Saturday, February 20, 2021

جان ‏دل ‏..... ‏سیدہ ‏بی ‏بی ‏پاک ‏فاطمہ ‏الزہرا

جانِ فاطمہ، مہرِ رسالت پہ عائل،  یومِ القضاء پہ واجب الوجود بننے والی خاتون،  اے نیک صفت سیدہ 

آپ کی تطہیر دل پر نازل ہوتی ہے تو افلاک سے سماوی فوج ہمرقاب ہوتے سلام کو آجاتی ہے، میں نہیں جھکتی بلکہ وہ بھی جھک جاتی ہے ... میں ادب میں خاموش ہوجاتی ہُوں 

اے چشتیہ خانہ ء افلاک کی مروجہ وسائل میں طمطراق سے چلتے جریدی نشان، اے برق صمیم!  اے نشانِ حیدر، اے بخت دلاور،  

جانے کون کون سے القابات آتے، قرطاس اور لفظ کم، کم شانِ سیدہ کو لکھتے ... میرا رشتہ ازل سے سادات کا مکرم جانے غلامی کا رہا، آج خدا سے بہت سوال کیا کہ اتنی عزت ڈالی تو خود سادات میں سے نہ کیا ..یہ جو قدم پائے معظم کو پڑتے ہیں دراصل یہ تونقش محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم .. 

مری عقیدتیں ...سب اک نقطے میں، نقطہ محور ذات کے اندر ہے ...

سوچتی ہوں کہ ہاتھ جو لکھتے ہیں پاک بھی ہیں،  ہونٹ جو چھوئیں لفظ پاک بھی ہیں، دل میں بٹھاؤں دل پاک بھی ہے؟ کشمکش میں رہتی ہوں کہ کہاں سے لاؤں وہ پاکی کہ جہاں سے یہ دل قابل ہو 

خیر دامن دل میں آیت تطہیر ہے 
اشک گرتے ہیں، لہو لہو زنجیر ہے 
کاٹ دیا جدائ نے کیسی شمشیر ہے 
حرفِ حیا ہو،  کعبے کی تحریر ہے 

الفاظ نکلتے نہیں، جدائ سے زخمی روح کا بیان بھی نہیں،  مگر پھر اشک بندیاں شاید کوئ نہر وجود آئے .... لفظوں میں یہ حُسن ڈھالا نہ جائے گا، نقش نقش دل میں اتارا نہ جائے گی،  دیکھیں گے تو آنکھ نہ ہٹے گی،  سنیں گے تو بہرے ہوجائیں گی، ہم مجذوب وفا ہیں مگر اے دل! ترا دردسنبھالا نہ جائے گا!  

نہ دل پار لگے، نہ اشک تھمتے ہیں.. حقایتِ دل کے سو افسانے کسے سنائیں ہم،.. 

اک موم کا دھاگہ ہے دل میں،  اور تم ہو،  آگ جلتی ہے لگن کی،  یہ کون ہے؟  

آزردگان دل کو حاجت رفوگری کی ہے،  بھاگ جائیں اور بس آپ کے در کو تھام لیں، نہ جائیں کَہیں، بس رَہیں اِسی آستانے پَر،  

بس اللہ کی چاہت اہم ٹھہری.... آج کلی طور پر اپنی خواہش کو مانند اسماعیل، قربان کرتے ہیں اللہ کے خلیل کی طرح دست حق پہ بیعت کرتے کہتے ہیں ... 

سب حق آپ کے، اک حق میرا .. یہ غلام اس در سے دور نہ رہ سکے گی، .... حوصلہ نَڈھال ہے کہ ڈھال تو آپ ہیں، تلوار تو آپ ہیں .. عشق کی دھمال سے روح وجد میں آتی ہے، میرے دل میں صورتِ دلاور جب آتی ہے ..

اے صورتِ دلاور 
میرا سلام قبول کرلیں، ......، 

میرے سب سے اچھے دوست ہیں ..میرے حبیب صلی اللہ علیہ.والہ وسلم ..وہ آج بہت مسکرا رہے ہیں نا ..آج سے لگتا ہے وہ دل میں موجود ہیں ..نانا جان کے پاس شیر دلاور ہوتے ہیں ..امیر حیدر کے پاس سلطان الہند بیٹھے ہیں اور یہ امیر حیدر کے دائیں جانب  سلطان شہید شہنشاہِ کربل بیٹھے ...اک دستاویز یہ سفید رنگ کی ہے اور لباس مکمل.سفید ہے ... آئنہء فاطمہ،  رویت ءخدیجہ ...  ر عمرعزیزم پادشاہ غازی کے جلال نمود سے برق روزن دل پہ اٹھے تو سوال آتا ہے ..بس اس جگہ تو چار سو وادی نہریں سب سنگم پرندے اور بولیاں ..کتنی پیاری ابتدا ہے.... اللہ  ہماری رگ رگ کی تسبیح ہیں اور ہم یہی کہتے اللہ اللہ اللہ کی تسبیح ہے اور ہماری سانس میں اللہ ہے

بابا ‏جان ‏محترم ‏سرکار ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ ‏وآلہ ‏وسلم ‏کے ‏نام ‏خط ‏

اپریل اٹھائیس،  ۲۰۱۹ 
محترم بابا جان 
عمر کے کافی سن آپ کے جلوے کے بنا گزرے ہیں ،  اتنی طویل جدائی ہوگئی اس مادی لباس میں!  جب کن کا آوازہ گونجا تھا،  اس وقت فیکون سے پہلے آپ سے منسوب تھی میں ..بابا جان!  میرا دل فراق سے جل اٹھا ہے،  زخم جگر نے جینا محال کیا ہے. وہ زخم،  وہ سفر جس نے پاؤں کو لَہولہان کردیا تھا، وہی تیر سینے میں پیوست ہوچکا ہے. بابا جان سینے میں بہت درد ہے،  یوں لگتا ہے خون بہا جارہا ہے ..بابا جان سینے کے زخم مندمل کردو .... اب اذن حاضری ہوجائے ورنہ موت و مرگ نے ایسا برا حال کردیا ...مجھے ایسی کتاب چاہیے جس کے ذریعے مجھے آپ کا زمانہ مکمل دکھے ...بابا جان مری بے چینی سوا ہوجاتی ہے جب مجھے قطرہ دے کے ترسا دیا جاتا ہے ... لگن نے جوگن سے مدح خوانی سے، مجذوبیت سے آپ کا نام دے دیا ہے .... نور علی سے نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سفر ہے ...بابا جانو،  بھر بھر کے نواز دیا ...میں آپ کی خادمہ بھی،  آپ کی بیٹی بھی،  آپ کی مدح خوانی کا اعزاز بھی ...بابا جانو،  حال برا ہوتا جا رہا ہے دن بہ دن!  آپ کی نور اب موت کی جانب جاتی ہے، یوں لگتا ہے نظر نہ ہوئ تو موت نے تھام لینا ہے...شیر خدا سے ملنا ہے.   حیدری ضرب سے عجب حال ہوتا ہے، جیسے جینا محال ...
آپ کی نظر کرم کی منتظر 
نور ایمان

بَنامِ ‏حُسین ‏

خط نمبر ۸
بسلسلہ ء قلندری 
سید الامام،  سردارِ قلندر،  جانِ عشاق، مسجودِ کربل، قائم مقام علی علیہ سلام، بردار حسن، جان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  شاہِ سخا،  والی الفقراء 
السلام علیکم.    ... 

دل جل رہا ہے، بلکہ روح جل رہی ہے   ... یہ آپ کا فیض ہے روح جل رہی ہے اور رنگ در رنگ کا نقش "یا حسین، سید الشہدا "  آپ کو نور بہت یاد کرتی ہے شاید وہ گھڑیاں نہ بابرکت ہوں جب آپ کو روح نے یاد کیا ہے.   کاش روضے کے سامنے ہوتی اور قصیدہ شان قلندر لکھتی اور آپ ساتھ ساتھ جواب دیتے اور ساتھ اصلاح کرتے ہیں ... !  نور کو اتنی تڑپ ہے کہ کوشش کی فون کروں مگر دوسروں پل سوچا کیسے فون؟  پھر جب یہ سمجھ آیا فون تو آپ کو نہیں ہوسکتا....  تو کیسے پاک ہستیوں کو کروں ..پھر یہ خطوط کا سلسلہ ہوا .... میں آپ سے استقامت چاہتی،  چاہے مرجاؤں غم سے مگر استقلال،  ارادہ،  جراءت اتنی آہنی ہو کہ گر نہ پاؤِں .. آپ کا حیدری لہو علیہ سلام،  مصطفوی نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم، خمیر بی بی پاک علیہ سلام  کا ہے ..آپ تو گنجینہ الابرکات ہو ..متبرک ہستی ہو...مجھے سینے سے لگا کہ حوصلہ دو،  آپ کی نور ہوں ....میری روح حسینی ہے، دل میں چراغ کو فزوں کردیجیے .... مرے حبیب ، میرے دوست ہو نا سردار روح؟  مجھے وصال حق کرادو تاکہ قرار پاسکے بے چینی ...اے سید روح!  مجھ پہ روشنی کرو

بنامِ ‏حیدر

خط نمبر ۵ 
شیرِ خُدا،  ولی اللہ،  سید الامام،  مہر ولایت،  باب العلم،  ذوالفقار،  فاتح خیبر 

السلام علیکم 
.آپ کو خط سب سے پہلے لکھتی ہے! یوں لگتا ہے آپ میرے بالکل نزدیک ہوں. ایسا لگتا ہے مرے قدموں کی چاپ، نہیں یہ آپ کی آہٹ ہے. .. دل میں محفلِ بزمِ حیدر کوئے یاراں سے چلتی ہے اور علی علی علی کا نعرہ دل کے دالانوں سے تا عرش گونجتا ہے اور زلزلے زد میں لے لیتے اور یوں لگتا ہے کہ آپ کی کرسی دل میں قرار پکڑ چکی ہے. آپ کی اس قدر شدید کشش ہے، جی چاہتا ہے دنیا چھوڑ کے آپ کے عشق میں مجذوب ہو جاؤں ..نہ جاؤں کہیں ..آپ کی خوشبو ایسی ہے جیسے پوری کائنات مسکرا رہی ہے،  دھوپ بھی سردیوں کی ہے،  شام نہ دھوپ مگر چھاؤں کی ٹھنڈی ہوا جیسا احساس ہے .. دل کی صدا ... شیرِ خدا سے ملنا ہے .. دل کو کیسے بتاؤں؟  شیر خدا سے کیسے ملتے ہیں؟  میں خوش بختی پہ نازاں ہوں مولائے کائنات ... میرے مولا،  میرے آقا ... کشش کا تیر،  سینہ خون خون ہے اور اس خون کو کربل کی خاک سے نسبت ہے اور جانے مری خاک کس کس در در سے ہے ...سیدی، مجھے استاد سے ملا دیجیے ... .... ملامت کا ہنر مجھ کو بھی عطا کر دیجیے ...
سیدی مولا شیر خدا .... میرے خط کا جواب ضرور دیجیے گا ..منتظر رہوں گی ...
رحم و کرم کی منتظر 
آپ کی نور 
تاریخ   ۲۸ اپریل ۲۰۱۹ 
بوقت ۱۰:۴۵

طبیب ‏نے ‏کہا ‏کہ ‏ابھی ‏تصویر ‏باقی ‏

طبیب نے کہا کہ ابھی کیا تصویر باقی،؟  دکھ کی تحریر باقی؟  ملے پھر کوئ شافی؟  نہیں کوئ بات اضافی، بس تو مجھے، میں تجھ کو کافی.....

تقسیم شرع سے کر، طریقہ ء حال کے چشمے سے وصل جاناں سے لے .. وضو نین سے نین ملا کے کر، ادب کی زمین میں شوق کی فصل کتنی عجیب!  نین سے نین نہ ملے تو بات بنتی نہیں ..  
 
وہ ملا اور اشارے سے بتلایا 
جلاتا ہے جس نے تجھے جلایا 
نہیں کوئ در سے خالی آیا 
تجھے جام کوثر بھی  پلایا

جلن میں سوز ہجر ڈال رکھا ہے 
مرض عشق یونہی پال رکھا ہے 
بیمار جسکے ہوئے،  وہ چلا گیا 
کس آزمائش میں یہ ڈال رکھا ہے

طبیب نے کہا کہ کیا پانا ہے؟ 

کہا میں نے  فرق جاننا ہے! نقطہ ء اتصال کیا ہے؟  متصل باہم کیا ہے؟ عمل پیہم کیا ہے؟  شراب عشق، شدید رویا کیا ہے؟  تبسم کی جاودانی ہے؟  سر پہ بے سروسامانی کیا ہے؟  آفت یہ ناگہانی کیا ہے؟  دل پہ لن ترانی کیا ہے؟  مکن مکن کی ہیجانی کیا ہے؟

سوال کیا؟ جواب کیا؟  تو مری کتاب کیا ہے؟  لکھے جو میں بے خط کیا، ترا جواب کیا!  جواب پہ سوال بھی کیا ..نقطہ ء حیرت سے موج وصال پہ آہٹ انگیز فرحت بخش لہروں کی سرخی سے مہروز کی نیم شبی کا حال پوچھ، پوچھ رات کا نیلا چاند سرخ کیسے ہو؟ آفتاب پہ سرخی کیا ہے؟ شراب جاودانی کیا ہے؟  عشق سبحانی کیا ہے؟  تو میری داستان ہے،  کہانی کیا ہے. رستہ ء مجاز سے گزر جائے تو لطف کمالی کیا ہے؟  تجسیم حیرت کر،  تبسم شاہا کو تصویر کر،  سیرت کی تطہیر کر. آیتہ نورانی سے بقعہ ء نور ہے ہر آنگن

تقریب تھی خوش فہمی کی .. روشنی رکی رکی سی، قافلہ ویرانے میں، چاند لبی لبی دہنی باہنی چرخ بہ چرخ روشن منور. ....  کھلی کمال کی کتاب، محبت کی تقسیم کی روایت میں نور کو مہر کمال کی سند عطا کی گئی ... مہر کمال کی اوج تحفہ ء سید البشر کا چراغ مصطفوی ہے حرم بہ حرم جلتا ہوا،  لحن، دہن،  گگن سے نکلے نیلے پیلے سرخ دھاگے ... پوچھا جاتا ہے وصال جاناں نے حیرت میں ڈال رکھا ہے؟  کمال میں کیا ملال رکھا ہے

اخلاق ‏حسنہ



رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کمال کے اخلاق والے انسان... مالک نے فرمایا 

وما ارسلنک الا رحمت للعالمین 

عالم کیا ہے؟ آپ کی عالم کے بارے میں رائے کیا ہے؟  عالم جہان کو کہتے ہیں. ہم کہتے ہیں کہ خوشبو کا جہان،  رنگ و بُو کا جہان، علم کا جہان، شوق کا جہان  ...نور کا عالم ..نور کا مقام .. نور کا جہان. آپ دیکھیے کہ جہان کے کتنے وسیع معانی ہیں ... تو یہ جہت بلحاظ دل کے ہیں. دل ان تمام جہانوں کو سموئے ہوئے ہے.  کائنات کا دل ایک ہے جیسا قران پاک کا دل سورہ یسین ہے اسی طرح کائنات کا دل تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں .... اللہ نے بندے سے کہلوایا ہے کہ کہو 

الحمد للہ الرب العالمین 
اور پھر گواہی دی 
وما ارسلنک الا رحمت للعالمین 

ان دو آیات میں عالمین کی بات کی گئی ہے ..تمام کائنات کا دل رحمت ہے وہ رحمت للعالمین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں صاحبو!  غور کرو کہ پہلے رب اپنی پہچان کراتا  ہے تو ساتھ کہتا کہ اب نبی کی پہچان یہ ہے کہ وہ رحمت ہیں. اس قران عظیم میں تمجید کی مانند چمک رہی یہی آیت. اس آیت کو چوم لو اور پکڑ لو ..  یہ آیت گواہی ہے کہ اللہ کے عالم پہ حاکم ہونے کا جس نے شکر ادا کیا تو اس کو رحمت تک رسائی مل گئی. اے زمانہ جو دل ہے، اے زمانہ جو جانِ دل ہے   تو سن لے دل کی بات ہے رحمت کے اوصاف ... رحیم کسے کہتے ہیں.  قران کریم میں رب کا فرمان ہے 

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَا تَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَـكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۗ وَا للّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
"اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے"

اللہ پاک نے عالمین کی رحمت کے لیے فرمان دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کرو ..تم کو وہ جود و کرم کے فیض سے نوازے گا.  نہ معاملہ صرف رحمت کا بلکہ درگزر کا معاملہ ہو جائے گا    تو رب کی اطاعت کے بعد محبت ملتی ہے. اقربیت کا یہ مقام کیسے ملے؟  پہلے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت اور ان سے محبت ضروری ہے. جسکو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اطاعت کی استطاعت نصیب ہو جاؤ انہی پہ فیض کے چشم و کرم کیا جاتا ہے ... تو صاحبو عہد کرلیں کہ ہم محبت پاکے رہیں گے تاکہ دیدار کا وہ مقام جس کے لیے اللہ نے فرمایا کہ نحن اقرب ... ہم جبل الورید سے قریب ہین تو یہ قربت محسوس کیوں نہیں ہوتی ..راستہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اپنایا نہیں جاتا ہے ... جس نے اطاعت کی اس نے محبت پائی ..پھر رب فرماتا ہے کہ 

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَا عْفُ عَنْهُمْ وَا سْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى الْاَ مْرِ ۚ فَاِ ذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْ
نَ
"(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں"

اللہ کی رحمت و کرم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پے یہی ہے کہ آپ کا دل کشادہ ہے ...تنگ دل میں نرمی کی گنجائش! اے مری جان! اے مرے دل تو سن کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دل کی زمین اتنی کشادہ ہے کہ تمام عالمین(ارواح)  آپ میں موجود ہیں.  اسی واسطے ہم کیا آنے والی ہر روح اور گزری ہر روح کا ان سے ربط ہے. ان سے ربط کا احساس مستحکم تب ہوگا جب تک اطاعت نہ کی جائے. آپ کے دل میں تمام عالمیں کی جگہ ہے تو آپ کی رحمت سب پہ برابر ہیں. تو آؤ آج جھولی پھیلاتے اطاعت کی دعا مانگے تب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت خدا تک پہنچا دے کہ خدا تک کامل رسائی فقط محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علاوہ کس کو حاصل ہے ...واعلیکم اسلام 
خوش رہو

جنگل ‏اور ‏خواب

یہ تلاش کا سفر ہے جو دل کے صحرا  اور جنگلوں میں ہوتا ہے. اعجازِ سفر ہے کہ سیدی مولا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات کی روشنی ہو. اس ذات کی روشنی مولائے علی سے ملتی ہے ..یہ اصحاب جو روشنی دیتے ہیں. یہ جو نسبتیں دیتے ہیں. جب آپ کے دل میں شیرِ خدا کی ہیبت پیدا ہو تو سمجھنا ہے کہ روشنی ہے کہ اس میں اپنا کمال نہیں ہے

دل تصدیق کی سند دیتا ہے کہ حرفِ متاع دل ہیں اور دل دل سے جڑا ہے. یہ تو آبرو کی بات ہے کہ سفر میں زادہراہ مل جائے. یہ نصیب کی بات ہے یہ کمال کے فیصلے ہیں. یہ شرف کی بات ہے.قلم کی عنایت ان کی جانب سے ہوتی ہے ورنہ قرطاس خالی، بنجر زمین کیا آبیاری سے شجر دے 

یہ پیغام سے بھرپور قلم دل کی لوح پہ رقم شدہ ہے. یہی کتاب الہی ہے. اپنے دل کی کتاب کو جناب سرور کائنات عالی مقام مصطفی کے دل کی کتاب(قران پاک)  سے ملا کے ان کے اعمال کو اپنے اعمال سے ملانا ہے. یہ محبت بھی زہے نصیب ہے یہ اعجاز سفر ہے جس کے راوی بیشمار ہیں. یہ پیغامات بس پہنچتے رہتے ہیں. یہ سرر کا شعبہ نہیں. یہ تو ابتلائے دل ہے، یہ مبتلائے غم کی.داستان.ہے 

طبیب نے کام دیا ہے اور طبیب کے کام پے جان قربان کہ مرض کا علاج طبیب کرتا ہے. مریض کو شفایابی چاہیے.اب جانب جنگل سمت تھی .....جنگل کے رستے خواب مل گیا.  خواب سے پوچھا،  ملاقات کب ہوگی ..خواب نے کہا جب نظام سرکار نے دعا دینی ہے

  دل ایسے موم ہوا کہ پگھلنے لگا ...جو سیسہ تھا وہ موم ہو... جھکائی زمین، جو زمین پے نیاز میں، تو محفل مولائے حیدرم سے مالک کون و مکان،  واصف دو جہاں سے،  امیر خیر الانام سے ہوئی .

