا چشمہ ہے. آیتِ تکویر دل میں ہے اور سورہ مریم چمک رہی ہے. میں نے بی بی مریم سے ان سے سایہ پاتے پایا ہے. طہارت مستعار لی گئی ہے اور لی جاتی ہے. جو کچھ جس کے پاس ہے وہ سیدہ کا ہے اور ہمارا کچھ نہیں.ہے. کچھ تو ہے بس ذات جو پرکار ہے، نفسا نفسی میں.پھنسی ہے. یہ تو عالی.ہستیاں جن.کا کرم ہے ورنہ بھرم کیسے رہتا ہے. سورج جب سیدہ بی بی پاک کے پاس ہوتا.ہے تو سورج حجاب لے لیتا.ہے .. کائنات پر ان کی حیا کی ردا پھیلی ہے اور کائنات بھی جھکی چاہتی ہے. مخملیں مخملیں اور کہاں ٹاٹ کا پیوند ... غرض سب سب ہے ان کا ہے اور صواد کی تنزیل ہے. یہ ردائے سیدہ بی بی زہرا رضی تعالی ہے جن کی حیا سے حیا بھی چھپ جائے جن کی نگاہ سے آنکھ ساکت ہوجائے،  سانس تھم جائے اور دل مجذوب ہو جائے. یہ کہانی ازل کی ہے جب انہوں نے دیکھا تھا،  گویا ابھی ابھی دیکھا ہے. وہ جب جب دیکھتی ہیں نور کو نور کا گمان ہوتا ہے. قسم شب تار کی،  حریم ناز ہیں دل میں، نازشِ خواتین ہیں،  تکریم نے جھک کے سلام پیش کیا تو مکرم کہلائی اور گنہ گار کیسے سلام بھیجیے .... قران جزدان ہے بنا ہے اور جزدان میں یہ سیدہ بی بی جانم کے نور کی مجلی آیت!  اللہ اللہ اللہ سیدہ،  نور والی!  قران کی نزولی ترتیل اور ترتیل سے تنزیل ہونے تک،  منزہ مقام تلک بس سجدہ سفر طے کرواتا ہے. سجدہ میں سر نہ کٹے تو آنکھ سلامت رہتی ہے. یہاں آنکھ نہیں بلکہ دل چلتا ہے اور دل سے سنا ہے کہ باد صبا نے کہا ...سیدہ آیتِ تکویر ہے وہ نوری تمجید جو الماجد نے اوراق قرانی مین ڈالی وہ یہاں سے انتقال ہوتی ہے. کون کہتا ہے جب وہ ہوتی ہیں تو نور رہتی ہے. نور کہیں نہیں ہوتی بس وہ ہوتی ہیں جن کی پاکیزگی میں شرمندگی کا عنصر مجھے ماں کی یاد دلاتا ہے. ماں!  پاکیزہ کردے!  ماں مصفی کر تاکہ عطر لگا دل ہو ورنہ خالی سجدہ؟  خالی سجدہ تو ٹکر ہے اور ٹکر کیا مارنی

دل ‏مرکز ‏میں ‏چھوڑ ‏کے

اپنادل مرکز چھوڑ کے 
دل دھیان  میں چھوڑ کے 
وظیفہِ عمل کی نگری میں 
رقص کر،  
نئے آہنگ سے 
نئے طرز کی زمینیں ہیں 
افلاک کی چشمات 
گویا ہیں یہ آبِ حیات ...
پھوٹے من بستی سے چشمے.
جذب ہے کہ جذب مشہود.
جذب ہے کہ مشاہدہ ہے 
جذب ہے کہ شہادت ہے 
جذب ہے کہ الواجد کی تحریر 
جذب ہے کہ نورِ سماوات کی تمثیل.
بجلیاں نشیمن میں گرا دی جائیں 
تو جلوہ گاہ مرکز میں آجاتی ہے 
دل مرکز،  دل مرکز،  دل مرکز 
مرکز میں ساجد ہے؟
یا مرکز میں سجدہ؟
مرکز میں نہ مسجود نہ سجدہ 
بس ایک ہے 
ایک نے بنایا سب کو 
ایک نے جلوہ دیکھا جس میں اپنا 
اسکو اپنا بنالیا 
اسکا ذکر اٹھا دیا 
بھیج دیا زمانے کو 
زمانے کس کے؟
جس کو اپنایا جائے اسکی زمین،  اسکے افلاک 
کرم ہے! کرم ہے!  کرم.ہے 
یہ تیرِ جدائی گو تیغِ تغافل 
مگر کرم مگر کرمگر.کرم 
رکھا.بھرم ہے 
جھکا یہ کس سر ہے 

