Friday, February 26, 2021

شاہ ‏جلال ‏الدین ‏سرخ ‏پوش ‏بخاری ‏

کبھی وہ تنہائی جس میں محفل لگے،  وہ لگے تو لگ جائے یعنی کہ ٹھہر جائے ـ وقت ٹھہر جائے تو رقت لگ جاتی ہے ـ یہ اجمالی تفصیل ہے ھو کی ـ وہ اور میں اک ہیں ـ تنہائی ہے ـ وہ اور میں اک ہیں اور تنہائی ہے ـ سچ نے شہ رگ سے خون میں شہد بکھیر دیا تھا ـ لگ گئی بازی اور من کے دریچوں میں  اک جھلک ہے ـ جھلک بھی کیسی ہے جیسے وہ پکار رہا ہے.  کہے جائے " قم فانذر " یہ تبدیلی کیسی ہے.  مبدل کچھ بہیں ہے کیونکہ سچ لازوال ہے سچ باکمال ہے ـ جانے کیوں اس کی نگاہ کی بانہیں تھام کے عشاق کو لوری دیتی ہیں جیسے ماں نے کہانی سنا کے بچے کو سلانا ہو 

اہل نظر شکریہ 
اہل شہید شکریہ 
اہل غفار شکریہ 
آلِ سید کا بے مثال شکریہ 
وہ مطہرہ،  طاہرہ،  طیبہ،  شاہدہ،  رافعہ،  ساجدہ،  مصفی کرنے والی روشنی 
دل میں ظاہر ہو تو سلام واجب 
ہم نہیں رہتے ہم میں یار رہتا ہے 
یہ سلام عشق بمانند سجدہ حسن بے مثال کو ... وہ عالیہ جن کے ملیح چہرے سے صبح نے تنفس لیا،  رات کو سکتہ ہوگیا،  سورج کو لالی آگئی حیا سے،  فلک کی نیلاہٹ کم ہوگئی 
مومنین.
درود خیال سے بھیجو 
پیار و محبت کی تصویر سے 
سجا لو تنہائی 
واحد کی تنہائی کے میلے دیکھو 
اجے سجی ہے سرخ لعلاں دی محفل 
اجے تے چلو ویکھو سجن دی سرخی 
شاہ جلال سے ملا سرخ نگینہ 
شاہ جلال،  شاہ بخارا،  ثانی ء حیدر کی بات ہے کہ خدا ساتھ ہے ـ لعل نے لعلی بانٹی ہے. چلو سلام کریں شاہ جلال الدین سرخ پوش کہ ان کی سرخ ردا ہم پر ہے. ہم نے کہا وہی ہوا ہے. ہم جو کہیں گے وہ ہو جائے گا. یہ لوح سے ملی روشنی. قندیل پاک میں شاہ جلال الدین کی سرخی اصل ہے. ہمارے اصل. اے سید روح سلام!  اے سید روح سلام!  اے سید روح دھاگہ لگادیا،  لاگی من کی کیسے بجھے گی کہ بجھے نہ بجھے کہ شہر حزین میں ہم ان کی محفل میں ہے. وہ ہمارے سید ہیں

شاہ جلال الدین سرخ پوش بخاری تشریف لائے ہوں، صبا گنگنائے تو کیا کہیں. جہانیاں کی سرزمین کے گلابوں میں سیدہ بی بی پاک جیواندی وقت کی بامراد ولیہ گزری ہیں. وہ شاہ جلال سرخ پوش بخاری کی پوتی ہیں  ان کی تمام نسبتیں سیدہ پاک دامن مطہرہ عالیہ واجدہ رافعہ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی تعالی عنہ سے ہیں. سیدہ بی بی نے انسانوں کو تعلیم دی محبت کی ... بی بی جیواندی بھی ایسی تعلیم سالکین کو دیا کرتی تھیں ..تاریخ کے گمشدہ اوراق دیکھیں تو کم ہی بیبیاں ہیں جن کے مزارات ہیں ...  بی بی جیواندی کا مقبرہ سخی سرکار شاہ بابا شاہ رکن عالم رحمت اللہ کے مزار جیسا ہے ..   اس مزار پر جا کے عجب ہیبت طاری ہوجاتی ہے ....   یہ ہیبت گلاب کے پھولوں سے جاری ہے ... قبر مبارک سے گلاب کی مہک جانفزانی ہے ...یہ رات آنی جانی ہے کہ شام سے بڑی کہانی ہے   .یہ جن جن کو نسبتیں ملیں ہیں وہیں سے ملیں ہیں

محمد ‏کی ‏میم ‏بڑی ‏نرالی ‏ہے ‏--- ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ ‏وآلہ ‏وسلم ‏

محمد کی میم بھی بڑی نرالی ہے ـ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ـ یہ نقاش گر نے تب ہمیں دی،  جب ہم افلاس میں تھے ـ جب سے میم سے نسبت بنی ہے ـ افلاس تو کہیں بھاگ گئی ہے ـ سروری ملی ہے اور دولت کون چھوڑتا ہے ـ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہِ مبارک جوں جوں تصویر میں جھلکنے لگتی ہے،  تصویر کا تعلق بوسیلہ میم المصور سے جڑ جاتا ہے ـ  یہ کمال کبھی بھی نہیں  درود کے بنا نصیب ہوتا  ہے ـ خیال میں محبت ملتی جاتی ہے، خیال محبت پاتا ہے اور خیال محبت دیتا ہے ـ جب سب کچھ یہاں نہیں ہے اور ہم محض خیال کی برق ہیں تو کیوں یہاں پر مستقل رہنے کا سوچ لیتے ہیں. خیال ملا، خیال نے وسیلہ بن کے دے دیا، جس کو جہاں سے ملا وہ خیال نے دیا ـ بندہ تو نہیں جانتا کہ دولت ہے کیا ـ دولت تو سکون ہے ـ اک جھونپڑی میں بیٹھا شخص خیال ہوتے خیال میں جائے تو کیا ہوگا؟  نیستی کا عالم ہوگا!  یہ جو ہستی کا مٹ جانا ـ خیال کو باہم وصلت ہوجانا یہ نور کے نور سے رابطے ـ برق کے برق سے سلسلے ـ یہی سلسلہ جس کو سینہ بہ سینہ انتقال کہا جاتا ہے ـ استقلال  چاہیے امانت کو سنبھالنے میں ـ جب امانتیں دی جاتی ہیں تو تقسیم روح کی شروع ہوجاتی ہے ـ روح کی تقسیم محبت کی ضرب سے ہوتی ہے ـ  محبت اگر بے غرض ہو تو منتقل ہوتی ہے ساتھ اس خیال کے جو کہ بطور امانت کاتب نے دیا ہے  یہ بھی اہم ہے کہ خدا نے ایسی امانتیں دیں مگر پہچان کا ذوق کسی کسی کو دیا ـ جب تم دیتے ہو تو یہ نہ سوچو کہ تم دے رہے ـ تمھاری اوقات نہیں ہے کہ تم کچھ دے سکو؟  تم تو خود ذات کے ہو ـ ذات کا کام ہے دینا ہے ـ یہ عین ذات ہے جو بانٹ رہی ہے ـ جتنا دیا جاتا ہے اتنی دنیا کی خواہش نکل جاتی ہے ـ ایسے اگر وقوع ہو جائے تو یہ مبارک بات ہے ـ نیک و سعید روح وہ ہے جو اثر سے نکل جائے؟  شیطان کے اثر سے ـ انسان تو محض متاثر ہوتا ہے اس کے بعد تاثر دم توڑ دیتا ہے ـ یعنی تاثر کشش پیدا کرتا ہے ـ اس کشش کو اچھی بات کے لیے رکھو اور اثر تو بس اللہ کا باقی رہتا ہے ـ خدا کو بقا ہے ـ وہ الحی القیوم ہے ـ اندر وہی تو ہے اس کو برق صمیم خیال کرلو ـ یہ شمع کی مانند جل رہی. کرنا تو اتنا ہوتا ہے کہ اپنے خیالات کی یکجائی کو جلا کے اس نور میں کود جانا ہوتا ہے وہ پھر مثل زیتون شاخوں کو ہرا بھرا کر دیتا ہے ـ کہاں رہتی ہے بندے کی ذات؟  اس کی باقی رہتی ہے. باقی تو اس کی ذات نے رہنا ہے کہ بندے کو اوقات میں رہنا ہے ـ شمس نے حجاب میں کب رہنا ہے ـ کسی نے مستقل میں کب رہنا ہے ـ سب بچھڑے اس کا خیال ہے ـ برق سے برق ملا کے اس سے مل جاؤ ـ بچھڑا یار خود ملے گا ـ بچھڑا یار قربانی کے بعد تو ملتا ہے 

سبحان اللہ!  ذی ہست و ذیشان ہے وہ ذات جو اوج ثریا پر بلاتی ہے ـ جو فاصلے مٹا کے سب نچھاور کرتی ہے ـ خدا محسوس نہ ہوا تو پھر کیا ہوا؟  سبحان کس شے کے لیے کہا؟  کس چیز سے متاثر ہوئے؟ وہی کہ برتر و اعلی ہے  عالیجناب سے بڑا کوئی نہیں ہے فقط اس واسطے احساس نے تشکیل دی ذات ـ ذات کو دیکھا کہ وہ اعلی ہے تو کہا پناہ!  کتنا حسین ہے خدا!  مر گئے ہم!  مارے گئے ہم!  زلیخا نے انگلی کاٹی ـ ہم نے جان قدموں میں رکھ دی ـ جان دی تو اسکی ہوئی تو حق ادا نہ ہوا کہ اس کو خود سے تو کچھ نہ دے سکے ـ اب اس کی بے نیازی سمجھ لگی تو پھر سبحان اللہ نکلا ـ دیالو اس لیے دیتا ہے کہ وہ محبت کرنا جانتا ہے اسے لینے کی توقع نہیں ہے ـ دیالو جیسی ذات بننا مشکل ہوتا ہے مگر کسی کو اس لیے دے دینا کہ دیالو نے کہا ـ بس اسے نیاز چاہیے ـ بندے کو عبد کہا گیا اس لیے ہے کہ وہ بے نیاز یے اور خدا تو بے نیاز ہے ـ پھر حمد کبھی خود سے کہہ سکو گے؟  نعت کا طریقہ آئے گا؟  یہ سب اس کی نسبت ہے تو لین دین کا طریقہ اسی نیاز و بے نیازی پر ختم ہوجاتا ہے ـ عبد فنا ہوجاتا ہے اور خدا رہ جاتا ہے تو پھر سبحان اللہ کون کہتا ہے؟

رات ‏کا ‏پچھلا ‏پہر ‏

رات کا پچھلا پہر ہے ـ اس پہر کو شب بیدار دعا کیا کرے تو مانگ بھر دی جائے گی ـ درحقیقت مانگت یہی ہے کہ دعا توفیق ہے ـ جس کو نوازا جائے وہ نواز دے خزانے ـ تقسیم میں رحمن و رحیم نے تضاد رکھا ہے ـ اختلاف اس نے الجھانے کے لیے نہیں بلکہ دھیان کے لیے رکھا ـ فرق تاہم فرق ہے ـ اصل تو ہم ہے نہیں یہاں. ہم تو اسکے مجسم خیال کی بجلی و برق ہے ـ اس لیے بنا آگ کے قندیل سے روشنی سورج کی سی صورت اختیار کرلیتی ہے ـ رات کے پچھلے شب بیدار بیٹھا ہے اور کشش کا نظام قائم ہے ـ شب بیدار کو شب دراز کی ردا کھینچنی ہے تاکہ جانچ لیا جائے سویرا پیغام پہنچانے والوں کے لیے ہے جبکہ اندھیرا پیغام لینے کے لیے ـ کھول آیاتِ المزمل ـ اک حصہ شب بیدار ہے اور دوسرا سویرے ہوجانے کے بعد یے ـ

وہ اک خواب میں ہے جو بھی انس یہاں پر ہے ـ در حقیقت عین تو مرکز وہ خود ہے ـ اس کی صوت نے تصویر بنادی اور آواز نے جسم میں جان ڈال دی ـ یہ سوچ کا دھاگہ ہے کہ ہر بشر جو مشکل ہوا،  اس کی صوت کیا ہے ـ صوت اک ایسا خاکہ پر مشتمل ہے جس کی درون کی صوت اس صوت کو پالے اس نے راز جان لیا ـ یہی پانا بشر کا مقصود ہے مگر وہ جانے کن کن باتوں میں پڑا ہے اور سیاپا بہت ہے. اس نے کمایا کیا ہے،؟  کچھ کام ہو تو ہم بھی اسکو جانیں ـ اس کو پہچان کا صلہ دیں کہ صلہ قربت ہے . دعا کے واسطے کائنات بنائی گئی ہے ـ دعا دینے میں بگڑی بن جاتی ہے اور حقیقت مل جاتی ہے 

اٹھ ـ شب دراز سے!  ردا کھینچ دے!  اٹھ کے پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ خاک ہو جا،  خاک میں مل جا تاکہ باقی وہی رہے ـ حق!  اسی کو بقا ہے مگر بندہ تو جانتا ہی نہیں ہے

اللہ ‏ھو ‏والی ‏ذاتیں ‏

آئنہ کیا ہے؟ آئنے میں ذاتیں ہیں ـ اللہ ھو والی ذاتیں ہیں ـ یہ اوقات نہ تھی کہ ہم پر ہاتھ برحمت رکھا گیا ـ ہم کو پاس بٹھایا گیا ـ اجمالی بات ہے کہ پردہ نشینوں سے ملاقات ہے ـ تفصیل بھی یہی ہے کہ حجابات ہٹ رہے ہیں ـ ہمارے آئنے میں کون ہے؟  ہم خود رقص میں ہے جیسے آمدِ شہہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیدن ترس ہوئی دکھیاری روئے جائے ـ کون جانے دکھیاری کا دکھ!  وہ قصہ اس کا نہیں تھا کسی مجذوب کا تھا مگر بیتا تو اس پر تھا ـ اللہ المتکبر ـ تکبر اللہ کو ہی جائز ہے ـ وہ کبریاء جاناں ہے اور کبریاء جاناں نے راز بتایا تھا مجذوب کا 

راز یہ تھا کہ وہ ستارہ شعری کا رب ہے ـ بات تھی اتنی کہ بہروپ کی ضرورت ہے کہ روپ اتنا پرانا ہے ـ نور قدیم گویا رگ زیتون سے ملحم آیات کی بارش سے شرقی و غربی نہ ہونے کی بات کرتا ہے گوکہ اللہ مالک ہے شرق و غرب کا ـ بہروپ بابا بدل لیتے ہیں اور کہتے ہیں تو جوگی اور میں کون؟  وہ خود جوگی بنانے آتے ہیں اور جوگ دے کے چلے جاتے ہیں 

اضطراب میں لیلی کو رانجھن یار کی ستاتی ہے ـ رانجھن یار کے پیچھے ہنجو آپ اسی خریدے او تے من اچ وڑ کے مل جانا سی ـ ہنجواں دی گال کون کرے گا ـ اساں تے گل ختم کیتی، کہیندے نیں سائیں ساڈے 

ہم ہر جگہ موجود ہیں 
پربت میں جھانک بندی 
گردشِ افلاک کو دیکھ 
قیامِ اشجار کو دیکھ تو 
رکوعِ  حیوانات کو دیکھ 
زمین پر پہاڑ کا تشہد دیکھ 
سمندر کا دیکھ سجدہ تو 
عالم کی رویت کائنات اک 
اک کائنات کی تو نماز دیکھ 
دیکھ کے افلاک پر ہما کو تو 
پالنہار کی داستان ہے دنیا 
قبور کا سکوت جذبہِ اتصال 
قبور میں رہتے مجذوب ہیں 

بعدِ مرگ وہی پریم کہانی چلی ہے جو زندگی میں سہی ہے ـ دو کہانیوں کی یکسانیت میں کردار بھی اک ہے ـ موت آگئی!  موت اور قبر اور جذب!  

حق!  وہ ستارہ شعری کا رب ہے 
روپ بہروپ کیا ضرورت کیا ہے 
ستار ہے وہ وہاب ہے وہ منیب ہے 
اس سے لکا چھپی کی ضرورت؟  

وہ آنکھ میری آنکھ ہے جو اسکی آنکھ ہے!  اس نے دیکھا!  ہائے رے مورا محبوب!  جس نگاہ سے دیکھا جہاں دیکھا وہ،  جا ہماری کاہے کی!  وہ جا تو اس کی ہے ـ تن کے جا بجا آئنوں میں مورے محبوب کی جھلک رہا ـ اسکا رنگ عنابی رے اس کی بات سحابی رے ـ

سلام ‏

سلام ہو ان ہستیوں پر جن کا نام لینا بھول چکا یہ دل اور سلام ہو آلِ علی اور آلِ حسنین پر.  وہ کشش کا تیر ہے جو پیوست رہے گا دل میِں.  محبت کے بس میں کہاں دل میں سمائے، دل پاک نہیں مگر پاک کردیا جائے دل تو دل کو کیسا فخر. دل تو نفس کے مجہولات میں مغوی.  پھر کرم کے در کھول دیا جاتا ہے تو رحمت برسنے لگ جاتی ہے.  یہ نہر جو لہو میں ہے،  یہ چاشنی جو حسن میں ہے،  یہ نیرنگی جو خیال میں ہے،  یہ افتاد جو طبع میں ہے،  یہ خال خال میں چہرہ نقش ہے اور نقش پری ء جمال میں محو ہے.  یہ کیا ہے؟  کچھ نہیں!  یہ کہتا ہے کہ تو نے دل کتنے صنم وار دیے مگر صنم اک ہی ہے اور ترے حصے بیشمار. تری دوئی ختم ہو تو،  ترا چلنا محال نہ ہو اور یوں بیحال نہ ہو. یہ گرمی ء افکار جس سے دل فگار اور تن پر اشجار کا عکس!  یہ قیس نہیں جو مجنون ہوا،  یہ دل ہے جو مندوب ہوا اور قصہ خوب ہوا

تیر فگن ـ ساکنان بغداد ـ جانب کوفہ ـ لہو میں نہاں ـ دل پر الم کے سائے ـ گردش میں اشجار کے سائے ـ دل کرے ہائے ہائے ـ عین عین ہے وہ نور عین ہے ـ وہ نور العلی ہے ـ وہ نور بطحا یے ـ وہ شاہ بطحا ہے ـ وہ حبیب کبریاء جبرئیل لائے جن پر وحی ـ سلاسل اوہام کے جاری اور مجاوری کرنے والے حسینی ـ قافلہ ء عشق کے پاسدار ـ کرم نے لاگ لگا دی ـ جنم میں نئی آگ لگا دی ـ رگ رگ میں تار لاگی ـ رشتے نے قرطاس پر تحریر لگا دی ـ شامِ حنا ہے،  قبائے رات میں وہ

روئے قرطاس پر لہرِ دل جاری،  اب کہ جان سے جانے کی باری. یہ نہیں کہا کہ خامشی سے جھانکو بام و در کو. جو کہو وہ سنو اور جو سنو اس پر خمِ دل کو جھکائے رکھو. ساقی میخانہ نے پلائی ہے اور آنکھ ایسی ملائی ہے، نہ ملے نہ ملی کہ ایسے ملی اور ملی تو بنے حرفِ جلی. یہ حرف جلی نہیں کہ دل کی کلی ...

خیال ‏پر ‏حضوری

تمہیں دل کہوں؟
دِل کو لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
تم کو مگر خیال پر دسترس نہیں 
خیال پر تم کو حضوری حاصل نہیں 
جب مرا خیال مجھ میں حضور نہیں اور کورے کاغذ جیسا سیال ہوں جسکا ہر حرف نگاہ سے بنتا ہے، مجھے لفظ بانٹنے کا کہنے سے کیا جائے گا مین حرف دل کی پجاری --- میم----حے ------میم----دال -- الف نہیں یے اس لیے دو دفعہ میم یعنی میم کے اوپر میم ..گویا نور علی النور --- گویا زیتون کا شجر بھی ہم رنگ ہے گویا شاخ انجیر میں مجلی ہتے "حے " جیسے ہیں گویا "دال " ایسی یے جیسے کلام کرے. تم نے محبوب کا حسن دیکھا میرے؟ اگر کبھی دیکھو تو پاگل ہو کے کہو میں مجذوبِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہو ... دِل تو دِل کی سنتا ہے تو بوجھ ہلکا ہوتا اگر تم ان کی زلفِ پوشیدہ کا نور دیکھو تو سمجھ آئے گی غشی سی طاری رہتی یہ صدائے غنود --- جسطرح لیل میں شمس موجود ہوتا ہے اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی رات میں موجود ہوتے ہیں اور اپنی کملی کا زلفِ نور کا سایہ کیے رکھتے ہیں اس لیے ہم چین کو سوجاتے ہیں مگر وہ لوگ جن کو جلوے کی تابش میں جلنا یوتا ان کو اس سے چین نَہیں آتا، پھر جب کملی ہٹاتے ہیں کائنات سے تو صبح ہوجاتی یہ سحر خیزی ..اس لیے پرندے اللہ ھو -- کرتے جبکہ چڑیاں چہچہاتی،  جبکہ پتے لہلہاتے، شبنم گرتی یہ آنسو خوشبو سے جدا ہونے کا جان لیوا ہوتا ہے .... ان کے چہرے کو جب دیکھو تو نگاہ جھک جائے جبکہ دیکھا ہے نہیں یہ تو گمان سے نکلتا نور ہے جو مرے سینے میں معجزن یے کہ شاید وہ دیکھ رہے ہیں --- اللہ آنکھوں کو پالیتا ہے اسیطرح وہ بھی آنکھوں کو پالیتے ہیں ...یہ حسن ملکوتی ہے جس کی مثال ملے گی نہیں اور بندہ گم صم ہو جائے گا --- دل کی فصل میں لالہ ء جنون کھل گیا ---- دل کو عندیہ ء بہار مل گیا

صورت ‏یار

کوئی امکان نہین صورت یار ہے کہ سورہِ قران جب تک قرات نہیں ہوگی، بھید بھید رہے گا.  روگ لگا ہے، مریض دیکھتا نہیں کوئی. ہم تو اسے ڈھونڈتے ہیں مگر ملتا نہیں کوئی  آہ!  دل چیرا دیا گیا اور دل خالی!  کوئی چیز تو خآلص ہوتی مگر بے مایا انمول کیسے ہو سکتا ہے.  جو ان کے در پر جانے کا خواہش مند ہو،  وہ در در رل کیسے سکتا ہے اور جو رُل جائے وہ دھل جائے اور جو دھل جائے دل مل جائے. میرا دکھڑا سنے نہ کوئی،  سنے نہ تو سمجھے نہ کوئی،  سمجھ تو نبض دیکھ کے معلوم ہوگا مگر طبیب چاہ ہے اور کوزہ گر کو دیکھیے سیراب کیے جاتا زخم ہرے ہیں اور پانی دے رہا. یہ بڑا دکھ ہے کہ حیاتی کو روگ لگا ہے اور حیات بھی حیاتی ہے. جیون کو روگ لگے ہے اور مجھے سوگ لگے ہے میں نمانی جاواں نہ چھڈا محبوب دا ویہڑا،  پے چھایا اکھ آگے انیرا،  اکھ پئیٰ روندی اے اور میں اشک وچ بہہ جاواں گی.  

چارہِ گرِ شوق کچھ کرو
نسیمِ صبح، جا محبوب کو بتلا دے 
مریض مر جائے گا، کچھ کر دیجیے 
چارہ گر شوق!  کچھ مرہم؟
چارہ گر شوق!  اور زخم؟  .چارہ گَرِ شوق!  کچھ نمی؟
چارہ گرِ شوق!  میں ہوں دکھی. 
چارہ گر شوق!  مجھے راز بتلا 
چارہ گر شوق!  مجھے الف الف سکھا 
چارہ گر شوق!  مجھے ب میں  مت الجھا 
چارہ گر شوق!  مجھے خونی رقص سکھا 
چارہ گر رقص! بسمل کی جاوداں حیاتی دیکھ. 
چارہ گر شوق!  کچھ کر،  کچھ کر 

مریض مر رہا ہے،  طبیب کے پاس شفا ہے. جس نے مار ڈالا،  وہ اس کی دید تھی، جو مارے گی،  وہ دید کیا ہوگی؟  جو مجھے دیکھے وہ تو میِں کسے دیکھوں؟  میں تجھے دیکھوں اے ذات!  نقشِ حریمانِ باغباں کے دیکھو،  جا بجا تن پر سر سبز نشان!  یہ روح کے نیل اور یہ جاوداں سر سبز نشان. ُ

خاک ‏ہو ‏جا ‏!

یہ سب کہنے کہنے میں کہا نہیں جاتا ہے اور بات ایسے کہ رہا نہیں جاتا . کوئی خالی پن کی دیوار کو محبت کے گارے بھر دے تو عمارت شاندار ہو . کھنڈر سے کیا کہا جائے گا. کھنڈر کیا سنے گا؟  اے دل!  تو دل بن جا محبوب کا. محبوب کا دل ہونے کے لیے دل ہونا ضروری ہے . دل نہیں پاس اور سنے کون؟  دل دے کون؟ خون نہیں دیتا کون تو دل کون دے . اے ابتلا،  انتہا سے ملا!  اے ابتلا،  ابتدا میں نہ رکھ!  اے ابتلا!  چل در محبوب بن کے ہوا کے دوش اڑا،  کوئے جاناں کی خاک بنا. سنگ در جاناں بنا.  ان سے بات بنے اور دل چراغ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو جائے. ریشم کی لاگ ہے ریشمی سوال ہے ریشم والا جانے گا. بلاؤ کسی ریشم کی کان والو کو وہ سنے کوئلہ ہے کہ ہیرا. وہ بتائے زمین زرخیز کہ بنجر،  پہاڑ مضبوط ہے یا زمین بوس ہے اور دونوں حالتوں میں نفی اثبات ہو رہی ہے. نفی میں خوش کون اثبات اگر نہ ملے اثبات جلوہ ہے. جلوہ کہاں سے ملے گا؟  جلوہ جلوہ والوں سے. جلوہ آیتوں والے سے جلوہ دل کی لاگی والی سے جلوہ نم دل کی زبان سے نکلی.فریاد سے. جلوہ میں جب آہ ہوگی تب واہ ہوگی. جب وہ ہوگی تب بات ہوگی



درد ‏سے ‏کہو ‏مجھ ‏سے ‏ملے


درد سے کہو مجھ سے ملے. اسکو تازگی ملے ... درد سے کہو آئے مجھ میں سمائے،  اسے روح ملے،  درد سے کہو، مجھ سے لمحہ لے اسے صدیاں ملیں درد سے کہو ستارے سے ملے اور روشنی دے. تلاش ہے. جی تلاش ہے  تلاش ہے اس کی جس کی مکھ چن نے دیوانہ کیا. وہ سوہنا چھپ گیا اور جان ہماری بن آئی. درد مل گیا... اے دل میں پڑی آرزو ..تو پرواز کر جا،  تجھے تو آشیانہ ملے میں تو ازل سے بے ٹھکانہ ہوں. مجھے ہجرت کا روگ ملا ہے اور وصلت کی لاگ لگی ہے. نہ جیا جائے جائے نہ مرا جائے. وہ آئیں تو مرجائیں گے اور مر کے جی جائیں گے ...کوئی تو مارے من کی میں کو .کوئ تو چلائے آرزو کو نیَّا میں .کوئ سفینہ دے دے. کوئ پیار کا اظہار لاگ دے کوئ جیون کو پیار دے کوئ تو دکھ کو اظہار دے کوئ تو شان میں سنوار دے کوئ تو چلمن ہٹا دے کوئ تو ایسے ہو. نہ ملے تو کوئ تو کا کریں گے بس مانگتے رہیں گے جلوہ ملے گا جلوہ اور کام ہوگا اپنا. ملے گا وہ سپنا جس میں اوج بشریت کو دکھایا گیا ملی گی رات میں رات. ملے گی کہانی کی مثال ملے گی جنون کو کبھی منزل. عشاق کا قافلہ ہے چلو سید! چلو سید!  چلو سید

لکھنا  حل نہ تھا مگر حل تو ملا نہیں. اس لیے مدعا کہنے کو کہہ دیا جائے تو غم کو حوصلہ مل جاتا ہے یہ کس دل میں ٹھہرا ہے بولو تو سب دل اک جیسے   .بولو تو دل میں ذات اک جیسی. بولو تو رنگ بھی اک. بولو تو قزح بوند سے بنتی ہے اور رنگ خوشی دے دیتے بولو کہ نہی کے امر میں کن کا نقارہ وجا ہے اور وج جاوے اللہ کی تار ہوجاوے دل دیون درود دی پکار. جے کہوے سرکار سرکار،  ویکھاں میں اونہاں نے بار بار .... شام لٹ گئی میری تے رات وچ شمس دی لالی سی.

جزا،  سزا کے فیصلے کرنے سے زیادہ محبت کرنی چاہیے، محبت بانٹنی چاہیے!  جزا و سزا کا قانون خدا نے اس لیے بنایا کہ کوئی شخص کسی دوسرے پر زیادتی کر نہ پڑے جبکہ آپ سراپا رحمت بن کے اپنا آپ خدا کو سونپ دو،  خدا بڑھ کے دے گا


خط***

میں نے خَط لکھا اور لکھ کے اسکو بَہا دیا.  یہ خطوط تو عدم سے وجود اور وجود سے عدم تک پہنچتے رہے. میں بھی تو اسکا خط تھی مگر میرا چہرہ کس سورہ میں لکھا تھا،  حم کہتے کہتے نگاہ رک جاتی ہے اور نگاہ یٰسین پر ٹِک جاتی ہے.  حم کے انتظار میں ہجرت نے کتنے اژدہام میرے وجود میں اتارے دیے. لباسِ تار تار کو رفوگری سے ہو کیا کام،  اس کو چارہ گری سے ہو کیا کام. مگر پھر نقطہ یاد آتا ہے میں اک نقطہ تھا اس نے خط کھینچ کے مجھے بھیجا. میں نے سمجھا کہ میں دور ہوِ وہ خط گھٹ رہا ہے جیسے میں نے زمانی نور کو پالیا ہو جیسا وہ حم کی منزل پر مستقیم ہو اور حبِ حسینی جس نے خمیر کو جکڑ رکھا ہے اس کے بنا یہ کام ناتمام تھا. کسی نے کہا چلو قافلہِ عشاق میں اک سواری تمھاری تو کب سے خالی تھی مگر تم نے آنے میں دیر کی اور میں نے کہا کہ میں کس جگہ ہوں کہ میں نے نقطے کو نقطے جیسا پایا نہیں ابھی میرا خط ابھی میرے سامنے ہے. زمانی نور مکانی نور سے ملا نہیں. جب ملا نہیں سب جھوٹ ہے سب مایا. زمانے کو مکان میں آنا تھا یا مکان کو زمان میں جانا تھا. ہالہ ء نور ہے نہیں. بیساکھیوں کے ساتھ چل نہیں سکتا دل اڑان کیسی؟  اے دل تو اڑ جا!  غائب ہو جا!  تو مت پروا کر،  ترا ہونا ترا نہ ہونا ہے.  تو جسم موجود میں نہیں بلکہ زمانے کے ساتھ ہے

خالی ‏لفظ***

سر دست میرے میرے لفظ ہیں. خالی لفظ ہیں نہیں یہ خالی نہیں. ان میں اشک ہیں. یہ حرف دل ہیں.  ظاہر سے رنگ ان کا گہرا نہیں مگر اندر سرسبز ہے. ہدیہ اک ہے یعنی دل اک ہے جو نذر میں جاچکا ہے تو باقی بچتا ہے خالی دل. نَذر مانو تو پوری کرو 
نَذر کیسے پوری ہو؟
میرا دھیان بدل گیا 
میرا گیان بدل گیا 
حرف ترجمان میرا 
حرف نگہبان میرا 
میں نے لکھا صنم کو خط 
خالی تھے لفظ، حروف کے جام لیے 
لوگ سمجھے خالی کاغذ ہے 
دل سے جس جس نے دیکھا تو جذبات سے سینہ منور پایا 
گویا روئے احمر کو پایا 
تم کو پتا روئے احمر کیا ہے؟
وہ جس کے یاقوتی لب ہیں 
کس کے لب ہیں یاقوت جیسے
وہ جن کی زلف کے صبا ناز اٹھائے 
وہ جن کے کاندھے پر جھلکتی نور کی پوشاک کسی بیان میں نہ ہو 
وہ روئے یار امام حسین!  جن کی غایت نظر سے چاند چھپ جاتا ہے! بھلا اک سینے میں دو دل کیسے ہوں؟  سو زمانہ سمجھتا ہے زمین نے لکھا ہے جبکہ حرف بتاتے ہیں مطلعِ انوار بدلا ہے!  کسو سمجھاؤ کہ ہم نے جانے یہ انداز کس سے سیکھا ہے کہ نہ جانے ہم کو کونسی زمین میں جائے پناہ ملے یا ہم کسی فلک سے معلق زیست گزارن گے مگر دیکھیو صبا!  ہم راہ تکا کریں گے اس راہ کی جس راہ پر خونِ بہ لعل بہ جواہر گرا اور زمین نے جذب کیا تو حسرت دل کو ملے کہ زمین ہماری کس کام کی!  کاش دل پر گرا ہوتا!  کاش کہ یہ رقص سر بازار نہ ہوتا ہے کاش دینے والا ہاتھ میرا ہوتا، کاش کبھی لیا نہ ہوتا کاش دعا میری عرش سے ٹکرا جاتی،  کاش خدا کا جلال،  جمال مجھے باکمال کردیتا، کاش رویت کا عکس مجھے آئنہ کر.دیتا کاش میں! یہ کاش سے نکلے لفظ کانچ ہوئے!  ٹوٹ گئے اور پھر بھی رہا ترا وجود. تری ہست!  تری نمود! میں رہا سنگ اور قرار پایا ترا وجود 

چلیں اشک بندی کریں! محفل سجے گی!  چلو نعت کہیں محفل ہوگی. چلو خدمت کریں محفل ہوگی چلو پیار تقسیم کریں محفل ہوگی چلو کہ محبوب بلائے گا! چلو چلو ورنہ چلا نہ جائے رحمت افلاک سے برسے گی اور جواب نہ ہوگا!  چلو اظہار میں نہ پڑو!  چلو رنگ سے بچو!  چلو اک رنگ میں ڈھل جاؤ چلو اک چاہت والی کی چاہت اپنا لو 

چلو درود پڑھیں!  چلو آشنا سے آشنائی کو بہ آواز بلند پڑھیں!  چلو دل کے مالک کو تعریف کہنے دیں یا محمد کہتے اور نکل جائیں نفس کے حجابات سے!  چلو مالک جانے اس کا محبوب جانے مگر غافل تو نے مانا نہیں مجھے!  ارے غافل تو نے پہچانا نہیں مجھے!  ارے غافل تونے چال پہ نظر کی،  حال پہ دھیان کر!  غافل کو غفلت نہ لے ڈوبے!  غافل کا خیال خیال الوہی سے ملا جائے گا!  غافل پھر نہ غافل ہوگا اور عقل کا چولا ساتھ نہ ہوگا 

چلیں ہم چلے!  ناز بہ ندا اس کے پاس. اس کے ہاتھوں میں شہنائی ہے اور شہنائی محبت والی ہے اس نے کنگن پہنا ہے اور وہ کنگن محبت والا ہے. بجے گی شہنائی اندھیرا مٹے گا اور سویرا ہوگا. کیوں ہے تجھے مہجوری کہ تری مری کیا دوری. ترا مرا ساتھ ضروری اور خودی میں جانا ضروری!  تو چل!  تو چل دل میں جھانک!  اندر تو نور ہے اور رولا ڈالا ہے کہ اندھیرا ہے!  ارے غافل اٹھ!  اٹھ   اسکا ذکر پکڑ لے!  اس نے تجھے تھاما ہے تو بھی تھام لے اسکو. تو رہ کے رینا سیکھ لے.
احساس!  احساس نے دلاسہ دیا!  محبت کا کاسہ دیا!

حرف ‏مدعا

کبھی کَبھی  حَرف مدعا سے دُعا بن کے لبوں کو بن چھوئے اَدا ہوتے ہیں، حرفِ تسکین باوُضو دل کا مسکن ہوتے ہیں ۔ سجدہِ نشاط ہست کھوجانے کے بعد میسرِ قلب کو سامانِ تسکین بہم پُہنچاتا ہے ۔ یہ جو لفظِ اشارتاً بولے بَیاں میں نہاں ہوتے ہیں ، حجاب میں ملبوس ،استعاروں کے باسی ہوتے ہیں ، ان کو سَمجھنے کے لیے گہرائی میں اُترنا پَڑتا ہے ۔ گہرائی ، سیپ سمندر ،  دل دریا ،راوی قلندر ۔۔۔۔ اس  گہرائی سے گیرائی میں ملبوس لفظ اپنے معانی عیاں نہیں ہونے دیتے مگر اس دل تک پہنچتے ہیں جو اتنا ہی گہرا ہوتا ہے

فنا

عشق کا عین اس کی یاد میں فنا ہوجانا ، فنا ہوکے پھر سے زندگی پالینا ہے ۔ وہ تری آنکھ ، ترا ہاتھ اور کان بن جاتا ہے ، اندر کی کائنات بدل جاتی ہے ، وہی نظر آتا ہے ، دل کے دھک دھک میں وہی دکھتا ہے ، خون کی روانی میں شور اس کے ذکر ہوتا ہے اور اپنی حرکت میں اس کے نام کی تسبیح ہوجاتی ہے۔ روح نکل جائے تو جسم کو ٹکرے ٹکرے کردو تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ بالکل اسی طرح انا کا غبارہ اندر کی روشنی پر جالے بناتے ہے ، اگر ہٹا دیا جائے تو کیا ہو؟ بس اپنی تو روح اڑ گئی ، ذرہ کی کیا مجال سمندر کے سامنے! میرے اندر یار کا گھر ہے اور میری انا کی روح اڑ گئی تو بس میں ایک مکان ہو جہاں میرا یار رہتا ہے ۔میں فانی ہستی کو چھوڑ کے بقا کی منزل پر قدم رکھ رہی ہوں اور لوگوں کو پیچھے کھڑا دیکھتی ہوں ۔میں فلک کی جانب پرواز کر رہی ہوں اور مجھے دیکھنے والی آنکھ کھو گئی ہے ۔میں نے  بعد پرواز کے بادلوں کے مالک ، نور الہی کے گھر دستک دی اور ایک کے بعد ایک فلک  کو پار کرتی رہی ، یوں جیسے سمندر کو پار کر رہی ہوں ۔۔۔ سفیر پرندے اک دائرے میں ذکر میں مصروف ہوتے عشاق کی قربانی کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور میں ان کی باتیں غور سے سن رہی ہوتی ہوں کہ شاید میری قربانی کے بارے کوئی بات ہو! مجھ سے سوال کیا جائے مگر وہاں تو کارنامے بتائے جارہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔کوئی بھی ہستی قربانی دیے بغیر عشق کی منرل پر سوار نہیں ہوتی ہے ، عشق مانگتا ہی قربانی ہے جس کو دینے والے وجود ، دے کر ، خود کو دوامت اور ہمیشگی بخش جاتے ہیں ۔

قدم

ہر قدم میرا قید ہے مگر میں اس قید میں بہت خوش ہوجاتی پر کبھی کبھی لطافت مجھے لحجاتی ہے . میں کبھی باہر کی دنیا کی سیر کرتی ہوں اور جہاں جہاں جاتی ہوں کھو سی جاتی ہوں اور اندر کی دنیا کیسی ہوگی . یہ دنیا شریانوں میں محسوس ہوتی شہ رگ میں مقید ہوجاتی ہے . اس مقید شے مجھے اپنا عکس نظر آتا ہے . اس عکس میں مجھے کون محسوس ہوتا ہے . وہ جو میری جاں سے قریں ہے ، وہ جو میری جبل الورید سے قریب ہے . اس کا ذکر میرے خون میں چلنے والی سانسیں کرتی ہیں . مگر میں اپنے خرابات میں کھوجاتی ہوں . مجھے سمجھ نہیں آتی کہ درود بھی پھولوں کا دستہ ہے جس کا ہر پھول ایل گل دستہ ہے . میں نے جب اس دردو سے اپنے تن میں خوشبو لگائی تو میرے اندر کی جمالیت نے مجھے حسن عطا کردیا ہے . مجھے خود کو حسین ترین کرنے کی طمع ہونے لگی ہے .

شب ‏قدر

میں تمھیں بتاؤں اک بات کہ شب قدر کی رات دیدار کی رات ہے تو تم کو یہ بات مطلق سمجھ نہیں آئے گی. اطلاق سے نہیں انتقال سے سمجھ آئے -- دعا کیا کرو شب قدر میں صحیفوں کا انتقال ہو کیونکہ قران پاک کو مطہرین چھو سکتے اس لیے خدا فرماتا یے وثیابک فاطھر --- نیت ایسا بیچ ہے جب شجر الزیتون ہو تو ہر بھرا -- شجر الزقوم ہو صم بکم کی مثال ہوگئی -- نیت سنبھال نہ سیکھ لے ورنہ پتے کھلنے بیل بوٹے لگنے سے پہلے خزان نہ آجائے --- اٹھ مثلِ شجر سائبان یو جا-- مسافر کو چاہیے کہ زادراہ محبت کو جانے -- تسلیم کو تحفہ سمجھے -- نیاز تقسیم کرے -- خدمت کو شعار بنالے -- اے نفس -- قلب سلیم ہو جا کہ  فواد سے رابطہ ہوگا--- کلمہ کفر کا پڑھنے سے زندگی میں اندھیرا ہوا تھا --- اجالا زندگی یے اور حرا مقام دل میں وہ نشان یے جہاں طائر حطیم سے اڑتے ہیں اور منبر تلک آتے ہیں -- دانے چگتے اور غٹرغوں کرتے --- شہباز لامکانی کا ایسا پرندہ ہے جس کے پر اتنے قوی ہیں کہ ہواؤں کے سنگلاخ سینے پر داستان رقم ہو جاتی یے ---* کوہستان -- بیابان-- میدان کچھ بھی ہو یہ مراد ہوتے ہیں اور با مراد ٹھہرتے ہیں --- یہ کومل تلک جو ماتھے پر ہے یہ ھو کا نشان یے --- جب یہ نظر میں ہو تو طائر کو نشان مل جاتے ہیں --- تخیل کی تمام پروازیں ہیچ ہوتی ہو جاتی ہیں جب انسان کو نگاہ مل جائے *-- نگاہ ملے تو خیال مل جاتا یے --- محبوب خیال میں یے اور تو بھی محبوب کے خیال میں -- یہ جو خیال ملتے جاریے ہیں یہ عندیہ ہیں کہ واصل ہونا دور نہیں --- آیات ترتیل ہو جائیں تو قندیل روشن ہوجاتی ہے --- اصل کام یہی یے

تری دیوار ہے اور پس دیوار میں ہوں ، تو ستار ہے اور گناہگار میں...  ہوں ... گناہوں سے پر دامن پر ستار نے نام لکھا ستاری کا. تحفہ ملا رقصِ شرر کا.  یہ جو بابا دل میں رقص کرے ہے یہ تو رقاص کا تماشا ہے. ظاہر میں بات نہیں ہے،  وہ خود تماشا اور خود تماشائی ہے. وہ خود کرسی ہے اور خود کرسی والا ہے ....

بیقراری ‏کا ‏پرندہ

بیقراری اک پرندہ ہے جس کے پر پھڑپھڑاتے رہتے ہیں اور سنگ در جاناں جب تک بن نہ جائے،  یہ اپنی اڑان سے زخمی ہوجاتا ہے ـ ہوا تکیہ بن جائے، تخییل اندھا ہو کے بھی محو ہو جائے اور گائے پریم کی نَیا میں الوہی گیت اور راگ سُر ماتا ـ یہ راگ ایسا جس سے پہاڑ جیسے دل ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہو جائیں اور آنکھ سے نہر بہہ جائے ـ مثل یعقوب دیدہ ء دل کن کے بعد سے نابینا رہا اور بینائی کے لیے محبوب کی خوشبو چاہیے تھی. جا بجا اس اک پوشاکِ یوسف کی مثل ڈھونڈا ہے ہم نے اس ملاحت آمیز خوشبو کو ـ جس کی مہک سے کھلے غنچہ ء دل اور نیم واہی میں جلوہ دیکھیں گے اور کھل کے دیکھنے کے لیے سر نہ ہم کبھی اٹھائیں گے ـ ان کے ملنے سے پہلے کبھی دہلیز سے نہ اٹھیں گے ـ اے موت!  ٹھہر جا!  ابھی رک جا!  ابھی ان سے ملنا ہے اور ملنے کے بعد لے جا خاکِ دل کو محبوب کے در پر کہ نہ رہے نشان اور ہونشان دل پر محبت کےنقش ـ یہ غزل ہے اور غزل صدا ہے

ساتھ

جس کو میسر تھا اسکا ساتھ اور جس کو نہیں تھا ساتھ ـ جس کا ہاتھ خالی اور جس کا دل بھرا ہوا تھا ـ جس کا من خالی اور ہاتھ بھرا ہوا تھا ـ دونوں میں فکری تفاوت کی خلیج نے فاصلے ایسے عطا کیے کہ من بھرے بھاگن سے تن پُھلے تن جاون کے مراحل تھے ـ یہ فکر جس نے پرواز کرنا ہے، یہ پرواز جس میں ماٹی کے قفس سے پرندے نے جگہ چھوڑ جانی ہے، اس کی بیقراری عجب ہے جیسا کہ سب بھول گیا ہو کہ وہ کن سے فیکون ہوا تھا ـ وہ تو نہ کن ہے اور نہ فیکون ہے ـ وہ نہ ازل ہے نہ ابد ہے ـ وہ تو لوح و کتاب کا خیال ہے اور وہ خیال بس آنکھ سے وارد ہوا اور سیدھا پیوست ہوگیا تو لا یدرکہ الابصار سے نظر والا ہوگیا ـ پھر جا بجا،  جگہ جگہ آیت اترتی دیکھی اور یاد آیا فثمہ وجہ اللہ اسی پر صادق اترا کہ خدا جابجا ہے اور کہیں نہیں ہے جس بے انکار کردیا ـ انکار کرنا کچھ بھی نہیں بس اثبات کی نفی ہے ـ اپنی نفی ہے اور تن کی چاشنی ہے،  روح کا سوگ یے ـ یہ ہجرت کے روگ ہیں اور جدائی کے سنجوگ ہیں ـ کتنی فطرت بیباک ہوئی ہے اور فطرت میں چھپا اک سیپ عیاں ہوا ہے ـ یہی نشان دل یے ـ یہی آیت دل ہے ـ پتوں کو ہلنے میں،  بوٹوں کے کھلنے میں، گلاب کی خوشبو میں،  پہاڑ کی سنگت میں،  وادی میں گونجتی آواز میں،  پنچھیوں کی اڑانوں میں ـــ اللہ وحدہ لاشریک یے اور جب یہ آیات دل میں اتریں تو منظر مشہد ہو جاتے اور بندہ شاہد پھر انسان اس آیت کی تفسیر ہو جاتا 
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم 
وہ زمانہ لوٹے اور پھر ہم نہ لوٹیں کبھی ـ اس زمانے میں رہیں سدا ـ یہی حقایت ہے ـ

ذات

دُھواں دھُواں میری ذات ہے ۔ اس سے نکلتا دھواں کبھی ختم نہیں ہونا جیسے کہ اس میں  ایسا سسٹم نصب ہے جس کو بقاء ہے جو خرچ کرنے کے باوجود جلتا ہے ۔ جس کی روشنی جگنو کی جیسے ہوتی ہے اور جس کے دھواں میں خُوشبو گلاب کے پھول جیسے ہوتی ہے ۔ ہیر کی مانند رانجھے کو ڈھونڈنے نکلی میری روح صحرا میں کھڑی ہے اس کے پاس کوئی سواری نہیں ۔زاد راہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔پاؤں کی آبلہ پائی میرے شوق کا نشان ہے اور ان سے بہتا خون میری رفاقت ۔۔۔اس دوری میں ۔۔۔ اس ہجرت میں ۔۔۔ اس درد میں اور سوز میں بھی ایسا مزہ اور سرور ہے جس کو مل جائے وہ دنیاؤی آسائشات کو لات مارے ۔ کیا ہے دنیا ؟ مٹی کا پیالہ ۔۔۔ جس کو گھونٹ نہ پی سکی اور تشنہ رہے جبکہ وصل کی شراب میں پیمانہ بھر بھی جائے تو پیمانہ بے قرار رہتا ہے ۔۔

مرض مجھے ملا یے اور میں مریض عشق  ہوں..جس کو عشق میں جلنا ہو تو خود کو  آگ پہ جلتا محسوس کرے. وہ آگ ٹھنڈی  ہو جائے گی جبکہ اندر کی آگ تو بھڑک اٹھے گی ..اے دل والو!  اندر کی آگ بھڑک رہی اور وہ جو دور ہے وہی قریب ہے. وہی جو قریب ہے وہی نصیب ہے اور جو نصیب ہے وہی حبیب ہے جو حبیب ہے وہ میرا جلیل ہے وہی جو جلیل ہے وہ خلیل ہے. جو خلیل ہے وہ  اسماعیل ہے. جو اسماعیل ہے وہی  کلیم ہے جو کلیم ہے



در

اک در بند  ہوتا ہے تو سو در کھل جاتے ہی.  وہ جو نیند کی طلب سے بے نیاز ہے یعنی کہ  پیغام اجل!  و وہی دے سکتا ہے. وہ سب سے بڑی طاقت ہے اس لیے نہیں کہ اس نے صرف دنیا بنادی مگر اس لیے کہ اس نے سب .چیزوں میں کشش پیدا کی.  اس کشش میں محبت و عشق کا خمیر ڈال دیا .گہرائی کو عشق سے اور سطح کو کشش سے بھر دیا ...زمین پر چلنے والا  نفس کشش میں رہتا اصل سمجھ نہیں پاتا،  فساد برپا کرتا ہے جبکہ مرکز کے اجسام کے پاس اصل کو پہچاننے کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بس اسی کے ہوجاتے ہیں ... بس ان کے دل مین واحد کا بسیرا ہوجاتا ہے ... اس کی بارش میں بھیگنے والے ہر غرض سے بے نیاز کر دیے جاتے ہیں ...آزاد روح!  آزاد روح کبھی قید نہیں ہوتی ..ان کی آزادی خالق کی نشانی ہوتی ہے ...اس نشانی کا احساس ایسا معجزن ہونے لگتا ہے کہ خود کی ذات معتبر ٹھہرنی لگتی ہے .... 
میرا وجود ترے عشق کی ہے خانقاہ 
ہوں آئنہ جمال ترے عشق کا کمال ہے 

بندہ مومن کے دل میں طلب دیدار پیدا کردی جاتی ہ ے..وہ شادی کی کیفیت!  دنیا ہیچ ہے اس کے سامنے !.  سب خزانے ہیچ .. 

علم.و روشنی کا خزانہ وہی تو ہے 
میراعشق و فسانہ وہی تو ہے 
قلم!  قلم کی قسم!  قلم کی عطا 
اس عطا کی انتہا مجھ پر ہے 
وہ کون ہے زمانے نہیں جانتا
وہ وہ ہے جسے میں جانتی ہوں 
وہ وہ ہے جس کی شہنائی درد والی یے
وہ وہ ہے جس کے در کی  دنیا سوالی ہے
ہم نے اس کے لیے کیا آنگن خالی ہے 
دیکھ!  میری گالوں  میں سرخی ہونٹوں پہ لالی ہے 
میں  اس کی ہستی کی مست حالی ہوں 
میری بستی میں اس کا بسیرا ہے 
جس کے دم سے جہاں میں سویرا ہے


روہی ‏دے ‏خیالات

روہی دے خیالات وچ اک سہاگن دی داستان سی .. مان سلامت رکھے سہاگ،  وصلت دی چھاں بڑی تھی .. جوگ وی سی جوگن والا،  درد وی سی، روگی کیتا، سوت محبت دا کتدے کتدے، کتدی گئی اپنا آپ،  سہاگن دی منظور ہوئی دعا، رکھیا سانول نال ..شام ہنیری آئی سی، چند دی چانن تے دیوے بلدے سن .. انہوں ویکھ کے راہی تکدے تکدے مرجاندے سن .. روہی دا منظر سی وکھو وکھ،  مجنوں کھڑا سی، بانسری عشق والی وجن لگی، تار مل گئی مرشد نل،  اکھ لگ گئی سی،  ہتھ وچ پیالی سی،  عشق دی قوالی سی،  مستی توں رت خالی سی!  ہویا کیہہ!  سوانگ بھرلیا رانجھن یار نے!  رانجھن دا سواگ کون جانڑے؟  جانڑے، جانڑے اوہ! جنہاں لائیاں اچیاں نال 

خدا ‏سے ‏تعلق

خدا سے تعلق یقین کا ہے ـ یقین کا ہتھیار نگاہِ دل کی مشہودیت سے بنتا ہے. دل میں جلوہِ ایزد  ہے ـ درد کے بے شمار چہرے اور ہر چہرہ بے انتہا خوبصورت!  درد نے مجھ سے کہا کہ چلو اس کی محفل ـــ محفل مجاز کی شاہراہ ہے ـ دل آئنہ ہے اور روح تقسیم ہو رہی ہے ـ مجھے ہر جانب اپنا خدا دکھنے لگ گیا ہے ـ کسی پتے کی سرسراہٹ نے یار کی آمد کا پتا دیا. مٹی پر مٹی کے رقص ـ یار کی آمد کی شادیانے ـ یہ شادی کی کیفیت جو سربازار ــ پسِ ہجوم رقص کرواتی ہے ـ تال سے سر مل جاتا ہے اور سر کو آواز مل جاتی ہے ـ ہاشمی آبشار سے نوری پیکر ــ پیکر در پیکر اور میں مسحور ــــ خدا تو ایک ہی ہے ـ دوئی تو دھوکا ہے ـ ہجرت پاگل پن ہے ـ وصل خواب ہے ـ مبدا سے جدا کب تھے؟  اصل کی نقل مگر کہلائے گئے ـ کن سے نفخ کیے گئے ــ کن کی جانب دھکیلے جائیں گے ـ اول حرف کا سفر حرف آخر کی جانب جاری ہے اور خاموشی کی لہر نے وجود کو محو کر رکھا ہےـــ  ساکن ساکن ہے وجود ــ سکوت میں ہے روح اور صبا کے جھونکوں نے فیض جاری کردیا ہے ـ جا بجا نور ـ جابجا نوری پوشاکیں ـــ نہ خوف ـ نہ اندیشہ،  یقین کی وادی اتنی سرسبز ہے کہ جابجا گلاب کی خوشبو پھیلنے لگی ـ وجود مٹی سے گلاب در گلاب ایسے نمود پانے لگے،  جیسے گل پوش وادی ہو اور مہک جھونکوں میں شامل ہو ـ یہ وہ عہد ہے جسکو دہرایا گیا ہے اور اس عہد میں زندہ ہے دل ـ یہ وہ عہد ہے جسکی بشارت دی گئی ہے ـ اس عہد کے لیے زندگی کٹ گئی اور کٹ گئی عمر ساری ـ بچا نہ کچھ فقط اک آس ـ آس کیسی؟ جب یار ساتھ ہو تو آس کیسی؟  یار کلمہ ہے اور پھر کلمہ ہونے کی باری ہے ـ قم سے انذر سے اور خوشخبری ... جس نے یار کو جا بجا دیکھا،  تن کے آئنوں میں دیکھا،  نقش میں روئے یار ـ مل گیا وہی ـ سہاگن باگ لگی ـ راگ الوہی بجنے لگا کہ راگ تو ہوتا ہی الوہی ـ محبت کا وجود تھا اور وجود ہے اور رہے گا مگر جس نے محبت کا میٹھا سرر پالیا ـ اسکو علم کہ سروری کیا ہے ـاس سروری سے گزر کے کچھ بھی نہیں اور اس سے قبل بھی کچھ نہیں ہے ـ من و تو ــ یہ نہیں مگر اک وہی ہے. وہی ظاہر کی آیت،  وہی باطن کی آیت ـ وہی مشہد،  وہ مشہور،  وہی شاہد،  وہ شہید ــ وہی اعلی،  وہی برتر ـــ چلتے پھرتے دیوانے جو دکھتے ہیں اور بہروپ کا بھر کے بھیس پھرتے ہیں وہی تو چارہ گر شوق ہیں. وہی تو اصل کی جانب ہیں

بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی 
بقلم:  نور

علم ‏

جو اسکی میں ہے وہ میں ہوں. جو اسکا علم ہے وہ میں ہوں  جو اسکی تختی ہوں وہ فقط میں ہوں  اسکی سیاہی مجھے لکھ رہی ہے. اسکا علم معلوم ہو رہا ہے. اسکی شہنائی بے صدا سے صدا ہو رہی یے. مجھے اسکی کیفیت منکشف ہوئی ہے. وہ صاحبِ حال کسی شخص میں لکا چھپی کا کھیل رہا تھا .... اسطرح سے وہ گمارہا تھا بندے کو اپنے حال میں. وہ اسکا یار تھا اسکو قال سے دور کردیا تھا. یوں اک مٹی کے پتلے میں صدا اٹھ رہی تھی جو اسکی شبیہ تھی اسکا آئنہ تھا. وہ دیکھتا تھا تو دکھنے لگا. وہ سنا رہا تھا تو سننے لگے کان وہ کہہ  رہا تھا کچھ علم نہ ہوا کس نے کیا کہہ دیا ...

جہان ‏نقش

رنگ نے جہانِ نقش و بو میں دھکیل دیا ہے ـ دوئی کا خاتمہ ایسی دنیا میں ہوجاتا ہے اور ست رنگی بہار، یک رنگ کی نَیا میں بہنے لگتی ہے.  یہ احساس کہ جب یار پاس ہو، یار کے رنگ سے جہاں دیکھو، بس ہر جگہ سوہنا مکھڑا دکھے ـ وہ صورت گر، اس نے یار کی صورت ایسی بنائی، اس میں یکجائی رکھ دی تمام عالمین کی اور کہہ دیا کہ الحمد اللہ رب العالمین اور کہا:  تلاش کرو رحمت کو ـ رحمت تو ہم کو خود تلاش کر رہی ہے پھر فرمادیا:  وما ارسلنک الا رحمت للعالمین ـ یہی شاہی ہے جس کو رحمت عالم عالم میں ملنے لگی. در در کا کیا فائدہ،  اک در کی جانب چلیں، جس در سے رحمت کا باڑہ بنٹ رہا ہے اور یہ رستہ ہادی کا ہے ـ محشر سے پہلے جام پی لو ـ کوثر کی آیت کا جاری چشمہ ہے اور اس میں حسینیت کے پانی سے دل کا وضو ہونے لگے تو سمجھو روح دھل کیا گئی،  نکھر گئی کہ گویا بات بن گئی ہے. اک انجیل تمنا:  یار کو دیکھیں،  اک حرفِ تمنا:  سنائیں حال یار کو اس طرز سے کہ حال سناتے حال میں نہ رہیں اور ان کے مکھ کو دیکھی جائیں. اشک با ادب!  اس جہاں اگر اشک بھی بنا اجازت نکل گئے تو گستاخ نین کہلائیں گے. ہم تو چلے نینوں کی بہار میں رلنے،  سہنے تیر سینے پر سہنے،  جگر میں داغ کو سنیچنے اور لفظ ہمارے برہنہ کر رہے. یہ برہنگی جو بے نیازی کا لباس ہے،  آج عیاں ہوئی ہے. 
اک تھا نین والا، جس کے پیچھے چلی باگیا ــ باگیا نے نین کی بازی میں سب ہار دیا ... پی کے سنگ رہنے میں ایسی الوہیت ہے جس میں رنگ بکھرنے کو مایا نہیں کہتے بلکہ کہتے:  جہاں پر اسکا ہے سایہ جس نے پلٹ دی کایا. یہ حدیث داستان سنیے!  جب پی سے ملے،  اک ہوئے!  ایک نے زمانہ دیکھا تو کوئی الگ نہ تھا. اک رانجھن یار کے پیچھے رکھ دی دلوں نے دنیا ـ دنیا گئی مگر مل گئی جہانبانی. یہ عجب رت ہے کہ دن میں رات کا سماں ہوگیا. گویا رات اور دن میں کچھ فرق نہیں مگر پھر بھی صبح و شام تسبیح کرتے. یہ فیکون سے کن کی جانب سفر جب دن و رات کا تضاد ختم ہوا. تضاد ختم ہونے لگے تو سورہ اخلاص سمجھ آنے لگتی ہے. آدمی بہت ہیں مگر انسان اکیلا ہے.  اور اکلاپے میں اس نے یار پایا ہے. یار پانے کے بعد احساس ہوا کہ فرق ہے :  وہ تو اولاد والا ہے اور خدا تو بزرگ و برتر ہے. لا روحی کی بات ہے.  اک دھاگہ،  اک کن،  اک نور کی دھار وجود کے گرد محو ہے اور بلا رہی ہے کہ چلو محبوب کو

