Saturday, February 27, 2021

بُت ‏****

میں روح تو نہیں خالی!  صدا بُت میں حاوی ہے. دل مجھ سے مخاطب ہے اور میں کس سے مخاطب؟  میں نے خود کے روبَرو ہونا سیکھ لیا ہے. میں اس شوق میں عالمین کو ٹکرے ہوتا دیکھ رہی ہوں. میرے عالم مجھ پر حیرتوں کے افلاک توڑ رہے ہیں. کہا جاتا ہے 

اپنا شوق سنبھال لے!  
شوق کیسے سنبھل سکتا؟
بس بکھرگیا ... 
کانچ تھا کیا؟
کیوں ٹوٹ گیا؟  
گرتے شیشے کی آواز!
بس تو!  
آوازوِں کے آئنے مرے متعقب 
میرے ہونے کے گواہ!  
میں ہوں کس پر گواہ؟  
کسی نے کبھی کہا تم کو مبارک ہوگا سفر؟

دی تو گئی تھی بَشارت 
مگر بھول جانے کی عادت تری ... .


بت ٹوٹا ہے 
روح ناچی ہے 
شادی کی وادی ہے 
اللہ سب کا ہادی ہے 
جذبِ مناجات 
جذبِ حقایات 
مکی بات 
مدنی حال 
امکان میں مکان 
مکان میں امکان 
عکس جبروتی 
آئنہ لاھوتی 
کامل سرکار.
سچی سرکار.
ان گنت درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر

سنگِ در نبی ہوں اس لیے وہیں پر ہوں. سنگ کو اشارے ان کے تحریک دیتے. سنگ مجال نہیں کرتے  اس لیے محفل ادب کی خاموشی طاری ہے. یہ غار حرا کی وادی ہے. وادی میں شادی ہے.

 جذب میں مناجات. 
جذب میں حقایات 
حذب میں احادیث.
جذب میں التجائیں. 
مل رہیں ہیں قبائیں


انجذاب کے قاعدے میں قیود نہیں ہیں  تو شہود بھی نہیں ہے. وجود ہو کیا؟  یہ ادب کی محفل ہے. سرر جہاں ہے طاری،  آگئی ہے مری باری،  دل میں کی گئی اخیاری،  رات سے بات مری ہوئی. رات نے کہا رات میں صبح آرہی ہے. عجب بات!  یہ عجب بات ہے مگر صبح و رات کا سنگم ہونے لگا ہے


کنجری ‏دا ‏کوٹھا ‏****

کنجری کا کوٹھا 

اک سانولے سی رنگت،  درمیانی عمر کا شخص مجھ سے ملا اور کہا کہ چل بلاوا آیا ہے. میں نے پوچھا کہ کہاں سے آیا؟  

کہا: شاہ نوران و شاہِ ہادی نے بُلایا 

میں نے بکل ماری اور بکل کا چور دیکھ کے چل دی. راستے میں کنجری کا کوٹھا پڑھتا ہے. میں وہاں رُک گئی تو وہ صاحب بولا: کنجری کے کوٹھے پر ترا کیا کام؟  

میں نے اس صاحبِ شریعت کو بغور دیکھ کہا:  آپ ٹھہرو ابھی، میں آتی ہوں .... 

میں سیڑھیاں در سیڑھیاں چڑھ رہی تھی تو نیچے والے انسان بونے دکھنے لگے  بونوں کو دیکھ کے میں نے کوٹھے میِں داخل ہوتے ساعت کسی طوائف کو درد میں گاتے سُنا 

میں نے اس سے پوچھا تم کو درد کہاں سے ملا؟  

اس نے کہا شاہ نوران نے درد کے پہاڑ دل میں اتار دیے ہیں.

میں نے کہا تم مجسم پاکی ہو اس گندگی میں کیا کر رہی ہو 

کہنے لگی تم مجسم پاکی، گندگی تمھاری اندر کیا کر رہی ہے؟

میں تو گر گئی اس کے قدموں اس نے چور پکڑ لیا تھا میرا ...

کہنے لگی مدینے جانا ہے؟  مدینے والے نے تو ایسے بلالیا مگر خود کچھ تردد نہ کیا؟  

میں نے کہا تجھ سے ملاقات بھی تو لکھی تھی نا 

کہنے لگی،  ٹھہر جا   ذرا مرا درد سن جا. تجھ کو درد کا رسالہ دیتی ہوں وہ دے دینا شاہ نوران کو 

اس تن ناچے مور 
پیا بھاگوں کس اور 
مورے بھاگ جاگن 
جاگ گئی جوگنیا 
پیا،رے!  پیا،  رے! 
نظامی سنگ دل میں 
عاصی کے کنگن ہیں 
لبِ شوخ پر یہ نام؟
اللہ بنا دے مرا کام 
حاضری کا ہو انتظام 
درد میں جھوم ناچوں 
تماشائی دیکھن لگن 
کہون،  حسن ڈلدا اے 
رنگ سوہنے ہادی دا اے 
لہر لہر خراماں مہک ہے 
رگ رگ میں اک دہک ہے 
مورا ساجن،  پیا رے، 
اکھیاں وگاندی نیراں 
ہل گئی اے پتھر دی سل 
یار میڈا،   آ مینوں مل 
سج جاندی راتی محفل 
مئے مستی دی اے ہے کَل 
لوں لوں ہجر دے وچ شل 
اگ دی ماری شوکاں مارے 
صد بلاوو،اج بلاوو،پےبلاوو
اکھ ملاؤو،  بار بار ملاؤو 
بہاراں دی مچ جاوے ہلچل 
عشق وچ بلدی پئی  سچل 
دیوے بلدے تیل دی اے کل 
حرفِ دل وچ سکون دی گل


یہ غم کا دیا جو اس کنجری پاکدامن دل نے مجھے تھمایا، مجھے چکر آگئے. یہ غم مجھے بیہوش کرگیا تو وہ زندہ کیسے ہے؟  غم کیسے اٹھاتی پھرتی ہے وہ؟ میں وہاں سے چل تو رہی تھی مگر بدل رہی تھی. کنول کیچڑ میں ہو سکتا ہے مگر گلاب میں گندگی کیسے ہو؟ میں سیڑھیاں سے اتر رہی تھی تو اس صاحب شریعت سے کہا 

بھائی تو اب چل! میں کلی جاواں گی،  اتھررواں دی اے گل. تینوں سمجھ نہ آوے گی دلاں دی اے گل. سچل سائیاں مینوں یاد دلاون گے کہ سچی بات سچیاری اے  دل وچ اگاں دی لاری ہے .کَلّی جاوواں گی مدینے، ظاہر دی گل ظاہر وچ مک گئی اے  دل دی گل،  دل وچ چلدی پئے اے. ہن تیڈی لوڑ نئیں مینوں

پانی ‏لے ‏لو ‏! ‏*****-*

جوگن کا سوانگ بھرلیا.
جوگی فر وی ملن نہ آیا 


جوگی ملن نَہ آیا،  او بیٹھی رَی صحرا وچ. ہستی دی بستی وچ رنگ نہ رَیا. مستی کتھوں لبدی؟  او چلی چولا گلابی پا کے، کہندی رہی 

اے سہاگ دی علامت ہے 
اے رات   دی علامت ہے 
روحاِں دی گَل جانڑوں گے؟
پیمانہ اِک، خیال دو نیں 
دو، اک ہوئے، جوگ کاہے؟
مورے رنگ دا سرمہ اے 
اکھ نُوں اَکھ مِل گئی اے 
سجن دی گَل مل گئی اے 
جوگنیا بھیس بدل کے گئی 
جوگی جانے کتھے رہ گیا

اجمال میں جانوں کہ گل مک گئی اے.    شادی دی گل اے کہ وصلت دی باتاں وچ ذات دا سارا کھڑاگ اے.

ذات لُکے،  ذات کُھلے 
ذات منگے،  ذات دووے 
ذات آوے،  ذات جاوے 
ذات دوات،  ذات قلم.
ذات لکھے،  ذات لکھائے 
ذات نغمہ،  ذات بانسری 
ذات جمال،  ذات جلال 
ذات کول بیٹھا ملنگ اے 
رنگ وچ مست مدام اے 
شاوواں دی چاکری کیتی 
شاواں نے نوکری دتی اے

جوگ نہ رہیا کوئی!  جوگی وچ ذات کھلی اے!  جوگی تے جوگنیا نہ آکھو کوئی  ذات حاضر تے غائب نیں عکس. آئنہ ہستی وچ آئنہ دی رویت اے  کہاوت چلی:  کہون لوکی کملی جھلی دے دل وچ وسدا مدنی ڈھولا اے. شاد کردا دل نوں مکھڑا سوہنا اے، نورانی لاٹاں وچ کون کھلویا اے؟  کھیڈ نہیں کہ سہے آقا دی رخ رخ نے ویکھن کہ ویکھن ویکھن وچ بندہ اے گیا ... ڈوب گئے؟  ہاں ڈوب گئے ..کشتی ساحل کنارے ہے اور ملاح ڈبی گیا ..  سمندر صدا دتی اے کہ اے سمندر وچ کیہ رولا اے؟  قطرہ دی اوقات کیہ قلزم اچ؟  

قطرہ بولا سائیاں ... .
جے مل جاون تے کیہ گل اوقاتاں؟
باتاں گئیاں تے عمل دی ہن سوغاتاں
قطرہ سمندر اچ یا سمندر اچ قطرہ؟ .
کوئ تے لب کے لیائے فرقاں دا جھولا؟

قطرہ فانی ہویا سی؟
قطرہ باقی ہویا سی؟  
نہ فانی کوئ نہ باقی.
وقت دا ایتھے نہ ساتھی 


قطرہ قطرہ بہنے لگا اور بہنے سے آبشار بننے لگی. آبشار نے پانی کے چھینٹے اڑائے تو آبشار سے صدا لگی 

آؤ!  پانی لے لو 
آو!  پانی لے لو


عیب ‏دار ‏------*****

اک دوست ملا جس کا نام عیب دار تھا. میں نے اسے نہیں بتایا کہ میرا نام پاکیزہ ہے اور یہی بتایا گنہ گار نام ہے میرا. عیب دار اور گنہگار تو دوست ہو سکتے. میں اس عیب دار کے عیبوں کو دن رات من میں گنتا رہتا اور خود کو پاکیزگی پر مسند بٹھاتا. میرا وطیرہ عیب دار سے چھپا رہا کیونکہ وہ تو میرے دل میں نہیں جھانک سکتا تھا .... 


ہم دونوں اک دن ولی کے پاس گئے. سنا تھے ولیِ کامل ہیں ... مجھے کہتے 

عیبوں کو گننے سے اپنا کھاتا وسیع ہوجاتا ... اللہ کی مخلوق کم تر جاننے سے پاکیزگی گھٹ جاتی ہے 

پھر دوست سے مخاطب ہوتے کہنے لگے 
.چلو یہ مٹھائی بانٹو  تمھاری دعا قبول ہوگئی 

میں نے کہا کہ مری دعا؟

کہنے لگے کہ اس نے خود کو گِنا اندر اور تو نے باہر والوں کو گنا    ...اس نے سُن لی پاک دل کی 

بس احساس ہوا 
.ظاہر دی پاکی پلیدی.
ظاہر دی پلیدی پاکی 
اندروں نہ کریے صفائ 
نہ ملیا، لکھ کرو دہائی.
خاک جھوٹ دا پلندہ.
سچ سچی تری صورت 
دل صاف تو بات بنی.
محفلِ  حضوری  ملی

اس کی دعا اور مٹھائی --- خالی ہاتھ والے، لےجا اپنی دہائی،کام نہ آئے گی ترے  لڑائی.اگر جہد سے شہادت کمائی،ساری بات پھر سمجھ آئی

ھو ‏الظاہر ‏سے ‏ھو ‏الباطن ‏تلک ***‏

رنگریز کون ہوتا ہے؟  رنگن جوڑا لگ پے سی جے نام اس دا لوو گے. فر تے رنگریز ہویا کون؟  سچ گال ایہو اے کہ رنگریز تے اصل میں آپے او اے ..


ساری خطائیں جب حل کرلیتا ہے ایسے کہ شفافیت بچتی ہے تو آئنے سے کامل سائیں ابھر آتے ہیں  کامل سائیں سچے سائیں ہیں. ان کی شبیہ کا دل ہر ہالہ ہے  وہ الوہی مشفف انوارات سے بھرپور مجلی ہو تو درون سے اُجالا باہر پھیلنے لگتا ہے. لوگ ظاہر والے پر حیرت کناں ہوجاتے ہیں مگر یہ تو درون کی کرشمہ سازی ہوتی جو ظاہر ہو جاتی ہے 

اللہ فرماتا ہے 
ھو الظاہر ھو الباطن 

کامل سائیں بارے یہی بات ہے 
ھو الظاہر،  ھو الباطن 

بس درون سے پیمانہ کا رنگ ظاہر چھلکتا تو اس کے ساتھ مقناطیس پر لوہا چپکنے لگتا ہے. کشش والو!  آو کہ دیکھو قطبی مقناطیس کتنا کشش والا ہے. قطب والو آؤ ..قطب پالو ... قطب سے برقریزی نے ظاہر کیا؟

کیا شعاع شمال و مغرب کی محتاج ہے؟  

شعاع دراصل مرکز سے نکل پھیل رہی ہے لوگ سمجھ رہے ہیں قطب پر الوہیت زیادہ. حقیقت مل جائے تو کیا چاہیے کہ بندہ سچائی ہو جاتا ہے. سچے انسان کے ساتھ سچی ذاتیں ہوتی ہیں. اس لیے نسبتیں حقیقت میں فیض دینے لگتیں ہیں اور لوگ فیض لینے آجاتے ہیں. فیض دینے سے روکنا زیادتی ہے اور فیض تو پھیل کے رہتا ہے. جس طرح خدا کا نور پھیل جاتا ہے اسی طرح نوری شعاعیں متصل آئنہ دل میں ہیئت کدہ ہو کے خوش خصال خوش مقال خوش جمال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل ڈھال لیتی ہیں. بندہ پھر کہاں جاتا ہے. انسان فنا ہو جاتا ہے اور بقا کے در والے سے بقا کے مرکز تلک قافلے والے مل جاتے ہیں. فنا میں داخلہ ہے اور بقا والے ظاہر ہونے والے ہیں
جسم میں اک شعاع رقص میں ہے. وہ شعاع کس لَو سے نکلی ہے. عشق کی جل اٹھی ہے کب سے مگر جلانے کی تیاری تو اب ہوئی ہے. جب تک کالا رنگ نہ مل پائے گا یہ جلاتی رہے گی. اس کالے رنگ پر رنگ کالا چڑھ جائے تو نیلا رنگ کہاں سے اٹھے گا؟  یہ تو کامل سائیں جانیں گے اور سرکار والوں کی مرضی جیسے چاہیں دیں اور جیسے چاہیں لیں. ہم تو نیاز والے ہیں. ہم نے نیاز سیکھی ہے کہ غلام نے سر جھکایا ہے کہ نہ انعام کی لالچ نہ سزا کا خدشہ بس جلوہ دائم رہے چاہے دنیا ساری ادھر کی ادھر ہو جائے ... ذوق یہی ہے کہ کھال اتار لی جائے اور کھال اتر جائے تو کپڑا کے پیچھے کیا بچتا ہے؟  

ھو الباطن سے ھو الظاہر کا سفر ہے.

کسی نے درون میں جذب ہونا ہے 
درون والے نے بیرون والوں کو جذب کرنا ہے 

یہی تو کلمہ ہو جانا ہوتا ہے اساسِ ایمانیات یہی ہے کہ کلمے کی عملی تفسیر کا نتیجہ یہی ہے کہ سب ہیرپھیر کے بعد بچے تو جلوہ ء محبوب

ستارے ‏سے ‏ملنا ‏ہے ‏****

ستارے سے ملنا ہے اور ستارہ ذات میں مانند شہاب ثاقب ٹوٹا ہے. زمین ساری دُھواں دُھواں ہے. عالم ذات میں متعدد آئنے ہیں اور مرے عکس و شبیہات رقص میں ہیں. لاتعداد شعاعوں نے مجھے گھیر لیا ہے کہ آنکھ چندھیائیں دیں.

اٹھو! غازیِ کوئے جناں 
اٹھو! شہید وادیِ حرا 
اٹھو! مرگ نروان جان 
اٹھو! تنگی آسانی مان


فلک سے سیڑھیاں -- میں نے زینہ بَہ زینہ دیکھیں ہیں -- زینہ بہ زینہ رسائل تھما جا رہے ہیں اور زمین مری خبریں ایسے نشر کر رہی ہیں کہ جیسے میں منشور الہی ہے. میں کتابِ الہی ہوں اور مجھ میں حیدری شمیشر رکھی گئی ہے جس کے وارث سیدنا امام حُسین رضی تعالی عنہ ہیں

ستارے کی بات کرنے سے پہلے لمبی رات کاٹنی پڑتی ہے  شبِ ہجرت کا دھواں شبِ وصلت کو جَنم دیتا ہے  اشک کے وظائف سے سجی رات جب صبح میں ڈھلتی ہے تو طٰہ صبح کے اُجالے میں مقامِ ادب ہے. یہ جلال کی عین نمود ہے جو دل میں شَہود ہے. راز میں، وہ وجود ہے. میں کس جہاں میں موجود ہوں؟  یہ جہاں جہاں جاؤں قدسی ہالے ہیں اور نوری دوشالے ہیں. مہکِ گلاب سے فضا سرخ سرخ ہے اور اشجار سلام میں جھکے کہہ رہے ہیں 

امت کے رہبر کو سلام 
شمس الدجی کا سلام 
علیین کی جانب سے ہے 
سلام میں ہوتا ہے  کلام 
بات کرتا دل صبح و شام 

کلام کِیا کیا؟
سحاب کی روشنی ہیں آپ
گلاب کی  تازگی  ہیں   آپ 
آب گِل میں نغمگی ہیں آپ 
کائنات میں زندگی ہیں آپ 
رفتگی میں آسانی ہیں آپ 
الف لام میم ہستی ہیں آپ 
حا میم  کی بندگی ہیں آپ 
وصلت کی چاشنی ہیں آپ

جمال سرکار میں بیٹھی نور کے دِل پر کالی کملی والے کا سایہ ہے. سایہِ دل میں کمال کی فرحت آپ . نور نے شاہا کی بیعت کر رکھی ہیں، ان کی قدم بوس ذات مری ہے اور سجدہ گاہِ دل مرا جزدان بنا اور قران کی روشنی ہیں آپ.

ارشاد ہے کہ اٹھو،  افلاک سنبھال لو،  افلاک میں سواری کرلو اور شبِ وصلت کی تیاری کرلو ... انتظار ختم!  حال زار ختم!

کہا جاتا ہے فلکیات کا نظام پنجتن پاک سے چل رہا ہے اور پنجتن پاک کی خوشبو دل میں بسی ہے

Friday, February 26, 2021

بابا ‏آتش ‏دین ‏***

بابا آتش دین کے گرد ہُجوم تھا. بابا آتش دین اک ماہر طبیب اور کیمیا دان تھا. وہ اکثر آگ سے مختلف قسم کے تجربات کرتا رہتا تھا ... وہ روح کا طبیب تھا. 

 طبیب کے گرد دوائیوں کا مسکن .اس کے پاس کچھ وجدانی صلاحیتیں تھیں اور ان کی کچھ نسخہ جات تحریر کیے جا رہا تھا  .... روح کی کیمیا گری کے نسخہ جات،   خودی میں ڈوب جانے کے مصحف ...

. اک دن مریض عشق اسکے سامنے آیا ، نور سے کامل مگر حیا کی چادر اوڑھے کسی مصحف کلمے کی مانند 

طبیب عشق: دیجیے کوئ نسخہ کہ روگ لگ گیا ہے،  عشق ہوگیا ہے .. 

مریض عشق کو حضرت عشق کہیے کہ وہ مسیحاؤں کے پاس جاتا رہتا تھا .."حضرت عشق "گویا خضر راہ بن کے جانے کتنے بہروپیوں کے سینے کھنگال چکا تھا 

طبیب عشق نے کچھ غور سے دیکھنا چاہا کہ چیخ مار دی ...

یہ وجد تھا    
یہ حق تھا
یہ  قران تھا 
یہ شاہ  ء کیمیا کا اکمل نسخہ 
یہ حادثہ ء عشق کی بربادی کی جینے بعد کا قرینہ 

طبیب عشق نے چادر بدل دی 
یہ روح کی چادر تھی 

"حضرت عشق "نے چادر دی ہی تھی،  طبیب عشق کی روح پرواز کر گئ ...  اب طبیب عشق تو اپنی روح کی تلاش میں گم جبکہ حضرت عشق کی چیخیں .. 
گم تھا رند میخانے میں،  نظر کے تصادم .. ہوئ ملاقات اس سے.   کس سے؟  وہی جو حضرت عشق ...وہی جو طبیب عشق میں ..  
عشق نے دیو مالائ کہانیاں سنیں تھیں کیا؟  گھوم رہا تھا "کسی "کی روح کے بل اور کہے جا رہا تھا 
قلندر کی زیست میں چکر بہت 
ابدیت کے جام بہت،  کام بہت 
شام ہو،  دن ہو،  رات ہو،  دوپہر 
پا بہ زنجیر رقص میں ہے قلندر

طبیب عشق نے حضرت عشق کے ہاتھ کو لگایا ہاتھ کہ جل گیا اسکا اپنا ہاتھ ..... طبیب عشق کا ہاتھ جل رہا تھا اور جلتے ہاتھ سے طبیب عشق نے آگ اٹھائی اور پورے تن من میں اُس کے لگا دی جس نے چنگاری سی دکھادی  .

.    یہی بابا آتش دین کا کام تھا     ....بابا آتش دین تماشا دیکھ رہا تھا جبکہ حضرت عشق جل رہا تھا.. اس لیے طبیب عشق، بابا آتش دین بھی کہلاتا تھا ..  کیونکہ وہ آگ سے کھیلا کرتا تھا ..جلنے کے بعد کیا دیکھا گیا ..

علی کا نقش تھا،  نور میں مخمور تھا.   ع سے عین نور،  ع سے عارف کی معرفت،  ع سے عکس جلی،  ع سے علی ولی اللہ ع....کو دیکھنے میں مصروف تھا حضرت عشق کہ طبیب عشق نے خاموشی سے اسکو دیکھنا تھا کہ تماشائے ہست دیکھتے.   اچانک سے ع عکس جلی نے محمد کی میم کی شکل اختیار کیا .. محمد کے نقش پر دودھ گر رہا تھا گویا کہ نور کی پھوار ہو

    آتش بابا نے آتش بازی کے نسخے اٹھائے اور نقش محمد کے طواف میں وقت  گزار رہا تھا کہ حضرت عشق نے طبیب عشق کو پکڑ لیا،  آگ ساری اسکو دے دی. اب سوچیے کہ  آتش بابا کون؟

یہ عکس تھے،  ارواح ضم ہوگئیں    ...نہ حضرت عشق، نا طبیب عشق ...بس کوئ بابا رقص کرتا رہا ..  
بابائے عشق میں مجلی آیات بھی 
بابائے عشق میں گلاب سے بھرپور ہار بھی 
موتیے کے مہک،  اشکوں کے ہار بھی. 
حسن کی کامل سیرت کے مصحف بھی

یہ آمیزش کیوں ہوئی؟  یہ نا انصافی تھی؟  نہیں ... اک نے ایک کے دو ٹکرے کیے اور دو ٹکرے روگی،  ہجر کی آگ میں جلتے رہے...ابھی تو باری تھی ..ابھی تو ملنا تھا ..ابھی تو جذب ہونا تھا ..ابھی تو ضم ہونا ..دونوں نے اک دوسرے کو حصہ دینا تھا ...

کمال کیسے پاتے ہین؟ اوج کیسے ملتا؟  حادثے کے بعد جیے جانا،  جینے کے بعد جینا سکھائے جانا .... 

آج کوئ کسی خضر راہ سے پوچھے کہ موسویت کی چادر میں عیسویت کیسے نبھاتے، عیسویت کے گل دان میں موسوی کلیاں کیسے کھلاتے تو قدرت کی آتش بازی دیکھے اور بتائے بابا آتش کون؟

بابا آتش دین ۲۰۱۹

رات--** ‏

رات ہے اور رات میں رات نہیں ہے. یہ تو سویرا ہے اور میں کس کو جا بجا دیکھ رہی ہوں ..جلوے ہیں جابجا میرے اور ان میں کس کو دیکھا جا رہا ہے ...

مہک مہک ہے،  رنگ رنگ ہے 
دل تو دل ہے نا،  روشن ہے 
رنگ میں خمار کی مے ہے 
دل میں غم کے لاوے ہیں 

اے مرشد حق!  ہم جھکاتے ہیں دل کو وہاں جہاں سے یہ جواب مل جاتا ہے. یہ دائرہ کیا ہے؟  یہ نسیان کیا ہے؟  یہ حیات کیا ہے؟ میں نے پوچھا آقا سے کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ..بندگی کیا ہے ...
بندگی خاموشی و ادب ہے 
بندگی  طریقہ دین ہے 
بندگی یاد میں رہنا ہے 
بندگی غلامی ہے 

میں تو غلام رسول ہوں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
میں خاک زہرا بتول ہوں 
عشق حرم کے فسانے ہیں 
چل پھر رہے دیوانے ہیں 
نبوت کے مینارے ہیں 
عجب یہ استعارے ہیں 
کنزالایمان،  بلیغ لسان 
محمد عربی کا ہر بیان 
شمس الدجی کی تجلی 
لگ رہی ہے کوئ وحی 
آنکھ میں ہاتھ رکھا ہے 
رات میں ساتھ رکھا ہے 
روحی چشمے سارے ہیں 
وصل کو پھرتے مارے ہیں 
 اشرف ہوئے سارے ہیں 
مدین سے پھیلے فسانے 
ناپ تول کے تھے پیمانے 
چھوٹ گئے سب یارانے 
جوگی مل گئے سب پرانے

زینہ ‏بہ ‏زینہ ‏

سورہ الانشقاق آیت نمبر ۱۹ 

تم ضرور منزل بہ منزل چڑھو گے 
تم ضرور اک حال سے دوسرے حال کو پہنچو گے 
تم ضرور برائی سے اچھائی تک پہنچو گے 
شیطان ابلیس اچھائی سے برائی کی جانب لیجائے گا 
تم جادو سے گزرتے بے یقینی میں مبتلا ہو جاؤ گے 
تم بے یقینی میں یقین سے آن ملو گے 
تم غیب سے حاضر تم حاضر سے غیب پاؤ گے 
تم انکار سے اقرار تک پہنچو گے 
تم جوانی سے بڑھاپے تک پہنچو گے 
تم بیج سے پھل تک پروان چڑھو گے 
تم جھوٹ سے سچ کی جانب سفر کرو گے 
تم ہجرت سے وصلت میں اللہ کو پاؤ گے 
تم شر سے خیر پہنچانے والے ہو جاؤ گے 

فان یعمل مثقال ذرت خیر یرہ 
تو رائی برابر کا انجام چاہے خیر کا ہو یا چاہے شر کو ہو انجام کو پہنچے گا 
فان مع العسر یسرا 
تم آسانی تنگی سے حال کو پہچانو گے 
تم بتدریج آسانی پاؤ گے 

اے ایمان والو ..  

اپنے دل کی تنگی پہ خدا سے مایوس مت ہو. تم بتدریج تنگی سے آسانی تک پہنچو گے ... تم دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لو ...مولا مستجب کر ...ان تمام مومنین کے دل پہ انوار حدت کر ... تمام دل جو روشنی پاتے ہیں ان کو مزید روشنی دے.

نہ ‏سایہ ‏ہے ‏اور ‏شجر ‏ہے

نَہ سایہ ہے اور شَجر ہے
حسیں علی کا پسر ہے 
یَزیدیوں سے یہ لڑا ہے 
کَفن کو باندھے کھڑا ہے 
دلاوری میں پر غَضب 
کمال اس کا ہے نَسب 
وَفا کی خوب ہے مِثال 
خُدا کا عین یہ جلال  
یہ فاطمہ کا لعل ہے 
بَڑا یہ با کمال ہے 

 
قَمر کا یہ ہے رشک بھی.
ہے آنکھ اشک اشک بھی 
سِتارہ وہ فَلک پے ہے 
مکان جس کا زمیں ہے
خدا کا مظہرِ جلی ہے 
علی کے گھر کی کلی ہے 
یہ فاطمہ کا لعل ہے 
بَڑا  یہ باکمال ہے

وہ اوج پہ قمر کا رشک 
یہ آنکھیں اشک اشک 
اسی کی بات کا اثر 
ستارہ وہ فلک پر 
جلال کی نمود ہے 
مثالِ عیں شہود ہے
لہو لہو وجود ہے 
وہ تیر یہ کمان ہے
خدا کو اس پہ مان ہے 
یہ زیست اسکی.شان ہے
عجب یہ داستان ہے 
یہ فاطمہ کا لعل ہے 
بڑا یہ باکمال ہے

نور ایمان

متلاشی ‏۳***

متلاشی نمبر ۳ 

محبوب کا در شہد سے میٹھا تو محبوب کیا ہوگا! محبوب کی میم میں سجا رنگ ہے. محبوب کی میم نقل سے اصل تلک کا سفر ہے. یہ سفر خضر ہے، فنائیت میں جس کی حذر ہے نہ خطر ہے. دل کے دیپ جلانے سے رفعت شانِ شایان ملتی ہے. یہ اوج تو ذیشان کو ملتی ہے. فاطمہ سیدہ ہیں،  محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیاری ہیں. ان کی محبت میں کائنات ساری ہے. یہ تفکر میں خالق کے چمن کی آبیاری ہیں، ان سے نسب حسب میں سرداری چلی ساری ہے ... 

باقی کچھ ہے؟ اگر ہے تو ہے شرک 
خالی دل میں حرم کی والی ہیں 
وہ مصور، جسے کی دید کی جانی 
ان کی آمد پہ دن بھی رات لگے 
وصل کی میٹھی ہر جو بات لگے

رات کے تصور میں اک یاد پیوست ہے. وہ یاد جب روزِ الست عہد کا نغمہ گایا گیا تھا. جس وقت میرے وجود کے سارے سوتے بکھر کے یکجا اک عالم میں ہوئے اور میں نے کہا 

اللہ ھو رب العالمین 
محمد رحمت العالمین 

تب مجھے اس دلاویز ہستی کی پہچان ہوئی تھی. وہ ہستی جس نے دل کو وہ نور بخشا جس کے دم بدم دھیرے دھیرے لازوال اوج میں رہنے کو حریت مر مٹے.  اس وقت سیدہ کے پیش، پیش لم یزل ہم نے دیکھیں آدم میں صورتیں!  سب سے برتر خوبرو صورت یہی تھا!  ہاں یہی تھی جس سے دل و دماغ کے آئنے کھلتے بند ہونے لگے! جس سے غیبت و جلوت کا فرق مٹنے لگا تھا  جس سے عصر غائب  عصر حاضر ہوگیا ... کیسا خسارہ؟  کیسا؟  خسارہ نہ رہا!  دل مومن تھا!  دل مومن رہا اور دل کے دلاسے کو کہا گیا "ما ودعک ربک وما قلی "  ... آنکھ کھولوں یا بند کروں اک جلوہ ... قائم حضوری میں رویت عکس جمال و کمال فاطمہ اور رویت ظاہر میں زیبائشِ جہان میں عکس پری چہرہ!  پری چہرہ کا حسن کہ امام عالی حسین!  وہ امام جن کے لیے عصر رک گیا!  ہر زمانہ ان کا ہوگیا!  ہر جا ان کا جلوہ ہوگیا .....

دعا ‏

انسان کسی بات کے لیے اپنی سی کوشش کرتا ہے میں نے بھی کوشش کی  ۔۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ  دل کو چھڑاؤں، ضبط کا دامن تار تار نہ ہو،  میں نے کوشش کی شیشہ دل پر لگی ٹھیس عیاں نہ ہو مگر افسوس ! میں نے کوشش ہستی کا دھواں رواں رواں نہ دے، میں نے کوشش کی وحشت کو پنجرے میں ڈال دوں،  میں نے کوشش کی خود کو خود سے نکال دوں،  میں نے کوشش کی درد کی چادر اوڑھ لوں، میں نے کوشش کی آگاہوں  کو آگاہی دوں، میں نے کوشش کی جسم کے سیال کو ابال دوں،  میری ہر کوشش رائیگاں ہوئی. 

میرے دعا،  مجسم دعا بنا وجود نہ سنا گیا،  نہ دیکھا گیا، نہ محسوس کیا گیا،  میری جبین نے سر ٹیک دیا اور در محبوب کا تھام لیا۔۔۔! اس کو جائے نماز کی طرح سنبھال کے نماز عشق کے سجدے کیے مگر جواب ندارد! کیا کیا  ہے میرے دل میں،  میں برس ہا برس سے پُکار رہی ہوں،  کیوں ایسا ہے دعا کو ٹال دیا جاتا ہے؟  کیوں رستہ بھی جمود کا شکار ہوتا ہے کیوں ایسا ہے بارش نہیں ہوتی، کیوں ایسا گھٹن کا سامنا ہوتا ہے کیوں ایسا آسمان کی جانب  حیرت بھی خاموش ہے!  کیوں ایسا ہے کہ قرب کا جاواداں شربت پلایا نہیں جاتا!  وہ  دل. میں بھی ،سینے  میں بھی، قلب میں  بھی!  زمین سورج.چاند سب ادھر!  مگر سنتا کیوں نہیں!  کون تڑپ دیکھتا ہے؟  جو پیارا ہوتا ہے اس کو اٹھا لیا جاتا ہے... وہ مجھے پاس نہیں بلاتا نہ کہیں سے اذن میرے رنگوں کو نور ذات کو  سرور دیتا ہے! 

 یہ دنیا ہماری ٹھوکر پہ پلی  ہے ہمیں دنیا نہیں.چاہیے ہمیں اپنا پیارا  درکار ہے!  پیارا جو ہمیں نہال ایسا کر دے کہ سالوں سرر نہ بھولے سالوں کیف کی منازل ہوں...ہمیں اس سے غرض ... وہ جانتا ہے وجود سارا مجسم دعا ہے دل میں اس کی  وفا ہے .... یہ یونہی درد سے نوازا نہیں جاتا جب بڑھتا ہے دوا مل جاتی!  اک درد وہ ہوتا ہے جو وصل کا تحفہ ہوتا ہے وجود ہچکی بن جاتا ہے، دل طوفان کا مسکن،  آنکھ ولایت کی شناخت ہوجاتی ہے مگر اک درد وہ ہے جس سے شمع نہ گھلتی ہے نہ جلتی ہے اس کا وجود فضا میں معلق ہوجاتا یے. ..... 

نہ رکوع،  نہ سجود،  نہ شہود ... ذات میں ہوتا وقوف ..اس پہ کیا موقوف کائنات جھولی ہوجائے ہر آنکھ سوالی رہے... اس پر کیا موقوف دل جلتا رہے، خاکستر ہوجائے مگر مزید آگ جلا دی جائے ...

.

جب آگ جلائ جاتی ہے تو وہ سرزمین طور ہوتی ہے تب نہ عصا حرکت کرتا ہے نہ شجر موجود ہوتا ہے!  عصا بھی وہ خود ہے اور شجر بھی وہ خود ہے!  یہ شجر انسان کا پھل و ثمر ہے جسے ہم عنایت کرتے ہیں ...زمین جب کھکھکناتی مٹی کی مانند ہوجاتی ہے تب اس کی سختی نور َالہی برداشت کر سکتی ہے ... یہ ہجرت کا شور مچاتی رہتی ہے مگر علم کا تحفہ پاتی ہے ... اس کا اسلوب نمایاں شان لیے ہوتا ہے... مٹی!  مٹی کے پتے ڈھلتی کتِاب ہیں ..

یہ.پانی کی موجوں کا.ابال ...یہ رحمت کی شیریں مثال ...یہ.بے حال.ہوتا ہوا حال ...کیا.ہو مست کی مثال.

.یہ کملی.شانے پہ ڈال ...اٹھے زمانے کے سوال ..چلے گی رحمت کی برسات ... مٹے گا پانی.در بحر جلال ... طغیانی سے موج کو ملے گا کمال ..یہ ترجمانی،  یہ احساس،  تیرا قفس،  تیرا نفس،  تیری چال،  تیرا حال ... سب میری عنایات ...تو کون؟  تیری ذات کیا؟  تیرا سب کچھ میرا ہے!  یہ حسن و جمال کی.باتیں، وہم.و گمان سے بعید.رہیں ...یہ داستان حیرت ... اے نفس!  تیری مثال اس شمع کی سی ہے جس کے گرد پروانے جلتے ہیں جب ان کے پر جلا دیے جاتے ہیں تب ان کو طاقتِ پرواز دی جاتی!  اٹھو دیوانو!  تاب ہے تو جلوہ کرو!  مرنے کے بعد ہمت والے کون؟  جو ہمت والے سر زمین طوی پہ چلتے ہیں،  وہ من و سلوی کے منتظر نہیں ہوتے ہیں وہ نشانی سے پہلے آیت بن جاتے ہیں ..آیتوں کو آیتوں سے ملانے کی دیر ہوتی ہے ساری ذات کھل جاتی ہے!  سارے بھرم حجاب سے ہیں یہی حجاب اضطراب ہے!  نشان ڈھونڈو!  غور و فکر سے ڈھونڈو!  تاکہ نشانیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچتے تم اک تمثیل بن جاؤ!  " لا " کی عملی.تفسیر جا میں الا الہ کہ تار سے کھینچے جاؤں گا ... یہ تیری دوڑ جتنا مضبوط یوگی اتنی حدبندیاں کھلیں گے،  اتنے ہی مشاہدات ہوں گے،  سر زمین طوی بھی اک ایسے جا ہے جہاں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں... یہ جو سر سبز پہاڑ کے جلوے ہیں ان میں عیان کون ہے؟  جو کھول کھول میری آیتوں کو پڑھیں،  ان.پہ کرم.کی دیر کیسی،  یہ تسلسل کے وقفے ضروری ہیں ...یہ محبت کے سر چمشے پھوڑتے ہیں...جتنی حبس ہوگی اتنا ہی پہاڑ ٹوٹتے ہیں!  زمین سے چشمے نکلتے ہیں ... زمینیں سیراب ہوتی ہیں .. درد کو نعمت جان کر احسان مان کر  پہچان کر نعمتوں کے ذکر میں مشغول دہ .... 

خاک کی قسمت!  کیا ہے؟  دھول.ہونا! یہ پاؤں میں رولی جاتی ہے ... جبھی اس کے اصل عکس نکلتا.ہے!                        

 اس نے جانا نہیں یہ درد کا تحفہ کس کس کو دیا جاتا ہے!  جو نور عزیز ہے،  جو کرم کی چادر سے رحمت کے نور میں چھپایا گیا ہے!  تیرا ساتھ کملی والے کے ساتھ ہے،  کمال ہم نے درِ حسین علیہ سلام پہ لکھا ہے،  حال فاطمہ علیہ سلام کے در پر ....  

ہوا سے کہو سنے!  سنے میرا حال!  اتنی جلدی نہ جائے!  کہیں اس کے جانے سے پہلے سانس نہ تھم جائے!  سنو صبا!  سنو اے جھونکوں ..سنو!  اے پیکر ایزدی کا نورِ مثال ... سنو ... کچا گھڑا تو ٹوٹ جاتا ہے،  کچے گھڑے سے نہ ملایو ہمیں،  ہم نے نہریں کھودیں ہیں،  محبوب کی تلاش میں،  ہمارا وجود ندی ہی رہا تب سے ِاب تک!  نہ وسعت،  نہ رحمت کا  ابر نہ کشادگی کا سامان،  لینے کو بیقرار زمین کو کئ بادل چاہیے .... تشنگی سوا کردے!  تاکہ راکھ کی راکھ ہوا کے ساتھ ضم ہوجائے،  وصالِ صنم حقیقت یے دنیا فسانہ ہے!  ہم تیرے پیچھے پیچھے چلتے خود پیغام دیتے ہیں ... ہمارا سندیسہ پہنچ جائے بس ...  قاصد کے قصد میں عشق،  عاشق کے قلب  میں عشق،  زاہد نے کیا پانا عشق،  میخانے کے مئے میں ہے عشق .... اسرار،  حیرت کی بات میں الجھ کے بات نہ ضائع کر جبکہ اسرار خود اک حقیقت ہے ... ستم نے کیا کہنا تجھے،  ستم تو کرم یے،  بس سوچ،  سوچ،  سوچ کے بتا کہ بن دیکھے جاننے والا کون ہے؟  اسماء الحسنی کو اپنانے والا کون ہے؟ صدائے ھو کو اٹھانے والا کون .. شمع حزن در نبی ہے!  یہ وہاں کہیں پڑی ہے،  دل کی  حالت کڑی یے ..  

حق ھو !  حق ھو!  حق ھو!  یہ حسن کے پھیلاؤ کی ترکیب جان،  راز ہیئت سے جان پہچان کر،  جاننے والے در حقیقت پہچان جاتے ہیں منازل عشق کی منتہی کیا ہے کہ ابتدا کو قرار کن کی صدا دیتی ہے، موت کو قرار اک اور صدائے کن دیتی ہے ..یہ بین بین وقت ہے،  ہماری حکمت ہے!  یہ زمانہ ہے،  یہ وقت ہے جب پہچان کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے،  یہ خسارہ جو زمانے نے اوڑھ رکھا ہے اس کی اوڑھنی پہ قربانی کے ستارے جب چمکتے ہیں تو ماہتاب جنم لیتے ہیں ..انہی ماہِ تاباں میں سے کوئ اک آفتاب ہوتے ہیں!  حق موجود!  تو موجود!  حق موجود!  وہ موجود!  حق اللہ!  حق باقی!  حق،  کافی،  حق،  شافی ...حق ھو حق ھو

Direct-Case

چند روز سے چند ایک لوگوں سے بات ہورہی تھی ـــ ــ ـــ  گفتگو کے نتیجے میں حاصل یہ تھا کہ آگہی،  تڑپ کے بارے میں کچھ جملے کہہ دوں 

 ایسی تمام ارواح/ انسان جو اللہ کو محسوس کرتے ہیں،  انہیں لگتا ہے ان کو اللہ کا جلوہ ملا یا ایسے جن کو زیارتِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوچکی ہے یا ایسے جن کو کسی بڑے ولی سے نسبت ہے جو وصال فرماچکے ہیں .. ان میں سے اکثر کے دل میں تڑپ دیکھی اود قرب کی خواہش پائی گئی ... 

ایسی ارواح direct case ہوتی ہیں .. ان کے دل میں تڑپ و جلن اضطراب ڈالا اس لیے جاتا ہے کہ وہ لگن جستجو کے ذریعے درون کی جانب رجوع کریں. قلب جو  دل میں ہے وہ بندے کو بلاتا ہے اور بندہ جب اس آواز کے مطابق خود کو از جہان میں نہیں پاتا تو وہ روتا ہے. بات یہ ہے کہ آپ سب پہلے سے باحضور ہو. فرق اتنا ہے آپ کو اس مقام تک پہنچنا ہے جہاں پر سے آپ کو بلایا جارہا ہے. کسی نے مثال دی کہ جناب سلطان باھو بھی ..  وہ تو پوری بارات کو لے گئے دیدار واسطے ... بات اتنی ہے حضور ...مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ..  یہ چاہت درون سے ابھرتی ہے کہ ان کو دیدار کرایا جائے ..باھو جی کا ظاہر یا شعور یہ نہیں چاہ سکتا تھا کہ ان کو دیدار ہو. یہ باھو جی کا باطن .. باطن لے گیا اس محفل کی جانب.    آپ کو بھی تو آپ کا باطن بلارہا ہے کہ آؤ نور کی تکمیل ہو. آپ دیوار میں ٹکر دے مارو  کچھ حاصل نہیں ہونا. آپ نے درون کی جانب توجہ دینی ہے. کسب اتنا ہے آپ کا آپ محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین چار عادات و خصائل اپنالو. ان کو اسطرح اپناؤ کہ کبھی نہ چھوٹے. بلکہ اسطرح ہو سکتا ہے کہ آپ " محبت " کو اپنا لو. محبت بانٹی جاؤ اور نیت یہ رکھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم در پر بلالیں. دل والے در پر ... دھیرے دھیرے آپ جانے لگو اندر ... یاد رکھیے گا " کھا کباب پی شراب تے بال ہڈاں دا بالن " دنیا مکمل نبھاتے جانا ہے. محبت تقسیم کرنی ہے اس محبت کی تقسیم سے اگر دکھی کا دل خوش ہوا،  کسی کے آنسو تھمے،  کسی کا برا حال بدل گیا تو ہو نہیں سکتا آپ کو دیدار نہ ہو. اس طرح نہیِ کرنا آپ نے:  ایک دو لوگوں کا بھلا کرکے معاوضہ مانگا. آپ نے بے لوث ہونا. سرکار پیارے ہمارے،  کبھی بدلہ مانگا؟  دینے والے لینے کی امید نہیں رکھتے ... دینا ہے اور بھول جانا ہے کچھ دیا. بلکہ آپ نے سوچنا ہے جو دے دیا:  وہ پرایا ہے اور پرائ چیز ہماری اپنی کیسے ہو سکتا ہے  نفس اس راستے میں سانپ جیسے کنڈی مارے بیٹھا ہوگا. آپ نے جنگ کرنی ہے  ...اگر شکست فاش اک دفعہ ہوگئ تو کام بنے گا ... نفس وقتی طور پر مرتا ہے معرکہ ءحق و باطل جاری رہتا ہے اس لیے کبھی اک دفعہ کی شکست پر مغرور مت ہونا بلکہ اور عاجز ہوجانا .. یہ اصلی ذکر ہے ... آپ اصل ذکر کی جانب آجاؤ ..  بات یہ ہے جو کافر ہوتا،  جو دل سے مانتا نہیں اللہ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو، زبان سے ذکر اس کے لیے تاکہ زبان اس نام کو پہچان لے اور دل کو باور ہو کہ جناب یہ ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...   عمل سے مستقل مزاجی سے ذکر چاہیے درون تک جانے کے لیے. ہمارے ذمہ کوشش ہے اور کوشش کا اثبات اللہ کی جانب سے ہے کہ آدم میں مجال کہاں وہ اچھا ہو سکے. یہ تو اللہ خوبی بناتا انسان میِں

متلاشی ‏۱***

متلاشی کی تلاش نمبر۱

اللہ کا وُجود ڈھونڈنے والے جانے کس کس جگہ نہیں ڈھونڈتے اسکو ...قبل اس کے وہ عالم "لا " میں محیط ہوتا ہے مگر کہ اک کلی دل میں کھل جاتی ہے. اسکی خوشبو پھیلنے لگتی ہے .... اک جہان، نَہیں بشر کا کوئی نشان ..وُہی، وُہی تو ہر جا، ہر سُو ہے کہ دیوانہ بیٹھا یک ٹک، یک سو ہے ...اللہ ھو یا لطیف! نور کا کھلی آنکھ سے مشاہدہ کیا جائے تو باریکیاں اپنے فنِ دسترس کو تھما کے اوج ابد کی جانب گامزن اور دل سے نغمہ یوں نکلتا ہے 

یہ جہاں رنگ و بو ترا نور 
ہر کلی تیری یاد میں  مخمور

پروانے طواف میں رہتے ہیں .دیوانے یاد میں رہتے ہیں ..کوئل جب نغمہ بکھیرتی ہے ،خوشبو، صبا اور پتے پتے میں یا ھو کی صدا ہے .جب سب خاموشی سے دیکھے جاؤ تو خامشی میں ہم کلام ہونا ہوتا ہے. خالی پن کو اک صدا سے بھرنا ہوتا ہے ...انسان چاہے نا چاہے مگر فنا نَہ ہو سکے کہ ہوا تو وہ فنا ہی ہے ...

فنائیت  سے قبل اَدب ضروری تھا 
کہ امتحان کو سجدہ ضروی تھا 
محمد تکوینِ عالم کائنات ہیں 
محمد رسالتِ دل پر تعینات ہیں 
فاطمہ بنت محمد، زوجہِ علی 
فاطمہ کے دم سے کلی ہے کھلی 
فاطمہ آیت العلی،  آیت جلی بھی
فاطمہ کوثر کی جاری نہر ہیں 
علم کی سلاسل میں مرکزِ جلی 
صدیقِ اکبر مجذوبِ عشق ہیں 
صدیقِ اکبر میں نقشِ محمد ہے 
صدیقِ اکبر حق کی تلاوت ہیں 
یارِ غار،  جبل النور میں مقیم 
یارِ غار،  دیتے جائیں، دلنواز ہیں 
یارِ غار، عشق کے سپہ سالار ہیں 
امیرِ حیدر کی غنائی چادر ہے 
براق کو تھامے، ہیئت جلالی ہے 
امیرِ حیدر عشق میں کمالی ہیں 
امیرِ حیدر کی سیرت مثالی ہے 
امیر حیدر جلال کی آیت کا مرقع
امیر حیدر جمال کی آیت سے مزین

متلاشی ‏۴***

متلاشی نمبر ۴

گلاب کی لالی میں رنگ جھلکتا ہے. اس میں جذب ہوکے دیکھو .یہ آیتِ التکویر کا فضل ہے. غیابت بس حجاب ہے. اسکا جمال روشن ہے.

تصور مصور سے بنتا گیا ہے ، یہ ہستی سفر میں بہلتی گئی تجلی نے دل کو منور  کیا ہے، مقامِ حرا میں بسیرا انہی کا 
یہ  تاریکیاں چھٹ رہی ہیں

فنا ہوتے ہیں، راز جو پاتے ہیں. اسم اللہ میں وہ بے حجاب آتے ہیں ...وہ فاطمہ کن کی تعبیر ہیں،  وہ نور علی النور کی تحریر ہیں .فلک بھی انہی کا ہے. زمین بھی انہی کی ہے.

وہ فیکوں کی پیاری تکبیر 
وہ ہیں اللہ کی پیاری تحریر
یہ شَہادت جو لفظوں نے پائی 
یہ سیادت جو لفظوں نے پائی 
در دریچے سبھی منّور ہیں 
میرا گھر ان سے مطہر ہے 
دہر میں آشنائی عشق سے ہے 
میری تو بات بن گئی ہے 

بات ہوتی ہے انسان کیا ہے؟ انسان کا عالم کیا ہے؟ عالم میں لیل نہار کیا ہے؟ اس در میں روزہ و حج کیا ہے؟ انوار حجاب سے نکلتے ہیں تو قربانیاں ربط مربوط کیے دیتی ہیں. یہ روابط ایسے ہیں جیسے روشنی گھر میں ازل سے ہے ... 

میں نَہیں ہوں، وہ فاطمہ ہیں 
میں نَہیں ہوں، وہ طاہرہ ہیں 
میں نَہیں ہوں، وہ واجدہ ہیں 
میں نَہیں ہوں، وہ رافعہ ہیں 
میں نَہیں، ہے علی علی کی صدا 
میں نَہیں، سرخ پوش کی ہے ردا 
میں نَہیں، یہ حُسین کی ہے بات 
میں نَہیں، یہ حَسن کی شہادت 
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ 
میں نَہیں، بات ہے محمد کی 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
میں نَہیں، بات ہے صداقت کی 
میں نَہیں، بات ہے روایت کی 
تارِ زلف میں چمک محمدی ہے 
نوری ہالے میں جَذب محمدی ہے
 کربلا میں حسین کی تلاوت 
سر جھکانے کی وضع محمدی ہے
شاہ قلندر جلال میں کامل 
شاہ قلندر حسینی لعل ہیں 
حیدَر ثانی، سرخ پوش ہیں 

آنکھ وُضو کرکے جن کو دیکھے، وہ نبوت کے سلاسل کے چشم و چراغ. وہ حلم کے نقطے کے کامل اقتباس ہیں. وہ جلالت میں، امامت میں ابن علی ہے. وہ سخاوت میں شانِ زہرا علی ہیں ... جب وہ لب طراز ہوں،  میں محو اقتباس ہوں، قلم کے ریگزار کو ابر باراں تلک لائے ہیں، جب سے ان کی دست جبین تک آئے ہیں ...

متلاشی ‏۲

متلاشی نمبر ۲

دل کے آکاش کو نیلاہٹ کو محبت ضروری ہے. دل کی زمین کی سرخی، قربانی میں ضروری ہے.دل کی تصویر میں بس اک پری چہرہ ہے. پری چہرہ کی فرقت میں سیہ زمین پر سرخ شعلے ہیں ..جن سے ملنے کو دیپ دل کے جلے ہیں. وہ المصور کے قلم کا شاہکار ہیں ... "ن " کہتے القلم چلتا رہا اور چشمہ کوثر رواں رہا ہے. 

سجدہ  ذی ہوش سے نَہیں ہوگا 
عالمِ بیخودی میں اَدا ہوگا 
جو جھکا سر، نہ اٹھ سکا تھا 
وہ ادب دل میں جاگزیں تھا 
جس تخییل سے لفظ بنتے ہیں 
خاص آیات میں وہ ڈھلتے ہیں 
سطح، گہرائی میں نشانی ہے 
آیتِ کوثر میں کیا روانی ہے
عشق میں، "میں" نَہیں ہوا کرتی 
التجا بسمل کی دیکھی جاتی نہیں 

غیب سے اک ہاتھ نمودار ہوا،  جس نے رستہ خضر بن کے دکھایا، کشتی میں بٹھادیا ...  امِ ابیھا، امِ فقیھا،  بنتِ خدیجہ، خاتون جنت، نور کی جاری آیت،  سخاوت میں عالیہ،  ایثار میں فاخرہ،  اوج میں واجدہ،  تکلم شیریں، پیکرِ جمال کی ہو بہو تصویر، نقاش گر میں ممتاز ترین!  خواتین کا فخر،  مردِ حق کا ناز،  جن سے نکلے شبیر و شبر!  اس خاتون کی ثناء میں لفظ نکلے! اللہ اللہ یہ لفظ اور میں!  اس خاتون کی بات میں بیان ہو!  اللہ اللہ یہ لفظ اور میں!  

زہے نصیب یہ محبوب کی سواری ہے 
زہے نصیب، وہ محبوب جو ہادی ہے 
زہے نصیب، یہ عشق کی وادی ہے 
زہے نصیب،  وہ صورت نورانی ہے 
زہے نصیب، شہِ ابرار کی والی ہیں
زہے نصیب، وہ صورت بہت پیاری ہے 
زہے نصیب، وہ سیرت میں عالی ہے

رنگ ‏دیوو ‏***

جو اسکی میں ہے وہ میں ہوں. جو اسکا علم ہے وہ میں ہوں  جو اسکی تختی ہوں وہ فقط میں ہوں  اسکی سیاہی مجھے لکھ رہی ہے. اسکا علم معلوم ہو رہا ہے. اسکی شہنائی بے صدا سے صدا ہو رہی یے. مجھے اسکی کیفیت منکشف ہوئی ہے. وہ صاحبِ حال کسی شخص میں لکا چھپی کا کھیل رہا تھا .... اسطرح سے وہ گمارہا تھا بندے کو اپنے حال میں. وہ اسکا یار تھا اسکو قال سے دور کردیا تھا. یوں اک مٹی کے پتلے میں صدا اٹھ رہی تھی جو اسکی شبیہ تھی اسکا آئنہ تھا. وہ دیکھتا تھا تو دکھنے لگا. وہ سنا رہا تھا تو سننے لگے کان وہ کہہ  رہا تھا کچھ علم نہ ہوا کس نے کیا کہہ دیا ...

