وہ پس دیوار نکل گیا. وہ اک سایہ تھا جس کے پیچھے گیت بھاگ رہا تھا. وہ درد کا گیت تھا اور سایہ بھاگتے بھاگتے دیوار سے گزر گیا. درد لامکاں و زمان سے آیا تھا. دیوار کی اس کے نزدیک حیثیت کیا تھی. وہ بھی اس کے پیچھے نکل گیا اور رقصِ بسمل شروع ہوگیا. خارج کو درون کے عمل کی خبر نہ تھی جبکہ درون تو جنگوں میں مصروف تھا. پتھر بھی تھے جو لعل و یمن جیسے تھے، کچھ رنگ تھے جن کے سینے لہولہان تھے، کچھ پذیرائیاں تھیں اور کچھ خامہ فرسائیاں تھی، کچھ خیالات کے تلاطم تھے تو کہیں درود کی رم جھم تھی. کہیں جان و عالم یکجا دکھ رہے تھے. افلاک یہ کہاں سما رہے تھے اور تن پہ بے چینی کا دھاگہ تھا. یہ دھاگہ مرکز سے نکل کے تن من پہ استوار تھا. گوکہ اب کہیں بھی بھاگنے کا چارہ نہیں تھا. جو اس دام میں پھنس گئے وہی سہہ لیں گے جو خنجر دل کے پار چلے جاتے ہیں ....شام تھی مگر رات لگے سب کو. وصال یار کے بہانے ہجرت کے داغ دکھانے کا بہانہ بھی خوب تھا اور راز عیان ہونے کا انتظار بھی ختم.ہوا چاہتا تھا. وہ ذوالفقار جس کے ماتھے پہ سورج چمکتا یے ...
والشمس کہیں جسے، حـــــم جس کی گفتار
طٰـــــس جس کا جلوہ، یسین اسکا حسن
الم ہے مبارک جسم، ن جس کا ہے چہرہ
کھیعص جس کے نقش، والیل ہے کملی
وہ طسم کی روشنی لیے غار کے دہانے سے، شب گفتار نے منہ پہ انگلیاں رکھتے کہا "حاش للہ " حسن تو ذوق کا بہانہ ہے. مصور نے بنا کے خود قلم توڑ دیا ... وہ نگاہیں خیرہ کریں گی جس کی نگاہ ہوگا اور نگاہ نہ ہو کہ کیا کیا نہ دیکھے جائے گا. دل بھی اک تھالی ہے جس کو کاسہ ء عشق کہیے اور بھکاری ذات اک در کے ہے وہ در شاہ دلاور کا ہے. ہم.ان کے در کے غلام ہیں اور غلام کو نام کی تسبیح کرنے کے علاوہ اور کیا کام ہوتا ہے. ذرہ ذرہ چمک اٹھتا ہے جب کوئی یسین کی تسبیح پڑھتا یے. یہ رو نمائی، یہ قطب نمائی اور یہ خامہ فرسائی کہ شمس الضححی کی لالی لیے مرا قلم مجھ سے ہم.کلام ہے میں نے کہا کہ میں نے جو کہا ہے اسکا
منبع کیا یے؟
قلم نے کہا جہاں سے تو آئ، وہی ہے اسکا جہاں ہے، وہی ناطق ہے جس کو نطق ملا ہے
میں نے کہا مطلع اتنا روشن یے کہ لگے مطالع ہیں ستاروں کے
اس نے کہا ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
میں نے کہا کہ.قطب نمائی کے علاوہ تو کچھ ممکن نہیں کہ یہ اسرار روح ہیں اور ممکن نہیں جہاں سے سیر کو جانا
قلم.نے کہا کہ "کن " کا کام.ہے اور فیکون تلک کی دیر یے، میں کہوں گا اور ہو جائے گی ..
میں نے کہا کہ لفظ تو کہےاور یہ چاک گریبان کردیں.گے. یہ دل میں لہو کے نشان کردیں گے، یہ دکھ کو کرب میں مبتلا کردیں.گے اور پھر کچھ نہ رہے گا ...
قلم نے کہا کہ سیاہی بھی اک ہے، لفظ بھی اک منبع ہے، خیال بھی اک منبع یے. سب شاخیں ہیں اور شاخوں سے نکلتا ہے جو اسکا مرکز اک یے
میں نے کہا کہ رکھ دیا خود کو، سجدے میں
حــــــــــم ..... حـــــــــم ــــــحـــــــم
میں نے بولا معراج کب ہوگی
اس نے کہا جب بندگی مکمل.ہوگی
میں نے کہا شہنائی کیوں سنائی نہیں دیتی
اس نے کہا کہ نماز مین خرابی ہے
میں نے کہا کہ کیسے سب کو ترتیب دے کے پالو
اس نے کہا اس خاص قلم کو پڑھ جس کو محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہ اتارا گیا ہے
...وہی کائنات کا حسن ہیں
اسی سے نکلا ہے باقی خاموں کا حسن ہے
وہی بحر ہے باقی.قطرے
وہی سورج یے باقی کرنیں
وہی اصل آئنہ.باقی عکس
قلم کی روشنی میں چلو اور سفر کو چلو ...