نور ‏زمینی ‏و ‏سماوات

آسمانوں زمینوں کا مالک اللہ تعالی ہے اور وہی حکیم الحکئم ہے ۔ اس کی ذات  کی تجلی جس پر پڑ جاتی تے وہ نور سے منور ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر جس انسان پر عنایات کی بارش کرتا ہے اس کی نوازش کی انتہا  کا تصور  نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ جو پیاررے رسول ﷺ اللہ کے محبوب ہیں اللہ تعالیٰ جب ان کو نوازیں گے تو کیسے نوازیں گے اس کا اللہ نے قران پاک میں جگہ جگہ ذکر کیا ہے ۔ کہیں کہا گیا ہے کہ مقامَ محمود سے نواز دیں گے تو کہیں کہا گیا ہے ایسی نہر کی عطا ہوگی جس کسی اور نبی یا بشر کو نہ ملے گی تو کہیں ارشاد ہوتا ہے ایک ہزاد محلات سے نوازیں گے تو کہیں شفاعت کا حق دیا تو کہیں ساقی حوضِ کوثر بنایا اور تو اور آپﷺ  پر نا صرف بلکہ آپﷺ کی آل پر بھی درود بھیجنا عائد کیا ہے ۔ میرے نبی ﷺ کی مثال تو ایسی ہے جیسے چمکتا سورج ہے اور ایسا سورج جس سے دیکھ کے چاند شرمائے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اکرامات کا ذکر سورہ الضحٰی میں کیا ہے اور براہ راست نبی کریمﷺ کرتے قسم کھائی ہے کہ میرے نبی کی مثال روشنی دیتے ہوئے سورج کی سی ہے جبکہ باطل میں رہنے والے افراد کی مثال تاریکی سے ہے ایسی رات جس میں خاموشی اور ہو کا عالم ہے جبکہ دن جس میں چہل پہل اور رونق ہے ۔ دن رات پر حاوی ہے اسی طرح میرے نبی کریمﷺ جیسا سورج افق پر نموادر ہوچکا ہے جو گھپ اندھیری رات میں باعث روشنی ہے ۔ سبحان اللہ اللہ جل شانہ کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہمیں راہ دکھلاتے ہیں تاکہ ہم نشانیاں سمجھیں اور ان پر غور کریں ۔ دن کے ساتھ اور رات کے ساتھ دن ہے بالکل اسی طرح نبی کریمﷺ کے ساتھ اللہ جل شانہ کا ربط مسلسل ہے کہ رات کا مالک بھی وہی ہے اور دن کا بھی ۔۔ اس ربط میں اگر وحی کا نزول نہ بھی ہو تو پریشانی کی بات نہیں اور جب ہو اس سے بڑھ کر خوشی کی بات نہیں ۔ دونوں حالت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریمﷺ سے راضی ہیں اور اسی بات کی بشارت دیتے ہیں کہ میں آپ ﷺ سے راضی ہوں اس رضا کی بدولت جب مجھ سے بدلے کی امید رکھو تو میں ہی سنو دینے والا ہوں اور میری عطا ایسی بے مثال ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے جب اللہ نوازنے پر آجائیں تو بے شک اس کی کوئی حد نہیں آتے کہ وہ نوازنے پر آئے تو نواز دے زمانہ تو نبی آخر الزماں ، میرے کبریاء پر اللہ کی نوازش ہے اس نوازش اور انعام کے بدلے ان کے ذمے کچھ احکامات اللہ تعالیٰ نے ان کے ذمے لگائے ہیں  ۔ جیسا کہ آپﷺ کو اللہ نے شریعت کا علم دیتے راہ دکھائی کہ اس سے پہلے اس سے لا علم تھے ۔ آپﷺ یتیم و مسکیں تھے مگر آپﷺ پر اللہ نے عنایات کی بارش کردی ۔ آپﷺ پر تنگی کو دور کیا بالکل اسی طرح  نبی اکرمﷺ پر واجب ہے کہ جیسا اللہ نے ان سے معاملہ کیا ہے ویسا ہی معاملہ وہ اس سے  کے بندوں سے رکھتے  عفو  و رحمت اور اجالے کا باعث بنے کہ ان کو علم دیا ہے تو اس کی تقسیم کریں ان کو غنی کیا ہے اس کی تقسیم کریں ۔اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو احسانات یاد  رکھنے کا حکم دیا ہے

چونکہ ہم آپﷺ کے پیروکار ہیں تو یہی بات ہم پر لاگو ہوتی ہے کہ اللہ نے مصائب و آلام میں ہمیں سہارا دیا ، ہم لا علم تھے ہمیں اسلام جیسا مکمل دین نواز ہے ، ہم عسرت میں ہوں تو اس کو پکارتے ہیں اور اس پکار کے ساتھ دل میں وہ راحت و تسکیں بھرتے غموں کو دور کر دیتا ہے بلاشبہ اللہ کا احسان عظیم ہے کہ ہمیں بھی دکھی انسانیت کو ویسا ہی سہارا دینا چاہیے جیسے نبی اکرمﷺ نے دیا ہے اور ویسے ہی طرز عمل رکھنا چاہیے جیسے ہمارے نبی اکرمﷺ کا تھا ۔۔جزاک اللہ خیر

اسے ‏یاد ‏ہے

اُسے یاد ہے وہ ذرا سی بات جس پر لکھا گیا ہے ریت سے کہ وقت پھسل گیا ہے رات میں مقام دل پر حرف اترتے رہتے ہیں. یہ حرف تیغ بہ کف جو دل کی حفاظت کرتے ہیں. تو سن راہی!  حرفوں کی حفاظت کر یہ عطیہ منجانب خدا ہوتے ہیں!  حرف لوح سے اترتے ہیں عرش دل ان کا ٹھکانہ ہوتا ہے!  تو "ن " اترا آ!  یہ حرف قلم بندش جذبات نہیں بلکہ تلاطم خیزی ہے!  یہ مل جائے جسے تو خدا کی جانب سے یہ بشارت ہے کہ عطیہ تقسیم کردیا گیا --- یہ مل گیا تو سب مل گیا اور سب ملا تو رب مل گیا --- کل کے مالک کے پاس عطائیں ہیں اور جو درود کے توشے اوپر سے اترتے ہیں تو طائر ان کو.سنبھال لے!  یہ کامرانی کی گھڑیاں ہیں یہ دعا جوقبول ہوئی یے اس کا نذرانہ ملا ہے!  یہ کاش صنم تراش سے پوچھے کوئ کتنا درد سہا جاتا کسی شے کو سنوارنے میں تجھے علم.ہو کہ خود سے خود کو نکالنے میں کتنا درر سہنا ہڑتا ہے تو جان لے اے دل کہ دردبھی تحفہ یے یہ حیات کا عندیہ ہے اور سجدہ ریز رہ کہ سجدے ردائیں ہیں جو بنٹ جاتی ہیں اور الغفار سے مل جاتی ہیں اپنے تن ڈھانپنے کی ردائیں ..افلاک میں رکھا دل سماوات میں رکھا ہے ..میم کی مثال نہیں کوئ اور حرف کمال میں رکھا یے. سوغات کو چاہیے کیا کہ دل سوٍغات میں رکھا یے. نباتات تو سلاسل ہیں اس کے یہ خوشا اسی بات میں رکھا ہے. سنو پت پت کی بولی. سنو بوٹے بوٹے کی داستان ..سنو موج رواِں کے فسانے یہ تیر جو لاگے نشانے ہر ہیں یہ خاص ہیں!  یہ  خاص ہیں

نور ہے! چار سو نور ہے!  نور کی پوشاک ہے! نوری ہالے ہیں!  یہ اسماء کیفیت والے ہیں!  یہ حرف پیامِ شوق والے ہیں! یہ نگاہِ شوق کا بیان ہے دل میں معجز بیانی کہ کہاں سے چلے ہم اور کہاں تلک ہم جائیں گے ... سیاہی بھی محجوب ہوگئی -- شرم سے -- حیا سے --- ردائیں، نوری دوشالے میں صحنِ نور ہے جس پر مجلی آیات ہیں .... یہ استعارہ ہے یا نقشِ علی پاک جس سے میرا ستارہ منور ہورہا ہے....   ستارہ سحری جسکو صبح کو نوید ملی یے --- آشیانہ تنکا تنکا کرکے جمع ہو تو ضائع ہو جاتا اور بنا بنایا زمین بوس مگر جو شہر دل ھو کے ویرانے میں رہے --- وہیں کاشانہ ء رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم موجود ہوتے ہیں --- وحدتِ کل،  امامت کل،  تاجدار کل،  علمِ کل،  قدسی سلام بھیجتے ہیں 
یہ ترے قدسی کے ان کے قدسی سے ربط ہیں 
کتنا شاداں بخت ہے تمام جن و انس کے قدسی بہ نسبت اسی صورت وہاں موجود ہوتے جس قدر یہاں 
جس کے دل کا تار مل جائے تو کہے 
وجی میم دی تار 
سانوں مکایا مار 
اشکاں دے اے ہار 
ہوئے دل دے آر پار 
شمع دل اچ وسدی اے 
ہور نہیں کوئ دسدا سے

اک ‏امکان

اک امکان کے پاس، مکان ہے اور مکان میں یاد کا امکان ہے ـ رمز اس کی جدا ہے، خوشبو سے جس کا لکھا جاچکا ورق ہے. یہ سرخ مکان جس کی سنہری دیواروں پر نیلی چادر نے اطراف سے سب رنگ غائب کردیے اور اک دیوانہ،  مستانہ چلا جارہا ہےـ اس مستانے کو ہوش نہیں تھی زمانہ کیا جانے اس کے گیتوں کو ـ وہ سازِ الوہیت میں مست تھا،  غائب کیا جانے حاضر کیا ـ یہ تخت،  یہ مسند،  یہ آئنہ جو اس کے لیے بنایا گیا،  سجایا گیا ـــ یہ وہی تھا جس کا وہ ہمراز تھا ـ اک پکار، اک چیخ تھی جب وہ مسند نشین ہوا ـ شاہی ملنے پر واویلا کرنا؟ کون جانے شاہ ہونے والے کو لازم،  شمع کو گُل کردے اور شمع پھر بھی روشن رہے ـ یہ گِل جس میں گُل کھلیں تو خوشبو تن من میں پھیل جاتی ہے  خوشبو بھی خالی نہیِ بلکہ ھو کی صدا ہے ـ یہ قاری جو اندر ہے وہ کہتا ہے لاتحرک بہ لسانک  اور جب اس قاری سے قرات کے اسرار کھلتے ہیں تو عقل دنگ ہو جاتی ہے ـ بلند بانگ دعوے؟  انسان کی مجال نہیں وہ دعوی کرے!  یہ تو کروایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر درود بھیجتا ہے،  درود ان پر بھیجا جاتا ہے جن کی نماز قائم ہو 

اے قائم ہونے والی نماز 
اے قیام کرنے والے شجر 
اے تسبیح کرنے والی رات 
اے گردش کرنے والی صبح 
اے تضاد والے چاند 
اے محورِ روشنی رات کے 

بتا کہ کائنات مجذوب ہے، کائنات تری یکتائ کی تسبیح پڑھ رہی ہے اور بندہ دوئی میں گم، تضاد میں گرفتار. اللہ کا نور، وہ چراغ جس کی لو نہ شرقی ہے نہ غربی کہ وہ تضادات سے پاک ہے اور ہم اس کے حضور پیش ہوتے ہیں تضاد لیے ـ ہماری دوئی کے نقش کب جھوٹے ہوں گے؟  ہمارے پالنہار نے ہمیں محبتوں میں سمو رکھا ہے اور فرماتا ہے" انما امرہ اذا ارادہ شئیا ان یقول لہ کن فیکون " انسان صاحب امر ہوجاتا ہے جب وہ صاحب کا ہوجاتا ہے ـ جو ازل سے اس کی مانگ ہو،  وہ اسکا ہو کے رہتا ہے ـ وہ لاتا ہے واپس اسکو اپنی رہ پر، چاہے پیار سے، چاہے ٹھوکر سے اور جب پیش حضور عالم غیاب سے کلام کرتا ہے تو کہا جاتا ہے بتا ترا کوئ نقش ہے؟  جس کے دل میں علم ہوتا ہے،  عرش کا پانی ہوتا ہے وہ کیا جواب دے؟  وہ ایسا صاحب حال ہو جاتا ہے جس کو خاموش کرا دیا جاتا ہے ـ درد میں آواز نکالنا نعرہ منصور جیسا ہوجاتا ہے اور سزا تو وہ اپنے محبین کو دیا کرتا ہے ـ قلم چلتا ہے قرطاس پر نور بکھر جاتا ہے ـ قلم کیا ہے؟  قرطاس کیا ہے؟  قلم اور قرطاس ایک ہیں؟  من و تو کا جھگڑا تو ہے نہیں ـ وہ رگ جان سے اتنا قریب ہے کہ سانس اس جاناں کے بنا لینا دشوار ہے مگر سانس کے کارن ہی ہم اس کو محسوس نہیں کر سکتے. وہ قلب سے مقلب القلوب کو حی قیوم کی کرسی دیتا ہے اور کہتا ہے یہ کرسی تری ہے ـکرسی پر بیٹھنے والا اگر گھبرا جائے تو فائدہ؟  اس نے تو کہا جا تجھے ستاری دی، جا تجھے شاہی دی،  جا تجھے محبت کے بیش بہا جواہر دیے ـ اب کرسی والے کو چاہیے وہ تقسیم کرے کہ کرسی والے،  کرسی کی مثال لیے ہوتے ہیں ـ یہی ہوتے ہیں جن پر حیات دوامی کا اصول نافذ ہو جاتا ہے ـ تکبیر پڑھنی ہوتی ہے " اللہ اکبر " جب تحفہ ملے تو سمجھ لو کہ تحفہ اک کو اک سے ملاتا ہے. وحدت کی شراب جاری ہو جائے تو میخانہ ہی پیمانہ اور پیمانہ ہی میخانہ بن جاتا ہے 
شہنائی والی اک صدا بہت دور سے سنی جارہی ہے اور دل رنگ والا ہے ـ رنگ نے رنگ والے کو غنی جانا ہے اور رنگ ایسا دیا کہ رنگ ہی رہا،  مل گئی ہستی اور اتر گئی خاک کی ملمع!  یہی شمع ہے یہی حق کی جاری قندیل ہے جس کے لیے کہا گیا ہے وہ طاق میں چراغ ہے. چراغ الوہی ہے اور راگ الوہی ہے ـ جب روشنی اور راگ مل جاتے ہیں تو فرشتہ حاضر ہو جاتا ہے اور کہا جاتا ہے " بتاؤ،  کس نے کس کو جانا؟  " بس کہا جاتا ہے اندر نے اندر سے صدا لگائی. جس نے پہچان کرائی. جس کو پہچان ہوئ. وہ دونوں اک ہی ہیں 

ماہ و سال کی گردش میں تضاد سے بندہ گھبرا گیا ہے اور وقت کو کہتا ہے رک جا ـ وقت رک جائے تو حم کا مقام آجاتا ہے ـ معراج مل جاتی ہے ـ معراج کا مقام صدیقیت ہے،  ولایت ہے،  عین علی کا فضل ہے،  عین علی رضی تعالی عنہ سے حسینی نور کی تمثیل ہے ـ پوری کائنات کا آئنہ اک ہے مگر منقسم پنجتن پاک میں ہے. مجذوب بیٹھا علی علی کہتا ہے ــ اخلاص تو یہ ہے جو کہا،  جس نے کہا وہی وہ ہوگیا ـ بات تو ساری اخلاص کی ہے. یہ حق موج ہے جو سینے میں پیوست ہے ـ یہ مرجع العلائق سے خلائق تک سپرد کی جانی والی وہ تلوار ہے جس نے دلوں کو چاک کرکے بس نظارہ ھو دیکھا یے

پریم ‏کتھا **

پریم کتھا لکھنے بیٹھو تو رام نیا بہنے لگے ـ رام نیا کو بہنے کے لیے پانی چاہیے اور عرش دل ہے دل میں پانی ہے ـ یہی ساری کہانی ہے ـ کہانی بہت پرانی ہے ـ یہ سمجھ میں آنی ہے جس نے کہنا اس کو پرانی ہے ـ بات پرانی یہی ہے کہ وہ فلک نشین ہے ـ فلک نشین کون کون ہے؟  اک تو ہے اور اک کے ساتھ جو فلک نشین ہیں وہ بے حجاب مظاہرہ کرتے ہیں الوہی الوہی روشنی کا ـ جب کائنات نے نور سے سمیٹا کچھ،  تو خاص روشنی تھی وہ مرقع زہرا رضی تعالی عنہ جن کے سبب کوثر جاری ہے. وراثت جاری ہے،  ولایت جاری ہے ـ یہ جو رنگ رنگ دکھتا ہے،  یہ رنگ اک ہے مگر منقسم پانچ میں ہے،  یہ پانچ منقسم ساتھ میں ہیں ـگویا پہلا فلک اک رنگ سے پانچ میں اور ان پانچ سے باقی پانچ افلاک تصویر میں آئے ـ وہ مصور جو میم سے تراش رہا تھا کنیوس پر،  تو میم کے رنگ دیکھ کے مسکراتا رہا ـ یہ جو شاہا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تبسم ہے یہ حقیقت میں وہ عکس ہے جس کو خدا نے قلم سے محصور کیا اور مسکرایا ـ یہی وسیلہ خدا تک پہنچنے کا ـ یہ جو گویائی ہے یا حق موج ہے جس نے سینہ تیر فگن کر رکھا ہے،  یہ تیر ایسا کہ بسمل وانگ لگن لگی اور ہارن لگی بازی میں.  سئیاں نوں میں کہیا کہ یہ جو شربتی حلاوت ہے روح میں،  یہ کیا ہے تو کہا " یہی تو مصوری ہے وہ جس پر وہ مسکرایا " آج تک وہ مسکراہٹ غیب سے حاضر میں وجود رکھتی ہے گویا جس جس کو اس مسکراہٹ کی پہچان ہو جائے وہ جان جائے کہ پہچان ہے یہ!  یہ پہچان جس نے محبت کو قرار دیا ہے اور وہ مقرر ہوگیا ہے، جس کے لیے کہا گہا ہے " عارفوں کی زمین آسمان ہے،  عارف ایسا ستارہ ہے جس کو کام چمکنا ہے،  جس کا کام سمت دینا ہے، جس کا کام گویائی سکھانا ہے،  جس نے فہم دینا ہے. العارفین عن الناس،  ھو العارف این ما کنتم! یہ جو کہا گیا ہے وہی ہوگیا ہے. نظر کی بات ہے، دلِ بینا سے دیکھو تو تم کو عارف ملے گا،  جب تم کو شناخت ہوگی تو علم ہوگا پانچ رنگ ہفت افلاک سے ہوتے عارفوں کا چہرہ بنے ہوئے ہیں. یہ درون کا چہرہ ہے،  یہ صورت گر جب صورتیں بناتا ہے تو کیمیا گری کرتا ہے ـ یہ فیض ہوتا ہے جو بانٹا جاتا ہے ـ دیا جو جاتا ہے تو دینے کے لیے دیا جاتا ہے،  تقسیم کرنا ہوتا ہے ورنہ فیض رک جاتا ہے اور سلسلہ رک جاتا ہے. خدا شاہد ہوتا ہے جو تقسیم کرتے ہیں،  اور پھر شہادت ہو جاتی ہے مومن کی،  ظاہر وہ ہو جاتا ہے جو باطن میں ہوتا ہے ـ شہادت کا کام شیروں کا ہوتا ہے ـ جان کی بازی لگانا آسان نہیں ہوتا بلکہ جان لگ جاتی ہے اور باز،  شہبازی کرتے فلک کے لامتناہی گوشوں میں جاتا کہتا ہے " منم محو جمال او " رقص یار میں گم پروانہ،  پروانہ نہ تھا بلکہ وہ تو یار تھا جو خیال کی صورت رقص میں تھا. وہ عین شہود تھا. یہ قران پاک کی تلاوت ہے ـ ذات ہماری قران ہے اور نسیان سے ملتا عرفان یے. یہ جو رات چھائی ہے جس کی مدھم مدھم روشنی مہک دے رہے ہیں ـیہ روشنی عین شاہد یے کہ وہ ہستی جس کے لیے کائنات بنائی گئی وہی سامنے ہے. وہ درود ـ جب کہ زبان گنگ ـ زبان گنگ میں کلام ـ کلام بھی کیا عرفان ـ عرفان بھی کیا یہ ایقان جس سے ملی ہے پہچان ـ پہچان بس نعت ہے. یہ وہ نعت ہے جو دیکھ دیکھ کے لکھی جاتی ہے،  جس میں نقش نقش کی ضو سے رنگ رنگ اترتا قلب کو چمکاتا ہے. یہ آشنائی بھی نصیب ہے گویا حبیب قریب ہے.