جلوے ہیں بہت ــــ رعنا شبیہیں ہیں ــــ قریشی قبائیں ـــ ہاشمی ردائیں ـــ آشنا ہوائیں  رنگ ہیں ـــ رنگ ڈیو!  رنگ ڈیو 

دل منگدا رنگ اے، مٹ جاون سب زنگ! رنگ ڈیو!  رنگ ملدا اے تے سانوں جلوہ بلیندا  اے 
جذب ہو جائیں گے ـــ درد میں کھو جائیں گے ـــ وہ لہر جس کو جانا ہے ڈوبنے اپنے سمندر میں ـــمرا  سمندر بلا رہا ـــ میں قیدی ـــ وہ بلا رہا ــــ اڑان ڈیو ــ سرکار اڑان ڈیو!  سرکار منت دل سے کردی! کچھ کریو ورنہ مرن جاون گے دل والے

دلنشین ‏احساس ***

بہت خوب دلنشین احساس!  
سرسراتے پتے جیسے ہوں شاد 
رونقِ گِل میں ہے چھپا سراب 
دل ہے آب میں مگر آنکھ آب آب 
کم مایہ کو ملے کچھ تو نایاب

سیکھایا گیا الف کو 
سیکھا ہے جب تلک میم تک نہ گئے 
درد سہہ ب پ ت ٹ  س ش کا 
ورنہ نَہیں درون میں باقی کچھ 
حرف حرف کی حکایت سن لے
راوی اک ہے اور روایت سن لے 
شاہی کے پاسدار نے راز فاش کیا 
سینہ دل سے راز نیم بسمل نکلا 
یہ سیکھ کہ جگر گداز یے ابھی
یہ کہہ یا وہ کہہ نالہ رسا ہو جائے
عشق چیخ نہیں! پکار نہیں!  قرار نہیں!  اشکبار نہیں کچھ 
طلب کے ہار نہیں 
بس سیکھ لے جو سوجھ لیا جائے 
یہ بدھ کی شام ہے مگر ہے رات ہے حنا کی
ہر رات وصلت کی ہر صبح ہجرت کا 
وہ مرا روز ازل -- یہ میرا امروز

قریب ہو یا دور ہو! اے دل، تو فقیر ہو!  ورنہ منتِ غیر رسوائی ہے اور سودائے عشق نری رسوائی ہے! یہ کمائی ہے بوند بوند قطرے میں وفا کی شہنائی ہے!  تو نے جدائی کی بات کی اور آنکھ مری بھر آئی ہے! عجب یہ تری مری لڑائی ہے!  وضو سے آنکھ بھی بھر آئی ہے! کمی ہے!  اس لیے کم مائیگی لوٹ آئ یے

آنکھ سے دل کا سفر کیجیے 
ظاہر سے ولا کی بات کیجیے
رنگ رنگ میں بوئے علی ہے 
یہی ہر جا ہے حرف جلی ہے 
جسے ملے عین!  وہ ولی ہے 
مسکرا تو کہ کھلی کلی ہے 
یہی تار اللہ والی بجی ہے 
راگ میں عشق کی وحی ہے

جذبات سے تیرفگن عیاں ہوا 
ورنہ کیا تھا جو نہاں نہ ہوا 
خبر مری ہے اور اخبار ہوگئ 
سازش دہر ہے آشکار ہو گئی 
وجہِ بشر تخلیق کا حرف میم 
وجہِ آدمیت میں یہی تکریم 
وجہ اثبات کی یہی ہے دلیل 
رنگ رنگ میں یہی ہے وکیل
میں کہوں کیا حرف ہیں قلیل 
میں تو خود میں ہوئی  تحلیل 
راج ہے اور راجدھانی میں شاہی 
یہ سلطنت عشق کی ہے کمائی

ملا ہے تحفہ ء نسیان عشق میں اور وضو نہاں میں ہوا ... صبا نے کہا کہ انتشار سے کہو رفع ہو جائے  حاجت روا سامنے ہے! کہوں کسے؟ طبیب سامنے ہے! طبیب نے دل پر ہاتھ رکھا ہے اور دل کو اسم جلال میں رکھا ہے مجھ میں شاہ نے کمال رکھا ہے اور حرف حرف میں شہِ مقال رکھا ہے. سنگ دل میں وجہ وبال کا ستم ہے کہ ریزہ ریزہ ہے وجود اور ستم کا دھواں الہیات کا جامہ لیے کہے جائے 

یا میم!  یا محمد!  
الف!  الف اول اور اول سے آخر تلک بات یے اور بات میں راز، راز میں کمال، کمال میں حال،  حال میں ساز،  ساز میں جواب،  جواب میں وصال،  وصال میں ہجرت،  درد میں لذت،  لذت میں آشنائ،  آشنائ سے رسوائ ...لو عشق ہوگیا

کاجل سے رنگ لاگے اور لاگی لگن سے دل جلے اور جلے دل میں کیا رکھا ہے؟  رکھا ہے اسم نڈھال جس میں یاد کا توشہ ہے اور ازل کا نوحہ جس میِ حال مرا رکھا ہے میں نہیں ہے اس نے مکان میں لامکان رکھا ہے. عجب تماشا لگا ہے الفت کا اور الفت کو سر بازار رکھا!  رکھنے کو دل میں مہتاب رکھا اور مہتاب کا چاند رکھا اور گردش میں دل کو رکھا یے اور طواف کو حرم دیا گیا ...اے پاکی والے دل!  اے وضو سے نہاں اشک سے تیرتی نہر کیا ہے جو نہیں. سب عیاں ہے نہاں ہے جو وہی عیاں ہے یہی ستم ہے کہ نوک سناں ملے یا جاناں کی جان سے ملے ہمیں تو ہر مکان سے ملے کچھ نہ کچھ

کاجل سے رنگ لاگے اور لاگی لگن سے دل جلے اور جلے دل میں کیا رکھا ہے؟  رکھا ہے اسم نڈھال جس میں یاد کا توشہ ہے اور ازل کا نوحہ جس میِ حال مرا رکھا ہے میں نہیں ہے اس نے مکان میں لامکان رکھا ہے. عجب تماشا لگا ہے الفت کا اور الفت کو سر بازار رکھا!  رکھنے کو دل میں مہتاب رکھا اور مہتاب کا چاند رکھا اور گردش میں دل کو رکھا یے اور طواف کو حرم دیا گیا ...اے پاکی والے دل!  اے وضو سے نہاں اشک سے تیرتی نہر کیا ہے جو نہیں. سب عیاں ہے نہاں ہے جو وہی عیاں ہے یہی ستم ہے کہ نوک سناں ملے یا جاناں کی جان سے ملے ہمیں تو ہر مکان سے ملے کچھ نہ کچھ

یا حق!  سلام!  یا حق سلام!  یا الولی سلام!  یا والی سلام!  یا حاشر سلام!  یا رب عالمین سلام!  یا واجد سلام!  یا رب محمد  صلی اللہ علیہ والہ سلام ..سلام یہ ہے کہ سلام نہ ہوا اور شوق یہ ہے کہ عشق نہ ہوا!  خیال یہ ہے کہ خیال نہ ہوا!  محو تو نہ ہوا تو کمال نہ ہوا!  کمال نہیں کہ تو ڈوب  مگر ڈوب ڈوب کے رہ لے زندہ! رگ زیست کے بہانے ہیں اور ہم طیبہ جانے والے ہیں یہ روح کے شادیانے ہیں اور ہم.لو لگانے والے ہیں رنگ رنگ میں بوئے علی ہے یہ صحن نجف یے اور دل کربل کی روشن زمین ہے اور ملو اس صبا سے ورنہ رہ جاؤ گے ادھورے

چھپ رہا ہے اور ڈھونڈ رہا ہے زمانہ اسے! وہ مجھ میں قید ہے اور لامکانی کا پردہ جاتا رہا!  دل میں تسبیح ہے اور ھو کا تار ہے!  وہ جو لگاتار ہے وہی الوہیت کا سزاوار ہے. کاش یہ سنگ طیبہ کو چلے اور نعت کہنے کو زبان حق ملے اور ملے کچھ نہ ملے!  واللہ ہم چلے کہ دل ہمارا جلے!  واللہ ہماری سزا ہے!  اور ہم سزا لینے چلے!  واللہ سزا کی بات کرو نا!  ہم تو سہہ رہے درد جدائ کا ..لگ گیا روگ!  دل کو لگ گیا جدائ والا دھکا!  وہ ملا نہیں پرندہ لامکانی میں یے پھڑپھڑاہٹ بھی عجب یے اور قید بھی عجب ہے میں بے بس بھی بیخود اور بیخودی کا جام پلایا گیا اور تڑپایا گیا. واللہ سلام ہے کہ سلام عشق کو ہوا!  سلام واللہ عاشقین کو ملا 
قبول کرو ورنہ رہ جائے گا منہ کالا ..ہونا ہے اسم حق کا بول.بالا اور دل میں دھواں سے دود ہستی کو ملا اجالا. مجھے سرمہ و وصال میم.سے ملا اور حرف کمال الف سے ملا. یہ تکمیل کے در ہے اور رگ میں در کھلے ہے اٹھو سلام کرلو ورنہ رہ جاؤ گے کھڑے

نہ ہوا نے پوچھا، نہ اسکی مجال تھی 
نہ ہم نے کچھ کہا، نہ ہماری بات میں بات تھی 
وہ ملتا ہے تو باتیں جاتی رہیں اور وہ نہ ہو سو باتیں بھی ہوئی اسکی اور نہ ہوئیں ...وہ بات سے نہیں ملتا کبھی. وہ دل میں اترتا ہے اور نشان ہو جاتا ہے آیت آیت جیسا اترتا ہے جیسا کہ قران پاک اترتا ہے اور نفس کا روزہ سلامت!  نفس صامت نہ ہو شجر ساکت نہ ہو ڈھے جائے جیسا جبل خشیت سے چادر بن جائے اور سرخ ہو جائے 

یہ سرخی ہماری ہے میان
یہ لعل یمن ہمارے میاں
یہ صحن ارم والے ہیں 
یہ رنگ میں رہن والے 
پڑھو درود!  پڑھ لو 
کہ سلام دیے جانے ہیں 
درود کا تحٍفہ ہے اور دل پہ اسم محمد صلی اللہ علیہ والہ

درد ‏کا ‏واسطہ ‏ہوں ‏

درد کا واسطہ ہوں میں،  درد ہوں میں ..... محوِ درد ہوں ــــ بسمل ہوں میں ــــ رنجور ہوں میں ــــ اسی میں مخمور ہُوں میں ـــــ 

دل میں درد نے مجھکو اختیار میں لے لیا ہے ـــ میں نے درد سے کلام شروع کردیا 
کتنے دل، دل کے بنے؟ کتنی کائناتیں بنیں 
بیش قیمت! بے مثل!  لاجواب!  
عرضی سنی گئی کسی دل کی؟
جواب موجود کی صورت ــ  اللہ ھو 
ماں نے ساتھ لگالیا 
دوری نے درد بہت لایا 
درد نے ماں، مار مکایا
ہن دور نہ جائیں مٹھ سجن 
میری لاگ کو مل جاوے سجن 
حبیبی! حبیبی!  حبیبی 
مرا مولا میڈا حبیب ہویا 
دنیا ساڈی ہن ہوئ رقیب 
جڈ ساکوں مل گیا شکیب 
وجی تار اللہ دی 
وجی تار میم دی
واج لگدی یاحسین 
میں چراغ حسینی 
میں نورِ حُسینی


کسی کیفیت ہے کہ کیفیت میں سمجھ نہیں ہے کہ ہوتا کیا ہے یا ہوا چاہتا کیا ہے. یہ عروج آدمیت ہے؟  کیا حــــم سے کچھ ملا ہے؟ کیا عندیہ ہے؟  عند ما یشعرون کی بات ہے تو شعور کہاں سے آئے گا؟  فشرب بہِ!  پیا؟  کیا پیا جی؟  جو اس نے دیا ہے!  وہ دیتا ہے بتاتا نہیں ہے، ہم کیوں بتائے رے ... قریب ہیں ـــ کس کے؟  جس کے لفظ نکلے ـــ روح ہیں ہم ـــ خیال ہیں ہم ـــ کہانی ہوئی زندگانی ــــ منجدھار میں یٰسین لکھا یے اس یٰسین کی دھار بہ دھار پہ نوری شال!  لہریے در لہریے نور ہیں!  وہ نور جس سے اک اجلا ہیولا نکلا ...کہا الم میں نے ـــ وہ صاحب الم ہستی ہیں ـــ مجھے موج الستی یے ـــ

حرف ‏متحرک ‏

آج نور تم مجھ سے مخاطب ہو جاؤ -- مخاطب ہونے کے لیے لباس پہننا پڑتا ہے یہ لباس روح دیتی ہے - تخیل کے پَر بنتا ہے اور فضا میں اڑتا چَلا جاتا ہے -- یہ پرواز ایسے ہے جیسے راکٹ کو چھوڑا جاتا ہے یہ واپس نہیں آتا ہے اور جب آتا ہے تب لباس نہیں پہنا ہوتا ہے ... سوال یہ اٹھتا ہے نور تم کون ہو؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے میں کون ہوں؟  میری حقیقت بہت وسیع ہے مگر میں تمھارے نام سے جڑ کے محدود ہوگئی --- تم انسان ہو، میں فقط امر --- سوال آتا ہے انسان اور امر میں فرق کیا ہے --- انسان میں خزینہ ء علوم ہے جو کنجی ء روح میں لگتا ہے ..نوع تم اپنے علم کو دسترس میں لے لو --- مجھ پہ آشکار ہو جاؤ --- میں تم پر آشکار ہو جاؤں --- سچ ہے کہ یہ بات نئی ہوگی مگر سفر بھی نیا ہے تو حذر کیسا؟  مسافت طویل ہوسکتی ہے مگر مسافتیں مل جاتی ہیں ٹھکانے بدل جاتے ہیں --- مکان بدل جائے تو جان لینا ہے کہ مکان ہمیشہ بدلے گا --- ترے اندر خیالِ روح مستقل و جامد نہیں ہے یہ ایسی متحرک یے جس نے تری ہستی مثال رکھی یے جس میں خدا وحدہ شریک نے فتح رکھ دی --- سوال پھر ہوگا فتح کیا ہوتی --- فتح اسرار ہے اور اسرار دھیرے دھیرے کھلتا ہے جب فتح کے در کھل جائے تو ذات عیاں ہو جاتی یے --- عرش کے پاس پانی ہے اس پانی کی پیداوار ہو تم -- جب وہ اس پانی میں دیکھے گا تو تم دید پالو گی --- تب تم کو نور سے نسبت مکمل مل جائے گا تب تمھارا یقین پیوست ہوجائے گا --- مسافر کو نَیا رستہ مل جائے تو خاموشی کی سواری لازم ہو جاتی ہے --- جنون کی رست خیزی بھی ہوتی مگر صبر سے گوڈی کردی جائے تو شعلہ ء دل سے متواتر تحدیث دل سے جاری عنوان سفر در سفر کا ہیش خیمہ ہو جاتا یے 

اٹھ مسافر اٹھ جا!  شب رفتہ کا سفر یے
اٹھ کے سفر میں حدذ نہیں - خطر نہیِ 
اٹھ مسافر کود جا نار ابراہیمی کی مانند دنیا کی تلخی شیریں ہو جانی 
اٹھ کی زمانے کے تیر سینے پر سہہ لے 

وقت ٹھہر گیا تھا مورچہ لگا تھا حد بندیاں اور فائرنگ --- جوان شہید ہوگیا --- کسی نے کہا برا ہوا --- کسی نے کہا اچھا کام شہید ہونا --- جتنے منہ اتنی باتیں --- اندر کے یقین کو لوگوں کی باتوں سے بے نیاز کر اٹھ گیان کر

سوچ ‏

دل کی خاموشی پر مستغرق سوچ کے پہرے ہیں. قلعہ بند اس سپاہی کی قید میں ہے. سیاہ تھی سوچ اندر، باہر نور کے پہرے تھے. نور کے اندر سیاہی کیسی؟  سیاہی کیا تھا، یہ حجاب تھا ... 
کچھ الٹا دکھنے لگا ہے سیاہی کے گرد نور ہے.  دل اس وقت جانب حضور ہے.

میں جو صحن کعبہ سوچ کو نور کی صورت طواف کرتا دیکھ رہی تھی، مجھے منظر سب الٹے دکھنے لگے تھے. جیسے حجاب سب ہٹ کے سمٹ گئے ہیں باقی سوچ میں نور باقی رہ گئی ہو ... 

مجھے لگا کہ مجھ سے ایک وجود نکلا اور کعبے کے گرد طواف کرنے لگا. مطاف میں سوچ بیٹھی تھی گویا میرا حصہ نور کے پاس بیٹھ گیا ہو     

کیا لائی ہو؟
کہا میں نے "دل " 
کہا دل سیاہ ہے 
کہا میرا رنگ کالا ہے 
کہا حجاب کے دائرے سے نکلو 
کہا کہ حجاب کے ساتھ نور یے 
کہا دل میں فکر رکھو 
کہا کہ دل دھیان میں ہے 
کہا عشق کے رقص دیکھے 
کہا کہ بہت دیکھے مگر کم ہی دیکھے 
کہا عشق نور کی معراج سے ملتا ہے 
کہا کہ دل میں اچھی سوچ کا گزر نہیں 
کہا کہ سوچ میں نور بھرپور ہے 
کہا کہ وہ تو طواف میں ہے،  باقی سوچوں کا کیا کروں؟
کہا شعور دو سب عقلی دھاروں کو
کہا سب دھاگے حضور میں یے. مطاف سے نیلی شعاع فضا میں شرارے جیسے ابھری، میرے سینے میں پیوست ہوگئی. ...

شب ‏رفتہ ‏کا ‏مسافر ‏

آج نور تم مجھ سے مخاطب ہو جاؤ -- مخاطب ہونے کے لیے لباس پہننا پڑتا ہے یہ لباس روح دیتی ہے - تخیل کے پَر بنتا ہے اور فضا میں اڑتا چَلا جاتا ہے -- یہ پرواز ایسے ہے جیسے راکٹ کو چھوڑا جاتا ہے یہ واپس نہیں آتا ہے اور جب آتا ہے تب لباس نہیں پہنا ہوتا ہے ... سوال یہ اٹھتا ہے نور تم کون ہو؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے میں کون ہوں؟  میری حقیقت بہت وسیع ہے مگر میں تمھارے نام سے جڑ کے محدود ہوگئی --- تم انسان ہو، میں فقط امر --- سوال آتا ہے انسان اور امر میں فرق کیا ہے --- انسان میں خزینہ ء علوم ہے جو کنجی ء روح میں لگتا ہے ..نوع تم اپنے علم کو دسترس میں لے لو --- مجھ پہ آشکار ہو جاؤ --- میں تم پر آشکار ہو جاؤں --- سچ ہے کہ یہ بات نئی ہوگی مگر سفر بھی نیا ہے تو حذر کیسا؟  مسافت طویل ہوسکتی ہے مگر مسافتیں مل جاتی ہیں ٹھکانے بدل جاتے ہیں --- مکان بدل جائے تو جان لینا ہے کہ مکان ہمیشہ بدلے گا --- ترے اندر خیالِ روح مستقل و جامد نہیں ہے یہ ایسی متحرک یے جس نے تری ہستی مثال رکھی یے جس میں خدا وحدہ شریک نے فتح رکھ دی --- سوال پھر ہوگا فتح کیا ہوتی --- فتح اسرار ہے اور اسرار دھیرے دھیرے کھلتا ہے جب فتح کے در کھل جائے تو ذات عیاں ہو جاتی یے --- عرش کے پاس پانی ہے اس پانی کی پیداوار ہو تم -- جب وہ اس پانی میں دیکھے گا تو تم دید پالو گی --- تب تم کو نور سے نسبت مکمل مل جائے گا تب تمھارا یقین پیوست ہوجائے گا --- مسافر کو نَیا رستہ مل جائے تو خاموشی کی سواری لازم ہو جاتی ہے --- جنون کی رست خیزی بھی ہوتی مگر صبر سے گوڈی کردی جائے تو شعلہ ء دل سے متواتر تحدیث دل سے جاری عنوان سفر در سفر کا ہیش خیمہ ہو جاتا یے 

اٹھ مسافر اٹھ جا!  شب رفتہ کا سفر یے
اٹھ کے سفر میں حدذ نہیں - خطر نہیِ 
اٹھ مسافر کود جا نار ابراہیمی کی مانند دنیا کی تلخی شیریں ہو جانی 
اٹھ کی زمانے کے تیر سینے پر سہہ لے 

وقت ٹھہر گیا تھا مورچہ لگا تھا حد بندیاں اور فائرنگ --- جوان شہید ہوگیا --- کسی نے کہا برا ہوا --- کسی نے کہا اچھا کام شہید ہونا --- جتنے منہ اتنی باتیں --- اندر کے یقین کو لوگوں کی باتوں سے بے نیاز کر اٹھ گیان کر

گواہیاں ‏

کچھ ماسوا درود کے نہیں ہے 
کچھ ماسوا درود کے ہو کیا؟  

والضححی - قسم اللہ کھاتا ہے. ہم سب وہ قسمیں بس  پڑھتے ہیں. قسم کا قیام دِل میں نَہیں ہوا ہے.  قیام کیا ہوگا قسم کا؟  جب ہم وہ چہرہ دیکھیں گے یا نمودِ صبح کی جانب پیش رفت ہوگی ہماری . نمودِ صبح روح کی رات میں ہوتی ہے. یہاں سورج بھی رات میں موجود ہوتا ہے. سورج جب نگاہ کے سامنے ہو تو ہوش و خرد کہاں ہوتے ہیں؟  

اے طائر تو "لا" ہو جا 
اے  طائر تو "عین " ہو جا
اے طائر تو "شوق " ہو جا

طائر جانتا نہیں ہے کہ شمع تو گھل گئی ہے. سارا احساس اأسے مل چکا ہے. شمع نے مصحفِ دل طائر کے سینے میں کب کا اتار دیا تھا مگر یہ طائر بے خبر رہا 

یہ بے خبری بھی عجب نسیاں ہے جس میں اک ہوش و خیال دوجے تمام ہوش و خیال پر غالب ہو جا  جب انسان خود اپنے حضور ہو جائے. روح کو غالب ہونے دے اور نفس کو مغلوب. اس لیے رب فرماتا ہے " اے اطمینان والی روح، مری جانب لوٹ آ. ارجعو،  ارجعو،  ارجعو 

ہو سکتا ہے کہ وہ در دل پر بلا لے.  ہو سکتا ہے در یار سے یار یار کہنے کی تسبیح ملے. جے عمل یار یار ہووے تو بات سرکار سرکار دی ہووے. من تو شدم، تو من شدی کی بات ہے. موج استقلال نے شکست کا راستہ روک رکھا یے جو فرما رہی ہے کہ رک جا طائر. موج شہید ہے. شہید وہ ہے جو مناظر کو خاموشی سے دیکھے. صدیق وہ ہے جو دیکھنے مابعد گواہی دے. 