 
سیدی مولا کی.شان میں مدح خوانی کی سعادت پائی ہے ...
اشک بامنزل.رسائ پائی ہے ..سیدی مولا... یا مصطفی، عربی.ڈھولا....یا مصطفی، کمال.مرشد،  کمال نبوت ،کمال.بندگی یا مصطفی ،سید البشر کا.شیریں لقب ،حیات و ممات کا.سبق 
کیا لمحات ہیں یہ عجب ، ملتا اسے جو کرتا ادب ،ادب سے روشنی پائی ..،روشنی نے زندگی دے ،زندگی نے درد کا رشتہ،شکستگی سے خوشی،.............جمال نبی کی نظر سے بدلی ہوئی، برسات میں نور برستا دیکھا یے ،محمد محمد کا نوری کلمہ.دیکھا ،دل ملا،  دل جلتا ہوا .تب دیکھا ،شاہ ولا سے ملا سخاوت  کا تحفہ، شاہ ولا نے زمین پہ نام محمد لکھا ،شاہ ولا کا بارِ علم سماوی نور ہے ،شاہ ولا کا  شعار یقین رہبری کا سرور ہے ،شاہ ولا نے حسن کی چادر اوڑھے ہوئے ،دل صدقے دل پہ ہزار جان نچھاور

من کی بتیاں نچھاور، مرے یاور ،کمال کی  یہ اگر بتیاں، مرے یاور ،مل رہے ہیں نوری ہالے،  جل رہے ہیں سارے ،سرر نے عجب حال کر رکھا ہے  شاہا نے سایہ ڈال یوں رکھا ہے ،
شاہا کی نظر سے مست و مجذوب ،شاہا کے الطاف کی حد نہیں ہے ،ان کے قد  کی. کوئ حد نہیں.ہے ،شام حنا نے رنگ سے اجالا کردیا ،آقا کے نور نے یوں بول.بولا کردیا ،کعبے نے شوق حضور میں کہا ہے ،نور کے دل میں مرا حبیب رہا.ہے 

سماوات پہ میم کی عجب ہے مثال 
سنگیوں  پہ روشنی سے عجب حال  
آپ کی نعمت سے دل پر ہے نوری ہالہ 
دل کہے جائے ہے  شاہ والا.شاہ والا ... 
مرقد پر روشنی، روشنی ہادی ہے
یہ قبر نہیں، غار حرا کی وادی ہے

محفل پہ ادب یوں ہے طاری ،خاموشی کا یوں ہے سرر طاری 
آمنہ کا لعل،  عبد اللہ کا.چاند ،اللہ کی کمال تصویر ہیں.شاہا 
میرے دل میں رہتے مرے بابا ،سرکار کی آمد مرحبا ،دلدار کی آمد مرحبا ،فقیر ہوں،  فقیر پہ اہل کرم کا کرم ،خالی جھولی کا رکھا ہے یونہی.بھرم ،جھکا رہا سر مرا کہ عاری ہے شرم ،مرے سر پہ شاہا کا ہاتھ،  ان کا ہے کرم ،نوازئیے نور ابدی کے کامل آئنے ،مطلق حقیقت کے سب کامل.آئنے ،درود سے چلتا ہے نظام  مصطفوی ،مصطفوی نور میں.چمکے حجابات ،مصطفوی نور سے ہوتی رہی ہے بات ،آج تو پانی.ہو رہے سماوات،چہرہ محبوب دیکھنا ہے؟  دیکھنا حق ہے ،چہرہ محبوب دیکھنا عبادت،  حق ہے ،چہرہ نور سے بقعہ نور ولا میں روشن ،جانب.طور سلسلہ.ء جبل کمال روشن 

ملائک سے "سماوات " مخاطب 
مولائے کائنات سے "آپ " مخاطب
یوں سلسلہ ہائے نور در نو.چلا 
عرش سے نور فرش تلک  چلا 
زیست کے سفر میں کفر اضافی 
اللہ والے  پہ رہتا الوالی کا سایہ 
جو ملے سایہ تو بدلتیہے کایہ 
نام محمد تو جہاں  پہ چھایا ہے
کلمہ حق کی استمراری زبان ہے 
نام محمد تو اللہ کی گردان ہے 
حق نے سج دھج کی میم مثال لیے.
مثل کائنات سے  ہوئے خیال زیر بار 
یہ وار، محبت کے تلوار سے کاری ہیں 
نعت لکھنے کو کیفیت سی طاری ہے

کیا ملا؟  کیا نہ ملا؟  کانچ کے دھاگے سے لکھا میں نے یہی بار بار،  عشق  خالص کہاں ملےبار.بار ... اٹھاتا ہے جو بار اس کا،  وہ ہوتا ساحل پار ...

خوشبوئے زلف محمد سے نکلی عنبر کی مہک ،خوشبوئے لالہ،  موتیا اس پہ نثار ،آپ کے دلاور لہجے میں چھپا جلال 
شاہ ولا نے آپ.سے لیا جلال با.جمال.،شاہا نے سرخ کملی اوڑھ رکھی ہے ،کالی زلف والی محمد کی.صورت  ابھرتی یے
،تاجور نے تاجوری کا تحفہ دیا،،،،،،،  سج گئیں راہیں اور رفعت ملی اور رفعتوں پہ.مکانت،  سیادت سے ملی اجابت، 

 .
ہار میں  غنیم کا بار کیسا.ہے 
ستم میں معین کا کار کیسا ہے 
کچل دے،  نفس وہ وار کیسا ہے 
جسم مقید روح افلاک پر ہے 
مری زندگی کسی شاخ پر ہے

حجاب سے ازل کے رشتے بڑے 
شاید ترے دل میں بات اترے 
صلی علی کی صدا پڑھتے.ہیں 
آپ کی محفل جو بیٹھتے ہیں 
سجا کے سج سج کے آشنا ہوئے 
نور حزین پاک زمین کی نشانی 
یہ عشق فقط اس کی کہانی 
کچک کچک، کچ کچ نکلا دھاگہ
خاک پڑی رہی،  خیال بنا.ارادہ  
حجاب سے ازل کے رشتے بڑے 
شاید ترے دل میں بات اترے 
صلی علی کی صدا پڑھتے.ہیں 
آپ کی محفل جو بیٹھتے ہیں 
نورِ حزین سے وہ آشنا ہوئے 

بلالیجیے شاہا بس اپنے در پر 
آؤں ارض مقدس سر کے بل پر
عشق سپر، تیغ نیام  میں ہے 
مخلوق کے ذمہ بھاری کام ہے 
چشم دل سے من شاد ہوا ہتے 
اسی سے میخانہ آباد ہوا ہے. 
یہ زمین علی کی ولا میں ہے 
دل وادی ء شاہ بطحا میں ہے 
چاک جگر، حسرت کا دھواں 
ملن کو تڑپتا مرا لمحہ لمحہ
مجھ کو اپنی ولا میں گما 
مرے دل میں سما کے نہ جا 
شاہا،  شام غریباں کیا ہے؟  
شاہا آپ کا جانا،  غربت ہے 
شاہا،  شام حنا  کیا ہے. 
شاہا  آپ کا آنا امداد ہے

ایمان ‏بالغیب ‏


میں قران پاک پڑھ رہی تھی تو پڑھتے پڑھتے رک سی گئی. دل جہاں رک جائے تو مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ بھاگ جاتا ہے. دل جہاں تھم جاتا ہے وہ رات ہوتی ہے. اک شب غم کی رات ہوتی ہے. تو اک رات لیلتہ القدر کی ہوتی ہے ...یہ راز کی بات ہے کہ قران پاک لیلتہ القدر میں اترا ہے . قران پاک پہلے بھی اترتا تھا کل بھی اترے گا اور آج بھی مگر رات اسکی قدر والی ہو. یہ رات ملتی کیسی ہے یہ نصیب ہے .. نصیب غم سے کھل جاتا ہے اس لیے غم کو کبھی برا مت کہنا ... آیات قران پاک کے دوسری سورہ کی ابتدائی آیات ہیں 

Allah SWT said:

الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِا لْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ۙ 
"جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں"
(QS. Al-Baqarah 2: Verse 3)

Allah SWT said:

وَا لَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِا لْاٰ خِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ ۗ 
"جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں"
(QS. Al-Baqarah 2: Verse 4)
 
کل کو کوئی نہیں جانتا. جانتا ہے؟ آج حاضر ہے. ماضی میں کیا ہوا؟ کون جانتا؟  جب تک قران پاک کے ماضی کے واقعات حال یا دور حاضر سے نہ مل جائیں بات نہیں بنے گی اور قران پاک کی سمجھ نہیں آنی. اس کو پڑھ کے ہم اک لفظ بڑائی کا کہیں گے کہ ہم نے یہ پڑھا. ہم نے سمجھا نہیں ایمان غیب ہے کیا؟ غیب پر ایمان لانا کیا ہے؟ رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے سورہ التکویر میں فرمایا گیا کہ آپ غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں ہیں مگر کاہن بھی نہیں ہیں ... قران پاک سینہ بہ سینہ ایسے ہی فہم و ادراک کی منازل طے کراتا کائناتی شعور بناتا ہے .. نماز قائم کیسے ہوتی ہے؟  جب تک غیب پہ ایمان مکمل نہ ہو  ورنہ سورہ الماعون میں اللہ نے نمازیوں کی نماز کی  حوالے سے لعنت افسوس کا اظہار کیا ہے  ... جس کا غیب پہ ایمان مکمل ہو نماز قائم ہو. اس کو علم کا رزق ملتا ہے. مال بھی رزق ہے اولاد بھی زیور بھی پیسے بھی سب اشیاء رزق ہیں ... ایمان والا رزق اس سے ملتا ہے جس کی نماز قائم ہوتی پے. نماز قائم ہوتی جب اللہ سے ربط قائم ہو ..اللہ سے ربط قائم ہو تو اللہ کو دیکھو اور اللہ تمھیں دیکھے. یہ خود میں اترنے والی بات ہے جو پہچان لیا وہ مان گیا. مان گیا تو مومن ہوگیا کہ یقین قائم ہوگیا 

قران پاک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہ نازل ہوا. کس کے لیے نازل ہوا؟  ہمارے لیے .. انسان کے لیے فرمایا گیا سورہ الحشر میں کہ قران پاک اگر پہاڑ پہ نازل ہوتا تو ہیبت سے دبا جاتا مگر امتی پہ نازل ہوتا ہے مگر سورہ الاحزاب میں فرمایا کہ انسان ہے جاہل و نادان جو چیز علم اس کے پاس اسکو سمجھتا نہیں ورنہ اللہ فرماتا ہے کہ ہم اقربیت میں شہ رگ سے قریب ہیں. یہ قرب محسوس نہ ہو تو پھر نماز قائم نہیں ہوتی. جب یہ ایمان کامل ہوا تو پھر جب کامل سچ کے بعد پچھلی نازل شدہ سچائیوں میں شبہ نہیں رہتا کہ دین بس اک ہے وہ اسلام. سلسلہ بس اک درخت سا جسکی شاخیں وسیع ہوگئیں ...

آخرت کیا ہے؟ غیب ہے ..کون جانتا ہے کل کیا ہونا جب حال کا علم نہیں جب حال میں ربط نہیں تو کل آنے والے حال کو کیسے جانا جائے. یہ سوچنے والی بات ہے

تلاش ‏کا ‏سفر

یہ چمن مہکتا ہے، یہ زمن نام لیوا ہے، یہ حسن زیبا ہے، خرمن دل سے بوئے گل تک ہستی کا نور ایک حرف ہے، حرف محمد.   
حرف محمد خود ایک راز ہے. راز بندگی نے پایا ہے.  عبد سے معبود کا تعلق عدم سے نقطہ تک کا تعلق اور یہ تعلق دوامی ہے. حیات دوامی، وجود دوامی، عقل روحانی،  نور وجدانی، لہریں سبحانی،  جبین کی ارزانی،  ساجد کی زبانی، نام اللہ پر قربانی،  آفرین اے بانی کا نام ہے

 سلام یا سید الشہدا، ام فروا سے قیس تک امہات کی جانی،  خدیجہ کا کون ثانی؟  خدیجہ سے چلی نسلِ انسانی،  فاطمہ بنت رسول کائنات زوجہ اسد ... بی بی جانم سے چلی بات،  بی بی جانم نے کیا ارشاد، اللہ کا ہو گھر آباد، رکتے نہیں شہباز، اڑتے ہیں گرتے نہیں،  اٹھ کہ، صدائے ربانی ہے،  روح کی اپنی کہانی ہے،  نسل در نسل کی قربانی ہے، زندگی کیا ہے؟  لشکر حسینی ہے، سالار قافلہ ہیں، شہِ خیر الانعام ہیں ..،  اس نام سے بجتے ہیں دل کے سبھی ستار، نغمہ گل ہے

قبیلہ قیس سے بنو مضر تک ایک شخص ایسا تھا جس کو رب سے بہت پیار تھا. حق تو یہ ہے کہ وہ رب کا دلارا تھا ...جس کے پاس بھیڑ بکریاں سکون سے پھرتی رہتی ہیں،  جس کی نماز حضورِ یار بنا نامکمل رہتی تھی ...وہ جس کا دل بنا کسی تحقیق کے، بنا کسی جستجو کے براہ راست حقیقت سے استوار ہوگیا ...جسکو شک نہ تھا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ..جسکی محبت پر اصحاب کو رشک آیا تھا .....سیدی اویس قرنی ...کیا کیا عاشق رسول ہیں ...کیا کیا عاشق رسول ہیں.   حبِ رسول سے روح جسکی گندھ جائے، وہ مہک جائے،  مدح و توصیف میں بہہ جائے، وار تیر و خنجر کے سہہ جائے، قاتل تلک  کو عفو کا سندیسہ دئیے جائے،  یہ چمن ہستی کے چمکتے چمکتے سرخ، نیلے پیلے،  ننھے ننھے سے پھول،  ان سے رنگِ گلزار دیکھیے،  سارا عالم بہار دیکھیے،  چہرہ یار دیکھیے، آنکھ ہو تو بار بار دیکھیے،  دل سے دل کے وار دیکھیے،  دیکھیے، شہِ ابرار دیکھیے، آنکھ تو  ہے، اشکوں کے ہار دیکھیے،  جبین جھکے تو اظہار دیکھیے،

وہ سرحدِ شام سے فارس کی سرزمین سے اک جوان روحی روحی قلبی قلبی منور نکلا حق کو ..اک کوچہ ء جاناں سے دوسرے کوچہ ء جاناں تک،  سرحد ہا سرحد کے فاصلے طے کرتا،  جسکے پاؤں کی زنجیر اسکو ہلاتی، تڑپاتی اور وہ چلتا سمتِ یار کی جانب،  وہ گلستان عرب میں رسول مدنی کا ظہور .............تڑپتا، سسکتا اک کوچہ ء جان سے دوسرے تک سفر کرتا، رہبری قافلوں سے مانگتا،  نشانیاں جوڑتا، ملاتا، دل کے تار سے وقت کے ملاتا اور مشیت کے تقاضے سوچتا،  جس کے دل میں نور حزین نے سایہ کررکھا تھا، وہ جسکی روح صدیوں کے حائل فاصلوں کو عبور رکھنے کی اہل تھے، جانب حجاز مگن، تھا سر پہ گگن، کیسی تھی یہ لگن، دکھا اسے جو سجن، سوچا ہاشمی ہے مگر ہے مگن،  ستم نہ کہ کرم مگر شرفاء سا چلن،  فارسی تھا مسکن،  مہر نبوت دیکھ رکھی ہے، سیدی کی کملی پہن رکھی ہے، چمن کی خوشبو بھلی ہے، ،  رخ سے دور اندھیرا،  کسی کی عید ہوگئی،  آقا کی دید ہوگئی،  زلف محبوب کی اسیر ہوگئی،  نغمہ گلو سے مڈبھیر ہوگئی، شمس کی کیا تدبیر ہوگئی،  غلامی کی تطہیر ہوگئی، مدحت نبوی شمشیر ہوگئی، قالب میں قلبی تمجید ہوگئی، گگن سے لالی نے جھانک لیا،  دل تھا جو مانگ لیا،  دیا جوڑا سرخ حنائ حنائی

