عشق کچھ نہیں، یہ خُدا ہے
عشق خُدا بن کے آیا اور محبت میں سر دے دِیا. میں نے عشق سے بھاگنا چاہا، یہ تو ایسا جال تھا، جس میں دوڑ اپنی پتنگ کٹ گئی اور سر محبوب کے قدموں میں آگرا ... جس دن سے قدموں میں سر پڑا ہے، رقص کو نَیا آہنگ مل گیا ... میں کٹی پتنگ ...
ہاں
کٹی پتنگ اڑ رہی ہے!
کیسے؟
پتنگ کو محبوب کا خیال اڑا رہا ہے
ہم نے محبت کی قسم نہیں کھائی مگر محبت دل کی آنکھ بن گئی ہے. دل والا، دل کا مکین کہہ رہا ہے
کیا کہہ رہا ہے؟
کہہ رہا ہے: خدا محبت کرتا ہے اور لازوال بندہ ہوجاتا ہے ...
تم نے سُنا نہیں .... ذات کا تماشائی خاموش ہوا
بسمل بولا کیا سننا تھا، اے خُدا؟
وہ نگاہ کرتا ہے پہلے اور اپنی دید ہوتی ہے
ذات کے تماشائی سے بسمل بولا
دید اپنی کہاں ہوئی؟ دید تو تری ہے ... میرا تو کچھ نہیں ہے ...
اچھا ...!
یہ بتا کہ تری دید سے تری پہچان سے میرا کیا کام ہوا؟ سب تو تو ہے
ذات کا تماشائی بولا
تو نے دوئی دیکھی اب بھی؟
جب وحدت میں ہوگا تو نہ سوچے گا یہ ... اس لیے بس اسی بات میں کھو جا ..
قل ....کہہ
ھو اللہ احد
ہر جگہ وحدہ لاشریک لہ ہے
بس جب تو وحدت پائے تو عکس مرا ہی پائے
یہ مشکل بات ہے خدا
مجھے تو اک کام آیا
ترے نام کی مالا دیپک
طواف کروں، ہو حج
تو میرا، میں تری آں
ازل کا ساتھ نبھانا ہے
رقص تو بجلی ہے تری
رقص میں گرفتار ہے تو
رقص سے شرر بار ہے تو
رقص میں تری ذات ہے
رقص میں کل کائنات ہے
رقص میں کل جذبات ہے
رقص میں بس اک ذات ہے
رقص لائی سرخ سوغات ہے
رقص بسمل کی مناجات ہے
رقص میں خدا کی بات ہے
عدم مجھ میں، عدم سے میں
من کی لاگی نے لاگ کا جوڑا دیا
من کی لاگی سے لاگ کم نہ ہوئی
من میں بس رب سچے کی بات ہے
اللہ ---- میں کون
اللہ----- تری بسمل؟
اللہ ---- میں نے جہان میں کیا کرنا ہے؟
اللہ ---- کیا ترا رقص؟ کیا ترا طواف؟ کیا حج؟ کیا قربانی؟
اللہ ---- پھر دیر کیسی؟ دے دیا سر، دے دیا ... لے ہوگئی فنا .. قربانی کی ہوگئی ابتدا -----
اللہ ----- تری چاہت افضل ہے! میں نے اپنی چاہت فنا کردی
اللہ --- میری ذات ہوگئی نذرانہ
اللہ ----- قبول کرلے میرا نذرانہ