وہ ذات کا نایاب شخص
وہ کام کا نایاب شخص
جب پہلی بار مِلا اور میں نے مان لیا ... اقربیت کو جان لیا ... اس نے کَہا شہ رگ سے قریب ہے تو وہ رگِ جان سے قریب ہوگیا اور خدا نے مجھ سے بات کی
میں نے پوچھا دل کی بتی کا تیل مبارک بہت، میں کون ہوِں تو اس نے کہا کہ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں مجھے رام کہانی سمجھ آگئی کہ رام نیا میں رام رام کرنے سے کچھ نہیں بنتا.... جس طرح اس نے ہمیں اپنی سوچ و خیال سے الوہی لہر میں مجسم کیا اسطرح مجھے بھی اسکو مجسم کرنا تھا. مجھے بھی اسی شوق سے اسکو بنانا تھا جس شوق سے اس نے بنایا تھا مجھے ... مجھے بھی وُہی محبت لوٹانی تھی جو محبت اُس نے عطا کی ...
محبت نے مانگ لیا مجھے
محبت نے چُن لیا مجھے
محبت اکثیر شفاوات ہے
محبت نفیِ حاجــات ہــے
جھروکوں سے جھانک لیا ہے
دیپ جل رہے ہیں
راگ بھی ہے اور ساز ہے.
میں ساز ہوں، میں نے ساز کو تھاما ہے. میں وہ رگِ تار ہوں جہاں میرا ہاتھ میری رگ پر ہے. میں جیسے اپنے تار ہلاتی ہوں تو آواز آتی ہے
عشق آسمانی صحیفہ ہے، پاک دلوں پر اترتا ہے
اقربیت میری گھٹی میں یوں ہے کہ وہ مجھ سے جدا نہ تھا کبھی ہے. نہ ہوگا مگر مجھے اسکا احساس کسی اللہ والے سے ہوا. اللہ والے کو جب دیکھا تب سے یہ تار سر بکھیر رہا ہے. اس کے دھیمے سروں میں جو درد ہے وہ بچھڑن لمحے بعد وصلت کی خوشی کا سنگم ہے. یہ روون کھیڈ ہے
چلو دیپک بازی ہے
چلو کیفِ آزادی ہے
اڑان!
Flight
The bird has been immersed deep in Holy wine! Shower!
Aye! Ye Shower
The Green dome
The power house of light
Thy courtyard is waving the sweet melodies
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب