یار ِ من کون ہوتا ہے
کیا وہ ہوتا تھا
کیا وہ نہیں ہوگا
کیا نہیں ہے
وہ تو کسی کرسی پر فائز ہے
یہ رمز بڑی شناسا ہے
ایسا یارِ من تو نےکیا کیا ؟
آنکھ دے دی کیا دل کو؟
دید خدا کی ہوتی ہے؟
اچھا ہوتی ہوگی
جب جب دل میں جھانکا جائے تو ہوجاتی ہوگی
آنکھ والے بینائی جانیں گے
نابینا کیسے دیکھے گا؟
اچھا ...
پہلی دفعہ مری روح نے یار من کو دیکھا کہاں تھا؟
میں مکان میں تھی اور مجسم تھی تصویر جس سے لرزاں تھا رواں رواں
وہ کون تھا؟
میں نے سوچا کہ بندہ کیسے پلک جھپکتے نقل مکانی کرسکتا ہے
ہمزاد روح کا ہوتا ہے کیا؟
ہاں ....
روح کا ہمزاد اللہ نے رکھا ہے
کیسے؟ کیسے؟ کیوں؟
اللہ اللہ اللہ
اللہ ہی جانے
میں کیا جانوں
میں نہ جانوں کچھ
جانوں تو دل کو آنکھ بس مانوں
میں نے جہانوں کی سیر کی مگر جہانوں کو آنکھ کی بند مٹھی میں دیکھا ... جہان دل کی آنکھ سے ...
ہاں. .وہ آنکھ والا
دامن دل میں نقشِ دلاویز لگا گیا
نقش پرمنقش اختیار کی کرسی
اس کرسی پر الحی القیوم لکھا ہے
کسی کو حیات دوامی ملے تو ہم کیا کریں
کسی کو یادِ سبحانی ملے تو ہم کیا کریں
ہم قدم بہ قدم رقص کریں گے
دل بہ دل،
دل!
ہاں دل میں ... دل میں اک حاجی رہتا ہے
کہتا ہے: کعبہ کے غلاف نیلا ہے کالا نہیں ہے
جبکہ میں کہتی ہوں نہ نیلا ہے نہ کالا
یہ تو بے حجاب شفافی ہے
یہاں تو نور ازل کا بے حجاب نور ہے
میں نے حاجی سے کہا ہے کہ تجھ کو نیلے سے کیا دل ہے؟
دل والا کہنے لگا
کہ ہاں ہاں ہاں
رمز یہ ہے کہ
کمان پر تیر رہنا چاہیے
ورنہ معراج نہیں ہوتی
دنیا بنائی ہے کمان و تیر کے لیے
کمان والا تیر جہاں جانے پھینکے اور ترکش بے میں یاد کے کتنے تیر
یہ تیر.وہ تیر
بسمل کا رقص
تیر بہ تیر... رقصِ آہن
سنگ میں رنگ دیکھا
کس کا؟
یار کا؟
اچھا یہ لکا چھپی ہو رہی ہے
ہاں یہ کھیل ازل سے چلا آیا ہے
بس یہ پردہ تھا جو ہٹ گیا
دل کے من مندر میں کون ہے؟
یہ کمان پر تیر کس کا ہے؟
یار برآمد ....
کہاں سے؟
کشش کے تیر نیناں دے لے گئے سارا جل
مچھ جائے کتھے؟ ہوئی او بے جل
پانی والا، کشش والا
نور والا ..
اے لازوال ازل کی روشنی ... اوج ابد کی جانب لے چل ...دل کی کمان پر نقش ہے ...نقش میں راز ہے. یہ راز کیا ہے نمانے نہ جانیں جو جانیں وہ کہہ ڈالیں "میں نہ جانوں، تو ہی جانے سب کچھ ....
من میں چھپ کے صدا لگائی کس نے؟
من میں چھپ کے کس نے کہا "میرے ہوتے تجھے ڈر کیسا "
کیوں ایسا ہوتا ہے کہ عشق پر اختیار نہیں رہتا؟ عشق تو نکل جاتا ہے ایسے جسم سے جیسے دھاگا کسی پتنگ کا ٹوٹ جائے
میری آوارہ روح! تو ٹھہر جا
ٹھہر جا!
