جنازہ! جنازہ
میں دیکھ رہی چشم تصور میں اپنا جنازہ ... وہ جنازہ جہاں سے حق کی صدا اٹھی ہے
حق کا دھواں لہر لہر مجھے گھیرے ہُوئے ہے. میں نَہیں ہوں اپنے جنازے میں بلکہ میں جنم گاہ میں اپنی کنڈلی کا عکس ہوں میں وہ عکس ہوں جسکو اسکی خدائی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے
لاش اٹھائے چار سپاہی -- میں نے اپنی نعش کو خود کو اُٹھایا ہے اور خود رقص میں شامل ہوں اپنے ... میں طواف میں
فلک پر رشکِ کروبیان بنا مرا دل ہے. افلاک نے میرے جنم دھاگے مجھ پر کھول دِیے ہیں .. افلاک جمع مجھ میں ہیں اور میں واحد ہوں
مجمع ہے اور مقدس ہستیاں جن کے سینے سے نکلتا نور آنکھ چندھیائے دیں ....
مکھڑا سوہنا سوہنا دم بہ دم ساجن ساتھ ہے
ساجن ساتھ ہے اور سرمدی لہر ہے ... لہر میں مگن اک کَہانی ہے. کہانی کار نے مجھے لکھا ہے اک محبت سے
اب کہ میں نے سجدہ کیا ہے .. سجدہ کسی مطہر وادی میں طاہر صورت کو ہوا ہے. میں نے ذیشان کے قدمِ مبارک پر سر رکھا ہے. اب تو خاموشی کے پہر ہیں ابھی راوی چین لکھ رہا ہے
آنکھ نے آنکھ کو مجسم کیا ہے
بس شہادت! شہادت رہ گئی ہے
شاہد لامعلوم ہے
شہید لاپتا ہے
مشہد سلامت
اگربتی کی مہک سے شہادت
صندلیں ہوائیں ...
عنابی چادر اوڑھے مجلی
کون ہے وہ؟
طاہر؟
ہاں طاہر ہے جس کی طہارت خود گواہی ہے
شہادت
طہارت
اظہار چاہتا ہے
خیال اظہار چاہتا ہے
خدا یوں ظاہر ہو جاتا ہے
بندہ جانے کہیں چھپ جاتا ہے ..
یہ مقام لاپتا ہے
یہ شہادت لامتناہی ہے ...
بات اتنی ہے
وہ خود پر فریقتہ ہے
وہ خود کو چاہتا ہے
اس چاہت میں مرجانا واجب ہے ... رسم گاہ میں رسم کی تیاری! .
سر دے دیا گیا.
سر لے لیا گیا ...