اجدنی!  وجدنی!  ستجدنی!  بس شعلہ نکلا معبد بدن سے اور ہوگئی زمین وادی طوی ... موسی سے کہا جاتا ہے نعلین.اتار دے. نعلین تو اتار ہی دی جاتی ہے کہ کلیمی کی رمز انوکھی ہے. سچ کہو،  سچ ہو جاؤ تو قم،  قم،  قم کہو اور فیکون.پاجاؤ 

اے فلاک سے جاری نہر 
کتنے در وا کیے؟
کتنے سینے سپر کیے؟
کتنوں کو.واصل حق کیا؟
کتنے بازو سکتے میں کٹ گئے 
ترا اختیار کی تیغ چل گئی 
.جبین جھک گئی کہ جھکنا ہی تھا 
سجدہ کرنا ہی تھا کہ سجدہ ہوگیا 
نظارہ وحدت!  
مے توحید پی ذرا 
پی کے رہ مست مدام تو. 
انفعالیت کچھ نہیں 
بس فعل تری ذات ہے 
ذات کا فعل کار جہاں دراز کیے ہے 
اے دل 
اے دل جام  جم پی لے ورنہ ساقی نے دینا ہی دینا ہے اور ایسا دینا ہے کہ لاگی نہ لگی کہ پتنگ کٹ گئی. پتنگ کی دوڑ ہوگی اس کے ہاتھ جو ہوگا ساقی.
ساقی اور پلا 
ساقی اور دے 
دیے جائے گا 
روئیں جائیں گے ہم 
ہنجو بن کے بدن ہمارے، زمین بوس ہو جائیں گے 
اے زمین بوس پہاڑ! اٹھ!  
اٹھ!  قم فانذر،  وربک فاکبر 
بڑا ہے وہ اور بڑائی نازاں اسکو 
.جبین جھکی رہی سر نیاز میں گیا

Saturday, March 6, 2021

سفر ‏جوں ‏مسافر ‏کو ‏پرواز ‏دیتا ‏ہے

سفر جوں جوں مسافر کو پرواز دیتا ہے،  مسافر دم بہ دم فلک کی جانب اٹھتا چلا جاتا ہے گنبدِ بدن میں فلک بھی زمین .... دونوں میں اسکا نور ہے ...اس کی اقسام ہیں ..... جب دل کو بینائی مل جاتی ہے تب دل کا عالم سکتہ و حیرت میں پایا جانا عام سی بات بن جاتی ہے .... دل کی زمین و فلک بھی ہوتا جس طرح بدن کا بلند مقام سر ہے ... دل کا وہ مقام شہ رگ ہے ... یہ مقام شہ رگ سے ہوتا دماغ سے متصل ہے ..یہی خبر لاتا ہے یہی نور ہے جو نور ازل ہے یہ ایک ہے اس کے رنگ منقسم ہوگئے کس کو نیلا ملا کسہ کو سبز تو کسی کو سرخ تو کسی کو جامنی ... یہ تو اس کی عطا کس کو کیسا نوازے

شعور کیوں مجبور کرتا تعین کرنے کا جبکہ لاشعور نے میرے   سب کاموں کو  سنوار لیا ... رات اور دن کا تعین کیسے؟  مزمل و مدثر   میں تضاد کیوں ہے گوکہ لا الہ الا اللہ کی عملی تصویر ہوگئی ...  یسین کہنے والے کہتے کہ لوٹ جا حالت جو خواب کی ہے دن میں کہ رکھ توازن راستے میں  گویا کہ بصیرت بھی رکھ بصارت بھی رکھ ... کبھی نور ازل جب اس طور گھیر لے جیسے کہ عروج پر سورج موجود ہو گویا کہ انوار نے لباسِ مجاز کو ایسے گھیر لیا ہو جیسے مکمل سپیدی ہو،  اترچکا ہو رنگ کالا، بکھر گیا ہو نور کا اجالا ... نور مجلی نور اکبر نور تصدیق نور حبیب صلی علیہ والہ وسلم نور یزدانی .. 

یہ جو رگ و پے کی بے چینی ہے یہ ایسے سراٰیت ہوگی کہ تحریک کا انجماد بھی نہیں ٹوٹ رہا ہے .....  

رات کا حسن اتنا ہے کہ رات اللہ جی کے ملنے کی نشانی ہے رات جب چھاجاتی ہے،  سورج مکمل تجلی لیے ہوئے ہوتا ہے گویا کہ حالت دیدار میں ہو  اب کہ محفل ہوگی جو ہوگی تو سعید لمحے بھی نازاں نصیبے نور ہوں گے 

عشق رات ہے یا کہ صبح کی نفی ہے ...موت عشق کا پہلا مقام ہے ... ایسی موت کہ زندگی بھی ساتھ رہے .. ایسے کے وقت کے پنجرے میں جس نور کو قید کیا گیا، اسکو آزاد کیا جائے ...... .