ہوا سراسرئے، یا محمد
پتا پتا لہرائے، یا محمد 
سماوات پر ہے، یا محمد 
زمین بول پڑی، یا محمد
چمن در چمن، یا محمد 
کلی درثمن ، یا محمد
گل لحن کہے، یا محمد  
رب کی صدا،  یا محمد

القابات سے نوازے گئے 
مزمل سے ہوئی ابتدا 
مدثر سے کلی کھلی 
طٰہ سے حقیقت پائی
یسین سے دید پائی 
احمد سے محمد کا فرق 
الف سے میم کا کھیل ہے 
شمسِ ہداہت کی کملی 
نور نے تحفتاً پائی ہے 
بدلی رحمت کی چھائی 
زندگی کی یہ کمائی ہے 
آنکھ کیوں بھر آئی ہے 
قسمت رشک کرے ہے 
فلک آنکھ بھرے جائے 
میرے باغ میں دو پھول.
نام محمد سے ہوئے ہرے 
بوٹا امید کا کھِلتا جائے 
پیار جیسے ملتا ہے جائے 
شمع کو طلب پروانے کی 
جگنو کو طلب بوئے احمد

حق کی تلاوت، سلمان 
تڑپ کی سعادت، سلمان 
گل قدسی مہک، سلمان 
جمال کی انتہا، سلمان 
محبت کا ایمان، سلمان
آنکھ کا وضو،  سلمان 
قفس میں اڑان، سلمان 
ساجد کا وجدان، سلمان 
ذات با ریحان، سلمان 
محفل کی جان سلمان 
محشر کی روداد، سلمان
حجر کا آستان، سلمان 
عقل با رحمان، سلمان

سلمان کا پوچھتے رہیے، نام سلمان نے طرب بجا رکھا ہے، کمال کا نام سجا رکھا ہے،  سعید با سعد بنا رکھا ہے،  کشف در ححابات بہ ایں حجاب سلمان،  شاعرِ رحمان سلمان،  صلیب سے یکتائی کا سفر ہو،  یا ظاہر سے بباطن کا تماشا،  اک واحد یکتا کی داستان ہیں سلمان ..فخر بوترابی، لحنِ داؤدی ہیں،  تڑپ میں اویسی ہیں،  رفعت میں خضر راہ،  کعبہ شوق دیکھنے آئے، دیکھتے ہی کلمہ پڑھ آئے،  قریش کیا بھلا سوچیں،  غیب کی داستان پہ ایمان لائے گویا عدم سے حقیقت کو وجود میں لائے، حقیقت رسا کلمہ، سلمان،

حیدر سے بوترابی پوچھیے
ستم کو کرم کا راستہ دیجیے شام کا لباس رات کو دیجیے 
چاند کو شمس  بنا دیجیے

شمس سے شمس تک سلاسل 
نور کو پھر سے دکھا دیجیے 
قرار بودم نہار در بود عشق 
عشق نہاں درماں روح ست

ساقی ء کوثر کے پاس 
جام جم کے آس پاس 
صبا چل رہی ہے آر پار 
چھڑ گیا ذکر گل نو بہار 
مئے خمار سے بیٹھے رہے 

اس محفل میں نور سے بھرپور صدا لگتی ہے،  نور حق یزدانی نے بوترابی سے تقسیم شروع کررکھی ہے،  کمال کے سب دریچے وا ہوئے، نور ولا سے نور الھدی تک رسائی ..یہ گھڑی جس کی ساعت میں پیار نچھاور، یہ احساس شکر پہ مائل،  درود سے زبان پہ کلمہ جاری.....

کیسے ‏کیسے ‏جلوہ ‏دکھلاتے ‏ہو ‏

کیسے کیسے جلوہ دکھلاتے ہو؟
ایسے، جیسے کہ پہلے دکھلایا ہو ؟
تو پھر جلوے میں بے تابی کیسی؟

آ کہ باہم رقص کریں ...!

میں مٹ جاؤں گی اورتو باقی رہے
لا الہ الا اللہ کی بات سنے کوئی  

لا ھو کا نغمہ بس یہ کائنات ہے 
لا ھو سے ھا ھو کا جلوہ ہے 

یار سچے کے عشق میں گم ہوجائے جو، تو یار سچا دل میں مقیم "عین حیاتی" میں درد کی باگ سنبھالے سامنے ہوتا ہے .... درد سے چیخ نکل جاتی  اور صدائے عشق! خاموش!

 صدائے عشق نہ دو! لباس یار میں زیبا نہیں ایسی صدا

 لباس یار پہن لے جو،  تو پھر کہ یار جلوے کا تماشا کیا ہے؟  لفت میں تمھاری اپنا آپ  کھو دیا جاتا ہے ......  جلوہ ملے تو سب ملے،  جلوہ نہ ملے تو کچھ نہ ملے مگر  دل بیقرار!  دل کے مذبح خانے کےپاس رقص کناں خون کی گردش پہ حیرت کناں ...حیرتی کہ  یا حسینّ کا نام ہے گردشِ لہو میں ... مولا علیّ کے نام کی آیات ہیں ...  سیدہ  فاطمہّ کے نام سے گردش ہو رہی ہے اور زبان کہہ رہی ہے ّ

انا اعطینک الکوثر 

ماتم کناں کیسے رہا جائے  کہ  دل میں آیات حق اور اسکے نیک.بندوِں کا سایہ ...، 

میری آنکھ میں اشکوں کی لڑی اور میں کہ محو نظارہ ...ہر دل میں قران پاک موجود ہے مگر ترتیل سے پڑھنے کے لیے موجود وہ دل نہیں ہوتا؟  وہ یاد نہیں ہے تو کیسے ملیں گے مجھے وہ  زمانے؟  کیسے دیکھوں گی وہ  نشانیاں؟  کیسے پاؤں گی اس دوڑ کو، جس کی رسی سے میرے دل کو کھینچا جا رہا ہے ..میری روح قدیم ...!مگر جانا اب ہے ...!شناخت کیا ہے ؟ ازل کی روح سے خلق .... پہچان کا سفر ہے کہ کہتا دورِ حیدری ہو!  دور محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم.ہو ..دور صدیق ہو یا دور عمر ہو یا دور حسین ہو ...سبھی دل  موجود تھے انہی زمانوں میں ...وہ تمام  لطیف وجود مگر تمام کہ تمام اب قید مادی بندھنوں میں .... 

حق لا مکانی میں!  حق سبحانی ھو!  مقام حیرت پہ پہنچتے ہیں جو عشق میں ...مقام لاھوت سے ھاھوت تک ان کا استقبال ہوتا ہے  ...مقام جبروت پہ ان کو قرب  سے نوازتا ہوں ...ان پہ اسی کا کا سایہ ہو جاتا ہے ...یہی مرے  صدیق، مرے شہید بندے ....شاہد روحیں،  صدیق روحیں زندہ رہتی ہیں ہر زمانے میں ... یہ کرم خاص ہے جو کہ تا بہ حال جاری رہتا ہے

اے محمدﷺ نور مجسم!  
اے محمد ﷺنور دلم!  
اے محمد ﷺدل پہ نگاہ کیجیے 
اے محمدﷺ ,اے محمدﷺ کہتی ہوں 
کرم سے دنیا.بدل دیجیے 
اپنے معارف سے نواز دیں 
دائم ہو جلوہ!  نعمت عطا کردیں 
ان گنت درود جناب نبی پاک ﷺ

یا محمدﷺ!  بس اب دیر مت کریں ...دے دیں اپنا جلوہ ...کچھ نہیں مانگتی شاہا بس دائم.جلوہ ...لے لیں جتنا باقی ہے ...بس دے دیں دائم جلوہ اپنا ...یا محمدﷺ اپنے نور سے پرنور کر دیجیے ... دائم جلوہ دے دیجیے .... جب بھی نظر اٹھاؤں حرا کی محفل دکھائی دے  دے ..جب نظر جھکاؤں ،تو آپ ﷺکا چہرہ دکھائی دے  دے ....جب سوچوں، تو  آپﷺ کا تبسم نظر آئے ..جب چلوں، تو آپﷺ کا حلیہ، مکارم نظر آئیں ..جب بات و گفتگو ہو، تو سیرتﷺ کا وہی پہلو نظر آئے .... اے نور محمدیﷺ ...ان گنت درود ...بس دیر مت کیجیے ...بہت دیر ہوگئی ہے شاہا ﷺ...نواز دیجیے کہ ایسا کہ نہ ہو دم نکل جائے ...ایسا نہ ہو کہ دم کیساتھ روح ٹھہر جائے .... نواز دیجیے اپنے اکرام کی حد سے ...نور کو بے حساب عطا کیجیے .......... یا نبی ﷺ..... اللہ نےآُپ کو رحمانیت عطا کی ... آپ اپنا کرم مجھے دے دیں ...... یا نبی ﷺ....خواہش  جستجو ہے کہ نعت کی سعادت دے دیں ...نعت خوانوں میں آپ کے میرا نام بھی ہو...عشاق کی فہرست میں سر فہرست میرا نام بھی ہو ...جو نعت ہو مری گریہ سے بھرپور ہو ...مری تڑپ کو زمانہ بھی نام دے ...یا نبیﷺ،  عطا بے حساب کیجیے .....

خدا ‏سے ‏سوال

آج میں نے خُدا سے سَوال کیا کہ دل کے
سیپ کون دکھائے؟ یہیں کہیں چھالے بُہت ہیں. درد بُہت مِل چُکا ہے مگر سوال اضطراب سے امکان کو تھا. سوال تو ممنوع ہے مگر میں نے تاہم کردیا کہ مشکل یہ ہے کہ درد وُضو کرنے لگا ہے. جب درد ہستی سے بڑھ جائے تو اپنا نَہیں رہتا. یہ زمانے کا ہوجاتا ہے اور زمانہ اس درد میں ظاہر ہوجاتا ہے. درد سے سوال مناسب نہ تھا مگر رشتہ ہائے دل سے تا دل استوار تو ہوا. 

خالق سے مخلوق کا رشتہ تو درد کا رشتہ ہے. درد کے بندھن میں اللہ اللہ ہوتی ہے اور اللہ دل کا سکون بن کے مثبّت ہوجاتا ہے. اللہ مشعل مانند روشن رگ رگ میں مشتہر ہوجاتا ہے. خدا میرے سوال کیے جانے پے خاموش رہا جیسا کہ میرے سوال میں خاموشی اسکا جواب ہو. میں اس مہیب خاموشی میں کھو گئی اور سوچنے لگی کہ غم کے اندھیرے نے مار مکایا. تری روشنی درز درز سے داخل ہورہی ہے. یہ تو عجلت میں نہیں ہے یہ اضطراب بُہت زیادہ ہے. پھر خدا مخاطب ہوا

طفل مکتب سے پوچھا نہیں جاتا، بس جو دیا جاتا ہے وہ لیا جاتا ہے. غم کی شب میں سحر کے اجیارے اور اجیاروں میں غم ... شبِ فرقت کی صبح وصل کی رات ہوتی ہے .... تو نمودِ صبح کی دُعا ضرور مانگ، مگر گردش رواں کا چکر آگے پیچھے چل رہا ہے "نہ دن رات سے آگے، نہ رات سے آگے دن ہے. بس انتظار

نشانی

نشانی کا تصور کتنا عجیب ہے. ساحل کنارے نقش پا سے راستے مل جاتے ہیں. کسی کو ڈھونڈنا ہو تو اسکے نقش پا سے ڈھونڈ لیا جاتا ہے. اک نقش پا جسمانی ہیئت کا ہے اور اک روحانی ہے. دل پر نقش یا آیت ہیں. دل میں نشانی ہے اور یہ نشانی اللہ کی ہے. اللہ کا نام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بنا نہیں لیا گیا اور اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام لیتے درود بھیج دیا. اللہ نے نور کو بانٹا اور تقسیم میں کم یا زیادہ کی تفریق رکھی. کسی کو جمال دیا تو کسی کو جلال دیا اور کسی کو حال دے دیا اور کسی کو محروم رکھا. مصور نے مصوری کے شاہکار نمونے تیار کیے. یہ دنیا نمونہ، یہ انس و حیوانات و شجر. جب غور کروں تو ساری کائنات کی روح کو دیکھنا پڑے گا اور روح تو کائنات ہے. روح میں کون ہے؟  روح میں اللہ اللہ ہے اور اللہ کائنات میں ہے. دل میں اللہ کی صدا کو شجر کے پتوں کی ھو ھو سے ملایا. یہ اشجار کے پاس معارف زیادہ ہیں جن کی صدائے ھو یگانہ ہے اور جب غور کرو تو پتوں کے ہلنے میں عجب پیٹرن ہے، یہ شاخیں نہال غم میں بنجر اور اشک مسرت میں ہری ہری ہوتی ہے . جھکی شاخیں تو سجدے میں ہوتی ہیں جبکہ ہلتے پتے ہمارے لبوں کی طرح تسبیح پڑھتے ہیں ...  یہ تسبیح عیاں ہے اور دکھتی ہے. یہ شجر کتنے خوش نصیب ہیں جب ہوا ان سے ٹکراتی ہے تو ان کو عکس مصطفوی ، رویت مصطفوی اور آواز مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم دے کے جاتی ہے. یہ ہوا چودہ سو سال سے اوپر اپنی خوش بختی پہ نازاں ہوتی آئے اور اشجار کی رگوں جب یہ خوشبو ملتی ہے تو یہ پھلنے پھولنے لگتے. یہ بیل بوٹے اتنے نایاب ہیں. ان کو چوم لوں کچھ تو رنگ مصطفوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جھلک میرے افکار و اعمال میں ہو. 

یہ روح کے نشان ڈھونڈنا اتنا آسان ہے؟ ہاں تلاش و جستجو کا دھاگہ  جلنے لگتا ہے. یہ لگن کی آگ ہے جو پورے وجود کو عکس شہود سے عکس موجود کی جانب لیجاتی ہے ان نشانوں کو ڈھونڈ لینا اصل کام ہے

نغمہِ ‏جانِ ‏رحمت


نغمہِ جانِ رحمت کیا ہے ؟ عشق کے فانوس پر منقش لا الہ الا اللہ ہے ۔ عشق محوِ رقص ہے ،چکور کو چاند مل گیا ہے ، زمین اور فلک باہم پیوست ہیں ، یہ آبشارِ روشنی ۔۔۔۔۔ یہ فانوسی منقش ۔۔۔۔ کتابِ عشق کا پہلا صفحہ خالی تھا ، لالہ کی فصل نے اسے سرخ کردیا ہے ، گل اس میں رکھا رہا ، خوشبو نے قبضہ جمالیا ، یہ ملک لالہ و گل کی ہے ، یہ خوشبو عطر و عنبر کی ہے ، مشک و کستوری نے سدھ بدھ کھو دی ، بیخودی کے جام نے آنکھوں میں لالی بھر دی ہے

جاناں کے جلوے چار سو ہیں ۔۔۔اسکی خوشبو پھیلی چار سو ہے ۔۔دودِ ہستی میں نامِ الہی لکھا ہے۔۔خوشبو نے معطر لبو بام کیا ہے ۔۔طواف ذات کا پروانہ کرتا رہے۔۔وہ نشانیاں عیاں کرتا رہے۔۔۔آخرش خواہشِ دید پوری ہونے کو۔۔تڑپ کے صدقے گزارش سنی ہے

یہ کون اسکے جلوے میں محو ہیں ، اللہ اللہ کے پاتے جارے  ہیں نشان  ، وہ نور جو صبا میں ہے ، وہ نور جو جھاڑیوں میں ہے ، وہ نور جو فلک پہ ہے ، وہ نور جو چاند میں ہے ، وہ نور جوآفتاب  میں ہے ، وہ نور جو زمین میں ہے ، وہ نور جو مدینے میں ہے ، ہائے وہ کتنا حسین ہے ، ہم مرنہ جائیں ، اسکا حسن ہمیں دیوانہ کیے دے رہا ہے ، اس نے ہمیں رقص کی مسرت میں رکھا ہے ،

اسکی خوشبو میں مدہوش ہے  کوئی،  یہ اسکا نور ہے ، یہ خوشبو جو پھیل گئی ہے ، ہمیں سرور چمن میں رہنا ہے ،  ذات کو جل تھل کردیا ہے ، شاخِ نہال مسرت نے خزان رسیدہ پتوں کو زندگی بخش دی ، جنون نے زندگی نئی بخش دی ہے 

سر سے پاؤں لگے کہ خوشبو نے مجھے بھردیا ہے ، اتنی خوشبو بڑھ گئی ، زمینو فلک اس میں بس گئےہیں ، ذرہ ذرہ خوشبو میں نڈھال ہے ...