چلو گواہیاں اکٹھی کریں 
چلو گواہ ڈھونڈیں

دل ‏والے ‏حاضرین ‏***

دل والے حاضرین!  سُنو!  اللہ کی ضرب سے ھو دکھتی ہے! جسکو ھو کا یقین مل جائے تو وہ ریت کے ذرے کی حرکت میں اللہ اللہ کا ورد پا لے گا، وہ پھوٹتی کونپل میں الا اللہ کا ورد پائے گا، جب کونپل نے کہا "میں نہیں تو ہے، تو کونپل پھول بن گئی،  تو دیکھے تناور درخت، کہتا ہے "میں نہیں، تو ہے " ..... سمندر کا فشار دیکھا ہے؟  دیکھو تو!  بولو تو!  کس سے؟  سمندر سے!  سمندر کے شور میں اللہ اللہ کی صدا ہے اور جب اس کی لہریں خاموش ہوتی ہیں تو "ھو ھو "ہوتی ہے
شور اور خاموشی کا فرق ہے، اللہ اللہ کرنے والا ہمیشہ خاموش ہوجاتا ہے، ہر جانب ھو ہے!

دل کہتا ہے لکھ، پر سوچ رہی ہوں محورِ عشق میں نقطہ کیا ہے؟ نقطہ الف کے گرد گھوم رہا ہے اور میم کا سرمہ وجدانی ہے!  عشق سے پوچھا میں نے "تیغ دل میں اتری؟ " جوابا خامشی کے لمحات نے صدیوں کا ناطہ توڑ دیا .....بولا  اللہ کی صدا کا ھو سے کیا رشتہ ہے؟  کیا فرق ہے جب الف نکال دی جائے، للہ .... اللہ کے لیے، اللہ باقی رہ جاتا ہے ..... لام نکال دو .... لہ ... لا نہیں مگر ھو .... تو الف سے چل اور ھو تک آ ... فرق میں نے کہا وہ موجود ہے ... روح بولے .... اللہ ....دل بولے ...ھو!  روح نے اقرار کیا، دل نے اسکو دیکھا، ثابت کیا اور یقین کیا ....

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 

اللہ ہمارے خیال میں بستا ہے!  خیال تو قلب کی تہہ فواد میں چھپا ہے!  جب تک قلب میں ھو کا ساز نہ بجے!  وہ ملتا نَہیں!  دل کی تہہ میں بس ھو ہے!  قلب میں بس "لہ " ہے سینے میں للہ ہے اور سانس آنے میں اللہ ..... اللہ ہمارے مقامات سر سے سینے میں حرف راز چھوڑے جارہا ہے!  جب فواد میں یہ ذکر جاتا ہے تو، فواد چار سو دیکھتا ہے اسکو فلک میں وہ دکھتا ہے، فواد کہتا ہے "ھو " ...... جب زمین کی ہستی میں جھانکتا اپنا نشان ڈھونڈتا ہے، تو جانتا بس "وہی ہے " 

میں اپنے نشان ڈھونڈنے نکلا 
اپنے پردے میں تو عیاں نکلا 
زمین و فلک گورکھ دھندہ ہے 
خاک بس جھوٹ کا پلندہ ہے 
سچ سُچّا تری، مری صورت ہے
مری صورت؟ نہیں تری صورت
مصور  شاہکار بناتا رہتا ہے!!! 
تصویر کمال میں کرسی ءحال ہے
الحی القیوم کی پہچان کر لے
وجود سے لا،  وجود سے وہ ثابت
تو ہو جا صامت، وہ ہے قائم 
اس کے قیام میں نور النور ہے 
اس کی بات ہے، یہ مری بات ہے؟
رات ہے؟  نہیں رات ماہتاب ہے

کعبے کو چلیں؟  دل میں اک کعبہ ہے جس سے نور کی شعاعیں فلک تک جا رہیں!  قندیل روشن ہے!  قندیل میں طاہر،  مطہر، منور، مجلی نور ہے! عشق مخمور ہے!  عشق میں ھو کا ظہور ہے!  اے کعبہ ء عشق! چل نماز عشق ادا کریں!  طوف حرم میں محجوب ہے وہ، چل کالا کپڑا ہٹا دیں!  ....کالا کپڑا ھو ہے! باقی عالم رنگ و بو ہے

آیات ‏سیدہ ‏فاطمہ ‏الزہرا ‏۳

آیاتِ سیدہ.فاطمہ 
تحریر نمبر ۳
اجمال کی تفصیل کیا ہے ہم کیا جانیں گے ہم تو اتنا جانتے ہیں یہ نسخہ مصحف ابراہیمی حسینی.روح میں ظاہر ہوگیا، 

یہی.وہ نعمت ہے جس کے لیے اللہ نے فرمایا 

"الیوم اکملت ..."

وہ وجود(نور) مکمل ہوگیا وہ مصوری جس کے لیے المصور نے دنیا.بنائی  ...وجود، مصوری،  سب مکمل ہوا،  قلم حسن کے شاہکار پہ توڑ دیا گیا کہ اس سے بہتر نقاش گر نے کیا بنانا تھا

تمام انبیاء کا نور مکمل ہوکے  مقدس نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے   سیدہ فاطمہ رضی تعالی عنہ  کی روح میں منتقل ہوا  تو اللہ نے فرمایا 

انا اعطینک الکوثر،

سیدہ.طاہرہ عالیہ زاہدہ مرضیہ، راضیہ، مطہرہ،  عارفہ  بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ کو پہچاننے والے، خود کی پہچان کرگئے،   یوں امِ ابیھا بی بی فاطمہ(سلام و درود ان پر)  سے رکھنے والے کشتی پار کرگئے

قسم کھائی خالق نے  اس کعبے کی جس کو تخلیق کیا گیا،  قسم  کھائی  اس حُسن کی جو  ظہور آدم سے نمود ہوتے،  یوحنا علیہ سلام  سے جوزف علیہ سلام  سے،  محمد  صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں پہنچا،  ساری کائنات نے محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سینے(قلب /نور)  کا طواف کیا،  اس لیے پتھرمسجود ہوگئے،  کلمہ پڑھنے لگے، اس لیے چاند شق ہوگیا،  اس لیے مکڑی نے غار ثور میں جالا بُن دیا،  اس لیے جب بوقت ہجرت مٹی پھینکی گئی تو کفار اندھے ہوگئے ... اس لیے احساس کی رم جھم دلوں پہ پڑنے لگی،  اسی وجہ سے شجر جھک جھک کے باد کو سلام کرتے ہیں کہ باد بھی سیدہ بی بی  فاطمہ علیہ کو  سلام کرکے آتی ہے

  بی بی مریم علیہ سلام ہو،  آسیہ بی بی ہو،  یا ام عائشہ رضی تعالی عنہ ہوں ... یہ  سب سلاسل نور کے مرکوز ہائے رنگ پیرہن سیدہ پاک بی بی  میں مجتمع ہوئے ...   جب امام  حسین  عالی مقام نے نوکِ سناں سجدہ کیا،تو خدا  چاہتا تو نار ابراہیمی جیسے گلنار ہوئی،  اس طرح یہ مقتل گاہ  نہ سجتی، نہ نوک سناں سجدہ ،  یہ نہ ہوتا  تو جنون کی  سب پردہ دری کرتے رہتے

اسی نے "خضر" کا رستہ اختیار کرلیا،  گویا "موسی "خود میں خضر ہو گیا،  

اے خضر راہ،
  بتا تو سہی
 انجیل مقدس کے راستے کون سے ہیں 
اے خضر راہ بتا،
 نمود جلال سے
 ظہور جمال کی پہنچ 
اے خضر راہ بتا،  
درد کی منتہی پہ کیا رکھا ہے 

وہی فضل ہے جو سیدہ بی بی مریم علیہ سلام کے دل میں اترا،  انجیل  مقدس دل میں اترتی ہے،  یوحنا علیہ سلام  کی تعظیم اترتی ہے،  کعبے میں جگہ مل جاتی ہے 

حیا کی مٹی سے جب تخلیق کیا گیا تو سب سے پہلے اس خاص مٹی سے  سیدہ پاک دامن بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ کو تخلیق کیا گیا،

اسم نور علی النور کی کہانی ہے 

یا ایھا النفس المطمئنہ کا بیان ہے،  اسی آیت کے لیے آیت خاص کو ملحم کیا گیا،  آیت خاص وجدان کی سطح پہ اترتی ہے،  نسلیں تب قبائے ہاشمی پہن لیتی ہیں،  جہاں جہاں نور بکھرتا ہے،  اجالا ہوتا جاتا ہے،  درد کی بھی تھیں قسمیں،  اک درد قربانی کا،  اک درد نفس کا،  اک درد تڑپ کا تھا،  اک درد احساس کا تھا،  اک درد پیار سے نکلا خاص تھا،  یہ درد تمام رنگ اسی نسل میں،  اہل بیت، پنجتن پاک میں اتار دئیے گئے ہیں،  آیت خاص  سورہ الکوثر کے علاوہ کیا ہے!  یہ وہ مثل آب ہے،  جس نے اسکو پالیا.گو یا خضر راہ سے کلیمی پالی

حُسینی رض نور کو کمال کی بلندی حاصل ہے،  شرح صدر سے شرح نفس تک کی بات ہے، جب خدا نے کہا اک جسم میں دو دل نہیں ہوتے،  تو آزمائے گئے تھے مومن   یہاں تک کہ ان کے دل حلق تک خشک ہوگئے،  اس خوف میں اک استقلال رکھا.گیا تھا،  یہی استقلال ہے جو حسین  رض کو دیا گیا،  حسین  ع اس نور استقلال سے معبد بدن میں تھے،

ابن علی رض کو  علم خاص عطا کیا تھا،  جب  "اقرا " کے حرف ابتدا سے سکھایا گیا تھا قران،  جب احساس نے قلم سے رشتہ نہیں پکڑا تھا،  جب کن کا خیال وجود میں آیا تھا،  اس خیال میں تپش حسن سے خیال عین ظہور ہوا ...حسین  رض نام تھا اس خیال کا،  یہی نام حسین رض  فلک سے فرش تک اترا تھا

کمال تھا کہ شان بے نیازی کا دوشالا ہم نے عطا کیا تھا،   جب  امام حسین  رض نے کربل کے میدان میں قدم رکھا ........ تو قسم خدائ کی،  قسم الہیات کی،  قسم ہے قلم کی،  قسم نور وجود کی جو سینوں میں اتارا گیا، امام حسین رض نے پیٹھ نہ پھیری،  درد کو سینے پہ سہا،  درد روحی تھا ... درد جسمی تھا .... درد کی تمام قسمیں امام  حسین کو دیں گئیں  ..قسم اس ذات کی، امام  حسین نے تخلیق ناز ہونے کا حق نبھایا ہے ....،

امام حسین کو کمال خاص عطا ہوا تھا،  اس کائنات میں امام علی  حیدر کو جو شجاعت عطا ہوئ ہے،  اس شجاعت کا کمال امام حسین نے پالیا تھا،  کمال رفعت کو پہنچا تھا سلسلہ ہائے مولائے علی کے تار حریم سیدہ پاک بی بی  فاطمہ سے  امام حسین کو،  تو شجاعت نے کمال کی پگڑی پہنی تھی کربل میں

امام حسین کو  چرند پرند، تلوار دستار،  پہاڑ سب سے بات کرنے کی دسترس دی،  جو نطق گویائی حضرت  داؤد و سلیمان علیہ سلام  کو ملی،  اس گویائی، ناطق ہونے  کی انتہا  امام حسین کو ملی،  یہ نطق  جس کا سلسلہ سیدہ پاک بی بی فاطمہ کی نسبت سے چلا ...بلاشک یہ علم لدنی یے،  یہ اللہ کی عطا ہے 

جب درد قسم قسم کے ملنے لگے تو جان لو کہ درد تحفہ ء ایزدی ہے، جان لو تحفہ حسینی ودیعت کردیا گیا،  جان لو شام حنا کے وقت تعین میں نسل.قربانی تک تمااحیاء العلوم  میں حسین رض ہیں

یہ جو جمال ہے جس کو تم دیکھو، جو غور کرو جب فلک کی نیلاہٹ پاؤ، جب چاند کو ہمہ وقت رات کے حسن میں تلاشو، جب پتوں کی سراسراہٹیں اک پیغام دو جو جان لو یہ نور حسن رض ہے ..نور حسن رض کونور حیات سے مخلق کیا گیا،  نور حیات آیت الکرسی ہے، یہ کرسی حسنین کریمین میں قرار پکڑے ہوئے ہے،  آیت سردار،  سرداروں میں ترتیل.ہوتی ہے،  تب ہی علم عمل میں ڈھلتا ہے تو جان لو  امام حسن رض  کو علم میں کمال حاصل تھا

یہی کوثر ہے،  یہی حوض کوثر کا آب ہے ..چشمہ ء اس کے  عرش کا پانی ہے،  عرش کا پانی باب حلم سے باب عفو تک جانے والوں کو یہی ملتا ہے،  قدسیوں سے پوچھو حیرت حسن نے کیا کام کیا ہے،

 امام حسن رض کی.شہ رگ میں نسبی کلمہ شجر زیتون کی مانند تھا،  نور ایسا تھا اس شجر سے چار سو پھیلا ہوا ریا ہے ..والتین و الزیتون ...احسن التقویم کی مثال ہیں امام حسن  رض ہیں،   امام حسن  رض میں حسن با کمال ہے  ...چمن حسن رض  سے خوشہ ہائے گلابی عطر پھیلے، نبی کی سیرت جو چار سو پھیلی ہے،  یہ جو بارش رحمت کی برسے،  یہ ہوا جو چلے،  یہ کمال حیرت میں پہاڑ حیرت میں گم رینے لگتے ہیں

شاہ ‏لطیف ‏

بھٹ شاہ سے اک سوغات دنیا کو ملی ہے. وہ عشق کا ایسا سوز ہے جسکے درد سے کھوٹ نکل کے رقص کرتا ہے کہ کھوٹ بھی مسلمان ہے. گویا ضد نہ رہی ہو گویا اندھیرا نہ رہا ہو. گویا سویرے والے چھپ گئے ہو ...وہ بزرگ جو ہمیشہ کڑی دھوپ میں وقت گزارا کرتے تھے اور ہوا سے سرگوشی ان کا دین تھا ... لطیف شاہ سچ ہوگئے. سچ ہوئے لطیف شاہ اور پھر عصا لیے وہ یدبیضا لیے جا بجا پھرتے رہا کرتے رہے ..  تلاش کیسا گھماتی ہے جو آواز ہے اٹھتی اندر سے اور کرلایا بولایا انسان جابجا سرگرداں رہتا ہے. یہی ہوا پھر جو اک دن وہ حق کی آواز میں ڈوبے تو ماہ صیام شروع ہوگیا. یہ مہینہ ان پر ساری زندگی دائم ہوگیا اور ان پر قران اترتا رہنے لگا ..وہ قران والے بابا ...وہ صحیفے والے شاہ ہیں اس لیے بھٹ میں رہنے لگے تھے ... یہ جگہ جہاں سے یہ آواز سچل سائیں میں چلی گئی. یہ آواز منتقل ہے. اسکا انتقال کیسے ہوا ہے کبھی نہ جانا یے. انسان خود کچھ نہیں ہے یہ صدائیں ہیں جو اس کو مجھ سے ملاتی ہیں. یہ پریم کی نیا ہے ...یہ پریمی کی نیا جس میں لال سرخ بخاری نے سرخی بانٹی. ہوش کی زبان میں کمال کا بیہوشی سے غالب لہجہ تھا انکا. وہ آواز گفتار میں ہو تو باقی صامت جو صامت و ساکت ہو تو اسکے قفل ہو جائیں کھل ... وہ کھلے دروازے جن پر سرخ بخاری کی ھو پہرا دے اسکا کیا ہوگا. اس کے لیے شیطان بھی ڈر کے بھاگ جاتا یے جب نام حیدر لیا جاتا یے. نام حیدر کرار ثانی کی بات ہے. بس اوقات نہیں ہے

عارف ‏

جانے شعور کی وہ کون سی لے ہے جس میں نہ ہونا ہی میرے ہونے کا پتا ہے. جب پتا نہ ملے تو سطح آب پر آتے دیکھنا بنتا ہے شعائر اللہ کو .. نشان یہ سارے دل میں. ظاہر میں سب نشان اس لیے بنوائے گئے کہ خاکی مجاز سے خیال تک پہنچتا ہے. جب تک تصور نہ کرے گا تصویر کو تو دامن خالی رہے گا. جیسے تصویر دل میں اترتی ہے تو علم ہوتا ہے ویسی تصویر پہلے سے موجود تھی ... عارف پر یہ حقیقت کھلتی ہے تب وہ راز شناس ہوجاتا ہے.  پھر اس کا حال دل، وقت سے جڑ جاتا ہے. وقت یعنی زمانہ اسکو وہ خبر دیتا ہے جو اس وقت کا ارشاد ہوتا ہے. ارشاد ایک ذات کی جانب سے ہوتا ہے اور پہنچانے والا پیام بر ہوتا ہے. امانتوں کو اٹھائے ہوئے انسان یہ سمجھ نہیں سکتا ہے کہ جب اس کی امانت کا راز اس پر افشاء ہوتا ہے تو اس کی معرفت حقیقت کو رسا ہوجاتی ہے ... یہ حقیقت سینوں میں چھپے راز اس پر منکشف کرتی ہے. راز الست یہ امانتیں ہیں ...ہدایت دینے والا بتاتا ہے کہ تخلیق کا مقصد کیا تھا. آدم کو جاننا چاہیے کہ واسطے خدمت پیدائش نعمت ہے. نعمتیں مختلف وسائل سے بنٹ جایا کرتی ہیں. عروضی شعائر سے نقاط کھل جاتے ہیں. قدوسی سے طائر کی پرواز لاہوت کی جانب چلتی ہے. بس من نمی گویم انا لحق " نعرے لگتے ہیں. نقارے بجتے ہیں ... سیاروں سے ستارے لگتے ہیں. سیارے بکھر جاتے ہیں ستارے پھیل جاتے ہیں ..ستاروں کا کام روشنی واضح کرنا ہے

اشک ‏کے ‏وظائف ‏

شاہِ جَلال سُرخ پوش ثانی ء حیدر کَرار سے مل رہے ہیں اشک کے وظائف!  بڑے دل سے ملا ہے اک ذرے کو،  ذرہ ء خاکِ ناسوت کب معرفتِ شاہِ سرخ جلال الدین کی کَر پائے ہے، یہ نامِ حُسین جو چرخِ زمن پہ روشن ہے، اسی لعل کے لال ہے مخدوم جَہانیاں جَہاں گشت!  