من ‏تکڑی ‏ ***

من تکڑی اور تول دی گئی نیت! 
ویل  للمطففین 
نیت کا تول بھاری اور من کی لاگی ایسی کہ خدا سے ہم کہتے رہتے اس کو اس کے کیے جزا کم دے اور میرے کیے کی نیت کا بھرم رکھ ـ جب بھرم کی بات آتی ہے تو مطاف سے صدا لگاتی ہے کہ یہ تو دیدار کا وقت ہے ـ نہیں انتظار کا وقت ہے.  یہ التفات کا وقت ہے ـ وقت کاذب ہے اور اس نے کہا 

والمرسلت عرفا 

یہ صبا جس کو وقت کاذب میں چلاتا ہے تاکہ جان کنی کا حال کم ہے. تخلیق کے مراحل جان لیوا ہوتے ہیں اور لفظ مولود کی گھڑیوں میں جنم لیتے ہیں،  درد اتنا ہوتا، نسیان اتنا ہوتا ہے کہ خبر نہیں رہتی کہ وصال تھا. جب وصال ہو تو دن و رات سے پرے اک مقام پر وہ ملتا ہے جس کو شب قدر سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ الرحمن کے بندے ہیں وہ جو والکاظمین الغیظ کی مثال درد کو جذب کرنے والے ہیں. یہ کرسی والے کا مقام ہے وہ اک میں جذب ہو جائے اور واویلا چھوڑ دے. کرسی والے کو ملتا ہے وہ مقام جس کے لیے فرمایا جاتا ہے والشمس. یہ قسمین وہ کھاتا ہے اور بڑے پیار سے نوازتا ہے مگر اس سے پہلے شرح صدر ضروری ہوتا ہے، بوجھ سہنا ضروری ہوتا ہے. یہی تو حق موج یے جس نے میرے لیے اسم لامثال سے بے مثال موتی کشید کیے. چشم نمی کی کہانی اتنی پرانی ہے جتنا یعقوب کا گریہ ـ وہ عشق معشوق کے لیے رویا. بات بہت آسان سی ہے کہ خدا،  خود اپنے لیے رویا ـ خدا نے کتنے آئنے بنائے،  کتنا حسن بانٹا اور پھر جس جس کو حسن دیا گیا اس بے دیکھنے کی نوبت نہ کی بلکہ صم بکم عم کی مثال ہوگیا. دل شر البریہ ہو جائے تو شرالدواب ہوجاتا ہے اور ایسے پر کنکری جب پھینکی جاتی تو کہا جاتا ہے "وما کن اللہ رمی. بس یہ پھینکی کس نے،  یہ کون جانے

اک بازی تھی صیاد کی اور ہوا تو زور کی جب جھکڑ چلا تو کہا گیا کون ہے دل کے قریب؟ کس نے خبر دی " والنشرت  نشرا " بس یہ کائنات کا اخبار خبر دے رہا سچے سمیع العلیم کی. وہی تعلیم یہی دیتا ہے کہ ھو اللہ الواحد!  واحد کو کوئ دیکھتا نہیں تو اس کے نشان روح پر کیسے پڑیں؟  وجہ اللہ پھر کیسے ہوں؟  اپنا چہرہ ہی وجہ اللہ ہے. اپنی رویت آسان نہیں اس کے لیے کان کنی کرنی پڑتی ہے. پھر ہر سمت اس کا جلوہ ہوتا ہے. فثمہ وجہ اللہ. تب قبلہ بنتا ہے،  تب نماز قائم ہوتی ہے. یہ نماز ایسی ہے جس میں دل صامت ہوتا ہے،  اشجار ساجد ہوتے ہیں

حرفِ ‏گریہ ‏***

حرف گریہ!  حرفِ گریہ!  حرفِ گریہ 
محذوف دائرے!  لامکان کے پنچھی چلے پرواز کو، جانب عدم جانے کس کا پہرا ہے!  اکہر ہے!  اکہر ہے!  جی شام سے سویرا ہے! نوید ہوئی ہے کسی نے کہا کہ نوید ملی ہے!  کسی نے جبین جھکی ہے!  کسی نے کہا سجدہ ہوا ہے!  گگن پر لالی ہے،  افق کے ماتھے پر چاند ہے ـ سجاد وہ ہے جس نے سجدہ کِیا ہے ـ یہ سُحاب جو چھائے ہیں،  یہ ساون برسنے کی نشانی ہے ـ  یہ جو برس رہا ہے یہ کیا ہے؟ یہ فرض کیا کہ یار ملا ہے مگر ملا نَہیں ـ یہ قاف جو عشق کا ہے، جو سین ہے وہ "ن " سے نکلا ہے،  قلم لوح جب اصل کاتب سے ملنے لگے تو وصل ہوتا ہے ـ یہ مگر درد ہے ـ عارف کی زمین پر درد بہت ہے،  کرشمہ ہے!  کرشمہ ہے!  کرشن بھی وہی،  رام بھی وہی،  خدا بھی وہی. حرف مگر اک ہے،  حرفِ دل نے کتنے نام دیے ہیں اسکو،  وہ نام سے مبراء ذات ہے!  وہ حال سے مجلی عین بات ہے.  تم اس سے بات کرنا چاہتے ہو تو اس انسان سے بات کرو جو اس سے اتصال میں ہے. حقیقت میں وہ وسیلہ ہے اور مخلوق بنا وسیلے کے نہیں ہے. اسکی کرسی جس کے دل میں مقرر ہو جائے،  وہ اس کا کان، ہے وہ خود سناتا ہے اور خود سنتا ہے  خدا نے درد میں سرگوشی کی ہے کہ مخلوق درد میں ہے،  جذب نہیں تو انجذاب نہیں!  تقسیم ہے انتقال کی!  یہ ہم ہیں جو منقسم ہو رہے ہیں،  یہ ہم ہیں جو قرطاس ہیں،  یہ ہم ہیں جو قلم ہیں،  قرطاس کی چاندی نور ہے،  اس کے ورق ورق میں وہ ظہور ہے!  شبیر و شبر کی بات کرو تو جلال میں جو ہو،  اسکا وظیفہ بھاری ہوتا ہے  اس کی قربانی عظیم ہوتی ہے. قبلہ عشق کا ملتا ہے اسے، جس کی رگ دل سے چھری سے جاری خون کسی مینڈھے کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ دید ہوتی ہے ـ یہی حج ہے!  خلقت چاہے سوا لاکھ کالے کپڑے کے گرد پھیرے مارے، گر دید والے سے نہ ملے تو شریعت قائم رہ جاتی، ظاہر کا بھرم رہ جاتی. اندر خالی رہ جاتا ـ اندر نور نہ ہو تو فائدہ نہیں نماز کا ـ افسوس ایسے نمازیوں پر جن کی نمازیں ان کے منہ پر مار دی جائیں گی ـ افسوس ایسے نامی حاجیوں پر جن کا کالا رنگ نہ اترا،  افسوس اس وقت پر، جس کو رنگینی میں ضائع کردیا گیا ـ ہائے!  وہ ملنے آیا تم سے، تم نے برتن میں نجاست بھرلی. وہ تو مرج البحرین یلتیقان کی مثال قائم رہتا ہے جب تک کہ نور بجھ نہ جائے. اللہ تو نور کی تکمیل چاہتا مگر جو نور کو خود بجھا دے. ان پر افسوس کیا جاتا ہے. آج خدا نے افسوس کیا ایسے دلوں پر جنہوں نے اس کو زبان کے پھیرے سے مطلب کے لیے رکھا، جنہوں نے خیال میں سجائی کائنات ـ وہی اصل ذاکرین ہیں. انہی ذاکرین نے الکرسی کی مثالیں بنانی ہوتی ہیں جلال والے نینوں میں. کرسی والا چلا جاتا ہے ذاکر کے دل میں اور الحی القیوم کی صدا آتی ہے ـ ھو الباری ـ اس نے میرے عناصر کو ترتیب دے دیا ہے،  میرے اجزاء میں خاص لعل ہیں، کہیں عقیق ہیں تو کہیں نیلم. یہ نشان روح پر پڑتے ہیں جبکہ روح امر ربی ہے جو صدائے کن کی واجب ہے. وجود اس کی ہیبت سے لرز جاتا ہے اور رگ میں جان نکالی گئی باقی جان نے ھو ھو کہا گویا اک رگ سے جو پانی نکلا باقی وسیلے بنے ھو، ھو کہتے رہے

درد ‏سے ‏بھیجا ‏گیا ‏درود ***

وہ درد سے بھیجا گیا درود،  وہ درد کی دوا بن گیا ـ درد تو دِیا گیا ہی اِس لیے جاتا ہے کہ رقص کرنے لگے زمانہ ـ زمانہ رقص نہیں کرتا بلکہ کائنات میں سب اشیاء کی تسبیح دکھنے لگتی ہے ـ  یہ اشیاء جن میں اس کے نشان ہیں،  زائر سیر کے دوران کہنے لگتا ہے کہ دیدار ہوگیا ہے ـ  یہ مدارج الی اللہ ہیں کہ اس کو جانے کو ذات ہی منبع ہے ـ ذات کا ستارہ، قطب ہے ـ قطب منور ہو تو ہر شفاف شے منعطف ہونے لگتی ہے ـ یہ شفاف ہونا لازم کیوں ہے؟ شفافیت "من و تو " کا جھگڑا ختم کرکے انالحق کی منزل سے گزار کے واجب الوجود بنا دیتی ہے ـ زمانہ لاکھ کہے انسان ہے مگر روپ بہروپ کو جانڑے کون ـ فرزانہ جانے گا انسان،  دیوانہ جانے گا ذات ہے 

اک فرزانہ ملا،  دیوانے سے ـ ملن کا قصور تھا فرزانگی جاتی رہی اور جذب حسن میں فرزانے کی کائنات ہوئی ـ چلو اشک بندی ختم کرو!  چلو رقص فزوں کرو کہ لٹو کا وجود نہ رہے ـ 

میری جان!  روح سے روح مل جائے گی!  میرے دِل محبت میں محبوب ہوگا ـ اے میری روح،  عشق،  عاشق اصل ہوگا معشوق کہ وجودِ عشق نے خدا کو وہ دوام بخشا کہ نہ فرق رہا،  نہ حذر رہا، نہ خطر رہا 

پری چہرہ ـ وہ بے مثال چہرہ ـ وہ پری چہرہ جس کا درون شامل کیے ہوئے تم سب کی صورتیں ـ ان صورتوں میں کہیں جلال ہے، کہیں جمال ہے، کہیں حال ہے، کہیں کمال ہے ـ یہ تسبیحاتِ درجات پکڑائی جاتی ہیں سیر الی اللہ میں اور جبل پر تجلیات اتنی پڑتی ہیں کہ جبل النور کا گمان ہونے لگتا ہے 

نظر نہ ملائی جائے گی 
نظر نہ اٹھائی جائے گی 
نظر سے ملاقات ہو گی 
نظر سے بات ہو جانی ہے 
نظر مظہر، نظر اظہار 
نظر زائر،  نظر دائرہ 
نظر حصار، نظر محصور 
نظار جبر،  نظر جبار 
نظر  مکان،  نظر لامکان 
نظر زمن،  نظر لازمان 
نظر محب، نظر محبوب 
نظر چنر،  نظر منظر 
نظر حاشیہ، نظر قافیہ 
نظر غزل،  نظر غزال 
نظر مجاز، نظر حقیقت 
نظر مجذوب، نظر جذاب 
نظر حسن، نظر حسین 
نظر قطرہ،  نظر قلزم 
نظر حرف، نظر کتاب 
نظر شاہد،  نظر مشہود 
نظر والی،  نظر ولایت 
نظر جمال، نظر جلال 
نظر حال،  نظر کمال 
نظر انتساب، نظر اختتام 
نظر محور،  نظر شمس 

نظر ملے،  حیا سے جھکا سر ـ جھکا سر نہ اٹھا اور محبوب کو دیکھا کیسے جائے؟  احباب بس دو سے اک ہوگئے اور مل گئی نظر ـ وحدت کا پیالہ ٹوٹے نہ ٹوٹے کہ جام الوہی ہے ـ شام سلونی ہے کسی دیوانے نے فرزانے پر نظر کی، جسم نہ رہا، لباس نہ رہا، بس خیال رہا ـ خیال خیال سے مل گیا   ـ 

یار مل گیا،  یار جانم، یار ہجر میں نمناک، یار جلن سے منتشر، یار خوشی سے مرکب، یار تحفہ، یار سائل، نفی کچھ نہیں اثبات کچھ نہیں ـ جہاں سارا اثبات ہے، کس کی نفی کریں؟  عالم ھو میں ثباتیت دیکھو،  دل پر ہاتھ رکھ کے پوچھو کہ اللہ کہاں ہے؟  اللہ واجب الشہود ہے   اللہ واجب الوجود ہے، اللہ ظاہر ہے،  اللہ شاہد ہے،  اللہ مشہود ہے،  وہ خود شہید ہے

رنگ ‏کے ‏سوانگ ‏بھرنے ‏آیا **

رنگ کے سوانگ بھرنے آیا 
وہ پھر مجھ سے ملنے آیا 
رنگ ساز نے رنگ دے دیا 
رنگ کی لاگی کا سوال ہے 
رنگ میں ترا رنگ پہلا ہے 
رنگ میں تو اول، تو آخر 
رنگ سے ملی ہے رشنائی 
رنگ ہے قلم،  رنگ دوات 
رنگ ہے ذات،  رنگ بات 
رنگ ہے سوت،  رنگ چرخا 
رنگ شہنائی، رنگ شادی 
رنگ جلوہ،  رنگ مجلی 
رنگ میں سنگ ہے وہ 
رنگ میں جگ ہے وہ 
رنگ میں ساز کون ہے 
رنگ میں راگ کس کا؟  
رنگ مورا ترا ہے رے؟  
مورا کیا ہے،  سب ترا 

صبر کی چنر میں رقص کیا گیا ہے دیوانہ،  دوات مانگی کلیر کے صابر سے!  اجمیر کا صابر زندہ ہے!  وہ تو شاہ کا پرندہ ہے!  قرار سے گیا کوئی!  جھوم جھوم کہے جائے! مورے صابر پیا، تورا رنگ لاگے رے، توری چنر ملی رے،  ترا جذب ملا رے،  تو سنگ رے،  تجھ میں جذب رہے،  رنگ سے لاگی نبھائیں گے جب کہیں گے کہ ھو الحی القیوم. وہ اللہ کے ساتھ اللہ والے ہیں اور بس سب مسند نشین ہیں ـ سب نے اللہ کو منالیا ہے ـ سب نے ہجرت و وصلت کا سنگ ہٹا کے موسم اک کردیا ہے ـ یہ جذبات و احساسات تو اس کی ملک سے نکلے اورتیر دل پر آشکار کر گئے یہی کہ روشنی ہے تو ان کی روشنی یے ـ ان سے ملا ہے رنگِ حنائی. ان کی چنر ڈالی گئی ہے ـ ان سے بات بنی ہے ان سے بات چلی ہے ـ ان کی نظر سے منظر ہوگئی ہوں میں اور وحدت کے پیالے سے کون جانے میخانے و پیمانے کا فرق ـ پیمانہ تو زمانوں پر محیط ہے تو زمانے سماگئے ہیں اور ًکلیر کے شاہ کہتے ہیں کہ شاہوں کے ساتھ رہنے والے شاہ ہوتے ہیں،  وہ مجذوب ہوتے ہیں،  وہ قلندر ہوتے ہیں،  وہ سمندر ہوتے ہیں،  وہ ذات کے ملنگ ہوتے ہیں،  وہ دھاگوں سے منسلک ہوتے ہیں یہ دھاگے جو ذات سے نکلے ہیں. ان کا رنگ طائر کو کشش کیے جارہے ـ صابر کے کلیر سے بات بنی ہے ان سے ملا ہے ایسا کشش کا نظام کہ کشش زات اپنی ہوگئی اور بچا کیا؟  بچے تو وہ اور ہار گئی طائر کی پرواز. وہ رک گیا ان کے مکان،  اپنا مکان بھول گیا ـ پرواز ملی تو ایسی ملی کہ سنہری رنگت والوں نے میرے ہاتھوں پر سجی حنا کو دیکھ کے سلام کیا ـ سلام قول من رب رحیم ـ خدا تو خود رحیم یے!

عاصی ‏بابا

عاصی بابا،  عاصی کے پاس کنگن ہیں فقیری کے ـ کون لے پائے گا؟  وہ تو کہے لو انزلنا ـــ جبل ایسے کانپے "واذ الجبال نسفت " جب ظہور ہوگا تو  " واذ النجوم انکدرت " یعنی تاروں کا آسمان بکھر جائے گا ـ آسمان اور زمین اک ہوں گے تو دوئی کے نَقوش  سب اتریں گے من سے ـ تب صبح سانس لے گی ـ یہ  سینہ  نگینہ ہے جس میں الم نشرح صدرک کی مثال ملحم آیات ہیں ـ ایسے مصحف جو شاہِ نوران نے بھیجے ہیں ـ شاہِ نوران نے اک بات سمجھائی ہے کہ شہہ کی سواری میں باری باری سب کا حساب ہوتا ہے ـ جس کے دل سے شہد گرتی ہے،  اسکو دے دیا جاتا ہے ـ بتائیے کہ شہد پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے ـشہد خیال ہے ـ شہد حضوری ہے. جب خدا مسند دل پر بیٹھا ذاکر ہوتا تو شہد سے بندہ شفاف ہوجاتا ہے پھر سرکار کا جلوہ ہوتا. ان گنت درود سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر

مستوار ***

مجبور گاؤں جاتے ہیں، وہاں مستور رہتے ہیں ـ وہیں پر لوگ مست وار کے نینوں پر قربان ہوجاتے ہیں ـ مستوار کون ہے؟ مست کس نے کیا؟  یا احد،  جبل احد سے نکلی صدا ـ دہقان نے یہ سنی تو مستانہ ہوگیا اور کہنے لگا "ھو " وہ رحمٰن جارہا ہے،  وہ رحیم جارہا ہے، وہ حاشر، تم نے دیکھا کیا؟ وہ تصویر میں چھپا مصور جانا؟ مستانہ تھا پاگل، پاگل کی سمجھ کسے لگے؟  مستانے نے شدت غم سے گریہ کیا، گریبان نالہِ آہو سے تارتار ہوا.  وہ رنجور چلتا رہا یہاں تک کہ مقامِ حرا پہنچ گیا ـ وہ سوچنے لگا کہ وادی ء حرا میں اسمِ لا سے الہ تلک تو ٹھیک ہے، محمد رسول اللہ کی تعریف کرنے والے بندے!  بندے خدا بہروپ ہوئے اور روپ بہروپ میں اپنا نعرہ آپے مار لگایا 
ورفعنا لک ذکرک 
مستانہ وادی میں کھڑا منظر دیکھتے منظر ہوتا رہا کہ دھول ہوتا رہا کہ غیاب سے عین صدا تھی نغمہ شیریں نے ایسا محو کیا کہ مجنون کو لیلی کا خیال بھول گیا ـ بتاؤ بھئی، وہ خیال کیا ہوگا جس میں محو ہو کے اسکا خیال غائب ہوگیا ـ جس کے حضور وہ تھا،  وہ بھی وہی رنگ میں لیے تھا ـ وہ عکس تھا آئنہ نہ تھا. آئنہ اک ہے اور جلوہ گاہیں ہزار. موسی کو جلوہ گاہ سے ملا سرر،  وہ چالیس سرر کی راتیں جو وحدت کی گھڑیاں تھیں ـطور دل میں وہ مقام ہے جس سے قلب مستحکم ہوتا ہے جلوے کو مگر پاؤں ننگے اس وادی میں جلنا شرط ہوتا جبکہ حرا ایسا مقام ہے جہاں نعلین بھی ساتھ ہوتی ہے کہ نعلین بھی مبارک ـ ہم جب ان کے سائے میں پلتے ہیں، شاہ کے غمخوار ہوتے،  وہیں گریہ زار ہوتے ہیں تو شہہ کا ہاتھ ہمارے سر پر رہتا ہے ـ ہماری کائنات ویسی استوار ہوجاتی ہے جیسے کہ پہلے اشتہار کی صورت یہ دل میں نقش ہوتے ہیں. سنو جو جو ان کے سائے میں رہتا ہے وہ خود نہیں ہوتا، وہ وہ ہوتا ہے جہاں سے نعت کی اجابت و مقبولیت کی بات چلتی ہے 
رنگ رنگ میں مصطفوی نور 
رنگ رنگ میں یہ چراغِ طور 
رنگ رنگ سے یہ دل ہوا مخمور 
رنگ رنگ نے دیا ایسا سرور 
نعرہ لگا کہ چلو چلو سب طور 
سب نے دیکھا اسمِ میم کا ظہور 
ہر پتا بوٹا میرا ہوا ہے مہجور 
طائر،  تو ہے کیا؟ نہ کر غرور 
ملیں گے غنیم سے تحفے ضرور 
شہ رگ سے ملیں گے اپنے ضرور 
یہ جو تو نے کہا، ترا کیا قصور 
وہ کرتا ہے جو چاہے کرے مشہور 
جسے کرے، اپنا بات سے مخمور 
لے جائے گا  مصطفی کے حضور 
ادب سے جھکے گا دل مرا ضرور 
وہ دیکھیں گے، جلوہ ہوگا ضرور 
ملے گا دائم، قائم رہے گا  سرور 
یہ عنایت ہے ورنہ سب مجبور 
حسنِ مصطفی کی رویت رویت 
حسن سے ملی،  بصیرت بصیرت 
حسن نے دی ہے صورت، مورت 
حسن نے دی ہے شہرت، دولت 
حسن کیا ہے؟  جذبی کیف ہے 
حسن کیا ہے؟  ربی سیف ہے 
حسن کیا ہے؟  شامِ لطیف ہے 
حسن کیا ہے؟  رگ مجید ہے 
حسن کیا ہے؟  اجتنابِ ہائے ہو 
حسن کیا ہے؟  سخن وری ہے 
حسن کیا ہے؟  نغمہِ جاوداں 
حسن کیا ہے؟  میم کی نگاہ 
حسن کیا ہے؟  میم کا ساتھ 
حسن کیا ہے؟  لا سے الا اللہ 
حسن کیا ہے؟  جذب سے جازب 
حسن کیا ہے؟ رگ سے عارف 
حسن کیا ہے؟ درد میں صامت 
حسن کیا ہے؟  جلوہ، جلوہ، جلوہ 

 
حسن کی سج دھج دیکھ رہے تھے سب اور مل رہے تھے سب!  جیسے ملے ہوں رب سے،  کن کے وقت کوئی نہ تھا مگر اس کا خیال جو ارادہ نہ ہوا تھا ـ ہم تب بھی محبوب تھے، اب بھی محبوب ہیں. اس نے ہم میں رکھی آیات اور محبت کی ان سے. حسن چاہنے والے کی آنکھ میں ہے ـ حسن دل بینا ہے جس نے دیکھا اس نے کہا سرر ہے . وہ محور ہے اور محور ہوگیا.