وہ خبر کہ بارش کو آسمان سے برسنا ہے ، وہ خبر کہ بلبل کے نالہِ درد کو فلک تک رسائی ہے ، وہ خبر کہ دل کر ذرے ذرے میں ہزار ہزار جلوے ہیں ، دل والے تن کی روشنی کو دیکھ پاتے ہیں ، عشق کی انتہا نہیں ہے ،عشق کی حد نہیں تو حدود کیسی ، تحیرِ عشق میں ، گلِ سرخ کی مہک میں ، صبا کے نرم میٹھے جھونکوں نے بیخودی کو ہوا دی ، چمن سرور کا جل تھل ہے ، شاخ نہال مسرت ہری ہے ، یہ کیسی بے خبری ہے

دل کی کھڑکی جب سے کھولی گئی ہے ، شہرِ دل کے درواے جانے کیوں دستک کے منتظر ، دروازے تو منتظر ہیں ، شہر چمک رہا ہے ، جاناں کے جلوؤں کو تڑپ رہا ہے،تسبیح کے دوانوں میں نورِ الہی پوشیدہ ہے ، قافلہ حجاز کی جانب ہے ، راستہ دھند سے لدا ہے ، جیسے کوئی نور کی کملی میں ہے ، یہ کیسا پیارا احساس ہے

نمودِ صبح۔۔۔ ہجر ہویدا ۔۔۔ تجلیِ طہٰ ۔۔۔ تحیر مرمٹا ۔۔۔۔ بیخودی بے انتہا ۔۔۔۔ ست رنگی بہار ۔۔۔۔ سات نور محوِ رقص۔۔۔ کہکشاں میں قدم ۔۔۔ مدثر ، مزمل کے نام چمکے ۔۔۔۔۔۔۔سبز ہالہ لپٹا ۔۔۔۔۔۔ بندچلمن میں اسکا جلوہ ۔۔۔۔۔ سرِ آئنہ کون۔۔۔پسِ آئنہ کون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے خبری کہ ہوش کہاں

دل ‏فلک ‏پر

دل،  اک سرزمین ہے،  یہ زمین بلندی پر ہے. زمن نے گواہ بَنایا ہے اور ساتھ ہوں کہکشاؤں کے. سربسر صبا کے جھونکے لطافت ابدی کا چولا ہو جیسا. ازل کا چراغ قید ہے. یہ قدامت کا نور وہبی وسعت کے لحاط سے جامع منظر پیش کرتا ہے. کرسی حی قیوم نے قیدی کو اپنی جانب کشش کر رکھا ہے  وحدت کے سرخ رنگ نے جذب کیے ہوئے جہانوں کو چھو دیا ہے. شام و فلسطین میں راوی بہت ہیں اور جلال بھی وہیں پنہاں ہے.  دل بغداد کی زمین بنا ہے سفر حجاز میں پرواز پر مائل ہوا چاہے گا تو راقم لکھے گا کہ سفر بغداد کا یہ باب سنہرا ہے جس میں شاہ جیلان نے عمامہ باندھا ہوگا اور لفظِ حیات پکڑا تھمایا ہوگا. وہ لفظ حیات کا عقدہ کوئی جان نہیں پائے گا . بس یہ موسویت چراغ کو عیسویت کی قندیل سے روشنی نور محمدہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل رہی. وہ بابرکت مجلی زیتون کا درخت جس کے ہر پتے کا رنگ جدا ہے مگر درخت نے سب پتوں کو نمو دیے جانے کس نگر کا سفر کرادیا ہے. داستان گو نے کہا ہے کہ انمول خزینے ہوتے ہیں جہاں نورانی مصحف شاہ جیلاں اتارتے ہیں اور کہنے والے کہتے پیرا سچا بغداد ساڈا.  اودھی دستار دے رنگ وی وکھو وکھ. اوہی سچے دا سچا سچ

شاہ بغداد قطبِ اولیاء 
شاہ جیلاں امامِ زمن 
شاہ سے بنٹا نوری باڑا 
اسمِ محمد کا ہے اجالا 
ذات کے گرد نوری ہالا.
دل کہے جائے شہ والا 
دل پہ ہے مکڑی کا جالا 
کاتب نے اسے ہٹا ڈالا 
رنگ بڑا سبز سبز ہے 
سرمئی روشنی پھیلی 
 
تار عنکبوت اتار دو. وقت ہے دعا کا اور نزع کے وقت مقبول دعا حج ہے.  حج شروع.  حج ختم. حج مطاف دل میں،  حج غلاف کعبہ کے اندر،  سوچ کعبے کو طواف کر اور پیش کرے سلام


کچا دھاگہ نہیں ہے ہوتا جس پہ بسمل چلتا ہے. نیچے آگ ہوتی ہے اور تار لہو چاٹتی ہے. رنگ اڑ جاتا ہے،  ذات بکھر جاتی ہے مگر ذات بکھر جائے تو غم کیا کہ ذات کا اصلی شعور باقی ہے یہی حاصل شعور ہے مگر بات بین السطور ہے کہ عشق محجور ہے. سرزمین دل طواف میں کہ قبلہ دل پہ لکھا گیا ہے اللہ ھو یا محمد چار یار زندہ باد. سلامت پیر باشد یا حسین خلافت زندہ باد.  یہیں سے تو چل رہا ہے سرمہ ء ہستی کا وصال دل سے قرار. یہیں سے تو ہے رنگ چمن میں نکھار. یہیں سے تو ہے شام حنا میں غزل کا اقرار، یہیں سے تو ہے آہ کا خاموشی سے گزر بسر، یہیں سے تو ہے نالہ دل فگار کو قرار، یہیں سے تو ہے زخم جگر کو دل سے ملال کہ نہ پاس ہے قریب نہیں. وہ کیسا حبیب ہے جس میں ذات بنی رقیب کہ یہ عشق نصیب ہے. یہ جان جلاتا ہے تو کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر نہ کرے یہ کیسا پیار ہے

حسین ابن علی کو سلام پیش کر رہی ہے صبا. باوضو دل کی صدا کہ ڈالی ہے حیا کی ردا. یہ باوضو دل سے نکلا ہے کہ.
نفس نفس میں ہے نورِ زہرا 
جمال یار کی لڑی نور زہرا 
فسانہ دل کہوں کیسے میں 
کہ روبرو ہے یہی نور زہرا 

حسین زندگی کی نشانی ہے 
حیات نو کی اجلی کہانی ہے 
حسین کی سرخی ہے شاہی 
شاہ کا غلام ہے ایک سپاہی 

مکتب!  دل مکتب!  حرف جامع!  لفظ شیریں!  بیان ہند!  یہ اجمیر کا پرند! رکھ دل کے پاس نذرانہ ء حجاز. مجاز؟ مجاز نہیں ہے یہ اک کھائی ہے چلی جس میں لڑائی ہے. کیوں آنکھ بھر آئی ہے؟  شہر دل سے ہو کے آئی.


ختم!  راز ختم!  اب کہ اختتام لفظ ہے!  اب کہ اختتام حرف ہے!  یہی ابتدا ہے جو منتہی ہے!  یہ ازل کا رستہ ابد کے چراغ سے ہے. یہ منزل سحر نوگاہی شمشیرحسینی سے ہے. یہ نور حسینی کمال کے خرانے لیے ہے. نورحسینی سے خلافت درجہ بہ درجہ، کمال بہ کمال،  حال بہ حال،  جلال بہ جلال،  انفعال بہ فعل چلی آرہی ہے.. حسین زندہ باد!  
.یقین کا مرگ یزیدیت! سرمدی استقلات حسینیت!  رہے قدم قدم پہ برا حال کہ شاہ اجمیر خود حسینی ہیں ...رنگ سے چلی حنا!  حنا بن صبا کے نہیں!  شن عروس کو لباس سرخ سے ملال ہجر کے دن کٹن آون!

درود

درود بھیجنے کو رب نے بھیجا. تعریف کرنے کو رب نے کردی.  اب ہمارے لیے کیا بچا؟  نہ زُبان! نہ دل!  نہ لفظ!  نہ سیرت! نہ عمل! یہ سیہ دل کس نگر جاکے چھپالیں؟  ہماری تو اوقات نہیں ہے کہ نامِ "محمد " صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی میم کو ٹھیک سے بولیں کجا کہ مصطفوی چراغ کا ذکر بُلند کریں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم ..  پھر بھی رحمت نے رحمت کررکھی ہے اور ہم.دھڑلے سے نام لیتے ہیں. کچھ مجھ کو خوف نہیں آتا کہ دل میں ان کی مہک کیساتھ کسی غیر کو رکھتی. دل کے اندر غیر خیالات کے مجسمے بنے ہیں اور مجسمہ ساز بنی میری روح ہے 

وہ.تو رحمت للعالمین ہے. اپنی انگلی سے ہم سب کو تھام رکھا ہے. وہ نہیں دیکھتے کہ رنگ و نسل کی وجہ سے کوئی ممتاز ہے.  کیا آج تک کوئی ایسا لفظ ہے جو ہم نے کہہ دیا.ہو مگر رب نے نہ کہا.ہو .... رب نے محبوب صلی اللہ علیہ والہ.وسلم کی.تعریف اتنی کی ہے جتنا کوئ کر نہیں پایا. ..

وہ جہاں میں تشریف لائے تو چراغاں ہوا. زمین کی ہستی پے لا الہ الا اللہ کی تکمیل ہوئی. قلم ہوا "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ " یہ داستان رقم ہوئی کہ شہ ذی وقار رسالت مآب نیکی و خلوص کے پیکر، جمالِ خدا،  دین کی تکمیل کرنے والے خاتم مہرنبوت لیے تمام انبیاء کے امامت کرانے کو آگئے. وہ جمال جو زمین پہ ظاہر ہوا تو اس کی چمک سب زمانوں پے پڑ گئی. ہر زمانے میں نبی کا نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے.  اور وقت جسکو خدا سے تعبیر کیا جاتا ہے اس وقت کا قلم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں.  آپ آج ہمارے سامنے نہیں مگر ہم میں موجود ہیں   ..نگاہ سے اوجھل ہیں،  حجابات اگر ہٹ جائیں تو چہرہ بہ چہرہ دید ہوگی!  منظر میں منظر مل جائیں گے!  وہ ہمارے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ خیال کرو وہ تمہارے پاس ہیں. خیال کی طاقت اتنی ہے کہ وہ پاس لگیں.  خیال کی طاقت نور ہے اور ہر نور کا شہ نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں. وہ خدا کے بعد ہیں مگر خدا سے متصل ہیں. وہ قران پاک کی تجسیم و پیکر وحی ہیں. وہ شمع ہدایت ہیں. وہ جبین رسالت ہیں،  وہ ذی وقار ہستم ہیں ہر دل میں ان کی شمع جلانے کو درود کافی ہے. یہ درود گویا ورود نور ہے. اور ورد جب لب دل سے ہوا تو گویا چاک دل کے زخم رفو ہوگئے  گویا جاناں کا خیال آنا اور قائم ہوجانا!  اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوگی؟

اچھا،  قران پاک میں لکھا ہے 
والقلم وما یسطرون 

خدا نے قسم کھائی قلم کی اور اہل قلم کی.  اہل قلم تو انسان ہوگیا اور قلم وہ امر ہوگیا جو منتقل ہوگیا.  یہ لکھوانے والی ذات لکھوادے تو جسکو لکھوائے، وہ نازاں ہو کہ اس سے لکھوایا جارہا ہے.  قران پاک کا اعجاز یہی ہے کہ یہ دل پر وارد ہوتا ہے اور ہر دل بنا تفریقِ مذہب اسکو پڑھے تو دل کے احساسات متلاطم،  زبان حرف چو گویم نمی دانم مگر سب جانتی ہے.  تو جس جس ذات پر یہ احسانات ہوئے وہ صاحب امر کے تعلق کیساتھ صاحب امر بن گئی. جیسا شمس صاحب نے کہا قم باذن ..  یہ قلم کی زبان تھی جس کو اہل قلم نے وارد کیا اور حق یونہی چلتا آتا ہے. دل بہ دل، نگاہ بہ نگاہ،  چہرہ بہ چہرہ!  محبوب کو کبھی اکیلے نہ جاننا گویا محبوب ہونا سعید یے اور جو منظر دکھتا ہے وہ نوید سحر ہوجاتا ہے. وہ صبح کا استعارہ بن جاتا ہے. بابا فرید بھی اہل قلم ... اس لیے چینی یا شکر کی بوریاں نمک میں تبدیل ہوگئیں. سچ بولنے والے کی زبان جھوٹ کو سچ کردیتی ہے کہ ثابت ہوگیا ہے.  

پھر اک سورت ہے قران کریم کی سورہ الفتح!  
انا فتحنا لک فتحا مبینا 

قلم والی ہستی تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں. انہی سے مل رہیں فتوحات سب کو. وہی حاکم وہی شہنشاہ

نعت

وَرَ فعنا لَکَ ذکرک 

تری بات سے ذکر سب پس دیوار ہوئے 
چلے سب قافلہ ء عشق میں سالار ہوئے 
ترا نوری ہالہ گنبدِ جسم میں معجزن 
طٰہ کی باتوں میں رنگ بو برگ و سمن 
شام کی لطافتوں کا حال، گھنیری زلف 
حسن ازلی کے نشان لاپتا کو مت پوچھ 
ردائے نور میں ادب سے سر بسجود ہوئے 
میخانہ کہاں،  ساقی کدھر؟  میخوار کون؟
یہ درز درز وا ہوئے، اندھیرے دور ہوئے 
کالی کملی والے کی شان میں لب وا ہوئے
یہ بدلی رحمت کی، یہ برکھا اور بہاراں 
مرگ نسیاں زیست کو کافی، نہ اور پوچھ

جنازہ

جنازہ! جنازہ 
میں دیکھ رہی چشم تصور میں اپنا جنازہ ... وہ جنازہ جہاں سے حق کی صدا اٹھی ہے

حق کا دھواں لہر لہر مجھے گھیرے ہُوئے ہے. میں نَہیں ہوں اپنے جنازے میں بلکہ میں جنم گاہ میں اپنی کنڈلی کا عکس ہوں  میں وہ عکس ہوں جسکو اسکی خدائی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے

لاش اٹھائے چار سپاہی -- میں نے اپنی نعش کو خود کو اُٹھایا ہے اور خود رقص میں شامل ہوں اپنے ... میں طواف میں

 فلک پر رشکِ کروبیان بنا مرا دل ہے. افلاک نے میرے جنم دھاگے مجھ پر کھول دِیے ہیں .. افلاک جمع مجھ میں ہیں اور میں واحد ہوں 


مجمع ہے اور مقدس ہستیاں جن کے سینے سے نکلتا نور آنکھ چندھیائے دیں ....

 مکھڑا سوہنا سوہنا دم بہ دم ساجن ساتھ ہے

ساجن ساتھ ہے اور سرمدی لہر ہے ... لہر میں مگن اک کَہانی ہے. کہانی کار نے مجھے لکھا ہے اک محبت سے 
اب کہ میں نے سجدہ کیا ہے .. سجدہ کسی مطہر وادی میں طاہر صورت کو ہوا ہے. میں نے ذیشان کے قدمِ مبارک پر سر رکھا ہے. اب تو خاموشی کے پہر ہیں  ابھی راوی چین لکھ رہا ہے 

آنکھ نے آنکھ کو مجسم کیا ہے

بس شہادت!  شہادت رہ گئی ہے 
شاہد لامعلوم ہے 
شہید لاپتا ہے 
مشہد سلامت 
اگربتی کی مہک سے شہادت 
صندلیں ہوائیں ... 
عنابی چادر اوڑھے مجلی 
کون ہے وہ؟
طاہر؟
ہاں طاہر ہے جس کی طہارت خود گواہی ہے 

شہادت 
طہارت 
اظہار چاہتا ہے 
خیال اظہار چاہتا ہے 
خدا یوں ظاہر ہو جاتا ہے
بندہ جانے کہیں چھپ جاتا ہے ..

یہ مقام لاپتا ہے 
یہ شہادت لامتناہی ہے ... 
بات اتنی ہے 
وہ خود پر فریقتہ ہے 
وہ خود کو چاہتا ہے 
اس چاہت میں مرجانا واجب ہے ... رسم گاہ میں رسم کی تیاری! .
سر دے دیا گیا. 
سر لے لیا گیا ...

عشق ‏اللہ ‏اللہ ‏ہونا ‏مانگتا ‏ہے ‏

عشق کچھ نہیں، یہ خُدا ہے 
عشق خُدا بن کے آیا اور محبت میں سر دے دِیا. میں نے عشق سے بھاگنا چاہا، یہ تو ایسا جال تھا، جس میں دوڑ اپنی پتنگ کٹ گئی اور سر محبوب کے قدموں میں آگرا  ... جس دن سے قدموں میں سر پڑا ہے، رقص کو نَیا آہنگ مل گیا  ... میں کٹی پتنگ ...
ہاں    
کٹی پتنگ اڑ رہی ہے!
کیسے؟ 
پتنگ کو محبوب کا خیال اڑا رہا ہے 
ہم نے محبت کی قسم نہیں کھائی مگر محبت دل کی آنکھ بن گئی ہے. دل والا، دل کا مکین کہہ رہا ہے 
کیا کہہ رہا ہے؟
کہہ رہا ہے:  خدا محبت کرتا ہے اور لازوال بندہ ہوجاتا ہے ...

تم نے سُنا نہیں .... ذات کا تماشائی خاموش ہوا 

بسمل بولا کیا سننا تھا، اے خُدا؟

وہ نگاہ کرتا ہے پہلے اور اپنی دید ہوتی ہے 

ذات کے تماشائی سے بسمل بولا 

دید اپنی کہاں ہوئی؟  دید تو تری ہے  ... میرا تو کچھ نہیں ہے ...
اچھا ...!
یہ بتا کہ تری دید سے تری پہچان سے میرا کیا کام ہوا؟ سب تو تو ہے 

ذات کا تماشائی بولا 

تو نے دوئی دیکھی اب بھی؟
جب وحدت میں ہوگا تو نہ سوچے گا یہ ... اس لیے بس اسی بات میں کھو جا ..
قل ....کہہ 
ھو اللہ احد 
ہر جگہ وحدہ لاشریک لہ ہے 
بس جب تو وحدت پائے تو عکس مرا ہی پائے

یہ مشکل بات ہے خدا 
مجھے تو اک کام آیا 
ترے نام کی مالا دیپک 
طواف کروں، ہو حج 
تو میرا،  میں تری آں 
ازل کا ساتھ نبھانا ہے

رقص تو بجلی ہے تری 
رقص میں گرفتار ہے تو 
رقص سے شرر بار ہے تو 
رقص میں تری ذات ہے 
رقص میں کل کائنات ہے 
رقص میں کل جذبات ہے 
رقص میں بس اک ذات ہے 
رقص لائی سرخ سوغات ہے 
رقص بسمل کی مناجات ہے 
رقص میں  خدا کی بات ہے 


عدم مجھ میں، عدم سے میں 
من کی لاگی نے لاگ کا جوڑا دیا 
من کی لاگی سے لاگ کم نہ ہوئی 
من میں بس رب سچے کی بات ہے 

اللہ ---- میں کون 
اللہ----- تری بسمل؟
اللہ ---- میں نے جہان میں کیا کرنا ہے؟  
اللہ ---- کیا ترا رقص؟ کیا ترا طواف؟ کیا حج؟ کیا قربانی؟
اللہ ---- پھر دیر کیسی؟ دے دیا سر،  دے دیا ... لے ہوگئی فنا ..  قربانی کی ہوگئی ابتدا ----- 
اللہ ----- تری چاہت افضل ہے!  میں نے اپنی چاہت فنا کردی 
اللہ --- میری ذات ہوگئی نذرانہ 
اللہ ----- قبول کرلے میرا نذرانہ

Friday, February 19, 2021

قلم ‏سایہ ‏اور ‏میِں ‏

وہ پس دیوار نکل گیا. وہ اک سایہ تھا جس کے پیچھے گیت بھاگ رہا تھا. وہ درد کا گیت تھا اور سایہ بھاگتے بھاگتے دیوار سے گزر گیا.  درد لامکاں و زمان سے آیا تھا. دیوار کی اس کے نزدیک حیثیت کیا تھی. وہ بھی اس کے پیچھے نکل گیا اور رقصِ بسمل شروع ہوگیا. خارج کو درون کے عمل کی خبر نہ تھی جبکہ درون تو جنگوں میں مصروف تھا. پتھر بھی تھے جو لعل و یمن جیسے تھے،  کچھ رنگ تھے جن کے سینے لہولہان تھے، کچھ پذیرائیاں تھیں اور کچھ خامہ فرسائیاں تھی، کچھ خیالات کے تلاطم تھے تو کہیں درود کی رم جھم تھی. کہیں جان و عالم یکجا دکھ رہے تھے. افلاک یہ کہاں سما رہے تھے اور تن پہ بے چینی کا دھاگہ تھا. یہ دھاگہ مرکز سے نکل کے تن من پہ استوار تھا. گوکہ اب کہیں بھی بھاگنے کا چارہ نہیں تھا. جو اس دام میں پھنس گئے وہی سہہ لیں گے جو خنجر دل کے پار چلے جاتے ہیں ....شام تھی مگر رات لگے سب کو. وصال یار کے بہانے ہجرت کے داغ دکھانے کا بہانہ بھی خوب تھا اور راز عیان ہونے کا انتظار بھی ختم.ہوا چاہتا تھا. وہ ذوالفقار جس کے ماتھے پہ سورج چمکتا یے ... 