کھیتی نرم ہے ، زمین گداز ہے ، نہاں اک راز ہے ، دروں وصل کی شراب ہے ، بیروں ذات تنہا ویراں ہے ، زندگی اک خالی پیالی ہے ، آنکھ اشکوں سے خالی ہے ، دل ہے کہ عاری ہے جلوہ جاناں سے ،


ردھم قائم رہتا ہے مگر موسیقی بدل دی جاتی!  یاسیت آ تھام لوں تُجھے،  تو نشان منزل تو نشاط ہست!  تو قرار زیست ... آج ہم رنگ میں رنگ کیے بیٹھے ہیں ہم کو علم نہیں کہ رنگ آیا کہاں سے


طلب مٹا دیتے ہیں،  انسان بنا دیتے ہیں . ہم انسان کو حق دکھا دیتے  ہیں.  جبین جھکی رہے گی اور قلب قطب بنا دیتے ہیں.  دل قطب نُما بَن جائے تو ہچکیاں لگنا شُروع ہو جاتی ہیں.  دل کو سکون سے نواز دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ
الا بذکر اللہ وتطمئن القلوب 

ذکر سے آئنہ چمکنے لگتا ہے .. تجلیات و انوار سے بھگویا جاتا ہے دل کو ... بندہ درود پڑھے تو سمجھے رب نے یاد کیا اور قرانِ پاک پَڑھے تو سمجھے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی محفل میں ....  میں نے اک نعت پڑھی یاد نہیں کونسی تھی  ابھی تک نعت کی سعادت نہ ملی نہیں .... نعت خوان جن کی آواز سکون دیے تو سمجھیے ان کو بارگاہِ نبی پاک صلی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ نعت کہنے کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے!  

تصویر تمھاری تصور میں رہتی ہے . ہر وقت تصور میں زندگی رہتی ہے.  کبھی شمع کے گرد پروانہ جلتا ہے تو جلتا رہتا ہے.  اے کاش لبوں پہ نام محمد صلی علیہ والہ وسلم ہمیشہ رہے آمین

یہ تھا عجب کلام جو دل نے کیا!  دل مجھ سے کہ رہا ہے کہ میں بہت خوبصورت ہوں.  دل کہتا ہے تو جمیل ہے تو حسین ہے!  میں کہتی ہوں کی جاناں  میں کون ...  ہست رے ہست کہ دل مست رے مست ... صورت حسین ہے جو کمال کی بلندی پہ روح ہے.  وہ طائر جس کی معراج سدرہ سے آگے ہے .. .. دو تھے تو ٹکرے،  دیکھا کیسے تین ہوئے!  تین تم نے دیکھے مگر کس نے دیکھا چار چار ہوئے ... اتنے ہوئے ٹکرے کہ بھول گئی میں کون ... کی جاناں میں کون!  رحمت کا جھروکے سے دیکھا تو دل روشن دیکھا جیسے شاہی مسند بچھائی گئی ہے کہ دل کہے پیا گھر آیا. ... یہ خوشبو میرے یار کی ہے،  یہ عکس یہ گفتگو یہ آواز جو میٹھی ہے اتنی کہ شیشہ توڑ دے ... اس صنم نے کرچیاں توڑ دیں اور رگ رگ نے رقص کیے کہا کہ تو سنگ ہے

دل!  تجھے بے نیازی بھلی نہیں کہ نیاز تیری میرے لیے ہے!  یہ جہاں ہے!  یہ دل ہے!  کیا اوقات ہے دل کی؟  یہ میخانہ ہے کہ ھو کی صدا لگاتا ہے!  "تو،  تو،  تو .... " کہتی رہی اور وہ "میں،  میں ...،  " کہتا رہا ... فرق کیا جاناِں ہم نے؟  فرق رکھا نہ گیا ہم سے بس جب ہوش سنبھالا نہیں گیا ہم سے!  جو جھک جائے،  فنا کا پھل اس میں لگتا ہے    اک بزرگ کہتے ہیں کہ مجذوب بیٹھا نعرے لگا رہا تھا،  تقسیم ہو رہی ہے..... خیرات لے لو     ..... اک شخص اٹھا اور بولا:  میِں تو محبوب سے محبوب کو مانگو ..مجذوب نے کہا " تعین کر جو شے ہے،  ملے گا انعام تعین شدہ  خیرات کی منظوری کے بعد  .. وہ ضدی کہ نہیں اسے دیکھنا ہے اسکو ملنا ہے ... مجذوب نے کہا:  شرط نہ لگا خیرات کے ساتھ،  عام ہے تو خاص نہ مانگ  .. ضدی تھا وہ شخص اور بولا.  .. خاص تو ہر کیساتھ ہوتا ہے جبھی تو بندہ خالص ہوتا ہے     خالص دھیان  ہے خالص گیانی ہے ... مستغرق روح کو کیا چاہیے.  اتنا گما دے کہ اس کا ہوش نہ رہے نہ خود کا  . مجذوب جذب میں آگیا اور دھمال ڈالتے ڈالٹے مدہوش ہوگیا کہ دیوانگی کا تیشہ پھر سے مل گیا.   مجذوب جونہی دھمال ڈالتا وہ شخص کہتا " وہ دیکھو اللہ!  وہ دیکھو اللہ!  وہ شجر کے پیچھے!  وہ،  وہ حجر کے پیچھے!  وہ لحد میں!  وہ مہد میِں وہ مًاں کی گود میِں وہ پاک قران کے الفاظ میِں وہ مجلی دل میِں،  وہ العالی ہے وہ جسکا والی ہے جس کا تن خالی ہے جس رنگ سیاہ ہے جس کی شبیہ کالی ہے وہ بس فراق میں ہے وہ بس ملال میں ہے کہ جب اتر جاتا ہے رنگ کالا تب اللہ کا محبوب مل جاتا ہے