الحی ‏القیوم **

الحی القیوم 
وہ بقا کے دروازے پر کھڑا 
وہ فنا سے گزر کے ہے کھڑا 
شاہ کے در پر کون ہے پڑا 
نگینہ میری روح میں جڑا 
امتحان لیا گیا ہے بڑا کڑا 
ملا یار، یار تو اپنا ہے بڑا 
لامکان کے دائرے سے چلا 
ساجد ترے در پر ہے کھڑا 
نیناں دی لگی رے!  
نیناں دی لگی رے!
موج کر، مست رہ!
مست رہ!  ہست سے پرے 
ترے رنگ تمام ہوں گے ہرے 
تری دوا میری بات سے ہے 
تو میرا راگ، میں ترا ساز 
تو محجوب، تو مستور ہے 
تو سجدہ کر، ثمہ دنا مقام 
الف سے چل، لام تک تو آ 
سفر تمام ہوگا، منتہی ہوگی 
معراج کا سفر ہے، بشارت ہے 
اوج معرفت، اوج حقایت 
رفیقوں نے حزن نہ رکھا 
درد میرا دیا دم دم ہے چکھا 
تو رکھ لے دل میں شہد 
بات ہے یہ مہد سے لحد تک 
قاف سے قبلہ، شین سے شوق 
شوق میں عین ہوجا، عین ہو 
عین ہو، نین ہو، عین ہو، نین ہو 

کبیر نے کہا کہ مقبرہ اعظم کہاں ہے؟  صغیر نے کہا جہاں نطقِ اعظم ہے ـ وہیں پر مشروط ہے راگ سے نجانے کیا کیا ـ مجرب ہے دعا،  سلیقہ حیا سے آتا ہے بندگی میں جب دوا مل جاتی ہے ـیہ ہم ہیں جو سناتے ہیں اور سننے والے کہتے ہیں غم آگیا ـ ہم نے کان میں سرگوشی کی، بندے نے کہا غم آگیا ـ کیسے لوگ ہو؟  قربت کو غم کہتے ہو ـ جب قریب ہوئے، تبھی تو دور ہوئے!  دوری موت ہے!  موت کے بعد پھر وصلت ہے!  مرن توں پہلاں مریے، گل ساری ایہو اے.جانیے دل دی گل تے چلائیے ذکر دا ہل ـمالی دا کم کہ دیوے نہ دیوے پھل ـ تو نہ کر کل کل،  کل کل بڑی جدائی وانگ ہے،  ملدا نئیں ؤہ جس نوں اساں ملن جائیے ـ وفا نے سکھایا کہ سیکھو بس سیکھو.، بچے کیطرح سوالی ہو جا.

مابعد ‏حجاب

ما بعدِ حجاب طواف ضروری تھا اور تو نے نَہ کیا،  ہائے!  یہ کِیا کیا؟  طواف کیسے کروں؟ کیسے فرق جانوِں؟ فرصت ملے گی تو دیکھیں گے کہ مطاف کو چومنا کیسے ہے ـ ابھی تو محو ہیں دوست اور رقابت کا سوال نَہیں ـ اجتناب نہ کرو، حساب کرو مگر سراب نہ کہو ـ جواد وہ ہے جس نے سخاوت کی حد کردی ہو ـ رقیب نہیں کہ ہر جا،  دوست ہے ـ میرے دِل میں تری یاد کے ہزار پُل اور ان سے گھٹتا فاصلہ محض سوچ کا تھا ـ سوچ نے ہٹایا فاصلہ تو حائل صدیوں نے بتایا کہ نورِ قدیم سے فاصلے نہ تھے ـ وہ قدامت میں، کسی نے خود کو عرش کے پانی میں دیکھا،  عرش کے زیرسایہ رہنے والے نے پھر بھی قربت کی انتہا مانگی ـ انتہا کیا ہوتی؟  لذت نے بھلادی انتہا بھی اور سوالِ منتہی بھی ـ فلک پر حطیم ہے، مطاف بھی ـ وہیں اک جاذب، نظر خاتون کو بیٹھے دیکھا ـ وہ حسین تھی اتنی کہ اس کے حسن میں میں کھوگئی ـ میں نے اس سے سوال کیا 
تم اتنی حسین کیسے بنی؟
اس نے کہا:  یہی سوال تم سے بنتا ہے 
پھر اس سے آگے سوال نہ رہا،  اس سے آگے کا جواب لفظ کا محتاج نہ تھا کہ حروف نے اس حسین پری وش کے گرد چکر لگائے اور اتنے چکر لگائے کہ پری چہرہ غائب ہوگئی جبکہ وہ حرف سامنے تھے ـ پری چہرہ کہاں گئی مگر حروف نے یکتائی کی قسم کھائی اور یکتا ہوتے سب منظر ہوتے گئے دل میں ـ یہ کس کا دل تھا جس میں صورتِ مریم نے قدم رنجہ کیا ـ یہ عیسوی قندیل میں لگے شجر میں کیسا نور ہے؟ یہ موسویت کی چادر کا رنگ گہرا کیوں ہوتا جارہا ہے؟  شجر زیتون نے برق سے کلیمی کی صورت دی اور صورت صورت میں صورت اس کی جھلکنے لگی. اس کی غزل کے جا بجا قافیے ہیں اور میں اس کے شعر کا ایسا قافیہ ہوں جس کو بڑی محبت سے، بڑی چاہ سے، بڑی الفت سے لگایا شعر پر کہ یہ شعر رحمت بن گیا ـ رحمت میں رحیمی کا نگینہ لگا پڑا ہے،  کسی پیارے نے پیار سے کہا:  سو جا،  رات ہے ـ ہم نے پیار سے جواب دیا کہ پیار میں نیند نہیں آتی،  پیار میں پیار قائم ہوجاتا ہے ـخواب میں پیار ہے،  جاگ لگن کی دیر ہے جاگ جاتی ہے روح، راگ نے آگ لگائی ہے اور بابا جان نے بلایا ہے ـ بابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان گنت درود  یہ ہم تو قابل نہیں نا کہ خیال سجائیں مگر خیال سجے تو کہنا لازم:  سلام قول من رب رحیم ٌ رب کا سلام پہلے کہ بندگی کا طریقہ یہی ہے کہ عجز میں رہا جائے. راستہ بہت کھٹن ہے جی جناب کٹھن ہے مگر ساتھ سجن ہے اور رات اس میں مگن ہے ـ لعل گگن ہے،  دل میں شراب کہن ہے، یہ صحنِ ارم ہے کہ جانبِ حسن ہے ـ امام حسن رضی تعالی عنہ نے کیسی نرمی پائی شباہت بھی کیسی پیاری ہے اور نورانی ایسی کہ یزدان نے جمالیات کے سبھی نقوش قلب معطر کے حوالے کیے ـ ہم کہاں دیکھیں رے ان کو، وہ ہمیں دیکھتے ہیں اور لگتا ہے ہم ان کو دیکھ رہے. وہ اک قبر جس کی لعلی نے میرے دل کی زمین کو گاہِ کربل بنادیا،  سجدہ شبیری یہی ہے کہ  گم رہ مگر غائب نہ رہ

جمعہ ***

مجھ پر جمعہ نازل نَہیں ہوتا ـ احرارِ بریرہ و ریشم سے براءت نہیں ہوتی ـ ذکر میں جاودانی نہیں ہوتی ـ رات رحمانی نہیں ہوتی اور بات سبحانی نہیں ہوتی ـ کسی سے پوچھا جائے کہ جمعہ کیا ہے تو وہ کہے گا کہ دن ہے ـ یہی گڑ بڑ ہے کہ جمعہ دن نہیں ہے ـ تمام جہات کے منبعِ انوارات کی جمع ہے ـ جب جمع واحد میں ہو تو واحد واحد رہتا ہے پر کثرت ھو ھو بولنے لگتی ہے ـ سامنے الواحد بیٹھا جب ھو ھو یعنی " تو،  تو " سنتا ہے تو صبح صادق ہوتی ہے اور سحر سے پہلے جمعہ نازل نہیں ہوتا ہے ـ طلوعِ سحر میں رات کا سماع گویا شادمانی کا سماع ہوتا ہے ـ یہ وسیم کی طرف تحفہ ء ایزد ہے جب طائر پر لگا کے اڑان بھرتا ہے تو جانب یمن سے جانب لعل یمن کہ جانب حسین بروضہ امام رضی تعالی عنہ جاتا ہے تو سلام لب بہ دہن،  دل بہ سخن،  نظر بہ رہن،  قرض بہ لعلی ادا کرتا ہے تو شہِ دلاور،  دلاویز مسکراہٹ سے دلاوری عطا کرتے ہیں. ـ یہ جن کو روضہِ حسینی کے پاس بیٹھنے کی بشارت مل جاتی ہے تو گویا امامت کا تاج پہنا دیا جاتا ہے ان پر نگہ الطافانہ ہوتی ہے اور نظرِ محرمانہ سے محبوب کا جلوہ شروع ہوجاتا ہے ـ یہ کائنات کل وحدت کے دو ٹکروں میں دکھنے لگتی ہے ـ جمال بہ رسول اکرم معظم محتشم  سے بی بی پاکدامن سیدہ مطہرہ عاقلہ عالیہ راضیہ مرضیہ زہرا رضی تعالی کی سے جناب امامِ حسن رضی تعالی عنہ، وہیں جناب علی المرتضی رضی تعالی عنہ سے حسینی لعل یمن رض کی صورت بصورت جلال ـ قران پاک میں یہی دو آیات  ہمیں ازبر کرا دی جاتی ہے جیسا کہ اللہ حاشر ہے،  اللہ الباری ہے اللہ البصیر ہے اللہ العالی ہے اللہ جمال والا ہے اللہ ستار ہے اللہ قہار ہے اللہ جبار ہیں ـ اس کی ذات کی شہادتیں تقسیم ہوجاتی ہیں ان ہستیوں میں اور نورانی مصحف کھل جاتے ہیں. مطہرین لوح محفوظ پر قران پاک دیکھ سکتے اور پڑھ سکتے ہیں مگر لوح محفوظ تو دل میں رقم ہیں اور دل میں جھانکنا ہم نے چھوڑ دیا ہے 

جب دل میں جھانکنا چھوڑ دیا جائے تو جمعہ کیسے نازل ہو ـ کیسے ھو ہو تو کیسے اللہ روبرو ہو،  کیسے بات ہو تو کیسے ہم کلام ہو،  کیسے کلیمی ہو جب کلیمی نہیں تو معراج کی بات کیا ہو، یہ جو عشاق سدرہ المتہی پر رک جاتے ہیں ان کے آگے کا سفر رقم ہے ـ وہ دیکھ رہا ہے جو ہو رہا ہے کیونکہ وہ شاہد ہے اور بندہ مشہد  جلوہ گاہ بنا ہوا تو وہ فرماتا ہے لایدرکہ الابصار تو یہی دید ہے ـ ہم نے اس کا ہونا ہے اور دید ہونی ہے . ہم بھلا کہاں سے وہ خلا لائیں گے جہاں وہ نہیں ہوگا. جہاں وہ ہے جہاں میں ہوں نہیں میں نے وہی ہے تو کہیں اپنا آپ جلوہ گاہ دیکھتے ھو ھو کہے گا تو کہیں جلوہ گاہیں دل کو دیکھتے ھو ھو کہیں گی یعنی تو تو، تو پیار ہوگا. یہ محبت ہے یہ عبادت ہے ـ یہ سیادت ہے ـ اس سیادت کے پیچھے نقشِ نعلین پانے کی سعادت ہے ـ جب سعادتیں سادات سے ملنے لگیں تو جمعہ نازل ہو جاتا ہے

نماز***

نماز پڑھ!  نماز پڑھ!  نماز پڑھ!
گیان نہیں، مکان نہیں، جہان نہیں 
تو جلوہ گر ہوگا تو قضا بھی ادا 
فقیر کے سر پر ڈال دے گا وہ ردا
وہ ہے تو سب ادا، وہ نہیں تو سزا

نماز میں دستار باندھی گئی کسی شاہ کے والی کے،  دیکھنے والوں نے شوق کے مارے سرجھکا لیا، کہیں لاگی میں دم نہ رہے. دم نہ رہے تو گم رہے کون. اک جدا ہوتے ساتھ ہے،  اک ساتھ ہوتے جدا ہے. یہ خیال ترے سدا بہار ہمارے قبلے بنے. ہم نے دستارِ شوق میں قیام کی حالت سے،  سجدے کے حال تلک دیکھا ـــ حــم ... اس کی رمز نہ جانو، جو جانو تو تیار مذبحِ وقت میں سر کا سواد قضا نہ جانو!  وہ لیتا پہلے ہے اور دیتا بعد ہے. وہ فصلِ گل و لالہ کی لگالیتا ہے اور کربل کی زمین میں راکب کو ثاقب بناتا ہے. شامیانے جہاں لگے ہیں،  آستانے وہیں کے، جہاں ناز خاک نے کیا کہ یہ کس سجاد نے فخر بخشا.  وہ نماز بدلتی رہی؟ نماز بدلتی ہے؟  نماز نذر کا نام ہے، نماز ہدیہ کے نام ہے،  جان ہدیہ ہوئی تو نماز قائم ہوئی. جس کا اپنا کچھ نہ تھا، یار اس کے سنگ،  وہی تو ہے مست ملنگ، جس کو ملے ہست ہست سے رنگ، یہ ستار ہے رنگ برنگ!  کس نے پوچھا تھا کہ دستار باندھی کیوں جاتی ہے؟  کس کو بتایا گیا تھا کہ جس کو سرداری دی جائے، جسکو شوق کی سالاری دی جائے، جس کو قائم سواری دی جائے، جس کو یاری دی جائے کہ اسکو باری دی جائے.. پھر جان وار دی جائے کہ کہنے میں،  سننے میں قصے ہیں!  دکھ جائیں تو اجالے ہیں ‍. سالک کو چاہیے دیکھے تمام سیر کو اور حلقہ ء بگوشِ دستِ خرامِ مہرِ نبوت کے رہے کہ رہنے والوں نے دستِ الوہی میں تن دان دیا، من دان دیا. کیا  قربان ہوا، کیا نہ قربان ہوا یہ حساب نہ رکھا. اس لیے خدا نے ان کو بے حساب دیا. اجر ِ رحیم محبت ہے . رحمت سے رحیمی ملتی ہے اور رحیم بانٹ دیا جاتا ہے.

مطاف

مطاف میں جاذب نظر بیٹھی ہے، جس کے ہالہِ نُور سے اردگرد کے حرکت سکتے میں ہے.  جب بندے خدا کے محبوب ہوجاتے ہیں تو طواف یونہی ہوتا ہے. مکان میں نوران شاہ رہتے ہیں. شاہِ نوران، شاہ ولایت کے ساتھ رہتے ہیں. کعبے کے اندر جو نور ہے،  کالا رنگ اتر جانے سے وہی باہر ہے.  جاذب نظر اسی نور سے بانٹ رہی ہے. کعبے کی چادر اک حجاب ہے اور وہ حجاب تو نہیں رہا ہے. مطاف میں نماز ادا کی جارہی ہے. یہ کیسی نماز ہے جس میں گم صم رہ کے بات کی جائے. جس میں جو تماشائی ہو،  وہی آواز ہے.

میزان میں آواز اتری ہے،  آواز ایسی کہ شاہ نوران نے بلایا ہے ـ شاہ نوران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رونقِ دو عالم ہیں. ایسا محسوس تو کیجیے گلی گلی میں سب انسان ہیں،  کسی میں یا علی یا علی کی صدا لگ رہی ہے،  کسی میں یا محمد کی، کوئی غوث پاک کا دیوانہ ہے. انسان نہیں ہیں اس جہاں میں عالم ذات میں ہم سارے آئنے ہیں. وہ جب جھلک دکھلاتے ہیں ہم میں صدا ابھرنے لگتی ہے. وہی صدائے غنود ہی صدائے شہود ہے کہ شاہد ہی مشہود ہے.  اب کون پوچھے گا تم کون ہو؟ ہم کہیں گے ہم شاہ نوران کے سوالی ہے. ہم ان کے در پر رہتے ہیں یہ راز کسی کو معلوم نہیں ہے شاہ نوران نے ہم سے محبت کی ہے. یہ لعلی اسی نورانیت کی میراث ہے.

آدم ہو کہ حوا،  سب نے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوتا. کسی نے کہنا ہوتا ہے تو کسی نے کچھ کرنا ہوتا ہے. کسی کو آگ لگنی ہوتی تو کسی کو آگ لگانی ہوتی ہے،  کس کو آگ چاہیے؟  یہ پاک وادی ہے،  جوتے اتار دو،  تاکہ آگ مل جائے ورنہ انسان تو بیچارہ ہاتھ ملتا رہ جائے گا

Thursday, February 25, 2021

خوش ‏وصال ‏گھڑیاں ‏***

سوچتی ہوں اُن خوش وصال گھڑیوں کو، عہدِ محمدی صلی اللہ علیہ والہِ وسّلم اور حضرت سلمان فارسی کی تَلاش کا سفر ..... آگ کی پَرستش کرتے ہیں مگر ان کا دِل ایسی پرستش سے خالی تھا، ان کو جستجو تھی ایسی ہستی کو چاہا جائے جو واقعی  اللہ کہلائے جانے کی مستحق ہو ....



فالھمھا فجورھا واتقوھا



حضرت سلمان فارسی سفر میں رہنے لگے تاکّہ اصل کی جستجو کی جاسکے. راہب سے ملے، اس کی خدمت کی تو علم ہوا، خدا اَلوہی اَلوہی ہستی ہے اور ان حضرات سے اللہ کا پتا ملتا ہے جو خود الہیات کے جامے پہنے ہوئے ہوتی ہیں ... راہب نے مرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خبر دی، ساتھ مہر نبّوت کی خبر دی....، فارس کے سلمان رضی تعالیٰ عنہ،  جستجو لیے مدینہ منّورہ پُہنچے اور کھجور کے جھنڈ دیکھے. دل کے اُن کے قرار آیا کہ  وُہی ہے سرزمین ہے جسکی عید جیسی خبر ملی ان کو، خُدا کی تلاش کو ایسے شخص کی تلاش کی جس کے پشت پر مہر نبّوت ہو، صلی اللہ علیہ والہ وسلم ..... فارس کے سلمان رضی تعالیٰ عنہ نے جب آیتِ نبوت دیکھی تو وجود خشیت سے لَرزنے لگا، اشک گرنے لگے،  خوشی کے آنسو، تلاش مکمل ہونے کے بیحال آنسو ......،  نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت پر ایمان لے آئے .......  اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ...