والشمس کہیں جسے، حـــــم جس کی گفتار 
طٰـــــس جس کا جلوہ،  یسین اسکا حسن 
الم ہے مبارک جسم،  ن جس کا ہے چہرہ 
کھیعص جس کے نقش،  والیل ہے کملی 

وہ طسم کی روشنی لیے غار کے دہانے سے،  شب گفتار نے منہ پہ انگلیاں رکھتے کہا "حاش للہ " حسن تو ذوق کا بہانہ ہے. مصور نے بنا کے خود قلم توڑ دیا ... وہ نگاہیں خیرہ کریں گی جس کی نگاہ ہوگا اور نگاہ نہ ہو کہ کیا کیا نہ دیکھے جائے گا. دل بھی اک تھالی ہے جس کو کاسہ ء عشق کہیے اور بھکاری ذات اک در کے ہے وہ در شاہ دلاور کا ہے. ہم.ان کے در کے غلام ہیں اور غلام کو نام کی تسبیح کرنے کے علاوہ اور کیا کام ہوتا ہے. ذرہ ذرہ چمک اٹھتا ہے جب کوئی یسین کی تسبیح پڑھتا یے. یہ رو نمائی،  یہ قطب نمائی اور یہ خامہ فرسائی کہ شمس الضححی کی لالی لیے مرا قلم مجھ سے ہم.کلام ہے میں نے کہا کہ میں نے جو کہا ہے اسکا 
منبع کیا یے؟

قلم نے کہا جہاں سے تو آئ،  وہی ہے اسکا جہاں ہے،  وہی ناطق ہے جس کو نطق ملا ہے 

میں نے کہا مطلع اتنا روشن یے کہ لگے مطالع ہیں ستاروں کے 

اس نے کہا ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 

میں نے کہا کہ.قطب نمائی کے علاوہ تو کچھ ممکن نہیں کہ یہ اسرار روح ہیں اور ممکن نہیں جہاں سے سیر کو جانا 

قلم.نے کہا کہ "کن " کا کام.ہے اور فیکون تلک کی دیر یے،  میں کہوں گا اور ہو جائے گی ..

میں نے کہا کہ لفظ تو کہےاور یہ چاک گریبان کردیں.گے. یہ دل میں لہو کے نشان کردیں گے،  یہ دکھ کو کرب میں مبتلا کردیں.گے اور پھر کچھ نہ رہے گا ...

قلم نے کہا کہ  سیاہی بھی اک ہے،  لفظ بھی اک منبع ہے،  خیال بھی اک منبع یے. سب شاخیں ہیں اور شاخوں سے نکلتا ہے جو اسکا مرکز اک یے 

میں نے کہا کہ رکھ دیا خود کو،  سجدے میں 

حــــــــــم ..... حـــــــــم ــــــحـــــــم 

میں نے بولا معراج کب ہوگی 

اس نے کہا جب بندگی مکمل.ہوگی 

میں نے کہا شہنائی کیوں سنائی نہیں دیتی 

اس نے کہا کہ نماز مین خرابی ہے 

میں نے کہا کہ کیسے سب کو ترتیب دے کے پالو 

اس نے کہا اس خاص قلم کو پڑھ جس کو محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہ اتارا گیا ہے 
...وہی کائنات کا حسن ہیں 
اسی سے نکلا ہے باقی خاموں کا حسن ہے 
وہی بحر ہے باقی.قطرے 
وہی سورج یے باقی کرنیں 
وہی اصل آئنہ.باقی عکس 

قلم کی روشنی میں چلو اور سفر کو چلو ...

حسن ‏کی ‏نمو

ُحسن کی نُمو ہورہی ہے اور ضو سے مو مو میں روشنی کو بَہ کو . وادی ء حِرا میں ایسے مثال کو لایا گیا کہ حُسنِ بے مثال کے سامنے مثال ہیچ!  وہ عالم لامثال سے باکمال حُسن کے مالک اور ملکوتی حُسن نے اندھیرے میں جگہ جگہ ایسے مطالع روشن کیے کہ جہاں جہاں کرن وہاں وہاں سورج تھا. یہ سورج جس کے دھارے سے تمام ستارے کرنوں کی صورت بکھیر رہے تھے .. وہ کائنات ہے اتنی بڑی ہے کہ تمام کائناتوں کو سموئے ہُوئے ہے. وہ جس کے دل کو حاجی بنا دیں تو وہ صدا حج حج کہتا ہے تو حج ہوتا رہتا ہے. گویا کُن کا اختیار ملا تو  اَمر والے نے اپنے محبوب کو امر والا کردیا اور امر والے نے چلا دیا نظام کہ کہیں دل شق ہوکے پڑا رہے کہ انگشت کے اشارے سے جڑ جائے پھر، کہیں مسکراہٹ سے دل میں کھائیاں اور کھائیوں میں روشنی کے انبار ...

ح سے حج کیا جاتا ہے، میم بنا حج مکمل نہیں ہے 
جیسے لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ کے بنا مکمل نہی 
ویسے ج ان کی جنت، جس میں رہیں عشاق 
چلو حاجیو!  آؤ حج کرنے کے لیے کمر باندھ لیں 
حـــــــــم کا جلوہ عشق کے قــــاف میں ہے 
طـــــســـــم کی تابناکی سے نبوت کے استعارے مات 

رنگ نے رنگ سے مانگا اور دیا گیا رنگ.  صبــــــغــــتـــہ ا لــــلــــہ ... بہترین رنگ ہے. یہ اپنی پہچان کا رنگ ہے.  اپنے جذبات،  اپنے رنگ ہیں. عبد المـــــصــــور نے بَرش کینوس پہ ڈالے تو رنگ سات تھے مگر بکھرے انبار گویا قوس قزح ہو ....  عبد المصور نے اندر خصائل ایسے بھرے جیسے خصائل مجموعہ ہائے خوش خصال مثال باکمال میں بھر دیے 

آؤ،  پہچان لو رنگ اپنے!  
محبوب کے آئنے سے جو رنگ ملے 
وہی رنگ ترا کہ خود کا رنگ نہیں 
چنر رنگی جائے تو رنگ پکا ہوتا 
یہ دھاگہ جب جڑ جائے تو 
کٹھ پتھلی سے "جاعل " کا فرق واضح 
بس بین بین یے 
بس تو عبد ہے 
بس میں معبود ہوں 
یہی سلاسل ہائے رنگ منعکس ہوتے چہار سو بکھرے ہیں ....

وہ انبیاء کرام جن کو معراج اقتداء میں ملی تو ہم بھی مقتدی ہیں. ہم نے جب تک نماز نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے نہ پڑی تو اقتدا کی سمجھ نہیں آنی.  نماز پیروی ء اخلاق خلقِ عظیم کو مدوامت عمل سے اپنانا ہے ورنہ نماز میں خرابی ہے.اک توحید، دوجی نماز اور مل گیا وہ حسن مکمل، وہ نور جسم کہ بنا ایسی شخصیت کے کوئ محفل، محفل نہیں. کوئی تاجور تاجور نہیں ہے

.

رگِ ‏دل

رگ دل سے رگ باطل تک اک سماں بنتا ہے 

لا الہ سے الا اللہ 
اللہ سے ھو کا 
ھو سے واؤ کے چشمے کا 
واؤ سے ح تلک بھی سفر ہے 

منظر سارے حسین کے ہیں 
منظر میں حسین ہیں(رضی تعالی عنہ)
نوید آگہی میں وجدان کی تڑپ ہے 
وہ وہ کہتے کہتے میں میں ہوجاتی ہے 
میں تو مرجاتی ہے، یہ میں کونسی ہے؟
بس اللہ اللہ ہوتا ہے


اُس نے کہا رک جا 
میں نے کہا بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں 
اس نے کہا دیکھنے کو تاب ہے 
میں نے کہا احساس پاس نہیں ہے 
اس نے کہا خیال میں کون ہے 
میں نے کہا کہ خیال ہے ہی نہیں 
اس نے کہا کہ یہ تو ویرانہ ہے 
میں نے کہا نہیں ترا کاشانہ ہے 
اس نے کہا کہ شام محفل ہے 
میں نے کہا کہ  شمع کا رخ کدھر یے 
اس نے کہا فثم وجہ اللہ 
میں نے کہا مغرب میں مشرق کو اور مشرق میں مغرب کا امتیاز کیسے؟
اس نے کہا اضداد پہچان کا سفر ہے 
میں نے کہا سکھا دے جو کہ نہیں جانتا یہ دل 
اس نے کہا کہ راہی خود جاننے لگ جاتا ہے 
میں نے کہا کہ جذب آہنگ سے نواز دے

Thursday, February 18, 2021

الا ‏بذکر ‏اللہ ‏تطمئن ‏القلوب ‏

وہ ذات کا نایاب شخص 
وہ کام کا نایاب شخص 
جب پہلی بار مِلا اور میں نے مان لیا ... اقربیت کو جان لیا ... اس نے کَہا شہ رگ سے قریب ہے تو وہ رگِ جان سے قریب ہوگیا اور خدا نے مجھ سے بات کی 
میں نے پوچھا دل کی بتی کا تیل مبارک بہت،  میں کون ہوِں تو اس نے کہا کہ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں  مجھے رام کہانی سمجھ آگئی کہ رام نیا میں رام رام کرنے سے کچھ نہیں بنتا....  جس طرح اس نے  ہمیں اپنی سوچ و خیال سے الوہی لہر میں مجسم کیا  اسطرح مجھے بھی اسکو مجسم کرنا تھا. مجھے بھی اسی شوق سے اسکو بنانا تھا جس شوق سے اس نے بنایا تھا مجھے  ... مجھے بھی وُہی محبت لوٹانی تھی جو محبت اُس نے عطا کی ...

محبت نے مانگ لیا مجھے 
محبت نے چُن لیا مجھے 
محبت اکثیر شفاوات ہے 
محبت نفیِ حاجــات ہــے

جھروکوں سے جھانک لیا ہے 
دیپ جل رہے ہیں 
راگ بھی ہے اور ساز ہے.
میں ساز ہوں، میں نے ساز کو تھاما ہے. میں وہ رگِ تار ہوں جہاں میرا ہاتھ میری رگ پر ہے. میں جیسے اپنے تار ہلاتی ہوں تو آواز آتی ہے 

عشق آسمانی صحیفہ ہے، پاک دلوں پر اترتا ہے 

اقربیت میری گھٹی میں یوں ہے کہ وہ مجھ سے جدا نہ تھا کبھی ہے. نہ ہوگا مگر مجھے اسکا احساس کسی اللہ والے سے ہوا. اللہ والے کو جب دیکھا تب سے یہ تار سر بکھیر رہا ہے. اس کے دھیمے سروں میں جو درد ہے وہ بچھڑن لمحے بعد وصلت کی خوشی کا سنگم ہے. یہ روون کھیڈ ہے


چلو دیپک بازی ہے 
چلو کیفِ آزادی ہے 
اڑان!
Flight 
The bird has been immersed deep in Holy wine! Shower!
Aye! Ye Shower 

The Green dome 
The power house of light 
Thy courtyard is waving the sweet melodies 

الا بذکر اللہ تطمئن القلوب

یارمن ‏کون ‏ہوتا ‏ہے

یار ِ من کون ہوتا ہے 
کیا وہ ہوتا تھا 
کیا وہ نہیں ہوگا 
کیا نہیں ہے 
وہ تو کسی کرسی پر فائز ہے 
یہ رمز بڑی شناسا ہے 
ایسا یارِ من تو نےکیا کیا ؟
آنکھ دے دی کیا  دل کو؟ 
دید خدا کی ہوتی ہے؟
اچھا ہوتی ہوگی 
جب جب دل میں جھانکا جائے  تو ہوجاتی ہوگی 
آنکھ والے بینائی جانیں گے 
نابینا کیسے دیکھے گا؟
اچھا ... 
پہلی دفعہ مری روح نے یار من  کو دیکھا کہاں تھا؟
میں مکان میں  تھی اور مجسم تھی تصویر جس سے لرزاں تھا رواں رواں 
وہ کون تھا؟
میں نے سوچا کہ بندہ کیسے پلک جھپکتے نقل مکانی کرسکتا ہے 
ہمزاد روح کا ہوتا ہے کیا؟
ہاں .... 
روح کا ہمزاد اللہ نے رکھا ہے 
کیسے؟  کیسے؟ کیوں؟
اللہ اللہ اللہ 
اللہ ہی جانے 
میں کیا جانوں 
میں نہ جانوں کچھ 
جانوں تو دل کو آنکھ بس مانوں 
میں نے جہانوں کی سیر کی مگر جہانوں کو آنکھ کی بند مٹھی میں دیکھا ... جہان دل کی آنکھ سے ...
ہاں.  .وہ آنکھ والا 
دامن دل میں نقشِ دلاویز لگا گیا 
نقش پرمنقش اختیار کی کرسی 
اس کرسی پر الحی القیوم لکھا ہے 
کسی کو حیات دوامی ملے تو ہم کیا کریں 
کسی کو  یادِ سبحانی ملے تو ہم کیا کریں 
ہم قدم بہ قدم رقص کریں گے 
دل بہ دل،
دل!
ہاں دل میں ... دل میں اک حاجی رہتا ہے 
کہتا ہے:  کعبہ کے غلاف نیلا ہے کالا نہیں ہے 
جبکہ میں کہتی ہوں نہ نیلا ہے نہ کالا 
یہ تو بے حجاب شفافی ہے 
یہاں تو نور ازل کا بے حجاب نور ہے 
میں نے حاجی سے کہا ہے کہ تجھ کو نیلے سے کیا دل ہے؟
دل والا کہنے لگا 
کہ ہاں ہاں ہاں 
رمز یہ ہے کہ 
کمان پر تیر رہنا چاہیے 
ورنہ معراج نہیں ہوتی 
دنیا بنائی ہے کمان و تیر کے لیے 
کمان والا تیر جہاں جانے پھینکے اور ترکش بے میں یاد کے کتنے تیر 
یہ تیر.وہ تیر
بسمل کا رقص 
تیر بہ تیر... رقصِ آہن 
سنگ میں رنگ دیکھا 
کس کا؟
یار کا؟
اچھا یہ لکا چھپی ہو رہی ہے 
ہاں یہ کھیل ازل سے چلا آیا ہے
بس یہ پردہ تھا جو ہٹ گیا 
دل کے من مندر میں کون ہے؟
یہ کمان پر تیر کس کا ہے؟
یار برآمد .... 
کہاں سے؟  
کشش کے تیر نیناں دے لے گئے سارا جل 
مچھ جائے کتھے؟  ہوئی او بے جل 

پانی والا،  کشش والا 
نور والا ..  
اے لازوال ازل کی روشنی ...  اوج ابد کی جانب لے چل ...دل کی کمان پر نقش ہے ...نقش میں راز ہے. یہ راز کیا ہے نمانے نہ جانیں  جو جانیں وہ کہہ ڈالیں "میں نہ جانوں، تو ہی جانے سب کچھ ....

