Tuesday, May 18, 2021
صدا اور دل دل
Friday, May 14, 2021
عید
Call, my Heart! Mount of Hira
طلسم ہوشربا
Saturday, May 1, 2021
شہبازی
Sunday, April 25, 2021
عشق رواں موج کا تبصرہ ہے
Saturday, April 24, 2021
حسن ، جذب ، خدا
Wednesday, April 14, 2021
سبب ،مسبب
ضرب اور نہر
Friday, April 9, 2021
سرخ ردا
میم سے ہست جہاں
بنانا ،مٹانا
انتخاب احد و واحد باعثِ عزت ہے
جلوہ یزد ، نارِ ابراہیمی میں عینِ حق
جلوہ نور سے سرمہِ طور ہے حق الحق
جلوہِ ہست ابن مریم سرِ درا ، علم الحق
جلوہِ رحمانی تا فرش سرِ عرش حبُِ الحق
رحمت
ملوہیت سے الوہیت کا حسن
کھیعص
سیدہ بی بی جانم
دل مرکز میں چھوڑ کے
Saturday, March 6, 2021
سفر جوں مسافر کو پرواز دیتا ہے
Friday, March 5, 2021
منظم چلو شاہراہوں
تخلیق ہو رہی ہے
نعتیہ جذبات
جمعہ کی ساعت
نور
خواب
بھٹ شاہ
سندیسے
گویائی کا مقصد
رازدان
عرفان ذات
مطاف
کملی
ترے حضور یہ کمیں ہے
قفس میں روشنی ہے ،کیا تم ہو
الف
اک رقص داستان عشق
درد کسی فلک پر ہے
Wednesday, March 3, 2021
وہ حبیبِ زمانی ہے
وہ حبییب زمانی ! اس نے کہا نور میرے ساتھ رہا کر ! میں اس کی پہلے سی تھی مگر آنکھ کی نمی بڑھا دی ! اس نے کہا نور عشق تیرا ہے ، تو مریض ہے ، تو محبوب ہے ، درد بڑھا دوں ؟ میں نے کہا کہ تو،تو ہے میں تیری ہوئی تو جیسے تو رکھے مجھے راضی ، سرجھکا کے نیزے پر چڑھا یا نفی میں گم کرتے اثبات کرااور سر کٹوا دے ! مجھے تیرے ہونے نے کمال کی بلندی عطا کردی ہے ! اس نے کہا کہ تو نے میری جستجو کیوں ختم کردی ! میں نے کہا میں نے خود کو ختم کردیا ! سب نفی ہوگیا اور کیا جستجو کروں ! اس نے کہا چل میرا طواف کر ! میں نے کہا اس سے کبھی فرصت نہیں ملی ہے ! وہ کہتا رہا کہ نور تو میری ہے اور میرے روح نے چیخ ماری ۔۔۔میرے درد میں لامتناہیت شامل کردی گئی ! ہائے ! ہائے ! کہاں جاؤں ! کس سے کہوں میں درد کی کہانی ! یہ سمجھ کسی کو آنا نہیں ! جس کو آنا ہے ،اس نے سننا نہیں ! وہ کہتا ہے میں تجھے بھگو بھگو کے ماروں یا ذرہ ذرہ نڈھال کردوں ،تجھے فرق پڑے گا !میں کہتی ہوں کہ میرے محبوب ! قسم ہے تیری ذات کی فرق پڑے گا ، میرے ہر ذرے کو نور دے دے ، اس کے لامتناہی ٹکرے کر ، اِن کو رلا رلا کے ، تپش دے دےکے مار ! ان کو دھوپ دے مگر ابر نہ دیوں مالک ! ان کا عشق بڑھائیں مالک ! میرے ہر ذرے کو عشق میں دے دے نا ! مجھے فرق نہیں پڑے گا ! میں نے تجھ سے تجھے مانگا ہے نا مالک ! دنیا والے تو دنیا مانگتے ہیں ، عشق والے تجھ سے وصل مانگتے ہیں میں نے تجھ سے ہجر مانگا ہے کیونکہ جو ہجر تیرے پاس ہے وہی لینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی سہنا ہے ! وہی لیتے لیتے، مرتے مرتے تیرے پاس آنا ہے ۔مجھے خود میں گمادے ، اپنی ولایت عطا کردے ! میں تو ،تو میں ! کیا فرق ہے مالک! تو میرا ہے میں تیری ہوں !
اندر بڑی آگ ہے سائیں !
اندر بڑی تڑپن ہے سائیں !
اندر سب نیلا ہے !
نیلاہٹ اور دے دے نا !
مجھے نیل و نیل کردے نا !
اندر روتا ہے ہر پل ،
عطائے بے حساب کردے نا !
مجھے اضطراب کی انتہا دے دے !
کھوٹ دل سے نکال دے !
دل میں اپنے سوا تو کچھ بھی نہ رکھ !
دل میں تیرے سوا کوئی بھی نہ ہو!
تیری ذات بڑی بے نیاز ہے ۔مجھ جیسی ذات کی ذلیل و کمینگی میں پھنسی کو اپنے عشق کی دولت سے نواز دیا ۔میں کیسے ے بتاؤں دنیا والوں کو ۔میں اب ذلیل نہیں ہوں ۔''تو جسے چاہے ذلت دیتا ہے ،تو جس چاہے عزت دیتا ہے '' میں ذلت و رسوائی کا تاج پہنے ہوئے مگر میرے سر پر تاجِ بے نیازی ہے ۔مجھے عشق کی خلافت کا میں بادشاہی دی گئی ہے ۔ لوگو ! تم کیا جانو ! مجھ پر کرم کی انتہا ہوگئی ہے ۔ اس نے مجھے اپنا دوست کرلیا ہے ۔ وہ جب خوش ہوتا ہے نا مجھ سے !!! میرے اندر انہونی خوشی کی لہریں پھیلا دیتا ہے اور پھر سمندر شور بھی کرے نا تو اچھا لگتا ہے ۔اس شور کی آواز میں موسیقی سنو ! یہ آواز دیتا ہے تو میں لکھتی ہوں ،یہ مجھے نغمہ دیتا ہے میں سر بناتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ ! کون جانے محبت کا درد ! کون جانے عشق کے ہجر کی لذت ! جو جان جائے اس کو درد کی شدت میں ،جلن میں ایسا مزہ ملتا ہے کہ درد ہی اس کے لیے عید ہوجاتا ہے
تو شہ یار ہے
تو ابرار ہے
تو پالنہار ہے
میں قلم تیری
تو میرا علم ہے
میں عاشق تیری
تو میرا عشق ہے
میں تجھے چاہتی ہوں
یا تو مجھے چاہتا ہے
کیہ فرق کراں مولا!
کیہڑا فرق تو جانڑاں
مجبوریاں دا ایہہ ویلا
یار دے سنگ منانا
اندر تیڈھی کائنات
وار وی تیڈھی کائنات
تو کیہڑا میرے توں دور
میں تیڈی یاد وچ مخمور
اندر کتنے غم سائیں
اندر تیرے غم سائیں
زندگی نے مجھے یار کے پاس چھوڑ دیا ۔ میں یار کے سامنے مدہوش ہوں مگر دنیا کے سامنے میرا لباس لہولہان ہے ۔ یہ عشق بیانی میرے رقص کی داستان ہے ۔اس درد کا بیان کیسے ہو ۔ میری ذات کو بسمل بنادیا ہے ۔۔۔ تڑپ رہی ہوں مگر میرے زبان اس کو پکار رہی ہے ۔۔
اے عشق ! سر جھکا ہے
اے عشق ! وہ ملا ہے
اے عشق ! رقص بسمل کر
اے عشق ! آگ پر چل لے
میٹھا درد سہانا ہے ۔ آہ نکلتی ہے نا ہائے ! بس جی چاہتا ہے میں عشق ، عشق کہوں ۔۔مجھے عشق ہوگیا ہے ۔۔۔میں اس کی ہونے چلی ہے ، اندر شادی کی کیفیت ہے ۔ میری زنجیر اس کے ہاتھ ہے ، اس نے اب زنجیر اپنی جانب کھینچ لی ہے ! وہ کھینچتا جارہا ہے اور مسرت سے دل تلخی سے بھرتا جاتا ہے ۔
عشق حلاوت میں کڑواہٹ ہے ۔
عشق کڑواہٹ میں حلاوت ہے
عشق خون ریزی کی علامت ہے
عشق ، عاشق کی جلالت ہے
رقص بسمل کر اور چل جا زمانے
لٹا دے خاک پھر پھر پاس میرے
ہم کو پاس بلاتا ہے اور پھر بھیجتا ہے ! وہ کیسا یار ہے جس کو ہم محبوب بھی ہیں ، ہمیں بلاتا ہے مگر پھر ہم کو امتحان میں واپس بھیج دیتا ہے