سلمان منا اھل بیت ....



تلاش و جستجو کا سفر،  حضرت ابو ذَر غفاری کا جناب سلمان فارسی سے بڑھ کے لگا،   دور جاہلیت میں فرمایا کرتے تھے، اللہ ہر جگہ موجود ہے، قبلہ بھی جس جانب وہ، اسی جانب وہ!  دل میں موجود خانہ کعبہ مقدس سمجھ کے خدا کو چاہے جاتے اور ایسی نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انتظار کرنے لگے،  جو ان کو حق سے واصل کرے ... ،  



فالھمھا فجورھا واتقوھا



حقیقت میں اللہ نے بَدی و نیکی ملحم کردی ہے مگر اِس کا اِحساس ایسے چند نفوسی کے لیے مثبّت ہوا، جنہوں نے دورِ جاہلیت میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرح خود کو پاک و صاف رکھے. حضرت ابوذر غفاری تو اس حد تک پہنچ گئے،  قبیلہ ء غفار کے منکرین کے بُت توڑ ڈالے .... تلاش ان کو درِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم لے گئی، یقین ایسا تھا بنا کسی نشانی کے کلمہ پڑھ لیا ....

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ



آپ صلی نے فرمایا اس سفر کو اخفاء رکھنا، مگر حق جس کو ظاہر کردے وہ رُکے نَہ رُکے، یہی حال جناب ابو ذر کا ہُوا، خانہ کعبہ گئے بُلند آواز میں کلمہ پڑھ آئے بنا کسی احتیاط کے پتھر برسیں گے، گھونسوں سے لاتوں سے مارا جائے گا،  غرض جتنا مار کھاتے، اسی جوش سے کلمہ جاری رہتا تھا ....یہاں تک کہ مدہوش ہوگئے ....اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی .... شیر دلاور کیسے چھپ چھپ کے اسلام کو رکھتا ... !



ان ہستیوں کو سوچتے اُویس قرنی کا خیّال آیا،  روح کا ربط روح سے کیسے جدا تھا، دور بیٹھے بھی کوئی بندہ ء خدا تھا،  سینے میں چلتا رہا قران کا علم،  انتقال کا یہ سلسلہ جُدا تھا!



محبت کے یہ سلاسل سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ذات بہت حقیر ہے. ذات کے تکبر کو نفی کیا جانا چاہیے تاکہ کسی اک صفت سے اللہ نواز دے اور مسلمان ہونے کی غیرت جاگ جائے،  تاکہ عمل کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے ..... پھر محبت ہو ایسی کہ حضرت بلال رضی تعالی کا سوز و گداز نصیب ہو، روح کو اذن ملے تو سفر ہو

استاد ‏کا ‏مقام ‏

اک استاد کا مقام آج کل کم ہوگیا ہے.  آج کے دور میں سب کمرشلائز ہوگیا ہے.. استاد پہلے بنانے کے لیے پڑھاتے تھے. اب استاد کمانے کے لیے پڑھاتے ہیں. استاد کا مقام بھی بدل گیا ہے. پہلے اک استاد کے ہزار شاگرد اک مجلس میں بیٹھ جاتے تھے اور ادب ایسا ہوتا تھا کہ مجال سر اٹھے کہ استاد کو گراں گزر جائے. آج کل استاد کو شکایت ہے بچے اسکی سنتے نہیں .یہ کس قدر مشکل مرحلہ انسانیت پر آچکا ہے .. استاد کا مقام صفر ہوچکا ہے کیونکہ شاگرد جانتا ہے کہ استاد کمرشل ہوچکا ہے ... استاد پہلے دلوں میں اتر جانے کا فن جانتے تھے مگر آج کل کے استاد ہزارہا حیلے ڈھونڈ ڈھونڈ کے بچوں کو پڑھاتے ہیں. استاد کا مقام کم ہوگیا ہے ..

استاد کو کیا کرنا چاہیے؟   کچھ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں. رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی شروع کردے ...بچوں کی تربیت ایسے کرے نسل سدھر جائے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے استاد تربیت کیسے کرے؟  

اک بچہ اک استاد کے پاس آیا اور کہا کہ یہ سوال سمجھا دیں!  استاد نے جواب دیا کہ ابھی تو فارغ نہیں. کلاس میں آکے سمجھا دوں گا تو بچہ کبھی استاد کے پاس سوال لیے آئے گا؟  

اللہ سے بھی تو ہم سوال کرتے اور اللہ کہے دو چار سال بعد سنوں گا. صرف سننے کے لیے سالوں کا عرصہ ...لوگوں نے اللہ سے بھاگنا شروع کردینا کہ اللہ تو سنتا ہی نہیں .. اللہ نے اس لیے تو کہا کہ میں شہ رگ سے قریب ہوں ... خدارا!  مقام کو پہچانیں!  سمجھیں استاد نے اپنی عزت خود نہیں کروائی .. استاد اپنے مرتبے سے خود گرگیا ہے ... 

یہ بہت مقدس پیشہ ہے! افسوس یہ پیشہ ہے. اسکو شوق ہونا چاہیے تھا ..وہ شوق جس سے معاشرے کی اصلاح ہو جائے!

سرحد

کبھی کبھی سوچ کے دَر وا ہوتے ہیں ـ مجھ پر اک دروازہ ایسے کُھلا کہ آہٹ سےچونک سی گئی ـ سوچ تھی کہ خدا مذہب سے ماوراء ہے، سرحد سے ماوراء ہے.  نیلے آکاش کی سرحد دیکھی کبھی؟  یہ سرحد  حدِ احساس سے ماوراء ہے ـ 

میرے من نے سوال کردیا کہ مذہب ضروری ہے 

میں نے جواباً کہا کہ منکر کون ہے؟  



میں تو فقط یہ کہنا چاہتی تھی خدا کو سب نے اپنے دل سے پہچانا ہے ـ جب پہچان لیا تو سرحد کا تعین ہو گیا 

کیسی سرحد؟
شریعت کی

غزل ‏

لباسِ تار تار کو رفوگری سے کام کیا
ملے ہیں اتنے زخم، مجھ کواب ہنسی سے کام کیا


ترے خیال کے سبب چراغ ایسا جل گیا
ہوا بجھا نہ پائے گی، سو تیرگی سے کام کیا



بہانہ دید کا بنے، ہو بات آپ سے کبھی 
کبھی تو آئیے گھر مرے، مجھے کسی سے کام کیا

ہماری زندگی ہیں آپ، ہر خوشی بھی آپ سے
بلائیں آپ دار پر تو زندگی سے کام کیا


جو ہم کو تیرے میکدے سے جام ہی نہ مل سکا
تو ساقیا ہمیں کسی کی تشنگی سے کام کیا


لہو لہو جگر میں  تیر ہے تری جدائی کا
پیا ہے آبِ موت،مجھ کو زندگی سے کام کیا 


حضور آپ جو کہیں، وہی کریں گے ہم سدا
فقط غرض ہے آپ سے، ہمیں کسی سے کام کیا


غرض نہیں کسی سے، جب چراغِ دل ہی بجھ گیا
کہیں جو روشنی بھی ہو تو روشنی سے کام کیا

عشق ‏نصیب ‏ہو ‏جسے ‏**

عشق نصیب ہو جسے ، مر کے بھی چین پائے کیا 
درد جسے سکون دے، نازِ دوا اٹھائے کیا


مرگ ہو جسکی زندگی، چوٹ اجل کی کھائے کیا
میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مُجھے بُجھائے کیا

ٹوٹا ہے دل کا آئنہ، عکسِ خیال لائے کیا
شعر کوئی بنائے کیا؟  مایہ ء فن لُٹائے کیا

غم سے مفر کِسے یَہاں، دیکھے جِگر کے زخم کون
کس کو سنائیں حال ہم،  اپنے ہی کیا؟  پرائے کیا؟

ساعتِ وصل حشر تھی  صدمہ ء زندگی بنی
بیٹھے ہیں روتے رہتے ہم، کوئی ہمیں رلائے کیا 

تاب نہیں سنانے کی،  دل کی تمہیں بتانے کی 
حالِ ستم زدہ کوئی غیر کو پھر سنائے کیا 

سخت ہے منزلِ سفر، رستہ نہ کوئی نقشِ پا
 تُو جو ہے میرا رہنما، رستہ مجھے تھکائے کیا

ماں ‏

ماں ایسی ہستی ہے جس نے تخلیق کا فرض نبھایا ہوتا ہے ، جس نے تخلیق کی خدمت کی ہوتی ہے مگر بدلے میں سرکشی ، خودسری خلقت کی سرشت ہوتی ہے ، ایسی بے مثال ہستی جس کی اپنی خلقت  بھی اسے برا، بھلا کہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے کہ خلافِ رحمت کام کرنا ماں کے شانِ شایان نہیں ہوتا

ماں! کیا ہوتی ہے ماں؟ آخر درد کو حاصل کرکے کتنا سکون پاتی ہے ماں؟ اس  ملال کو جو رکھے دوریوں پر، کتنا ترساتی ہے ماں، وہ جب جب قریب ہوتی ہے، فلک پر دنیا نصیب ہوتی ہے! ماں کی مامتا بڑی بے لوث ہے! بڑا دکھ سہا مامتا نے! تخلیق کے وقت موت سے گزر جانے والی ماں کی قدر اسکی اولاد نہیں جانتی مگر اسی نافرمان اولاد کے پیچھے بھاگ بھاگ کے جاتی ہے ۔ بچہ پیدا ہوتے ماں کا لفظ پکارتا ہے اور ماں خوشی سے پھولے نہیں سماتی ! بچہ اپنی پہچان کو ''ماں '' بلاتا ہے اور جب بڑا ہوتا ہے تو اسی ماں کو بھول جاتا ہے ، بچہ ماں ماں نہ کہے ، کتنا دکھ کرے ماں ۔پہچان اصل چیز ہے جو بڑے ہونے پر سب بھول جاتے ہیں

ماں کی دوری نے ہلکان کردیا جیسے ذرہ ذرہ پریشان کردیا، کتنا دکھ کرے تخلیق ؟ دکھڑا درد کا کیسے کہے تخلیق؟ جب سنے نہ کوئی تو کون سنے؟ جب دکھےنہ کوئی تو کون دکھے؟ جب چھپے نہ کوئی تو کون چھپے؟ جب اٹھے نہ کوئی تو کون اٹھے، ماں نے پورا وعدہ نبھایا پر سبق ملن کا نہ آیا

سبق ملن، جدائی اور ہجر نے جلادیا دل، جلا دیا دل، اس کی جانب نگاہ ہے، سجدے میں سر بھی جھکا ہے، اس کو پہچانوں ناں، کتنا دکھ کرے ماں؟ وہ جو قریب ہے؟ وہ جو حبیب ہے؟ وہ جو حسیب ہے، وہی نصیب ہے! 

ماں تو دوری بڑا ستاندی اے، 
اکھ ہن نیر وگاندی اے

ماں تجھے پہچان نہ سکوں تو کس کو پہچانوں؟ ماں  تجھے نہ مانوں تو کس کو مانوں، زمانے کے سرد و گرم سے بچایا، مجھے نور میں چھپایا، لہو لہو دل ہے، قلب میں جس کا جلوہ ہے جس کی قندیل ہے، وہی میرا وطن ہے، وہی میرا اصل ہے، وہی مرا مقصدِ حیات ہے جس کو پایا بعدِ ممات ہے! ماں توں دوری نے آزمایا، لوکی کہون مینوں پرایا، میں اس دنیا اچ کی کمایا جے ماں تینوں نہ پایا؟

یہ جذبات، یہ احساسات، یہ رگ رگ سے نکلے لہو کے ان دیکھے قطرے جو گر رہے قلب کے وجود پر، جن کا نشان نہیں ہے مگر ظاہر نے نمی سے منعکس کردیا جس کا جلوہ  عالی ذیشان ﷺ کی آنکھوں میں ہے، وہ مسیحا، وہ جس کو میں کہوں: میرے  عیسی ، قم باذن اللہ سے میرا دل جلایا،  دی زندگی، قلب کو منور کرایا ....  وہ مجسمِ نور ، وہ سراپاِ رحمت ، وہ عین رحمانی ، وہ نور یزدانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ طہٰﷺ ، جن کی تجلیات نے بطحا کی وادیوں کو روشن کردیا ہے ، جن کا احساس دائمی ہے ، دل جن کے آنے مجلی ، مطہر ، مطیب ، منور ، منقی  ہوجاتا ہے ، انہوں نے درد کو سہا ہے ، وہ محبت جو خالق نے اپنے محبوب ِ خاص ﷺ کو دی ، وہی محبت عام کردی آپ نے یعنی کہ بانٹ دی ، خالق کی عنایت تو خاص کر دیتی ہے ، نبی ﷺ کی نظر سب پر یکساں پڑتی ہے ، ذروں کو آفتاب کردیتی ہے ۔

وحی ‏

غارِ حِِرا، جبل النور میں واقع ہے. کہساروں سے بھرپور وادی میں وحدت کا نظّارہ کرنا مشکل نہ تھا! اللہ کی دید کی ابتدا سے پہلے علم یعنی نور کی جانب رجوع ضروری ہے. آنکھ متصور اس وقت کے گھڑیال پر ہے، جب چودہ صدیاں قبل اک نفس سجدہ ریز رہا اکثر، یہ قیام حرا کے غار میں اور سجدے آیت دل منور کیے دیتے، لڑیاں آبشار کی مانند آنسوؤں کی بہتی ..وہ پاک صفت نفس، لاجواب تڑپ لیے ..خدا کو دیکھنا کمال دیکھنا    .... وہ الوہی صفات کا جامے پہنے  نفس سفید لباس میں موجود خُدا کی دید کی خاطر سب سے الگ تھلگ ہوگیا ..... 

غار میں مقیّد، سپیدی نے رات کا پردہ چاک نَہیں کیا تھا مگر غار بقعہ نور بنا ہُوا تھا ، نور محل بننے جارہا تھا... فلک پر نوریوں نے یک سکت دیکھا تھا  پھر خالق کو سجدے میں واپس پلٹ گئے، اسی اثناء میں جبرئیل امین غار حرا میں وحی لے کے آئے!  نور سے دل بھرنے جارہا تھا ....




جبرئیل امین آگے کو لپکے، سفید روشنیوں نے غار کو ایمن بنا رکھا تھا .... آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اک حال میں فرماتے "امی پر ہوتا نَہیں عیاں " جبرئیل امین آگے بڑھے،  سینے کو سینے، قلب کو قلب سے، روح کو روح سے معطر کردیا .... اب جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اقراء پڑھا

اس کی گونج پتھر پتھر کو پہنچی .... بس پورا غارا جھک کے مسجود ہوگیا. ...آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر لوٹے تو گھبرائے ہوئے تھے، خشیت سے آنکھ وضو میں ..... زملونی زملونی .... آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا....

میرے نفس کی ریا کاری دیکھیے، قران کا لفظ لفظ پڑھا مگر لفظ اقراء کے مکارم نہ کھلے .... پڑھتی کیسی؟ قران پاک کے لفظ عام تو نہیں ...دل کو پاک کرنا، نفس سے جان چھڑانا آسان تو نَہیں .... منافقت اس طرّہ پر کہ دل خیال کیے بیٹھا ہے اس کو قران پاک پڑھنا آتا ہے!  دل کی ریاکاری پر تف!  دل کو ملامت صد ہزار!  اس ملامت کے پیچھے ریاکاری چھپی ہے جسکو سمجھنے کے لیے دل میں جھانکنا چاہیے .... یہ اک کیفیت مکمل مل جائے تو دل تقدس میں ڈھل جائے!  وضو ہو جائے دل کا ...نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مکمل زمانہ متصور ہو جائے      ......  کیا چاہیے ...کبھی کبھی جب دل بہت بے چین ہوجاتا ہے تو اک منظر سامنے آجاتا ہے ....طائف کی سرزمین ....پتھر برسنا ...خون کا گرنا ...زمین کا لہو لہو ہونا ..وہ رویت بے مضطرب کن جب دعا کو ہاتھ اٹھنے ..شرم سے دل کا جھک جانا ..پتھر کھا کے دعا دینے والے، میں نفسی نفسی میں ڈھلی مورت..کاش  ڈھل جائے،میری  سیرت  مکمل،  کامل، اشکوِں سے  نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مناظر دیکھتے دیکھتے

لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے قران کا نزول،  علم صدر در صدر  کیسے پھیلتا ہے ....لازم ہے ہم کو ملے گا اشکوں کا تحفہ ...لازم ہے ہم حال سے مغلوب ہوتے سہیں  گے سب ستم، مسکرا کے کہیں گے مرحبا یا سنت!  مرحبا یا سنت!  مرحبا یا سنت!  

تلاوت ہم بھی کرین گے واتبتل ہوکے، تبتیل والی کیفیت پر ہم بھی رہیں گے ...اللہ پاک کا نور  تصور غالب رہے گا .....، ہماری ذات اور وہ رہے گا ہر جگہ موجود .

پری ‏چہرہ ***

جتنے الیکڑانز کائنات کے مدار میں ہیں، 
جتنے سورج کہکشاؤں میں ہے، 
جتنے دل زمین پر ہے 
اے دل!  قسم اس دل کہ سب کے سب انہی کے محور میں یے 
جتنی روشنی ہے، وہ جہان میں انہی کے  دم سے ہے 
لکھا ہے نا، دل، دل کو رقم کرتا ہے 
لکھا ہے نا، جَبین سے کَشش کے تیر پھینکے جاتے ہیں
لکھا ہے نا،  سجدہ فنا کے بعد ملتا ہے 
اے سفید ملبوس میں شامل کُن کے نفخ سے نکلی وہ  روشنی
جس روشنی سے لامتناہی کائناتوں کے دَر وا ہوتے ہیں 
تو سُن لیجیے!  

ان سے نسبتیں ایسی روشن ہیں، جیسے زَمانہ روشن ہے 
جنکی قندیل میں رنگ و نور کے وہ سیلاب ہیں کہ سورج کا گہن بھی چھپ سکتا ہے اور چاند اس حسن پر شرما سکتا ہے

وہ ا روشن صورت درد کے بندھن میں باندھے  اور خیالِ یار کے سائے محو رکھتے اور کبھی کبھی فنا میں دھکیل دیتے ہیں

تو سُن لیجیے! 
تو سُنیے، خاک مدینہ کی چمک کا اسرار
مہک و رنگ و نور سے نگہ سرشار 
روئے دل میں آئے صورتِ یار بار بار 
کرے کوئی کیسے پھر اظہار 
وہ مصور کا شہکار   

جب کوئی خیال میں جھک کے قدم بوسی کرے تو فَلک کو  جھک کے سَلام کرتا پائے!     
محبت میں کوئی نہیں تھا، وہی تھا ..
یہ خاک کچھ نہیں،  وہ عین شَہود ہے 

ہم نے مٹنے کی کوشش نہیں کی کہ  یاد کرنے کو وہ پانی زمین میں شگاف نہیں کرسکا ہے وگرنہ کیا تھا فنائیت میں "تو باقییست "کا نعرہ لگاتے رہتے ....

اے زاہدہ، عالیہ، واجدہ، مطاہرہ، سیدہ، خاتون جنت! 
کتنی عقدیتوِں کے افلاک وار کے کہتی ہوں .... سلام 
اے آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتنے دل یکجا ہوتے ہیں، کڑی در کڑی در سلسلے سے مل کے سلام بھیجتے کہتے ہیں کہ جلوہ جاناں پر لاکھوں سلام

مصطفوی چراغوں کی تجلیات دِیے، شبیر و شبر کی کنجی
 
کتنے مومنین کی بنات آپ کے  پاس آنے کو بیقرار ہیں،  روح صدقہ ء جاری پانے لگے گی اور کہے گی کہ نواز دیجیے، 

جب کوئی چہرہ ماہناز کو دیکھے  تو جذب کتنی کائناتوں کے در وا کرتا ہے ... وہ کائناتیں لیے ہیں 
وہ حجاب میں عین نمود ہیں........
لن ترانی سے رب ارنی کے درمیان ہستیاں بدل دی گئیں تھیں مگر اے نور حزین! فرق نہ دیکھا گیا، جب زمین میں شگاف پڑتا ہے تب کچھ نیا ہوتا ہے ...میرے ہر شگاف میں  نمود ہے،

یہ  کمال کے سلاسل میں تمثیل جاودانی ہے کہ رخ زیبا نے دل مضطر کے تار ہلا دیے ہیں، مضراب دل ہو تو کتنے گیت ہونٹوں  پر سُر دھرنے لگتے ہیں، کتنے دل جلتے گلنار ہوتے یقین کی منزل پالیتے ہیں اور دوستی پہ فائز ہوجاتے ہیں ..