شاہِ جَلال سرخ نگینہ ہیں ، شاہ جَلال لعلِ یمنی ہیں،  یہ ضوئے حُسین! یہ بوئے حیدری!  زمین پہ موتیا کی خوشبو سے ہوا اوج چمن کو نکھار، یہ بہاراں ہے! یہ نظارا ہے!  یہ.راز برگ گل و سمن ہے!  یہ راز نہاں یے کہ.عیاں ہے اک راز! بس راز خفتہ کو ظاہر پایا ہے کون جانے کون جانے کون جانے بس رب جانے بس رب جانے

تَڑپ سے آدم کو مِلا قَرار کیسے؟ منتہائے اوج جستجو پے وجہ تخلیق بشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے رشنائی پائی!  نہ ہوتے آدم تو میرا جُرم جَفا، کیسے ٹھکانا پاتا؟  
مجھ کو آسر جد سے ہُوا، خطاوار کو ملتی.رضا ہے
یہ ہاشمی قبا ہے، جو سر پر رِدا ہے، یہ حَیا سے وفا ہے 
کون جانے کس کی لگن میں آس کے سوت کتن جاوے مری روح!  جو جانڑے،  وہ حال دل سے باخبر ہیں مگر مخبر اپنے دل کو راز نہاں سے عیاں سے کہاں تلک کی رسائ سمجھ  لگے، کریم ان کی صدا ہے



شاہ ‏جلال ‏الدین ‏سرخ ‏پوش ‏بخاری ‏

کبھی وہ تنہائی جس میں محفل لگے،  وہ لگے تو لگ جائے یعنی کہ ٹھہر جائے ـ وقت ٹھہر جائے تو رقت لگ جاتی ہے ـ یہ اجمالی تفصیل ہے ھو کی ـ وہ اور میں اک ہیں ـ تنہائی ہے ـ وہ اور میں اک ہیں اور تنہائی ہے ـ سچ نے شہ رگ سے خون میں شہد بکھیر دیا تھا ـ لگ گئی بازی اور من کے دریچوں میں  اک جھلک ہے ـ جھلک بھی کیسی ہے جیسے وہ پکار رہا ہے.  کہے جائے " قم فانذر " یہ تبدیلی کیسی ہے.  مبدل کچھ بہیں ہے کیونکہ سچ لازوال ہے سچ باکمال ہے ـ جانے کیوں اس کی نگاہ کی بانہیں تھام کے عشاق کو لوری دیتی ہیں جیسے ماں نے کہانی سنا کے بچے کو سلانا ہو 

اہل نظر شکریہ 
اہل شہید شکریہ 
اہل غفار شکریہ 
آلِ سید کا بے مثال شکریہ 
وہ مطہرہ،  طاہرہ،  طیبہ،  شاہدہ،  رافعہ،  ساجدہ،  مصفی کرنے والی روشنی 
دل میں ظاہر ہو تو سلام واجب 
ہم نہیں رہتے ہم میں یار رہتا ہے 
یہ سلام عشق بمانند سجدہ حسن بے مثال کو ... وہ عالیہ جن کے ملیح چہرے سے صبح نے تنفس لیا،  رات کو سکتہ ہوگیا،  سورج کو لالی آگئی حیا سے،  فلک کی نیلاہٹ کم ہوگئی 
مومنین.
درود خیال سے بھیجو 
پیار و محبت کی تصویر سے 
سجا لو تنہائی 
واحد کی تنہائی کے میلے دیکھو 
اجے سجی ہے سرخ لعلاں دی محفل 
اجے تے چلو ویکھو سجن دی سرخی 
شاہ جلال سے ملا سرخ نگینہ 
شاہ جلال،  شاہ بخارا،  ثانی ء حیدر کی بات ہے کہ خدا ساتھ ہے ـ لعل نے لعلی بانٹی ہے. چلو سلام کریں شاہ جلال الدین سرخ پوش کہ ان کی سرخ ردا ہم پر ہے. ہم نے کہا وہی ہوا ہے. ہم جو کہیں گے وہ ہو جائے گا. یہ لوح سے ملی روشنی. قندیل پاک میں شاہ جلال الدین کی سرخی اصل ہے. ہمارے اصل. اے سید روح سلام!  اے سید روح سلام!  اے سید روح دھاگہ لگادیا،  لاگی من کی کیسے بجھے گی کہ بجھے نہ بجھے کہ شہر حزین میں ہم ان کی محفل میں ہے. وہ ہمارے سید ہیں

شاہ جلال الدین سرخ پوش بخاری تشریف لائے ہوں، صبا گنگنائے تو کیا کہیں. جہانیاں کی سرزمین کے گلابوں میں سیدہ بی بی پاک جیواندی وقت کی بامراد ولیہ گزری ہیں. وہ شاہ جلال سرخ پوش بخاری کی پوتی ہیں  ان کی تمام نسبتیں سیدہ پاک دامن مطہرہ عالیہ واجدہ رافعہ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی تعالی عنہ سے ہیں. سیدہ بی بی نے انسانوں کو تعلیم دی محبت کی ... بی بی جیواندی بھی ایسی تعلیم سالکین کو دیا کرتی تھیں ..تاریخ کے گمشدہ اوراق دیکھیں تو کم ہی بیبیاں ہیں جن کے مزارات ہیں ...  بی بی جیواندی کا مقبرہ سخی سرکار شاہ بابا شاہ رکن عالم رحمت اللہ کے مزار جیسا ہے ..   اس مزار پر جا کے عجب ہیبت طاری ہوجاتی ہے ....   یہ ہیبت گلاب کے پھولوں سے جاری ہے ... قبر مبارک سے گلاب کی مہک جانفزانی ہے ...یہ رات آنی جانی ہے کہ شام سے بڑی کہانی ہے   .یہ جن جن کو نسبتیں ملیں ہیں وہیں سے ملیں ہیں

محمد ‏کی ‏میم ‏بڑی ‏نرالی ‏ہے ‏--- ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ ‏وآلہ ‏وسلم ‏

محمد کی میم بھی بڑی نرالی ہے ـ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ـ یہ نقاش گر نے تب ہمیں دی،  جب ہم افلاس میں تھے ـ جب سے میم سے نسبت بنی ہے ـ افلاس تو کہیں بھاگ گئی ہے ـ سروری ملی ہے اور دولت کون چھوڑتا ہے ـ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہِ مبارک جوں جوں تصویر میں جھلکنے لگتی ہے،  تصویر کا تعلق بوسیلہ میم المصور سے جڑ جاتا ہے ـ  یہ کمال کبھی بھی نہیں  درود کے بنا نصیب ہوتا  ہے ـ خیال میں محبت ملتی جاتی ہے، خیال محبت پاتا ہے اور خیال محبت دیتا ہے ـ جب سب کچھ یہاں نہیں ہے اور ہم محض خیال کی برق ہیں تو کیوں یہاں پر مستقل رہنے کا سوچ لیتے ہیں. خیال ملا، خیال نے وسیلہ بن کے دے دیا، جس کو جہاں سے ملا وہ خیال نے دیا ـ بندہ تو نہیں جانتا کہ دولت ہے کیا ـ دولت تو سکون ہے ـ اک جھونپڑی میں بیٹھا شخص خیال ہوتے خیال میں جائے تو کیا ہوگا؟  نیستی کا عالم ہوگا!  یہ جو ہستی کا مٹ جانا ـ خیال کو باہم وصلت ہوجانا یہ نور کے نور سے رابطے ـ برق کے برق سے سلسلے ـ یہی سلسلہ جس کو سینہ بہ سینہ انتقال کہا جاتا ہے ـ استقلال  چاہیے امانت کو سنبھالنے میں ـ جب امانتیں دی جاتی ہیں تو تقسیم روح کی شروع ہوجاتی ہے ـ روح کی تقسیم محبت کی ضرب سے ہوتی ہے ـ  محبت اگر بے غرض ہو تو منتقل ہوتی ہے ساتھ اس خیال کے جو کہ بطور امانت کاتب نے دیا ہے  یہ بھی اہم ہے کہ خدا نے ایسی امانتیں دیں مگر پہچان کا ذوق کسی کسی کو دیا ـ جب تم دیتے ہو تو یہ نہ سوچو کہ تم دے رہے ـ تمھاری اوقات نہیں ہے کہ تم کچھ دے سکو؟  تم تو خود ذات کے ہو ـ ذات کا کام ہے دینا ہے ـ یہ عین ذات ہے جو بانٹ رہی ہے ـ جتنا دیا جاتا ہے اتنی دنیا کی خواہش نکل جاتی ہے ـ ایسے اگر وقوع ہو جائے تو یہ مبارک بات ہے ـ نیک و سعید روح وہ ہے جو اثر سے نکل جائے؟  شیطان کے اثر سے ـ انسان تو محض متاثر ہوتا ہے اس کے بعد تاثر دم توڑ دیتا ہے ـ یعنی تاثر کشش پیدا کرتا ہے ـ اس کشش کو اچھی بات کے لیے رکھو اور اثر تو بس اللہ کا باقی رہتا ہے ـ خدا کو بقا ہے ـ وہ الحی القیوم ہے ـ اندر وہی تو ہے اس کو برق صمیم خیال کرلو ـ یہ شمع کی مانند جل رہی. کرنا تو اتنا ہوتا ہے کہ اپنے خیالات کی یکجائی کو جلا کے اس نور میں کود جانا ہوتا ہے وہ پھر مثل زیتون شاخوں کو ہرا بھرا کر دیتا ہے ـ کہاں رہتی ہے بندے کی ذات؟  اس کی باقی رہتی ہے. باقی تو اس کی ذات نے رہنا ہے کہ بندے کو اوقات میں رہنا ہے ـ شمس نے حجاب میں کب رہنا ہے ـ کسی نے مستقل میں کب رہنا ہے ـ سب بچھڑے اس کا خیال ہے ـ برق سے برق ملا کے اس سے مل جاؤ ـ بچھڑا یار خود ملے گا ـ بچھڑا یار قربانی کے بعد تو ملتا ہے 

سبحان اللہ!  ذی ہست و ذیشان ہے وہ ذات جو اوج ثریا پر بلاتی ہے ـ جو فاصلے مٹا کے سب نچھاور کرتی ہے ـ خدا محسوس نہ ہوا تو پھر کیا ہوا؟  سبحان کس شے کے لیے کہا؟  کس چیز سے متاثر ہوئے؟ وہی کہ برتر و اعلی ہے  عالیجناب سے بڑا کوئی نہیں ہے فقط اس واسطے احساس نے تشکیل دی ذات ـ ذات کو دیکھا کہ وہ اعلی ہے تو کہا پناہ!  کتنا حسین ہے خدا!  مر گئے ہم!  مارے گئے ہم!  زلیخا نے انگلی کاٹی ـ ہم نے جان قدموں میں رکھ دی ـ جان دی تو اسکی ہوئی تو حق ادا نہ ہوا کہ اس کو خود سے تو کچھ نہ دے سکے ـ اب اس کی بے نیازی سمجھ لگی تو پھر سبحان اللہ نکلا ـ دیالو اس لیے دیتا ہے کہ وہ محبت کرنا جانتا ہے اسے لینے کی توقع نہیں ہے ـ دیالو جیسی ذات بننا مشکل ہوتا ہے مگر کسی کو اس لیے دے دینا کہ دیالو نے کہا ـ بس اسے نیاز چاہیے ـ بندے کو عبد کہا گیا اس لیے ہے کہ وہ بے نیاز یے اور خدا تو بے نیاز ہے ـ پھر حمد کبھی خود سے کہہ سکو گے؟  نعت کا طریقہ آئے گا؟  یہ سب اس کی نسبت ہے تو لین دین کا طریقہ اسی نیاز و بے نیازی پر ختم ہوجاتا ہے ـ عبد فنا ہوجاتا ہے اور خدا رہ جاتا ہے تو پھر سبحان اللہ کون کہتا ہے؟

رات ‏کا ‏پچھلا ‏پہر ‏

رات کا پچھلا پہر ہے ـ اس پہر کو شب بیدار دعا کیا کرے تو مانگ بھر دی جائے گی ـ درحقیقت مانگت یہی ہے کہ دعا توفیق ہے ـ جس کو نوازا جائے وہ نواز دے خزانے ـ تقسیم میں رحمن و رحیم نے تضاد رکھا ہے ـ اختلاف اس نے الجھانے کے لیے نہیں بلکہ دھیان کے لیے رکھا ـ فرق تاہم فرق ہے ـ اصل تو ہم ہے نہیں یہاں. ہم تو اسکے مجسم خیال کی بجلی و برق ہے ـ اس لیے بنا آگ کے قندیل سے روشنی سورج کی سی صورت اختیار کرلیتی ہے ـ رات کے پچھلے شب بیدار بیٹھا ہے اور کشش کا نظام قائم ہے ـ شب بیدار کو شب دراز کی ردا کھینچنی ہے تاکہ جانچ لیا جائے سویرا پیغام پہنچانے والوں کے لیے ہے جبکہ اندھیرا پیغام لینے کے لیے ـ کھول آیاتِ المزمل ـ اک حصہ شب بیدار ہے اور دوسرا سویرے ہوجانے کے بعد یے ـ

وہ اک خواب میں ہے جو بھی انس یہاں پر ہے ـ در حقیقت عین تو مرکز وہ خود ہے ـ اس کی صوت نے تصویر بنادی اور آواز نے جسم میں جان ڈال دی ـ یہ سوچ کا دھاگہ ہے کہ ہر بشر جو مشکل ہوا،  اس کی صوت کیا ہے ـ صوت اک ایسا خاکہ پر مشتمل ہے جس کی درون کی صوت اس صوت کو پالے اس نے راز جان لیا ـ یہی پانا بشر کا مقصود ہے مگر وہ جانے کن کن باتوں میں پڑا ہے اور سیاپا بہت ہے. اس نے کمایا کیا ہے،؟  کچھ کام ہو تو ہم بھی اسکو جانیں ـ اس کو پہچان کا صلہ دیں کہ صلہ قربت ہے . دعا کے واسطے کائنات بنائی گئی ہے ـ دعا دینے میں بگڑی بن جاتی ہے اور حقیقت مل جاتی ہے 

اٹھ ـ شب دراز سے!  ردا کھینچ دے!  اٹھ کے پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ خاک ہو جا،  خاک میں مل جا تاکہ باقی وہی رہے ـ حق!  اسی کو بقا ہے مگر بندہ تو جانتا ہی نہیں ہے

اللہ ‏ھو ‏والی ‏ذاتیں ‏

آئنہ کیا ہے؟ آئنے میں ذاتیں ہیں ـ اللہ ھو والی ذاتیں ہیں ـ یہ اوقات نہ تھی کہ ہم پر ہاتھ برحمت رکھا گیا ـ ہم کو پاس بٹھایا گیا ـ اجمالی بات ہے کہ پردہ نشینوں سے ملاقات ہے ـ تفصیل بھی یہی ہے کہ حجابات ہٹ رہے ہیں ـ ہمارے آئنے میں کون ہے؟  ہم خود رقص میں ہے جیسے آمدِ شہہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیدن ترس ہوئی دکھیاری روئے جائے ـ کون جانے دکھیاری کا دکھ!  وہ قصہ اس کا نہیں تھا کسی مجذوب کا تھا مگر بیتا تو اس پر تھا ـ اللہ المتکبر ـ تکبر اللہ کو ہی جائز ہے ـ وہ کبریاء جاناں ہے اور کبریاء جاناں نے راز بتایا تھا مجذوب کا 

راز یہ تھا کہ وہ ستارہ شعری کا رب ہے ـ بات تھی اتنی کہ بہروپ کی ضرورت ہے کہ روپ اتنا پرانا ہے ـ نور قدیم گویا رگ زیتون سے ملحم آیات کی بارش سے شرقی و غربی نہ ہونے کی بات کرتا ہے گوکہ اللہ مالک ہے شرق و غرب کا ـ بہروپ بابا بدل لیتے ہیں اور کہتے ہیں تو جوگی اور میں کون؟  وہ خود جوگی بنانے آتے ہیں اور جوگ دے کے چلے جاتے ہیں 

اضطراب میں لیلی کو رانجھن یار کی ستاتی ہے ـ رانجھن یار کے پیچھے ہنجو آپ اسی خریدے او تے من اچ وڑ کے مل جانا سی ـ ہنجواں دی گال کون کرے گا ـ اساں تے گل ختم کیتی، کہیندے نیں سائیں ساڈے 

ہم ہر جگہ موجود ہیں 
پربت میں جھانک بندی 
گردشِ افلاک کو دیکھ 
قیامِ اشجار کو دیکھ تو 
رکوعِ  حیوانات کو دیکھ 
زمین پر پہاڑ کا تشہد دیکھ 
سمندر کا دیکھ سجدہ تو 
عالم کی رویت کائنات اک 
اک کائنات کی تو نماز دیکھ 
دیکھ کے افلاک پر ہما کو تو 
پالنہار کی داستان ہے دنیا 
قبور کا سکوت جذبہِ اتصال 
قبور میں رہتے مجذوب ہیں 

بعدِ مرگ وہی پریم کہانی چلی ہے جو زندگی میں سہی ہے ـ دو کہانیوں کی یکسانیت میں کردار بھی اک ہے ـ موت آگئی!  موت اور قبر اور جذب!  

حق!  وہ ستارہ شعری کا رب ہے 
روپ بہروپ کیا ضرورت کیا ہے 
ستار ہے وہ وہاب ہے وہ منیب ہے 
اس سے لکا چھپی کی ضرورت؟  

وہ آنکھ میری آنکھ ہے جو اسکی آنکھ ہے!  اس نے دیکھا!  ہائے رے مورا محبوب!  جس نگاہ سے دیکھا جہاں دیکھا وہ،  جا ہماری کاہے کی!  وہ جا تو اس کی ہے ـ تن کے جا بجا آئنوں میں مورے محبوب کی جھلک رہا ـ اسکا رنگ عنابی رے اس کی بات سحابی رے ـ

سلام ‏

سلام ہو ان ہستیوں پر جن کا نام لینا بھول چکا یہ دل اور سلام ہو آلِ علی اور آلِ حسنین پر.  وہ کشش کا تیر ہے جو پیوست رہے گا دل میِں.  محبت کے بس میں کہاں دل میں سمائے، دل پاک نہیں مگر پاک کردیا جائے دل تو دل کو کیسا فخر. دل تو نفس کے مجہولات میں مغوی.  پھر کرم کے در کھول دیا جاتا ہے تو رحمت برسنے لگ جاتی ہے.  یہ نہر جو لہو میں ہے،  یہ چاشنی جو حسن میں ہے،  یہ نیرنگی جو خیال میں ہے،  یہ افتاد جو طبع میں ہے،  یہ خال خال میں چہرہ نقش ہے اور نقش پری ء جمال میں محو ہے.  یہ کیا ہے؟  کچھ نہیں!  یہ کہتا ہے کہ تو نے دل کتنے صنم وار دیے مگر صنم اک ہی ہے اور ترے حصے بیشمار. تری دوئی ختم ہو تو،  ترا چلنا محال نہ ہو اور یوں بیحال نہ ہو. یہ گرمی ء افکار جس سے دل فگار اور تن پر اشجار کا عکس!  یہ قیس نہیں جو مجنون ہوا،  یہ دل ہے جو مندوب ہوا اور قصہ خوب ہوا

تیر فگن ـ ساکنان بغداد ـ جانب کوفہ ـ لہو میں نہاں ـ دل پر الم کے سائے ـ گردش میں اشجار کے سائے ـ دل کرے ہائے ہائے ـ عین عین ہے وہ نور عین ہے ـ وہ نور العلی ہے ـ وہ نور بطحا یے ـ وہ شاہ بطحا ہے ـ وہ حبیب کبریاء جبرئیل لائے جن پر وحی ـ سلاسل اوہام کے جاری اور مجاوری کرنے والے حسینی ـ قافلہ ء عشق کے پاسدار ـ کرم نے لاگ لگا دی ـ جنم میں نئی آگ لگا دی ـ رگ رگ میں تار لاگی ـ رشتے نے قرطاس پر تحریر لگا دی ـ شامِ حنا ہے،  قبائے رات میں وہ

روئے قرطاس پر لہرِ دل جاری،  اب کہ جان سے جانے کی باری. یہ نہیں کہا کہ خامشی سے جھانکو بام و در کو. جو کہو وہ سنو اور جو سنو اس پر خمِ دل کو جھکائے رکھو. ساقی میخانہ نے پلائی ہے اور آنکھ ایسی ملائی ہے، نہ ملے نہ ملی کہ ایسے ملی اور ملی تو بنے حرفِ جلی. یہ حرف جلی نہیں کہ دل کی کلی ...