یار نے بلایا ہے.
یار من دل کے سیپ دیکھ لیے، دکھا دیے
اب بتا کریں کیا
چل کہ وجدانی لہر ہے
چل کہ نورانی لہر ہے
چل کہ وہ بات کریں جس میں آئنہ تمثال گر کی تمثیل ہو
میں نے اپنے دل میں مثال دیکھی تو کیا تھی یہ؟
یہ تو موجہ دل میں بحر جذبات سے نکلا عشق کا عین
عین ہے! شین کہاں ہے؟ قاف کہاں ہے؟
جب عشق عین و لا ہو جائے تو ہم کریں گے کیا؟
نہ جا، نہ جی! ہم تو کچھ نہ کریں گے
ہم.تو سجدہ کریں گے
یار من سجدہ!
سجدہ ہوا سجدہ یار کو
قبلہ سج گیا دل کا
دل کے قبلے پر یار من لکھا ہے
یار من نے جلوہ کرلیا ہے
حقیقت! یہ ہے حقیقت! حقیقت کی جانب چلو! دل کو تو طوعا کرھا چلنا ہے
دل کو رسہ کشی ہے کہ عشق تو نری بربادی ہے! عشق کرواہٹ ہے مگر حلاوت ہے. یہ حلاوت ہے مگر کڑواہٹ ہے. یہ نہ ہونا ہے مگر ہونا ہے. یہ ہونے میں نہ ہونا ہے. ہم کو کشش کے تیر لے گئے جانے کس جانب
اب سچ پوچھیں تو بات یہ ہے کہ عین ہے! عین تو ابتدائے دید ہے! جا بجا تو ہے مگر کہاں کہاں نہیں ہے تو. دل نے کہاں کہاں نہ ڈھونڈا تجھے مگر ملا کہاں؟ ہاں! مل گیا! کیا گمشدہ تھا؟ نہیں بس لکا چھپی کا کھیل تھا.
اب وہ بے حجاب ہے
اب وہ شفافیت سے بھرپور ہے
اب نور سے پرنور آنکھ دل میں ہے
وہ نور جس نے دید دی وہ تو ازل سے ابد تک قدامت کا حسن لیے ہے. ارے حسینو! سنو کہ حسن والے جذب کرتے ہیِں. جذب تو وہ پہلے سے ہوتے ہیں اس لیے تو حسین ہوتے ہیں. اس لیے خدا نے کہا ہے کہ قدیم نور سے آزاد روح کا خمیر ہے.
اے نائب روح ...چل جانب سفر... وہ سفر کیا ہے جس میں یار دم ہماہمی میں نگاہ کیے ہے. اندر ٹھہریں؟ باہر چلیں؟
یہ چکر پے چکر ہیں
یہ تو رقص پے رقص ہے
سمجھ نہ آئے تو بھی چلو
سمجھ بھی آئے تو چلو
ہم نہیں جانتے کہ یار نے کیوں بلایا ہے
وہ تو فاصلے کا قائل نہیں ہے پھر یہ بلاوا کیسا؟
یہ صدا کیسی؟
یہ پکار کیسی
میں نے مناجات کیں
ہاں مناجات کیں
طوٍاف میں روح اور مرکز آنکھ ہے
دل کا کعبہ اک آنکھ ہے
اس چشم کا کیا کہنا جس نے دل کو نمی دی. اس چشم مقدس کو سلام جس نے دل کو دل بنایا
اے ہادی تجھ کو سلام!
اے سلام والی عالی ہستی تری سرداری پر بارہا سلام
قسم شب تار کی
قسم نازنینوں کی
قسم ان حسن والی ہستیوں کی ...
میں حسن پرست ہوں
مجھے حسن نے فنا کردیا ہے
حُسن بھی کسی الوہی جامے میں آیا تھا مجسم
مجسم! مجسم! مجسم ...