صورت شیث میں موجود   یعنی کہ حق کا جمال کتنا لازوال ہے، تحفہ ء نَذر بعد حاصل اک دوا ہے ... 

میں نے ساری کائناتوں سے پوچھا کون مالک 
کہا اللہ 
میں نے پوچھا کون میرا دل؟
کَہا بس وہ، بس وہ، بس وہ

بس میں نے فرق سیکھ لیا ہے مگر فرق تو وہی ہے جسکو میں نے کہا ہے، درحقیقت اک رخ سے تصویر دیکھی کہاں جاتی ہے.

یہ دل جھک جاتا ہے تو اٹھتا نہیں ہے 
پاس دل کے اک نذر کے کچھ نہیں کہ یہ لفظ ادعا ہیں ..یہ دل سے نکلتے ہیں تو دعا بن کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ...

میری آنکھ سے دل کے نیل دیکھے؟
دل کے نیل پہ افلاک گواہ ہیں 
جی ان سے خون رس رس کے ختم ہوا کہ جدائی کی تیغ نے جان نکال دی ہے اور سارے وہ پل،  جن سے کھڑا رہنا تھا، بیٹھ گئے ہیں 
وہ کشتی جس کے بادبان طوفان لے جائے وہ کیسے چلے 
بس کشتگان رہ وفا نے لکھی ہے تحریر کہ بتادے بنام دل حیدری آواز یے کہ وہ ہیں،  ہاں وہ نقش رو ہیں،  پری چہرہ روبرو ہے ...

فریاد ***

آج خود سے بات کرنے کو دل ہے، خود تو خود سے بچھڑ گیا .....،  اسکا درد کون جان پائے!  ہائے رے میرا دل،چُنر رنگ دی گئی  اور بے رنگی دی گئی! 
اِلہی ضبط دے، ورنہ قوت فغاں دے 
نالہ ء بلبل سننے کو، جہاں کو تاب دے 
باغِ گلشن سے اجڑ گئے سب پھول
تاج یمن سے اجڑ گئے سب لعل
قریب مرگ جان نوید جانفزاں آیا 
وقت مرگ مرض نسیاں کے طوفان نے عجب شور مچا رکھا ہے، کاٹ دیا گیا سر،  برہنہ تھی تلوار اور خون بہہ رہا تھا ... 
الہی ماجرا ء دل دیکھ کے اہل عدن رو پڑے 
یہ تری حکمت کی فصیل تھی، جرم تھا کڑا،   

باغ رحمت کے پاس کھڑی ہوں اور وہ کان لگائے ہمہ تن گوش ....
بَتا درد دیا تو قوت درد بھی دے 
یہ درد تو مرگ نسیاں ہے!  
کھاگیا بدن، پی گیا لہو،  کھنچ گئی رگ رگ ...
پھر ترے پاس کھڑی پکارتی رہی 
الہی درد دیا تھا تو تاب ہجر بھی دے 
وحشت دی ہے تو لذت مرگ بھی دے 
ملیں ترے وصل کے اشارے،  ملن نہ ہو 
ڈھونڈو ملنے کے بہانے،   بات نہ ہو!  ....
الہی، محرما نہیں کوئی ...
الہی،  روشن شب فرقت میں دیپ جلے ہیں 
الہی،  دست وصال لیے،  دست کمال ملا ہے 
الہی،  ہجرت کے درد نےاور ہجرت فزوں کردی 
الہی،  آشیاں تباہ ہوا، بنا تھا،  پھر بگڑ گیا   
الہی،  داستان غم لکھی تو نے، سناؤِں میں 
الہی، مزے تو لے اور درد کا گیت گاؤں میں 
الہی،  کچھ تو نگاہ کرم مجھ پہ کردیتا ہے 
الہی، یا تو لمحہ وصال مستقل کر، یا درد سے فرار دے 
الہی،  اشک تھمتے نہیں،  زخم بھرتا نہیں،  رفو گر کا کیا سوال؟  
الہی،  شدت درد نے مریض کردیا ہے،

ایک فریاد  وقت ِصبا سے!
ایک بات،  اک دل کی لگی کا قصہ  
اے وقت نسیم! 
سن جا!  محبوب کو بتانا 
ادب سے،  
ملحوظِ ادب کو سجدہ کرنا اور مانند رکوع نماز قائم کرنا 
یہ عشق کی نماز ہے ....! 
کہنا،  جب سے میخانے کا رستہ ملا ہے،  جام جم یاد نہ رہا،  جب سے دیوانہ بنایا ہے،  آپ کا نقشہ ہی یاد رہا،  
قرار نہیں ہے،  فرار نہیں ہے،  تپتا تھل ہے،  آبلہ پا!  کیا کروں؟ 
زخم رَس رہے، کوئے اماں کیسے جائیں؟
ہجرت کے نِشان ڈھونڈنے کَہاں کَہاں جائیں؟


یہ کسی کی سرگوشی جو سنی ہے دل نے!  
حکم الہی اور احساس کی تلوار 
یہ دی جاتی ہے اور رگ رگ سے جان نکالی جاتی ہے... یہی تلوار ہے جو پیوست رہے تو دمِ ہجرت میں دمِ وصلت کا احساس فزوں ہوجاتا ہے. اسی احساس کی روشنی میں ملاقات طے پاجاتی ہے!معجز نور کے سامنے کی بات ہے اور بات ہی چلتی ہے.احساس دل چاک کرتا ہے اور دل پر شوق کا رنگ کچا ہو تو محویت کا جام کیا سب رنگ پکا کردے ....
احساس کی صدا سنائی دیتی ہے! 
تجھے شوق سے دیکھوں ،  تو کدھر؟ 
میں تو گم ہوں،  نہ جانوں کدھر،  
یہ شوق احساس جو مانند شمع جلایا جائے اور جس کی مہک مانند اگربتی پھیل جائے ...
یہ معطر خوشبو ہے!  اس دھواں کی مثال عنبر و عود کی سی ہے! 

  قسم شب تار کی، ناز حریماں پہ سب تارے لٹا دوں،  شمس کیا،  سب آئنے محویت کے یکجا ہوکےٹوٹ جائیں گے اور کیا چاہیے؟
احساس سے کہا جاتا ہے جواباَ

دل کی لاگی ہے، نبھانی مشکل ہے 
ریشمی رومال سے لاگ کا سوال ہے
 
ریشم ریشم دھواں ہے،  دل میں لرزتا رواں رواں  ہے،  ... کیسے دل مطہر و پاک ہو؟  مصفی ہو؟ معجل ہو؟

او صاف صفائی دل دے کرئیے تو رب مل جانداں اے 
جنہاں کیتی  نیک کمائی اونہاں نوں رب مل جانداں اے

بہ ‏عنوان ‏درد *|*

درد سے ہلالِ نو کی تخلیق 
حسن سے گل رو کی تخلیق 

صاحبو!  دل تھام کے رکھو. تھام کے دل دھک دھک کی صدا میں یارِ من کی پُکار سُنو! حسرت ہے یارِ من کی سنی نَہیں. خلوت جلوت میں یار من نے سنایا اک قصہ. اک درویش روٹی کھا کے اللہ اللہ کی ضرب لگاتا ـــ اللہ اللہ جاری ہوا کھانے سے ـــ درویش نے پوچھا ـــ مرے پیٹ میں پُکار کیسی 
اس نے کہا 
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین 
درویش نے کہا:  تجھے خدا نے محفوظ رکھا تو آہ و بکا کیسی؟

جوابا وہ گویا ہوئی ـــ وادی ء من کے سیپ جب خیال میں ڈھلیں تو آنکھ حیرت زدہ، دل پگھل جائے. اگر میں محفوظ رہی تو تری معرفت مجھے جلا دے گی ... تب و تاب کو سہنے کا حوصلہ تو پہاڑ میں نہیں ... اسکے بعد درویش نے روٹی کو خود سے الگ کرلیا اور  یکسو ہو کے متوجہ ہوگیا ...توجہ کے بعد نہ خرد رہی نہ جنون رہا ـــ نہ فراق کا نوحہ ـــــ نہ وصال کا قصیدہ ..اک موسم چھا گیا 
الحی القیوم 
لا تاخذہ سنتہ ولا نوم 
بس مرگیا ـــ وہ مرا نہیں تھا

دردِ زہ کے بعد تخلیق ـــ یہ میرے حرفِ نو ـــ جن کے خمیر میں تری چاہت کے رنگ 
مرے کوزہ گر!
تو کَہاں ہے؟
میں نے ویسے زمین کو درد دیا، جیسا پاؤں سے بہتا لَہو عیاں ہے 
دردِ زہ!  
تخلیق!
اک منجمد پانی سے نئی روشنی 
اک برق سے نئے اشجار 
اشجار سے برقِ نو 
درد زہ!
پتھر صم عم بکم 
درد زہ!  
وجلت قلوبھم کی مثالیں کھالیں نرم 
دردِ زہ!  
شر البریہ سے شیطان ــ
خیر البریہ سے انسان ـــ 
درد کے چہرے میں رحمان 
تخلیق کا رنگ صبغتہ اللہ 
سنو چارہ گر 
اک بار ملو 
حرف سے بات کرو 
لفظوں کی سازش پکڑو 
سانس کی مالا میں روشنی ہے 
حریص ہو جاؤ ایسی مثال 
رحمت کے لیے حریص
کرم کے لیے،  فضل کے لیے

درد زہ!  
زمین ہلا دی گئی
نکل رہا زمین سے شر و خیر کا تناسب ...نکل رہا ہے،نکل رہا ہے ... 

ستارے سے ملو!
روشنی ہو گی 
آبشار کے طریق بہے گا وہ لافانی چشمہ ..جس میں پربت والجبال اوتاد سے والجبال نسفت کی مثال ہوں گے 
تری کیا مثال ہوگی!  
ماں صنف سے بے نیاز رہی ــــ 
ماں بے نیاز یے ـــ
ماں لا محیط یے
تخلیق سے نیلگوں مادہ وجود!  
اے عینِ ظہور بتا!  
درد کتنا سہا؟
بتا ترے آنگن کے سیپ کس کو ملیں 
ملن واجب ...ملن واجب ...ملن واجب 

 .لاشریک  لہ  ــ  خود کی نفی  ... جہل کی نفی  ...علم میں اضافہ ہوگا ــ تسلیم کا اثبات

تلاش ‏کا ‏سفر ‏۲ ***

قبیلہ قیس سے بنو مضر تک ایک شخص ایسا تھا جس کو رب سے بہت پیار تھا. حق تو یہ ہے کہ وہ رب کا دلارا تھا ...جس کے پاس بھیڑ بکریاں سکون سے پھرتی رہتی تھیں،   جس کی نماز حضورِ یار بنا نامکمل رہتی تھی ...وہ جس کا دل بنا کسی تحقیق کے، بنا کسی جستجو کے براہ راست حقیقت سے استوار ہوگیا ...جسکو شک نہ تھا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ..جسکی محبت پر اصحاب کو رشک آیا تھا .....سیدی اویس قرنی ...کیا کیا عاشق رسول ہیں ...کیا کیا عاشق رسول ہیں.   حبِ رسول سے روح جسکی گندھ جائے، وہ مہک جائے،  مدح و توصیف میں بہہ جائے، وار تیر و خنجر کے سہہ جائے، قاتل تلک  کو عفو کا سندیسہ دئیے جائے،  یہ چمن ہستی کے چمکتے چمکتے سرخ، نیلے پیلے،  ننھے ننھے سے پھول،  ان سے رنگِ گلزار دیکھیے،  سارا عالم بہار دیکھیے،  چہرہ یار دیکھیے، آنکھ ہو تو بار بار دیکھیے،  دل سے دل کے وار دیکھیے،  دیکھیے، شہِ ابرار دیکھیے، آنکھ تو  ہے، اشکوں کے ہار دیکھیے،  جبین جھکے تو اظہار دیکھیے،

وہ سرحدِ شام سے فارس کی سرزمین سے اک جوان روحی روحی، قلبی قلبی منور نکلا حق کو ..اک کوچہ ء جاناں سے دوسرے کوچہ ء جاناں تک،  سرحد ہا سرحد کے فاصلے طے کرتا،  جسکے پاؤں کی زنجیر اسکو ہلاتی، تڑپاتی اور وہ چلتا سمتِ یار کی جانب،  وہ گلستان عرب میں رسول مدنی کا ظہور .............تڑپتا، سسکتا اک کوچہ ء جان سے دوسرے تک سفر کرتا رہا " رہبری قافلوں سے مانگتا،  نشانیاں جوڑتا، ملاتا، دل کے تار سے وقت کے ملاتا اور مشیت کے تقاضے سوچتا،  جس کے دل میں نور حزین نے سایہ کررکھا تھا، وہ جسکی روح صدیوں کے حائل فاصلوں کو عبور رکھنے کی اہل تھی ، جانب حجاز مگن، تھا سر پہ گگن، کیسی تھی یہ لگن، دکھا اسے جو سجن، سوچا ہاشمی ہے مگر ہے مگن،  ستم نہ کہ کرم مگر شرفاء سا چلن،  فارسی تھا مسکن،  مہر نبوت دیکھ رکھی ہے، سیدی کی کملی پہن رکھی ہے، چمن کی خوشبو بھلی ہے، ،  رخ سے دور اندھیرا،  کسی کی عید ہوگئی،  آقا کی دید ہوگئی،  زلف محبوب کی اسیر ہوگئی،  نغمہ گل سے مڈبھیر ہوگئی، شمس کی کیا تدبیر ہوگئی،  غلامی کی تطہیر ہوگئی، مدحت نبوی شمشیر ہوگئی، قالب میں قلبی تمجید ہوگئی، گگن سے لالی نے جھانک لیا،  دل تھا جو مانگ لیا،  

ہوا سراسرئے، یا محمد
پتا پتا لہرائے، یا محمد 
سماوات نے کہا یا محمد 
زمین بول پڑی، یا محمد
چمن در چمن، یا محمد 
کلی درثمن ، یا محمد
گل لحن میں، یا محمد 
رب کی صدا،  یا محمد
القابات سے نوازے گئے 
مزمل سے ہوئی ابتدا 
مدثر سے کلی کھلی 
طٰہ سے حقیقت پائی
یسین سے دید پائی 
احمد بھی، محمد بھی 
الف اور میم کا سنگ 
شمسِ ہداہت کی کملی 
بشر نے تحفتا ہے پائی
بدلی رحمت کی چھائی 
زندگی کی یہ کمائی ہے 
آنکھ کیوں بھر آئی ہے 
قسمت رشک کرے ہے 
فلک آنکھ بھرے جائے 
میرے باغ میں دو پھول.
نام محمد سے ہوئے ہرے 
بوٹا امید کا کھِلتا جائے 
پیار جیسے ملتا ہے جائے 
شمع کو طلب پروانے کی 
جگنو کو طلب بوئے احمد

حق کی تلاوت، سلمان
تڑپ کی سعادت، سلمان 
گل قدسی مہک، سلمان 
جمال کی انتہا، سلمان 
محبت کا ایمان، سلمان
آنکھ کا وضو،  سلمان 
قفس میں اڑان، سلمان
ساجد کا وجدان، سلمان 
ذات با ریحان، سلمان 
محفل کی جان سلمان 
محشر کی روداد، سلمان
حجر کا آستان، سلمان 
عقل با رحمان، سلمان

سلمان کا پوچھتے رہیے، نام سلمان  رضی تعالج عنہ نے طرب بجا رکھا ہے، کمال کا نام سجا رکھا ہے،  سعید با سعد بنا رکھا ہے،  کشف در ححابات بہ ایں حجاب سلمان،  صلیب سے یکتائی کا سفر ہو،  یا ظاہر سے بباطن کا تماشا،  اک واحد یکتا کی داستان ہیں سلمان ..فخر بوترابی، لحنِ داؤدی ہیں،  تڑپ میں اویسی ہیں،  رفعت میں خضر راہ،  کعبہ شوق دیکھنے آئے، دیکھتے ہی کلمہ پڑھ آئے،  قریش کیا بھلا سوچیں،  غیب کی داستان پہ ایمان لائے گویا عدم سے حقیقت کو وجود میں لائے، حقیقت رسا کلمہ سلمان،

تلاش ‏کا ‏سفر ‏۱ ***

تلاش کا چَمن اَزل سے مہکتا رَہے گا، زَمن دَر زَمن کا سلسَلہ ہے. جستجو مانندِ گُل ہستی کا نور ہے اور حرفِ جستجو خیالِ پیرِ کامل ہے. حرفِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دل میں نمو پائے تو گویا بندگی کا جوہر نمو پائے. یہ عدم و موجود کے تعلق کا ایسا نقطہ ہے کہ انسان اس بن بہت ادھورا ہے. 

 

قبیلہ ء غفار میں ایک شخص ایسا رہا ہے جس کے دل میں اسکی پیدائش سے ہی الوہی چراغ نے نمو پالی تھی. وہ بت گروں کے قبیلے میں رہنے والا واحد فرد جس نے ہاتھ سے بَنائے ہوئے اصنام کی پرستش کرنے سے انکار کردیا تھا. قبیلہِ غفار اس سردار بچے کی عقل و دانش پر ماتم کُنان اور مشکک کہ وہ کیوں بتخانے نَہیں جاتا. یہ بچہ جوانی کی سرحدیں پار کرتا ہے تو اس کی زبان پر یہی کلمہ ہوتا "فثمہ وجہہ اللہ " دل میں پیر کامل کی آمد نے اخبار نشر کر رکھا تھا اور وہ نوجوان آنے والے تجارتی قافلوں سے پوچھا کرتا تھا کہ منبعِ انوارِ خشیت،  مہر رسالت و نبوت کی خبر دو! ایک دن  تپش سے بیحال ہوا،  اس قدر کہ چاکِ گریبان کیے عازم مکہ!  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بنا لیت و لعل حلقہ بگوش اسلام ہوئے!  اس وقت بہ آواز بلند کلمہ پڑھنا جرم تھا اور خون کے پیاسے،  مظالم کے بہانے ڈھونڈنے والے بیشمار!  جناب بوذر غفاری کو منع کیا گیا باآواز بلند کلمہ پڑھنے کی! وجہِ تسمیہ مظالم سے بچانا تھا، مسلمانوں کی حالت ابتر تھی مگر یہ جوان خانہ کعبہ میں داخل ہوتا ہے اور قریشی حلقوں میں بیٹھے  مصروف عبادت، بتوں کی ! ایک آواز ان کے کانوں میں پڑی، یہ بلند آہنگ آواز ایسی کہ سیسہ پلائی دیوار کو چیر دے اور تیقن سے بھرپور کلمہ پڑھنے والے بوذر غفاری گھیر لیے گئے . لاتوں، گھونسوں اور پتھروں کی برسات میں خون سے لت پت وجود نے مصمم آواز میں کلمہ پڑھا اور تواتر سے پڑھا،   خون بہتا رہا،  زبان،  دل بہ آہنگ بلند لا الہ الا اللہ کہتے رہے  اور اس تکرار پے کفار کی مار کی تسلسل! بس جان کنی کا عالم اور ایمان مصصم کا عالم کہ زبان سے کلمہ نہ چھوٹا،  پیرکامل کی نظر نے دنیوی غم بھلادیے اور جلوہ دے دیا ... پیرِ کامل میل دل کے دھوئے اور یقین کی وہ طاقت دے کہ جس سے سنگلاخ چٹانیں ریزہ ریزہ ہوجائیں. 

ملائک سے "سماوات " مخاطب 
مولائے کائنات سے "آپ " مخاطب
یوں سلسلہ ہائے نور در نو.چلا 
عرش سے نور فرش تلک  چلا 
زیست کے سفر میں کفر اضافی 
اللہ کے بندے کو اللہ ہے کافی 
ان کا سایہ ملے، بدلے گی کایا 
اسمِ محمد جہاں پر ہے چھایا
کلمہ حق کی استمراری زبان ہے 
نام محمد تو اللہ کی گردان ہے 
حق نے سج دھج کی مثالِ میم 
کائنات مسکرائی  مانندِ شمیم 
یہ وار، محبت کے تلوار سے کاری 
نعت لکھنے کو کیفیت سی طاری 

جاری ہے .......