خیال ‏پر ‏حضوری

تمہیں دل کہوں؟
دِل کو لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
تم کو مگر خیال پر دسترس نہیں 
خیال پر تم کو حضوری حاصل نہیں 
جب مرا خیال مجھ میں حضور نہیں اور کورے کاغذ جیسا سیال ہوں جسکا ہر حرف نگاہ سے بنتا ہے، مجھے لفظ بانٹنے کا کہنے سے کیا جائے گا مین حرف دل کی پجاری --- میم----حے ------میم----دال -- الف نہیں یے اس لیے دو دفعہ میم یعنی میم کے اوپر میم ..گویا نور علی النور --- گویا زیتون کا شجر بھی ہم رنگ ہے گویا شاخ انجیر میں مجلی ہتے "حے " جیسے ہیں گویا "دال " ایسی یے جیسے کلام کرے. تم نے محبوب کا حسن دیکھا میرے؟ اگر کبھی دیکھو تو پاگل ہو کے کہو میں مجذوبِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہو ... دِل تو دِل کی سنتا ہے تو بوجھ ہلکا ہوتا اگر تم ان کی زلفِ پوشیدہ کا نور دیکھو تو سمجھ آئے گی غشی سی طاری رہتی یہ صدائے غنود --- جسطرح لیل میں شمس موجود ہوتا ہے اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی رات میں موجود ہوتے ہیں اور اپنی کملی کا زلفِ نور کا سایہ کیے رکھتے ہیں اس لیے ہم چین کو سوجاتے ہیں مگر وہ لوگ جن کو جلوے کی تابش میں جلنا یوتا ان کو اس سے چین نَہیں آتا، پھر جب کملی ہٹاتے ہیں کائنات سے تو صبح ہوجاتی یہ سحر خیزی ..اس لیے پرندے اللہ ھو -- کرتے جبکہ چڑیاں چہچہاتی،  جبکہ پتے لہلہاتے، شبنم گرتی یہ آنسو خوشبو سے جدا ہونے کا جان لیوا ہوتا ہے .... ان کے چہرے کو جب دیکھو تو نگاہ جھک جائے جبکہ دیکھا ہے نہیں یہ تو گمان سے نکلتا نور ہے جو مرے سینے میں معجزن یے کہ شاید وہ دیکھ رہے ہیں --- اللہ آنکھوں کو پالیتا ہے اسیطرح وہ بھی آنکھوں کو پالیتے ہیں ...یہ حسن ملکوتی ہے جس کی مثال ملے گی نہیں اور بندہ گم صم ہو جائے گا --- دل کی فصل میں لالہ ء جنون کھل گیا ---- دل کو عندیہ ء بہار مل گیا

صورت ‏یار

کوئی امکان نہین صورت یار ہے کہ سورہِ قران جب تک قرات نہیں ہوگی، بھید بھید رہے گا.  روگ لگا ہے، مریض دیکھتا نہیں کوئی. ہم تو اسے ڈھونڈتے ہیں مگر ملتا نہیں کوئی  آہ!  دل چیرا دیا گیا اور دل خالی!  کوئی چیز تو خآلص ہوتی مگر بے مایا انمول کیسے ہو سکتا ہے.  جو ان کے در پر جانے کا خواہش مند ہو،  وہ در در رل کیسے سکتا ہے اور جو رُل جائے وہ دھل جائے اور جو دھل جائے دل مل جائے. میرا دکھڑا سنے نہ کوئی،  سنے نہ تو سمجھے نہ کوئی،  سمجھ تو نبض دیکھ کے معلوم ہوگا مگر طبیب چاہ ہے اور کوزہ گر کو دیکھیے سیراب کیے جاتا زخم ہرے ہیں اور پانی دے رہا. یہ بڑا دکھ ہے کہ حیاتی کو روگ لگا ہے اور حیات بھی حیاتی ہے. جیون کو روگ لگے ہے اور مجھے سوگ لگے ہے میں نمانی جاواں نہ چھڈا محبوب دا ویہڑا،  پے چھایا اکھ آگے انیرا،  اکھ پئیٰ روندی اے اور میں اشک وچ بہہ جاواں گی.  

چارہِ گرِ شوق کچھ کرو
نسیمِ صبح، جا محبوب کو بتلا دے 
مریض مر جائے گا، کچھ کر دیجیے 
چارہ گر شوق!  کچھ مرہم؟
چارہ گر شوق!  اور زخم؟  .چارہ گَرِ شوق!  کچھ نمی؟
چارہ گرِ شوق!  میں ہوں دکھی. 
چارہ گر شوق!  مجھے راز بتلا 
چارہ گر شوق!  مجھے الف الف سکھا 
چارہ گر شوق!  مجھے ب میں  مت الجھا 
چارہ گر شوق!  مجھے خونی رقص سکھا 
چارہ گر رقص! بسمل کی جاوداں حیاتی دیکھ. 
چارہ گر شوق!  کچھ کر،  کچھ کر 

مریض مر رہا ہے،  طبیب کے پاس شفا ہے. جس نے مار ڈالا،  وہ اس کی دید تھی، جو مارے گی،  وہ دید کیا ہوگی؟  جو مجھے دیکھے وہ تو میِں کسے دیکھوں؟  میں تجھے دیکھوں اے ذات!  نقشِ حریمانِ باغباں کے دیکھو،  جا بجا تن پر سر سبز نشان!  یہ روح کے نیل اور یہ جاوداں سر سبز نشان. ُ

خاک ‏ہو ‏جا ‏!

یہ سب کہنے کہنے میں کہا نہیں جاتا ہے اور بات ایسے کہ رہا نہیں جاتا . کوئی خالی پن کی دیوار کو محبت کے گارے بھر دے تو عمارت شاندار ہو . کھنڈر سے کیا کہا جائے گا. کھنڈر کیا سنے گا؟  اے دل!  تو دل بن جا محبوب کا. محبوب کا دل ہونے کے لیے دل ہونا ضروری ہے . دل نہیں پاس اور سنے کون؟  دل دے کون؟ خون نہیں دیتا کون تو دل کون دے . اے ابتلا،  انتہا سے ملا!  اے ابتلا،  ابتدا میں نہ رکھ!  اے ابتلا!  چل در محبوب بن کے ہوا کے دوش اڑا،  کوئے جاناں کی خاک بنا. سنگ در جاناں بنا.  ان سے بات بنے اور دل چراغ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو جائے. ریشم کی لاگ ہے ریشمی سوال ہے ریشم والا جانے گا. بلاؤ کسی ریشم کی کان والو کو وہ سنے کوئلہ ہے کہ ہیرا. وہ بتائے زمین زرخیز کہ بنجر،  پہاڑ مضبوط ہے یا زمین بوس ہے اور دونوں حالتوں میں نفی اثبات ہو رہی ہے. نفی میں خوش کون اثبات اگر نہ ملے اثبات جلوہ ہے. جلوہ کہاں سے ملے گا؟  جلوہ جلوہ والوں سے. جلوہ آیتوں والے سے جلوہ دل کی لاگی والی سے جلوہ نم دل کی زبان سے نکلی.فریاد سے. جلوہ میں جب آہ ہوگی تب واہ ہوگی. جب وہ ہوگی تب بات ہوگی



درد ‏سے ‏کہو ‏مجھ ‏سے ‏ملے


درد سے کہو مجھ سے ملے. اسکو تازگی ملے ... درد سے کہو آئے مجھ میں سمائے،  اسے روح ملے،  درد سے کہو، مجھ سے لمحہ لے اسے صدیاں ملیں درد سے کہو ستارے سے ملے اور روشنی دے. تلاش ہے. جی تلاش ہے  تلاش ہے اس کی جس کی مکھ چن نے دیوانہ کیا. وہ سوہنا چھپ گیا اور جان ہماری بن آئی. درد مل گیا... اے دل میں پڑی آرزو ..تو پرواز کر جا،  تجھے تو آشیانہ ملے میں تو ازل سے بے ٹھکانہ ہوں. مجھے ہجرت کا روگ ملا ہے اور وصلت کی لاگ لگی ہے. نہ جیا جائے جائے نہ مرا جائے. وہ آئیں تو مرجائیں گے اور مر کے جی جائیں گے ...کوئی تو مارے من کی میں کو .کوئ تو چلائے آرزو کو نیَّا میں .کوئ سفینہ دے دے. کوئ پیار کا اظہار لاگ دے کوئ جیون کو پیار دے کوئ تو دکھ کو اظہار دے کوئ تو شان میں سنوار دے کوئ تو چلمن ہٹا دے کوئ تو ایسے ہو. نہ ملے تو کوئ تو کا کریں گے بس مانگتے رہیں گے جلوہ ملے گا جلوہ اور کام ہوگا اپنا. ملے گا وہ سپنا جس میں اوج بشریت کو دکھایا گیا ملی گی رات میں رات. ملے گی کہانی کی مثال ملے گی جنون کو کبھی منزل. عشاق کا قافلہ ہے چلو سید! چلو سید!  چلو سید

لکھنا  حل نہ تھا مگر حل تو ملا نہیں. اس لیے مدعا کہنے کو کہہ دیا جائے تو غم کو حوصلہ مل جاتا ہے یہ کس دل میں ٹھہرا ہے بولو تو سب دل اک جیسے   .بولو تو دل میں ذات اک جیسی. بولو تو رنگ بھی اک. بولو تو قزح بوند سے بنتی ہے اور رنگ خوشی دے دیتے بولو کہ نہی کے امر میں کن کا نقارہ وجا ہے اور وج جاوے اللہ کی تار ہوجاوے دل دیون درود دی پکار. جے کہوے سرکار سرکار،  ویکھاں میں اونہاں نے بار بار .... شام لٹ گئی میری تے رات وچ شمس دی لالی سی.

جزا،  سزا کے فیصلے کرنے سے زیادہ محبت کرنی چاہیے، محبت بانٹنی چاہیے!  جزا و سزا کا قانون خدا نے اس لیے بنایا کہ کوئی شخص کسی دوسرے پر زیادتی کر نہ پڑے جبکہ آپ سراپا رحمت بن کے اپنا آپ خدا کو سونپ دو،  خدا بڑھ کے دے گا


خط***

میں نے خَط لکھا اور لکھ کے اسکو بَہا دیا.  یہ خطوط تو عدم سے وجود اور وجود سے عدم تک پہنچتے رہے. میں بھی تو اسکا خط تھی مگر میرا چہرہ کس سورہ میں لکھا تھا،  حم کہتے کہتے نگاہ رک جاتی ہے اور نگاہ یٰسین پر ٹِک جاتی ہے.  حم کے انتظار میں ہجرت نے کتنے اژدہام میرے وجود میں اتارے دیے. لباسِ تار تار کو رفوگری سے ہو کیا کام،  اس کو چارہ گری سے ہو کیا کام. مگر پھر نقطہ یاد آتا ہے میں اک نقطہ تھا اس نے خط کھینچ کے مجھے بھیجا. میں نے سمجھا کہ میں دور ہوِ وہ خط گھٹ رہا ہے جیسے میں نے زمانی نور کو پالیا ہو جیسا وہ حم کی منزل پر مستقیم ہو اور حبِ حسینی جس نے خمیر کو جکڑ رکھا ہے اس کے بنا یہ کام ناتمام تھا. کسی نے کہا چلو قافلہِ عشاق میں اک سواری تمھاری تو کب سے خالی تھی مگر تم نے آنے میں دیر کی اور میں نے کہا کہ میں کس جگہ ہوں کہ میں نے نقطے کو نقطے جیسا پایا نہیں ابھی میرا خط ابھی میرے سامنے ہے. زمانی نور مکانی نور سے ملا نہیں. جب ملا نہیں سب جھوٹ ہے سب مایا. زمانے کو مکان میں آنا تھا یا مکان کو زمان میں جانا تھا. ہالہ ء نور ہے نہیں. بیساکھیوں کے ساتھ چل نہیں سکتا دل اڑان کیسی؟  اے دل تو اڑ جا!  غائب ہو جا!  تو مت پروا کر،  ترا ہونا ترا نہ ہونا ہے.  تو جسم موجود میں نہیں بلکہ زمانے کے ساتھ ہے

خالی ‏لفظ***

سر دست میرے میرے لفظ ہیں. خالی لفظ ہیں نہیں یہ خالی نہیں. ان میں اشک ہیں. یہ حرف دل ہیں.  ظاہر سے رنگ ان کا گہرا نہیں مگر اندر سرسبز ہے. ہدیہ اک ہے یعنی دل اک ہے جو نذر میں جاچکا ہے تو باقی بچتا ہے خالی دل. نَذر مانو تو پوری کرو 
نَذر کیسے پوری ہو؟
میرا دھیان بدل گیا 
میرا گیان بدل گیا 
حرف ترجمان میرا 
حرف نگہبان میرا 
میں نے لکھا صنم کو خط 
خالی تھے لفظ، حروف کے جام لیے 
لوگ سمجھے خالی کاغذ ہے 
دل سے جس جس نے دیکھا تو جذبات سے سینہ منور پایا 
گویا روئے احمر کو پایا 
تم کو پتا روئے احمر کیا ہے؟
وہ جس کے یاقوتی لب ہیں 
کس کے لب ہیں یاقوت جیسے
وہ جن کی زلف کے صبا ناز اٹھائے 
وہ جن کے کاندھے پر جھلکتی نور کی پوشاک کسی بیان میں نہ ہو 
وہ روئے یار امام حسین!  جن کی غایت نظر سے چاند چھپ جاتا ہے! بھلا اک سینے میں دو دل کیسے ہوں؟  سو زمانہ سمجھتا ہے زمین نے لکھا ہے جبکہ حرف بتاتے ہیں مطلعِ انوار بدلا ہے!  کسو سمجھاؤ کہ ہم نے جانے یہ انداز کس سے سیکھا ہے کہ نہ جانے ہم کو کونسی زمین میں جائے پناہ ملے یا ہم کسی فلک سے معلق زیست گزارن گے مگر دیکھیو صبا!  ہم راہ تکا کریں گے اس راہ کی جس راہ پر خونِ بہ لعل بہ جواہر گرا اور زمین نے جذب کیا تو حسرت دل کو ملے کہ زمین ہماری کس کام کی!  کاش دل پر گرا ہوتا!  کاش کہ یہ رقص سر بازار نہ ہوتا ہے کاش دینے والا ہاتھ میرا ہوتا، کاش کبھی لیا نہ ہوتا کاش دعا میری عرش سے ٹکرا جاتی،  کاش خدا کا جلال،  جمال مجھے باکمال کردیتا، کاش رویت کا عکس مجھے آئنہ کر.دیتا کاش میں! یہ کاش سے نکلے لفظ کانچ ہوئے!  ٹوٹ گئے اور پھر بھی رہا ترا وجود. تری ہست!  تری نمود! میں رہا سنگ اور قرار پایا ترا وجود 

چلیں اشک بندی کریں! محفل سجے گی!  چلو نعت کہیں محفل ہوگی. چلو خدمت کریں محفل ہوگی چلو پیار تقسیم کریں محفل ہوگی چلو کہ محبوب بلائے گا! چلو چلو ورنہ چلا نہ جائے رحمت افلاک سے برسے گی اور جواب نہ ہوگا!  چلو اظہار میں نہ پڑو!  چلو رنگ سے بچو!  چلو اک رنگ میں ڈھل جاؤ چلو اک چاہت والی کی چاہت اپنا لو 

چلو درود پڑھیں!  چلو آشنا سے آشنائی کو بہ آواز بلند پڑھیں!  چلو دل کے مالک کو تعریف کہنے دیں یا محمد کہتے اور نکل جائیں نفس کے حجابات سے!  چلو مالک جانے اس کا محبوب جانے مگر غافل تو نے مانا نہیں مجھے!  ارے غافل تو نے پہچانا نہیں مجھے!  ارے غافل تونے چال پہ نظر کی،  حال پہ دھیان کر!  غافل کو غفلت نہ لے ڈوبے!  غافل کا خیال خیال الوہی سے ملا جائے گا!  غافل پھر نہ غافل ہوگا اور عقل کا چولا ساتھ نہ ہوگا 

چلیں ہم چلے!  ناز بہ ندا اس کے پاس. اس کے ہاتھوں میں شہنائی ہے اور شہنائی محبت والی ہے اس نے کنگن پہنا ہے اور وہ کنگن محبت والا ہے. بجے گی شہنائی اندھیرا مٹے گا اور سویرا ہوگا. کیوں ہے تجھے مہجوری کہ تری مری کیا دوری. ترا مرا ساتھ ضروری اور خودی میں جانا ضروری!  تو چل!  تو چل دل میں جھانک!  اندر تو نور ہے اور رولا ڈالا ہے کہ اندھیرا ہے!  ارے غافل اٹھ!  اٹھ   اسکا ذکر پکڑ لے!  اس نے تجھے تھاما ہے تو بھی تھام لے اسکو. تو رہ کے رینا سیکھ لے.
احساس!  احساس نے دلاسہ دیا!  محبت کا کاسہ دیا!