من میں چھپ کے صدا لگائی کس نے؟
من میں چھپ کے کس نے کہا "میرے ہوتے تجھے ڈر کیسا " 
کیوں ایسا ہوتا ہے کہ عشق پر اختیار نہیں رہتا؟  عشق تو نکل جاتا ہے ایسے جسم سے جیسے دھاگا کسی پتنگ کا ٹوٹ جائے 

میری آوارہ روح! تو ٹھہر جا 
ٹھہر جا!
یار نے بلایا ہے. 
یار من دل کے سیپ دیکھ لیے،  دکھا دیے 
اب بتا کریں کیا 
چل کہ وجدانی لہر ہے 
چل کہ نورانی لہر ہے 
چل کہ وہ بات کریں جس میں آئنہ تمثال گر کی تمثیل ہو

میں نے اپنے دل میں مثال دیکھی تو کیا تھی یہ؟
یہ تو موجہ دل میں بحر جذبات سے نکلا عشق کا عین 
عین ہے!  شین کہاں ہے؟  قاف کہاں ہے؟  
جب عشق عین و لا ہو جائے تو ہم کریں گے کیا؟
نہ جا، نہ جی!  ہم تو کچھ نہ کریں گے
ہم.تو سجدہ کریں گے 
یار من سجدہ!  
سجدہ ہوا سجدہ یار کو 
قبلہ سج گیا دل کا 
دل کے قبلے پر یار من لکھا ہے 
یار من نے جلوہ کرلیا ہے 
حقیقت!  یہ ہے حقیقت!  حقیقت کی جانب چلو!  دل کو تو طوعا کرھا چلنا ہے 
دل کو رسہ کشی ہے کہ عشق تو نری بربادی ہے!  عشق کرواہٹ ہے مگر حلاوت ہے. یہ حلاوت ہے مگر کڑواہٹ ہے. یہ نہ ہونا ہے مگر ہونا ہے. یہ ہونے میں نہ ہونا ہے. ہم کو کشش کے تیر لے گئے جانے کس جانب

اب سچ پوچھیں تو بات یہ ہے کہ عین ہے!  عین تو ابتدائے دید ہے!  جا بجا تو ہے مگر کہاں کہاں نہیں ہے تو. دل نے کہاں کہاں نہ ڈھونڈا تجھے مگر ملا کہاں؟ ہاں!  مل گیا!  کیا گمشدہ تھا؟ نہیں بس لکا چھپی کا کھیل تھا.
اب وہ بے حجاب ہے 
اب وہ شفافیت سے بھرپور ہے 
اب نور سے پرنور آنکھ دل میں ہے 
وہ نور جس نے دید دی وہ تو ازل سے ابد تک قدامت کا حسن لیے ہے. ارے حسینو!  سنو کہ حسن والے جذب کرتے ہیِں.    جذب تو وہ پہلے سے ہوتے ہیں اس لیے تو حسین ہوتے ہیں. اس لیے خدا نے کہا ہے کہ قدیم نور سے آزاد روح کا خمیر ہے. 
اے نائب روح ...چل جانب سفر... وہ سفر کیا ہے جس میں یار دم ہماہمی میں نگاہ کیے ہے. اندر ٹھہریں؟ باہر چلیں؟
یہ چکر پے چکر ہیں 
یہ تو رقص پے رقص ہے 
سمجھ نہ آئے تو بھی چلو 
سمجھ بھی آئے تو چلو 
ہم نہیں جانتے کہ یار نے کیوں بلایا ہے 
وہ تو فاصلے کا قائل نہیں ہے پھر یہ بلاوا کیسا؟
یہ صدا کیسی؟  
یہ پکار کیسی 
میں نے مناجات کیں 
ہاں مناجات کیں 
طوٍاف میں روح اور مرکز آنکھ ہے 
دل کا کعبہ اک آنکھ ہے 
اس چشم کا کیا کہنا جس نے دل کو نمی دی. اس چشم مقدس کو سلام جس نے دل کو دل بنایا 
اے ہادی تجھ کو سلام!
اے سلام والی عالی ہستی تری سرداری پر بارہا سلام

قسم شب تار کی 
قسم نازنینوں کی 
قسم ان حسن والی ہستیوں کی ...
میں حسن پرست ہوں 
مجھے حسن نے فنا کردیا ہے 
حُسن بھی کسی الوہی جامے میں آیا تھا مجسم 
مجسم! مجسم! مجسم ... 
وہ  یار کیسا جو نام نہ لوں تو آئے نا 
میں عبد کیسا کہ اس نے کن کہا، فیــــکون نہ ہو    
فـــیکون کی تحریر انسان ہے 
انسان جانتا نہیِ ہے وہ تحریر نتیجے پر پڑھتا ہے مگر پڑھنا امر سے پہلے ہوتا ہے اور کن سے فیکون تک سجدہ کرنا ہوتا ہے پھر کہیں جا کے تسبیح ہو پاتی ہے اللہ کی

اللہ کی تسبیح کرنا آسان ہے!  آسان ہے اس لیے چاند و اشجار تسبیح بیان کرتے ہیں. یہ پوری کائنات مجذوب ہے اس لیے کن کی مجذوب ہے اور فیکون جاری ہے. شجر نے قیام کی تسبیح پرھی ہے جبکہ زمین نے سجدے کی تسبیح پڑھی ہے جبکہ پہاڑ تشہد پر قائم ہے .. پوری کائنات مل کے نماز قائم کیے ہوئے اور انسان نے نماز کو اتنا آسان جان لیا ہے

نماز آسان ہوتی ہے تو یار کی تسبیح میں دل جذب ہوجاتے اور فنائیت سے دار بقا کوچ کر جاتے ہیں  ... نماز قائم کرنے آیا ہے 
کون آیا ہے؟  
یار من خود آیا ہے 
نماز سکھارہا ہے 
نماز سیکھی نہیں ہے اورعبادت کا ہنر کیسے سیکھیں گے ہم. ہم تو نہ سیکھیں گے وہ سکھائے گا جس نے نفخ سے جدا کیا  ہاِں کیوں جدا کیا؟
پہلے خود جدا کیا 
پھر خود کہا نماز پڑھ 
پہلے کہا جا آزاد ہے تو 
پھر کہا آ، محبت نبھا 
یہ ان دیکھا محبت کا قفس ہے ... 
قفس کی تیلیاں سرخ  ہیں 
سرخی دکھائی دی 
یہ توحید ہے 
وحدت کا رنگ ہے 
واحد سنگ ہے 
دوئی کہیں نہیں سب وہ ہے 
دوئی جھوٹی ہے ہم تو روز کن سے ابد تک ساتھ ہیں 
روز کن اس نے اپنی محبت کی سند ہمیں دے دی تھی اب تو گیت گایا جارہا ہے. گیت ہے!
ہاں گیت ہے 
کیسا گیت؟
پیار کا گیت 
سُر کیسا ہے؟
الوہی سا 
خمار ہے؟  
تھوڑا سا ... 
پی لی ہے یا پلا دی گئی ہے ... 
ہم کیا جانیں کہ پی ہے یا پلا دی گئی ہے


لوح قلم پر یہی تحریر ہے کہ آزاد روح پر اس کا نام ثبت ہے. وہ ذات سے عین کی بات ہے یا عین سے ذات ہو ... اس نے لکھ رکھا ہے کہ جسم تو قفس ہے جبکہ روح پھرتی رہتی ہے اور جہان کی سیر میں پالیتی ہے دید کو  یہ بھی اسکی پکار ہے جس پر دل نے سجدہ کیا ہے  سجدہ اچھا ہے  تسلیم اچھی ہے  اچھی بات ہے کہ میں نہیں ہوں وہ ہے .  وہ ہے تو میں ہوِ مگر میں ہوں کہاں  نہیں تم نہیں جانتے کہ جانِ تمنا کو اک جان کافی ہے  ہر جگہ میں ہوں  تو نہیں کوئی .میں نے کہا تھا اور ہوا ہے. میں نے ازل سے جو لکھا ہے وہ پورا ہے. یہ سرخ چادر اک تحفہ ہوتا ہے جس کو دے دیا جاتا ہے  چلو توحیدی مے خانے میں کہ اجازت ہے 
اذن حاضری کو بلایا ہے 
اذن حاضری کو جانے کس کا رنگ لگایا ہے 
یہ پی کا رنگ ہے. 
مورا رنگ .... .دیکھو یہ رنگ 
کس کو نہ دکھے گا کہ اپنی دید سے ہوتا ہے رنگ عیاں اور دیکھا جاتا ہے کہ کون ہے دل میں نہاں  دل کے نہاں خانوں میں کون بسا ہے 
آ ... آ... آ... یہ دھمال ہے 
آ... آ... ... آ یہ اک جال ہے 
آ... آ... آ.. دام موج میں پھنس جا 
آ... آ... آ.... رنگ رنگ میں ذات کو دیکھا 
ھو الحی ھو القیوم 
ستار بجنے لگا 
ساز کی صدا سنو 
سنی؟  سنو!  
سنو اور دم سادھ کے سنو 
خدا نے سرگوشی کی ہے کہ میں نے فریاد سننے میں لمحہ بھر دیر نہ کی. بسمل کی فریاد وہ کیوں نہ سنے گا. اس نے درد دیا اس لیے تھا کہ اس کے پاس جانا تھا  اس کو درد دے کے پیار آیا تھا ...وہ جس ناز و پیار سے مجھے دیکھ رہا تھا مجھے خود پر پیار آگیا تھا ...بس یہی تو دید تھی جو میں نے بوقت کن عہد الست کو پائی. وہ محبت کی نظر اور میرا مست ہوجانا. اس نے مست الست جام سے میخانہ بنا کے پوچھا تھا کہ بتا کمی ہے 
کہا تھا بے حدو بے حساب دے 
اتنا دے کہ بے شمار ہو ... 
لامحدود ہے تو تو اپنے جیسے دے 
اس نے دے دیا اپنا آپ اور پیمانہ بنایا ایسا کہ پیمانہ بھرتا نہیں ...پتا کب بھرے گا 
جب الف ہوگی 
جب الف ہوگی تب انسان کلمہ ہوگا 
کلمہ جائے گا محفل حضوری میں


ہاں!  حضور یار میں رہتے تھے دیوانے اور دیوانہ کیا جانے کہ دنیا کیا شے ہے وہ دیکھتا ہے کہ کلمہ ہوا نہیں  
اے دل!
ہاں؟
کلمہ ہوجا. 
کیسے؟
کلمہ فنائیت کی کہانی ہے 
یہ جذب میرے حروف میں داستانی ہے 
یار من .... 
تم نے جدائی کا درد دیا ...بتاؤ کیوِ دیا؟
کیسا بدلہ تھا یہ 
پہلے خود سے خود جدا کیا اور وچھوڑے کا درد مجھے دے کے کسی روپ میں نمودار ہوگیا اور نمودار ہو کے دل میرا لے لیا. اب دل دھڑکے تو تجھے دیکھے. یہ کیا کیا؟  اچھا اچھا.   تم صلہ مانگتے ہو ...؟ مانگتے ہو؟
نہیں دل کو دل چاہیے صلہ تو اجر والے مانگتے. ہم تو جان نذرانے میں دیتے ہیں سر ہتھیلی میں لیے پھرتے ہیں ..پھر جب نذرانہ قبول ہوتا ہے تو بندہ الف ہو جاتا ہے
اے دل 
ہاں ...
الف ہو جا ... 
الف کی قسم ..ہم تو الف کو جانیں گے ہم تو الف کو مانیں گے. پوری دنیا میں الف کا رنگ ہے مگر دیکھے کون؟

ہاں دیکھے کون؟  الف سے میم کی کہانی ہے ..   میم تک جانے کے لیے الف ہونا لازم ہے. لازم ہے یہ دو رنگ ہم دیکھیں گے اور کلمہ ہوگا مکمل ...احسن التقویم کی نشانیاں دل میں ہیں .. وہ تلاوت کررہا ہے مجھ میں کہتا ہے. سنقرئک فلا تنسی 

والتین ..  الہام کا شجر ہے جو مجھ میں ہے اور زیتون کا بابرکت تیل مجھ جلا رہا ہے اور دل کبھی طور تو کبھی شہر مکہ.ہوا جاتا ہے. یہ نشانیاں مجھ میں جل رہی ہیں اور اسفل سافلین سے احسن التقویم کا سفر جاری ہے. اس نے اپنا نور مکمل کرنا ہے کہ نور تو وہ مکمل کرتا ہے اور بندہ بس سجدہ کرتا ہے اور دل ایسے مجلی ہوجاتا ہے جیسے کسی بلب کا روشن ہو جانا

سلام اس ہادی مرسل کو جس کی وساطت سے دل کی بتی روشن ہے. سلام اس مثال یسین کو جس کی وجہ سے دید کی بات چلی ہے. سلام اس دل حزین کو جس نے سفل سے احسن التقویم کی جانب جانے کا عندیہ دیا ہے. مقرب ہوا چاہتا ہے کون. اللہ جانے اللہ جانے اللہ جانے

Wednesday, February 17, 2021

دید

چہرہ سامنے ہو تو جلوہ ہوتا ہے اور چہرہ کیسے ہو سامنے؟ اللہ نے سورہ البقر میں فرمایا فثمہ وجہ اللہ .. جس جانب منہ کرو، اللہ کا چہرہ ہے...

قران پاک میں ہی ہے لیس کمثلہ شئی

جس کی مثال نہیں ہے اسکا چہرہ؟
پھر فرماتا ہے اللہ نور السماوات والارض ... اس کی مثال اک طاق کی سی ہے ....
یہاں بھی اس نے مشابہت دی ہے طاق سے،سلطان باھو فرماتے ہیں کہ الف--- اللہ -- چنبے دی بوٹی...


یہاں بھی وہ مثال دے رہے ہیں...
مثال سامنے ہو تو بندہ بے مثال کے روبرو ہو سکتا ہے  جس کے پاس مثال نہ ہو وہ کیا کرے گا

مثال سامنے ہوگی تو دید ہوگی خود کی اور خود کی دید سے جا بجا اس کی دید ہوگی..یہ ہے عرفان کا وہ نقطہ ہے کہ خدا کی دید کیسے ہو. یہ کسی نے پوچھا تھا...صفات عالیہ اپنانے سے ذات کی قربت مل جاتی کہ ذات معاون ہوتی ہے صفات کی ترویج میں...کسی کو صفات میں تو کسی کو عین ذات ملتا ہے

یہ ضرور ہے کہ انسان کو اللہ کی تلاش کسی اللہ والے کے پاس لیجاتی ہے کیونکہ اللہ والا ان صفات سے بھرپور ہوتا ہے. اس کے پاس توحید کا وہ راز ہوتا ہے جس کو بتا کے لیا جا نہیں سکتا ہے...

دید کے طالب کیا کر سکتا ہے؟ وہ وہ اوصاف اپنا لے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں. وہ دینا شروع کردے ..یعنی کہ اک ہے بات کہ  آسانی دو.  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسانی دیتے ہیں یعنی فائدہ دیتے ... اب دیکھنا یہ ہے وہ فائدہ میں ذات کو ترجیح دیتے تھے یا نہیں...
ذات کو ترجیح نہیں دیتے تھے قربانی دیتے ..اب فقط اک وصف اپنا لینے سے ایسے ایسے راز باطن عیاں کر دیتا ہے...میں کچھ نہیں --- یہ کرنا آسان ہے --- کلمہ ہوجانا آسان کہاں....

آسان ہے تو اسکی قرأت اس لیے ہم اس کی قراأت کرتے ہیں اور من کا جوار بھاٹا ہمیں سکون دیتا نہیں ہم تاریخ تک اسکو محدود کرتے ہیں...

جب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

یہ آج کے زمانے کے ہر انسان کے لیے ہے تو قران پاک بھی آج کے ہر مسلمان کے لیے ہے...
یہ مقامات ہیں یہ درجہ بہ درجہ اترتا ہے اللہ فرماتا ہے تم ضرور اک حال سے دوسرے حال تک بتدریج پہنچو گے...یہ حال بھی بتدریج ہے یہ اک لمحہ میں کچھ نہیں ہوتا ہے جو ہوتا ہے وہ دھیرے دھیرے ہوتا ہے پھر غار کا اندھیرا روشنی میں ڈھلتا ہے...

یہ بہت اہم نقطہ ہے کہ جاننے کے لیے اور جاننے والے ہیں اسکو پہچاننے والے...جاننے والے، نہ جاننے والوں کے برابر نہیں اور جاننے والے پہچان والوں کے برابر نہیں...جان لیا. تجھ تک پہنچ گیا. اب پہنچی ہوئ شے کو اپنایا تو پہچان ہوگئ....یہ سارا سفر ہے جس میں دید ہوجاتی ہے اللہ کی

Tuesday, February 16, 2021

اللہ

اللہ میرا ہے، یہ بات وہم سے بالا تر ہے. اس کے پاس رہتی ہوں یہ بھی شک سے دور بات ہے.  یہ فجر کا وقت جب سیاہی دور ہوتی ہے جب مرغ بانگ دیتے ہیں تو کچھ ستارے مرے دامن میں گرنے لگتے ہیں ان کو یہ علم نہیں ہے کہ مری ذات تو خود اک ستارہ ہے. میں خود اک قطب ہوں. صمدانیت کی حدوں میں رہنے والی نور. جس کے پاس اسکی دلاویز مسکراہٹ کا عکس ہے اور رحم بھری نگاہ جس نے میرا دل چیر دیا ہے

توشہ ء رحمت اٹھائے کھڑی ہوں،  میرے دل میں کبریاء جاناں کی مہک ہے. میرے دِل میں ہادی کی تَجلی ہے ...آج میں ذرا دور بیٹھی باران رحمت کو بنٹتا دیکھ رہی ہوں جیسا کہ یہ کائنات سجائی گئی میرے لیے ہے

اللہ کی ذات کا سفر مجاز سے شروع ہوتا ہے جس نے اللہ کی ذات تلک رسائی کا مجاز بن کہا،  اس نے کیا پایا؟  اللہ لفظ نہیں ہے. ذات تک پہنچنے کے لیے کسی اک ذات میں فنا ہونا ہوتا ہے. لا الہ الا اللہ کا کلمہ پڑھنا زبان سے ہوتا ہے مگر فنائیت میں اقرار ہوتا ہے. جب اللہ کہا تو اللہ سامنے مجسم ہوا ہے. یہ خیال صورت بہرحال مجاز راستہ ہے. جب اللہ کا تصور تن من میں محبت کا نغمہ چھیڑ دے تو بس اک دفعہ اللہ کہنے سے سرر کا وہ خمار طاری آتا ہے کہ لگتا ہے اللہ سانس میں دھڑکتا ہے. پھر یہ  بات جب آگے بڑھتی ہے تو کائنات کی دوئی یکتائی میں بدل جاتی ہے. یکتا کیا جانے گا؟ وہ تو خود عین ذات ہوگیا. یہ نقطہ اول سے نقطہ آخر تلک کا سفر ہے. محبت میں دوئی نہیں ہوتی  تضاد چلاجاتا ہے

Monday, February 15, 2021

میں ‏خدا ‏کے ‏ساتھ ‏ہوں ‏

درود سے سوا کیا چاہیے دل کو؟  درود سے لبریز پیالہ برتن میں انڈیلا جاتا ہے. یہ سیاہی کہاں سے آئی ہے؟  یہ سیاہی دینے والا مولا سائیں ہے. اس نے مجھے خود سے متصل کرلیا ہے. اب ہم ایک ہیں اور کوئی حد فاصل نَہیں ہے  . مجسم نور میں اس کے عرش کے پاس بیٹھی ہوں اور وہ مجھ سے کہنا چاہتا ہے کہ انعام چاہیے؟ میں کہتی ہوں تو ساتھ ہے تو کیا چاہیے. پوچھتا ہے تو کس چیز کی طلب گار ہے تو؟ میں کہتی ہوں کہ جلوہ دائم مصطفوی نور کا میرے لیے کردے. آج سے میں نے بے نیازی کا لباس عطا کردیا ہے. میں نے جان لیا ہے میرا یار مجھ پر حکم ہے  اس نے مجھ پر حاکم.ہونا ہے. اس لیے تو انسان نائب ہے. نائب سے پہلے کون تھا؟ کوئی تھا جس نے مجھے کون و مکان کی سیر کرائی ہے آج میں اس کی لامکانی میں گم ہوں. اس نے مجھے مکان میں قید کر رکھا ہے. مکان میں وہ ہے اور قفس کیسا. جہاں وہ ہو وہاں قفس کیا کام؟  بس طائر نے اس کے ساتھ سفر شُروع کردیا ہے. خدا اس کے ساتھ ہوگیا ہے. خدا نے اسکو تھام لیا ہے