وہ یار کیسا جو نام نہ لوں تو آئے نا
میں عبد کیسا کہ اس نے کن کہا، فیــــکون نہ ہو
فـــیکون کی تحریر انسان ہے
انسان جانتا نہیِ ہے وہ تحریر نتیجے پر پڑھتا ہے مگر پڑھنا امر سے پہلے ہوتا ہے اور کن سے فیکون تک سجدہ کرنا ہوتا ہے پھر کہیں جا کے تسبیح ہو پاتی ہے اللہ کی
اللہ کی تسبیح کرنا آسان ہے! آسان ہے اس لیے چاند و اشجار تسبیح بیان کرتے ہیں. یہ پوری کائنات مجذوب ہے اس لیے کن کی مجذوب ہے اور فیکون جاری ہے. شجر نے قیام کی تسبیح پرھی ہے جبکہ زمین نے سجدے کی تسبیح پڑھی ہے جبکہ پہاڑ تشہد پر قائم ہے .. پوری کائنات مل کے نماز قائم کیے ہوئے اور انسان نے نماز کو اتنا آسان جان لیا ہے
نماز آسان ہوتی ہے تو یار کی تسبیح میں دل جذب ہوجاتے اور فنائیت سے دار بقا کوچ کر جاتے ہیں ... نماز قائم کرنے آیا ہے
کون آیا ہے؟
یار من خود آیا ہے
نماز سکھارہا ہے
نماز سیکھی نہیں ہے اورعبادت کا ہنر کیسے سیکھیں گے ہم. ہم تو نہ سیکھیں گے وہ سکھائے گا جس نے نفخ سے جدا کیا ہاِں کیوں جدا کیا؟
پہلے خود جدا کیا
پھر خود کہا نماز پڑھ
پہلے کہا جا آزاد ہے تو
پھر کہا آ، محبت نبھا
یہ ان دیکھا محبت کا قفس ہے ...
قفس کی تیلیاں سرخ ہیں
سرخی دکھائی دی
یہ توحید ہے
وحدت کا رنگ ہے
واحد سنگ ہے
دوئی کہیں نہیں سب وہ ہے
دوئی جھوٹی ہے ہم تو روز کن سے ابد تک ساتھ ہیں
روز کن اس نے اپنی محبت کی سند ہمیں دے دی تھی اب تو گیت گایا جارہا ہے. گیت ہے!
ہاں گیت ہے
کیسا گیت؟
پیار کا گیت
سُر کیسا ہے؟
الوہی سا
خمار ہے؟
تھوڑا سا ...
پی لی ہے یا پلا دی گئی ہے ...
ہم کیا جانیں کہ پی ہے یا پلا دی گئی ہے
لوح قلم پر یہی تحریر ہے کہ آزاد روح پر اس کا نام ثبت ہے. وہ ذات سے عین کی بات ہے یا عین سے ذات ہو ... اس نے لکھ رکھا ہے کہ جسم تو قفس ہے جبکہ روح پھرتی رہتی ہے اور جہان کی سیر میں پالیتی ہے دید کو یہ بھی اسکی پکار ہے جس پر دل نے سجدہ کیا ہے سجدہ اچھا ہے تسلیم اچھی ہے اچھی بات ہے کہ میں نہیں ہوں وہ ہے . وہ ہے تو میں ہوِ مگر میں ہوں کہاں نہیں تم نہیں جانتے کہ جانِ تمنا کو اک جان کافی ہے ہر جگہ میں ہوں تو نہیں کوئی .میں نے کہا تھا اور ہوا ہے. میں نے ازل سے جو لکھا ہے وہ پورا ہے. یہ سرخ چادر اک تحفہ ہوتا ہے جس کو دے دیا جاتا ہے چلو توحیدی مے خانے میں کہ اجازت ہے
اذن حاضری کو بلایا ہے
اذن حاضری کو جانے کس کا رنگ لگایا ہے
یہ پی کا رنگ ہے.
مورا رنگ .... .دیکھو یہ رنگ
کس کو نہ دکھے گا کہ اپنی دید سے ہوتا ہے رنگ عیاں اور دیکھا جاتا ہے کہ کون ہے دل میں نہاں دل کے نہاں خانوں میں کون بسا ہے
آ ... آ... آ... یہ دھمال ہے
آ... آ... ... آ یہ اک جال ہے
آ... آ... آ.. دام موج میں پھنس جا
آ... آ... آ.... رنگ رنگ میں ذات کو دیکھا
ھو الحی ھو القیوم
ستار بجنے لگا
ساز کی صدا سنو
سنی؟ سنو!
سنو اور دم سادھ کے سنو
خدا نے سرگوشی کی ہے کہ میں نے فریاد سننے میں لمحہ بھر دیر نہ کی. بسمل کی فریاد وہ کیوں نہ سنے گا. اس نے درد دیا اس لیے تھا کہ اس کے پاس جانا تھا اس کو درد دے کے پیار آیا تھا ...وہ جس ناز و پیار سے مجھے دیکھ رہا تھا مجھے خود پر پیار آگیا تھا ...بس یہی تو دید تھی جو میں نے بوقت کن عہد الست کو پائی. وہ محبت کی نظر اور میرا مست ہوجانا. اس نے مست الست جام سے میخانہ بنا کے پوچھا تھا کہ بتا کمی ہے
کہا تھا بے حدو بے حساب دے
اتنا دے کہ بے شمار ہو ...
لامحدود ہے تو تو اپنے جیسے دے
اس نے دے دیا اپنا آپ اور پیمانہ بنایا ایسا کہ پیمانہ بھرتا نہیں ...پتا کب بھرے گا
جب الف ہوگی
جب الف ہوگی تب انسان کلمہ ہوگا
کلمہ جائے گا محفل حضوری میں
ہاں! حضور یار میں رہتے تھے دیوانے اور دیوانہ کیا جانے کہ دنیا کیا شے ہے وہ دیکھتا ہے کہ کلمہ ہوا نہیں
اے دل!
ہاں؟
کلمہ ہوجا.
کیسے؟
کلمہ فنائیت کی کہانی ہے
یہ جذب میرے حروف میں داستانی ہے
یار من ....
تم نے جدائی کا درد دیا ...بتاؤ کیوِ دیا؟
کیسا بدلہ تھا یہ
پہلے خود سے خود جدا کیا اور وچھوڑے کا درد مجھے دے کے کسی روپ میں نمودار ہوگیا اور نمودار ہو کے دل میرا لے لیا. اب دل دھڑکے تو تجھے دیکھے. یہ کیا کیا؟ اچھا اچھا. تم صلہ مانگتے ہو ...؟ مانگتے ہو؟
نہیں دل کو دل چاہیے صلہ تو اجر والے مانگتے. ہم تو جان نذرانے میں دیتے ہیں سر ہتھیلی میں لیے پھرتے ہیں ..پھر جب نذرانہ قبول ہوتا ہے تو بندہ الف ہو جاتا ہے
اے دل
ہاں ...
الف ہو جا ...
الف کی قسم ..ہم تو الف کو جانیں گے ہم تو الف کو مانیں گے. پوری دنیا میں الف کا رنگ ہے مگر دیکھے کون؟
ہاں دیکھے کون؟ الف سے میم کی کہانی ہے .. میم تک جانے کے لیے الف ہونا لازم ہے. لازم ہے یہ دو رنگ ہم دیکھیں گے اور کلمہ ہوگا مکمل ...احسن التقویم کی نشانیاں دل میں ہیں .. وہ تلاوت کررہا ہے مجھ میں کہتا ہے. سنقرئک فلا تنسی
والتین .. الہام کا شجر ہے جو مجھ میں ہے اور زیتون کا بابرکت تیل مجھ جلا رہا ہے اور دل کبھی طور تو کبھی شہر مکہ.ہوا جاتا ہے. یہ نشانیاں مجھ میں جل رہی ہیں اور اسفل سافلین سے احسن التقویم کا سفر جاری ہے. اس نے اپنا نور مکمل کرنا ہے کہ نور تو وہ مکمل کرتا ہے اور بندہ بس سجدہ کرتا ہے اور دل ایسے مجلی ہوجاتا ہے جیسے کسی بلب کا روشن ہو جانا
سلام اس ہادی مرسل کو جس کی وساطت سے دل کی بتی روشن ہے. سلام اس مثال یسین کو جس کی وجہ سے دید کی بات چلی ہے. سلام اس دل حزین کو جس نے سفل سے احسن التقویم کی جانب جانے کا عندیہ دیا ہے. مقرب ہوا چاہتا ہے کون. اللہ جانے اللہ جانے اللہ جانے