Friday, March 5, 2021

منظم ‏چلو ‏شاہراہوں ‏

منظم چلو شاہراہوں پر، 
یہ رنگ عام نَہیں 
کچھ خاص نَہیں 
انسان ہے؟ وہم ہے؟
میں ہوں، کیا یہ خیال نہیں ہے؟
وہ ہے، اسکا نُور ہے 
ربی ربی کی صدا میں حدبندیاں ہیں 
گو کہ نوریوں کی حلقہ بندیاں ہیں 
انہی میں بزرگی کی چادر اوڑھے جانے کتنی ہستیاں ہیں 
انہی میں پیچیدہ پیچیدہ راہیں ہیں ... ... ... 
یہ.متواتر سی نگاہ مجھ پر ہے 
گویا حق علی حق علی کی صدا ہے 
گویا محمد محمد کی ملی رِدا ہے 
جھکاؤ نظریں کہ ادب کا قرینہ ہے 
پتے گویا جنگل میں قید ہیں
سر سر کی قامت بھی پست ہے 
محبت گویا عالی قدم ہے 
چلو منظم ہو جائیں 
چلو چلیں کہتے علی علی 
چلو چلیں، ذکر علی میں


میرے احساسات پر دنیا بھی رقصِ بسمل کیے جائے 
قیمتی ہیں نا، ہاں یہ پارس سے زیادہ قیمتی ہیں 
کیونکہ نظمیں مجھ سے ظاہر ہوتی  ہیں 
رقص بسمل درد کی وہ داستاں ہے 
جس میں خالق اپنے ہونے کی گواہی دیتا ہے 
جس میں ہم لفظوں کو لکھتے سوچتے کم ہیں کیوں کہ وہ،
سوچتے عامل ہوتا ہے 
کاش میرا درد تم سن سکتے 
کاش اس کی قیمتِ حاصل تم جان سکتے 
یہ مرے ہونے کا وہ درد ہے،
جو عدم میں مجھ کو لے جاتا ہے 

اُداسی رگ رگ میں سمائی ہے 
نَیا یہ کیا پیام لائی ہے؟
وہ جو کبھی دَریچہِ دل میں جھانکتا تھا 
وُہ اب کَہاں کَہاں نَہیں ہے 
اسی کا جلوہ چار سُو ہے 
دَروں میں،  لحظہ لحظہ وُجود پاتا گیا 
مگر موجود پہلے سے تھا 
ازل کا سفر، ابد کا تھا منتظر 
سعی یہی ہے 
یہیں سے چلتی ہے 
قسم  خُدا پاک کی 
وہ ذات یہاں قیام میں ہے ...


ہم خلق ہوئے تھے، پھر موجود ہوئے 
ہم غائب تھے، پھر ظاہر ہوئے 
یہ اس کی توجہ کے عناصر تھے 
ہم دھیان میں تھے، خواب ہوئے ہیں 
خوابیدہ سی کیفیت  اور وُہ 
حواس سوگئے اور روبرو ہوگئے 
کائنات اسکا مظہرِ عین ہے 
نقش تمام سینے میں پائے گئے


جسے اُس جَہاں کی تلاش ہے 
میرِ کارواں کے ساتھ چل 
چل کے نگر نگر کی خاک چھان 
رات کے سمان میں آگ سے بات کر
شام کی ہتھیلی میں انگلیاں دان کر
سرسوں کے پتے میں موتیے کے گلاب رکھ 
آج دل میں لوح قلم کی تمجید رکھ 
نمیدہ ہستی کو راہ سلسلہ کر