حرف ‏مدعا

کبھی کَبھی  حَرف مدعا سے دُعا بن کے لبوں کو بن چھوئے اَدا ہوتے ہیں، حرفِ تسکین باوُضو دل کا مسکن ہوتے ہیں ۔ سجدہِ نشاط ہست کھوجانے کے بعد میسرِ قلب کو سامانِ تسکین بہم پُہنچاتا ہے ۔ یہ جو لفظِ اشارتاً بولے بَیاں میں نہاں ہوتے ہیں ، حجاب میں ملبوس ،استعاروں کے باسی ہوتے ہیں ، ان کو سَمجھنے کے لیے گہرائی میں اُترنا پَڑتا ہے ۔ گہرائی ، سیپ سمندر ،  دل دریا ،راوی قلندر ۔۔۔۔ اس  گہرائی سے گیرائی میں ملبوس لفظ اپنے معانی عیاں نہیں ہونے دیتے مگر اس دل تک پہنچتے ہیں جو اتنا ہی گہرا ہوتا ہے

فنا

عشق کا عین اس کی یاد میں فنا ہوجانا ، فنا ہوکے پھر سے زندگی پالینا ہے ۔ وہ تری آنکھ ، ترا ہاتھ اور کان بن جاتا ہے ، اندر کی کائنات بدل جاتی ہے ، وہی نظر آتا ہے ، دل کے دھک دھک میں وہی دکھتا ہے ، خون کی روانی میں شور اس کے ذکر ہوتا ہے اور اپنی حرکت میں اس کے نام کی تسبیح ہوجاتی ہے۔ روح نکل جائے تو جسم کو ٹکرے ٹکرے کردو تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ بالکل اسی طرح انا کا غبارہ اندر کی روشنی پر جالے بناتے ہے ، اگر ہٹا دیا جائے تو کیا ہو؟ بس اپنی تو روح اڑ گئی ، ذرہ کی کیا مجال سمندر کے سامنے! میرے اندر یار کا گھر ہے اور میری انا کی روح اڑ گئی تو بس میں ایک مکان ہو جہاں میرا یار رہتا ہے ۔میں فانی ہستی کو چھوڑ کے بقا کی منزل پر قدم رکھ رہی ہوں اور لوگوں کو پیچھے کھڑا دیکھتی ہوں ۔میں فلک کی جانب پرواز کر رہی ہوں اور مجھے دیکھنے والی آنکھ کھو گئی ہے ۔میں نے  بعد پرواز کے بادلوں کے مالک ، نور الہی کے گھر دستک دی اور ایک کے بعد ایک فلک  کو پار کرتی رہی ، یوں جیسے سمندر کو پار کر رہی ہوں ۔۔۔ سفیر پرندے اک دائرے میں ذکر میں مصروف ہوتے عشاق کی قربانی کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور میں ان کی باتیں غور سے سن رہی ہوتی ہوں کہ شاید میری قربانی کے بارے کوئی بات ہو! مجھ سے سوال کیا جائے مگر وہاں تو کارنامے بتائے جارہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔کوئی بھی ہستی قربانی دیے بغیر عشق کی منرل پر سوار نہیں ہوتی ہے ، عشق مانگتا ہی قربانی ہے جس کو دینے والے وجود ، دے کر ، خود کو دوامت اور ہمیشگی بخش جاتے ہیں ۔

قدم

ہر قدم میرا قید ہے مگر میں اس قید میں بہت خوش ہوجاتی پر کبھی کبھی لطافت مجھے لحجاتی ہے . میں کبھی باہر کی دنیا کی سیر کرتی ہوں اور جہاں جہاں جاتی ہوں کھو سی جاتی ہوں اور اندر کی دنیا کیسی ہوگی . یہ دنیا شریانوں میں محسوس ہوتی شہ رگ میں مقید ہوجاتی ہے . اس مقید شے مجھے اپنا عکس نظر آتا ہے . اس عکس میں مجھے کون محسوس ہوتا ہے . وہ جو میری جاں سے قریں ہے ، وہ جو میری جبل الورید سے قریب ہے . اس کا ذکر میرے خون میں چلنے والی سانسیں کرتی ہیں . مگر میں اپنے خرابات میں کھوجاتی ہوں . مجھے سمجھ نہیں آتی کہ درود بھی پھولوں کا دستہ ہے جس کا ہر پھول ایل گل دستہ ہے . میں نے جب اس دردو سے اپنے تن میں خوشبو لگائی تو میرے اندر کی جمالیت نے مجھے حسن عطا کردیا ہے . مجھے خود کو حسین ترین کرنے کی طمع ہونے لگی ہے .

شب ‏قدر

میں تمھیں بتاؤں اک بات کہ شب قدر کی رات دیدار کی رات ہے تو تم کو یہ بات مطلق سمجھ نہیں آئے گی. اطلاق سے نہیں انتقال سے سمجھ آئے -- دعا کیا کرو شب قدر میں صحیفوں کا انتقال ہو کیونکہ قران پاک کو مطہرین چھو سکتے اس لیے خدا فرماتا یے وثیابک فاطھر --- نیت ایسا بیچ ہے جب شجر الزیتون ہو تو ہر بھرا -- شجر الزقوم ہو صم بکم کی مثال ہوگئی -- نیت سنبھال نہ سیکھ لے ورنہ پتے کھلنے بیل بوٹے لگنے سے پہلے خزان نہ آجائے --- اٹھ مثلِ شجر سائبان یو جا-- مسافر کو چاہیے کہ زادراہ محبت کو جانے -- تسلیم کو تحفہ سمجھے -- نیاز تقسیم کرے -- خدمت کو شعار بنالے -- اے نفس -- قلب سلیم ہو جا کہ  فواد سے رابطہ ہوگا--- کلمہ کفر کا پڑھنے سے زندگی میں اندھیرا ہوا تھا --- اجالا زندگی یے اور حرا مقام دل میں وہ نشان یے جہاں طائر حطیم سے اڑتے ہیں اور منبر تلک آتے ہیں -- دانے چگتے اور غٹرغوں کرتے --- شہباز لامکانی کا ایسا پرندہ ہے جس کے پر اتنے قوی ہیں کہ ہواؤں کے سنگلاخ سینے پر داستان رقم ہو جاتی یے ---* کوہستان -- بیابان-- میدان کچھ بھی ہو یہ مراد ہوتے ہیں اور با مراد ٹھہرتے ہیں --- یہ کومل تلک جو ماتھے پر ہے یہ ھو کا نشان یے --- جب یہ نظر میں ہو تو طائر کو نشان مل جاتے ہیں --- تخیل کی تمام پروازیں ہیچ ہوتی ہو جاتی ہیں جب انسان کو نگاہ مل جائے *-- نگاہ ملے تو خیال مل جاتا یے --- محبوب خیال میں یے اور تو بھی محبوب کے خیال میں -- یہ جو خیال ملتے جاریے ہیں یہ عندیہ ہیں کہ واصل ہونا دور نہیں --- آیات ترتیل ہو جائیں تو قندیل روشن ہوجاتی ہے --- اصل کام یہی یے

تری دیوار ہے اور پس دیوار میں ہوں ، تو ستار ہے اور گناہگار میں...  ہوں ... گناہوں سے پر دامن پر ستار نے نام لکھا ستاری کا. تحفہ ملا رقصِ شرر کا.  یہ جو بابا دل میں رقص کرے ہے یہ تو رقاص کا تماشا ہے. ظاہر میں بات نہیں ہے،  وہ خود تماشا اور خود تماشائی ہے. وہ خود کرسی ہے اور خود کرسی والا ہے ....

بیقراری ‏کا ‏پرندہ

بیقراری اک پرندہ ہے جس کے پر پھڑپھڑاتے رہتے ہیں اور سنگ در جاناں جب تک بن نہ جائے،  یہ اپنی اڑان سے زخمی ہوجاتا ہے ـ ہوا تکیہ بن جائے، تخییل اندھا ہو کے بھی محو ہو جائے اور گائے پریم کی نَیا میں الوہی گیت اور راگ سُر ماتا ـ یہ راگ ایسا جس سے پہاڑ جیسے دل ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہو جائیں اور آنکھ سے نہر بہہ جائے ـ مثل یعقوب دیدہ ء دل کن کے بعد سے نابینا رہا اور بینائی کے لیے محبوب کی خوشبو چاہیے تھی. جا بجا اس اک پوشاکِ یوسف کی مثل ڈھونڈا ہے ہم نے اس ملاحت آمیز خوشبو کو ـ جس کی مہک سے کھلے غنچہ ء دل اور نیم واہی میں جلوہ دیکھیں گے اور کھل کے دیکھنے کے لیے سر نہ ہم کبھی اٹھائیں گے ـ ان کے ملنے سے پہلے کبھی دہلیز سے نہ اٹھیں گے ـ اے موت!  ٹھہر جا!  ابھی رک جا!  ابھی ان سے ملنا ہے اور ملنے کے بعد لے جا خاکِ دل کو محبوب کے در پر کہ نہ رہے نشان اور ہونشان دل پر محبت کےنقش ـ یہ غزل ہے اور غزل صدا ہے

ساتھ

جس کو میسر تھا اسکا ساتھ اور جس کو نہیں تھا ساتھ ـ جس کا ہاتھ خالی اور جس کا دل بھرا ہوا تھا ـ جس کا من خالی اور ہاتھ بھرا ہوا تھا ـ دونوں میں فکری تفاوت کی خلیج نے فاصلے ایسے عطا کیے کہ من بھرے بھاگن سے تن پُھلے تن جاون کے مراحل تھے ـ یہ فکر جس نے پرواز کرنا ہے، یہ پرواز جس میں ماٹی کے قفس سے پرندے نے جگہ چھوڑ جانی ہے، اس کی بیقراری عجب ہے جیسا کہ سب بھول گیا ہو کہ وہ کن سے فیکون ہوا تھا ـ وہ تو نہ کن ہے اور نہ فیکون ہے ـ وہ نہ ازل ہے نہ ابد ہے ـ وہ تو لوح و کتاب کا خیال ہے اور وہ خیال بس آنکھ سے وارد ہوا اور سیدھا پیوست ہوگیا تو لا یدرکہ الابصار سے نظر والا ہوگیا ـ پھر جا بجا،  جگہ جگہ آیت اترتی دیکھی اور یاد آیا فثمہ وجہ اللہ اسی پر صادق اترا کہ خدا جابجا ہے اور کہیں نہیں ہے جس بے انکار کردیا ـ انکار کرنا کچھ بھی نہیں بس اثبات کی نفی ہے ـ اپنی نفی ہے اور تن کی چاشنی ہے،  روح کا سوگ یے ـ یہ ہجرت کے روگ ہیں اور جدائی کے سنجوگ ہیں ـ کتنی فطرت بیباک ہوئی ہے اور فطرت میں چھپا اک سیپ عیاں ہوا ہے ـ یہی نشان دل یے ـ یہی آیت دل ہے ـ پتوں کو ہلنے میں،  بوٹوں کے کھلنے میں، گلاب کی خوشبو میں،  پہاڑ کی سنگت میں،  وادی میں گونجتی آواز میں،  پنچھیوں کی اڑانوں میں ـــ اللہ وحدہ لاشریک یے اور جب یہ آیات دل میں اتریں تو منظر مشہد ہو جاتے اور بندہ شاہد پھر انسان اس آیت کی تفسیر ہو جاتا 
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم 
وہ زمانہ لوٹے اور پھر ہم نہ لوٹیں کبھی ـ اس زمانے میں رہیں سدا ـ یہی حقایت ہے ـ

ذات

دُھواں دھُواں میری ذات ہے ۔ اس سے نکلتا دھواں کبھی ختم نہیں ہونا جیسے کہ اس میں  ایسا سسٹم نصب ہے جس کو بقاء ہے جو خرچ کرنے کے باوجود جلتا ہے ۔ جس کی روشنی جگنو کی جیسے ہوتی ہے اور جس کے دھواں میں خُوشبو گلاب کے پھول جیسے ہوتی ہے ۔ ہیر کی مانند رانجھے کو ڈھونڈنے نکلی میری روح صحرا میں کھڑی ہے اس کے پاس کوئی سواری نہیں ۔زاد راہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔پاؤں کی آبلہ پائی میرے شوق کا نشان ہے اور ان سے بہتا خون میری رفاقت ۔۔۔اس دوری میں ۔۔۔ اس ہجرت میں ۔۔۔ اس درد میں اور سوز میں بھی ایسا مزہ اور سرور ہے جس کو مل جائے وہ دنیاؤی آسائشات کو لات مارے ۔ کیا ہے دنیا ؟ مٹی کا پیالہ ۔۔۔ جس کو گھونٹ نہ پی سکی اور تشنہ رہے جبکہ وصل کی شراب میں پیمانہ بھر بھی جائے تو پیمانہ بے قرار رہتا ہے ۔۔

مرض مجھے ملا یے اور میں مریض عشق  ہوں..جس کو عشق میں جلنا ہو تو خود کو  آگ پہ جلتا محسوس کرے. وہ آگ ٹھنڈی  ہو جائے گی جبکہ اندر کی آگ تو بھڑک اٹھے گی ..اے دل والو!  اندر کی آگ بھڑک رہی اور وہ جو دور ہے وہی قریب ہے. وہی جو قریب ہے وہی نصیب ہے اور جو نصیب ہے وہی حبیب ہے جو حبیب ہے وہ میرا جلیل ہے وہی جو جلیل ہے وہ خلیل ہے. جو خلیل ہے وہ  اسماعیل ہے. جو اسماعیل ہے وہی  کلیم ہے جو کلیم ہے



در

اک در بند  ہوتا ہے تو سو در کھل جاتے ہی.  وہ جو نیند کی طلب سے بے نیاز ہے یعنی کہ  پیغام اجل!  و وہی دے سکتا ہے. وہ سب سے بڑی طاقت ہے اس لیے نہیں کہ اس نے صرف دنیا بنادی مگر اس لیے کہ اس نے سب .چیزوں میں کشش پیدا کی.  اس کشش میں محبت و عشق کا خمیر ڈال دیا .گہرائی کو عشق سے اور سطح کو کشش سے بھر دیا ...زمین پر چلنے والا  نفس کشش میں رہتا اصل سمجھ نہیں پاتا،  فساد برپا کرتا ہے جبکہ مرکز کے اجسام کے پاس اصل کو پہچاننے کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بس اسی کے ہوجاتے ہیں ... بس ان کے دل مین واحد کا بسیرا ہوجاتا ہے ... اس کی بارش میں بھیگنے والے ہر غرض سے بے نیاز کر دیے جاتے ہیں ...آزاد روح!  آزاد روح کبھی قید نہیں ہوتی ..ان کی آزادی خالق کی نشانی ہوتی ہے ...اس نشانی کا احساس ایسا معجزن ہونے لگتا ہے کہ خود کی ذات معتبر ٹھہرنی لگتی ہے .... 
میرا وجود ترے عشق کی ہے خانقاہ 
ہوں آئنہ جمال ترے عشق کا کمال ہے 

بندہ مومن کے دل میں طلب دیدار پیدا کردی جاتی ہ ے..وہ شادی کی کیفیت!  دنیا ہیچ ہے اس کے سامنے !.  سب خزانے ہیچ .. 

علم.و روشنی کا خزانہ وہی تو ہے 
میراعشق و فسانہ وہی تو ہے 
قلم!  قلم کی قسم!  قلم کی عطا 
اس عطا کی انتہا مجھ پر ہے 
وہ کون ہے زمانے نہیں جانتا
وہ وہ ہے جسے میں جانتی ہوں 
وہ وہ ہے جس کی شہنائی درد والی یے
وہ وہ ہے جس کے در کی  دنیا سوالی ہے
ہم نے اس کے لیے کیا آنگن خالی ہے 
دیکھ!  میری گالوں  میں سرخی ہونٹوں پہ لالی ہے 
میں  اس کی ہستی کی مست حالی ہوں 
میری بستی میں اس کا بسیرا ہے 
جس کے دم سے جہاں میں سویرا ہے


روہی ‏دے ‏خیالات

روہی دے خیالات وچ اک سہاگن دی داستان سی .. مان سلامت رکھے سہاگ،  وصلت دی چھاں بڑی تھی .. جوگ وی سی جوگن والا،  درد وی سی، روگی کیتا، سوت محبت دا کتدے کتدے، کتدی گئی اپنا آپ،  سہاگن دی منظور ہوئی دعا، رکھیا سانول نال ..شام ہنیری آئی سی، چند دی چانن تے دیوے بلدے سن .. انہوں ویکھ کے راہی تکدے تکدے مرجاندے سن .. روہی دا منظر سی وکھو وکھ،  مجنوں کھڑا سی، بانسری عشق والی وجن لگی، تار مل گئی مرشد نل،  اکھ لگ گئی سی،  ہتھ وچ پیالی سی،  عشق دی قوالی سی،  مستی توں رت خالی سی!  ہویا کیہہ!  سوانگ بھرلیا رانجھن یار نے!  رانجھن دا سواگ کون جانڑے؟  جانڑے، جانڑے اوہ! جنہاں لائیاں اچیاں نال 

خدا ‏سے ‏تعلق

خدا سے تعلق یقین کا ہے ـ یقین کا ہتھیار نگاہِ دل کی مشہودیت سے بنتا ہے. دل میں جلوہِ ایزد  ہے ـ درد کے بے شمار چہرے اور ہر چہرہ بے انتہا خوبصورت!  درد نے مجھ سے کہا کہ چلو اس کی محفل ـــ محفل مجاز کی شاہراہ ہے ـ دل آئنہ ہے اور روح تقسیم ہو رہی ہے ـ مجھے ہر جانب اپنا خدا دکھنے لگ گیا ہے ـ کسی پتے کی سرسراہٹ نے یار کی آمد کا پتا دیا. مٹی پر مٹی کے رقص ـ یار کی آمد کی شادیانے ـ یہ شادی کی کیفیت جو سربازار ــ پسِ ہجوم رقص کرواتی ہے ـ تال سے سر مل جاتا ہے اور سر کو آواز مل جاتی ہے ـ ہاشمی آبشار سے نوری پیکر ــ پیکر در پیکر اور میں مسحور ــــ خدا تو ایک ہی ہے ـ دوئی تو دھوکا ہے ـ ہجرت پاگل پن ہے ـ وصل خواب ہے ـ مبدا سے جدا کب تھے؟  اصل کی نقل مگر کہلائے گئے ـ کن سے نفخ کیے گئے ــ کن کی جانب دھکیلے جائیں گے ـ اول حرف کا سفر حرف آخر کی جانب جاری ہے اور خاموشی کی لہر نے وجود کو محو کر رکھا ہےـــ  ساکن ساکن ہے وجود ــ سکوت میں ہے روح اور صبا کے جھونکوں نے فیض جاری کردیا ہے ـ جا بجا نور ـ جابجا نوری پوشاکیں ـــ نہ خوف ـ نہ اندیشہ،  یقین کی وادی اتنی سرسبز ہے کہ جابجا گلاب کی خوشبو پھیلنے لگی ـ وجود مٹی سے گلاب در گلاب ایسے نمود پانے لگے،  جیسے گل پوش وادی ہو اور مہک جھونکوں میں شامل ہو ـ یہ وہ عہد ہے جسکو دہرایا گیا ہے اور اس عہد میں زندہ ہے دل ـ یہ وہ عہد ہے جسکی بشارت دی گئی ہے ـ اس عہد کے لیے زندگی کٹ گئی اور کٹ گئی عمر ساری ـ بچا نہ کچھ فقط اک آس ـ آس کیسی؟ جب یار ساتھ ہو تو آس کیسی؟  یار کلمہ ہے اور پھر کلمہ ہونے کی باری ہے ـ قم سے انذر سے اور خوشخبری ... جس نے یار کو جا بجا دیکھا،  تن کے آئنوں میں دیکھا،  نقش میں روئے یار ـ مل گیا وہی ـ سہاگن باگ لگی ـ راگ الوہی بجنے لگا کہ راگ تو ہوتا ہی الوہی ـ محبت کا وجود تھا اور وجود ہے اور رہے گا مگر جس نے محبت کا میٹھا سرر پالیا ـ اسکو علم کہ سروری کیا ہے ـاس سروری سے گزر کے کچھ بھی نہیں اور اس سے قبل بھی کچھ نہیں ہے ـ من و تو ــ یہ نہیں مگر اک وہی ہے. وہی ظاہر کی آیت،  وہی باطن کی آیت ـ وہی مشہد،  وہ مشہور،  وہی شاہد،  وہ شہید ــ وہی اعلی،  وہی برتر ـــ چلتے پھرتے دیوانے جو دکھتے ہیں اور بہروپ کا بھر کے بھیس پھرتے ہیں وہی تو چارہ گر شوق ہیں. وہی تو اصل کی جانب ہیں

بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی 
بقلم:  نور