درود

ہمیں کہنا چاہیے کہ اللہ ہمیں اپنا قرب عطا کرے..ایسا قرب جس میں دنیا نہ ہو. دنیا وہ خود دے دیتا ہے مگر پہلے اس کے لیے دنیا کون چھوڑتا ہے یہ امتحان وہ لیتا ہے...اللہ نے ہمیں یہاں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم نعت کہیں......اللہ نے ہمیں یہاں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم نعت کہیں..
:...ہمیں نعت کی توفیق کیسے ملے؟  اس کے لیے دل میں دیکھنا پڑے گا کہ دل میں اللہ ہے یا دنیا....بس درود شروع ہوجاتا ہے جب لا الہ الا اللہ ہوتا ہے....اللہ نے جب واضح کہہ دیا درود تو وہ بھیجتا ہے تو انسان نے یہ کیسے سمجھ لیا درود وہ بھیجتا ہے..انسان کو اللہ کی طرف پہلے رجوع کرنا ہوتا ہے توحید جب تک دل میں نہ ہو درود،  بس زبان سے ادا ہوتا ہے...انسان کو اللہ کی طرف پہلے رجوع کرنا ہوتا ہے توحید جب تک دل میں نہ ہو درود،  بس زبان سے ادا ہوتا ہے...زبان سے ادائیگی بھی اللہ کے کرم سے ہوتی...درود کی زبان سے عمل سے ہر طرح سے ادائگی محض اللہ کا کرم ہے...درود کی زبان سے عمل سے ہر طرح سے ادائگی محض اللہ کا کرم ہے...ضرور اس مومن کے دل میں صدا آتی ہے وہ صدا خیال بن جاتی ہے وہ صدا حضور ہوجاتی ہے.....یہ بھی اک درود ہے جب ہم بیٹھے اللہ کے پاس ہوں  اللہ محبوب کا ذکر چھیڑ دے....آپ کو لگے مہک آرہی ہے. مہک اس لیے آتی ہے کہ اللہ نے یہ ذکر کیا ہے آپ کا دل پاک ہے آپ یہ ٹو وے کمینوکیشن کا ذریعہ بنے ہوئے ہو.....اب درود درد والی زبان سے ادا ہوا ہے اور درود گریہ بن کے ٹپک پڑا ہے....جب دل گریہ کی نہر ہوجائے تو آنکھ نظارہ ہوجاتی ہے طائر کو پرواز مل جاتی ہے وہ  حضور یار میں رہنے والی آنکھ ہے  یہ کرم ہے نا کہ جن کو نعت سننے کی سعادت ہے. یہ بھی تب ہوتا ہے دل میں اللہ موجود ہوتا ہے...جب دل میں اللہ موجود ہوتا ہے تو وہ اپنا ذکر سننا پسند کرتا ہے اس کا ذکر کیا ہے؟  درود...

وظیفہ ء دل ہے درود 
صحیفہ ء دل ہے درود

قرأت سے مخمور دل 
قرأت  سے ہے طور دل

قندیلِ مصطفی ہے منور 
صندل مہک سے مہجور 
خوشبو کا جنگل ہے دل 
خوشبو نے معطر کیا دل


چلو ہم صحیفہ داؤدی اٹھا کے دیکھ لیتے ہیں  صحیفہ داؤدی کھلا ہے. اس سریانی لہجے میں تلاوت سے کھلا کہ یہ شیریں لہجہ تو مستعار لیا گیا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا، اللہ اللہ

اب وادی ء طور میں چلو تو چل کے دیکھو موسویت کی چادر تو کہیں سے لی گئی ہے. محبوبیت کی غنائی شال بھی دی گئی ہے. یہ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غنا. دے کے بے نیاز

عیسوی قندیل کی بات سنو. وہ بائبل میں رقم ہے کہ لحم مادر میں بولنے والا بچہ گویائی و سخن لے کے آیا تھا اور یہ تو دیا گیا تھا واہ واہ واہ یہ کمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم...


نواز کے خزانے لٹائے ہیں اور امتیوں کے لیے آئے تو ان کو نہ دیے ہوں گے؟...یہ تو سوچو کہ جس کا درود اللہ نے بھیجا تو واپسی میں بھی تو کچھ ملے گا؟واپس میں جو ملے گا وہ بھی خوب ہوگا. بس اللہ ہمیں یہ موقع دے کہ دل دو طرفہ ٹریفک بن جائے. جو نعت کہے دل وہی حمد کہتا ہے قران پاک میں دو باتیں ہیں. کہیں اللہ کی تعریف ہے تو کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت...سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں مگر سمجھ کے سمجھے نہ جو اس کے لیے کیا ہے؟

عقل والوں کے لیے دل کی سماعت بند،  گویائ بند،  آنکھ بند!  افسوس دل مقفل!  مقفل دل نور کی دید کیسے کرے گا؟اللہ نے فرمایا ہے قران پاک میں، جس نے میری دید یہاں نہ کی وہ وہاں بھی نہ کرے گا

عشق ‏و ‏عقل

عشق و عقل دونوں دونوں عین ہیں. خارج کے لیے عقل ہے. درون کے لیے عشق ہے. عشق وہ لو ہے جس کی آنچ نے مجھے پرنور کر رکھا ہے. اک براق ہاشمی ہے اک دہن عربی ہے اور رنگساز نے شفاف کرم رکھا ہے. بس پلک جھپکتے لاکھوں منازل عشق طے کرادے گا اور عقل نے آنکھ کھولی نہیں ہوگی. یہ کسی کو کیا پتا ہے کہ عشق خدا کرتا ہے وہ کن کرتا ہے تو خطا سے قم باذن ہوجاتا ہے. یہ خطا وہ کرواتا بھی خود ہے اور عقل والے حیلے تلاشتے ہیں عشق کو مارنے کو. عشق بیچارہ ہوتا نہیں ہے تو بس اس کی بساط ہے. کوئ پیادہ ہے تو کوئ مہاراج ہے. بس یہی فرق ہے عشق میں اور عقل میں. عقل چلنا سیکھتی نہیں ہے عشق جوانی سے بڑھاپے کی جانب لیجاتا ہے عقل لفظ سیکھتی ہے جبکہ عشق حروف سے مزین تختی ہے. آج خدا میرے پاس بیٹھا ہے اس نے یہ تختی مجھے تھما رکھی ہے میں نے یہ لوح یہ کنجیاں دیکھ کر بھی اسکو نہ چھوڑا کہ جو بات اس کے ساتھ میں ہے وہ ان میں کہاں مگر عاشق صادق ان کے بنا مکمل نہیں ہوتا ہے اس لیے اسکو سب یہ اٹھانا ہوتا ہے. امانتیں اٹھالیں جاتی ہیں اور بندہ بیچارہ عقل کے ہاتھ مفلوج


تحیر تو انسان خود ہے عشق انسان کو تحیر میں لے گیا. وہ نظارہ تھا ایسا کہ معشوق و عاشق ضم کوگئے اور تحیر باقی رہ گیا اور عشق نے رکھی جتنی ہوش، اتنی ہوش سے کہہ دیا گیا کہ عشق کی خبر یہی ہے کہ عشق باقی ہے ... ایسی بے خبری کہ عاشق و معشوق دونوں مست و بیخود ہیں اور جذبہ سلامت حکمران ہے. کون جانے اس جذبے کو جس نے جھیلا ہے وہ جانتا ہے دیوانہ یک ٹک سو دیکھے نہ دیکھے دیوانگی دیکھتی ہے. زندگی بس نظر کا دھوکا ہے اور دھوکے سے نکل آؤ تو نگاہ سے فیض لو. یہ فیض ہے جس نے ثابت کردیا ہے مجھے. اللہ نے جس کو اثبات کی جانب گامزن کردیا ہو اس سرمست کی مستی کو ہزار سلام. یہ عشق ہے جو جب بارگہ ناز و ادب میں بیٹھتا ہے تو عشق عشق نہیں رہتا ہے اس کی آنکھ  سماعت دل سب کا سب ہمہ تن گوش اتنا محو ہوتا ہے کہ یہ وہی ہوجاتا ہے کہ اس میں بچتا کیا ہے  یہ رمز ہے


تحیر تو انسان خود ہے عشق انسان کو تحیر میں لے گیا. وہ نظارہ تھا ایسا کہ معشوق و عاشق ضم کوگئے اور تحیر باقی رہ گیا اور عشق نے رکھی جتنی ہوش، اتنی ہوش سے کہہ دیا گیا کہ عشق کی خبر یہی ہے کہ عشق باقی ہے ... ایسی بے خبری کہ عاشق و معشوق دونوں مست و بیخود ہیں اور جذبہ سلامت حکمران ہے. کون جانے اس جذبے کو جس نے جھیلا ہے وہ جانتا ہے دیوانہ یک ٹک سو دیکھے نہ دیکھے دیوانگی دیکھتی ہے. زندگی بس نظر کا دھوکا ہے اور دھوکے سے نکل آؤ تو نگاہ سے فیض لو. یہ فیض ہے جس نے ثابت کردیا ہے مجھے. اللہ نے جس کو اثبات کی جانب گامزن کردیا ہو اس سرمست کی مستی کو ہزار سلام. یہ عشق ہے جو جب بارگہ ناز و ادب میں بیٹھتا ہے تو عشق عشق نہیں رہتا ہے اس کی آنکھ  سماعت دل سب کا سب ہمہ تن گوش اتنا محو ہوتا ہے کہ یہ وہی ہوجاتا ہے کہ اس میں بچتا کیا ہے  یہ رمز ہے

حسن

عشق کی داستان تو خوب داستان سنائی ہے اور مقبول بھی ہے. اس عشق کی خوشبو سونگھ لیجیے. یہ عطر عطر ہے  یہ مشک مشک ہے. یہ وہ رنگ ہے جو بے رنگ ہے  آج کے دن خدا کسی شخص نما کی طرح موجود ہے  قبلہ نما کہاں ہے یہ قندیل حق گواہ ہے کہ لاکھ گواہیاں بھی لائیں جائیں یہ رگ نوید کے سامنے ٹھہر نہ سکیں گی اور حسن جمال کے سامنے خم بہ دل ساجد ہو جائیں گی. حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں ہوگی کہ جدھر خرد کی بخیہ گری نہ ہو جنوں کی پردہ دری نہ ہو وہاں حسن مدہوش بھی کیے دے تو لکھنا والا کہ اٹھتا ہے کہ مہ رخ ہے مہ جبین ہے. اس مہ رخ کے رخ تابانی نے تجلیات کے سو در وا کر دیے ہیں. آئنے کے سامنے تن مجلی.ہوگیا ہے. یہ آئنہ اتنا مجلی ہے کہ شافی ہوگیا. اے شافی محشر... سلام سلام سلام. اے والی کون و مکان.سلام.ہے. بہار کا موسم وصلت کا.ہے.


اللہ دکھ کی اس گھڑی میں تو سائبان ہے. ہاں میں اکیلی ہوں اور تو اکیلا ہے. اس لیے اکلاپے کا درد جھیل رہی ہوں کیونکہ تو بھی جھیل رہا ہے. تو نے مجھے یکساں کیوں کردیا ہے؟ ہم میں تو یکسانیت والی کوئی بات ہے ہی نہیں. میں تو بشر ہوں اور تو امکان ہے. میں نے تجھے جب بھی چاہنا چاہا تو مجھے خود سے محبت ہوگئی. اللہ جل شانہ تو نے اپنی حکمت کے خزانے مجھ پر کھول دیے ہیں اور میں جواہر دیکھ تو رہی ہیں چاہتی تو خود جھولی وسیع کر. تو خود ڈال. تاکہ میں لینے میں پہل نہ کروں. تو جانتا ہے تری بارگہ میں اپنا سفید لباس تجھ کو ہدیہ کروں بھی تو میں پھر سفید رہتی ہوں کیونکہ تری نگاہ نے مجھے شفاف کردیا ہے. جیسے جیسے تو نگاہ بڑھاتا جارہا ہے ویسے ویسے میں ترے قریب آتی جارہی ہوں  یہاں تک تری شعاع در شعاع نے نیلا کاسنی وجود کردیا ہے. نیلگوں روشنی!  ہاں نیلگوں روشنی!  یہ وہ روشنی ہے جس سے میں نے حقیقت پائی ہے. یہ وہ حدت ہے جس میں میری حرارت کھو جاتی ہے. یہ وہ چاشنی ہے جس میں ترے لہجے سے درود کی مٹھاس ہے. مجھے ترے چہرے سے وہ الوہی مسکراہٹ دکھ رہی ہے جیسے کہ تو کبھی رحمت ہے تو کبھی اللہ. اب کے تو مجھ سے مخاطب ہوگا اور اب اہم اکیلے رہا کریں گے. دم بہ دم دھیرے دھیرے اور ہمارے مابین خاموشی کی دیواریں نہ ہوں گی. یا اللہ جو مجھے تنگ کرے تو اس کو فراخ کر. جو مجھے آسانی دے تو اسکو خوشی دے. یا اللہ جو مجھے پیار دے. تو بھی اسکو پیار کر کہ یہ میری تیری تو بات ہے

بشیر ‏و ‏نذیر

قران کریم کلام اِلہی ہے، الہیات کا مجموعہ ہے. یہ الہیات زندہ شخصیات،  زندہ اشیاء، کونین کے نظام کی تنظیم کرنے والی شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے ...

سورة البقرة, آیات: ۱۱۹

إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْـَٔلُ عَنْ أَصْحَٰبِ ٱلْجَحِيمِ

(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی

یہ نشانیاں ہیں نوید کی اور ڈر و خوف کی .. ایمان حُبِ رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بنا مکمل نہیں ہے. جب ہمیں محبت کی بشارت ملتی ہے تو دل سرشار ہوجاتے ہیں، جب ہمیں ناراضگی سے خوف آتا ہے تو ڈر کے مارے دبک جاتے ہیں ...ہمارے رسولِ محتشم پاک مجمل منور محسن صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غصہ تو کیا نہیں تھا مگر جس دل کو نوید ملی اس نے ان کو دیکھ لیا اور جس کو نہ ملی وہ بو جہل ہوگیا. نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دیدار بنا ممکن نہیں کچھ. جس دل نے نعت کہی، جس دل نے درود پڑھا، جس دل نے نمی محسوس کی ان کے نام مبارک سے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو اس نے گویا ان کو پالیا کہ وہ ہمیں دیتے ہیں،  ان کا دینا دیدار ہے جبکہ ہمارا کچھ نہیں گیا نقصان!  اس نقصان کی قسم کھاتے اللہ نے فرمایا والعصر ... اللہ نے تو جگہ جگہ محبوب کی قسم کھائی ہے .
.درود کا ذکر ہو صبح و شام،  
رہو ان کی فکر میں صبح و شام 

سورة البقرة, آیات: ۱۵۴

وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَن يُقْتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتٌۢ بَلْ أَحْيَآءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے

 شہید زندہ ہوتا.ہے اور رہے گا تاابد تو انبیاء رتبے میں کئی گنہ زیادہ. انبیاء کی مثال "احسن التقویم " کی سی ہے کہ زمانے کی اکمل و کامل مثال وہ خدا کی شہادت دیتے ہیں کہ ان کے وجود عشق الہی میں شہید ہوچکے ہوتے ہیں .. اس لیے یہ دنیا و سماوات ان زندہ قائم مثالوں سے چل رہا ہے 

تو نورِ سماوی تو نور زمانی 
نبی سارے ترے نوری نشانی 
محمد میں تیری.ہے صورت مکمل 

جب سب کچھ یہیں اس دنیا میں ہے تو الہیات کا سلسلہ جاری و ساری ہے. ... 
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل

عالمین ‏

اپنے عالمین سنبھال کے بیٹھو. عالم کی رونق اللہ تعالی ہے. تم سے نور اتنا ہوسکا کہ تم دیوانہ وار جالیوں کو چومتی رہتی. تم غارحرا کو احذر امن کی طرح دل میں مقبول ہوتا دیکھ سکتی. آج کے دن نور تم خدا کے سامنے بیٹھی ہو. خدا تم سے خود اپنا ثناء لکھوا رہا ہے. تم اک سفید لباس میں ہو جس کے روئیں روئیں سے سفید نور نکل رہا ہے. تمھارا رنگ سفید اسی وجہ سے ہے کہ ماہ احمر میں تم حسنین کریمین سے نسبت ہوگئی تھی. جب تم پیدا ہوئی تو بوقت پیدائش سب محکم اعلی نے حدیث کررکھا تھا کہ راقم چاہتا ہے اور ہوجاتا ہے  عمل اس کے کن کا محتاج ہے. کہ چاہنے سے ہوجاتا ہے  کیا انسان کے بس میں ہے کہ اس کے چاہنے سے عمل ہو جائے؟  نہیں!  نہیں!  ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ نیازمند روحیں اس کے سامنے ہر لمحہ حضور میں رہتی ہیں اور داستان بیان کرتی رہتی ہے. وہ اللہ جو بے نیاز ہے وہ ان کو اپنے اسم سے مالا کرتا ہے ذات کر دیتا ہے

اللہ جواب دیتا ہے اپنے بندوں کو ..وہ جواب دیتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ تم میرے ہو اور وہ اس کے ہوجاتے ہیں. ہمارے غموں میں پوشیدہ موتیوں کو سنبھال کے رکھو. ہمیں دیوانہ وار جالیوں کو چومنے دو  تم کو تو علم نہیں ہے مگر جان لو بابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے محبت رکھتے ہیں. وہ کہہ چکے ہیں کہ نور مجھ سے ہے. میں نے نور کو اپنی کملی میں جگہ دے رکھی ہے. یہ میرا نور ہے. نور کے لیے اس نسبت سے بڑھ کے کیا نسبت ہوتی کہ اس نسبت نے اس کو معین کردیا. وہ خدا سے باتیں کرنے لگی ہے اور  خدا سے جواب پانے لگی ہے  وہ وہ ہستی ہے جس نے نور پر نوری چادر ڈالی ہے اور کہہ دیا کہ میرے ترے درمیان کوئ تیسرا ہے؟ بندے اور اللہ کے درمیان وسیلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے.

Friday, February 12, 2021

خدا ‏پیش ‏رو ‏ہے ‏

خدا پیش رو ہے 
تم اپنی ظلمتیں چھپالو.
خود میں چھپ جاؤ. 
لمحہ لمحہ وہ گن رہا ہے 
وقت ڈھل رہا ہے 
آیت اتر رہی ہے 
ترتیل اور قرأت ہے ساتھ 
خدا پیش رو ہے ہے 
تم اپنی سسکیاں حضور کرلو 
تم اپنی باتیں اس سے کرلو 
تم اس کو دامن دل میں بھرلو  
وہ تمھاری ضرور سنے گا 
خدا پیش رو ہے 

یہ قبلہ،  یہ حادثہ 
یہ مناجات،  یہ دنیا 
کسی گھڑی اک پل کے لیے 
اسے مانگو، اس کے لیے 
وہ منتظر ہے 
اسے مانگ لو. 
وہ ہر حادثے،  ہر خبر کو جانتا ہے 
وہ دلوں کا مکین، تمھیں جانتا ہے 
وہ تمھاری وحشتوں کو قرار دے گا 
تمھیں تم سے بڑھ کے پیار دے گا.
خدا پیش رو ہے

Thursday, February 11, 2021

مدد

افلاک سے تارہ ابھرا ہے 
 کسی ماتھے پر چمکا ہے
جانے کتنی دعاؤں مابعد نتیجہ ہوا ہے. 
جسے میں نے چاہا ہے 
وہ میرا ہوا ہے 
ستارہِ سحری.
مرغ بانگ دیتے ہیں 
شمس کی سرخی رات کو غروب کرتی ہے.
وہ طلب سے بے نیاز شخص 
مناجات میں کیے جائیے زاریاں.
اسے علم تھا فتح ہونی ہے 
اسے ناز تھا کہ خدا اسکا ہے 
پھر خدا نے اسکو تھام کے یقین پر کھڑا کردیا 
کہا کہ مدد آگئی ہے 
تم یقین رکھو .... 
اس شخص کے دامن میں مامتا کی لازوال دولت ہے 
اس شخص نے تخلیق کا درد سہا ہے 
کتنی مدت کے بعد 
کتنی چاہت کے بعد 
آج وہ ستارہ بام فلک پر 
معبد وجود میں ہے ... 
آج کے دن کوئ انتشار نہیں 
وہ شخص جو مشت غبار ہے 
اسکو اپنے ہونے پر ناز ہے

فتح کا جھنڈا گاڑے 
روح کی صدا سنی؟
روحی!  الروحی! من روحی 
وجد کی آفرینی 
لحم میں سے صدا ابھری 
خدا میرا ہے 
خدا میرا ہے.
یہ یقین جس پر وہ شخص کھڑا ہے 
اس کے سجدوں کا نتیجہ ہے 
اس کی بے ریا عبادتیں 
جب وہ جھکا تھا خدا کے آگے 
کہا تھا اس نے 
سجدہ ترا ہے،  واجب کیوں نہ ہوتا 
خدا پھر واجب الوجود ہوگیا 
شاہد نے تب دی شہادت ایمان کی 
ایمان مکمل.ہوگیا 
ایمان کی گواہی تھی 
یہ کس نے کہا تھا 
تری چمک نے دل میں سماوات کو چیر دیا ہے 
یہ کبریاء جاناں کی مہک تھی.
گلاب،  عطر سے بھرپور مہک 
اس نے کہا تھا درود واجب ہے 
اس کی سانس کی صدا میں اک انہونی خوشبو تھی 
دما دم کہ دم دم میں صدائیں ہیں درود کی
ابھی موسی جلوہ گاہ سے لوٹا ہے 
ابھی اس کے پاس یدبیضائی ہالہ ہے
گاہ میں آیت یسین تو گاہ میں حم .... 
بس جب ستارہ سحری سے چمکی یہ آیات 
تو ساجد نے کردیں مناجات 
تذکرہ گلِ لحن کا چھیڑ کے پوچھا ... 
آسمان پر کوئ ہے اس جیسا 
ساجد نے کہا نہیں 
لیس کمثلہ شئی
بس مثال کامل،مثال پاک 
وہ ذات خصائل انوارات سے بھرپور 
منور ہے! منور ہے!  منور ہے!  
اس شخص کی سن لی گئی ہے 
سنی کیوں نہ جاتی؟ 
خدا کا اس سے ازل سے ساتھ ہے 
خدا اسکا تھا،  اسکا ہے اور رہے گا

لم ‏یلد ‏ولم ‏یولد

لم یلد ولـــــم یـــــولـــــد 

اکیلا تنہا خاموش 
اس سمندر کی آنکھ میں 
ٹھاٹھیں مارتی میری محبت 
 میں! کوکاں ماردی داڑ دی کونج
بچھڑن لمحے سندی ساں 
لم یلد ولم یولد 

وقتِ معلم نے سکھایا ہنر قربانی کا 
وقتِ معزم نے بتایا دائم نماز کا 
فصل لربک وانحر 
بوقت کن کی ہجرت بدلی وصلت میں 
ملا جب یار پرانا 
رانجھن یار نہ دسدا کوئی.
ڈھونڈن اس نوں چلی آں 
او کہنندا اے 
لم یلد ولم یولد 

اٹھو!
حامی ء کوئے شہر جناں 
وادی بطحا کی منادی سنو 
اک شخص کی پکار 
اک شخص نے دل سے کہا 
ہجرت میں وصلت ممکن؟
ندا آئی 
لم یلد ولم یولد

ہاں اس شخص کی بات 
جس نے کہی ایسی نعت 
نہ یہ تھی اسکی اوقات.
جس نے دیے یہ جذبات 
اس نے کہا کہ آؤ، ملو 
لم یلد ولم یولد

اک نفس کا تیر جب چلا 
اک دید کی بات بھی ہوگئی.
وہ پھر زائر ہوگیا اور دم طوف کہنے لگا 
اے خدا تو ایسے ملے گا؟
بتا تو ایسے ملے گا؟
اچھا کہا میں نے 
لم یلد ولم یولد

Tuesday, February 9, 2021

لم ‏یلد ‏ولم ‏یولد

لم یلد ولـــــم یـــــولـــــد 


اکیلا تنہا خاموش 
اس سمندر کی آنکھ میں 
ٹھاٹھیں مارتی میری محبت 
 میں! کوکاں ماردی داڑ دی کونج
بچھڑن لمحے سندی ساں 
لم یلد ولم یولد 

وقتِ معلم نے سکھایا ہنر قربانی کا 
وقتِ معزم نے بتایا دائم نماز کا 
فصل لربک وانحر 
بوقت کن کی ہجرت بدلی وصلت میں 
ملا جب یار پرانا 
رانجھن یار نہ دسدا کوئی.
ڈھونڈن اس نوں چلی آں 
او کہنندا اے 
لم یلد ولم یولد 

اٹھو!
حامی ء کوئے شہر جناں 
وادی بطحا کی منادی سنو 
اک شخص کی پکار 
اک شخص نے دل سے کہا 
ہجرت میں وصلت ممکن؟
ندا آئی 
لم یلد ولم یولد

ہاں اس شخص کی بات 
جس نے کہی ایسی نعت 
نہ یہ تھی اسکی اوقات.
جس نے دیے یہ جذبات 
اس نے کہا کہ آؤ، ملو 
لم یلد ولم یولد


اک نفس کا تیر جب چلا 
اک دید کی بات بھی ہوگئی.
وہ پھر زائر ہوگیا اور دم طوف کہنے لگا 
اے خدا تو ایسے ملے گا؟
بتا تو ایسے ملے گا؟
اچھا کہا میں نے 
لم یلد ولم یولد

Monday, February 8, 2021

اخلاص ‏پر ‏میرا ‏خیال ‏پارٹ ‏۱

سورة الإخلاص, آیات: ۱

قُلْ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ

کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے

اس کا مخاطب مری ذات ہے اور قران پاک کل مخاطب ہے!  قُل مجھے کہا 
یہ کس نے کہنا؟
روح نے کہنا نفس کو 

کہنا تو نہیں یقین کرنا ہے. یقین کرنا ہے اللہ ایک ہے.

اس کا مطلب ہوا معبود بیمشار ہیں. جیسے میں نے سوچا ہے اچھا سا گھر، گاڑی،  تعیشات،  جیولری ... مجھے عزت چاہیے، مجھے شہرت چاہیے،

نفس .. اب سمجھ آیا اصل میں نفس الہ بنا ہے 

نفس کہے گا اللہ ایک ہے 
یعنی کہ نفس کی نفی ہو جائے گی ... 
میرے لیے نفس کی نفی کرنا بہت مشکل ہے ..  قدم قدم پر نفس سامنے 

* اب مجھے اس کو کہنے کے لیے اللہ سے دوستی کرنی پڑے گی. کھانا کھاتے وقت اس سے پوچھنا پڑے گا کہ کھالوں؟  وہ اداس تو نہیں ہوگا؟  پھر وہ ساتھ بیٹھے گا 
* جب کچن میں کام کروں گی ... میں کل کھڑی اللہ سے کہہ رہی تھی مصالحہ گرائنڈ کرتے کیسے تجھے پاؤں ..دل نے کہا تو خود کی ایسی نفی کر اور افف نہ کر ... میں لرز گئی! میں نے کہا اس سے ممکن نہ ہوگا. کہنے لگا کہ محبت سب کچھ کرالیتی ہے! میں چپ ہوگئی ... 

میں نے اللہ سے کہا ابھی 
قل کی عملی قرأت تو ممکن نہیں ہے اب تو آ،  تو مجھے سے کروا قرأت

اللہ اکیلا ہے تو نفس کیوں شامل ہو خدا بنے!  اللہ نے منع کب کیا نفس کو وہ کھانا نہ کھائے یا کب کہا اچھا پہنو اؤڑھو نہیں ... اللہ نے تو مجھے کہا ہے جب اچھا کھاؤ تو اس نیت سے کھاؤ کہ اللہ کو پسند کہ میں اچھا کھاؤں،  اچھا پہنو تو اس نیت سے پہنو کہ اللہ بہت خوش ہوگا .. جب کسی کو دو تو بس کہو اللہ تو خوش ہو ...بس ہر جگہ نفس کو ساتھ نہ رکھو ..اللہ کو پاس رکھوں میں 
اب میں زندگی کے ہر معاملے میں قل کہوں 
یہ دوستی ہے 
یہ اخلاص یے 
یہ نیت ہے



سورة الإخلاص, آیات: ۲

ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ

معبود برحق جو بےنیاز ہے


میری دوستی تو ہوئ نہیں. اگر دوستی ہوئ ہوتی تو میں ہر وقت اللہ کے ساتھ ہوتی. اللہ کی محبت میں ہنستی. اللہ کی محبت میں کھیلتی،  اللہ سے باتیں کرتی کہ اللہ اب بس!  اب پیار دے!  اب لاڈ کرنا ہے.

دوستی ہو یا نہ ہو 
بندہ کرے یا نہ کرے 
وہ بے نیاز ہے 
کہتا مجھے 
ماں دیکھی اپنی 
کبھی محبت میں کمی کی؟  
تو نے کتنا ستایا ہے اسکو.
جوابا کبھی اس نے برا منایا؟
تو نے کتنی بے ادبی کی 
کبھی اس نے تجھے پاس آنے سے روکا 
تو کھانا نہ کھائے بے چین وہ 
چوٹ تجھے لگے پریشان وہ 
تو، میرا نفخ سے قرار پایا سوت ہے!  تو مجھ سے ہے!  تو میرا خیال ہے!  تو میں نے کبھی تجھے چھوڑا؟

میں نے یاد کیا 
میں نے اللہ کی بہت نافرمانی کی. اللہ سے دور ہوگئی!  اللہ کے خلاف ہوگئی مگر اللہ نے رزق نعمت رحمت وافر فراہم کی. بس اس لیے نفس الہ بنا.ہوا تھا میں محبت پا کے بے چین تھی کہ مین کیسے اسکو ریٹرن کرر رہی؟

میں محبت کا جواب نفرت میں دوں؟  .
بس پھر وقت جب اللہ سے بات ہوئی تو 
مجھے احساس ہوا اللہ نام محبت کا. میں اسکو دوں یا نہ دوں میں تجارت کروں نہ کروں ... وہ بے نیاز یے!  وہ کہتا میرے پاس کوئ تمھاری قربانی کی کھالیں پہنچتی ہیں میں تو نیت کو جانچ رہا ہوتا کہ نیت دنیا داری یے یا میری رضا!  

اک مسئلہ آتا ہے جب کوئ کہے نا اللہ محبت دے اللہ محبت دے اللہ دے نا محبت تو تو ماں جیسا ہے. ترا پیار ماں جیسا شفیق ہے. تو خود مہربان ہے ...  وہ جب خالص ہو کے اس کے پاس جاؤ وہ نیت والی قربانی مانگ لیتا 
نیت والی قربانی کیا ہوتی ہے؟
وہی ہابیل و قابیل والی 
جب اک بھائی نے دوسرے بھائ کو مار ڈالا. کیونکہ اک کو دل.پسند دنیاوی محبوب مل گیا،  دوسرا بھائی انتقام میں خود ساتھ برا کر گیا 

میں نے من سے پوچھا کہ اللہ.تو دنیا نہیں دیتا. پھر من چاہا محبوب کیوں دے ڈالا؟  

من نے کہا:  جب اللہ کے لیے خالص ہو کے جان و مال نذر کردو تو وہ بھی تمہیں تمھاری چاہت لوٹا دیتا ہے 

وہ بے نیاز ہے 
وہ خالص ہونا مانگتا ہے

سنقرئک ‏فلا ‏تنسی ‏

سورة الأعلى, آیات: ۱

سَبِّحِ ٱسْمَ رَبِّكَ ٱلْأَعْلَى

 اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو

اللہ نے کہا کہ اللہ کی شان بیان کرو. اچھا رمز کھولی شان کیسے بیان ہوتی .. 

خیال عدم سے، وجود جہاں سے. ..میرا ہونا ترے ہونے کی دلیل ہے. فلک میں رہا ہے دل کہ نوری قندیل ہے جس میں عکس ربِ جلیل ہے  شانِ رب کہنے کو عمر قلیل ہے.  ترا نام اللہ ہے اور اللہ اسمِ یقین ہے . یقین سے داخل ہوجاؤ غیب میں  ایمان بالغیب سے حاصل ہوا ہے حرف.. 



سورة الأعلى, آیات: ۶

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰٓ

ہم تمہیں پڑھا دیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے


جب اسکو یاد کیا جاتا ہے تو دل سے وہ ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے کہ وہی تو ہے چار سو.دل سے پھر قرأت ہوتی  دل کو قرأت ہو تو قران پاک کبھی نہیں بھولتا ہے  .. درحقیقت اسکی قرأت رب کراتا ہے تب جاکے کہیں آتا ہے کہ اللہ نے ہمیں محبت سے پکارا ہے  جو دل ہارے وہ پڑھے اسکو اسکو اللہ ملے گا یہیں سے  کہیں اللہ کی حمد ہے تو کہیں اللہ کی کہی نعت. اتنی محبت !  اتنا احساس!  اتنا پیار. اللہ کا نام ہے پیار اور محبت!  
اب آپ میں سے کوئ  حمد کرے دل کی بات بیان کرے تاکہ دل کی بات دل کو پہنچے

Sunday, February 7, 2021

ستارے ‏کی ‏بات

سورة الطّارق, آیات: ۱

وَٱلسَّمَآءِ وَٱلطَّارِقِ

آسمان اور رات کے وقت آنے والے کی قسم

گزشتہ سال اسکو پڑھتے پڑھتے میں ڈوب سی گئی. میرے سامنے ستارہ تھا نور محمدی کی شکل. ایسا ستارہ جس کی آب و تاب رات میں بھی نمایاں اور دن میں تو روشنی نمایاں.  مجھے لگا کہ اللہ نے پیارے محبوب کو اس ستارے سے تشبیہ دی ہے. اک انجانی سی خوشی دل میں در آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات دل میں در آئی تھی ..   اللہ نے جگہ جگہ پیارے کریم آقا کی قران پاک میں ثنا کی ہے اور اسی میں فرمایا ہے 
سورة الطّارق, آیات: ۱۳

إِنَّهُۥ لَقَوْلٌ فَصْلٌ

کہ یہ کلام (حق کو باطل سے) جدا کرنے والا ہے

ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روشن ستارہ ہیں وہ ستارہ ہر ذات میں موجود ہے 

اللہ رب العالمین 
محمد رحمت العالمین 
الھم صلی علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم 

 اللہ ہمارے دل میں ہے ہمارے دل کی کائناتوں کا مالک ہے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت ہیں جس دل میں محبت ابھرے انسانیت کے لیے درد ابھرے تو وہ یہ سب اس پاک رحمت کے وسیلے سے ابھرتا ہے دل میں سماتا ہے. یہی ذات کا روشن ستارہ ہے جس جس دل میں یہ چمک اٹھے اس دل کی تمام کائناتیں روشن. وہ خود نور سے بے پایاں منور...
اس لیے تو یہ کلام  حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل پر اترا اور حق والوں نے تب بھی بیعت کی 

تصور میں جائیں صدیوں قبل تو احساس کی چاشنی احساس دلاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تو تھے ہم. وہ ہمیں محبت سے دیکھ تو رہے تھے ان کا دل تو آنے والے نفوس کو جانتا تھا. ہم تو خود سے محجوب تھے مگر ان کے سامنے تھے  آج ہم جو درود بھیجتے ہیں آج دل ان کا نام لیتا ہے یہ اس وجہ سے ہے فقط انہوِں نے دیکھا انہوں نے ہم پر نگاہ کی. ان کی نگاہ سے یہ دل شق ہوگیا .. بس جس کو یاد آگیا وہ زمانہ اس نے کیا سجدہ 
محمد ص شمع عالم ہیں.
محمد ص سرور عالم ہیں.